• الحمدللہ محدث فورم کو نئےسافٹ ویئر زین فورو 2.1.7 پر کامیابی سے منتقل کر لیا گیا ہے۔ شکایات و مسائل درج کروانے کے لئے یہاں کلک کریں۔
  • آئیے! مجلس التحقیق الاسلامی کے زیر اہتمام جاری عظیم الشان دعوتی واصلاحی ویب سائٹس کے ساتھ ماہانہ تعاون کریں اور انٹر نیٹ کے میدان میں اسلام کے عالمگیر پیغام کو عام کرنے میں محدث ٹیم کے دست وبازو بنیں ۔تفصیلات جاننے کے لئے یہاں کلک کریں۔

کیا ووٹ مقدس امانت ہے؟

شمولیت
فروری 07، 2013
پیغامات
453
ری ایکشن اسکور
924
پوائنٹ
26
کیا ووٹ مقدس امانت ہے؟
حامدمحمود حفظہ اللہ

الحمد ﷲ والصلوۃ والسلام علی رسول اﷲ
سیاست سے لاتعلقی دین کا گمراہ کن تصور ہے ۔۔۔۔۔۔۔
آسمان سے اوپر ‘زمین سے نیچے یا ملک سے باہر ہی کی بات کرنا دین انبیاء کی نمائندگی نہیں۔جاہلیت کی تاریکی چار سو پھیلی ہو اور زندگی کا کوئی بھی گوشہ طاغوت کے پنجہ میں گرفتار ہو تو ورثہ نبوت یہ نہیں ہوا کرتا کہ اہل توحید معاشرے کی روش سے اتفاق واختلاف کے سلسلے میں ’’ذاتی رائے‘‘رکھنے پر اکتفاء کرتے ہوں ۔طاغوت سروں پر مسلط ہو تو خاموشی ہی ایمان باﷲ کے حق میں جرم ہوجایا کرتی ہے ۔پھر اگر باطل کے لئے تاویلات کی تلاش اور درمیانی راہیں نکالنے کا چلن ہوجائے اور روئے باطل کی پردہ پوشی حق سے کی جانے لگے تو یہ جرم ایسا ہے کہ آج تک صرف بنی اسرائیل کا امتیاز بن سکا ہے۔

شرک سے براء ت کا عقیدہ ایسا نہیں کہ کوئی انسان یہ کہہ کر جان چھڑالے کہ وہ بھی اسے اچھا نہیں سمجھتا یا دل سے قبول نہیں۔طاغو ت کوئی ’’پرہیزی ‘‘قسم کی چیز نہیں ہوا کرتی کہ صرف بے توجہی کا مستحق ہو ۔اس سے دشمنی وبراء ت بھی کوئی نفلی عبادت نہیں جس کا کرلینا صرف درجات کی بلندی کا سبب ہو ۔اس آسمان کی چھت تلے طاغوت اﷲکا سب سے بڑا دشمن ہے اور عرش عظیم کے مالک سے ایمان وفاداری کے ثبوت کے لئے بلند ترین آواز میں اﷲکے اس دشمن سے بغض وحقارت کا اظہار اور مسمار کردینے کا عزم ہی ایمان کا حصہ ‘نجات کا سبب اور انبیاء کا اہم ترین وبنیادی مشن ہے۔ہمارا یہ رسالہ اس فرض کی جانب توجہ دلانے کی ایک ادنیٰ سی کاوش ہے‘کیا بعید کہ اﷲتعالیٰ اسے اہل توحید کے دل کی آواز بنادے۔
اس سلسلے میں ہم کچھ وضاحتیں کردینا چاہتے ہیں ۔

وہ لوگ تو اس رسالے کے مخاطب ہی نہیں جو اس نظام طاغوت کو بلاچوں وچراں تسلیم کرکے طاغوت کی بندگی کررہے ہیں اور شاید انہیں اس پر فخر بھی ہو ۔ہمارے مخاطب صرف وہ لوگ ہیں جو بہرحال اپنے آپ کو مسلمان رکھنا چاہتے ہیں اور اسلام ہی پر مرنے کی آرزو دل میں رکھتے ہیں ۔ہماری بات صرف اس طبقہ سے ہوگی جس کی محفلوں میں بہرحال اﷲاور یوم آخرت کا ذکر ہوتا ہے اور جس میں دین کی اتنی رمق باقی ہے کہ اس جاہلی نظام کے ’’ناقدین ‘‘میں بہر کیف شامل ہوتا ہے ۔

باقی وہ لوگ جن کیلئے عورت کی حکمرانی کفر کی حکمرانی سے زیادہ تکلیف دہ ہے ‘ملک کا غم جنہیں دین سے زیادہ رہتا ہے اور قومی ترقی کی فکر جہنم کے عذاب سے زیادہ پریشان کرتی ہے یا جو محلے کے کونسلر سے خرابی تعلقات کے متحمل نہیں ‘وہ اسلام پسند جو ’’چھوٹا کفر‘‘اور ’’کمتر برائی‘‘قبول کرنا ہی ہر مسئلہ کا حل سمجھتے ہیں اور وہ تھکے ہارے مسلمان جن کا وزن اس معاشرے میں صرف ووٹ کی حد تک ہی ہے اور وہ اسی کے ذریعے کمال کر دکھانا چاہتے ہیں ۔۔۔۔۔۔۔۔۔ان سب لوگوں کے لئے ہماری باتیں دل کو لگنے میں ناکام ہوجائیں تو ہماری توقع کے عین مطابق ہوگا ۔شکست خوردہ انسانوں کی بھیڑکو ایمانی مفہوم سمجھانا اور عزیمت کی راہ پر گامزن کرنا کبھی آسان نہیں رہا ۔پستیوں میں بسنے والے بلندیوں کو سر کرنے کی بات کو ہلاکت اور تباہی کی دعوت قرار دیں تو یہ کبھی پہلے تعجب کی بات رہی ہے نہ اب۔

تصحیح معلومات کی خاطر ہم یہ بھی عرض کرنا چاہتے ہیں کہ انتخابات کی اس بھیڑ کے موقع پر ہم نے فرزندان توحید تک اس کے عقیدے کی آواز پہنچانے کی کوشش ضرور کی ہے مگر ہمارے رسالے کے اس موضوع کو وقتی اورمقامی نہ سمجھ لیا جائے جائے ۔ایسے موقع پر حق بیان کرنا ناگزیر ضرور ہوجایا کرتا ہے مگر اس وجہ سے حق کو بھی ہنگامی سمجھ لینا بہت بڑی زیادتی ہوگی ۔حق پر ایمان اور باطل کا انکار الیکشن سے پہلے اور بعدیکساں فرض ہے اور اس کا ابلاغ کسی وقت ضروری تر ہوجائے تو اس سے اس فرض کی عالمگیر اور آفاقی حیثیت کم تر نہیں ہوجاتی ۔

اس کے علاوہ ووٹ کے عنوان سے بھی کوئی ہرگز یہ نہ سمجھ لے کہ ہم خاص اس فعل کے پیچھے ہاتھ دھو کر پڑنا چاہتے ہیں اور اگر کوئی سیاست سے ویسے ہی لاتعلق ہے (ووٹروں کی اکثریت حق رائے دہی استعمال نہیں کرتی)تو یہ رسالہ اس سے متعلق نہیں!الیکشن سے عدم دلچسپی کا سبب اگر بصیرت ایمانی نہ ہو تو ایسے دنیا بیزاروں سے ہمیں کوئی سروکار نہیں۔

چونکہ یہ رسالہ الیکشن کے ساتھ خاص نہیں اس لئے کوئی صاحب اسے اخباری روزنامچہ نہ سمجھ لیں جو تاریخ اشاعت سے اگلے ہی روز اپنی افادیت کھودیتا ہے اور یوں بڑے آرام سے ردی کی نذرہوجاتا ہے ۔یہ رسالہ عقیدہ کی دعوت ہے اور اس دعوت کو لوگوں تک پہنچانے کے لئے الیکشن سے بعد کا وقت بھی اتنا ہی مناسب ہے جتنا اس سے پہلے ۔

ہماری درخواست ہے کہ اس موضوع پر کوئی رائے قائم کرنے سے پہلے یہ رسالہ پڑھ لیا جائے اس کے بعد جو رائے قائم کرنا چاہیں آپ آزاد ہوں گے ۔اس رسالے میں بعض شبہات کا بھی مختصر طور پر ازالہ کیا گیا ہے ۔شبہات اور اعتراضات اور بھی ہوسکتے ہیں جو اگر ہم تک پہنچائے جائیں تو رسالہ کی آئندہ اشاعت میں مفید وممد ہوں گے ۔

ہمیں اعتراف ہے کہ جمہوریت ایسے طویل موضوع کا ایک مختصر رسالہ میں سماجانا ممکن ہی نہیں ۔اسے پوری تفصیل کے ساتھ زیر بحث لانے کے لئے دراصل کئی ایک تصنیفات کی ضرورت ہے ۔مگر انسانی ہمت بہر حال محدود ہے ۔اس سلسلے کی پہلی کتاب ’’جمہوریت وقت کا طاغوت‘‘تیاری کے مراحل سے گزررہی ہے ۔ہماری درخواست ہے کہ ہمارے موقف کی پوری وضاحت اور اس پر وارد شبہات کے مفصل جواب کے حصول کے لئے اس کتاب کا انتظار کیا جائے ۔

کے صالح عناصر میں تعارف وتعاون کی راہ نکل آنا اس دین کا تقاضا بھی ہے اور ہماری عین منشاء بھی ۔

وہ بھائی جو اس رسالے کو مفید پاتے ہوئے پھیلانا چاہیں یا چھپا کر تقسیم کرنے کے خواشمند ہوں تو ہم ان کیلئے مزید خیر کی توفیق کیلئے دعاگو ہیں ۔چھپانے کی صور ت میں ‘ویسے تو ہم سے مسودہ بھی دستیاب ہوگا ‘تاہم سرورق پر مذکور ہمارا رابطہ کا ایڈریس ضرور دے دیا جائے کہ ہم اس بارے میں اعتراضات وتجاویز وغیرہ وصول کرسکیں ۔

علاوہ ازیں ‘ایک تو کوئی صاحب اس میں کسی بھی قسم کی کمی بیشی کے قطعاً مجاز نہیں ۔دوسرا‘اس رسالہ کی مخالفت یا حمایت میں جیسا بھی رد عمل ہو ہم صرف اس موقف کے پابند ہوں گے جو ہماری مطبوعات میں پیش کیا جائے گا ۔

کیا ووٹ مقدس امانت ہے کا لنک :
پی ڈی ایف

ان پیج
 
شمولیت
فروری 19، 2013
پیغامات
2
ری ایکشن اسکور
8
پوائنٹ
0
"واضح رہے کہ ہماری ایک پرانی تحریر ’کیا ووٹ مقدس امانت ہے؟‘ کی اشاعت ہماری جانب سے فی الحال موقوف ہے جب تک کہ کچھ ترمیم واضافہ جات کا کام جوکہ فی الوقت اس پر جاری ہے، مکمل نہ ہوجائے اور یہ ’مطبوعات ایقاظ‘ ہی کی جانب سے شائع نہ ہو جائے۔"(استاذ حامدکمال الدین حفظہ اللہ)
حوالہ:سہ ماھی ایقاظ اکتوبر 2008
 
شمولیت
فروری 07، 2013
پیغامات
453
ری ایکشن اسکور
924
پوائنٹ
26
"واضح رہے کہ ہماری ایک پرانی تحریر ’کیا ووٹ مقدس امانت ہے؟‘ کی اشاعت ہماری جانب سے فی الحال موقوف ہے جب تک کہ کچھ ترمیم واضافہ جات کا کام جوکہ فی الوقت اس پر جاری ہے، مکمل نہ ہوجائے اور یہ ’مطبوعات ایقاظ‘ ہی کی جانب سے شائع نہ ہو جائے۔"(استاذ حامدکمال الدین حفظہ اللہ)
حوالہ:سہ ماھی ایقاظ اکتوبر 2008
محترم شہباز اسلام صاحب جو کتاب ’’کیا ووٹ مقدس امانت ہے‘‘ آپ ہی کی شائع کردہ ہے۔جو کتاب میرے پاس ہے اس پر آپ ہی کا پرنٹ ٹائٹل موجود ہے۔اور دوسری بار یہ کتاب ادارۂ الموحدین نے بھی شائع کی ہے ’’کلمہ گو طاغوت‘‘ کے نام سے تو یہ کتاب مجھے ان کی ویب سائٹ پر ان پیج میں دستیاب ہوئی تو میں نے اسے یونی کوڈ میں ڈھال کر فورم پر رکھ دیتاکہ موجودہ صورتحال کے تحت مسلمانوں کے لئے نفع کا باعث ہوجائے۔ اور ایک ریکارڈ بھی ہوجائے کہ پچھلا موقف جو آپ نے بیان کیا وہ کیا تھا اور جو موقف اب آپ بیان کرنے والے ہیں اس میں کتنی تبدیلی واقع ہوئی ۔جزاک اللہ خیرا
 

گڈمسلم

سینئر رکن
شمولیت
مارچ 10، 2011
پیغامات
1,407
ری ایکشن اسکور
4,912
پوائنٹ
292
عربی سے واقفیت رکھنے والوں کےلیے۔۔قوی امید ہے کوئی ساتھی اس کا ترجمہ یاخلاصہ پیش کردیں گے۔ ان شاءاللہ

حكم الديمقراطية والانتخابات والعمل في أنظمتها

ما حكم الديمقراطية ، وشغل منصب بارز في البرلمان ، أو شغل منزلة أخرى في حكومة ديمقراطية ؟ وما حكم الاقتراع وانتخاب شخص بطريقة ديمقراطية ؟
الحمد لله
أولاً:
الديمقراطية نظام أرضي ، يعني حكم الشعب للشعب ، وهو بذلك مخالف للإسلام ، فالحكم لله العلي الكبير ، ولا يجوز أن يُعطى حق التشريع لأحدٍ من البشر كائناً من كان .وقد جاء في " موسوعة الأديان والمذاهب المعاصرة " ( 2 / 1066 ، 1067 ) :
"ولا شك في أن النظم الديمقراطية أحد صور الشرك الحديثة ، في الطاعة ، والانقياد ، أو في التشريع ، حيث تُلغى سيادة الخالق سبحانه وتعالى ، وحقه في التشريع المطلق ، وتجعلها من حقوق المخلوقين ، والله تعالى يقول : ( مَا تَعْبُدُونَ مِنْ دُونِهِ إِلَّا أَسْمَاءً سَمَّيْتُمُوهَا أَنْتُمْ وَآَبَاؤُكُمْ مَا أَنْزَلَ اللَّهُ بِهَا مِنْ سُلْطَانٍ إِنِ الْحُكْمُ إِلَّا لِلَّهِ أَمَرَ أَلَّا تَعْبُدُوا إِلَّا إِيَّاهُ ذَلِكَ الدِّينُ الْقَيِّمُ وَلَكِنَّ أَكْثَرَ النَّاسِ لَا يَعْلَمُونَ ) يوسف/ 40 ، ويقول تعالى : ( إِنِ الْحُكْمُ إِلَّا لِلَّهِ ) الأنعام/ 57" انتهى .
وسبق تفصيل ذلك في جواب السؤال رقم ( 98134 ) .
ثانياً:
من علم حال النظام الديمقراطي وحكمه ثم رشح نفسه أو رشح غيره مقرّاً لهذا النظام ، عاملاً به ، فهو على خطر عظيم ، إذ النظام الديمقراطي منافٍ للإسلام كما سبق .وأما من رشح نفسه أو رشح غيره في ظل هذا النظام ، حتى يدخل ذلك المجلس وينكر على أهله ، ويقيم الحجة عليهم ، ويقلل من الشر والفساد بقدر ما يستطيع ، وحتى لا يخلو الجو لأهل الفساد والإلحاد يعيثون في الأرض فساداً ، ويفسدون دنيا الناس ودينهم ، فهذا محل اجتهاد ، حسب المصلحة المتوقعة من ذلك .بل يرى بعض العلماء أن الدخول في هذه الانتخابات واجب .
فقد سئل الشيخ محمد بن عثيمين رحمه الله عن حكم الانتخابات ، فأجاب : "أنا أرى أن الانتخابات واجبة ، يجب أن نعين من نرى أن فيه خيراً ، لأنه إذا تقاعس أهل الخير ، مَنْ يحل محلهم ؟ سيحل محلهم أهل الشر ، أو الناس السلبيون الذين ما عندهم خير ولا شر ، أتباع كل ناعق ، فلابد أن نختار من نراه صالحاً . فإذا قال قائل : اخترنا واحداً لكن أغلب المجلس على خلاف ذلك .قلنا : لا مانع ، هذا الواحد إذا جعل الله فيه البركة وألقى كلمة الحق في هذا المجلس سيكون لها تأثير ولا بد ، لكن الذي ينقصنا الصدق مع الله ، نعتمد على الأمور المادية الحسية ولا ننظر إلى كلمة الله عز وجل .... فَرَشِّحْ مَنْ ترى أنه خير ، وتوكل على الله " انتهى باختصار. من "لقاءات الباب المفتوح".
وسئل علماء اللجنة الدائمة للإفتاء :
"هل يجوز التصويت في الانتخابات والترشيح لها ؟ مع العلم أن بلادنا تحكم بغير ما أنزل الله؟
فأجابوا :
"لا يجوز للمسلم أن يرشح نفسه رجاء أن ينتظم في سلك حكومة تحكم بغير ما أنزل الله ، وتعمل بغير شريعة الإسلام ، فلا يجوز لمسلم أن ينتخبه أو غيره ممن يعملون في هذه الحكومة إلا إذا كان من رشح نفسه من المسلمين ومن ينتخبون يرجون بالدخول في ذلك أن يصلوا بذلك إلى تحويل الحكم إلى العمل بشريعة الإسلام ، واتخذوا ذلك وسيلة إلى التغلب على نظام الحكم ، على ألا يعمل من رشح نفسه بعد تمام الدخول إلا في مناصب لا تتنافى مع الشريعة الإسلامية".
الشيخ عبد العزيز بن باز ، الشيخ عبد الرزاق عفيفي ، الشيخ عبد الله بن غديان ، الشيخ عبد الله بن قعود" .انتهى من" فتاوى اللجنة الدائمة " ( 23 / 406 ، 407 ) .
وسئلوا ـ أيضاً ـ :
"كما تعلمون عندنا في الجزائر ما يسمى بـ : "الانتخابات التشريعية" ، هناك أحزاب تدعو إلى الحكم الإسلامي ، وهناك أخرى لا تريد الحكم الإسلامي . فما حكم الناخب على غيرالحكم الإسلامي مع أنه يصلي ؟
فأجابوا:
"يجب على المسلمين في البلاد التي لا تحكم الشريعة الإسلامية ، أن يبذلوا جهدهم وما يستطيعونه في الحكم بالشريعة الإسلامية ، وأن يقوموا بالتكاتف يدا واحدة في مساعدة الحزب الذي يعرف منه أنه سيحكم بالشريعة الإسلامية ، وأما مساعدة من ينادي بعدم تطبيق الشريعة الإسلامية فهذا لا يجوز ، بل يؤدي بصاحبه إلى الكفر ؛ لقوله تعالى : (وَأَنِ احْكُمْ بَيْنَهُمْ بِمَا أَنْزَلَ اللَّهُ وَلَا تَتَّبِعْ أَهْوَاءَهُمْ وَاحْذَرْهُمْ أَنْ يَفْتِنُوكَ عَنْ بَعْضِ مَا أَنْزَلَ اللَّهُ إِلَيْكَ فَإِنْ تَوَلَّوْا فَاعْلَمْ أَنَّمَا يُرِيدُ اللَّهُ أَنْ يُصِيبَهُمْ بِبَعْضِ ذُنُوبِهِمْ وَإِنَّ كَثِيرًا مِنَ النَّاسِ لَفَاسِقُونَ * أَفَحُكْمَ الْجَاهِلِيَّةِ يَبْغُونَ وَمَنْ أَحْسَنُ مِنَ اللَّهِ حُكْمًا لِقَوْمٍ يُوقِنُونَ) المائدة/49-50 ، ولذلك لما بَيَّن اللهُ كفر من لم يحكم بالشريعة الإسلامية ، حذر من مساعدتهم أو اتخاذهم أولياء ، وأمر المؤمنين بالتقوى إن كانوا مؤمنين حقا ، فقال تعالى : (يَاأَيُّهَا الَّذِينَ آمَنُوا لَا تَتَّخِذُوا الَّذِينَ اتَّخَذُوا دِينَكُمْ هُزُوًا وَلَعِبًا مِنَ الَّذِينَ أُوتُوا الْكِتَابَ مِنْ قَبْلِكُمْ وَالْكُفَّارَ أَوْلِيَاءَ وَاتَّقُوا اللَّهَ إِنْ كُنْتُمْ مُؤْمِنِينَ) المائدة/57 .
وبالله التوفيق ، وصلى الله على نبينا محمد وآله وصحبه وسلم ". اللجنة الدائمة للبحوث العلمية والإفتاء--الشيخ عبد العزيز بن عبد الله بن باز ، الشيخ عبد الرزاق عفيفي ، الشيخ عبد الله بن غديان" .انتهى من"فتاوى اللجنة الدائمة" (1/373) .

 
Top