• الحمدللہ محدث فورم کو نئےسافٹ ویئر زین فورو 2.1.7 پر کامیابی سے منتقل کر لیا گیا ہے۔ شکایات و مسائل درج کروانے کے لئے یہاں کلک کریں۔
  • آئیے! مجلس التحقیق الاسلامی کے زیر اہتمام جاری عظیم الشان دعوتی واصلاحی ویب سائٹس کے ساتھ ماہانہ تعاون کریں اور انٹر نیٹ کے میدان میں اسلام کے عالمگیر پیغام کو عام کرنے میں محدث ٹیم کے دست وبازو بنیں ۔تفصیلات جاننے کے لئے یہاں کلک کریں۔

کیا نبی ﷺ نے نبوت کے بعد اپنا عقیقہ کیا تھا ؟

مقبول احمد سلفی

سینئر رکن
شمولیت
نومبر 30، 2013
پیغامات
1,391
ری ایکشن اسکور
453
پوائنٹ
209
کیا نبی ﷺ نے نبوت کے بعد اپنا عقیقہ کیا تھا ؟

مقبول احمد سلفی
اسلامک دعوۃ سنٹر، شمالی طائف (مسرہ) سعودی عرب

اس مختصر مضمون میں جاننے کی کوشش کریں گے کہ نبی ﷺ نے اپنا عقیقہ کیا یا نہیں ؟ چنانچہ السنن الکبری للبیہقی کی روایت سند ومتن کے ساتھ پیش ہے ۔
أَخْبَرَنَا أَبُو الْحَسَنِ مُحَمَّدُ بْنُ الْحُسَيْنِ بْنِ دَاوُدَ الْعَلَوِيُّ رَحِمَهُ اللَّهُ ، أنبا حَاجِبُ بْنُ أَحْمَدَ بْنِ سُفْيَانَ الطُّوسِيُّ ، ثنا مُحَمَّدُ بْنُ حَمَّادٍ الأَبْيُورْدِيُّ ، ثنا عَبْدُ الرَّزَّاقِ ، أنبا عَبْدُ اللَّهِ بْنُ مُحَرَّرٍ ، عَنْ قَتَادَةَ ، عَنْ أَنَسٍ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ ،أَنّ النَّبِيَّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ عَقَّ عَنْ نَفْسِهِ بَعْدَ النُّبُوَّةِ ( السنن الكبرى» كتاب الضحايا»جماع أبواب العقيقة» باب العقيقة سنة، رقم:18678)
ترجمہ: انس رضی اللہ عنہ سے روایت ہے وہ بیان کرتے ہیں کہ نبی ﷺ نے اپنا عقیقہ نبوت کے بعد کیا ۔
بیہقی کی اس روایت پر بہت سارے محدثین نے ضعف کا حکم لگا ہے کیونکہ اس میں ایک راوی عبداللہ بن محرر کے ضعف پہ سب کا اتفاق ہے ۔ بیہقی ، نسائی، ابن ابی حاتم رازی(ایک قول)، ابن حجر، دارقطنی(ایک قول)، علی بن جنید رازی، عمر وبن علی فلاس نے متروک الحدیث کہا ہے۔ ابوزرعہ رازی اور ابن ابی حاتم زاری(دوسرا قول) نے ضعیف الحدیث کہا ہے۔ امام بخاری، ابن ابی حاتم رازی(تیسرا قول) اور ہلال بن علاء رقی نے منکر الحدیث کہا ہے ۔ ابونعیم اصبہانی، دارقطنی(دوسرا قول)،محمد بن سعد کاتب الواقدی ، یحی بن معین اور یعقوب بن سفیان الفسوی نے ضعیف کہا ہے ۔
اب چند اہل علم کے حکم بیان کردینا یہاں کافی ہوگاکیونکہ راوی کے ضعف کی طرف اشارہ کردیا گیا ہے۔
٭ بیہقی نے کہا یہ حدیث منکر ہے اور وہ عبدالرزاق کے طریق سے بیان کرتے ہیں وہ کہتے ہیں کہ یہ حدیث دوسرے طریق سے بھی مروی ہے قتادہ کے طریق سے اور انس کے طریق سے ۔ ان تمام طرق سے یہ روایت باطل ہے ۔
٭ امام نووی نے بیہقی کی روایت عن عبد الله بن محرر بالحاء المهملة والراء المكررة عن قتادة عن أنس والی روایت کو باطل قرار دیا ہے ۔(المجموع:8/431)
* امام احمد نے بیہقی کی روایت عبد الله بن محرر عن أنس والی روایت کو منکر قرار دیا ہے۔
٭ ابن العراقی کہتے ہیں کہ اس کی سند میں عبداللہ بن محرر ہے جس کے متعلق امام نووی نے کہا کہ اس کے ضعیف پہ اہل علم کا اتفاق ہے ۔ (طرح التثريب:5/209)
٭ حافظ ابن حجر نے اس روایت پہ کلام کرتے ہوئے لکھا ہے کہ بزار نے کہا کہ اس میں عبداللہ منفرد ہے اور وہ ضعیف ہے ۔ (فتح الباری)
حافظ ابن حجر رحمہ اللہ نے ذکر کیا ہے کہ ابوالشیخ نے اس روایت کو مزید دو سندوں سے ذکر کیا ہے ۔
پہلی سند اسماعیل بن مسلم عن قتادہ سے مروی ہے اور اسماعیل ضعیف ہے ۔
دوسری سند أبي بكر المستملي عن الهيثم بن جميل وداود بن محبر قالا حدثنا عبد الله بن المثنى عن ثمامة عن أنس ہے ۔ اس سند میں داؤد ضعیف ہے مگر ان کے ساتھ اسی طبقہ میں ہیثم بن جمیل ثقہ ہیں اور عبداللہ بن مثنی سے امام بخاری نے استدلال کیا ہے ۔ اس وجہ سے اس سند سے یہ روایت صحیح ہے، اس روایت کے الفاظ اس طرح ہیں ۔
أنَّ النبيَّ صلَّى اللهُ عليه وسلَّم عقَّ عنِ نفسِهِ بعدَ ما بُعِثَ نبيًّا.
ترجمہ: نبی ﷺ نے بعثت کے بعد اپنی طرف سے عقیقہ کیا ۔
ہیثمی نے کہا کہ اس کے رجال صحیح کے رجال ہیں سوائے ہیثم بن جمیل کے کہ وہ ثقہ ہیں یعنی ہیثمی کی نظر میں یہ سند بالکل صحیح ہے ، اس میں کوئی ضعیف راوی نہیں ہے ۔
شیخ البانی رحمہ اللہ نے عقیقہ والی روایت پہ سلسلہ صحیحہ میں طویل بحث کی ہے ، اس کا خلاصہ وہی ہے جو اوپر پیش کیا گیا ہے کہ عبداللہ بن محرر کے طریق سے آنے والی روایت ضعیف ہے تاہم ہیثم بن جمیل کے طریق سے آنے والی روایت قوی الاسناد ہے اور شیخ نے اس سند کو حسن کا درجہ دیا ہے ۔ (السلسلة الصحيحة: 2726)
خلاصہ کلام یہ ہوا کہ یہ بات نبی ﷺ سے ثابت ہے کہ آپ ﷺ نے بنوت کے بعد اپنا عقیقہ خود کیا تھا۔ اس حدیث کی بنیاد پر ہم یہ مسئلہ استنباط کر سکتے ہیں کہ بڑی عمر میں بھی عقیقہ دیا جاسکتا ہے یعنی ساتویں دن جس کا عقیقہ نہ ہوسکے،بعد میں جب سہولت ہو اس کی طرف سے عقیقہ دیا جا سکتا ہے ۔ اسی طرح یہ مسئلہ بھی مستنبط ہوتا ہے کہ آدمی اپنی جانب سے خود بھی عقیقہ کرسکتا ہے یعنی اگر کسی کی جانب سے اس کے والد یا سرپرست نے عقیقہ نہ کیا ہو تو وہ خود ہی اپنی جانب سے عقیقہ کرسکتا ہے ۔
یہاں دو اشکال کا جواب بھی جان لینا ضروری ہے ۔
پہلا اشکال :اس حدیث سے بعض لوگ میلاد النبی منانے کی دلیل پکڑتے ہیں جبکہ یہ حدیث عقیقہ سے متعلق ہے ، میلاد اور عقیقہ میں زمین وآسمان کا فرق ہے ۔ یہ حدیث ہرگز میلاد کی دلیل نہیں بن سکتی ہے۔ عقیقہ میں مولود کی جانب سےجانور ذبح کیا جاتا ہے جبکہ میلادالنبی میں شرکیہ اور بدعیہ اعمال انجام دئے جاتے ہیں ۔
دوسرا اشکال : بعض اہل علم نے نبی ﷺ کے اس عمل کو آپ کے ساتھ خاص مانا ہے جبکہ ہمیں معلوم ہے کہ خصوصیت کی دلیل چاہئے اور نبوت کے بعد آپ ﷺ کا عقیقہ کرنا آپ کے ساتھ خاص ہونے کی کوئی دلیل نہیں ہے ۔
 
شمولیت
جون 05، 2018
پیغامات
277
ری ایکشن اسکور
15
پوائنٹ
79
مدونة عبد الله بن سليمان التميمي

[ بحث في حديث ] : أن النبي صلى الله عليه وسلم عق عن نفسه بعدما بعث

الحمد لله والصلاة والسلام على رسول الله أما بعد :
فهذا بحث مختصر في الخبر الوارد أن النبي صلى الله عليه وسلم عق عن نفسه بعد النبوة

قال الطبراني في الأوسط :
[994 ] حَدَّثَنَا أَحْمَدُ قَالَ: نا الْهَيْثَمُ قَالَ: نا عَبْدُ اللَّهِ، عَنْ ثُمَامَةَ، عَنْ أَنَسٍ:
أَنَّ النَّبِيَّ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ عَقَّ عَنْ نَفْسِهِ بَعْدَ مَا بُعِثَ نَبِيًّا .اهـ
الهيثم هو بن جميل وعبد الله هو بن المثى الأنصاري.
أقول : هذا الخبر منكر , لوجوه
منها : أن عبد الله بن المثنى فيه كلام كثير خلاصته أنه صدوق في نفسه ليس من أصحاب الحديث .
وانفراده عن ثمامة عن أنس بهذا الخبر غريب
وهذا ما رجحه ابن حجر في الفتح ** فقال :
لولا ما في عبد الله بن المثنى من المقال لكان هذا الحديث صحيحا .
لكن قد قال بن معين ليس بشيء وقال النسائي ليس بقوي .
وقال أبو داود لا أخرج حديثه .
وقال الساجي فيه ضعف لم يكن من أهل الحديث روى مناكير .
وقال العقيلي لا يتابع على أكثر حديثه .
قال بن حبان في الثقات ربما أخطأ ووثقه العجلي والترمذي وغيرهما فهذا من الشيوخ الذين إذا انفرد أحدهم بالحديث لم يكن حجة .اهـ
أقول : وقال أبو حاتم شيخ وقال أبو زرعة صالح , وقال ابن معين في رواية الكوسج صالح ووثقه الدارقطني في سؤالات الحاكم , وقال في التهذيب : قال في مكان آخر ضعيف .

وله علة أخرى :
قال ابن أبي الدنيا في العيال [ 63 ]:
حدثنا عمرو الناقد ، حدثنا الهيثم بن جميل ، حدثنا عبد الله بن المثنى بن أنس ، حدثني ثمامة بن عبد الله بن أنس ، عن أنس بن مالك ، أن النبي صلى الله عليه وسلم
عق عن نفسه بعدما جاءته النبوة .
قال : وربما قال : حدثنيه رجل من آل أنس ، عن أنس .اهـ
فهنا حدث به عبد الله بن المثنى على الشك وهذا مما يزيد الأمر غرابة .

وهذه العلة أشار لها الإمام الخلال رحمه الله تعالى كما ذكر ابن القيم في تحفة المودود

وباقي طرق الحديث كلها واهية مما يدل على أنه ليس من أحاديث الثقات

قال البزار في مسنده [7281 ] :
حَدَّثنا سهيل بن إبراهيم الجارودي أَبُو الخطاب ، حَدَّثنا عوف بن مُحَمد المراري ، حَدَّثنا عَبد الله بن المحرر ، عَن قَتادة ، عَن أَنَس ؛ أَن النَّبِيّ صَلَّى الله عَلَيه وَسَلَّم عق عن نفسه بَعْدَ مَا بعث نبيا.
وحديثا عَبد الله بن محرر لا نعلم رواهما أحد ، عَن قَتادة ، عَن أَنَس غيره ، وهُو ضعيف الحديث جِدًّا ، وَإنَّما يكتب من حديثه ما ليس عند غيره.اهـ
أقول : عبد الله بن المحرر هالك أحاديثه موضوعات لا تصلح في الشواهد والمتابعات

وقد رواه البيهقي في الكبرى وقال عقبه : وقد روي من وجه آخر عن قتادة ومن وجه آخر عن أنس وليس بشيء .اهـ
أقول : يريد وجه عبد الله بن المثنى , وقوله ليس بشيء يريد أنه منكر .

وقال ابن حجر في التلخيص : قَوْلُهُ : رُوِيَ [ أَنَّهُ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ عَقَّ عَنْ نَفْسِهِ بَعْدَ النُّبُوَّةِ ] .
الْبَيْهَقِيُّ مِنْ حَدِيثِ قَتَادَةَ ، عَنْ أَنَسٍ .
وَقَالَ : مُنْكَرٌ ، وَفِيهِ عَبْدُ اللَّهِ بْنُ مُحَرَّرٍ وَهُوَ ضَعِيفٌ جِدًّا .
وَقَالَ عَبْدُ الرَّزَّاقِ : إنَّمَا تَكَلَّمُوا فِيهِ لِأَجْلِ هَذَا الْحَدِيثِ ، قَالَ الْبَيْهَقِيُّ : وَرُوِيَ مِنْ وَجْهٍ آخَرَ عَنْ قَتَادَةَ ، وَمِنْ وَجْهٍ آخَرَ عَنْ أَنَسٍ ، وَلَيْسَ بِشَيْءٍ .
قُلْت : أَمَّا الْوَجْهُ الْآخَرُ عَنْ قَتَادَةَ فَلَمْ أَرَهُ مَرْفُوعًا ، وَإِنَّمَا وَرَدَ أَنَّهُ كَانَ يُفْتِي بِهِ ، كَمَا حَكَاهُ ابْنُ عَبْدِ الْبَرِّ ، بَلْ جَزَمَ الْبَزَّارُ وَغَيْرُهُ بِتَفَرُّدِ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ مُحَرَّرٍ بِهِ عَنْ قَتَادَةَ ، وَأَمَّا الْوَجْهُ الْآخَرُ عَنْ أَنَسٍ فَأَخْرَجَهُ أَبُو الشَّيْخِ فِي الْأَضَاحِيّ ، وَابْنُ أَيْمَنَ فِي مُصَنَّفِهِ ، وَالْخَلَّالُ مِنْ طَرِيقِ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ الْمُثَنَّى ، عَنْ ثُمَامَةَ بْنِ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ أَنَسٍ ، عَنْ أَبِيهِ وَقَالَ النَّوَوِيُّ فِي شَرْحِ الْمُهَذِّبِ : هَذَا حَدِيثٌ بَاطِلٌ .اهـ

أقول وممن ضعف الخبر :
البيهقي والنووي وابن حجر كما تقدم
وكذلك ابن عبد الهادي في رسالة لطيفة في أحاديث منتشرة ضعيفة
والمباركفوري في تحفة الأحوذي قال : ليس بصحيح

وابن باز قواه في موضع من فتاوى اللجنة الدائمة قديماً
وفي عدة أماكن ضعفه جداً بل قال كما في مجموع فتاويه [ 26 / 267 ] : ضعيف أو موضوع .

هذا وصل اللهم على نبينا محمد وعلى آله وصحبه وسلم
عبد الله بن سليمان التميمي في 9/19/2013 11:25:00 م


الصفحة الرئيسية
عرض إصدار الويب
يتم التشغيل بواسطة Blogger.

http://altameme1.blogspot.com/2013/09/blog-post_690.html

.

Sent from my itel A44 Pro using Tapatalk
 
شمولیت
جون 05، 2018
پیغامات
277
ری ایکشن اسکور
15
پوائنٹ
79
مدونة عبد الله بن سليمان التميمي

[ بحث في حديث ] : أن النبي صلى الله عليه وسلم عق عن نفسه بعدما بعث

الحمد لله والصلاة والسلام على رسول الله أما بعد :
فهذا بحث مختصر في الخبر الوارد أن النبي صلى الله عليه وسلم عق عن نفسه بعد النبوة

قال الطبراني في الأوسط :
[994 ] حَدَّثَنَا أَحْمَدُ قَالَ: نا الْهَيْثَمُ قَالَ: نا عَبْدُ اللَّهِ، عَنْ ثُمَامَةَ، عَنْ أَنَسٍ:
أَنَّ النَّبِيَّ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ عَقَّ عَنْ نَفْسِهِ بَعْدَ مَا بُعِثَ نَبِيًّا .اهـ
الهيثم هو بن جميل وعبد الله هو بن المثى الأنصاري.
أقول : هذا الخبر منكر , لوجوه
منها : أن عبد الله بن المثنى فيه كلام كثير خلاصته أنه صدوق في نفسه ليس من أصحاب الحديث .
وانفراده عن ثمامة عن أنس بهذا الخبر غريب
وهذا ما رجحه ابن حجر في الفتح ** فقال :
لولا ما في عبد الله بن المثنى من المقال لكان هذا الحديث صحيحا .
لكن قد قال بن معين ليس بشيء وقال النسائي ليس بقوي .
وقال أبو داود لا أخرج حديثه .
وقال الساجي فيه ضعف لم يكن من أهل الحديث روى مناكير .
وقال العقيلي لا يتابع على أكثر حديثه .
قال بن حبان في الثقات ربما أخطأ ووثقه العجلي والترمذي وغيرهما فهذا من الشيوخ الذين إذا انفرد أحدهم بالحديث لم يكن حجة .اهـ
أقول : وقال أبو حاتم شيخ وقال أبو زرعة صالح , وقال ابن معين في رواية الكوسج صالح ووثقه الدارقطني في سؤالات الحاكم , وقال في التهذيب : قال في مكان آخر ضعيف .

وله علة أخرى :
قال ابن أبي الدنيا في العيال [ 63 ]:
حدثنا عمرو الناقد ، حدثنا الهيثم بن جميل ، حدثنا عبد الله بن المثنى بن أنس ، حدثني ثمامة بن عبد الله بن أنس ، عن أنس بن مالك ، أن النبي صلى الله عليه وسلم
عق عن نفسه بعدما جاءته النبوة .
قال : وربما قال : حدثنيه رجل من آل أنس ، عن أنس .اهـ
فهنا حدث به عبد الله بن المثنى على الشك وهذا مما يزيد الأمر غرابة .

وهذه العلة أشار لها الإمام الخلال رحمه الله تعالى كما ذكر ابن القيم في تحفة المودود

وباقي طرق الحديث كلها واهية مما يدل على أنه ليس من أحاديث الثقات

قال البزار في مسنده [7281 ] :
حَدَّثنا سهيل بن إبراهيم الجارودي أَبُو الخطاب ، حَدَّثنا عوف بن مُحَمد المراري ، حَدَّثنا عَبد الله بن المحرر ، عَن قَتادة ، عَن أَنَس ؛ أَن النَّبِيّ صَلَّى الله عَلَيه وَسَلَّم عق عن نفسه بَعْدَ مَا بعث نبيا.
وحديثا عَبد الله بن محرر لا نعلم رواهما أحد ، عَن قَتادة ، عَن أَنَس غيره ، وهُو ضعيف الحديث جِدًّا ، وَإنَّما يكتب من حديثه ما ليس عند غيره.اهـ
أقول : عبد الله بن المحرر هالك أحاديثه موضوعات لا تصلح في الشواهد والمتابعات

وقد رواه البيهقي في الكبرى وقال عقبه : وقد روي من وجه آخر عن قتادة ومن وجه آخر عن أنس وليس بشيء .اهـ
أقول : يريد وجه عبد الله بن المثنى , وقوله ليس بشيء يريد أنه منكر .

وقال ابن حجر في التلخيص : قَوْلُهُ : رُوِيَ [ أَنَّهُ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ عَقَّ عَنْ نَفْسِهِ بَعْدَ النُّبُوَّةِ ] .
الْبَيْهَقِيُّ مِنْ حَدِيثِ قَتَادَةَ ، عَنْ أَنَسٍ .
وَقَالَ : مُنْكَرٌ ، وَفِيهِ عَبْدُ اللَّهِ بْنُ مُحَرَّرٍ وَهُوَ ضَعِيفٌ جِدًّا .
وَقَالَ عَبْدُ الرَّزَّاقِ : إنَّمَا تَكَلَّمُوا فِيهِ لِأَجْلِ هَذَا الْحَدِيثِ ، قَالَ الْبَيْهَقِيُّ : وَرُوِيَ مِنْ وَجْهٍ آخَرَ عَنْ قَتَادَةَ ، وَمِنْ وَجْهٍ آخَرَ عَنْ أَنَسٍ ، وَلَيْسَ بِشَيْءٍ .
قُلْت : أَمَّا الْوَجْهُ الْآخَرُ عَنْ قَتَادَةَ فَلَمْ أَرَهُ مَرْفُوعًا ، وَإِنَّمَا وَرَدَ أَنَّهُ كَانَ يُفْتِي بِهِ ، كَمَا حَكَاهُ ابْنُ عَبْدِ الْبَرِّ ، بَلْ جَزَمَ الْبَزَّارُ وَغَيْرُهُ بِتَفَرُّدِ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ مُحَرَّرٍ بِهِ عَنْ قَتَادَةَ ، وَأَمَّا الْوَجْهُ الْآخَرُ عَنْ أَنَسٍ فَأَخْرَجَهُ أَبُو الشَّيْخِ فِي الْأَضَاحِيّ ، وَابْنُ أَيْمَنَ فِي مُصَنَّفِهِ ، وَالْخَلَّالُ مِنْ طَرِيقِ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ الْمُثَنَّى ، عَنْ ثُمَامَةَ بْنِ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ أَنَسٍ ، عَنْ أَبِيهِ وَقَالَ النَّوَوِيُّ فِي شَرْحِ الْمُهَذِّبِ : هَذَا حَدِيثٌ بَاطِلٌ .اهـ

أقول وممن ضعف الخبر :
البيهقي والنووي وابن حجر كما تقدم
وكذلك ابن عبد الهادي في رسالة لطيفة في أحاديث منتشرة ضعيفة
والمباركفوري في تحفة الأحوذي قال : ليس بصحيح

وابن باز قواه في موضع من فتاوى اللجنة الدائمة قديماً
وفي عدة أماكن ضعفه جداً بل قال كما في مجموع فتاويه [ 26 / 267 ] : ضعيف أو موضوع .

هذا وصل اللهم على نبينا محمد وعلى آله وصحبه وسلم
عبد الله بن سليمان التميمي في 9/19/2013 11:25:00 م


الصفحة الرئيسية
عرض إصدار الويب
يتم التشغيل بواسطة Blogger.

http://altameme1.blogspot.com/2013/09/blog-post_690.html

.
 
شمولیت
جون 05، 2018
پیغامات
277
ری ایکشن اسکور
15
پوائنٹ
79
مدونة عبد الله بن سليمان التميمي

[ بحث في حديث ] : أن النبي صلى الله عليه وسلم عق عن نفسه بعدما بعث

الحمد لله والصلاة والسلام على رسول الله أما بعد :
فهذا بحث مختصر في الخبر الوارد أن النبي صلى الله عليه وسلم عق عن نفسه بعد النبوة

قال الطبراني في الأوسط :
[994 ] حَدَّثَنَا أَحْمَدُ قَالَ: نا الْهَيْثَمُ قَالَ: نا عَبْدُ اللَّهِ، عَنْ ثُمَامَةَ، عَنْ أَنَسٍ:
أَنَّ النَّبِيَّ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ عَقَّ عَنْ نَفْسِهِ بَعْدَ مَا بُعِثَ نَبِيًّا .اهـ
الهيثم هو بن جميل وعبد الله هو بن المثى الأنصاري.
أقول : هذا الخبر منكر , لوجوه
منها : أن عبد الله بن المثنى فيه كلام كثير خلاصته أنه صدوق في نفسه ليس من أصحاب الحديث .
وانفراده عن ثمامة عن أنس بهذا الخبر غريب
وهذا ما رجحه ابن حجر في الفتح ** فقال :
لولا ما في عبد الله بن المثنى من المقال لكان هذا الحديث صحيحا .
لكن قد قال بن معين ليس بشيء وقال النسائي ليس بقوي .
وقال أبو داود لا أخرج حديثه .
وقال الساجي فيه ضعف لم يكن من أهل الحديث روى مناكير .
وقال العقيلي لا يتابع على أكثر حديثه .
قال بن حبان في الثقات ربما أخطأ ووثقه العجلي والترمذي وغيرهما فهذا من الشيوخ الذين إذا انفرد أحدهم بالحديث لم يكن حجة .اهـ
أقول : وقال أبو حاتم شيخ وقال أبو زرعة صالح , وقال ابن معين في رواية الكوسج صالح ووثقه الدارقطني في سؤالات الحاكم , وقال في التهذيب : قال في مكان آخر ضعيف .

وله علة أخرى :
قال ابن أبي الدنيا في العيال [ 63 ]:
حدثنا عمرو الناقد ، حدثنا الهيثم بن جميل ، حدثنا عبد الله بن المثنى بن أنس ، حدثني ثمامة بن عبد الله بن أنس ، عن أنس بن مالك ، أن النبي صلى الله عليه وسلم
عق عن نفسه بعدما جاءته النبوة .
قال : وربما قال : حدثنيه رجل من آل أنس ، عن أنس .اهـ
فهنا حدث به عبد الله بن المثنى على الشك وهذا مما يزيد الأمر غرابة .

وهذه العلة أشار لها الإمام الخلال رحمه الله تعالى كما ذكر ابن القيم في تحفة المودود

وباقي طرق الحديث كلها واهية مما يدل على أنه ليس من أحاديث الثقات

قال البزار في مسنده [7281 ] :
حَدَّثنا سهيل بن إبراهيم الجارودي أَبُو الخطاب ، حَدَّثنا عوف بن مُحَمد المراري ، حَدَّثنا عَبد الله بن المحرر ، عَن قَتادة ، عَن أَنَس ؛ أَن النَّبِيّ صَلَّى الله عَلَيه وَسَلَّم عق عن نفسه بَعْدَ مَا بعث نبيا.
وحديثا عَبد الله بن محرر لا نعلم رواهما أحد ، عَن قَتادة ، عَن أَنَس غيره ، وهُو ضعيف الحديث جِدًّا ، وَإنَّما يكتب من حديثه ما ليس عند غيره.اهـ
أقول : عبد الله بن المحرر هالك أحاديثه موضوعات لا تصلح في الشواهد والمتابعات

وقد رواه البيهقي في الكبرى وقال عقبه : وقد روي من وجه آخر عن قتادة ومن وجه آخر عن أنس وليس بشيء .اهـ
أقول : يريد وجه عبد الله بن المثنى , وقوله ليس بشيء يريد أنه منكر .

وقال ابن حجر في التلخيص : قَوْلُهُ : رُوِيَ [ أَنَّهُ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ عَقَّ عَنْ نَفْسِهِ بَعْدَ النُّبُوَّةِ ] .
الْبَيْهَقِيُّ مِنْ حَدِيثِ قَتَادَةَ ، عَنْ أَنَسٍ .
وَقَالَ : مُنْكَرٌ ، وَفِيهِ عَبْدُ اللَّهِ بْنُ مُحَرَّرٍ وَهُوَ ضَعِيفٌ جِدًّا .
وَقَالَ عَبْدُ الرَّزَّاقِ : إنَّمَا تَكَلَّمُوا فِيهِ لِأَجْلِ هَذَا الْحَدِيثِ ، قَالَ الْبَيْهَقِيُّ : وَرُوِيَ مِنْ وَجْهٍ آخَرَ عَنْ قَتَادَةَ ، وَمِنْ وَجْهٍ آخَرَ عَنْ أَنَسٍ ، وَلَيْسَ بِشَيْءٍ .
قُلْت : أَمَّا الْوَجْهُ الْآخَرُ عَنْ قَتَادَةَ فَلَمْ أَرَهُ مَرْفُوعًا ، وَإِنَّمَا وَرَدَ أَنَّهُ كَانَ يُفْتِي بِهِ ، كَمَا حَكَاهُ ابْنُ عَبْدِ الْبَرِّ ، بَلْ جَزَمَ الْبَزَّارُ وَغَيْرُهُ بِتَفَرُّدِ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ مُحَرَّرٍ بِهِ عَنْ قَتَادَةَ ، وَأَمَّا الْوَجْهُ الْآخَرُ عَنْ أَنَسٍ فَأَخْرَجَهُ أَبُو الشَّيْخِ فِي الْأَضَاحِيّ ، وَابْنُ أَيْمَنَ فِي مُصَنَّفِهِ ، وَالْخَلَّالُ مِنْ طَرِيقِ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ الْمُثَنَّى ، عَنْ ثُمَامَةَ بْنِ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ أَنَسٍ ، عَنْ أَبِيهِ وَقَالَ النَّوَوِيُّ فِي شَرْحِ الْمُهَذِّبِ : هَذَا حَدِيثٌ بَاطِلٌ .اهـ

أقول وممن ضعف الخبر :
البيهقي والنووي وابن حجر كما تقدم
وكذلك ابن عبد الهادي في رسالة لطيفة في أحاديث منتشرة ضعيفة
والمباركفوري في تحفة الأحوذي قال : ليس بصحيح

وابن باز قواه في موضع من فتاوى اللجنة الدائمة قديماً
وفي عدة أماكن ضعفه جداً بل قال كما في مجموع فتاويه [ 26 / 267 ] : ضعيف أو موضوع .

هذا وصل اللهم على نبينا محمد وعلى آله وصحبه وسلم
عبد الله بن سليمان التميمي في 9/19/2013 11:25:00 م


الصفحة الرئيسية
عرض إصدار الويب
يتم التشغيل بواسطة Blogger.

http://altameme1.blogspot.com/2013/09/blog-post_690.html

.
 
شمولیت
جون 05، 2018
پیغامات
277
ری ایکشن اسکور
15
پوائنٹ
79
.

*نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کا عقیقہ؟*


تحریر: محدث العصر شیخ غلام مصطفیٰ ظہیر امن پوری حفظه الله

~~~~؛

نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے اپنا عقیقہ کرنا ثابت نہیں۔


سیدنا انس بن مالک رضی اللہ عنہ سے منسوب ہے

أَنَّ النَّبِيَّ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ عَقَّ عَنْ نَّفْسِہٖ بَعْدَ مَا بُعِثَ نَبِیًّا

نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے بعثت کے بعد اپنا عقیقہ کیا۔

(المعجم الأوسط للطبراني:994)



روایت ضعیف ہے۔یہ عبداللہ بن مثنی بن انس کی "منکر" روایت میں سے ہے۔

(زاد المعاد لابن القيم332/2)


حافظ بیہقی رحمہ اللہ نے اسے "منکر" کہا ہے۔

(السنن الکبیریٰ 300/9)



حافظ نووی رحمہ اللہ نے "باطل" کہاں ہے۔

(المجموع شرح المھذب 431/8)



اس کی دوسری سند (مصنف عبد الرزاق:۴۹۶۰) میں عبداللہ بن محرر سخت" ضعیف و متروک"ہے، نیز قتادہ کی تدلیس بھی ہے۔


تیسری سند(الافرادلا بن شا ہین:۳) میں عبداللہ بن واقرحرانی" متروک" ہے۔نیز قتادہ کی تدلیس ہے،اس میں ایک اور علت بھی ہے۔

https://shaikhamanpuri.blogspot.com/2019/07/blog-post_90.html?m=1

.

Sent from my vivo 1816 using Tapatalk
 
Top