• الحمدللہ محدث فورم کو نئےسافٹ ویئر زین فورو 2.1.7 پر کامیابی سے منتقل کر لیا گیا ہے۔ شکایات و مسائل درج کروانے کے لئے یہاں کلک کریں۔
  • آئیے! مجلس التحقیق الاسلامی کے زیر اہتمام جاری عظیم الشان دعوتی واصلاحی ویب سائٹس کے ساتھ ماہانہ تعاون کریں اور انٹر نیٹ کے میدان میں اسلام کے عالمگیر پیغام کو عام کرنے میں محدث ٹیم کے دست وبازو بنیں ۔تفصیلات جاننے کے لئے یہاں کلک کریں۔

کیا متقدمین فقہا کا اجتہاد قیامت تک کے لیے کافی ہے؟؟؟؟؟؟؟؟؟؟؟

حافظ عمران الہی

سینئر رکن
شمولیت
اکتوبر 09، 2013
پیغامات
2,101
ری ایکشن اسکور
1,462
پوائنٹ
344
قابل غور بات یہ ہے کہ صحابہ اور تابعین کے فتاوی تو ابدی قانون زندگی نہ بن سکے مگر ان کے بعد آنے والے فقہا کے مرتب کردہ فتاوی ابدی قانون زندگی بن گئے،آخر کیسے ؟؟
لطف کی بات یہ ہے کہ یہی بات امام الحرمین عبد الملک جوینی نے اس طرح بیان کی ہے:
صحابہ کرام کے اصول عام احوال کے لیے کافی نہ تھے ،اسی لیے سائل کو عہد صحابہ میں اختیار تھا کہ وہ ایک مسئلہ میں ابو بکر اور دوسرے میں حضرت عمر کے قول کو لے لے، بر عکس ائمہ کے دور کے کہ ان کے اصول کافی تھے "
(مغیث الخلق:۱۵
علامہ کوثری نے امام الحرمین کی اس بات کی تردید کی ہے اور اسے صحابہ کرام اور تابعین کی توہین قرار دیا ہے، چناچہ وہ لکھتے ہیں :
فتصور کفایۃ اصول الائمہ بخلاف اصول الصحابۃ اخسار فی المیزان و ایفاء فی الہزیان
ائمہ کے دور کے اصول کافی ہونے اور اس کے برعکس صحابہ کے اصول نا کافی ہونے کا تصور( صحابہ اور ائمہ کی شان میں گستاخی ) سراسر نا انصافی اور مکمل طور پر بیہودہ گوئی کا ارتکاب ہے"
یہاں احناف سے میرا یہ سوال ہے کہ کیا جس تقلید کی لوگوں کو دعوت دی جاتی ہے وہ قیامت تک لیے کافی اور شافی ہے ، نئے پیش آمدہ مسائل کا حل کہاں سے ڈھونڈا جاے گا ، قرآن و حدیث سے یا کہ مروجہ فقہ سے؟؟؟
 

حافظ عمران الہی

سینئر رکن
شمولیت
اکتوبر 09، 2013
پیغامات
2,101
ری ایکشن اسکور
1,462
پوائنٹ
344
اس تھریڈ کا جواب آپ کے ذمے ہے ، یہ ایک اہم موضوع ہے یہ موضوع اپنے اندر بہت سارے سوالات کو سموے ہوے ہے،اس بارے میں علامہ کوثری نے بہت عمدہ بات لکھی ہے، اگر آپ اس بات کو سمجھ لیں تو آپ کے سات طبق روشن ہوجا ئیں ، اس کا خلاصہ جناب کے سامنے پیش کرنے کی جسارت کرتا ہوں:
"ہم جانتے ہیں کہ امام ابو حنیفہ نے بہت سے مسائل میں توقف کیا ہے ۔امام مالک نے بہت سے مسائل کے بارے میں کہا ہے کہ یہ میں نہیں جانتا ، امام مالک نے تو اتنے مسائل کے بارے میں لا ادری میں نہیں جانتا فرمایا ہے کہ بقول علامہ شاطبی اور ابن عبد البر کے اگر انہیں جمع کیا جاے تو ایک رسالہ تیار ہو سکتا ہے ( الموافقات:ج4 ، ص288
امام شافعی سے کئی مسائل میں دو قول منقول ہیں اور کئی مسائل میں انہوں نے کہا ہے کہ اگر اس بارے میں کوئی صحیح حدیث ہے تو میرا قو ل اس کے مطابق ہے ،اس لیے انسان کے لیے یہ بات کافی ہے کہ جس کے بارےمیں اسے علم نہ ہو اس کے بارے میں خاموشی اختیار کرے (احقاق الحق:ص22
لہذا جب مقلدین حضرات کو اس بات کا اعتراف ہے کہ بہت سے مسائل میں ان ائمہ مجتہدین نے توقف اختیار کیا ہے اور صاف صاف لا ادری کہہ کر ان کے بارے میں لاعلمی کا اظہار کیا ہے تو صدیوں بعد آج اس کے برعکس یہ باور کرنا کہ ان کے فتاوے ابدی قانون زندگی تھے کہا ں تک حقیقت پر مبنی ہے؟
پھر یہاں یہ سوال بھی اپنی جگہ قائم ہے کہ اصول و فروع میں ائمہ اربعہ کی آخر کتنی کتابیں ہیں ؟امام مالک کی موطا حدیث کی کتاب ہے یا فقہ کی؟ امام محمد بن حسن کی الجامع الکبیر ، الجامع الصغیر قاضی ابو یوسف کی کتاب الاموال ، اختلاف ابی حنیفہ وبن ابی لیلی کتب فقہ میں شمار ہوتی ہیں امام ابو حنیفہ کی اس سلسلے میں کتنی کتابیں ہیں ؟
امام احمد نے کون سا فقہی مجموعہ مرتب کیا ہے اور اس کا نام کیا ہے ۔ المسائل کے نام پر ان کے تلامذہ کی مرتبہ کتب فقہی سوالات پر مشتمل ہیں کیا ان مجموعہ ہاے کتب میں زندگی کے سارے مسائل آ گئے ہیں اور خود ان مجتہدین کرام نے اسے ابدی قانون سے تعبیر کیا ہے ؟اس بارے میں میں علامہ انور شاہ کاشمیری تو صاف طور پر یہ کہہ دیا ہے:
فمن زعم ان الدین کلہ فی الفقہ بحیث لا یبقی ورائہ شئی فقد حاد عن الصواب"
جو یہ خیال کرتا ہے کہ سارا دین فقہ میں ہے اس سے باہر کچھ بھی نہیں وہ راہ حق سے ہٹا ہوا ہے"
فیض الباری:ج2، ص10
کیا احناف کا یہ دعوی مبنی بر حقیقت ہے کہ احناف نے امام ابو حنیفہ کے اصول اپناے ہی؟ سوال یہ پیدا ہو ت اہے کہ امام صاحب نے کون سی اصول کی کتاب لکھی ہے جس کی احناف پیروی کرتے ہیں؟
 

حافظ عمران الہی

سینئر رکن
شمولیت
اکتوبر 09، 2013
پیغامات
2,101
ری ایکشن اسکور
1,462
پوائنٹ
344
اے وہ لوگوجو امام ابو حنیفہ کی تقلید کرتے ہو ذرا غور تو کرو!

محمد عربی کی وفات ۶۳۲ عیسوی میں ہوئی ٹھیک ۷۰ برس بعد ۶۹۹ عیسوی میں امام ابو حنیفہ پیدا ہوئے اور ۷۶۷ میں فوت ہو گئے ،صرف ۷۰ برس کے عرصہ میں دین کو سمجھنے کے لیے امام صاحب کی ضرورت پیدا ہو گئی جب کہ آج امام صاحب کو دنیا سے گئے ۳۰۰ا سال بیت گئے تو کیوں اتنے طویل عرصے میں کسی مفکر کی ضرورت پیش نہ آئی ، جب کہ محمد کریم اور امام صاحب کے درمیان مختصر عرصہ میں ہی امام صاحب کی فقہ کی ضرورت پڑ گئی ؟؟جب کہ وہ ترقی کے لحاظ سے سست دور تھا اور آج کے مسائل گزشتہ مسائل سے کہیں زیادہ پیچیدہ ہیں تو کیا آج جدید فقہ کی ضرورت نہیں؟؟
 

انس

منتظم اعلیٰ
رکن انتظامیہ
شمولیت
مارچ 03، 2011
پیغامات
4,178
ری ایکشن اسکور
15,346
پوائنٹ
800
’’ لڑی ‘‘ اتنی طویل ہوگئی ہے ۔ موضوع تھا کہ :
کیا متقدمین فقہاء کا اجتہاد قیامت تک کے لیے کافی ہے ؟
حافظ عمران الٰہی صاحب کی ابتدائی چند شراکتوں کے بعد مجھے تو کہیں نظر نہیں آیا کہ اس موضوع پر بھی کچھ بات ہوئی ہے ۔
خاص طور پر حنفی مکتبہ فکر کے کسی ساتھی نے اس حوالے سے اپنے مکتبہ فکر کا موقف بیان نہیں فرمایا ۔ گزارش ہےکہ اس طرف توجہ فرمائیں۔
اس سلسلے میں نص نہیں ہو سکتی۔ تجربہ یہ بتاتا ہے کہ متقدمین فقہاء کا اجتہاد قیامت تک کے لیے کافی ہے۔
اگرچہ مسائل نئے پیش آتے رہتے ہیں لیکن متقدمین فقہاء کے وضع کردہ اصولوں پر ان کا حل بآسانی نکل سکتا ہے۔ ان چار فقہ سے ہٹ کر نئے اصول منضبط کرنا انتہائی کٹھن کام ہے۔ ہر اصول پہلے سے کسی میں پایا جائے گا۔
1۔ گویا اشماریہ صاحب کے نزدیک یہ تو عین ممکن ہے کہ کسی مسئلے کا حل نصوص (کتاب وسنت) میں موجود نہ ہو (کیونکہ ان کے نزدیک اس تھریڈ کے موضوع میں موجود سوال کا جواب نصوص میں نہیں ہو سکتا) لیکن یہ ممکن نہیں کہ کسی مسئلے کا حل ائمہ اربعہ کی فقہ میں نہ ہو۔ دوسرے الفاظ میں کتاب وسنت قیامت تک کیلئے کافی نہیں، البتہ ائمہ اربعہ کا اجتہاد قیامت تک کیلئے کافی ہے؟؟؟!
إنا لله وإنا إليه راجعون!

پھر یہ واضح فرمائیے گا کہ ائمہ اربعہ سے پہلے کسی نئے مسئلہ کے حل کیلئے امت کے پاس کیا لائحہ عمل تھا؟؟؟

ہمارا موقف: کتاب وسنت میں تا قیامت پیش آمدہ ہر مسئلے کا حل صراحۃً یا ایماءً موجود ہے۔ اگر موجود نہیں تو پھر کتاب وسنت قیامت تک کیلئے راہنما بھی نہیں بن سکتے۔ اگر موجود نہیں تو پھر نئے نبی، نئی شریعت کی ضرورت ہے! (العیاذ باللہ!)

نیز یہ بھی بتائیے کہ دینی معاملات نصوص کی بجائے تجربے سے کب سے حل ہونا شروع ہوگئے؟ آپ احناف کے نزدیک تجربہ بھی دلیل یا مصادر شریعت میں شامل ہے؟ کیا آپ اس بارے میں امام ابو حنیفہ رحمہ اللہ کا کوئی قول یا اُصول بیان کر سکتے ہیں؟؟؟

اگرچہ مسائل نئے پیش آتے رہتے ہیں لیکن متقدمین فقہاء کے وضع کردہ اصولوں پر ان کا حل بآسانی نکل سکتا ہے۔ ان چار فقہ سے ہٹ کر نئے اصول منضبط کرنا انتہائی کٹھن کام ہے۔ ہر اصول پہلے سے کسی میں پایا جائے گا۔
1۔ بقول آپ کے فقہائے اربعہ کے وضع کردہ اصولوں میں تو ہر پیش آمدہ مسئلے کا حل موجود ہے تو کیا آپ کے نزدیک کتاب وسنت اس صلاحیت سے عاری ہیں؟؟! میرے بھائی! آپ نے کتاب وسنت کی قدر نہیں کی جو قدر کرنے کا حق ہے۔

2۔ فقہائے اربعہ نے اگر کچھ اصول مقرر کیے تو کیا ان سے پہلے فقہاء نے ایسے کوئی اصول مقرر نہیں کیے؟؟؟!!

3۔ اگر نئے اصول منضبط کرنا انتہائی کٹھن کام ہے اور یہ کام فقہائے اربعہ نے کیا ہے تو بعد والے فقہاء یہ کٹھن کام کیوں نہیں کر سکتے؟؟؟ کیا دین اسلام میں خاتم النبیین کے علاوہ ’خاتم المجتہدین‘ یا ’خاتم الفقہاء‘ کا بھی کوئی تصور موجود ہے؟؟؟ اگر کوئی ہے تو اس کی دلیل کتاب وسنت سے ہوگی یا تجربہ سے؟؟!!

4۔ یہ واضح فرمائیے اگر فقہائے اربعہ کا اپنے سے پہلے فقہاء (جو ان کے بھی اساتذہ اور اساتذہ کے بھی اساتذہ تھے) کے منضبط کردہ اصولوں سے اختلاف ہو جائے یا فقہائے اربعہ کے منضبط کردہ اصولوں کا آپس میں اختلاف ہو جائے تو پھر اس کا حل کیا ہوگا؟؟؟

بھائی! مقلدین کی اصل خرابی یہ ہے کہ انہوں نے ائمہ کے اجتہادات کو کتاب وسنت کی جگہ دے دی ہے، حالانکہ کتاب وسنت سے صراحت سے ثابت ہے کہ کسی کا اجتہاد صحیح بھی ہو سکتا ہے اور غلط بھی!!!

اللہ تعالیٰ ہماری اصلاح فرمائیں!
 

اشماریہ

سینئر رکن
شمولیت
دسمبر 15، 2013
پیغامات
2,684
ری ایکشن اسکور
751
پوائنٹ
290
1۔ گویا اشماریہ صاحب کے نزدیک یہ تو عین ممکن ہے کہ کسی مسئلے کا حل نصوص (کتاب وسنت) میں موجود نہ ہو (کیونکہ ان کے نزدیک اس تھریڈ کے موضوع میں موجود سوال کا جواب نصوص میں نہیں ہو سکتا) لیکن یہ ممکن نہیں کہ کسی مسئلے کا حل ائمہ اربعہ کی فقہ میں نہ ہو۔ دوسرے الفاظ میں کتاب وسنت قیامت تک کیلئے کافی نہیں، البتہ ائمہ اربعہ کا اجتہاد قیامت تک کیلئے کافی ہے؟؟؟!
إنا لله وإنا إليه راجعون!

پھر یہ واضح فرمائیے گا کہ ائمہ اربعہ سے پہلے کسی نئے مسئلہ کے حل کیلئے امت کے پاس کیا لائحہ عمل تھا؟؟؟


محترمی انس بھائی!
ائمہ اربعہ کی فقہ کیا ہے۔ آپ جانتے ہی ہوں گے لیکن میں صرف یاد دہانی کے لیے عرض کردوں کہ وہ کتاب و سنت سے نکالے ہوئے مسائل ہیں۔
اسی طرح ائمہ اربعہ کے اصول کیا ہیں؟ کتاب و سنت کو سمجھنے کا ایک طریقہ۔ مثال کے طور پر امام ابو حنیفہؒ یہ سمجھتے ہیں کہ لفظ مشترک کے دو معنی ایک ہی وقت میں مراد نہیں لیے جا سکتے۔ (تفصیل اصول فقہ کی کتابوں میں) تو یہ کتاب اللہ و سنت رسول ﷺ کے الفاظ مشترکہ کو سمجھنے کا ایک طریقہ ہے۔
اب جب اس اصول احناف کی پیروی کی بات کی جاتی ہے تو اس کا مطلب یہ ہوتا ہے کہ یہ شخص جہاں بھی کوئی لفظ مشترک آئے گا وہاں ایک وقت میں ایک معنی لے گا۔
اس وضاحت کے بعد آپ میرے دعوی کی جانب آئیے۔
اگرچہ مسائل نئے پیش آتے رہتے ہیں لیکن متقدمین فقہاء کے وضع کردہ اصولوں پر ان کا حل بآسانی نکل سکتا ہے۔ ان چار فقہ سے ہٹ کر نئے اصول منضبط کرنا انتہائی کٹھن کام ہے۔ ہر اصول پہلے سے کسی میں پایا جائے گا۔
کیا اس میں اب بھی کوئی اشکال باقی ہے؟

البتہ آپ کا یہ سوال باقی ہے کہ ائمہ اربعہ سے پہلے کے لوگ کیا کرتے تھے؟ تو آپ مصنف ابن ابی شیبہ اٹھا کر دیکھیں تو معلوم ہوگا کہ وہ اپنے زمانے کے فقہاء سے معلوم کرلیتے تھے۔ اور یہی قرآن کا حکم بھی ہے۔
سوال یہ ہے کہ کیا ان فقہاء نے کوئی اصول وضع نہیں کیے؟
میں عرض کرتا ہوں کہ جب بھی کوئی فقیہ قرآن و سنت سے کوئی بات سمجھتا ہے تو اس کے سمجھنے کا ایک طرز خاص ہوتا ہے جیسے لفظ مشترک والی مثال ہے۔ یہ فقیہ چاہے ابو حنیفہ ہوں یا اور کوئی بھی۔ لیکن اگر وہ اسے بیان نہ کرے یا اس کے شاگرد بیان نہ کریں یا بعد میں ان اصولوں کا متبع کوئی عالم نہ رہ جائے وغیرہ تو وہ ہم سے اوجھل ہوجاتے ہیں۔ ان کی آراء تو باقی رہ جاتی ہیں لیکن انہوں نے یہ رائے کس بنیاد پر قائم کی یہ واضح نہیں رہتا۔ تو اس وجہ سے ہم کہتے ہیں کہ ان فقہاء کے اصول موجود نہیں ہیں۔
چنانچہ میں واضح طور پر کہتا ہوں کہ ائمہ اربعہ کی فقہ قرآن و حدیث سے ہی مستنبط ہے اور یہ ممکن ہے کہ قرآن و حدیث میں کوئی مسئلہ موجود نہ ہو (ظاہر ہے کہ صراحتا موجود نہ ہو نہ کہ سرے سے ہو ہی نہ۔ یہ کیسے ہو سکتا ہے) اور فقہ ائمہ اربعہ میں مل جائے یا ان کے اصولوں کی پیروی کرتے ہوئے قرآن و حدیث سے سمجھا جا سکے۔

ہمارا موقف: کتاب وسنت میں تا قیامت پیش آمدہ ہر مسئلے کا حل صراحۃً یا ایماءً موجود ہے۔ اگر موجود نہیں تو پھر کتاب وسنت قیامت تک کیلئے راہنما بھی نہیں بن سکتے۔ اگر موجود نہیں تو پھر نئے نبی، نئی شریعت کی ضرورت ہے! (العیاذ باللہ!)
محترم بھائی!
یہ جو ایماءً مسئلہ ہے اس کا استنباط آپ کے خیال میں کون کرے گا؟ ظاہر ہے مجتہد۔ تو ائمہ اربعہ وہی کام کرتے ہیں اور کتاب و سنت کو ناکافی نہیں مانا جاتا۔
البتہ اگر آپ اس ایماءً موجود مسئلے میں ان کے استنباط پر عمل نہیں کرنا چاہتے تو آپ خود اتنی صلاحیتیں لا کر استنباط کرلیں۔

نیز یہ بھی بتائیے کہ دینی معاملات نصوص کی بجائے تجربے سے کب سے حل ہونا شروع ہوگئے؟ آپ احناف کے نزدیک تجربہ بھی دلیل یا مصادر شریعت میں شامل ہے؟ کیا آپ اس بارے میں امام ابو حنیفہ رحمہ اللہ کا کوئی قول یا اُصول بیان کر سکتے ہیں؟؟؟
مکرمی انس! مجھے آپ عالم معلوم ہوتے ہیں۔
اس سلسلے میں نص نہیں ہو سکتی۔ تجربہ یہ بتاتا ہے کہ متقدمین فقہاء کا اجتہاد قیامت تک کے لیے کافی ہے۔

1۔ بقول آپ کے فقہائے اربعہ کے وضع کردہ اصولوں میں تو ہر پیش آمدہ مسئلے کا حل موجود ہے تو کیا آپ کے نزدیک کتاب وسنت اس صلاحیت سے عاری ہیں؟؟! میرے بھائی! آپ نے کتاب وسنت کی قدر نہیں کی جو قدر کرنے کا حق ہے۔
2۔ فقہائے اربعہ نے اگر کچھ اصول مقرر کیے تو کیا ان سے پہلے فقہاء نے ایسے کوئی اصول مقرر نہیں کیے؟؟؟!!

ان کے جوابات تو میں نے عرض کر دیے اپنی وضاحتی تفصیل میں۔

3۔ اگر نئے اصول منضبط کرنا انتہائی کٹھن کام ہے اور یہ کام فقہائے اربعہ نے کیا ہے تو بعد والے فقہاء یہ کٹھن کام کیوں نہیں کر سکتے؟؟؟ کیا دین اسلام میں خاتم النبیین کے علاوہ 'خاتم المجتہدین' یا 'خاتم الفقہاء' کا بھی کوئی تصور موجود ہے؟؟؟ اگر کوئی ہے تو اس کی دلیل کتاب وسنت سے ہوگی یا تجربہ سے؟؟!!
میں یہ سمجھتا ہوں کہ اس کی کوئی دلیل نہیں ہے۔ اس لیے چاہیے کہ کوئی یہ کام کر لے۔ پھر اگر نہ کر پائے تو الگ بات ہے۔
مطلب یہ ہے کہ کٹھن کام ہے لیکن بعد میں بھی فقہاء یہ کام کرسکتے ہیں۔ اس لیے اگر آپ یا کوئی خود کو مجتہد سمجھتے ہیں اور کوئی ایسا اصول اپنی فہم سے جانتے ہیں جو ائمہ کا نہیں تھا تو وہ علماء کے سامنے پیش فرمادیجئے۔ علماء اس کا جائزہ لے لیں گے۔

4۔ یہ واضح فرمائیے اگر فقہائے اربعہ کا اپنے سے پہلے فقہاء (جو ان کے بھی اساتذہ اور اساتذہ کے بھی اساتذہ تھے) کے منضبط کردہ اصولوں سے اختلاف ہو جائے یا فقہائے اربعہ کے منضبط کردہ اصولوں کا آپس میں اختلاف ہو جائے تو پھر اس کا حل کیا ہوگا؟؟؟
ایک عالم متبحر کے لحاظ سے میں یہ کہتا ہوں کہ اسے جس کا اصول حق و صواب کے زیادہ قریب معلوم ہوگا وہ اسے اختیار کرلے گا۔
رہ گیا عامی تو اس کے لیے یہ ایسا ہی ہے جیسے علمائے حدیث کا حدیث کی صحت و ضعف میں اختلاف ہو جاتا ہے۔ بھلا بتلائیے کہ وہ کیا کرتا ہے؟


بھائی! مقلدین کی اصل خرابی یہ ہے کہ انہوں نے ائمہ کے اجتہادات کو کتاب وسنت کی جگہ دے دی ہے، حالانکہ کتاب وسنت سے صراحت سے ثابت ہے کہ کسی کا اجتہاد صحیح بھی ہو سکتا ہے اور غلط بھی!!!
اللہ تعالیٰ ہماری اصلاح فرمائیں!

محترم بھائی! اس بات کو تو ہم بھی تسلیم کرتے ہیں اور تقریبا ہر زمانے میں ہی علماء تسلیم کرتے چلے آ رہے ہیں۔ جنہوں نے مجتہد کو ہمیشہ مصیب کہا ہے انہوں نے بھی انجام آخرت کے اعتبار سے کہا ہے کہ اس نے اپنا اجتہاد کر کے بالکل درست عمل کیا۔ (الا یہ کہ کوئی غلو کرے)
میرے محترم بھائی!
یہ اگر میں غیر مقلدین کی غلطی کہوں تو شاید بیجا نہ ہو کہ وہ مقلدین کے موقف کو جانتے ہی نہیں ہیں یا جانتے ہیں تو صرف نظر کر کے یہ اعتراض کردیتے ہیں۔ حالاں کہ کتاب و سنت کی جگہ ائمہ کے اجتہادات کو کوئی نہیں دیتا۔ عامی کے بارے میں اگر یہ کہا جاتا ہے تو اس بنا پر کہ وہ کتاب و سنت کو سمجھنے کا اتنا علم نہیں رکھتا۔
میں اپنے والد صاحب کو حدیث کی کتب کا ترجمہ کروا دوں اور قرآن کریم ہاتھ میں دے دوں اور کہوں کہ خود ہی مسائل سمجھتے جائیے تو امید ہے کہ شام تک وہ ایک زبردست قسم کا مسائل کا مغلوبہ تیار کرچکے ہوں گے۔ یہ تو ایک ایسی حقیقت ہے جس کو بہت سے اہل حدیث حضرات بھی مانتے ہیں کہ عامی جاہل پر تقلید ہی لازم ہے۔
لیکن اس سے ہٹ کر ائمہ کے اجتہادات کو کتاب و سنت کی جگہ کوئی نہیں دیتا۔ آخر بعض اقوال کو رد اور بعض کو اختیار کیوں کیا جاتا ہے؟؟؟
آپ کی دعا پر میں آمین کہتا ہوں۔
 
شمولیت
اگست 11، 2013
پیغامات
17,117
ری ایکشن اسکور
6,783
پوائنٹ
1,069
السلام علیکم :

اسلام ميں اجتھاد كا حكم اور مجتھد كى شروط


اسلام ميں اجتھاد كرنے كا حكم كيا ہے، اور مجتھد كى شروط كيا ہيں ؟

الحمد للہ:

شرعى دلائل سے كسى شرعى حكم كا ادراك كرنے كے ليے جدوجھد كرنے كو اسلام ميں اجتھاد كہتے ہيں، اور اور ہر قدرت ركھنے والے شخص پر ايسا كرنا واجب ہے؛ كيونكہ اللہ سبحانہ و تعالى كا فرمان ہے:

{ اگر تمہيں علم نہيں تو اہل علم سے دريافت كر ليا كرو }النحل ( 43 ). اور الانبياء ( 7 ).

اجتھاد پر قدرت ركھنے والا شخص خود ہى حق كى پہچان سكتا ہے، ليكن اس كے ليے علم كى وسعت ہونا اور شرعى نصوص پر مطلع ہونا، اور مرعى اصول اور اہل علم كے اقوال كى معرفت ضرورى ہے؛ تا كہ وہ اس كى مخالفت ميں نہ پڑ جائے.

كيونكہ لوگوں ميں ايسے طالب علم بھى ہيں جنہوں نے تھوڑا سا علم حاصل كيا اور اپنے آپ كو مجتھد سمجھنا شروع كر ديا ہے، آپ ديكھيں گے كہ وہ ايسى عام احاديث پر عمل كرتا ہے جس كو خاص كرنے والى احاديث بھى موجود ہيں، يا پھر وہ منسوخ احاديث پر عمل كرتا ہے جن كى منسوخ احاديث كا اسے علم نہيں، يا پھر وہ ايسى احاديث پر عمل كر رہا ہے جن كے متعلق علماء كرام كا اجماع ہے كہ وہ اپنى ظاہر كے خلاف ہيں اور اسے علماء كرام كے اجماع كا علم نہيں ہوتا.

اس طرح كا شخص بہت عظيم خطرے ميں ہے، كيونكہ مجتھد كے پاس شرعى دلائل كا علم ہونا ضرورى ہے، اور اس كے پاس ان اصول كا علم ہونا ضرورى ہے جن كى معرفت ہونے پر وہ دلائل سے احكام استنباط كرنے كى استطاعت ركھ سكتا ہے، جس پر علماء ہيں اس كا بھى علم ہونا چاہيے، تا كہ وہ بغير علم كے اجماع كى مخالفت ميں نہ پڑ جائے؛ جب يہ شروط اس ميں موجود ہوں تو پھر وہ مجتھد ہے.

اور اجتھاد كے حصے بھى ہو سكتے ہيں، وہ اس طرح كہ انسان كسى علمى مسائل ميں سے ايك مسئلہ ميں بحث و تحقيق كرے تو وہ اس مسئلہ ميں مجتھد ہو گا، يا پھر علم كے كسى باب ميں، مثلا باب الطہارۃ كے متعلق بحث اور تحقيق كرے تو وہ اس ميں مجتھد ٹھرےگا " انتہى

فتوى شيخ ابن عثيمين اس فتوى پر شيخ كے دستخط موجود ہيں.
ديكھيں: فتاوى علماء بلد الحرام ( 508 ).

http://islamqa.info/ur/111926
 
شمولیت
اگست 11، 2013
پیغامات
17,117
ری ایکشن اسکور
6,783
پوائنٹ
1,069
سوال نمبر: 5 - فتوی نمبر:( 7701 )

س 5: کیا دین میں اجتہاد کا دروازہ بند ہو چکا ہے یا نہیں ہے؟

ج 5: تمام تعريفيں صرف الله كيلئے ہيں، اور صلاۃ وسلام نازل ہو اللہ کے رسول پر، آپ کی آل اور آپ کے اصحاب پر۔ حمد و صلوٰۃ کے بعد:

اجتہاد کا دروازہ بند نہیں ہے، بلکہ اللہ کی کتاب قرآن کریم اور اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کی حدیث کی سمجھ اور بصیرت رکھنے والے، اور اسی طرح اسلاف جیسے صحابہ کرام ، تابعین رضی اللہ عنہم اجمعین کے اقوال و آراء کی باتوں کو صحیح معنی میں سمجھنے والے علماء کے لئے اجتہاد کا درواز کھلا ہوا ہے۔

( جلد کا نمبر 5; صفحہ 26)

اور جو اس درجہ فہم کو نہ پہنچا ہو، اس پر یہ فرض ہےکہ وہ علماء سے معلومات حاصل کرے، جیساکہ اہلِ علم نے اس کی وضاحت کی ہے۔

وبالله التوفيق۔ وصلى الله على نبينا محمد، وآله وصحبه وسلم۔
علمی تحقیقات اور فتاوی جات کی دائمی کمیٹی

ممبر ممبر نائب صدر صدر
عبد اللہ بن قعود، عبد اللہ بن غدیان، عبدالرزاق عفیفی، عبدالعزیز بن عبداللہ بن باز

http://alifta.com/Search/ResultDetails.aspx?languagename=ur&lang=ur&view=result&fatwaNum=&FatwaNumID=&ID=1368&searchScope=3&SearchScopeLevels1=&SearchScopeLevels2=&highLight=1&SearchType=exact&SearchMoesar=false&bookID=&LeftVal=0&RightVal=0&simple=&SearchCriteria=allwords&PagePath=&siteSection=1&searchkeyword=216167216172216170219129216167216175#firstKeyWordFound
 
شمولیت
اگست 11، 2013
پیغامات
17,117
ری ایکشن اسکور
6,783
پوائنٹ
1,069

چاروں مذاہب کی تقلید کا حکم

سوال نمبر: 4 - فتوی نمبر:( 4172 )

س 4: ہر زمانے اور ہر علاقے میں چاروں مذاہب کی تقلید کرنے اور ان کے آراء کے مطابق عمل کرنے کا کیا حکم ہے؟

ج 4: تمام تعريفيں صرف الله كيلئے ہيں، اور صلاۃ وسلام نازل ہو اللہ کے رسول پر، آپ کی آل اور آپ کے اصحاب پر۔ حمد و صلوٰۃ کے بعد:

پہلی بات:

یہ چار مذاہب منسوب ہیں چار اماموں کی طرف: امام ابو حنیفہ ، امام مالک ، امام شافعی اور امام احمد رحمہم اللہ تعالی علیہم اجمعین۔ چنانچہ حنفی مذہب امام ابو حنیفہ کی طرف منسوب ہے، اور اسی طرح دیگر مذاہب کا حال ہے۔

دوسری بات:

ان ائمہ کرام نے قرآن و حدیث سے اپنے فقہ کو لیا ہے، اور یہ لوگ فقہی مسائل ميں اجتہاد کرتے تھے۔ اور مجتہد شخص یا تو حق پر ہوگا، تو اس کو دو ثواب ملیں گے: ایک اجتہاد کا، اور دوسرا ثواب حق تک پہنچنے کا۔ یا پھر مجتہد شخص غلطی پر ہوگا، تو بھی اس کو اجتہاد کی بنا پر ثواب ملے گا، اور اپنی غلطی میں اس کو معذور سمجھا جائے گا۔
( جلد کا نمبر 5; صفحہ 38)

تيسری بات:

جو شخص قرآن و حدیث سے مسائل کا حکم جاننے کی صلاحیت رکھتا ہو، تو وہ قرآن و حدیث سے بالکل اسی طرح حکم اخذ کرے جیساکہ اس سے پہلے والے لوگوں نے اخذ کیا ہے، اور ان چیزوں میں اس کے لئے تقلید کرنا درست نہیں ہے، جن کے بارے میں اس کا یہ خیال ہو کہ حق اس کے علاوہ کچھ اور ہے، بلکہ یہ شخص اسی پر عمل کرے گا جس کو وہ حق سمجھ رہا ہو، اور جن مسائل کو سمجھنے سےوہ عاجز ہو، ان مسائل میں یا ضرورت پڑنے پر اس کے لئے تقلید کرنا جائز ہے۔

چوتهی بات:

جس شخص کے اندر قرآن و حدیث سے حکم اخذ کرنے کی صلاحیت نہ ہو، تو وہ اس امام کی تقلید کرے جس سے اس کو اطمینانِ قلب حاصل ہوتا ہو، اور جب کسی مسئلے میں اس کو الجھن یا بے اطمینانی کی کیفیت طاری ہوجائے، تو وہ اس کے بارے میں دریافت کرلے، یہاں تک کہ اس کو دلی اطمینان نصیب ہوجائے۔

پانچويں بات:

مذکورہ بالا تفصیل سے یہ معلوم ہوتا ہےکہ ہر زمانے اور ہر جگہ ائمہ کے آراء کی اتباع نہیں کی جائے گی، اس لئے کہ کبھی کبھی ان سے بھی غلطی ہوجاتی ہے، بلکہ ان ائمہ کی آراء میں سے اس حق بات کی اتباع کی جائے گی جس کی دلیل سے تائید ہوتی ہو۔

وبالله التوفيق۔ وصلى الله على نبينا محمد، وآله وصحبه وسلم۔
علمی تحقیقات اور فتاوی جات کی دائمی کمیٹی

ممبر ممبر نائب صدر صدر
عبد اللہ بن قعود، عبد اللہ بن غدیان، عبدالرزاق عفیفی، عبدالعزیز بن عبداللہ بن باز

http://alifta.com/Search/ResultDetails.aspx?languagename=ur&lang=ur&view=result&fatwaNum=&FatwaNumID=&ID=1377&searchScope=3&SearchScopeLevels1=&SearchScopeLevels2=&highLight=1&SearchType=exact&SearchMoesar=false&bookID=&LeftVal=0&RightVal=0&simple=&SearchCriteria=allwords&PagePath=&siteSection=1&searchkeyword=216167216172216170219129216167216175#firstKeyWordFound
 

اشماریہ

سینئر رکن
شمولیت
دسمبر 15، 2013
پیغامات
2,684
ری ایکشن اسکور
751
پوائنٹ
290
جزاک اللہ خیرا محمد عامر یونس بھائی۔
میں ان تینوں پوسٹس میں ذکر کردہ مسائل سے تقریبا متفق ہوں۔
علمی لحاظ سے اس کا اصولی جواب یہی ہونا چاہیے۔ البتہ جب ہم زمین پر اتر کر دیکھتے ہیں تو کچھ چیزیں پائی جاتی ہیں اور کچھ نہیں۔
 
Top