• الحمدللہ محدث فورم کو نئےسافٹ ویئر زین فورو 2.1.7 پر کامیابی سے منتقل کر لیا گیا ہے۔ شکایات و مسائل درج کروانے کے لئے یہاں کلک کریں۔
  • آئیے! مجلس التحقیق الاسلامی کے زیر اہتمام جاری عظیم الشان دعوتی واصلاحی ویب سائٹس کے ساتھ ماہانہ تعاون کریں اور انٹر نیٹ کے میدان میں اسلام کے عالمگیر پیغام کو عام کرنے میں محدث ٹیم کے دست وبازو بنیں ۔تفصیلات جاننے کے لئے یہاں کلک کریں۔

کیا محمد بن قاسم ، غزنوی ، غوری ڈاکو تھے ؟؟؟

شمولیت
اگست 11، 2013
پیغامات
17,117
ری ایکشن اسکور
6,783
پوائنٹ
1,069
فاتح دین – رضوان اسد خان


حسن نثار جیسے لبرل محمد بن قاسم، محمود غزنوی، شہاب الدین غوری جیسے فاتحین کو برملا ڈاکو کہتے ہوئے ذرا نہیں شرماتے اور تکلیف یہ ہے کہ بقول ان کے ان مجاہدین نے تلوار کے زور پر اسلام پھیلا کر کفار کا مقدمہ مضبوط کیا ہے۔ اور ہماری بدقسمتی کہ ہمیں احساس کمتری کے مارے ایسے خسرے قسم کے وکلا ملے جو بجائے اس کے کہ کفار کو مدلل اور منہ توڑ جواب دیتے، انہوں نے اپنے آباء کو ہی ”ڈس اون“ کر دیا۔

خیر، بات ہو رہی تھی پیٹ میں مروڑ کی، جو یہ ہے کہ ایک امن سے رہنے والے غیر مسلم ملک پہ کیوں حملہ کر کے اس کے سامنے یہ تین آپشنز رکھی جائیں کہ یا تو مسلمان ہو جاؤ، یا ٹیکس دو اور ذمی بن کے رہو اور یا پھر لڑنے کے لیے تیار ہو جاؤ۔ ان کے مطابق انصاف کا تقاضا یہ ہے کہ یہ حق تو پھر ہر طاقتور تہذیب کو ہونا چاہیے کہ وہ کمزور تہذیب کے سامنے یہی تین شرائط رکھ دے اور اپنی ”لاٹھی“ سے جس ”بھینس“ کو چاہے ہانک لے جائے۔ اور یہ کہ اس بات کو ماننا تو گویا امریکہ کو لائسنس دینا ہے کہ وہ طاقت کے بل بوتے پر مسلم اقوام کے ساتھ جو کر رہا ہے، درست کر رہا ہے، کیونکہ ہم بھی یہی کرتے آئے ہیں۔

یہ ذہنی غلامی کی پستی کی وہ اتھاہ گہرائی ہے جہاں پر یہ ”معذرت خواہ“ ہمیں لے جا چکے ہیں۔ اور مخمصہ یہ ہے کہ سطحی طور پہ یہ اعتراض نہایت مضبوط نظر آتا ہے۔ ویسے زد تو اس در فنطنی کی سب سے پہلے سلیمان جیسے انبیاء اور عمر فاروقؓ جیسے فاتحین صحابہ پہ بھی پڑتی ہے، لیکن ”فی الحال“ انہیں یہ بد باطن کھل کے برا بھلا نہیں کہہ پاتے۔

دین اسلام کی اس بظاہر ”جارحانہ“ پالیسی کو سمجھنے کے لیے ہمیں یہ جاننا پڑے گا کہ کافر ملتوں کو زیر نگیں کرنا دراصل ”حملے“ کے بجائے ”ریسکیو مشن“ ہے۔

اس سلسلے میں دو بنیادی باتوں کا جاننا ضروری ہے:
کلچر کیا چیز ہے؟
اسلام میں ظلم عظیم کا کیا تصور ہے؟

کلچر کی ایک تعریف کے مطابق یہ کسی انسانی گروہ کی وہ اجتماعی اور مشترکہ ”ذہنی پروگرامنگ“ ہے جو اسے دوسرے گروہوں سے ممتاز کرتی ہے۔

اس سے آپ اندازہ لگا سکتے ہیں کہ مذہب کا کلچر میں کتنا اہم کردار ہے۔ قوموں کے بیشتر تہوار، بود و باش، رہن سہن ان کے اکثریتی مذہب کے آئینہ دار ہوتے ہیں۔ تمام تر جاہلی تہذیبوں میں کلچر اور مذہب کا مرکز حکمران طبقہ رہا ہے۔ اس بات کی طرف قرآن نے بھی اشارہ کیا ہے جب ملکہ سبا یہ کہتی ہے کہ بادشاہ جب کسی بستی میں داخل ہوتے ہیں تو عزت والوں کو ذلیل کر دیتے ہیں۔ یعنی عزت کا معیار بدل جاتا ہے۔ اور پھر مفتوح قوم وقت کے ساتھ ساتھ فاتح قوم کے ظلم سے بچنے اور طاقتور کا قرب حاصل کرنے کے لیے اس جیسی ہی بن جاتی ہے، حتٰی کہ اپنے خداؤں کو چھوڑ کر فاتحین کے دیوی دیوتاؤں کی پرستش شروع کر دیتی ہے، دانستہ یا نادانستہ، طوعاً کرھاً۔!

گویا کلچر کی یہی وہ ذہنی پروگرامنگ یا غلامی ہے جو شرک پر مجبور کرتی ہے۔ اور یہی وہ ظلم ہے جس سے فرد اور قوم دونوں کو نجات دلانے کے لیے اسلام رحمت بن کر خالق کی طرف سے دنیا میں آیا ہے۔ واحد جبار و قہار مالک کے نزدیک ظلم عظیم شرک ہے۔ تو شرک پر مجبور کیا جانا کس درجے کا ظلم ہو گا۔

اسلام غلام بنانے نہیں آیا، بلکہ آزاد کرنے آیا ہے۔ اجسام کو، اور اس سے بھی بڑھ کر اذہان کو۔ شرکیہ نظام کے پنجروں سے سوچ کو نکال کر آزاد فضا میں انھیں غور و فکر کی دعوت دینا۔ یہاں دین میں جبر حرام ہے، یعنی ذہنی غلام بنانے کی کوئی گنجائش نہیں۔

پھر اجتماعی انصاف کا تقاضا بھی یہی ہے کہ جب اسلام ایک خطے میں عملاً اپنی برکات دنیا کو دکھا دے۔ مفلسی، چوری، ڈاکے، دھوکہ، فریب، کرپشن، بے راہ روی وغیرہ سمیت جب ہر معاشرتی ناسور کا خاتمہ ہوتے دنیا اپنی آنکھوں سے دیکھ لے، تو ان نعمتوں سے، اس حقیقی امن سے اور اس آئیڈیل نظام سے باقی خطوں اور ان کے لوگوں کو کیوں محروم رکھا جائے۔ انہیں وہ با برکت زندگی گزارنے کا موقع کیوں نہ دیا جائے جو آج تک دنیا کا کوئی سسٹم انھیں نہیں دے سکا۔ جہاں ان کی جان، مال اور عزت کی اس طرح حفاظت ہو جیسی آج تک ممکن نہ تھی۔ تو پھر ان برکات کو ان عوام تک پہنچانے کی راہ میں حائل جابر حکمرانوں کا اور کیا علاج ہے سوائے اس کے کہ انھیں دعوت دی جائے کہ
۔۔ یا تو وہ خود اسلام قبول کر کے اس نظام کا حصہ بن جائیں،
۔۔ یا مزاحمت ترک کر کے محکوم بن جائیں اور عوام کی فلاح کے راستے سے ہٹ جائیں،
۔۔ ورنہ پھر اس طوفان کی راہ میں آ کر خس و خاشاک کی طرح بہہ جائیں۔

اور کیا یہی نظریہ امریکہ کا جمہوریت کے بارے میں نہیں؟ کیا پہلے کمیونزم اور اب اسلام کے ساتھ اس کی جنگ کی کوئی اور بھی وجہ ہے؟ کیا یہی ”تہذیبوں کے تصادم” کی جنگ نہیں؟

اور ہمارا شکست خوردہ، معذرت خواہ، لبرل طبقہ ہتھیار ڈالنے اور فاتح تہذیب کو قبول کرنے کے بعد دم کٹی لومڑی کا کردار ادا کر رہا ہے۔ تو کیا اس کی چکنی چپڑی باتوں میں آ کر آپ اپنی دم بھی کٹوا لیں گے؟!

https://daleel.pk/2017/02/11/30374
 
Last edited:
Top