• الحمدللہ محدث فورم کو نئےسافٹ ویئر زین فورو 2.1.7 پر کامیابی سے منتقل کر لیا گیا ہے۔ شکایات و مسائل درج کروانے کے لئے یہاں کلک کریں۔
  • آئیے! مجلس التحقیق الاسلامی کے زیر اہتمام جاری عظیم الشان دعوتی واصلاحی ویب سائٹس کے ساتھ ماہانہ تعاون کریں اور انٹر نیٹ کے میدان میں اسلام کے عالمگیر پیغام کو عام کرنے میں محدث ٹیم کے دست وبازو بنیں ۔تفصیلات جاننے کے لئے یہاں کلک کریں۔

کیا مدارس کے فارغ التحصیل طلباء کیلئے باعزت روزگار کا انتظام ہے؟

کلیم حیدر

ناظم خاص
رکن انتظامیہ
شمولیت
فروری 14، 2011
پیغامات
9,748
ری ایکشن اسکور
26,379
پوائنٹ
995
کیا مدارس کے فارغ التحصیل طلباء کیلئے باعزت روزگار کا انتظام ہے؟

ابو قتادہ​
ماہ شعبان میں دینی مدارس کا تعلیمی سال عام طور پر مکمل ہو تا ہے۔ چنانچہ اس ماہ تقریباً ہر مدرسہ تقریب تقسیم اسناد و انعامات منعقد کر تا ہے درس نظامی مکمل کرنے والوں کے لیے صحیح بخاری کی آخری حدیث کا درس ہو تا اس کے بعد انہیں سند فراغت دی جاتی ہے۔
آخری تقریب میں طالب علموں کو سند فراغت عطا کر تے ہوئے رہنمائی اور حوصلہ و ہمت افزائی کرنے کی بہت زیادہ ضرورت ہو تی ہے۔ دیکھا یہ گیا ہے کہ منتظمین مدارس جب تک طالب علم مدرسے میں پڑھ رہا ہو تا ہے اس وقت تک تو اس کی ضروریات کا پورا خیال رکھتے ہیں لیکن تعلیم مکمل کرنے کے بعد مدرسے سے رخصت کر تے ہوئے طالب علم کو جس رہنمائی اور تعاون کی ضرورت ہو تی ہے وہ فراہم نہیں کر تے۔ طالب علم اب عملی میدان میں قدم رکھ رہا ہے۔ نسبتاً بے فکری کی زندگی سے فکرات کی زندگی کی طر ف آرہا ہے یہاں کے مسائل ہیں اس نے چند سال لگا کر جو دینی تعلیم حاصل کی ہے اس کا مصرف کیا ہے۔ یہ کیسے ممکن ہے کہ یہ اخلاص کے ساتھ اپنی دینی تعلیم سے معاشرے کو فائدہ بھی پہنچائے اور با عزت طریقے سے اس کی ضروریات بھی پوری ہو سکیں؟ تقسیم اسناد کی تقاریب میں، میں نے کہیں نہیں دیکھا کہ طالب علم کو اس اعتبار سے کوئی رہنمائی فراہم کی گئی ہو۔
یہ ہمارا المیہ ہے چند سال تک وقف ہو کر مدرسے میں تعلیم حاصل کر کے فارغ ہونے والے کے لیے ہمارے پاس نصیحتیں تو بہت ہو سکتی ہیں مثلاً اخلاص کے ساتھ دین کی خدمت کرنا، اﷲ پر تو کل اور بھروسہ کرنا، خود داری کے ساتھ زندگی گزارنا، دین کو کاروبار مت بنانا لیکن عملی زندگی کے حوالے سے واضح رہنمائی کسی کے پاس نہیں ہے کہ بھئی فلاں فلاں جاب تمہاری منتظر ہے جہاں تمہیں دین کی خدمت کا بھی پورا پورا موقع ملے گا اور تمہاری ضروریات کا بھی مکمل خیال رکھا جائے گا۔
اس فارغ التحصیل طالب علم کے لیے ایسے روزگار کے مواقع کہاں ہیں جہاں اس کا علم محفوظ رہے۔ معاشرے کو فائدہ پہنچے اور باعزت روزگار بھی ہو؟ فارغ ہونے کے بعد اگر عصری تعلیم طالب علم کے پاس نہیں ہے تو سرکاری ملازمت تو اسے مل نہیں سکتی۔ تعلیم کی مشغولیت کی وجہ سے وہ کوئی ہنر بھی نہیں سیکھ سکا لہٰذا اس بنیاد پر بھی اس کے روزگار کا بندوبست نہیں ہو سکتا پرائیوٹ کمپنیوں اور اداروں میں اس کی اہلیت کی مناسبت سے کوئی ملازمت نہیں ہو تی۔ لے دے کر مدارس میں تدریس یا مساجد میں امامت و خطابت کی ملازمتیں رہ جاتی ہیں۔ مدارس میں پہلے ہی اساتذہ پورے ہو تے ہیں کوئی آسامی خالی نہیں ہو تی اگر ہو بھی اور اسے ملازمت مل بھی جائے تو تنخواہ اتنی کم ہو تی ہے کہ کمائی کے کوئی مزید ذرائع تلاش کیے بغیر گزارہ ممکن نہیں ہو تا جبکہ منتظمین کے ہاتھوں اس کی عزت نفس علیحدہ مجروح ہو تی رہتی ہے۔
مساجد میں امامت و خطابت کا ملنا بھی اس لیے مشکل ہو تا ہے کہ سال میں سینکڑوں طالب علم فارغ ہوتے ہیں جبکہ مساجد کی آسامیاں درجنوں بھی نہیں ہو تیں۔ مثلاً فرض کریں کراچی کے مدارس سے اس سال تقریباً ساٹھ طالب علم فارغ ہوئے لیکن کراچی میں گزشتہ سال دس مساجد بھی نئی تعمیر نہیں ہوئیں۔ مساجد کے منتظمین کا حال بھی برا ہے۔ ایک تو تنخواہ کم دی جا تی ہے دوسرا عزت نفس مجروح کی جاتی ہے۔ تیسری بات یہ کہ اس کی ملازمت تار عنکبوت سے بھی زیادہ کمزور ہو تی ہے نہ جانے کس سیٹھ صاحب یا چوہدری صاحب کو امام صاحب کی کوئی ادا بری لگ جائے اور کب وہ انہیں ایک ہفتے کے نوٹس پر مسجد چھوڑنے کا حکم دے دیں۔ حفظ و ناظرہ کے چھوٹے مدارس کا حال بھی کچھ ایسا ہی ہے تنخوااہ کم اور ملازمت غیر یقینی۔ مذکورہ صورتحال کا فطری نتیجہ یہ رہے گا کہ دین کی خدمت کے جذبے سے تعلیم حاصل کر کے میدان عمل میں اترنے والا شخص اپنی فطری ضروریات کی تکمیل کے لیے فکر مند رہے گا اور گردش روزگار میں اسی طرح الجھ جائے گا کہ دین کے لیے کوئی قابل ذکر خدمات انجام نہ دے سکے گا وہ ذرائع آمدن بڑھانے کے لیے ہاتھ پیر مارے کا گھروں میں جاکر ٹیویشن پڑھائے گا یا پارٹ ٹائم کوئی ملازمت یا کاروبار کی طرف توجہ دے گا۔ نہ اس کے پاس مطالعے کا ٹائم ہو گا نہ تصنیف و تالیف اور تحقیق کے لیے وقت۔
ایسی صورت میں یہ بھی ممکن ہے کہ وہ اپنی خودداری کو خیر باد کہہ دے اور آمدنی کے ایسے ذرائع استعمال کر ے جو عالم دین ہونے کی حیثیت سے اس کے شایان شان نہیں۔ عام طور پر یہ دیکھا جا رہا ہے کہ مدرسے کے طالب علم کے ذہن میں مستقبل کا منصوبہ یہ ہو تا ہے کہ تعلیم مکمل کرنے کے بعد وہ لوگوں سے چندہ لیکر اپنی علیحدہ مسجد بنائے گا یا علیحدہ مدرسہ قائم کرے گا جن کے ذہن میں نہیں بھی ہو تا وہ حالات سے مجبور ہو کر ایسی مہم پر نکل کھڑے ہو تے ہیں۔ اسی لیے غیر ضروری طور پر مدارس قائم ہو رہے ہیں کراچی کے دینی مدارس میں جتنے طالب علم ہیں اگر وہ جامعہ ابی بکر اور جامعہ ستاریہ میں جمع کر دیے جائیں تو با سانی کفایت کرجائیں گے۔ بخاری کی کلاس میں اگر دس طالب علم بیٹھتے ہیں تو تیس طالب علم بیٹھ گئے تو کوئی فرق نہیں پڑے گا۔
اپنے علیحدہ مدارس و مساجد قائم کرنے کے جنون میں جب عالم دین چندے کی مہم پر نکلتا ہے تو کہیں منت سماجت کرنا پڑتی کہیں دوباتیں سننا پڑتی ہیں کہیں عزت نفس مجروح کرانا پڑتی ہیں ۔جھوٹ اور چالاکی کا ارتکاب بھی کرنا پڑ جا تا ہے یہاں تک کہ اس کی ساری دینی تعلیم و تربیت دھری کی دھری رہ جاتی ہے۔
فارغ التحصیل عالم دین کے لیے مستقبل سنوارنے کا ایک موقع یہ بھی فراہم کیا جا سکتا تھا جس سے محروم رکھا گیا ہے کہ درس نظامی کی تکمیل کے بعد دین کی مزید اعلیٰ تعلیم مختلف مضامین میں تخصص کی تعلیم کے لیے ادارے قائم ہوتے جہاں طالب علم کو مزید نکھارا جا تا اس کے لیے عصری تعلیم کے مواقع بھی مفت فراہم کیے جاتے ہیں اعلیٰ عصری تعلیمی ڈگریاں حاصل کر کے اچھی سرکاری ملازمتیں حاصل کر تا اور دین کی زیادہ بڑے پیمانے پر خدمت کر تا۔ مسجد میں فی سبیل اﷲ امامت و خطابت کر تا اپنے خرچ پر دینی لٹریچر چھپوا تا۔ مستقبل سنوارنے کے اس موقع سے بھی درس نظامی کے فارغ کو محروم رکھا گیا ہے بڑی بد قسمتی کی بات ہے۔
دینی مدرسے کے فارغ طالب علم کو در بدر کرنے اور گندا کرنے کے موجودہ حالات کو دیکھتے ہوئے اس سوال کا جواب بھی مل جا تا ہے کہ شہری علاقوں اور کھاتے پیتے گھرانوں کے بچے دینی تعلیم کے حصول کی جانب کیوں متوجہ نہیں ہو تے۔
دینی مدرسے کے طالب علم کا مستقبل تمام اہل فکر و نظر اور ہماری دینی قیادت کے لیے قابل توجہ موضوع ہے اگر ہم نے اس طبقے کو ترقی کے مواقع فراہم نہ کیے با عزت طریقے سے ان کی دنیاوی ضرورتوں کی تکمیل نہ کی تو دو صورتیں متوقع ہیں یا تو چند سال تک تعلیم حاصل کرنے کے بعد طالب علم اس لائن کو ترک کر کے دیگر شعبوں کو اختیار کر لے گا زمینداری کرے گا کاروبار کرے گا یا کوئی اور اچھی ملازمت کرے گا اگر وہ ایسا کر تا ہے تو چند ہی سالوں میں وہ اس علم سے محروم ہو جائے گا جو اس نے مدرسے میں چند سال لگا کر حاصل کیا تھا۔ دوسری صورت میں وہ جائز ناجائز حربے استعمال کر کے اس دینی لائن میں ہی قائم رہے گا تنخواہ سے اس کی ضرورت پوری نہ ہو گی تو وہ تعویذ گنڈے شروع کر دے گا یا لوگوں کو اپنی مجبوریاں بیان کر کے ان کے سامنے ہاتھ پھیلائے گا یا اپنی مسجد و مدرسے کے نام پر در بدر ہو کر چندہ کرے گا بحرحال اگر اس حوالے سے توجہ نہ دی گئی تو معاشرتی بگاڑ کے خاتمے کے لیے دینی مدارس کا کر دار نہایت محدود ہو کر رہ جائے گا۔

بشکریہ حدیبیہ
 

یوسف ثانی

فعال رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
ستمبر 26، 2011
پیغامات
2,767
ری ایکشن اسکور
5,409
پوائنٹ
562
عالم اسلام مین آج کے عہد کا یہ بہت بڑا مسئلہ ہے۔ اور یہ اُس وقت سے شروع ہوا جب سے دین کو پیشہ بنالیا گیا اور دینی تعلیم کو روزگار سے منسلک کردیا گیا۔ حالانکہ دور رسالت صلی اللہ علیہ وسلم اور ادوار خلافت میں ایسا نہین تھا۔ جب تک دین کو روزگار سے علیحدہ نہیں کیا جاتا، یہ مسئلہ برقرار رہے گا اور صورتحال خراب سے خراب تر ہوتا جائے گا۔ دینی علوم حاصل کرنے والوں میں مفاد پرست، موقع شناس، چالاک و ہوشیار لوگ مختلف نامناسب طریقوں سے مالدار اور صاحب اسٹیٹس بنتے جائیں گے اور مخلص دیندار لوگوں کی اکثریت روزی روٹی کے لئے پریشان حال رہیں گے۔

ضرورت اس امر کی ہے کہ دینی مدرسون اور جامعات میں ہر سطح پر طلباء کو دینی علوم کے ساتھ ساتھ وہ عصری علوم اور ہنر بھی سکھلائے جائیں، جن سے وہ معاشرے کے دیگر عام لوگوں کی طرح اپنا روزگار حاصل کرسکیں اور دارالعلوموں سے سند حاصل کرکے مساجد و مدارس ہی نہ ڈھونڈتے رہ جائیں۔
 

کفایت اللہ

عام رکن
شمولیت
مارچ 14، 2011
پیغامات
4,999
ری ایکشن اسکور
9,800
پوائنٹ
722
عالم اسلام مین آج کے عہد کا یہ بہت بڑا مسئلہ ہے۔ اور یہ اُس وقت سے شروع ہوا جب سے دین کو پیشہ بنالیا گیا اور دینی تعلیم کو روزگار سے منسلک کردیا گیا۔ حالانکہ دور رسالت صلی اللہ علیہ وسلم اور ادوار خلافت میں ایسا نہین تھا۔ جب تک دین کو روزگار سے علیحدہ نہیں کیا جاتا، یہ مسئلہ برقرار رہے گا اور صورتحال خراب سے خراب تر ہوتا جائے گا۔ دینی علوم حاصل کرنے والوں میں مفاد پرست، موقع شناس، چالاک و ہوشیار لوگ مختلف نامناسب طریقوں سے مالدار اور صاحب اسٹیٹس بنتے جائیں گے اور مخلص دیندار لوگوں کی اکثریت روزی روٹی کے لئے پریشان حال رہیں گے۔
جزاک اللہ خیرا ۔
میرے دل کی بات کہہ دی ہے ۔
ایک مدت سے میں بھی یہی بات کہتے آیا ہوں ، اورہمیشہ کہتا رہتاہوں۔
 

انس

منتظم اعلیٰ
رکن انتظامیہ
شمولیت
مارچ 03، 2011
پیغامات
4,178
ری ایکشن اسکور
15,346
پوائنٹ
800
عالم اسلام مین آج کے عہد کا یہ بہت بڑا مسئلہ ہے۔ اور یہ اُس وقت سے شروع ہوا جب سے دین کو پیشہ بنالیا گیا اور دینی تعلیم کو روزگار سے منسلک کردیا گیا۔ حالانکہ دور رسالت صلی اللہ علیہ وسلم اور ادوار خلافت میں ایسا نہین تھا۔ جب تک دین کو روزگار سے علیحدہ نہیں کیا جاتا، یہ مسئلہ برقرار رہے گا اور صورتحال خراب سے خراب تر ہوتا جائے گا۔ دینی علوم حاصل کرنے والوں میں مفاد پرست، موقع شناس، چالاک و ہوشیار لوگ مختلف نامناسب طریقوں سے مالدار اور صاحب اسٹیٹس بنتے جائیں گے اور مخلص دیندار لوگوں کی اکثریت روزی روٹی کے لئے پریشان حال رہیں گے۔
ضرورت اس امر کی ہے کہ دینی مدرسون اور جامعات میں ہر سطح پر طلباء کو دینی علوم کے ساتھ ساتھ وہ عصری علوم اور ہنر بھی سکھلائے جائیں، جن سے وہ معاشرے کے دیگر عام لوگوں کی طرح اپنا روزگار حاصل کرسکیں اور دارالعلوموں سے سند حاصل کرکے مساجد و مدارس ہی نہ ڈھونڈتے رہ جائیں۔
سوال یہ ہے کہ اگر ایک دینی علوم کے ماہر شخص کو تو کمائی کیلئے الگ سے کوئی کام کرنا چاہئے تو پھر ایک خلیفہ، قاضی، امیر (کسی علاقے کے گورنر)، میڈیکل ڈاکٹر، انجینئر، وکیل، (دنیوی علوم کے) استاد، علم ہیئت، ریاضی اور فلکیات کے ماہروں اور سائینسدانوں کو اپنا اور بیوی بچوں کا پیٹ بھرنے کیلئے الگ سے کوئی کام، کوئی مزدوری کیوں نہیں کرنی چاہئے؟ اور اگر یہ سب لوگ الگ سے اپنے ہنر سیکھ کر کام کرنا شروع کریں گے تو اس ہنر سے اپنے اور اپنی فیملی کیلئے بمشکل دو وقت کی روٹی ہی کما سکیں گے، اپنی اصل صلاحیتوں کے مطابق اپنی ذمہ داریاں کبھی ادا نہ کر پائیں گے؟
حالانکہ فرمانِ باری ہے:﴿ إِنَّ اللَّـهَ يَأْمُرُ‌كُمْ أَن تُؤَدُّوا الْأَمَانَاتِ إِلَىٰ أَهْلِهَا وَإِذَا حَكَمْتُم بَيْنَ النَّاسِ أَن تَحْكُمُوا بِالْعَدْلِ ۚ إِنَّ اللَّـهَ نِعِمَّا يَعِظُكُم بِهِ ۗ إِنَّ اللَّـهَ كَانَ سَمِيعًا بَصِيرً‌ا ٥٨ ﴾ ۔۔۔ سورة النساء
اللہ تعالیٰ تمہیں تاکیدی حکم دیتا ہے کہ امانت والوں کی امانتیں انہیں پہنچاؤ! اور جب لوگوں کا فیصلہ کرو تو عدل وانصاف سے فیصلہ کرو! یقیناً وه بہتر چیز ہے جس کی نصیحت تمہیں اللہ تعالیٰ کر رہا ہے۔ بے شک اللہ تعالیٰ سنتا ہے، دیکھتا ہے (58)

اس آیت کریمہ میں ’امانت والوں کی امانتیں انہیں پہنچاؤ‘ میں یہ بات بھی شامل ہے کہ ہر عہدہ اس کے اہل شخص کے حوالے کیا جائے۔ لہٰذا اگر جسٹس ایک ایسے شخص کو بنایا جائے گا، جو عربی زبان کی الف بے سے واقف نہیں، قرآن کریم اور احادیث مبارکہ کے متعلق اسے بنیادی ترین معلومات بھی حاصل نہیں۔ پتہ نہیں کہ وہ سورۂ فاتحۃ بھی صحیح تلفظ کے ساتھ ادا کر سکتا ہے یا نہیں۔ کسی آیت کریمہ یا حدیث مبارکہ کو عربی میں سمجھنے کی وہ صلاحیت ہی نہیں رکھتا، تو ایسے شخص کو جج بنانا اس آیت کریمہ کی صریح مخالفت ہے۔ جج کتاب وسنت کا عالم ہونا چاہئے اور اس شرط پر مدارس کے فاضل علماء تو پورا اترتے ہیں، ویسے ایک شخص جس نے سرکاری یونیورسٹی سے علومِ اسلامیہ میں پی ایچ ڈی بھی کی ہو، شاید وہ قاضی کی شرائط پر پورا نہ اُتر سکے۔ نبی کریمﷺ کا فرمان ہے:
« القضاة ثلاثة: واحد في الجنة، واثنان في النار؛ فأما الذي في الجنة، فرجل عرف الحق فقضى به. ورجل عرف الحق، فجار في الحكم، فهو في النار، ورجل قضى للناس على جهل فهو في النار » ۔۔۔ صحيح أبي داؤد: 3573
کہ قاضی تین طرح کے ہوتے ہیں: ایک جنتی اور دو جہنمی ہیں، جنتی قاضی وہ ہے جو حق کو پہچان لے اور اس کے مطابق (اپنے دنیاوی مفادات پیش نظر نہ رکھے) فیصلہ کر دے۔ دوسرا قاضی وہ ہے جو حق کو پہچان لے لیکن فیصلہ کرنے میں ظلم وزیادتی کرے (یعنی صحیح بات کو جانتے بوجھتے اپنے دنیاوی مفادات کو مد نظر رکھتے ہوئے غلط فیصلہ کر دے۔) یہ جہنمی ہے، اور تیسرا قاضی وہ ہے جو جہالت کے ساتھ فیصلہ کرتا ہے (یعنی مختلف فیہ مسئلے کے بارے میں اسے اللہ کے حکم کا علم ہی نہیں) تو یہ بھی جہنمی ہے (خواہ تکّے سے اس کا فیصلہ صحیح بھی ہوجائے)
میری نظر میں آج کل ہمارے برصغیر کے زیادہ جج حضرات قاضیوں کی تیسری قسم سے تعلق رکھتے ہیں کہ انہیں کتاب وسنت کی معرفت تو ہے ہی نہیں، فیصلہ وہ برطانوی قانون کو مد نظر رکھتے ہوئے کرتے ہیں، اگر کبھی ان کا فیصلہ صحیح بھی ہوجائے تو بھی یہ جہنمی ہوں گے۔ اللہ تعالیٰ معاف فرمائیں!

یہ بات ٹھیک ہے کہ دين كو پیشہ بنانا جائز نہیں، دینی علم دنیاوی مال کمانے کی نیت سے نہیں سیکھنا چاہئے، بالکل اسی طرح دیگر دُنیوی علوم کو بھی پیشہ بنانا جائز نہیں؟ کیا ایک ڈاکٹر اپنی میڈیکل کی تعلیم کو، ایک وکیل اپنی قانون کی تعلیم کو پیشہ بنا سکتا ہے؟ نہیں! ہرگز نہیں!

جب یہ حضرات اپنے اوقات لوگوں کیلئے فارغ کریں گے تو پھر کھائیں گے کہاں سے؟ ایک استاد دن میں اگر آٹھ دس گھنٹے لوگوں کو تعلیم دے گا تو اس کے پاس الگ سے کمانے کیلئے وقت نہ ہوگا۔ لہٰذا اسے اس کی خدمت ضرورت کے مطابق ملنی چاہئے، اگرچہ ان تمام حضرات کو اپنے اپنے علوم کو پیشہ نہیں بنانا چاہئے، مثلاً ایک ڈاکٹر کو جب تک فیس نہ ملے تب تک وہ اپریشن ہی نہ کرے اگرچہ مریض مر جائے تو یہ نا جائز ہے۔

یہ تمام حضرات اگر دو وقت کی روٹی کیلئے الگ سے محنت کریں تو ضرورت کے وقت لوگوں کے کام کیسے آئیں گے؟؟ ایک بہت اچھے قاری صاحب رکشا چلانا شروع کر دیں گے تو کیا لوگوں کو قرآن پاک بھی رکشے میں ہی پڑھنا سیکھایا کریں گے؟؟!!

میرے نزدیک اصل مسئلہ یہ ہے کہ پہلے اسلامی خلافتوں میں جس طرح دیگر کام کے لوگوں کیلئے معاشروں میں ضرورت موجود تھی اور ان کے وظیفے مقرر تھے، ان کیلئے روزگار کے مواقع میسر تھے اسی طرح بلکہ ان سے زیادہ ایک عالم ایک قاضی اور ایک مفتی صاحب کیلئے میسر تھے۔ ان کیلئے معاشرے میں روزگار موجود تھا۔ لیکن اب المیہ یہ ہے کہ ایک کرکٹر یا موسیقار یا شعبدہ باز کیلئے تو روزگار کے مواقع موجود ہیں لیکن ایک عالم، ایک قاری، ایک مفتی کیلئے معاشرے میں کسی قسم کا کوئی روزگار موجود نہیں۔ اس کیلئے لوگوں کو خود بھاگ دوڑ کرنا ہوتی ہے اور پاپڑ بیلنے پڑتے ہیں۔ حکومت کسی شے کی ذمہ داری نہیں اٹھاتی۔

اور تو اور جس اقامت صلاۃ اور ایتائے زکوٰۃ کے نظام قائم کرنا اسلامی خلافت کا سب سے بڑا فرضِ منصبی تھا: ﴿ الَّذِينَ إِن مَّكَّنَّاهُمْ فِي الْأَرْ‌ضِ أَقَامُوا الصَّلَاةَ وَآتَوُا الزَّكَاةَ وَأَمَرُ‌وا بِالْمَعْرُ‌وفِ وَنَهَوْا عَنِ الْمُنكَرِ‌ ٤١ ﴾ ۔۔۔ سورة الحج آج ہماری حکومتیں مسجدوں کی ذمہ داری تک اٹھانے کو تیار نہیں، ان کے بجلی ، گیس اور پانی کے بل تک لوگوں کو خود ادا کرنے ہوتے ہیں تو ائمہ مساجد کی ذمہ داری کون اٹھائے گا؟؟!!!!

حکومتیں گلو کاروں کیلئے تو پلاٹ مہیا کرتی ہیں، لیکن مسجد بنانے کیلئے محلّے والوں کو مسجد کی جگہ اور ایک دینی مدرسے کو مدرسے کی جگہ تک خود خریدنا ہوتی ہے۔ وغیرہ وغیرہ

دورِ رسالت اور ادوار خلافت میں بھی ایسا ہی تھا۔ نبی کریمﷺ کے دور میں اصحابِ صفہ تحصیل علم کیلئے وقف تھے، وہ اپنی دو وقت کی روٹی الگ سے مزدوری کر کے نہیں کماتے تھے، بلکہ ان کا گزر بسر بیت المال سے یا صدقات سے ہوتا تھا۔ سیدنا ابو ہریرہ﷜ وغیرہ کی مثالیں احادیث مبارکہ میں موجود ہیں۔

خلفائے راشدین کے دور میں خلفاء، مختلف علاقوں کے امراء، قضاۃ، معلّمین اور مجاہدین وغیرہ الگ سے کوئی محنت نہیں کرتے تھے کہ جس سے وہ اپنی پیٹ پوجا کریں! ان کے لئے بیت المال سے وظائف مقرر تھے۔

اگر تمام دُنیاوی معاملات کیلئے روزگار کے مواقع ہوں گے اور دین سے روزگار کو الگ کر دیا جائے گا تو پھر محلے کی مسجد میں امامت کون کرایا کریں گے؟ آذانیں کون دیا کریں گے؟ کمشنر صاحب یا ڈپٹی کمشنر یا ایس پی، ڈی ایس پی صاحب؟ ظاہر ہے ائمہ ومؤذنین حضرات جہاں محنت مزدوری کر رہے ہوں گے وہ نماز پڑھانے اور آذان دینے کیلئے چھٹی تو نہ دیں گے۔
لوگوں کو قرآن کریم، احادیث مبارکہ کون پڑھائیں گے؟ جو پڑھائیں گے اگر وہ الگ سے مزدوری کریں گے تو وہ اپنی زندگیوں کو دین کیلئے وقف نہیں کر سکیں گے، تو پھر دین کا کام کون کرے گا؟ پرویزی، غامدی ٹولہ اور این جی اوز جن کا روزگار باہر سے وابستہ ہے؟؟؟
 

یوسف ثانی

فعال رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
ستمبر 26، 2011
پیغامات
2,767
ری ایکشن اسکور
5,409
پوائنٹ
562
١۔ یہ بات ٹھیک ہے کہ دینی علم دنیاوی مال کمانے کی نیت سے نہیں سیکھنا چاہئے
ج۔ اصل بات یہی ہے۔ ہمارے ہاں تعلیم ٩٩ فیصد روزگار کمانے کے لئے حاصل کی جاتی ہے۔ خواہ وہ دنیوی علوم ہو یا دینی علم۔ دنیوی علم سے تو بآسانی روزگار مل جاتا ہے۔ لیکن ہم جن غیر اسلامی معاشروں میں رہ رہے ہیں، وہاں دینی علم کی بنیاد پر روزگار بہت مشکل سے ملتا ہے۔ اور جس طرح کا ملتا ہے، اس کی منظر کشی مندرجہ بالا مضمون میں موجود ہے، جو ہم سب کے لئے لمحہ فکریہ ہے۔

٢۔ لیکن ایک بہت اچھے قاری صاحب رکشا چلانا شروع کر دیں گے تو کیا لوگوں کو قرآن پاک بھی رکشے میں ہی پڑھنا سیکھایا کریں گے؟؟!!
ج: کسی بھی پیشے میں کوئی بُرائی نہیں ہے۔ اگر کوئی قاری صاحب اپنا روزگار رکشہ چلا کرحاصل کریں تو اس میں کوئی بُرائی نہیں ہے۔ اس کے تین فائدے ہیں۔ اول۔ قاری صاحب گھر گھر جاکر قاعدہ ، سپارہ پڑھا کرحاصل ہونے والی آمدن سے بہتر اور زیادہ باعزت روزگار حاصل کریں گے۔ دوم۔ رکشاؤوں میں سفر کرنے والوں کو نسبتاً ایک بہتر ٹرانسپورٹر ملا کرے گا جو مہذب ہوگا،مناسب کرایہ لے گا اور کسی ضرورتمند پر ظلم نہیں کرے گا، جو مروجہ ڈرائیوروں کا شعار ہے۔ سوم ۔ قاری صاحب بعد از روزگار فارغ وقت میں اپنے گھر یا مسجد میں مفت تعلیم دیں گے،تو اسی معاشرے میں ان کی آج سے زیادہ بہتر عزت ہوگی اور انہین چند سو روپوں کے لئے گھر گھر جانے اور بار بار گھر بدلنے، ڈھونڈنے کی مشقت سے بھی جان چھٹے گی۔

٣۔ میرے نزدیک اصل مسئلہ یہ ہے کہ پہلے اسلامی خلافتوں میں جس طرح دیگر کام کے لوگوں کیلئے معاشروں میں ضرورت موجود تھی اور ان کے وظیفے مقرر تھے، ان کیلئے روزگار کے مواقع میسر تھے اسی طرح بلکہ ان سے زیادہ ایک عالم ایک قاضی اور ایک مفتی صاحب کیلئے میسر تھے۔ ان کیلئے معاشرے میں روزگار موجود تھا۔
ج: یہ آپ ایک مثالی ”اسلامی معاشرے“ کی بات کر رہے ہیں۔ آج دنیا کے ساٹھ سے زائد مسلم ممالک میں ایسے کتنے ملک ہیں، جہاں ”اسلامی معاشرہ“ موجود ہے؟

٤۔ لیکن اب المیہ یہ ہے کہ ایک کرکٹر یا موسیقار یا شعبدہ باز کیلئے تو روزگار کے مواقع موجود ہیں لیکن ایک عالم، ایک قاری، ایک مفتی کیلئے معاشرے میں کسی قسم کا کوئی روزگار موجود نہیں۔ اس کیلئے لوگوں کو خود بھاگ دوڑ کرنا ہوتی ہے اور پاپر بیلنے پڑتے ہیں۔ حکومت کسی شے کی ذمہ داری نہیں اٹھاتی۔
ج: یہی تو تلخ حقیقت ہے۔ ہم نہ جانے کب سے اس صورتحال کا سامنا کر رہے ہیں اور نہ جانے کب تک کرتے رہیں گے۔ اس صورتحال کو تبدیل کرنا ایک الگ کام ہے۔ اور اسی صورتحال کے اندر دینی مدارس سے فارغ التحصیل نوجوانوں کو باعزت روزگار فراہم کرنے کی راہ ہموار کرنا ایک دوسرا اور فوری کام ہے۔ یہ کام حکومتیں تو کریں گی نہیں۔ کوئی اور بھی نہیں کرے گا (اگرچہ کہ کرنا چاہئے)۔ لہٰذا یہ دینی مدارس کے منتظمین کی ہی ذمہ داری ہے کہ وہ اپنے فارغ التحصیل طلبہ کے لئے معاشرے میں مسجد، مدرسہ سے ہٹ کر بھی روزگار کے مواقع فراہم کریں یا انہیں راستہ دکھلائیں۔

٥۔ اور تو اور جس اقامت صلاۃ اور ایتائے زکوٰۃ کے نظام قائم کرنا اسلامی خلافت کا سب سے بڑا فرضِ منصبی تھا، آج ہماری حکومتیں مسجدوں کی ذمہ داری تک اٹھانے کو تیار نہیں، ان کے بجلی ، گیس اور پانی کے بل تک لوگوں کو خود ادا کرنے ہوتے ہیں تو ائمہ مساجد کی ذمہ داری کون اٹھائے گا؟؟!!!!
ج: اسلامی خلافت کا وجود کہاں ہے؟ یہ تو وہ مسائل ہیں۔ جن سب آگاہ ہیں۔ اس دھاگہ کے مضمون کا مقصد صرف مسائل کو اجاگر کرنا نہیں بلکہ مروجہ غیر اسلامی حکومت کے اندر رہتے ہوئے (کہ یہاں رہنا تو مجبوری ہے) دینی مدارس سے فارغ التحصیل طلبہ کے روزگار کے نئے نئے اور بہتر مواقع تلاش کرنا ہے۔

٦۔ حکومتیں گلو کاروں کیلئے تو پلاٹ مہیا کرتی ہیں، لیکن ایک دینی مدرسے کو مدرسے کی جگہ تک خود خریدنا ہوتی ہے۔ وغیرہ وغیرہ
ج: جیسی حکومتوں کے تحت ہم ”راضی خوشی“ ہم رہ رہے ہیں، یہاں یہ بھی ”غنیمت“ ہے کہ دینی مدرسے کے لئے جگہ خریدنے کی ”آزادی“ تو ہے۔ چالیس فیصد سنی آبادی والے ایران مین جب خمینی انقلاب آیا تھا تو وہاں دو سو سے زائد سنی علماء کو فی الفور ”شاہ کا وفادار“ قرار دے کر پھانسی پر چڑھا دیا گیا تھا اور تہران کی تمام سنی مساجد کو ختم کردیا گیا تھا۔ ہمیں تو ”شکر“ ادا کرنا چاہئے کہ ”مشرف اور زرداری کے انقلاب“ کے بعد اُس صورتحال کا سامنا نہین کرنا پڑ رہا۔ گو کہ نئے صوبہ ”گلگت بلتستان“ میں کئی سنی مساجد کو سر بہ مہر کیا جاچکا ہے، اور سنی علماء کو گرفتار یا علاقہ بدر کی جاچکا ہے۔ لیکن ”ہم“ اب بھی ”ملی یکجہتی کونسل“ کے تحت اُنہیں مورل سپورٹ فراہم کر رہے ہیں۔ ”ہمارے مجموعی اعمال“ تو اس بھی زیادہ سخت سزاکے ”مستحق“ ہیں۔

کاش دینی مدارس کے منتظمین ہر سال مدارس سے فارغ التحصیل ہزاروں لاکھوں نوجوانوں اس غیر اسلامی معاشرے کے جنگل میں بے یار و مددگار ”پھینکنے“ کی بجائے ان کے روزگار کے لئے کوئی بہتر منصوبہ بندی کرسکیں۔ کراچی میں اسکولوں کے ایک گروپ سے وابستہ ایک ڈاکٹر صاحب نے گزشتہ دنوں بتلایا کہ ہمارے اسکولوں میں (غالباً) آٹھ ھافظ قرآن اساتذہ ہیں۔ مین نے کہا کہ ماشاء اللہ ۔۔۔ وہ میری بات کو کاٹ کر کہنے لگے کہ بھئی مسئلہ یہ ہے کہ وہ سب کے سب نفسیاتی مریض بن چکے ہیں، اور ان کے علاج کی ذمہ داری مجھے سونپی گئی ہے۔ جی ہاں یہ تو ایک سادہ مثال ہے۔ ظاہر ہے ایک اسکول مین فزکس، میتھ اور انگلش ٹیچر کے مقابلہ مین جب ایک صرف قاری یا حافظ استاد کو برائے نام تنخواہ ملے گی اور وہ اپنی فیملی کو اس قلیل تنخواہ مین پال نہین سکے گا تو نفسیاتی مریض تو بنے گا۔
اس وقت دینی مدارس میں مدرسین اور مساجد میں امام و مؤذن کی اسامیاں تقریباً بھری ہوئی ہیں۔ نئے مساجد اور مدارس قائم نہیں ہورہے لیکن ہزاروں لاکھوں نوجوان ان مدرسوں سے ہر سال فارغ ہورہے ہیں۔ خدارا ان کے بارے میں سوچئے۔ قبل اس کے کہ سوچنے کا وقت گذر جائے۔ اللہ ہم پر رحم فرمائے۔
 

انس

منتظم اعلیٰ
رکن انتظامیہ
شمولیت
مارچ 03، 2011
پیغامات
4,178
ری ایکشن اسکور
15,346
پوائنٹ
800
٢۔ لیکن ایک بہت اچھے قاری صاحب رکشا چلانا شروع کر دیں گے تو کیا لوگوں کو قرآن پاک بھی رکشے میں ہی پڑھنا سیکھایا کریں گے؟؟!!
ج: کسی بھی پیشے میں کوئی بُرائی نہیں ہے۔ اگر کوئی قاری صاحب اپنا روزگار رکشہ چلا کرحاصل کریں تو اس میں کوئی بُرائی نہیں ہے۔ اس کے تین فائدے ہیں۔ اول۔ قاری صاحب گھر گھر جاکر قاعدہ ، سپارہ پڑھا کرحاصل ہونے والی آمدن سے بہتر اور زیادہ باعزت روزگار حاصل کریں گے۔ دوم۔ رکشاؤوں میں سفر کرنے والوں کو نسبتاً ایک بہتر ٹرانسپورٹر ملا کرے گا جو مہذب ہوگا،مناسب کرایہ لے گا اور کسی ضرورتمند پر ظلم نہیں کرے گا، جو مروجہ ڈرائیوروں کا شعار ہے۔ سوم ۔ قاری صاحب بعد از روزگار فارغ وقت میں اپنے گھر یا مسجد میں مفت تعلیم دیں گے،تو اسی معاشرے میں ان کی آج سے زیادہ بہتر عزت ہوگی اور انہین چند سو روپوں کے لئے گھر گھر جانے اور بار بار گھر بدلنے، ڈھونڈنے کی مشقت سے بھی جان چھٹے گی۔
لا حول ولا قوۃ الا باللہ! میں نے رکشا ڈرائیونگ کو برا پیشہ قرار نہیں دیا۔
اگر قاری صاحب مساجد ومدارس میں بچوں کو قرآن پڑھانے کو مہذب پیشہ خیال نہیں کرتے اور رکشا چلانے کو زیادہ مہذّب پیشہ سمجھتے ہیں تو رکشا چلانا شروع کردیں، اس سے کسی نے منع تو نہیں کیا، لیکن اس سے قرآن پڑھانے والوں کے مسائل حل نہ ہوں گے، اس وقت ان کے مسائل کے حل بات ہو رہی ہے۔
محترم بھائی! اگر وہ مفت پڑھاسکیں تو اس سے بڑی نیکی کیا ہو سکتی ہے؟ لیکن یہ مشورہ صرف دینی علوم کیلئے کیوں ہے؟؟

٣۔ میرے نزدیک اصل مسئلہ یہ ہے کہ پہلے اسلامی خلافتوں میں جس طرح دیگر کام کے لوگوں کیلئے معاشروں میں ضرورت موجود تھی اور ان کے وظیفے مقرر تھے، ان کیلئے روزگار کے مواقع میسر تھے اسی طرح بلکہ ان سے زیادہ ایک عالم ایک قاضی اور ایک مفتی صاحب کیلئے میسر تھے۔ ان کیلئے معاشرے میں روزگار موجود تھا۔
ج: یہ آپ ایک مثالی ”اسلامی معاشرے“ کی بات کر رہے ہیں۔ آج دنیا کے ساٹھ سے زائد مسلم ممالک میں ایسے کتنے ملک ہیں، جہاں ”اسلامی معاشرہ“ موجود ہے؟

٤۔ لیکن اب المیہ یہ ہے کہ ایک کرکٹر یا موسیقار یا شعبدہ باز کیلئے تو روزگار کے مواقع موجود ہیں لیکن ایک عالم، ایک قاری، ایک مفتی کیلئے معاشرے میں کسی قسم کا کوئی روزگار موجود نہیں۔ اس کیلئے لوگوں کو خود بھاگ دوڑ کرنا ہوتی ہے اور پاپر بیلنے پڑتے ہیں۔ حکومت کسی شے کی ذمہ داری نہیں اٹھاتی۔
ج: یہی تو تلخ حقیقت ہے۔ ہم نہ جانے کب سے اس صورتحال کا سامنا کر رہے ہیں اور نہ جانے کب تک کرتے رہیں گے۔ اس صورتحال کو تبدیل کرنا ایک الگ کام ہے۔ اور اسی صورتحال کے اندر دینی مدارس سے فارغ التحصیل نوجوانوں کو باعزت روزگار فراہم کرنے کی راہ ہموار کرنا ایک دوسرا اور فوری کام ہے۔ یہ کام حکومتیں تو کریں گی نہیں۔ کوئی اور بھی نہیں کرے گا (اگرچہ کہ کرنا چاہئے)۔ لہٰذا یہ دینی مدارس کے منتظمین کی ہی ذمہ داری ہے کہ وہ اپنے فارغ التحصیل طلبہ کے لئے معاشرے میں مسجد، مدرسہ سے ہٹ کر بھی روزگار کے مواقع فراہم کریں یا انہیں راستہ دکھلائیں۔

٥۔ اور تو اور جس اقامت صلاۃ اور ایتائے زکوٰۃ کے نظام قائم کرنا اسلامی خلافت کا سب سے بڑا فرضِ منصبی تھا، آج ہماری حکومتیں مسجدوں کی ذمہ داری تک اٹھانے کو تیار نہیں، ان کے بجلی ، گیس اور پانی کے بل تک لوگوں کو خود ادا کرنے ہوتے ہیں تو ائمہ مساجد کی ذمہ داری کون اٹھائے گا؟؟!!!!
ج: اسلامی خلافت کا وجود کہاں ہے؟ یہ تو وہ مسائل ہیں۔ جن سب آگاہ ہیں۔ اس دھاگہ کے مضمون کا مقصد صرف مسائل کو اجاگر کرنا نہیں بلکہ مروجہ غیر اسلامی حکومت کے اندر رہتے ہوئے (کہ یہاں رہنا تو مجبوری ہے) دینی مدارس سے فارغ التحصیل طلبہ کے روزگار کے نئے نئے اور بہتر مواقع تلاش کرنا ہے۔
خلیج کے ملکوں میں اس حوالے سے صورتحال کافی بہتر ہے۔ وہاں مؤذنین، ائمہ مساجد اور علماء کے وظائف بھی اچھے ہیں، اور ان کیلئے احترام بھی پایا جاتا ہے۔
ہمارا مسئلہ مدارس سے فاضل لوگوں کے صرف باعزت روزگار کا نہیں ہے کیونکہ امام، مؤذن اور داعی اور معلم سے بڑھ کر اچھا روزگار کیا ہو سکتا ہے؟ اصل مسئلہ یہ ہے کہ اس کیلئے وسائل محدود ہیں، تنخواہیں کم ہیں۔ ان وسائل کو بڑھانے کی کوشش کرنی چاہئے، اور اس کیلئے مالدار لوگوں کو بھی آگے بڑھنا چاہئے۔ اگر اس کا حل یہ نکالا جائے کہ ان کا روزگار ہی تبدیل کر دیا جائے تو وہ روزگار تو وہ دینی علوم پڑھے بغیر بھی حاصل کر سکتے ہیں۔ حل ایسا ہونا چاہئے جس میں ان کی فیلڈ بھی برقرار رہے اور خدمت بھی ان کی اتنی مناسب ہوجائے کہ وہ اپنے گھریلو اخراجات پورے کر سکیں۔

ہم نے اس کا حال یہ سوچا ہے کہ
ایک تو ان لوگوں کو ہائر سٹڈیز پر لگا دیا جائے، تاکہ یہ ایم فل اور پی ایچ ڈی وغیرہ کر کے معقول روزگار کا انتظام کر سکیں اور اپنے دینی فرائض بھی پورے کر سکیں!
دوسرا اپنے ادارے کو اسلامی یونیورسٹی میں ڈھال لیا جائے، کہ جو بھی یہاں سے فاضل ہو، اس کے پاس ادارے کی ماسٹرز کی ڈگری ہو، جو معاشرے میں قابل قبول ہو۔
اس کیلئے چارٹر یا سرکاری یونیورسٹیوں سے ایفیلیشن کیلئے کوشش جاری ہے۔

اصل معاملہ یہ ہے کہ دینی کام میں ازمائشیں زیادہ ہیں، فرمانِ نبویﷺ ہے:
« من أحب دنياه؛ أضر بآخرته، ومن أحب آخرته؛ أضر بدنياه، فآثروا ما يبقى على ما يفنى » ۔۔۔ صحيح الترغيب
الراوي: أبو موسى الأشعري المحدث: الألباني - المصدر: صحيح الترغيب - الصفحة أو الرقم: 3247
خلاصة حكم المحدث: صحيح لغيره
 

یوسف ثانی

فعال رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
ستمبر 26، 2011
پیغامات
2,767
ری ایکشن اسکور
5,409
پوائنٹ
562
١۔ ہم نے اس کا حال یہ سوچا ہے کہ ایک تو ان لوگوں کو ہائر سٹڈیز پر لگا دیا جائے، تاکہ یہ ایم فل اور پی ایچ ڈی وغیرہ کر کے معقول روزگار کا انتظام کر سکیں اور اپنے دینی فرائض بھی پورے کر سکیں!

٢۔ دوسرا اپنے ادارے کو اسلامی یونیورسٹی میں ڈھال لیا جائے، کہ جو بھی یہاں سے فاضل ہو، اس کے پاس ادارے کی ماسٹرز کی ڈگری ہو، جو معاشرے میں قابل قبول ہو۔ اس کیلئے چارٹر یا سرکاری یونیورسٹیوں سے ایفیلیشن کیلئے کوشش جاری ہے۔
١۔ بہت عمدہ خیال ہے۔ لیکن خیال رہے کہ پاکستان جیسے معاشرے میں ماسٹرز اور ڈاکٹریٹ کی سطح تک کی اعلیٰ تعلیم صرف چند فیصد لوگ ہی حاصل کرپاتے ہیں یا کرنے کے اہل ہوتے ہیں۔ اور جو اس کے ”اہل“ ہوتے ہیں، وہ اس وقت بھی دینی مدارس سے فراغت کے بعد اپنی انفرادی کوششوں سے عام جامعات سے بیچلرز، ماسٹرز اور پی ایچ ڈی کی ڈگری حاصل کرکے معاشرے میں عمدہ روزگار اور مقام حاصل کر لیتے ہیں۔ ان کے لئے سرکاری اور غیر سرکاری سیکٹر کے بہترین اسکولوں، کالجز اور جامعات کا وسیع دروازہ کھل جاتا ہے۔
ضرورت اس امر کی ہے کہ ملک بھر میں درس نظامی، حفظ و قرات کی بنیادی تعلیم کے بعد عملی زندگی میں داخل ہونے والے لاکھوں نوجوانوں کے لئے کوئی ایسی پالیسی بنائی جائے کہ یہ سب کے سب امام مسجد، مؤذن اور مدارس کے معلم کی روایتی اور محدود تر اسامیوں سے آگے بھی معاشرے کے مختلف سیکٹرز میں روزگار بآسانی تلاش کرسکیں۔ اس سے ایک طرف تو ان دینی تعلیم کے حامل نوجوانوں کے روزگار کا مسئلہ حل ہوگا دوسرے معاشرے کا بھی ایک ”اجتماعی مسئلہ“ حل ہوگا کہ مختلف سیکٹرز کو دیانت دار افراد کی فراہمی بھی شروع ہوجائے گی۔ اسکول، کالج اور یونیورسٹی سے فراغت پانے اور دارالعلوموں سے فراغت پانے والے نوجوانوں کے کردار و شخصیت میں زمین آسمان کا فرق ہوتا ہے۔ ہم روایتی اسکول، کالجز و جامعات کا نہ تو نصاب تبدیل کرسکتے ہین نہ ان کی اسلامی تعلیم و تربیت کا اہتمام کرسکتے ہین کہ یہ ہمارے دائرہ اختیار سے باہر ہے۔ لیکن یہ تو کرسکتے ہیں کہ دینی مدارس کے طلباء کو دینی علوم کے ساتھ ساتھ عصری علوم و ہنر بھی کم از کم اس حد تک تو سکھلا دیں کہ اگر انہیں مساجد و مدارس میں جگہ نہ مل سکے تو وہ عام سوسائٹی میں بھی اپنی جگہ بناسکیں۔

٢۔ یہ بھی بہت اچھا اور نیک خیال ہے۔ اللہ کرے کہ تمام بڑے دارالعلوم اور مدارس اس جانب توجہ کریں۔ جب دنیا میں مسلمان عروج پر تھے اور سینکڑوں سال تک دنیا کی حکمرانی کرتے رہے تھے، تب عام مسلمان قرآن وحدیث کی تعلیم سے بہرہ ور ہونے کے ساتھ ساتھ طبیب بھی ہوا کرتے تھے، ریاضی دان بھی، ماہر فلکیات بھی وغیرہ وغیرہ۔ وہ عصری علوم سے نفرت یا انہیں ”غیر ضروری و غیر اہم“ نہیں سمجھا کرتے تھے۔ اسلامی ریاستیں تو یقیناً علماء، فقیہ اور قرآن و حدیث کے اسکالرز کو مناسب وظیفہ بھی دیا کرتی تھیں اور انہین مناسب و موزوں مناصب بھی پیش کرتے تھے لیکن بالعموم یہ افراد کبھی بھی دینی علم کو روزگار کے حصول کے لئے حاصل نہیں کیا کرتے تھے کہ فراغت کے بعد کسی مسجد و مدرسہ میں ”نوکری“ مل جائے۔ یہ روزگار کے لئے الگ کاروبار کیا کرتے تھے اور کرنا پسند کرتے تھے۔

اس عہد کی بد قسمتی یہ ہے کہ آج دینی علم ہو یا غیر دینی عصری علم، ان کے حصول کا واحد یا اولین مقصد روزگار کا حصول بن کر رہ گیا ہے۔ عصری علوم و ہنر حاصل کرنے والے اگر ایسا کرتے ہیں تو اس میں اتنا کوئی ”مضائقہ“ نہیں۔ البتہ اگر دینی علوم حاصل کرنے والے بھی، اپنے حاصل کردہ علم کا اولین مقصد حصول روزگار بنا ڈالیں تو یہ یقیناً ہم سب کے لئے لمحہ فکریہ ہے۔

اسلامی تربیت کے حامل دیانت دار لوگوں کے لئے (خواہ وہ عصری علوم کے حامل ہوں یا دینی علوم کے) غیر اسلامی معاشرے میں آزمائشیں زیادہ ہی ہوتی ہیں۔ مثلاً کراچی کے ایک سرکاری ترقیاتی ادارہ میں جہاں حرام دولت ہُن کی طرح برستا ہے اور جہاں گریڈ ایک کا نائب قاصد بھی اپنی تنخواہ سے زائد ”اوپر کی آمدن“ بآسانی ھاصل کرلیتا ہے اور ایک ایگزیکیٹیو انجینئر سالانہ کروڑوں کے فنڈز میں سے لاکھوں کا ”حصہ“ ببانگ دہل وصول کرتا ہے۔ اسی ادارے کا ایک ایگزیکیوٹیو انجینئر دوارن کار کے بعد کرایہ کا رکشہ چلایا کرتا تھا۔ اس کا کہنا تھا کہ میری فیملی بڑی ہے اور اٹھارہ گریڈ کی ”سوکھی تنخواہ‘ سے میرا گذارا نہیں ہوتا۔ یہ احقر بھی ایک ایسے ہی سرکاری ادارہ میں ڈیڑھ عشرہ تلک ”سرکاری افسری“ :) کرتا رہا ہے، جہاں بر بنائے عہدہ تین فیصد کمیشن (رشوت) تو میرا حق تھا اور باقی ”حسب استطاعت“ راستے ”کھلے“ تھے اور (بقول شخصے) یہ ”بے وقوف“ رات گئے تک ڈبل نوکری کرکے گھر کے اخراجات پورے کیا کرتا تھا تاکہ بیوی بچے ”احساس محرومی“ کا شکار ہوکر منفی راستوں پر نہ چلے جائیں۔ :(

اس مکالمہ کا واحد مقصد ہر سال پاکستان کے ہزاروں دینی مدارس سے نکلنے والے لاکھوں نوجوانوں کے لئے باعزت روزگار کی طرف رہنمائی کرنا، انہیں مواقع فراہم کرنا اور انہیں اس امر کا ”اہل“ بنانا ہے کہ وہ روایتی مدارس و مساجد کی ”نوکری“ کے علاوہ بھی روزگار حاصل کرسکیں۔ اس مقصد جلیلہ کے لئے زیادہ سے زیادہ تجاویزسامنے آنی چاہئے تاکہ با اختیار افراد اور ادارے اسے عملی جامہ پہنا سکیں۔ اللہ ہم سب کو اپنی ذات سے آگے بڑھ کر عام نوجوانوں کے لئے بھی کچھ سوچنے اور عمل کرنے کی توفیق دے آمین ثم آمین۔
 
Top