• الحمدللہ محدث فورم کو نئےسافٹ ویئر زین فورو 2.1.7 پر کامیابی سے منتقل کر لیا گیا ہے۔ شکایات و مسائل درج کروانے کے لئے یہاں کلک کریں۔
  • آئیے! مجلس التحقیق الاسلامی کے زیر اہتمام جاری عظیم الشان دعوتی واصلاحی ویب سائٹس کے ساتھ ماہانہ تعاون کریں اور انٹر نیٹ کے میدان میں اسلام کے عالمگیر پیغام کو عام کرنے میں محدث ٹیم کے دست وبازو بنیں ۔تفصیلات جاننے کے لئے یہاں کلک کریں۔

کیا مذہب تشیع کو ایرانیوں نے جعل کیا ہے؟

شمولیت
اگست 19، 2011
پیغامات
18
ری ایکشن اسکور
16
پوائنٹ
0
کیا مذہب تشیع کو ایرانیوں نے جعل کیا ہے؟


اسلامی معاشرہ میں شیعہ کی پیدائش کے لئے ایک دوسرا فرضیہ بیان کیا جاتا ہے جس کوخاور شناسان نےگھڑا ہے ،یہ لوگ بھی دوسرے محققین کی طرح معتقد ہیں کہ مذہب شیعہ ، پیغمبر اکرم (صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم) کی رحلت کے بعد وجود میں آیا ہے ،جس کیوجہ سے وہ اس کی علت و اسباب کو تلاش کرنے میں لگ گئے ، پھر اس کے بعد انہوں نے کہا کہ مذہب شیعہ کی بنیاد ایران کی طرف پلٹتی ہے ۔

اس فرضیہ کو ”دوزی“ نے بیان کیا ہے جس کا خلاصہ یہ ہے کہ مذہب شیعہ کو ایران نے جنم دیا ہے کیونکہ عرب ، آزادی کے قائل تھے اور ایرانی بادشاہی اور وراثت کے قائل تھے ، یہ لوگ انتخاب کے معنی نہیں سمجھتے تھے لہذا جب پیغمبر اکرم (صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم) کا انتقال ہوگیا تو کہنے لگے کہ حضرت علی (علیہ السلام) خلافت کے لئے زیادہ سزاوار ہیں، کیونکہ آنحضرت (ص) کے کوئی اولاد نہیں تھی ۔

خلاصہ یہ ہے کہ ایرانیوں اور شیعوں کا ہم فکر ہونا (یعنی خلافت کا موروثی ہونا) اس بات پر اہم دلیل ہے کہ شیعہ مذہب کو ایران نے جنم دیا ہے ۔

یہ فرضیہ ضعیف اور غلط ہونے کی وجہ سے عبداللہ بن سباء والے فرضیہ کی طرح ہے اور ایسا دعوی ہے جس کی کوئی دلیل نہیں ہے ۔

مذہب شیعہ کے عربی ہونے کی دلیلیں مندرجہ ذیل ہیں:

اول : جیسا کہ ہم نے بیان کیا ہے کہ مذہب شیعہ ، پیغمبر اکرم (صلی اللہ علیہ و آ لہ وسلم) کے زمانہ میں ظاہر ہوا ہے اور حضرت علی (علیہ السلام) کے چاہنے والوں کو شیعہ کہا جاتا تھا اور یہ فرقہ پیغمبر اکرم (صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم)کے زمانہ سے لیکر اس وقت بھی موجود تھا جب سلمان کے علاوہ کوئی اور ایرانی مسلمان نہیں ہوا تھا۔

پیغمبر اکرم (صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم) اور حضرت علی (علیہ السلام) کے زمانہ میں مذہب شیعہ کی طرف سب سے پہلے قدم بڑھانے والے افراد ، عرب تھے اور سلمان فارسی کے علاوہ کوئی اور ایرانی ان کے درمیان نہیں تھا۔

دوم : حضرت علی (علیہ السلام) اپنی خلافت کے زمانہ میں تین جنگوں میں مشغول تھے : جنگ جمل، جنگ صفین اور جنگ نہروان۔ اور آپ کی پوری فوج خالص عربی عدنانی اور قحطانی تھی ۔ قریش کے دوسرے گروہ ، اوس و خزرج، قبائل مذحج، ہمدان، طی، کندہ، تمیم اور مضر آپ کی فوج میں ملحق ہوگئے تھے اور آپ کی فوج کے تمام کمانڈر بھی انہی قبیلوں کے سردار تھے ۔ اسی طرح ہاشم مرقال، مالک اشتر، صعصعة بن صوحان، ان کے بھائی زید، قیس بن سعد بن عبادہ، عبداللہ بن عباس، محمد بن ابی بکر ، حجربن عدی، عدی بن حاتم وغیرہ بھی عرب تھے ۔

حضرت امیر المومنین علی (علیہ السلام) نے اسی فوج اور انہی سرداروں کے ذریعہ بصرہ کو فتح کیا ،قاسطین (معاویہ اور اس کی فوج) کے ساتھ صفین میں جنگ کی ، اور انہی کے ذریعہ مارقین کو قتل کیا ،لہذا اس فوج اور سرداروں میں ایرانی کہا ںہیں؟ جو یہ احتمال دیا جائے کہ یہ سب شیعہ ہیں؟ اس کے علاوہ صرف ایرانیوں نے اس مذہب کو قبول نہیں کیا بلکہ ترکیوں اور ہندوستانیوں نے بھی اس دین کو قبول کیا ہے ۔

اکثر مورخین اور محققین نے اس حقیقت کی گواہی دی ہے لہذا ہم یہاں پر صرف ایک مثال پر اکتفاء کریںگے :

”ولھاوزن“نے کہا ہے : عراق کے تمام لوگ خصوصا معاویہ کے زمانہ میں کوفہ کے تمام لوگ شیعہ تھے، یہ بات صرف افراد سے مخصوص نہیں ہے بلکہ قبایل اور تمام سرداروں کو شامل ہے (۱) ۔

سوم : دوسری قوموں کی طرح ایران میں بھی اسلام پھیل رہا تھا اور ایران ، مذہب شیعہ کے نام سے مشہور نہیں تھا ، یہاں تک کہ اشعری شیعوں کے ایک گروہ نے قم اور کاشان کی طرف ہجرت کی اور وہاں پر تشیع کو قائم کیا ، یہ پہلی صدی ہجری کے آخری برسوں کی بات ہے ، جب کہ خلیفہ دوم نے ایران کو ۱۷ ہجری میںفتح کیا اور تمام ایرانی مسلمان ہوئے ، اس بات سے معلوم ہوتا ہے کہ برسوں گذرنے کے بعد بھی ایران میں تشیع کا کوئی اثر موجود نہیں تھا۔

سید محسن امین کہتے ہیں : جس وقت ایرانی مسلمان ہوئے اس وقت چند لوگ شیعہ تھے اور اہل سنت کے اکثر و بیشتر علماء جیسے بخاری، ترمذی،نسائی، ابن ماجہ اور حاکم نیشاپوری ایرانی تھے ۔
البتہ کبھی کبھی تشیع کے ایرانی ہونے پر یہ دلیل پیش کی جاتی ہے کہ تشیع اور ایرانی ، خلافت کے موروثی ہونے میں ہم عقیدہ ہیں ، لیکن یہ بات صرف ساسانیوں کے زمانہ تک تھی جو کہ غلط ہے ،کیونکہ شیعوں کی نظر میں خلافت موروثی نہیں ہے بلکہ نص اور تعیین کے تابع ہے ، اگر چہ خداوند عالم نے امامت کے نور کو ایسے خاندان میں قرار دیا ہے کہ ہر امام نے اپنے بعد آنے والے امام کو معین کیا ہے ۔ خداوند عالم نے حضرت ابراہیم (علیہ السلام) کی نسل میں نبوت کو قرار دیا اور نبی نے اپنے سے پہلے والے نبی کی نبوت کو اور ہر وصی نے اپنے سے پہلے والے وصی کی وصایت کو میراث میں حاصل کیا ہے ، خداوندعالم فرماتا ہے : ” وَ لَقَدْ اٴَرْسَلْنا نُوحاً وَ إِبْراہیمَ وَ جَعَلْنا فی ذُرِّیَّتِہِمَا النُّبُوَّةَ وَ الْکِتاب“ (۲) ۔ اور ہم نے نوح علیہ السّلام اور ابراہیم علیہ السّلام کو بھیجا اور ان کی اولاد میں کتاب اور نبوت قرار دی ۔
اگر حضرت ابراہیم (علیہ السلام) کی ذریت میں نبوت موروثی ہوسکتی ہے تو پھر امامت موروثی کیوں نہیں ہوسکتی؟

چہارم : جو بھی ایران کی تاریخ اور ایران کے علماء کی سیرت کا مطالعہ کرے گا اس کو معلوم ہوجائےگا کہ دسویں صدی کے شروع تک ایران میں اہلسنت عروج پر تھے ، اس کے بعد صفویوں کے زمانہ میں شیعیت نے ایران پر غلبہ کرلیا۔

اگر چہ قم اور کاشان ،شیعوں کا مرکز تھا ، لیکن ایران کے دوسرے شہروں کے مقابلہ میں یہ شہر بہت چھوٹے تھے ۔

بروکلمان نے کہا ہے : شاہ اسماعیل صفوی نے ”الوند“ پر فتح حاصل کرنے کے بعد ”تبریز“ کی طرف رخ کیا تو تبریز میں علمائے شیعہ نے اس کو خبر دی کہ اس شہر کے رہنے والے دو تہائی افراد جن کی تعداد تین لاکھ ہے ،اہل سنت ہیں(۳) ۔




1 . الخوارج والشیعة : ص241 ـ 248.
2 . حدید : 26.
3-سیماى عقاید شیعه، ص43.
 

فقہ جعفری

مبتدی
شمولیت
اگست 23، 2011
پیغامات
35
ری ایکشن اسکور
199
پوائنٹ
0
تباہ شدہ سلطنت عثمانیہ کو اللہ نے پھر زندہ کیا اور سلطان محمد خاں اوّل، سلطان مراد خاں ثانی فاتح قسطنطنیہ، سلطان محمد خاں ثانی ،سلطان بایزید ثانی اور سلطان سلیم عثمانی جیسے کامیاب و مدبر حکمرانوں کے ذریعے پھر عالم اسلام کی متحدہ قوت بنادیا اور یورپ میں فتوحات زور شور سے شروع ہوگئیں۔ لیکن دسویں صدی کے آغاز میں شاہ اسمٰعیل صفوی شیعہ حکمران برسراقتدار آگیا۔ اس نے تمام ایرانی سنی اکثریت کے مسلمانوں کی مساجد اور مقابر شہید کرادیئے۔ بڑے بڑے علماء اور معززین کو سولی چڑھادیا۔ خلفاء ثلاثہ ؓ پر تبرّا (سب و شتم) کوجمعہ کے خطبہ میں لازم کردیا۔ جگہ جگہ سنی شیعہ فسادات کرائے۔ ایک محتاط اندازے کے مطابق چالیس لاکھ سنی مسلمان شہید کرائے اور باقی ماندہ کو شیعہ بننے پر مجبور کردیا۔ کلیاتِ نفسی مؤلفہ سید نفیسی پروفیسر تہران یونیورسٹی میں لکھا ہے کہ: ’’ان سے سوال کیا گیا کہ ایران جو سنی اکثریت کا ملک تھا وہ شیعہ اکثریت ( ۶۰۔۶۵ فیصد) میں کیسے تبدیل ہوا‘‘؟ تو پروفیسر مذکورہ نے جواب دیا: ’’عہد صفوی میں سنیوں کا قتلِ عام کرکے ان کو جبراً شیعہ بنایا گیا‘‘۔

اسمٰعیل (صفوی) بن حیدر بن جنید بن ابراہیم بن خواجہ علی بن صدر الدین بن شیخ صفی الدین بن جبرئیل کے آباء و اجداد سب سنی المذہب تھے۔ پیری مریدی کرتے تھی۔ شیخ صدر الدین نے سفارش کرکے تیمور کے ہاتھوں وہ تمام ترک قیدی آزاد کرادیئے جو اس نے سلطان یلدرم سے جنگ انگورہ میں پکڑے تھے۔ وہ ہزاروں قیدی شیخ کے باصفا مریدین بن کر یہیں رہ گئے اور شاہ اسمٰعیل تک اس کی سب اولاد سے وفادار رہے اور اسمٰعیل کو اقتدار دلانے میں ان کی بڑی قربانیاں ہیں۔ اسماعیل نے ’’حبِّ اہل بیت ؓ ‘‘ کے نعرہ سے سنی و شیعہ عوام کو ساتھ ملا کر اقتدار پالیا تو اعلانیہ شیعہ رافضی بن گیا ۔پھر اپنے ترک مریدوں کی قوم سے جنگ کا منصوبہ بنایا اور پڑوسی ملک ترکی سلطنت عثمانیہ میں اپنے داعی، جاسوس اور ایجنٹ بھیج دیئے تاکہ اندرونی و بیرونی حملہ سے اس ملک کو ختم کرکے شیعہ مملکت بنالیا جائے مگر شاہ سلیم عثمانی کو اس سازش کا پتہ چل گیا۔ اُس نے اسمٰعیل صفوی کے سب ایجنٹوں کو ختم کرکے ایران پر دفاعی حملہ کیا۔ اسمٰعیل بھا گیا اور سلطان نے اندرونِ ملک اس کا تعاقب کرکے خالدران کے مقام پر کامیاب جنگ لڑی اور نصف علاقوں پر اپنی حکومت قائم کرلی۔ شاہ سلیم اگر دوبارہ ایران جاتا یا پھر باقاعدہ شاہ صفوی جنگ لڑتا تو اس کا اقتدار ختم ہوجاتا مگر شام و مصر کے سرحدی کشیدہ حالات کی وجہ سے شاہ دوبارہ ایران نہ جاسکا اور اسمٰعیل صفوی کے اس سازشی جال کی وجہ سے یورپ میں بھی شاہ سلیم اپنی فتوحات آگے نہ بڑھاسکا۔ اگر اسماعیل صفوی یہ حملے اور اندرونِ ملک سازشین نہ کراتا تو شاہ سلیم کی مساعی سے آج براعظم یورپ اسلام کے زیر نگیں ہوتا لیکن..... اے بسا آرزو کہ خاک شد۔

جناب ابو ذر غفاری ’’روزنامہ نوائے وقت‘‘ میں لکھتے ہیں:
’’اس کے علاوہ اگر ایران کے صفوی شیعہ اور ترکی کے عثمانی سنی آپس میں لڑ کر خون کے دریا نہ بہاتے تو آج سارا یورپ مسلمان ہوتا۔ مزید برآں اگر مغلیہ دور میں ہندوستان کے مسلمان، سنی شیعہ جھگڑوں کی نذر نہ ہوتے تو آج سارے ہندوستان پرمسلمانوں کا غلبہ ہوتا‘‘۔

اس تفصیل سے معلوم ہوا کہ ہر نازک موقع پر شیعوں نے اہل اسلام کو خنجر گھونپ کر کافروں کو بچایا ہے۔ خمینی انقلاب اور ایران و عراق جنگ ٹھیک اسی پالیسی کے تحت ہوئی جو شاہ اسمٰعیل صفوی نے وضع کی تھی۔ اس وقت ترکوں کو مار کر عیسائیوں کو بچانا مقصود تھا۔ اور خمینی انقلاب خالص معادہ کے تحت امریکی اسلحہ اسرائیل جیسے دشمنِ اسلام سے لے کر عربوں کو ختم کرنا اور سامراجی طاقتوں کی مدد کرنا مقصود تھا۔ اسلام کا نعرہ’’ لا شیعہ ولا سنیہ، مرگ بر اسرائیل، مرگ بر امریکہ‘‘ تو صرف ہاتھی کی دانت دکھانے کے ہیں جن سے بدھو صحافیوں کو الّو بنانا ہے اور اقتدار کے بھوکے مستقبل سے سیدھے سیاستدانوں کو اور سادہ لوح مسلمانوں کو تقیہ اور سفارتکاری کے ذریعے اپنا ہم نوا بنان مقصود ہے۔

ایران کا عہد صفوی، ہند میں عہد مغلیہ کا معاصر ہے۔ سب سے پہلے ہمایوں کے دور میں تشیع کو ہند میں برآمد کیا گیا۔ خاص معادہ سے قاضی نور اللہ شوستری جیسے غالی شیعہ کو قاضی القضاۃ بنایا گیا جس نے تشیع کی اشاعت میں ہر حربہ استعمال کیا۔ سلطان اورنگزیب عالمگیرؒ نے اپنی خداداد ایمانی فراست اور دیانت سے اسے محدود کرنے کی کوشش کی اور کامیاب بھی ہوئے ،تبھی تو شیعہ اور ان کے بے دین ہمنوا عالمگیر ؒ کی شکایت کرتے ہیں۔ مگر شیعوں نے ایک اور چال چلی کہ عالمگیر ؒ کے بیٹوں کو رشتے دے کر بعض کو مائل بہ تشیع کرلیا، پھر وہ اقتدار کی رسہ کشی اور خانہ جنگی کا شکار ہوگئے جس کا نتیجہ یہ ہوا کہ سلطنتِ مغلیہ قریب الزوال ہوگئی۔ ادھر ہندو اور مرہٹے زور پکڑگئے جن کو شاہ ولی اللہ محدث دہلوی ؒ کی دعوت پر احمد شاہ ابدالی نے پانی پت کے میدان میں آکر بیس ہزار افغانی سپاہ کی کمک سے ختم کیا۔ ادھر اودھ، لکھنؤ، دکن وغیرہ میں شیعہ راجوں نے آزاد ریاستیں قائم کرلیں اور انگریزوں نے ایسے پاؤں پھیلائے کہ مسلمانوں کا اقتدار دہلی کے گرد و نواح تک محدود ہوکر رہ گیا۔

اللہ اندھوں کو بینائی عطا فرمائے!
 
Top