• الحمدللہ محدث فورم کو نئےسافٹ ویئر زین فورو 2.1.7 پر کامیابی سے منتقل کر لیا گیا ہے۔ شکایات و مسائل درج کروانے کے لئے یہاں کلک کریں۔
  • آئیے! مجلس التحقیق الاسلامی کے زیر اہتمام جاری عظیم الشان دعوتی واصلاحی ویب سائٹس کے ساتھ ماہانہ تعاون کریں اور انٹر نیٹ کے میدان میں اسلام کے عالمگیر پیغام کو عام کرنے میں محدث ٹیم کے دست وبازو بنیں ۔تفصیلات جاننے کے لئے یہاں کلک کریں۔

کیا میں ان افراد کو زکوٰۃ دے سکتا ہوں؟

مشوانی

رکن
شمولیت
ستمبر 06، 2012
پیغامات
68
ری ایکشن اسکور
312
پوائنٹ
44
میرے دو بہنوئی اور ایک سالی انتہائی غریب ہیں. وو بہ مشکل اپنے بچوں کا پیٹ پالتے ہیں اور تعلیم تو دور کی بات ہیں. بس انکا کا زیادہ تر انحصار قرضوں پڑ ہی ہوتا ہے. میں یہ پوچھنا چاہتا ہوں کیا میں انکو زکوٰۃ دے سکتا ہوں. کیا یہ لوگ قرآن کی بیان کردہ مصارف زکوٰۃ میں آتے ہیں؟
اور دوسری بات یہ ہے کہ میرے خیال میں اپکا اردو فتویٰ کی جو سروس ہے وو غیر فعال ہے.
 

مشوانی

رکن
شمولیت
ستمبر 06، 2012
پیغامات
68
ری ایکشن اسکور
312
پوائنٹ
44
ایسا لگ رہا ہے کہ جب تک اس فورم میں کسی اختلافی مسلے کے بارے میں نا پوچھا جائے تو کوئی بھی جواب دینے کی زحمت نہی کرتا. اور جب کوئی اختلاف کی بات چھیڑ دی جائے تو ہر کوئی دلیل دینے کے لئے تیار. لیکن اگر کسی کو روزمرہ زندگی میں کوئی مسلہ درپیش آ جائے اور یہاں پڑ سوال پوچھ لے. تو اللہ مسلہ حل بھی کر دیگا لیکن ادھر کوئی کان نہیں درے گا.
 

ہابیل

سینئر رکن
شمولیت
ستمبر 17، 2011
پیغامات
966
ری ایکشن اسکور
2,911
پوائنٹ
225
بھائی جی اگر آپ اپنی پوسٹ ٹیگ کردیا کریں تو آپ کاپیغام دوسروں تک آسانی سے پہنچ سکتا ہے سوالات یا تو سوالات کے سیشن میں کریں

یا آپ اپنی اس طرح کی پوسٹ مکالہ سیشن میں پوسٹ کیا کریں جس میں اور علما بھی آپ کی بات کا جواب دے سکیں گیں اور یہ زکوۃ کا سیشن ہے
 

کلیم حیدر

ناظم خاص
رکن انتظامیہ
شمولیت
فروری 14، 2011
پیغامات
9,748
ری ایکشن اسکور
26,379
پوائنٹ
995
ایسا لگ رہا ہے کہ جب تک اس فورم میں کسی اختلافی مسلے کے بارے میں نا پوچھا جائے تو کوئی بھی جواب دینے کی زحمت نہی کرتا. اور جب کوئی اختلاف کی بات چھیڑ دی جائے تو ہر کوئی دلیل دینے کے لئے تیار. لیکن اگر کسی کو روزمرہ زندگی میں کوئی مسلہ درپیش آ جائے اور یہاں پڑ سوال پوچھ لے. تو اللہ مسلہ حل بھی کر دیگا لیکن ادھر کوئی کان نہیں درے گا.
لنک
 

مشوانی

رکن
شمولیت
ستمبر 06، 2012
پیغامات
68
ری ایکشن اسکور
312
پوائنٹ
44
بھائی جی اگر آپ اپنی پوسٹ ٹیگ کردیا کریں تو آپ کاپیغام دوسروں تک آسانی سے پہنچ سکتا ہے سوالات یا تو سوالات کے سیشن میں کریں

یا آپ اپنی اس طرح کی پوسٹ مکالہ سیشن میں پوسٹ کیا کریں جس میں اور علما بھی آپ کی بات کا جواب دے سکیں گیں اور یہ زکوۃ کا سیشن ہے
ٹیگ کرنے کا کیا طریقہ ہے؟ زکات کے بارے میں سوال تھا اسلئے یہاں پوسٹ کر دیا.
 

شاکر

تکنیکی ناظم
رکن انتظامیہ
شمولیت
جنوری 08، 2011
پیغامات
6,595
ری ایکشن اسکور
21,396
پوائنٹ
891
فتویٰ کا لنک:

كيا ماں اپنے ساتھ رہنے والے اكيس سالہ بيٹے كو اپنى زكاۃ ادا كر سكتى ہے، كيونكہ بيٹا ابھى تعليم حاصل كر رہا ہے اور تعليم مكمل كرنے كے ليے قرض نہيں لينا چاہتا، بلكہ صرف ہفتہ وار چھٹى كے دن كام كرتا ہے، جس سے ہونے والى آمدنى كافى نہيں ہوتى ؟

الحمد للہ:

علماء كرام كا اتفاق ہے كہ زكاۃ دينے والے كے ليے ايسے شخص كو زكاۃ دينى جائز نہيں جس كا نفقہ زكاۃ دينے والے كے ذمہ ہو.

اس بنا پر اس ماں كى حالت ديكھى جائيگى اگر توشرعى طور اس كى اولاد كا خرچ ماں كے ذمہ ہے تو پھر وہ اپنى اولاد كو زكاۃ نہيں دے سكتى، اور اگر اولاد كا نفقہ شرعا ماں كے ذمہ نہيں تو پھر اسے زكاۃ دينے ميں كوئى حرج نہيں، بلكہ كسى دوسرے شخص كو دينے كى بجائے اولاد كو دينا افضل ہو گى.

ماں پر اس كے بچے كا نفقہ درج ذيل شروط كى بنا پر واجب ہوتا ہے:

1 - باپ موجود نہ ہو تو.

اس ليے جب بچے كا باپ موجود ہو بچے كا صرف اكيلے باپ پر ہى نفقہ واجب ہے.

ابن قدامہ رحمہ اللہ كہتے ہيں:

" اگر بچے كا باپ نہ ہو تو ماں پر بچے كا نفقہ واجب ہو گا، امام ابو حنيفہ اور امام شافعى رحمہم اللہ كا قول يہى ہے " انتہى

2 - ماں اتنى مالدار ہو كہ اس كے پاس ضرورت سے زائد مال ہو.

3 - بيٹا تنگ دست اور مال كا ضروتمند ہو.

جب يہ تين شروط پائى جائيں تو اس صورت ميں والدہ كے ليے اپنے بيٹے پر خرچ كرنا واجب ہوگا، اور اسے بيٹے كو زكاۃ دينا جائز نہيں ہو گى.

اور اگر باپ موجود ہو تو ماں كے ليے اپنے بيٹے كو زكاۃ دينا جائز ہوگى، كيونكہ اس وقت ماں پر بيٹے كا نفقہ واجب نہيں.

حافظ ابن حجر رحمہ اللہ كہتے ہيں:

" ابن منذر وغيرہ نے اس پر اجماع نقل كيا ہے كہ بيٹے كو واجب اور فرض زكاۃ كے پيسے نہيں ديے جائيں گے.

حافظ رحمہ اللہ كہتے ہيں: يہ بات محل نظر ہے، كيونكہ فرضى زكاۃ اسے دينى جائز نہيں جس كا خرچ زكاۃ دينے والے پر واجب ہو، اور باپ كى موجودگى ميں ماں پر بيٹے كا خرچ واجب نہيں ہوتا " انتہى بتصرف.

ماخوذ از: فتح البارى.

اور جب ماں اپنے بچے پر نفقہ كى استطاعت اور قدرت نہ ركھے تو پھر اسے زكاۃ دينے ميں كوئى حرج نہيں، كيونكہ اس حالت ميں بيٹے كا نفقہ ماں پر واجب نہيں ہے.

ابن تيميہ رحمہ اللہ كہتے ہيں:

" اگر والدين آباء و اجداد اور اولاد نچلى نسل تك فقراء اور تنگ دست ہوں اور وہ ان پر نفقہ كرنے سے عاجز ہو تو انہيں زكاۃ كے پيسے دينے جائز ہيں، امام احمد كا ايك قول يہى ہے " انتہى مختصرا

ديكھيں: الاختيارات الفقھيۃ ( 104 ).

اور مجموع الفتاوى ميں درج ہے:

" جب بيٹا نفقہ كا محتاج ہو، اور باپ كے پاس اس كے نفقہ كے ليے كچھ نہيں تو اس ميں نزاع و اختلاف ہے، ظاہر يہى معلوم ہوتا ہے كہ اس كے ليے باپ كى نكالى ہوئى زكاۃ لينى جائز ہے، ليكن اگر وہ باپ كے نفقہ سے مستغنى ہو تو پھر اسے زكاۃ كى ضرورت نہيں " انتہى

ديكھيں: مجموع الفتاوى ( 25 / 92 ).

اسى طرح اگر بيٹا مقروض ہو تو بيٹے كے قرض كى ادائيگى كے ليے اپنى زكاۃ بيٹے كو دے سكتى ہے.

واللہ اعلم .
 

شاکر

تکنیکی ناظم
رکن انتظامیہ
شمولیت
جنوری 08، 2011
پیغامات
6,595
ری ایکشن اسکور
21,396
پوائنٹ
891
فتویٰ کا لنک

كيا اپنے محتاج اور ضرورتمند رشتہ داروں، مثلا بہن بھائى، چچا، پھوپھى وغيرہ كو زكاۃ دينى جائز ہے ؟

الحمد للہ:

اگر وہ اپنے قريبيوں كو زكاۃ ادا كرے جو اس كے خاندان سے تعلق ركھتے ہيں تو يہ دوسروں كو دينے سے افضل ہے جو اس كے رشتہ دار نہ ہوں كيونكہ قريبى اور رشتہ دار كو زكاۃ اور صدقہ دينا ايك تو صدقہ ہے، اور دوسرى صلہ رحمى بھى.

رسول كريم صلى اللہ عليہ وسلم كا فرمان ہے:

" مسكين پر صدقہ كرنا تو عام صدقہ ہے، اور رشتہ دار پر صدقہ كرنا دو چيزيں، ايك تو صدقہ اور دوسرى صلہ رحمى "

سنن نسائى حديث نمبر ( 2581 ) سنن ترمذى حديث نمبر ( 658 ) علامہ البانى رحمہ اللہ تعالى نے صحيح سنن نسائى حديث نمبر ( 2420 ) ميں اسے صحيح قرار ديا ہے.

ليكن اگر يہ رشتہ دار اور اقرباء ان ميں سے ہوں جن كا آپ كے ذمہ نان و نفقہ ہے، اور آپ انہيں زكاۃ دے كر اپنا مال بچائيں تو يہ جائز نہيں ہے.

ليكن اگر آپ كا مال ان پر خرچ كرنے كے ليے كافى نہ ہو تو پھر آپ انہيں زكاۃ بھى ديں تو اس ميں كوئى حرج نہيں، اور اسى طرح اگر وہ لوگوں كے مقروض ہوں اور آپ اپنى زكاۃ سے ان كے قرض ادا كرديں تو اس ميں بھى كوئى حرج نہيں.

كيونكہ قرض كى ادائيگى كسى قريبى كے ذمہ نہيں تو اس طرح اس كا قرض كا اپنى زكاۃ سے ادا كرنا جائز ہوگا، حتى كہ اگر وہ آپ كا بيٹا يا والد ہو اور وہ مقروض ہونے كى وجہ سے قرض ادا نہ كر سكتا ہو، تو آپ كے ليے جائز ہے كہ اپنى زكاۃ سے وہ قرض ادا كرديں.

ماخوذ از: فتوى شيخ محمد بن عثيمين رحمہ اللہ .


ديكھيں: فتاوى الشيخ محمد بن الصالح العثمين ( 1 / 461 ).
 
Top