السلام علیکم ورحمتہ اللہ وبرکاتہ
محترم شیوخ یہ جملہ بہت مشہور ہے ۔ بعض لوگ اس کو نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی طرف منسوب کرتے ہیں ۔ اس کی حقیقت واضح کر دیں ۔ جزاکم اللہ خیرا
وعلیکم السلام ورحمۃ اللہ وبرکاتہ
یہ حدیث نبوی نہیں ،بلکہ کسی عالم یا بزرگ کا قول ہے ،
نماز کی فرضیت وہیں ہوئی ہے اورجس طرح معراج میں اللہ رب العزت نے اپنے پیارے نبی ﷺ کو اعزاز بخشا ،اسی طرح ہر مومن کو روزانہ پانچ وقت مناجات و حاضری کا موقع دیا جاتا ہے جس کی وجہ سے نماز کو مومن کی معراج کہا گیا ہے۔ لیکن یہ حدیث نہیں ہے۔
علماء اور خطیب حضرات نماز کے اہم مقام اور اہمیت کو بتانے کیلئے یہ جملہ بولتے ،لکھتے ہیں ،مثلاً ایک عربی عالم کے خطبہ کے ابتدائی کلمات دیکھئے :
أمَّا بَعْدُ:
فإن الصلاة معراج المؤمنين الروحي، حيث يتفيؤون خلالها كلَّ يومٍ ظلال القرب من رب العالمين، وكانت بالنسبة لنبينا الكريم صلى الله عليه وسلم قرة العين وراحة الفؤاد، قال صلى الله عليه وسلم: (حُبِّبَ إليَّ من دُنْياكمُ النِّساءُ والطِّيبُ وجُعِلَت قُرَّةُ عَيني في الصَّلاةِ) (ابن الملقن في البدر المنير 1/ 501 وقال: إسناده صحيحٌ عن أنس بن مالك رضي الله تعالى عنه).
https://www.alukah.net/sharia/0/127821/