• الحمدللہ محدث فورم کو نئےسافٹ ویئر زین فورو 2.1.7 پر کامیابی سے منتقل کر لیا گیا ہے۔ شکایات و مسائل درج کروانے کے لئے یہاں کلک کریں۔
  • آئیے! مجلس التحقیق الاسلامی کے زیر اہتمام جاری عظیم الشان دعوتی واصلاحی ویب سائٹس کے ساتھ ماہانہ تعاون کریں اور انٹر نیٹ کے میدان میں اسلام کے عالمگیر پیغام کو عام کرنے میں محدث ٹیم کے دست وبازو بنیں ۔تفصیلات جاننے کے لئے یہاں کلک کریں۔

کیا مسئلہ تحکیم میں کفر اکبر کا مرتکب ہونے کے لئےاستحلال، جہود و انکار کی قید آج کی ایجاد ہے؟

شمولیت
اگست 30، 2012
پیغامات
348
ری ایکشن اسکور
970
پوائنٹ
91
السلام علیکم ورحمۃ اللہ ۔

انتہائی افسوس کے ساتھ یہ کہنا پڑھتا ہے کہ جب مسلمان علماء دین کو چھوڑ کر اہل ظن و فلسفہ کے گرد جمع ہوتے ہیں تو پھر دین میں بگاڑ کی ایسی ایسی شکلیں پیدا ہوتی ہیں کہ جن کی اصلاح مشکلات سے لبریز ہوتی ہے۔ ایک طرف تو یہ فلسفی حضرات اپنے فن کی وجہ سے مسلمانوں کو پھانستے ہیں تو دوسری جانب علماء کے بارے حیلوں بہانوں سے ایسے شبہات اور اتہمات ، کبھی براہ راست اور کبھی دائیں بائیں سے ایسے حملے جاری رکھتے ہیں کہ معاشروں میں علماء کو نیچ ، لاعلم ، بکاو مال ، حکومتی ایجنٹ اور گمراہ شمار کروانے لگتے ہیں۔اس سے انکو دوہرا فائدہ ہوتا ہے ایک تو انکے نام کا خوب ڈنکا بجتا ہے کہ "واہ بھئی واہ اتنے بڑے عالم کو زیر کردیا ہمارے حضرت نے" تو دوسری جانب عام مسلمان ان چکمہ سازوں کے خوش لحان بیانات اور خوشنماء تحریروں سے پریشانی اور تذبذب کا شکار ہو جاتے ہیں ۔
اس موضوع پر پھر کسی اور وقت گفتگو کریں گے، ابھی ہمارا مطلوب ایسے "خود ساختہ مجددین اور مصلحین" کے ایک ایسے شبہ کا رد پیش کرنا ہے کہ جس سےمسلمانوں کو الجھانے حتی المکان کوشش میں وہ دن رات مصروف ہیں۔

وہ ہے کہ "تحکیم بغیر ما انزل اللہ" کے مسئلے میں استحلال قلبی، جہود و انکار کی قرآنی نصوص کو باطل قرار دیتے ہوئے ، ہر حکم بغیر ماانزل اللہ کے مرتکب کو کفر اکبر کا اور دائرہ اسلام سے خارج قرار دینا اور ان شروط کو پیش کرنے اور ملحوظ خاطر رکھنے والوں پر طعن اور انکو ارجاء کی وجہ و بنیاد اور امام قرار دینا۔
یاد رہے ، یہ شروط صحابہ و سلف صالحین اور آئمہ محدثین ومفسرین کے نزدیک تو ٹھیک تھیں اور وہ انکی موجودگی میں ہی کسی کے شریعت کے سوا فیصلے کو ہی کفر اکبر سے تعبیر کرتے تھے ، اور اگر کوئی شخص اللہ کی شریعت کے علاوہ کسی قانون سے فیصلہ تو کرتا ہو مگر اس کام کے کرنے کو اپنے لئے حلال و جائز نہ مانتا ہواور نہ ہی وہ قانون الہیہ سے انکار ہو تو پھر یہ دائرہ اسلام سے اخراج کا باعث نہیں بنتا مگر ہمارے ملک کی بدقسمتی یہ کہ جس کو بولنے ، جملوں سے گھائل کرنے اور تحریر میں تیر چلانے کا فن آتا ہے وہ سب پر بھاری، وہی رہنماء و مقتدا اور پیشوا۔۔

اور اب لوگوں کو یہ باور کروانے کی ایک منظم مہم کا آغاز کیا جاچکا ہے کہ ان شروط کا وجود ہی نہیں ہے ، یہ "جدید ارجائی ایجاد" ہے۔۔ لاحول ولا قوۃ الا باللہ

ہم ان شاء اللہ اس موضوع پر جلد ایک تفصیلی مضمون یہاں فورم پر پیش کریں گے ، مگر فی الحال ہم اس مسئلے پر اقوال سلف صالحین پر اکتفاء کرتے ہوئے ان نام نہاد مفکرین کی گمراہی کی کو یہاں واضح کریں گے۔ ان شاء اللہ


تحکیم بغیر ما انزل اللہ کے بارے سلف صالحین کی رائے

جمیع سلف صالحین نے ما انزل اللہ کے غیر کے مطابق فیصلہ کرنے کو عملی یا مجازی کفر قرار دیا ہے یعنی یہ ایسا کفر ہے جو ملت اسلامیہ سے اخراج کا باعث نہیں بنتا ہے جب تک کہ فاعل اس فعل کو حلال اور جائز نہ سمجھتا ہو۔

حضرت عبد اللہ بن عباس رضی اللہ عنہ سے 'ومن لم یحکم بما أنزل اللہ فأولئک ھم الکفرون' کی تفسیر میں مروی ہے:

'' عن علی ابن أبی طلحة عن ابن عباس ...قال : من جحد ما أنزل اللہ فقد کفر ومن أقر بہ ولم یحکم فھو ظالم فاسق.'' (تفسیر طبری : المائدة : ٤٤)
'' حضرت علی بن ابی طلحہ نے حضرت عبد اللہ بن عباس رضی اللہ عنہ سے نقل کیا ہے کہ انہوں نے آیت تحکیم کی تفسیر میں کہا:
جس نے جانتے بوجھتے ما أنزل اللہ کا انکار کیا تو اس نے کفر کیا اور جس نے ما أنزل اللہ کو تو مان لیا لیکن اس کے مطابق فیصلہ نہ کیا تو وہ ظالم اور فاسق ہے۔''
علامہ البانی رحمہ اللہ نے اس روایت کو ' جیدفی الشواہد ' کہا ہے۔(السلسلة الصحیحة : ١١٠٦)۔

بعض لوگ اس روایت کو اس بنیاد پر ضعیف قرار دیتے ہیں کہ حضرت علی بن ابی طلحہ کا حضرت عبد اللہ بن عباس رضی اللہ سے سماع ثابت نہیں ہے۔
شیخ سلیم الہلالی نے اس اثر کے صحیح ہونے میں ایک کتاب 'قرة العیون فی تصحیح تفسیر عبد اللہ بن عباس' کے نام سے تالیف کی ہے کہ جس میں اس اثر کے بارے شبہات کا کافی وشافی رد موجود ہے۔

امام ابن جریر طبری رحمہ اللہ فرماتے ہیں:

'' ان اللہ تعالی عم بالخبر بذلک عن قوم کانوا بحکم اللہ الذی حکم بہ فی کتابہ جاحدین ' فأخبر عنھم أنھم بترکھم الحکم علی سبیل ما ترکوہ کافرون' وکذلک القول فی کل من لم یحکم بما أنزل اللہ جاحدا بہ' ھو باللہ کافر؛ کما قال ابن عباس.''(تفسیر طبری : المائدة : ٤٥)
'' بلاشبہ اللہ تعالی نے اس حکم کے ذریعے اس خبر کو عام کیا ہے کہ اہل کتاب اللہ کے اس حکم کا جانتے بوجھتے انکار کرنے والے تھے جس کو اللہ نے اپنی کتاب میں بیان کیا تھا۔ پس اللہ تعالی نے ان کے بارے یہ خبر دی ہے کہ جس طرح انہوں نے اللہ کے حکم کو چھوڑا ہے (یعنی انکار کے رستے سے)تو اس سے وہ کافر ہو گئے ہیں۔ پس اسی طرح کا معاملہ ہر اس شخص کا بھی ہے جو اللہ کے حکم کا جانتے بوجھتے انکار کر دے تواس کا یہ فعل اللہ کے انکار کے مترادف ہے جیسا کہ ابن عباس کا قول ہے۔''
امام قرطبی رحمہ اللہ فرماتے ہیں:
''ومن لم یحکم بما أنزل اللہ فأولئک ھم الکفرون یحتج بظاہرہ من یکفر بالذنوب وھم الخوارج ! ولا حجة لھم فیہ لأن ھذہ الآیات نزلت فی الیھود المحرفین کلام اللہ تعالی کما جاء فی الحدیث وھم کفار فیشارکھم فی حکمھا من یشارکھم فی سبب النزول.''(المفھم لما أشکل من تلخیص کتاب مسلم' کتاب الحدود' باب قامة الحد ملی من ترافع لینا من زناة أھل الذمة)
'' اور جو اللہ کے حکم کے مطابق فیصلہ نہ کرے تو وہی لوگ کافر ہیں۔ اس آیت مبارکہ کو خوارج نے اپنے اس موقف کی دلیل کے طور پر پیش کیا ہے جس کے ذریعے وہ گناہ کبیرہ کے مرتکبین کی تکفیر کرتے ہیں حالانکہ اس آیت میں خوارجیوں کے موقف کی کوئی دلیل نہیں ہے کیونکہ یہ آیات ان یہود کے بارے نازل ہوئی ہیں جو اللہ کے کلام میں تحریف کرنے والے تھے جیسا کہ حدیث میں آیا ہے اور ایسے یہود بلاشبہ کافر ہیں ۔ پس ان یہود کے حکم (یعنی کفر)میں وہ شخص ان کا شریک ہو گا جو ان کے ساتھ سبب نزول(یعنی اللہ کی آیت کی تحریف)میں بھی شریک ہو۔''
امام ابن قیم رحمہ اللہ فرماتے ہیں:
'' والصحیح : أن الحکم بغیر ما أنزل اللہ یتناول الکفرین : الأصغر والأکبر بحسب حال الحاکم فانہ ا ن اعتقد وجوب الحکم بما أنزل اللہ فی ھذہ الواقعة وعدل عنہ عصیانا مع اعترافہ بأنہ مستحق للعقوبة فھذا کفر أصغر وان اعتقد أنہ غیر واجب وأنہ مخیر فیہ مع تیقنہ أنہ حکم اللہ فھذا کفر أکبر ان جھلہ وأخطأہ فھذا مخطیء لہ حکم المخطئین.''(مدارج السالکین' باب فی أجناس ما یتاب منہ ولایستحق العبد اسم التائب حتی یتخلص منھا،دار الکتاب العربی' بیروت)
''صحیح قول یہ ہے کہ ما أنزل اللہ کے بغیر فیصلہ کرنا دو قسم کے کفر پر مشتمل ہوتا ہے: کفر اصغر اور کفر اکبر۔(ان دونوں میں کسی ایک کا حکم) فیصلہ کرنے والے کے حالات کے مطابق عائد ہو گا۔ پس اگر کوئی حکمران کسی مسئلہ میں ما أنزل اللہ کے مطابق فیصلہ کو واجب سمجھتا ہے لیکن اللہ کی نافرمانی کی وجہ سے اس کے مطابق فیصلہ نہیں کرتااور اپنے آپ کو گناہ گار بھی سمجھتا ہے تواس حکمران کا کفر ' کفر اصغر ہے ۔ اور اگر حکمران کا عقیدہ یہ ہو کہ ما أنزل اللہ کے مطابق فیصلہ کرنا لازم نہیں ہے یا اختیاری معاملہ ہے ' چاہے وہ اسے یقینی طور پر اللہ کا حکم ہی سمجھتا ہو تو یہ کفر اکبر ہے ۔ اور اگر حکمران نے کوئی فیصلہ جہالت (یعنی شرع حکم سے عدم واقفیت)کی بنیاد پر کیا تو وہ خطاکار ہے اور اس کے لیے خطاکاروں کا حکم ہے(یعنی اگر مجتہد تھا تو ایک گناہ اجر وثواب ملے گا ورنہ خطا کی جزا ہو گی)۔''
امام سمعانی رحمہ اللہ فرماتے ہیں:
'' واعلم أن الخوارج یستدلون بھذہ الآیة ویقولون: من لم یحکم بما أنزل اللہ فھو کافر وأھل السنة قالوا: لا یکفر بترک الحکم وللآیة تاویلان: أحدھما معناہ ومن لم یحکم بما أنزل اللہ ردا وجحدا فأولئک ھم الکفرون والثانی معناہ ومن لم یحکم بکل ما أنزل اللہ فأولئک ھم الکفرون والکافر ھو الذی یترک الحکم بکل ما أنزل اللہ دون المسلم.''(تفسیر سمعانی : المائدة : ٤٤)
'' یہ جان لیں!کہ خوارج اس آیت مبارکہ سے استدلال کرتے ہیں اور کہتے ہیں : جو ما أنزل اللہ کے مطابق فیصلہ نہیں کرتا وہ کافر ہے۔ جبکہ اہل سنت کا یہ قول ہے کہ صرف ما أنزل اللہ کو ترک کر دینے سے کافر نہیں ہوگا(جب تک اس کا عقیدہ نہ رکھے)۔اور اس آیت کے دو معنی ہو سکتے ہیں ۔ ایک معنی تو یہ ہے کہ جو شخص ماأنزل اللہ کے مطابق اس کا انکار اور رد کرتے ہوئے فیصلہ نہ کرے تو یہ کافر ہے اور دوسرا معنی یہ ہے کہ جو ماأنزل اللہ کے مطابق کلی طور پر فیصلہ نہ کرے تو وہ کافر ہے کیونکہ کافر اپنی زندگی میں اللہ کے حکم کو کلی طور پر چھوڑ دیتا ہے جبکہ مسلمان کا معاملہ ایسا نہیں ہوتاہے۔''
علامہ ابن جوزی رحمہ اللہ فرماتے ہیں :
'' أن من لم یحکم بما أنزل اللہ جاحدا لہ وھو یعلم أن اللہ أنزلہ کما فعلت الیھود فھو کافر ومن لم یحکم بہ میلاا لی الھوی من غیر جحود فھو ظالم فاسق.''(زاد المسیر : المائدة : ٤٤)
'' جو ما أنزل اللہ کے مطابق اس کا انکار کرتے ہوئے فیصلہ نہ کرے ' جبکہ وہ یہ بات اچھی طرح جانتا ہو کہ اس حکم کو اللہ نے نازل کیا ہے جیسا کہ یہود کا معاملہ تھا تو وہ کافر ہے اور جو ما أنزل اللہ کے مطابق اپنی خواہش نفس کی اتباع میں فیصلہ نہ کرے اور اس کا انکار کرنے والا نہ ہو تو وہ ظالم اور فاسق ہے۔''
امام ابن العربی رحمہ اللہ لکھتے ہیں:
''ان حکم بما عندہ علی أنہ من عند اللہ فھو تبدیل لہ یوجب الکفر و ن حکم بہ ھوی ومعصیة فھو ذنب تدرکہ المغفرة علی أصل أھل السنة فی الغفران للمذنبین.''(أحکام القرآن : المائدة : ٤٤)
''اگر تو کسی حکمران نے اپنی کسی رائے اس طرح فیصلہ کرے کہ اسے اللہ کی طرف منسوب کرتا ہو تو یہ اللہ کی شریعت کو تبدیل کرنے کے مترادف ہے اور سبب ِکفر ہے۔ اور اگر اس نے اپنی خواہش یا نافرمانی میں ماأنزل اللہ کے بغیر فیصلہ کیا تو یہ ایسا گناہ ہے جو قابل مغفرت ہے جیسا کہ گناہ گاروں کے لیے مغفرت کے بارے اہل سنت کا اصول ہے۔''
امام بیضاوی رحمہ اللہ فرماتے ہیں:
''ومن لم یحکم بما أنزل اللہ مستھینا بہ منکرا لہ فأولئک ھم الکفرون.'' (تفسیر بیضاوی : المائدة : ٤٤)
'' اور جس نے ماأنزل اللہ کے مطابق اس کا انکار کرتے ہوئے اور اسے حقیر سمجھتے ہوئے فیصلہ نہ کیاتو وہ لوگ کافر ہیں ۔''
امام ابن کثیر فرماتے ہیں:
'' ولھذا قال ھناک ومن لم یحکم بما أنزل اللہ فأولئک ھم الکفرون لأنھم جحدوا حکم اللہ قصدا منھم وعنادا وعمدا.''(تفسیر ابن کثیر : المائدة : ٤٤)
'' یہی وجہ ہے کہ اللہ تعالی نے یہاں یہ کہا ہے کہ جو ما أنزل اللہ کے مطابق فیصلہ نہیں کرتا وہ کافر ہے کیونکہ انہوں(یعنی اہل کتاب)نے اللہ کے حکم کا جانتے بوجھتے' عمداً اور سرکشی سے انکار کیا دیاتھا۔''
ابو البرکات نسفی حنفی، شیخ أبومنصور ماتریدی رحمہما اللہ کی اس مسئلے میں رائے بیان کرتے ہوئے فرماتے ہیں:
'' قال الشیخ أبو منصور رحمہ اللہ : یجوز أن یحمل علی الجحود فی الثلاث فیکون کافرا ظالما فاسقا لأن الفاسق المطلق والظالم المطلق ھو الکافر وقیل ومن لم یحکم بما أنزل اللہ فھو کافر بنعمة اللہ ظالم فی حکمہ فاسق فی عملہ.''(تفسیر نسفی : المائدة : ٤٤)
'' شیخ ابو منصور ماتریدی کا کہنا ہے کہ یہ جائز ہے کہ ما أنزل اللہ کے مطابق فیصلہ نہ کرنے کو تینوں مقامات(یعنی کافرون' ظالمون اور فاسقون)پر انکار کے ساتھ فیصلہ نہ کرنے پر محمول کیا جائے۔ پس اس صورت میں فیصلہ نہ کرنے والا کافر ، ظالم اور فاسق تینوں صفات کا حامل ہو گا کیونکہ مطلق طور پر فاسق اور ظالم سے مراد بھی کافر ہی ہوتی ہے۔ ایک قول یہ بھی ہے کہ جو ماأنزل اللہ کے مطابق فیصلہ نہیں کرتا وہ اللہ کی نعمت کا کافر (یعنی ناشکرا)اور اپنے حکم میں ظالم اور اپنے عمل میں فاسق ہے۔''
امام رازی رحمہ اللہ فرماتے ہیں:
'' المسألة الثانیة : قالت الخوارج : کل من عصی اللہ فھو کافر وقال جمھور الأئمة : لیس الأمر کذلک. أما الخوارج فقد احتجوا بھذہ الآیة وقالوا: انھا نص فی أن کل من حکم بغیر ما أنزل اللہ فھو کافر وکل من أذنب فقد حکم بغیر ما أنزل اللہ فوجب أن یکون کافرا وذکر المتکلمون و المفسرون أجوبة عن ھذہ الشبھة ...والخامس : قال عکرمة : قولہ ومن لم یحکم بما أنزل اللہ ا نما یتناول من أنکر بقلبہ وجحد بلسانہ أما من عرف بقلبہ کونہ حکم اللہ وأقر بلسانہ کونہ حکم اللہ لا أنہ أتی بما یضادہ فھو حاکم بما أنزل اللہ ولکنہ تارک لہ فلا یلزم دخولہ تحت ھذہ الآیةوھذا ھو الجواب الصحیح واللہ أعلم.''(تفسیر رازی : المائدة : ٤٤)''
(اس آیت میں) دوسر امسئلہ یہ ہے کہ خوارج کا کہنا یہ ہے کہ جس نے بھی اللہ کی نافرمانی کی وہ کافر ہے۔ جبکہ جمہور أئمہ کا قول یہ ہے کہ ایسا معاملہ نہیں ہے۔ خوارج نے اپنے موقف کے حق میں اس آیت کو بیان کیا ہے اور کہا ہے کہ یہ آیت مبارکہ اس بارے نص ہے کہ جو شخص بھی ما أنزل اللہ کے مطابق فیصلہ نہیں کرتا (چاہے وہ اپنی نجی زندگی میں ہی ما أنزل اللہ کے مطابق فیصلہ نہ کرتا ہو اور اللہ کا نافرمان ہو)تو وہ کافر ہے اور جس نے بھی کوئی گناہ کا کام کیا (یعنی اللہ کی شریعت کی بجائے اپنی خواہش نفس کو حَکم بنا لیا)تو اس نے ماأنزل اللہ کے مطابق فیصلہ نہیں کیا۔ پس ایسے شخص کا کافر ہونا لازم ٹھہرا۔ متکلمین اور مفسرین ان خوارج کے اس استدلال کے کئی ایک جوابات نقل کیے ہیں...(ان جوابات میں سے)پانچواں جواب یہ ہے کہ حضرت عکرمہ نے کہا ہے اللہ تعالی کا قول کہ جو ما أنزل اللہ کے مطابق فیصلہ نہ کرتا، اس کے بارے ہے جو اپنے دل سے اللہ کے حکم کا انکار کردے اور اپنی زبان سے بھی منکر ہوجائے۔ پس جو شخص اپنے دل اور زبان سے اسے اللہ کا حکم مانتا ہو اور پھر بھی اس کے خلاف چلے تو یہ ما أنزل اللہ کے مطابق ہی فیصلہ کرنے والا ہے ۔ اگرچہ وہ ما أنزل اللہ کو چھوڑنے والا ضرور ہے۔ پس ایسا شخص اس آیت کے مفہوم میں داخل نہیں ہے اور یہی جواب صحیح ہے ۔ واللہ أعلم۔''

ڈاکٹر وہبہ الزحیلی فرماتے ہیں:
'' والخلاصة : أن التکفیر ھو لمن استحل الحکم بغیر ما أنزل اللہ وأنکر بالقلب حکم اللہ وجحد باللسان فھذا ھو کافر أما من لم یحکم بما أنزل اللہ وھو مخطیء ومذنب فھو مقصر فاسق مؤاخذ علی رضاہ الحکم بغیر ما أنزل اللہ.'' (التفسیر المنیر: المائدة : ٤٤)
'' خلاصہ کلام یہی ہے تکفیر اس شخص کی ہو گی جوما أنزل اللہ کے غیر کے مطابق فیصلہ کرنے کو حلال سمجھتا ہو اور دل و زبان سے اللہ کے حکم کا انکاری بھی ہو تو پس ایسا شخص کافر ہے ۔ اور (اس یعنی انکار کے علاوہ) جو شخص ما أنزل اللہ کے مطابق فیصلہ نہیں کرتا تو وہ گناہ گار 'خطارکار اور فاسق ہے اور اس سے اس بات کا مواخذہ ہو گا کہ وہ ماأنزل اللہ کے غیر کے مطابق فیصلہ کرنے پر کیوں راضی تھا۔''

علامہ بدیع الدین راشدی رحمہ اللہ فرماتے ہیں:
'' ناظرین ! اللہ کے نازل کردہ کے مطابق فیصلہ نہ کرنا کبیرة گناہوں میں سے ہے۔ جسے امام ذہبی نے 'الکبائر' ص ١٤٦' گناہ نمبر ٣١ میں بیان کیا ہے۔
لیکن کبیرہ گناہ کے بسبب کسی مسلمان کو اسلام سے خارج نہیں کہہ سکتے جب تک کہ وہ اپنے اس کیے گئے فعل کے صحیح ہونے یا برحق ہونے کا عقیدہ نہیں رکھتا۔''(تحکیم قوانین کے متعلق اقوال سلف : ص ٢٧)
اللہ کے فضل سے ہم نے سلف صالحین سے یہ بات ثابت کی کہ جو بھی شخص اگر اللہ کی نازل کردہ شریعت کے مطابق فیصلہ نہیں کرے گا تو وہ گناہ گار تو ضرور ہوگا مگر دائرہ اسلام سے خارج نہیں ہوگا۔ ایسا شخص تب ہی دائرہ اسلام سے خارج سمجھا جائے گا جب وہ اللہ کی شریعت کے علاوہ فیصلہ کرنے کو اپنے لئے جائز و حلال سمجھتا ہو یا اللہ کے قانون کا ہی انکاری ہو۔

اللہ تمام مسلمانوں کو قرب قیامت اٹھنے والے رنگین و خوشنماء فتنوں سے محفوظ رکھے اور دین اسلام کو فہم سلف صالحین کے تحت سمجھنے اور اس پر عمل کرنے کی توفیق عطا فرمائے۔ آمین
 
شمولیت
فروری 07، 2013
پیغامات
453
ری ایکشن اسکور
924
پوائنٹ
26
کفردون کفر والی روایت کی تحقیق بقلم : ڈاکٹر ایمن الظواہری حفظہ اللہ

تنظیم قاعدۃ الجہاد کے امیر ڈاکٹر ایمن الظواہری حفظہ اللہ ابن عباس رضی اللہ عنہ سے مروی روایت کے بارے میں لکھتے ہیں:
ابن عباس رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ اللہ کے نازل کردہ کے بغیر حکم کرنا ایساکفرنہیں جو ملت سے خارج کردے ہم ان آثار کو نقل کرکے درباری ملاؤں کے شبہات کا جواب دیتے ہیں بعون اللہ وتوفیقہ۔
٭ امام طبری رحمہ اللہ فرماتے ہیں :ہمیں حدیث بیان کی ھناد نے ہمیں بیان کیا وکیع نے اور ہمیں بیان کیا وکیع کے بیٹے نے کہا ہمیں بیان کیا میرے باپ نے وہ سفیان سے وہ معمر بن راشد سے وہ طاؤس کے بیٹے سے وہ اپنے باپ سے وہ ابن عباس سے ومن لم یحکم بما انزل اﷲ فاولئک ہم الکافرون اور جو اللہ کے نازل کردہ کے مطابق حکم نہ کریں سویہی کافر ہیں ۔فرمایا:یہ اس کے ساتھ کفر ہے اور اللہ اور اس کے فرشتوں اور اس کی کتابوں اور اس کے رسولوں کے ساتھ کفرنہیں ۔
٭ ہمیں حدیث بیان کی حسن نے کہا ہمیں بیان کیا ابواسامہ نے سفیان سے وہ معمر سے وہ طاؤس کے بیٹے سے وہ اپنے باپ سے کہا ایک شخص نے ان آیات ومن لم یحکم بما انزل اﷲ کے متعلق کہا جو ایسا نہ کرے اس نے کفر کیا؟ابن عباس نے کہا جب وہ ایسا کرے تویہ اس کے ساتھ کفر ہے اور وہ اس شخص کی طرح نہیں جس نے اللہ اوریوم آخرت اور فلاں فلاں کے ساتھ کفر کیا۔
٭ ہمیں حدیث بیان کی حسن بن یحییٰ نے کہا ہمیں خبر دی عبدالرزاق نے کہا ہمیں خبر دی معمر نے طاؤس کے بیٹے سے وہ اپنے باپ سے کہا ابن عباس سے اللہ کے فرمان :ومن لم یحکم بما انزل اﷲ فاولئک ہم الکافرون کے متعلق پوچھاگیا آپ نے کہا یہ اس کے ساتھ کفر ہے ۔طاؤس کے بیٹے نے کہا اس کے ساتھ کفر ہے اور وہ اس شخص کی طرح نہیں ہے جس نے اللہ اور اس کے فرشتوں اور اس کی کتابو ں اور اس کے رسولوں کے ساتھ کفر کیا۔ (تفسیر طبری :6/256)
٭ امام طبری رحمہ اللہ مزید فرماتے ہیں:مجھے حدیث بیان کی مثنی نے کہا ہمیں بیان کیا عبداللہ بن صالح نے کہا مجھے بیان کیا معاویہ بن صالح نے علی بن ابی طلحہ سے وہ ابن عباس سے فرمان باری تعالیٰ :ومن لم یحکم بما انزل اﷲ فاولئک ہم الکافرون فرمایاجس نے جحود (انکار )کیا اس کا جو اللہ نے نازل کیا اس نے کفر کیا اور جس نے اقرار کیا اور حکم نہ کیا تو وہ ظالم فاسق ہے۔
٭ ابن کثیررحمہ اللہ فرماتے ہیں:اور فرمایا ابن ابی حاتم نے ہمیں حدیث بیان کی محمد بن عبداللہ بن یزید المقری نے ہمیں بیان کیا سفیان ابن عیینہ نے ہشام بن حجیر سے وہ طاؤس سے وہ ابن عباس سے فرمان باری تعالیٰ :ومن لم یحکم بما انزل اﷲ فاولئک ہم الکافرون کے بارے میں فرمایا:یہ وہ کفرنہیں جس کی طرف وہ جاتے ہیں ۔روایت کیا اسے حاکم نے اپنی مستدرک میں 2313سفیان ابن عیینہ کی حدیث سے اور فرمایا صحیح ہے شیخین کی شرط پر اور ان دونوں نے اس کی تخریج نہیں کی ۔ (تفسیر ابن کثیر:2/62)
ہم اس شبہے کا چند طریقوں سے جواب دیں گے بعون اللہ وقدرتہ:
سند کے اعتبار سے :
(الف): وہ روایت جو ”طاؤس“ کے بیٹے سے وہ اپنے باپ سے وہ ابن عباس رضی اللہ عنہ سے “وارد ہے اس میں ظاہر ہے کہ یہ عبارت ”یہ اس کے ساتھ کفر ہے اور وہ اس شخص کی طرح نہیں جس نے اللہ اور اس کے فرشتوں اور اس کی کتابوں اور اس کے رسولوں کے ساتھ کفرکیا“طاؤس کے بیٹے کا قول ہے جیسا کہ اس بات کی صراحت اس روایت میں بھی ہے جو امام طبری نے حسن بن یحییٰ سے روایت کی ہے واللہ اعلم ۔ (ملاحظہ ہو تفسیر ابن کثیر:2/62،نیز تعظیم قدر الصلاۃ از محمد بن حسن المروزی:2/521)
(ب): وہ اثر جسے علی بن ابی طلحہ رحمہ اللہ نے ابن عباس رضی اللہ عنہ سے روایت کیا ہے تو علی بن ابی طلحہ ابن عباس رضی اللہ عنہ سے روایت نہیں کرتے اور ان کی ان سے خبر مرسل ہوتی ہے لہٰذا اس کی سند میں انقطاع ہے جیسا کہ عطاءنے ثابت کیا ہے ایسے ہی اس کی توثیق مختلف فیہ ہے اور جرح تعدیل پر مقدم ہوتی ہے جیسا کے آگے آئے گا ان شاءاللہ۔
ابن حجررحمہ اللہ فرماتے ہیں :علی بن ابی طلحہ کانام سالم بن مخارق الہاشمی ہے کنیت ابوالحسن ہے اصل میں جزیرہ کاہے پھر حمص میں منتقل ہوگیا ابن عباس سے روایت کی ہے ان سے سنا نہیں ان دونوں کے درمیان مجاہد،ابوالوداک جبر بن نوف اور راشد بن سعد المقرئی اور قاسم بن محمد بن ابوبکر وغیرہم ہیں ۔
میمونی امام احمد سے نقل کرتا ہے ،اس کی کچھ چیزیں منکرات ہیں اور وہ حمص کا رہنے والا ہے اور امام آجری ابوداؤد سے نقل کرتے ہیں:وہ ان شاءاللہ مستقیم الحدیث ہے لیکن اس کی رائے بری ہے تلوار کا قائل ہے اور حجاج بن محمد نے اسے دیکھا ہے ۔اور امام نسائی فرماتے ہیں :اس میں کوئی برائی نہیں ۔اور دحیم کہتے ہیں:اس نے ابن عباس سے تفسیر نہیں سنی۔اور صالح بن محمد نے کہا:کوفیوں اور شامیوں وغیرہ نے اس سے روایت کی ہے اور یعقوب بن سفیان نے کہا :ضعیف الحدیث ہے منکر ہے اچھے مذہب والا نہیں اور ایک جگہ فرمایا:شامی ہے نہ تومتروک ہے نہ ہی حجت ہے اور ابن حبان نے اسے ثقات میں ذکر کیا ہے اور کہا ابن عباس سے روایت کرتا ہے اور آپ کو دیکھا نہیں ہے۔اور اسے عجلی نے ثقہ کہا ہے۔(تہذیب التھذیب:7/298)
ابوالحجاج المزی رحمہ اللہ فرماتے ہیں :یعقوب بن اسحاق بن محمود نے کہا صالح بن محمد سے علی بن ابی طلحہ کے متعلق پوچھاگیا کہ کیاان لوگوں سے ہے جنہوں نے تفسیر کا سماع کیا فرمانے لگے:میں ان لوگوں میں نہیں پاتا (تہذیب الکمال :20/490نیز المغنی فی الضعفاء:2/41،میزان الاعتدال فی نقد الرجال :15/163،الکاشف 2/41یہ تینوں امام ذہبی کی تالیفات ہیں نیز تحفۃ التحصیل فی ذکر رواۃ المراسیل :1/234 از احمد بن عبدالرحیم الکردی ،نیزالضعفاء:3/34 از ابوجعفر العقیلی نیز تقریب التھذیب:1/402 از ابن حجر عسقلانی،نیزرجال مسلم:2/56 از ابوبکر بن منجویہ الاصبہانی نیز تاریخ بغداد:11/428 از خطیب بغدادی،نیز کتاب بحرالدم :1/304 از احمد بن محمد بن حنبل،نیز المراسیل :1/140از ابن ابی حاتم ،نیز تحفۃ الطالب:1/380 از ابن کثیر رحمہ اللہ )۔
(ج): وہ اثر جسے ہشام بن حجیر نے طاؤس سے انہوں نے ابن عباس سے روایت کیا اللہ کے اس فرمان ومن لم یحکم بما انزل اﷲ فاولئک ہم الکافرون کے متعلق کہ ابن عباس نے فرمایا:یہ وہ کفرنہیں جس کی طرف وہ جاتے ہیں۔اس اثر کو امام حاکم نے اپنی مستدرک میں (2/342)نقل کیا ہے ۔ہشام بن حجیر کو بعض نے ثقہ ودیگر نے مجروح قرار دیا ہے ابوالحجاج المزی رحمہ اللہ اس کے متعلق فرماتے ہیں:ابن شبرمہ نے فرمایا:مکہ میں اس کی طرح کوئی نہیں اورعبداللہ بن احمد بن حنبل نے فرمایا:میں نے اپنے والد سے اس کے متعلق پوچھا تو فرمانے لگے وہ قوی نہیں،میں نے کہا ضعیف ہے کہنے لگے ایسا بھی نہیں کہتے ہیں میں یحییٰ بن معین سے اس کے متعلق پوچھا توانہوں نے اسے بہت ضعیف قرار دیا اور اسحاق بن منصور یحییٰ بن معین سے روایت کرتے ہیں کہ ”صالح“ہے اور عجلی نے کہا ثقہ ہے صاحب سنت ہے او رابوحاتم نے کہا اس کی حدیث لکھی جاتی ہے اور علی بن مدینی نے کہا میں نے یحییٰ بن سعید پر پڑھا کہ ہمیں ابن جریج نے بیان کیا ہشام بن حجیر سے تو یحییٰ بن سعید فرمانے لگے مناسب ہو کہ میں اسے چھوڑ دوں میں نے کہا اس کی حدیث لکھ دوں فرمانے لگے ہاں اور ابوعبیدہ الآجری نے کہا کہ میں نے ابوداؤد سے سنا کہہ رہے تھے کہ ہشام بن حجیر کو مکہ میں حد لگائی گئی میں نے کہا کس لئے کہنے لگے جس سلسلے میں اہل مکہ پر حد لگائی جاتی رہتی ہے اور ابن حبان نے اسے کتاب الثقات میں ذکر کیا ہے بخاری ومسلم اور نسائی اس کی روایت لائے ہیں ۔ (تھذیب الکمال:30/179،180)
ابن حجررحمہ اللہ فرماتے ہیں :ہشام بن حجیر المکی کو عجلی اور سعد نے ثقہ قرار دیا ہے اور ابن یحییٰ القطان اور یحییٰ بن معین نے ضعیف قرار دیاہے اور امام احمدنے کہا کہ قوی نہیں ہے اور ابوجعفر نے اسے ضعفاءمیں ذکرکیا ہے سفیان بن عیینہ سے مروی ہے کہ نہیں لی جاتی ا س سے مگر صرف وہ روایت جو ہم اس کے سوا اور کسی کے پاس نہ پاتے اور ابوحاتم نے کہا اس کی حدیث لکھی جاتی ہے میں کہتا ہوں بخاری میں اس سے سوائے طاؤس عن ابی ہریرہ کے اور کوئی حدیث نہیں بخاری میں یہ ہے کہ :سلیمان بن داؤدعلیہما السلام نے کہا کہ آج میں90عورتوں کے پاس ضرور جاؤں گا ....الحدیث۔ امام بخاری نے اسے قسموں کے کفارے میں اسی کے طرق سے اور کتاب النکاح میں عبداللہ بن طاؤس کی اس کے باپ سے متابعت میں وارد کیا ہے ۔(مقدمۃ فتح الباری الفصل التاسع فی سیاق اسماءمن طعن فیہ ،حرف الھاءھشام بن حجیر :1/447-448)
میں کہتاہوں:صحیح مسلم میں بھی اس کی دوحدیثیں ہیں ایک تویہی اللہ کے نبی سلیمان علیہ السلام کی حدیث باب الاستثناءمیں امام مسلم نے یہ حدیث چار طریق سے روایت کی ہے ایک طریق میں ہشام بن حجیر بھی ہے دوسری حدیث عمرہ میں تقصیر سے متعلق ہے امام مسلم نے یہ حدیث حسن بن مسلم کی متابعت میں روایت کی ہیں جیسا کہ سفیان ابن عیینہ کا بھی یہی قول ہے ۔
(ملاحظہ ہو:زاد المعاد:2/137لابن قیم،الجرح والتعدیل 6/259،نیز9/53،لابن ابی حاتم ، من تکلم فیہ :1/187 نیز میزان الاعتدال فی نقد الرجال :7/77،نیزالکاشف:2/335للامام ذہبی ، معرفۃ الثقات:2/327 از ابولحسن العجلانی، الثقات:7/567 ازمحمد بن حبان،الضعفاءوالمتروکین :3/174 از ابن الجوزی، لسان المیزان :7/417نیزتھذیب التھذیب:8/92 نیزتقریب التھذیب:1/572،الکامل فی ضعفاءالرجال:5/119نیز7/111ازابن عدی الجرجانی،جامع التحصیل :1/58ازابوسعید العلائی،الضعفاءالکبیر:4/337ازامام عقیلی ، التعدیل والتجریح:3/1169ازابوالولیدالباجی،الطبقات الکبری:5/448نیز1/385نیز1/401،402نیز3/30،ابن سعد، حجۃ الوداع:1/442ازابن حزم رحمہ اللہ )
خلاصہ یہ کہ بعض علماءنے ہشام بن حجیر کی توثیق کی ہے توبعض نے اسے مجروح قراردیا ہے اور اصول میں یہ بات ثابت ہے کہ جرح تعدیل پر مقدم ہوتی ہے (ملاحظہ ہو نخبة الفکر:1/232 ، الاحکام 2/99 از امام آمدی، الکفایۃ فی علم الروایۃ از خطیب بغدادی رحمہ اللہ )
2۔ اگر ہم ابن عباس رضی اللہ عنہ سے مروی روایات کی صحت کو تسلیم کرلیں تب بھی حجت قائم نہیں ہوسکتی کیونکہ صحیح قول کے مطابق صحابی کا قول حجت نہیں بن سکتا امام آمدی فرماتے ہیں :
نوع ثانی صحابی کا مذہب :اس میں دومسئلے ہیں ایک یہ کہ اس بات پر سب کا اتفاق ہے کہ صحابی کاقول اجتہادی مسائل میں دیگر صحابہ کے لئے حجت نہیں بن سکتا خواہ وہ امام ہو یا حاکم یا مفتی البتہ تابعین اور دیگر مابعد مجتہدین کے لئے حجت ہونے سے متعلق اختلاف ہے معتزلہ ،اشاعرہ اور امام شافعی کے دومیں سے ایک قول کے مطابق اور امام احمد بن حنبل سے دوروایات میں سے ایک روایت کے مطابق وہ حجت نہیں اور امام مالک بن انس اور امام ابوحنیفہ کے شاگردان امام رازی اور امام بردیجی اور امام شافعی کے ایک قول اور امام احمد کی ایک روایت کے مطابق قیاس کے مقابلے میں حجت ہوسکتا ہے ایک قوم کا مذہب یہی ہے کہ قیاس کے مقابلے میں حجت ہے وگرنہ نہیں ایک اور طبقے کا کہنا ہے کہ ابوبکر وعمر کا قول حجت ہے اور کسی کا نہیں صحیح بات یہی ہے کہ صحابی کا قول مطلق حجت نہیں ہوتا۔(الاحکام:4/155للآمدی)
3۔ ان دلائل کاردّ باعتبار علم اصطلاح:اگر ہم ابن عباس رضی اللہ عنہ سے مروی روایات کی صحت بھی تسلیم کرلیں اور صحابی کے قول کی حجیت بھی پھر بھی ابن عباس رضی اللہ عنہ کی روایات علی الاطلاق قبول نہیں کی جاسکتیں کیونکہ بعض روایات مطلق ہیں جبکہ بعض مفصل ابن طاؤس کی طاؤس سے مروی ایک روایت میں ہے کہ ابن عباس رضی اللہ عنہ نے فرمایا کہ ”یہ اس کے ساتھ کفر ہے “ابن طاؤس نے کہا کہ یہ اس کے ساتھ کفرہے وہ اس شخص کی طرح نہیں جس نے اللہ اور اس کے فرشتوں اور اس کی کتابوں اور اس کے رسولوں کے ساتھ کفر کیا۔
ابن طاؤس کی دوسری روایت میں ہے کہ ابن عباس رضی اللہ عنہ نے فرمایا:اگر وہ ایسا کرے تو یہ اس کے ساتھ کفر ہے اور وہ اس شخص کی طرح نہیں جس نے اللہ اور روز آخرت اور ایسا ایسا کے ساتھ کفر کیا۔
علی بن ابی طلحہ کی ابن عباس رضی اللہ عنہ سے مروی تیسری روایت میں ہے کہ :فرمان باری تعالیٰ :ومن لم یحکم بما انزل اﷲ فاولئک ہم الکافرون ابن عباس رضی اللہ عنہ نے کہا کہ جس نے جحود (انکار)کیااس کا جو اللہ نے نازل کیا تو اس نے کفر کیا اور جس نے اقرار توکیا مگرحکم نہ کیا تووہ ظالم فاسق ہے(تفسیر طبری:6/256-257) ۔چنانچہ تفضیل ہی مذہب مختار ہے ابن جریر ابن قیم اور محمد بن ابراہیم رحمہ اللہ کایہی قول ہے ۔
ابن جریررحمہ اللہ فرماتے ہیں :ان اقوال میں میرے نزدیک صحیح ترین قول اس شخص کاہے جو کہتا ہے کہ یہ آیات اہل کتاب کفارکے متعلق اتریں کیونکہ ان آیات کاماقبل ومابعد انہی کے بارے میں نازل ہوا اور وہی مراد ہیں اور یہ آیات انہی کے متعلق خبرکا سیاق ہیں تو ان آیات کاان کے متعلق خبرہونا ہی زیادہ صحیح ہے ۔پھر اگر کوئی کہے کہ اللہ تعالیٰ کی یہ خبر عام ہے ہر اس شخص کے متعلق جو اللہ کے نازل کردہ کے متعلق حکم نہ کرے تو آپ اسے خاص کیسے قرار دے سکتے ہیں ؟اس سے کہا جائے گا کہ اللہ تعالیٰ کی یہ خبر اس قوم کے بارے میں عام ہے جو اللہ کے اپنی کتاب میں ذکر کردہ حکم کا انکار کرتے تھے تو اللہ نے ان کے بارے میں خبردی کہ وہ اللہ کے حکم کو اس طریقے سے چھوڑنے کی وجہ سے کافر ہیں ۔یہی بات ہر اس شخص کے بارے میں کہی جائے گی جو اللہ کے نازل کردہ کے مطابق حکم نہ کرے اس کا انکار کردے تو وہ اللہ کے ساتھ کفر کرنے والا ہے جیسا کہ ابن عباس رضی اللہ عنہ نے اسے فرمایاکیونکہ اس نے اس بات کے علم کے باوجود کے اللہ نے اپنی کتاب میں نازل کیا ہے اللہ کے حکم کا انکار کردیا یہ ایسے ہی ہے کہ جس نے اس بات کاعلم ہونے کے باوجود کہ آپ اللہ کے نبی ہیں آپ کی نبوت کو ماننے سے انکارکردیا۔(تفسیرطبری:6/257)
کفر اعتقاد کی اقسام اور سابقہ بیانات پر مؤلف کا کلام:
میں کہتا ہوں کہ سیکولر حکمرانوں اور ان کے تابعدار ججوں قانون سازوں ،مفکرین اور مددگاروں کا بھی یہی حال ہے وہ بھی اللہ کے حکم کی حجیت وحقیقت کا انکار کرتے ہیں حالانکہ انہیں اس بات کا علم بھی ہے کہ یہ اللہ کا نازل کردہ حکم ہے او رکہتے ہیں کہ حکم کا اختیار پارلیمنٹ کی غالب اکثریت یا حکمران جماعت کے پاس ہوتا ہے یا حاکم کی مرضی کے مطابق اور اب مسئلہ صرف ایک حاکم کا ہی نہیں کہ وہ اللہ کے نازل کردہ حکم سے انحراف کرکے علانیہ متبادل وضعی قوانین اختیار کرتا ہے اور لوگوں کو ان کا پابند بناتاہے اور اسے عدل وحریت قرار دیتا ہے اور علی الاعلان کہتا ہے کہ سیادت صرف ایک ہی جماعت کا حق ہے اورکسی کا نہیں بلکہ ایک مکمل نظام کا ہے جودستور قانون کو ہر حاکم ومحکوم اور پارلیمنٹ کے اسپیکر اور سیکیورٹی فورسز اور وکلاءوغیرہ سب کے لئے فرض قرار دیتا ہے کہ وہ شریعت کے حکم کا التزام نہ کرے اور شریعت کے علاوہ حکم کے آگے سرنگوں ہواور سیکولرقوانین ودساتیر کا احترام کرے اور ان کا دفاع کرے ۔
یہ خلاف شریعت حکم کفر کا ایک مکمل نظام ہے جو ان سیکولر قوانین کو نہیں مانتا اسے مجرم قرار دیتا ہے اپنی دستوری ،اساس ،فکری سیادت ،قانونی احکامات ،سیاسی سرگرمیوں اور اجتماعی نظم سے اسلام کی مکمل مخالفت کرتا ہے اگر اس کتاب میں اختصار مطلوب نہ ہوتا توہم اس پر تفصیلی روشنی ڈالتے لیکن یہاں اسلام اور اس وضعی نظام کے مابین چند فروق کی طرف اشارہ کرنے پر اکتفاءکرتے ہیں تاکہ مسلمانوں کے لئے ان پر حکومت کرنے والے نظاموں کاانحراف اور اس کا دفاع کرنے والے گمراہ کن رجسٹرڈ ملاؤں ،مصنفین ،صحافیوں اور گمراہ داعیان وغیرہ کی گمراہی کاپول کھل کر سامنے آجائے ۔واللہ المستعان۔
علامہ محمد بن ابراہیم رحمہ اللہ فرماتے ہیں:اللہ تعالیٰ اپنے نبی محمد صلی اللہ علیہ وسلم کو یہود کے مابین حکم کرنے یا ان سے اعراض کرنے کے متعلق خبر دیتے ہوئے فرماتا ہے کہ :
فَإِنْ جَاءُوكَ فَاحْكُمْ بَيْنَهُمْ أَوْ أَعْرِضْ عَنْهُمْ وَإِنْ تُعْرِضْ عَنْهُمْ فَلَنْ يَضُرُّوكَ شَيْئًا وَإِنْ حَكَمْتَ فَاحْكُمْ بَيْنَهُمْ بِالْقِسْطِ إِنَّ اللَّهَ يُحِبُّ الْمُقْسِطِينَ (٤٢)
پس اگر وہ آپ کے پاس فیصلہ کروانے آئیں تو آپ چاہیں تو ان کے درمیان حکم کردیں یاان سے اعراض کرلیں اور اگر آپ ان سے اعراض کریں گے تو وہ ہرگز آپ کو نقصان نہ پہنچاسکیں گے اوراگر آپ حکم کریںتوعدل کے ساتھ حکم کریں یقینااللہ قسط(عدل)کرنے والوں کو پسند فرماتا ہے۔
قسط عدل کو کہتے ہیں اور اللہ اور اس کے رسول کے حکم سے بڑھ کر عدل نہیں ہوسکتا اور اس کے برعکس حکم ظلم وجور ،گمراہی، کفر اور فسق ہے اسی لئے اس کے بعد اللہ نے فرمایا:ومن لم یحکم بما انزل اﷲ فاولئک ہم الکافرون....الظالمون....الفاسقون اورجو لوگ اللہ کے نازل کردہ کے مطابق حکم نہ کریں سویہی لوگ کافر ہیں....ظالم ہیں....فاسق ہیں۔غور کریں اللہ تعالیٰ نے کس طرح اللہ کے نازل کردہ کے بغیر حکومت کرنے والوں پر کفر ظلم وفسق کا انطباق کیا یہ ممکن ہی نہیں کہ اللہ اپنے نازل کردہ کے بغیر حکم کرنے والے کو کافر کہے پھربھی وہ کافر نہ ہو بلکہ وہ مطلق کافر ہے یا تو کفر عملی یا کفر اعتقاد اور اس آیت کی تفسیر میں طاؤس کی ابن عباس رضی اللہ عنہ سے مروی روایت وغیرہ میں دلیل ہے کہ اللہ کے نازل کردہ کے بغیر حکم کرنے والے کافر ہیں یا کفر اعتقاد جو دین سے نکال دے یاکفر عملی جو دین سے نہیں نکالتا ۔کفر اعتقاد چند قسم پر ہے :
اللہ کے نازل کردہ کے بغیر حکومت کرنے والا اللہ اور اس کے رسول کے حکم کے ”احق“یعنی حق تر اور مستحق تر ہونے کا انکار کردے ابن عباس رضی اللہ عنہ سے یہی معنی مروی ہے ابن جریر نے اسے ہی اختیار کیا ہے کہ یہ اللہ کے نازل کردہ حکم شرعی کا انکار ہے س میں اہل علم کا بالکل اختلاف نہیں ان کے مابین یہ اصول متفقہ ومقررہ ہے کہ جو اصول دین میں سے کسی بھی ایک اصل یا کسی بھی ایک متفقہ فرع یا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے لائے ہوئے کسی بھی ایک حرف قطعی کا انکار کردے وہ کافر ہے اس کا کفر دین سے خارج کردیتا ہے۔
اللہ کے نازل کردہ کے بغیر حکومت کرنے والااللہ اور اس کے رسول کے حکم کے حق ہونے کا انکارنہ کرے لیکن غیر رسول صلی اللہ علیہ وسلم کے حکم کو آپ کے حکم سے اچھا ہونے کا اعتقاد رکھے اس کے کفر میں بھی کچھ شک نہیں کیونکہ یہ مخلوق کے احکام محض ذہنی اختراعات اور پراگندہ افکار سے زیادہ حیثیت نہیں رکھتے ۔
یہ اعتقاد رکھے کہ وہ حکم اللہ اور اس کے رسول کے حکم سے زیادہ اچھا ہے لیکن یہ اعتقاد رکھے کہ اس کے ہم پلہ ہے تویہ بھی سابقہ دوافراد کی طرح کافر ہے جس کا کفر دین سے نکال دیتاہے کیونکہ اس اعتقاد کے ذریعے وہ خالق اور مخلوق کو برابرقرار دے رہا ہے۔
اللہ کے نازل کردہ کے بغیر حکومت کرنے والے کے حکم کے متعلق یہ اعتقاد بھی نہ رکھے کہ وہ اللہ اور اس کے رسول کے حکم کے برابر ہے چہ جائیکہ اس سے اچھا ہونے کا اعتقاد رکھے لیکن اللہ اور اس کے رسول کے مخالف حکم کے ساتھ حکومت کے جائز ہونے کااعتقاد رکھتا ہے جس کے متعلق اسے علم ہے کہ وہ صحیح ،صریح اور قاطع نصوص کی روشنی میں حرام ہے۔
یہ شریعت کی سب سے زیادہ اور سب سے بڑھ کر مخالفت ہے اور شرعی عدالتوں کی مشابہت ہے :جس طرح شرعی عدالتوں کے مراجع ومآخذ ہوتے ہیں جن کا مرجع مکمل طور پر کتاب وسنت ہوتے ہیں ایسے ہی ان عدالتوں کے بھی مراجع ومختلف قوانین سے مل کر بنائے گئے قوانین ہوتے ہیں۔بہت سے اسلامی ممالک میں اس طرح کی عدالتیں موجود ہیں جن کے ججز لوگوں کے مابین کتاب وسنت کے احکام کے مخالف ان قوانین سے ثابت شدہ احکام کے مطابق فیصلے کرتے ہیں اور انہیں ان کا پابند قراردیتے ہیں تو اس کفر سے بڑھ کر کون ساکفر ہوگا؟
اہل عقل کو چاہیئے کہ وہ ان سے ویسے ہی دور رہیں کیونکہ یہ عدالتیں انہیں اپنا عابد بنالیں گی اور ان کے متعلق اپنی خواہشات اورمفادات،اغلاط و اخطاءکے مطابق فیصلے کریں گی چہ جائیکہ ان کے کفر ہونے کی وجہ سے ایسا کریں جیسا کہ فرمایا:ومن لم یحکم بما انزل اﷲ فاولئک ہم الکافرون اور جو اللہ کے نازل کردہ کے مطابق حکم نہ کریں سو یہی لوگ کافر ہیں ۔وہ حکم جس کے مطابق دیہاتوں میں رہنے والے اکثر قبائل وخاندان اپنے آباءواجداد کے طور وطریقے اپناتے ہیں ۔
اللہ کے نازل کردہ کے بغیر حکم کرنے والے کے کفر کی دوسری قسم جو اسے دین سے خارج نہیں کرتی :ابن عباس رضی اللہ عنہ کی آیت مذکور سے متعلق تفسیر اس قسم کو بھی شامل ہے وہ یہ کہ انہوں نے اس آیت کے متعلق فرمایا:”کفر دون کفر“نیز ”یہ وہ کفرنہیں جس کی طرف تم لوگ جاتے ہو“اس کا مطلب یہ ہے کہ اللہ اور اس کے رسول کے حکم کے برحق ہونے کا اعتقاد رکھنے کے باوجودمعاملے خواہش وشہوت کے مطابق فیصلہ کرنا اور ساتھ ساتھ یہ اعتراف بھی کرناکہ غلطی پر ہے حق کے مخالف ہے اگرچہ یہ کفر دین سے خارج نہیں کرتا لیکن بہت بڑی نافرمانی ہے حتی کہ کبائر جیسے زناء،شراب نوشی ،چوری،جھوٹی قسم وغیرہ سے بھی بڑا گناہ کیونکہ جس نافرمانی کا نام اللہ کفر رکھے وہ اس نافرمانی سے بڑھ کر ہوتی ہے جس کانام وہ کفر نہ رکھے ۔(شیخ محمد ابراہیم آل شیخ سابق مفتی اعظم سعودیۃ ۔ رسالۃ تحکیم القوانین ص 13-21)
امام ابن قیم رحمہ اللہ ان آیات کی تفسیر میں فرماتے ہیں :صحیح بات یہ ہے کہ اللہ کے نازل کردہ کے بغیر حکم کرنا حکم کرنے والے کی حالت کے اعتبار سے کفر اصغر اورکفر اکبر دونوں کو شامل ہے ۔اگر اس کا اعتقاد ہوکہ اس واقعہ میں اللہ کے نازل کردہ کے مطابق حکم کرنا واجب ہے مگر اس کی نافرمانی کرتا ہے اور یہ اعتراف بھی کرتا ہے کہ اس طرح وہ سزا کا مستحق بن جائے گا تویہ کفر اصغر ہے اوراگر یہ اعتقاد رکھتا ہو کہ یہ واجب نہیں ہے اور اسے اس میں اختیارہے اور اسے یہ یقین بھی ہے کہ یہ اللہ کا حکم ہے تویہ کفر اکبر ہے اور اگر اس سے بے خبر ہے یا اسے سمجھنے میں غلطی کررہا ہے تو اس کا حکم وہی ہے جو مخطی کا ہوتا ہے ۔(مدارج السالکین:1/336-337)
میں کہتا ہوں کہ :ان سیکولر نظاموں کے دساتیر اس بات کی صراحت کرتے ہیں کہ سیادت اور حکومت صرف ایک ہی گروہ کا حق ہے اور دستور ہی تمام قوانین کا سرچشمہ ہے اس کی مخالفت جائزنہیں اور عدالتوں میں بھی اسی قانون کے مطابق حکم ہوگااس کے بغیر حکم ناجائز ہے اور اس کے حکم کی دلیل بھی دستور او رقانون سے لی جائے گی اور سیکولر جج یہ اختیار نہیں رکھتا کہ اس قانون کی خلاف ورزی کرے اور شریعت کے مطابق فیصلہ دے اور اس قانون پر باطل ہونے کا حکم لگائے اگر ایسا کرے گا تو اسے اس کے منصب سے فارغ کردیا جائے گا انہیں اس بات کا اچھی طرح علم ہے کہ وہ یہ سب جو کہتے ہیں وہ اسلامی عقیدہ اور شریعت اسلامیہ کی ضد ہے۔
7۔ چند آثار از صحابہ رضی اللہ عنہم :اگر ہم ابن عباس رضی اللہ عنہ سے مروی روایات کی صحت کو تسلیم کرلیں پھر بھی وہ عصر حاضر کے مرجئہ کے حق میں دلیل نہیں بن سکتیں جن کا مذہب ودعویٰ ہے کہ جو اللہ کے نازل کردہ کے مطابق حکم نہ کرے وہ کافرنہیں اگرچہ تمام شہروں کے قوانین کو سیکولر اور نصرانی قوانین سے بدل ڈالیں اور شریعت کی حاکمیت کا انکار کردیں اور اس کے بدلے کسی ایک جماعت ،گروہ یاغالب اکثریت اور ذاتی خواہشات کی حاکمیت مان لیں کیونکہ صحابی کاقو ل اکیلے ہی حجت نہیں بن سکتا بلکہ قطعاً حجت نہیں بن سکتا جبکہ دیگر صحابہ کے اقوال اس کے مخالف ہوں عمرفاروق،اور عبداللہ بن مسعود رضی اللہ عنہماسے ایسے اقوال مروی ہیں جو اللہ کے نازل کردہ کے بغیر حکم کے کفر ہونے پر تاکید ہیں ۔
عبدالاعلیٰ بن حماد روایت کرتے ہیں ہمیں حدیث بیان کی حماد نے ابان بن ابی عیاش سے وہ مسلم سے کہ مسروق نے کہا میں نے عمر سے کہااے امیرالمومنین کیا آپ حکم (یعنی فیصلہ جات )میں رشوت دینے کو سحت (یعنی حرام)سے شمار کرتے ہیں۔ فرمایا:نہیں لیکن کفر سے درحقیقت سحت (حرام)یہ ہے کہ کسی شخص کاحاکم کے ہاں جاہ ومرتبہ ہو اور کسی دوسرے کو حاکم سے کوئی ضرورت آن پڑے تو وہ اس وقت تک اس کی حاجت پوری نہ کرے جب تک کہ وہ اسے (پہلے شخص کو)ہدیہ نہ دے۔(احکام القرآن للجصاص:4/85)
اسلم بن سہل الواسطی بشر بن محمد بن ابان بن مسلم کے ترجمہ میں فرماتے ہیں ہمیں حدیث بیان کی اسلم نےکہا ہمیں بیان کیا محمد بن عبداللہ بن سعید نے کہا ہمیں بیان کیا بشر بن محمد بن ابان بن مسلم الواسطی نے کہا ہمیں بیان کیا حماد بن سلمۃ نے ابان بن ابی عیاش سے وہ مسلم بن ابی عمران سے وہ مسروق سے انہوں نے کہا میں نے عمر بن خطاب سے کہا آپ بتائیے کیا حکم (یعنی فیصلہ جات)میں رشوت دینا سحت (یعنی حرام )ہے؟فرمانے لگے نہیں لیکن کفران (ناشکری)ہے ۔سحت یہ ہے کہ کسی آدمی کا حاکم کے نزدیک مرتبہ ہواور کسی دوسرے کو اس سے کام پڑجائے تو وہ اسے تحفہ پیش کرے تاکہ وہ اس کی ضرورت پوری کروادے۔(تاریخ واسط:1/181)
میں کہتا ہوں:ان دونوں آثار کی علت ابان بن ابی عیاش میں ہے ۔
(ملاحظہ ہو:التاریخ الکبیر:1/454، نیز التاریخ الصغیر :2/53، للامام البخاری،الضعفاءوالمتروکین:1/16للامام نسائی،المقتفی فی سرد الکنی:1/77 للذھبی، احوال الرجال:1/103 للاسحاق الجوزجانی ، حلیۃ الاولیاء:7/50 ابونعیم الاصبہانی ، الجرح والتعدیل:1/77 للامام ابن ابی حاتم رحمہ اللہ)
عبداللہ بن مسعودرضی اللہ عنہ کے اقوال :
امام ہیثمی رحمہ اللہ فرماتے ہیں :مسروق سے مروی ہے کہتے ہیں میں عبداللہ بن مسعودرضی اللہ عنہ کے پاس بیٹھاتھا کہ ایک شخص آپ سے کہنے لگا سحت (حرام )کیاہے کیا حکم (یعنی فیصلہ جات)میں رشوت دیناہے ؟فرمایا:یہ کفر ہے پھر یہ آیت پڑھی :ومن لم یحکم بما انزل اﷲ فاولئک ہم الکافرون جو اللہ کے نازل کردہ کے مطابق حکم نہ کریں سو یہ لوگ کافر ہیں۔اسے ابویعلیٰ نے روایت کیا ہے اور ابویعلیٰ کے شیخ محمد بن عثمان بن عمر کو میں نہیں جانتا (مسند ابی یعلیٰ :9/173-174، سنن البھیقی الکبریٰ:10/139)۔اور عبداللہ بن مسعودرضی اللہ عنہ سے مروی ہے فرمایا:حکم (یعنی فیصلہ جات)میں رشوت دینا تحفہ ہے اورلوگوں کے نزدیک یہ سحت(حرام)ہے ۔اسے طبرانی نے کبیر میں روایت کیا اور اس کے رجال صحیح کے رجال ہیں ۔(مجمع الزوائد:4/199-200، المعجم الکبیر:9/226، سنن سعید بن منصور جلد 4)
امام ہیثمی رحمہ اللہ فرماتے ہیں :فرمان باری تعالیٰ ”واکلھم السحت“اوران کا سحت کھانا۔عبداللہ بن مسعودرضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ ان سے سحت(حرام)کے متعلق پوچھاگیا فرمایاکہ :”رشوت ہے“کہاگیا حکم (یعنی فیصلہ جات )میں بھی ؟فرمایا:یہ کفر ہے۔اسے طبرانی نے شریک کے واسطے سے روایت کیاہے وہ سدّى¸ سے وہ ابوالضحیٰ سے اور سدّی کو میں نہیں جانتا اور اس کے باقی روات ثقہ ہیں ۔
میں کہتاہوں:میں نے اس روایت کو طبرانی معجم الکبیر حدیث نمبر9098میں شریک سے وہ سدّی سے وہ ابوالضحیٰ سے وہ مسروق سے وہ عبداللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ سے الحدیث اس سندسے بھی پایاہے ۔(مجمع الزوائد:7/15، المعجم الکبیر:19/252)
ابن جریر الطبری رحمہ اللہ فرماتے ہیں :مجھے حدیث بیان کی یعقوب بن ابراہیم نے کہا ہمیں بیان کیا ہشیم نے کہا ہمیں خبردی عبدالملک بن ابی سلیمان نے سلمہ بن کہیل سے وہ علقمہ اور مسروق سے ان دونوں نے عبداللہ بن مسعودرضی اللہ عنہ سے پوچھا کیا حکم (یعنی فیصلہ جات)میں رشوت دینا حرام ہے ۔فرمانے لگے :کیا فیصلہ جات میں ؟یہ تو کفر ہے۔(تفسیر الطبری:4/257،239،240، المعجم الکبیر:9/422)
میں کہتا ہوں:اس سند کے تمام روات اللہ کے فضل سے ثقہ ہیں (ملاحظہ ہویعقوب بن ابراہیم کا ترجمہ :الجرح والتعدیل :9/202 از ابن ابی حاتم،نیز سیر اعلام النبلاء:12/144،اور ہشیم بن بشیر کا ترجمہ :الکنی والاسماء:1/759 از امام مسلم نیز التاریخ الکبیر:1/311،8/242 از امام بخاری ،نیزالجرح والتعدیل :1/155،9/115۔نیز تذکرة الحفاظ:1/248،249 از طاہر بن محمد القیسرانی۔عبدالملک بن ابی سلیمان کا ترجمہ:تذکرة الحفاظ :1/155۔اورسلمہ بن کہیل کا ترجمہ:التاریخ الکبیر:4/74نیز الجرح والتعدیل :1/143،4/170۔علقمہ بن قیس کا ترجمہ:حلیة الاولیائ:2/98،99۔اور مسروق بن اجدع کا ترجمہ:التاریخ الکبیر:8/35 نیز الجرح والتعدیل :8/396)۔
ابن جریر الطبری رحمہ اللہ فرماتے ہیں:ہمیں حدیث بیان کی ھناد نے کہا ہمیں بیان کیا عبیدہ نے عمار سے وہ مسلم بن صبیح سے وہ مسروق سے کہا میں نے عبداللہ بن مسعودرضی اللہ عنہ سے پوچھا کیا حکم (یعنی :فیصلہ جات )میں رشوت لینا حرام ہے؟فرمانے لگے نہیں جو اللہ کے نازل کردہ کے مطابق حکم نہ کرے وہ کافر ہے اور جو اللہ کے نازل کردہ کے مطابق حکم نہ کرے وہ ظالم ہے اور جو اللہ کے نازل کردہ کے مطابق حکم نہ کرے وہ فاسق ہے لیکن حرام یہ ہے کہ کوئی شخص تجھ سے ظلم پر مدد مانگے اور تو اس کی مدد کردے پھر وہ تجھے تحفہ (بطور رشوت )دے جسے توقبول کرلے۔(تفسیر طبری:6/240،241، نیز احکام القرآن:4/84 از ابوبکر الجصاص نیز سنن بن سعید منصور جلد4 نیز سنن البھیقی الکبریٰ:10/139،شعب الایمان:4/390)
ابوبکر الجصاص رحمہ اللہ فرماتے ہیں:شعبہ نے منصور سے وہ سالم بن ابی الجعد سے وہ مسروق سے روایت کرتے ہیں انہوں نے کہا میں نے عبداللہ بن مسعودرضی اللہ عنہ سے پوچھا :مبنی برظلم حکم یعنی فیصلہ کرنے کے متعلق ؟فرمانے لگے ”یہ کفر ہے“اور میں نے آپ سے حرام کو (سحت)کے متعلق پوچھا فرمانے لگے رشوت ۔(احکام القرآن:4/84،85نیزسنن البھیقی الکبریٰ:10/139)
 

حرب بن شداد

سینئر رکن
شمولیت
مئی 13، 2012
پیغامات
2,149
ری ایکشن اسکور
6,345
پوائنٹ
437
تنظیم قاعدۃ الجہاد کے امیر ڈاکٹر ایمن الظواہری حفظہ اللہ ابن عباس رضی اللہ عنہ سے مروی روایت کے بارے میں لکھتے ہیں:
سمیر بھائی!۔ اللہ کا حکم یا اللہ کی شریعت کو نافذ کرنا مطلب۔۔۔ خلافت! تو بھائی عجمی کو کس لئے رگیدا جارہا ہے۔۔۔
یہ تو عرب میں ہوگی بھائی ہماری جان چھڑاو کسی طرح۔۔۔
اُن خاندانوں کا سوچو جن کی بیٹیاں اپنے باپ، بھائی، کی نوکری نہ ہونے کی وجہ سے یا کاروبار ختم ہوجانے کی وجہ سے۔۔۔
دو وقت کی روٹی سے محروم ہوکر جسم فروشی پر آمادہ ہوگئی ہیں۔۔۔ بارہ سال میں ایک مہذب معاشرہ۔۔۔ اپنی اخلاقی پستی میں ڈوب گیا۔۔۔
اور یہ شریعت نافذ کررہے ہیں۔۔۔ زولفیں بڑھانے کے علاوہ انہوں نے کتنی شریعت پر عمل کرلیا؟؟؟۔۔۔
 
شمولیت
فروری 07، 2013
پیغامات
453
ری ایکشن اسکور
924
پوائنٹ
26
جب اللہ کا دین نافذ ہوجائے گا تو ان شاء اللہ یہ تمام آفات ختم ہوجائیں گی ۔
سمیر بھائی!۔ اللہ کا حکم یا اللہ کی شریعت کو نافذ کرنا مطلب۔۔۔ خلافت! تو بھائی عجمی کو کس لئے رگیدا جارہا ہے۔۔۔
یہ تو عرب میں ہوگی بھائی ہماری جان چھڑاو کسی طرح۔۔۔
اُن خاندانوں کا سوچو جن کی بیٹیاں اپنے باپ، بھائی، کی نوکری نہ ہونے کی وجہ سے یا کاروبار ختم ہوجانے کی وجہ سے۔۔۔
دو وقت کی روٹی سے محروم ہوکر جسم فروشی پر آمادہ ہوگئی ہیں۔۔۔ بارہ سال میں ایک مہذب معاشرہ۔۔۔ اپنی اخلاقی پستی میں ڈوب گیا۔۔۔
اور یہ شریعت نافذ کررہے ہیں۔۔۔ زولفیں بڑھانے کے علاوہ انہوں نے کتنی شریعت پر عمل کرلیا؟؟؟۔۔۔
 

حرب بن شداد

سینئر رکن
شمولیت
مئی 13، 2012
پیغامات
2,149
ری ایکشن اسکور
6,345
پوائنٹ
437
جب اللہ کا دین نافذ ہوجائے گا تو ان شاء اللہ یہ تمام آفات ختم ہوجائیں گی ۔
لیکن یہ خرافات! اللہ کا دین نافذ کرنے کے لئے جو جہاد کیا جارہا ہے کیا اُس سے پہلے ہمارے معاشرے میں تھیں؟؟؟۔۔۔
اس بارے میں آپ کیا کہنا چاہیں گے؟؟؟۔۔۔ کیونکہ دوسری طرف آپ کی ہی بات سے دوسرا مطلب کیا نکل رہا ہے آپ سمجھ سکتے ہیں۔۔۔
بات ساری یہ ہے کہ ابھی اپنی چار دیواری محفوظ ہے اس لئے بلند وبانگ دعوٰے کئے جارہے ہیں۔۔۔ اللہ تعالٰی شعور کی نعمت سے بھی مالا مال فرمائے۔
 

باربروسا

مشہور رکن
شمولیت
اکتوبر 15، 2011
پیغامات
311
ری ایکشن اسکور
1,078
پوائنٹ
106
بھائی سمیر خان ! اس بار بار کے کاپی پیسٹ کا جواب بالکل یہی ہے کہ علماء کے بار بار کے دیے گئے واضح جوابات ایسے حضرات کو "منہ کروائے" جاتے رہیں ۔

آپ ان حضرات کے "پسندیدہ" تمام مسائل پر علماء کی موٹی موٹی تحاریر پاس رکھ لیں اور جب تک یہ کاپی پیسٹ چھوڑ کر سیدھی طرح بات نہیں کرتے ، ان کو یہی کافی ہے ان شاء اللہ۔

جزاک اللہ خیرا۔
 
شمولیت
اگست 30، 2012
پیغامات
348
ری ایکشن اسکور
970
پوائنٹ
91
السلام علیکم ورحمۃ اللہ ۔

الحمد اللہ علی ذلک ۔

تنظیم قاعدۃ الجہاد کے امیر ڈاکٹر ایمن الظواہری حفظہ اللہ ابن عباس رضی اللہ عنہ سے مروی روایت کے بارے میں لکھتے ہیں:
اب بوسیدہ تلبیسات کا دور گزر گیا سمیر اینڈ بروسا میاں۔۔
لمبے لمبے کاپی پیسٹ بھی اب رعب نہیں ڈال پائیں گے اللہ کے حکم سے۔
سمیر میاں ہم نے آپ کے "پر" گن رکھے ہیں اور اللہ کے فضل سے جو آپ نے کاپی پیسٹ کرنا تھا ، ہم نے اس کا جواب پہلے ہی لکھ دیا تھا۔

بعض لوگ اس روایت کو اس بنیاد پر ضعیف قرار دیتے ہیں کہ حضرت علی بن ابی طلحہ کا حضرت عبد اللہ بن عباس رضی اللہ سے سماع ثابت نہیں ہے۔
شیخ سلیم الہلالی نے اس اثر کے صحیح ہونے میں ایک کتاب 'قرة العیون فی تصحیح تفسیر عبد اللہ بن عباس' کے نام سے تالیف کی ہے کہ جس میں اس اثر کے بارے شبہات کا کافی وشافی رد موجود ہے۔ بحمد اللہ


جناب ذرا آپ ساتھ ساتھ یہ بھی بتا دیں گے کہ ایک ڈاکٹر کو علم حدیث میں کلام کی اجازت کس نے دی؟

ذات دی۔۔۔۔۔۔ شتیراں نوں۔۔۔۔۔۔۔!!

لاحول ولا قوۃ الا باللہ۔
 
شمولیت
اگست 30، 2012
پیغامات
348
ری ایکشن اسکور
970
پوائنٹ
91
سمیر نے کاپی پیسٹ کیا:
۔ اگر ہم ابن عباس رضی اللہ عنہ سے مروی روایات کی صحت کو تسلیم کرلیں تب بھی حجت قائم نہیں ہوسکتی کیونکہ صحیح قول کے مطابق صحابی کا قول حجت نہیں بن سکتا امام آمدی فرماتے ہیں :
لیں جی آ گئی بلی تھیلے سے باہر!!!
پہلے پورا زور لگایا ایک ڈاکٹر نے کہ وہ ابن عباس سے مروی روایات کو ضعیف و باطل قرار دے اور ٹہرا سکے ۔۔۔ مگر وہ خود جانتا تھا کہ وہ کیا خیانت کر رہا ہے،۔۔ اس لئے اسے پتا تھا اس کا صحت روایت کے بارے دجل کام نہیں آئے گا، لہذا اپنے حواریوں کو مطمئن کرنے کے لئے اگلی شرلی چھوڑ دی۔

واہ رہے واہ ۔۔۔ حاطب رضی اللہ عنہ کا معاملہ آیا تو اگر مگر اور اب مفسر قرآن ابن عباس کا معاملہ آیا تو پھر اگر مگر۔۔ ھھھ بہت خوب


اور تو اور جناب اب تو ان حضرات سے عبد اللہ بن عباس رضی اللہ عنہ قاطع خوارج ہی چھوٹ گئے ۔
قدیم خوارج نے بھی عبد اللہ بن عباس رضی اللہ عنہ کے فہم تحکیم سے اختلاف کیا تھا اور آج کے جدید خوارج کا بھی یہی وطیرہ ہے۔ اسغفراللہ
 
شمولیت
اگست 30، 2012
پیغامات
348
ری ایکشن اسکور
970
پوائنٹ
91
سمیر نے کاپی پیسٹ کیا:
اگر ہم ابن عباس رضی اللہ عنہ سے مروی روایات کی صحت کو تسلیم کرلیں پھر بھی وہ عصر حاضر کے مرجئہ کے حق میں دلیل نہیں بن سکتیں جن کا مذہب ودعویٰ ہے کہ جو اللہ کے نازل کردہ کے مطابق حکم نہ کرے وہ کافرنہیں اگرچہ تمام شہروں کے قوانین کو سیکولر اور نصرانی قوانین سے بدل ڈالیں اور شریعت کی حاکمیت کا انکار کردیں اور اس کے بدلے کسی ایک جماعت ،گروہ یاغالب اکثریت اور ذاتی خواہشات کی حاکمیت مان لیں
لیں جی روایت کی صحت پر تابڑ توڑ حملے کرنے والوں نے خود ہی تسلیم کر لیا کہ روایات کی صحت صحیح ہے ۔ اسی لئے تو کسی دوسرے بندوبست میں لگ گئ۔ :)
جناب اللہ کی لعنت ہو جھوٹ بولنے والوں اور بہتان لگانے والوں پر!
زرا یہ دعوی تو پیش کریں جو آپ نے "خودقرار دیئے" گئے "مرجئہ" کے نام لگا دیا ہے؟؟؟۔۔ :)
بروسا جی ہیلپ ہم آوٹ پلیز!!!


کیونکہ صحابی کاقو ل اکیلے ہی حجت نہیں بن سکتا بلکہ قطعاً حجت نہیں بن سکتا جبکہ دیگر صحابہ کے اقوال اس کے مخالف ہوں عمرفاروق،اور عبداللہ بن مسعود رضی اللہ عنہماسے ایسے اقوال مروی ہیں جو اللہ کے نازل کردہ کے بغیر حکم کے کفر ہونے پر تاکید ہیں ۔
1۔ عبدالاعلیٰ بن حماد روایت کرتے ہیں ہمیں حدیث بیان کی حماد نے ابان بن ابی عیاش سے وہ مسلم سے کہ مسروق نے کہا میں نے عمر سے کہااے امیرالمومنین کیا آپ حکم (یعنی فیصلہ جات )میں رشوت دینے کو سحت (یعنی حرام)سے شمار کرتے ہیں۔ فرمایا:نہیں لیکن کفر سے درحقیقت سحت (حرام)یہ ہے کہ کسی شخص کاحاکم کے ہاں جاہ ومرتبہ ہو اور کسی دوسرے کو حاکم سے کوئی ضرورت آن پڑے تو وہ اس وقت تک اس کی حاجت پوری نہ کرے جب تک کہ وہ اسے (پہلے شخص کو)ہدیہ نہ دے۔(احکام القرآن للجصاص:4/85)
2۔ اسلم بن سہل الواسطی بشر بن محمد بن ابان بن مسلم کے ترجمہ میں فرماتے ہیں ہمیں حدیث بیان کی اسلم نےکہا ہمیں بیان کیا محمد بن عبداللہ بن سعید نے کہا ہمیں بیان کیا بشر بن محمد بن ابان بن مسلم الواسطی نے کہا ہمیں بیان کیا حماد بن سلمۃ نے ابان بن ابی عیاش سے وہ مسلم بن ابی عمران سے وہ مسروق سے انہوں نے کہا میں نے عمر بن خطاب سے کہا آپ بتائیے کیا حکم (یعنی فیصلہ جات)میں رشوت دینا سحت (یعنی حرام )ہے؟فرمانے لگے نہیں لیکن کفران (ناشکری)ہے ۔سحت یہ ہے کہ کسی آدمی کا حاکم کے نزدیک مرتبہ ہواور کسی دوسرے کو اس سے کام پڑجائے تو وہ اسے تحفہ پیش کرے تاکہ وہ اس کی ضرورت پوری کروادے۔(تاریخ واسط:1/181)
میں کہتا ہوں:ان دونوں آثار کی علت ابان بن ابی عیاش میں ہے ۔
(ملاحظہ ہو:التاریخ الکبیر:1/454، نیز التاریخ الصغیر :2/53، للامام البخاری،الضعفاءوالمتروکین :1/16للامام نسائی،المقتفی فی سرد الکنی:1/77 للذھبی، احوال الرجال:1/103 للاسحاق الجوزجانی ، حلیۃ الاولیاء:7/50 ابونعیم الاصبہانی ، الجرح والتعدیل:1/77 للامام ابن ابی حاتم رحمہ اللہ)
عبداللہ بن مسعودرضی اللہ عنہ کے اقوال :
1۔ امام ہیثمی رحمہ اللہ فرماتے ہیں :مسروق سے مروی ہے کہتے ہیں میں عبداللہ بن مسعودرضی اللہ عنہ کے پاس بیٹھاتھا کہ ایک شخص آپ سے کہنے لگا سحت (حرام )کیاہے کیا حکم (یعنی فیصلہ جات)میں رشوت دیناہے ؟فرمایا:یہ کفر ہے پھر یہ آیت پڑھی :ومن لم یحکم بما انزل اﷲ فاولئک ہم الکافرون جو اللہ کے نازل کردہ کے مطابق حکم نہ کریں سو یہ لوگ کافر ہیں۔اسے ابویعلیٰ نے روایت کیا ہے اور ابویعلیٰ کے شیخ محمد بن عثمان بن عمر کو میں نہیں جانتا (مسند ابی یعلیٰ :9/173-174، سنن البھیقی الکبریٰ:10/139)۔اور عبداللہ بن مسعودرضی اللہ عنہ سے مروی ہے فرمایا:حکم (یعنی فیصلہ جات)میں رشوت دینا تحفہ ہے اورلوگوں کے نزدیک یہ سحت(حرام)ہے ۔اسے طبرانی نے کبیر میں روایت کیا اور اس کے رجال صحیح کے رجال ہیں ۔(مجمع الزوائد:4/199-200، المعجم الکبیر:9/226، سنن سعید بن منصور جلد 4)
2۔ امام ہیثمی رحمہ اللہ فرماتے ہیں :فرمان باری تعالیٰ ”واکلھم السحت“اوران کا سحت کھانا۔عبداللہ بن مسعودرضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ ان سے سحت(حرام)کے متعلق پوچھاگیا فرمایاکہ :”رشوت ہے“کہاگیا حکم (یعنی فیصلہ جات )میں بھی ؟فرمایا:یہ کفر ہے۔اسے طبرانی نے شریک کے واسطے سے روایت کیاہے وہ سدّى¸ سے وہ ابوالضحیٰ سے اور سدّی کو میں نہیں جانتا اور اس کے باقی روات ثقہ ہیں ۔
میں کہتاہوں:میں نے اس روایت کو طبرانی معجم الکبیر حدیث نمبر9098میں شریک سے وہ سدّی سے وہ ابوالضحیٰ سے وہ مسروق سے وہ عبداللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ سے الحدیث اس سندسے بھی پایاہے ۔(مجمع الزوائد:7/15، المعجم الکبیر:19/252)
3۔ ابن جریر الطبری رحمہ اللہ فرماتے ہیں :مجھے حدیث بیان کی یعقوب بن ابراہیم نے کہا ہمیں بیان کیا ہشیم نے کہا ہمیں خبردی عبدالملک بن ابی سلیمان نے سلمہ بن کہیل سے وہ علقمہ اور مسروق سے ان دونوں نے عبداللہ بن مسعودرضی اللہ عنہ سے پوچھا کیا حکم (یعنی فیصلہ جات)میں رشوت دینا حرام ہے ۔فرمانے لگے :کیا فیصلہ جات میں ؟یہ تو کفر ہے۔(تفسیر الطبری:4/257،239،240، المعجم الکبیر:9/422)
میں کہتا ہوں:اس سند کے تمام روات اللہ کے فضل سے ثقہ ہیں (ملاحظہ ہویعقوب بن ابراہیم کا ترجمہ :الجرح والتعدیل :9/202 از ابن ابی حاتم،نیز سیر اعلام النبلاء:12/144،اور ہشیم بن بشیر کا ترجمہ :الکنی والاسماء:1/759 از امام مسلم نیز التاریخ الکبیر:1/311،8/242 از امام بخاری ،نیزالجرح والتعدیل :1/155،9/115۔نیز تذکرة الحفاظ:1/248،249 از طاہر بن محمد القیسرانی۔عبدالملک بن ابی سلیمان کا ترجمہ:تذکرة الحفاظ :1/155۔اورسلمہ بن کہیل کا ترجمہ:التاریخ الکبیر:4/74نیز الجرح والتعدیل :1/143،4/170۔علقمہ بن قیس کا ترجمہ:حلیة الاولیائ:2/98،99۔اور مسروق بن اجدع کا ترجمہ:التاریخ الکبیر:8/35 نیز الجرح والتعدیل :8/396)۔
ابن جریر الطبری رحمہ اللہ فرماتے ہیں:ہمیں حدیث بیان کی ھناد نے کہا ہمیں بیان کیا عبیدہ نے عمار سے وہ مسلم بن صبیح سے وہ مسروق سے کہا میں نے عبداللہ بن مسعودرضی اللہ عنہ سے پوچھا کیا حکم (یعنی :فیصلہ جات )میں رشوت لینا حرام ہے؟فرمانے لگے نہیں جو اللہ کے نازل کردہ کے مطابق حکم نہ کرے وہ کافر ہے اور جو اللہ کے نازل کردہ کے مطابق حکم نہ کرے وہ ظالم ہے اور جو اللہ کے نازل کردہ کے مطابق حکم نہ کرے وہ فاسق ہے لیکن حرام یہ ہے کہ کوئی شخص تجھ سے ظلم پر مدد مانگے اور تو اس کی مدد کردے پھر وہ تجھے تحفہ (بطور رشوت )دے جسے توقبول کرلے۔(تفسیر طبری:6/240،241، نیز احکام القرآن:4/84 از ابوبکر الجصاص نیز سنن بن سعید منصور جلد4 نیز سنن البھیقی الکبریٰ:10/139،شعب الایمان:4/390)
5۔ ابوبکر الجصاص رحمہ اللہ فرماتے ہیں:شعبہ نے منصور سے وہ سالم بن ابی الجعد سے وہ مسروق سے روایت کرتے ہیں انہوں نے کہا میں نے عبداللہ بن مسعودرضی اللہ عنہ سے پوچھا :مبنی برظلم حکم یعنی فیصلہ کرنے کے متعلق ؟فرمانے لگے ”یہ کفر ہے“اور میں نے آپ سے حرام کو (سحت)کے متعلق پوچھا فرمانے لگے رشوت ۔(احکام القرآن:4/84،85نیزسنن البھیقی الکبریٰ:10/139)
استغفر اللہ !
اب نوبت یہاں تک آن پہنچی کہ اپنا "کوا سفید" ثابت کرنے کہ چکر میں مفسر قرآن اور دیگر صحابہ میں خود ساختہ اختلاف کاپی پیسٹ کرنے لگے ۔۔ حیف صد حیف۔ کیا دور کی گمراہی ہے۔
جناب سمیر خان صاحب!
تمام صحابہ کے اقوال وہی ہیں جو اللہ کا حکم ہے:
"ومن لم یحکم بما انزل اﷲ فاولئک ہم الکافرون"
" جو اللہ کے نازل کردہ کے مطابق حکم نہ کریں سو یہ لوگ کافر ہیں"۔

حضرت! اللہ سے ڈر جاو!اللہ سے ڈر جاو! اللہ سے ڈر جاو!
جو آپ نے عمر رضی اللہ عنہ اور عبداللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ سے اقوال پیش کئے ہیں وہ آپ کے باطل افکار کے لئے آکسیجن نہیں بن سکتے!
کیوں؟
جناب ، اس میں تو کسی کو اختلاف ہی نہیں کہ حکم بغیر ما انزل اللہ کفر ہے۔ تمام صحابہ و تابعین ، تبع تابعین ، آئمہ محدثین و فقہا اور تو اور نہ آپکا اور نہ ہمارا۔۔
جسے کام کو اللہ کفر کہے ، بھلا کس کی مجال ہے کہ وہ اسے کفر نہ کہے!
میرے مدنی منے اصل مسئلہ یہاں مستعمل "لفظ کفر" کی تعبیر کا ہے۔
اورمفسر قرآن ابن عباس رضی اللہ عنہ نے حکم بغیر ما انزل اللہ کی تعبیر کفر دون کفر کی ہے۔
اور ان کی یہ تفسیر صرف ہم ہی نہیں قائل بلکہ تمام صحابہ و سلف صالحین قائل ہیں ۔۔

نہیں یقین تو لیں ، دیکھ لیں اور شرمندہ ہوں ۔ کیوں کہ آپ کی یہ تلبیس بھی رائیگاں گئی۔۔۔
جن روایات کی صحت پر تم نے کیچڑ اچھالا تمام آئمہ محدثین و فقہا ہمیشہ اس سے اس آیت کی تفسیر و تشریح میں استدلال کرتے آئے ہیں۔ الحمد اللہ

کس منہ کعبے جاو گے سمیر ۔۔
شرم تم کو مگر نہیں آتی؟؟
صحابہ کرام رضوان اللہ علیھم اجمعین کے خلاف خروج کرنے والوں نے توحید حاکمیت کی بنیاد پر تکفیری مہم کا آغاز کیا اور درج ذیل آیات :
وَمَنْ لَّمْ يَحْكُمْ بِمَآ اَنْزَلَ اللّٰهُ فَاُولٰۗىِٕكَ هُمُ الْكٰفِرُوْنَ 44؀
کو خود ساختہ مفہوم پہنا کر مسلمانوں کے جان ، مال ، اور عزتوں کو حلال قرار دیدیا بعنیہ آج بھی بہت سارے لوگ توحید حاکمیت کی بنا ء پر امت مسلمہ کے حکمرانوں اور دیگر ذمہ دارنوں کی تکفیر کرتے نظر آ رہے ہیں لیکن یہاں یہ بات ملحوظ رہے ہمارا مقصد نہ کسی ظالم فاسق کا دفاع کر کے اس کی حوصلہ افزائی یا اس کو گناہ پر جری کرنا نہیں اور نہ ہی علمی میدان میں کسی مخالف نظریہ والے افراد کی تکفیر کرنا ہے بلکہ محض شرعی نقطہ نگاہ سے اس بات کا جائزہ لینا ہے کہ آیت تحکیم کا صحیح مفہوم کیا اور سلف صالحین صحابہ کرام و تابعین و دیگر ائمہ محدثین و مفسریننے اس کا کیا معنی مراد لیا ہے تاکہ ہم نفس مسئلہ کو سمجھنے میں غلطی دے محفوظ رہیں ۔
اس بات پر جمیع سلف صالحین کا اتفاق ہے کہ اس آیت :
وَمَنْ لَّمْ يَحْكُمْ بِمَآ اَنْزَلَ اللّٰهُ فَاُولٰۗىِٕكَ هُمُ الْكٰفِرُوْنَ 44؀
کے مطابق فیصلہ کرنا علمی یا مجازی کفر ہے یعنی یہ ایسا کفر ہے جو ملت اسلامیہ سے اخراج کا باعث نہیں بنتا جب تک کہ فاعل (یہ کام کرنے والا) اس فعل کو جائز اور حلال نہ سمجھتا ہو ۔

آیت ہذا کا مفہوم سلف صالحین :

1- سید نا عبداللہ بن عباس  سے مروی ہے : وہ فرماتے ہیں یہ وہ کفر نہیں ہے جس طرح یہ لوگ جا رہے کیونکہ یہ وہ کفر نہیں ہے جو دائرہ اسلام سے خارج کر دے
‘‘وَمَنْ لَّمْ يَحْكُمْ بِمَآ اَنْزَلَ اللّٰهُ فَاُولٰۗىِٕكَ هُمُ الْكٰفِرُوْنَ 44؀’’
( المائدہ 44)
آیت میں کفر دون کفر ہے ( یعنی کبیرہ گناہ ) کرنا ہے ۔
( مستدرک حاکم کتاب التفسیر ، تفسیر سورۃ المائدہ ص427 ، ج:2، رقم 3269 )
سید التابعین عطاء بن ابی رباح رحمہ اللہ علیہ کا فیصلہ :
یہ ہیں اس سے مراد کفر دون کفر ہے
( تفسیر طبری ص:554، ج: 4 ، رقم 12061)
سیدنا عبداللہ بن عباس کے شاگرد سیدنا طاؤس کا فیصلہ :
وہ اس آیت
‘‘وَمَنْ لَّمْ يَحْكُمْ بِمَآ اَنْزَلَ اللّٰهُ فَاُولٰۗىِٕكَ هُمُ الْكٰفِرُوْنَ 44؀’’
کے بارے میں فرماتے ہیں یہ کفر ( کبیرہ گناہ ) ہے اور اللہ تعالی اس کے فرشتوں اور کتابوں اور اس کے رسولوں کے ساتھ کفر جیسا نہیں ۔
( تفسیر طبرای ، ص: 554 ، ج:4، رقم : 12067)
بقیہ اثر ابن عباس
تفسیر ابن عباس کی تصحیح کرنے والے ائمہ و مفسرین رحمھم اللہ
1- امام حاکم فی المستدرک ، صفحہ : 427 ، ج: 2
2- امام ذھبی فی تلخیص المستدرک ، ص : 427، ج : 2، تحت رقم : 3269
3- محمد بن نصر المووزی ( تعظیم قدر الصلاۃ ، ص: 520،ج: 2
4- امام قرطبی ۔ الجامع لاحکام القرآن ، ص124، ج: 2، افرای ، ص190،ج:6
5- امام ابو امظفر المعانی فی تفسیرہ ، ص :42، ج: 2
6- اما م بغوی فی معالم التنزیل ، ص: 276،ج:2
7- امام ابو بکر ابن العرابی المالکی فی ، احکام القرآن ، ص:624، ج: 2
8- ابو عبیدہ القاسم بن سلام فی ‘‘ الایمان ’’ ، ص45
9- ابن عبدالبر فی التمہید ، ص: 74، ج: 5 ، افرای ، ص: 237، ج: 4
10- ابن تیمیہ ، مجموعہ الفتاوی ، ص: 312، ج: 7
11- ابن القیم فی ، مدرج الساکس ، ص : 33
12- ابن بطۃ فی ، الابانۃ ، ص: 723، ج : 2
13- احمد شاکر و محمود محدث شاکر ، عمدۃ التفایر ، ص: 602-603 ، ج: 1
14- الواحد ی فی لواسط ، ص: 191، ج: 2
15- امام بقا عی فی نظم لددر ، ص:492، ج:3
16- تفسیر خازن ، ص؛ 276، ج:2
17- ابو حیان فی البحر الحبط ، ص: 492، ج: 3
18- نواب صدیق حسن خان فی نیل الرام ، ص: 472، ج :2
19- تفسیر سعدی ، ص: 296، ج: 2
20- محمد امین الشنقطی فی الضواء البیان ، ص: 101،ج: 2
21- الشیخ ناصرلدین لالبانی ، سلسلۃ الصحیحہ ، ص: 109، ج: 62
وغیرہ ذالک

1- امام احمد بن حنبل کا فیصلہ : امام اسماعیل بن سعد فرماتے ہیں نے امام احمد سے سوال کیا کہ اس آیت :
‘‘وَمَنْ لَّمْ يَحْكُمْ بِمَآ اَنْزَلَ اللّٰهُ فَاُولٰۗىِٕكَ هُمُ الْكٰفِرُوْنَ 44؀’’
سے کون سا کفر مراد ہے امام احمد رحمہ اللہ عنہ فرمایا ایسا کفر جو دائرہ اسلام سے خارج نہیں کرتا ۔
( سوالا ت ابن ھانی ، ص: 192،ج:2)
اسی امام ابو داؤد السجستانی ( صاحب سنن ابی داؤد ) نے جب امام احمد رحمہ اللہ سے اس آیت کے بارے میں سوال کیا کہ اس سے کون سا کفر مراد ہے تو انہوں نے امام عطاء اور امام طاؤس کے قول کے مطابق جواب دیا یعنی وہ کفر مراد ہے جو دائزہ اسلام سے خارج نہیں کرتا ۔
( سوا لات ابی داؤد ( عن احمد ) ص :114 )
1- امام محمد بن نصروری نے بھی یہی معنی بیان کیا ہے دیکھئے : تعظیم قدرالصلاۃ ، ص: 520، ج: 2 )
2- امام ابن جریر الطبری المتودی 310ھ
3- ابن بطہ العکبری التوفی 387؁ھ نے اپنی کتاب ابانہ میں ابب قائم کیا ہے ان گناہوں کا بیان جن کا مرتکب دائرہ اسلام سے خارج نہیں ہوتا او کے تحت مسئلہ الحکم بغیر ماانزل اللہ کو بیان کیا اور پھر اس کی تائید میں صحابہ کرام و تابعین کے اقوال نقل کر کے ثابت کیا اس سے مراد دائرہ اسلام سے خارج کرنے والا گناہ نہیں ۔ ( الابانۃ ، ص: 723 ، ج : 2)
4- امام ابن عبدالبر شارح مؤطا اما م مالک : المتوفی 463؁ھ وہ بھی فرماتے ہیں اس سے مراد دائرہ اسلام سے خارج کرنے والا کفر نہیں ۔ ( التمھید لابن عبداللہ ، ص: 75، ج :5)
5- امام سمعانی المتوفی 510؁ھ کا فیصلہ : انہوں نے بھی معنی بیان کیا ہے دیکھیے ان کی تفسیر ۔ ( ص: 42،ج: 2)
6- امام ابن تیمیہ : دیکھئے ( مجموعہ الفتاوی ، ص: 254، ج: 7)
7- امام محمد بن قیم الجوزی المتوفی 751؁ھ : مدارج السالکین ،ص: 336، ج:1
8- امام ابن کثیر المتوفی 774؁ھ ( تفسیر ابن کثیر )
9- امام ابن ابی العزالحنفی المتوفی 791؁ھ ( شرح عقیدہ الطاویہ ، ص:323)
10- شارح بخاری امام ابن حجر العسقلانی المتوفی 850؁ھ ( فتح الباری ،ص:120،ج:13)
11- امام فخر الدین الرازی المتوفی ؁ ( تفسیر کبیر ، ص 5-6 جزء 12)
12- امام شاطبی المتوفی 790؁ ھ ( الاعتسام لشاطبی ،ص:692،ج:2)
13- سید معین الدیں محمد بن عبدالرحمن المتوفی 894؁ ھ ( جامع البیان فی تفسیر القرآن ، ص: 247-248)
14- جما ل الدین القاسمی المتوفی 1333؁ ھ ( تفسیر قاسمی )
15- قاضی ثناء اللہ پانی پتی الحنفی المتوفی 1393؁ھ ( تفسیر المظھری ، ص:118، ج:3)
16- نواب صدیق الحسن المتوفی 1357؁ ھ ( الدین الخالص ، ص: 28، جلد:3 ، طبع داراکتب العلمیہ بیروت )
17- محمد امین الشنقطی المتوفی 1393؁ھ ( رضواء البیان ، ص: 104، ج:2)
18- پیر بدیع الدین شاہ رشدی السندھی المتوفی 1416؁ھ : ( بدیع التفاسیر ، ص238، ج: 7، طبع جنوری 1998؁ھ)
اس کے علاوہ عرب کے سلفی علماء اور دیگر متقد مین و متاخرین کو جمع کیا جو طویل فہرست تیار ہو سکتی ہے لیکن ہمارا مقصود تمام علماء سلف کا احاطہ نہیں بلکہ سلف سالحین کے موقف کو بالترتیب واضح کرنا ہے تاکہ یہ معلوم ہو جائے کہ اس اایت تفسیر میں سلف صالحین علی الاطلاق سے ارتداد مراد نہیں لیتے بلکہ اس سے ان کی مراد کبیرہ گناہ ہے ۔

ہمارے اسلاف کا موقف تو تم نے دیکھ لیا سمیر اینڈ بروسا، اب تم زرا اپنے اسلاف کا موقف اور منہج لے آو اس آیت کی تفسیر کے بارے؟؟؟


اگر اب بھی نفس مسئلہ نہ سلجھا اور عقل نے فہم سلف صالحین تسلیم نہ کیا تو پھر میں بری ہوں ایسی گمراہی سے۔ اللہ تمام اہل ایمان کو فکر خوارج چاہے قدیم ہو یا جدید، محفوظ فرمائے۔ آمین۔

السلام علیکم ورحمۃ اللہ
 
شمولیت
فروری 07، 2013
پیغامات
453
ری ایکشن اسکور
924
پوائنٹ
26
جب آدمی جواب دینے سے قاصر ہوجائے تو اسی طرح کرتا ہے۔ ہمیں ان کے ان اقوال پر کوئی پریشانی نہیں ہے۔کیونکہ ہمیں معلوم ہے جہاں حق بیان کیا جاتا ہے باطل ضرور اپنی ٹانگ اڑاتا ہے ۔ یہ آج سے تھوڑی ہورہا ہے یہ حق اور باطل کی معرکہ آرائی انبیاء علیہم السلام کی بعثت ہی سے شروع ہوگئی تھی۔اور جب تک اللہ چاہے گا اس وقت تک رہے گی۔ ہم نے تو باطل کے اوپر حق کی مار ماری ہے ۔ جبھی تو باطل پھڑپھڑا رہا ہے۔ ہم نے تو اپنا موقف باطل کے سامنے کھل کر بیان کردیا ہے ۔ اور درباری علماء کی تلبیسات کو بھی بیان کردیا ہے۔ اب یہ تو ہر شخص کی ذمہ داری ہے وہ عقل مندی کا مظاہرہ کرے ۔ اور حق کی جانب رجوع کرے ۔ کیونکہ کل اسے اپنے رب کے حضور پیش ہونا ہے ۔ وہ رب العزت وہاں پر سب کچھ پوچھ لے گا۔
کس منہ کعبے جاو گے سمیر ۔۔شرم تم کو مگر نہیں آتی؟؟
 
Top