• الحمدللہ محدث فورم کو نئےسافٹ ویئر زین فورو 2.1.7 پر کامیابی سے منتقل کر لیا گیا ہے۔ شکایات و مسائل درج کروانے کے لئے یہاں کلک کریں۔
  • آئیے! مجلس التحقیق الاسلامی کے زیر اہتمام جاری عظیم الشان دعوتی واصلاحی ویب سائٹس کے ساتھ ماہانہ تعاون کریں اور انٹر نیٹ کے میدان میں اسلام کے عالمگیر پیغام کو عام کرنے میں محدث ٹیم کے دست وبازو بنیں ۔تفصیلات جاننے کے لئے یہاں کلک کریں۔

کیا پھتروں کی اپنی تاثیر ہوتی ہے ؟

شمولیت
اگست 11، 2013
پیغامات
17,117
ری ایکشن اسکور
6,783
پوائنٹ
1,069
السلام علیکم

اس حدیث مبارکہ سے پتھر کی تاثیر کو کوئی کنکشن نہیں۔

پتھروں میں تاثیر ہوتی ھے مگر اس طرح نہیں جس طرح آپ سمجھ رہے ہیں۔

والسلام


پتھروں اور نگینوں کے فوائد و اثرات :

تمام اور خالص تعریف اللہ ہی کا حق ہے ، جِس نے اپنے رسول کو ہدایت کے ساتھ بھیجا ، اور اُسے اپنی وحی کے مطابق کلام کروایا ، اور اپنے رسول کے بارے میں گواہی دہی کہ وہ اپنی خواہش کے مطابق بات نہیں کرتا ، اور ہمیں خبر دی کہ جو کوئی بھی اللہ کی بات کو جُھٹلائے گا اور اُس سے رُوگردانی کرے گا پس اُس کے رسول کی اطاعت نہیں کرے گا اللہ ایسے ہر شخص کو بڑھکتی ہوئی آگ میں داخل کرے گا ۔

ہم مسلمانوں میں پائے جانے والے بہت سےعقائد ایسے ہیں جن کے ٹھیک ہونے کا اسلامی تعلیمات میں کوئی صحیح ثابت شدہ ثبوت نہیں ملتا ، یعنی نہ تو اللہ تبارک و تعالیٰ کی کتاب میں ان عقائد کی درستگی کی کوئی دلیل ملتی ہے اور نہ ہی خلیل اللہ محمد صلی اللہ علیہ وعلی آلہ وسلم کی قولی ، فعلی یا تقریری سُنّت میں سے ، اور نہ ہی صحابہ رضی اللہ عنہم اجمعین کی جماعت کے اقوال و افعال میں ، بس ، لوگوں کی خود ساختہ من گھڑت روایات ہیں ، اور باتیں ہیں ، جنہیں رسول اللہ محمد صلی اللہ علیہ وعلی آلہ وسلم سے منسوب کیا گیا ، اور اسی طرح کے کچھ بے ثبوت قصے کہانیاں ، خواب ، اور تخیلات ہیں ،

ایسے ہی خود ساختہ ، مَن گھڑت عقائد میں کچھ خاص پتھروں کے بارے میں اس قسم کے عقیدے بھی پائے جاتے ہیں کہ وہ پتھر انسان کے لیے روحانی یا مادی فائدہ یا نقصان پہچانے کی قدرت یا صلاحیت رکھتے ہیں ، مختلف پتھروں کے بارے میں اس قسم کے عقائد بھی خود ساختہ اور من گھڑت ہی ہیں کہ اگر انہیں پہنا جائے تو وہ پتھر انسان کوکوئی فائدہ پہنچاتے ہیں ، یا مختلف قسم کی تکلیفوں ، بیماریوں اور پریشانیوں وغیرہ سے بچاتے ہیں ، ان خلافء اسلام عقائد کو کچھ مضبوط بنانے کے لیے ، اور ان کی گمراہی کو درست دکھانے کے لیے ان پتھروں کے اثرات کو ستاروں سیاروں کے اثرات اور ان کی چالوں سے بھی جوڑا جاتا ہے ، جو کہ گمراہی پر گمراہی کے مصداق ہے ، ستاروں اور سیاروں کی چال اور اثرات کی حقیقت ایک الگ مضمون کا مطالعہ بھی مفید رہے گا اس کا ربط درج ذیل ہے۔

کچھ لوگ ان پتھروں ، اور زیورات کے لیے استعمال ہونے والی مختلف دھاتوں کے بارے میں کچھ ایسی غیر حقیقی باتیں بھی مانتے ہیں کہ یہ مختلف دھاتیں اور پتھر انسانی جسم پر اچھے اثرات مرتب کرتے ہیں ، اور مختلف قسم کی بیماریاں ختم کرتے ہیں ، اور انسانی جسم میں فائدہ مند مواد بناتے اور بڑھاتے ہیں، اگر ایسا ہی ہوتا ، تو ہمارے اس موجودہ دور کی ترقی یافتہ میڈیکل ، اور میڈیسن سائنس کے ماہرین طرح طرح کی جڑی بوٹیوں اور جسم کے اندر داخل کیے جانے والے مختلف مواد کی دوائیاں بنانے میں جان کھپانے کی بجائے ان پتھروں اور دھاتوں کے ذریعے علاج کرتے ہوئے نظر آتے ، کیونکہ جسم کے اندر داخل کیے جانے والی ادویات کے جانبی نقصانات (Side effects)ایک ناقابل تردید حقیقت ہیں ، جو اکثر اوقات وقتی طور پر ملنے والے آرام کے بعد پہلی بیماری سے زیادہ اور بڑی بیماری کا سبب بنتے ہیں ، ان سے بچے رہنے کے لیے یہ پتھر اور دھاتیں اچھی رہتیں کہ یہ نہ تو جسم میں داخل ہوتیں اور نہ ہی جانبی نقصانات ہوتے ، اگر یہ کہا جائے کہ یہ پتھر اور دھاتیں بہت قیمتی ہوتی ہیں ، صرف مالدار لوگ ہی استعمال کر سکتے ہیں ، تو بھی ان کے ذریعے علاج کے عملی نمونے تو ملنے ہی چاہیں تھے ۔

اور مالدار لوگ سفید بستروں پر سسکتے ہوئے ، دوسرے کے محتاج بنے ہوئے ، بہت زیادہ مال ہوتے ہوئے بھی اللہ کی کئی نعمتوں کو استعمال نہ کرنے کی حالت ، میں دکھائی نہیں دینا چاہیے تھے اگر کوئی ان پتھروں یا دھاتوں کو کسی طرح کھنچ تان کر سائنسی تحقیقات کی روشنی میں رکھ کر اپنی بد عقیدگی کی درستگی کی کوئی دلیل بنا بھی لے تو بھی وہ کوئی یقینی محقق بات نہیں کیونکہ ان پتھروں اور زیورات کے لیے استعمال ہونے والی دھاتوں کے بارے میں سائنسی طور پر بھی کوئی یقینی ثابت شدہ بات ایسی نہیں ملتی جو ان چیزوں کو انسانی جسم پر کسی قسم کے اچھے یا برے اثرات مرتب کرنے والے ثابت کر سکے ، اور عملی طور پر بھی ، اور بالفرض محال اگر مل بھی جائے تو بھی مسلمان ہونے کی حیثیت سے ہمیں اس کی تصدیق اللہ اور اس کے رسول محمد صلی اللہ علیہ وعلی آلہ وسلم کی عطاء فرمودہ خبروں اور تعلیمات کی کسوٹیوں پر کرنا لازم ہے ،

کیونکہ معاملہ ان پتھروں اور دھاتوں کی مادی تاثیر پر مشتمل باتوں تک ہی محدود نہیں کہ یہ سمجھا جائے کہ دیگر ادویات یا طاقت پہنچانے والی خوراک کی طرح یہ بھی اثر رکھتے ہیں ، بلکہ معاملہ روحانی اور اللہ کی مقرر کردہ تقدیروں پر اثر انداز ہونے کی باتوں کا ہےآئیے اب ہم ان عقائد اور خبروں کو اللہ کی کتاب قران کریم اور اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ و علی آلہ وسلم کی سُنّت شریفہ کی کسوٹی پرپرکھ کر ان عقائد اورخبروں کی حقیقت جانتے ہیں۔

سب سے پہلے ہم اللہ جلّ و علا کے کلام ، اُس کی کتاب کریم ، قران حکیم میں دیکھتے ہیں کہ کیا اللہ تبارک وتعالیٰ نے اپنی کتاب شریف میں ان پتھروں ، یا کسی قسم کے پتھر کے بارے میں ایسی کوئی خبر دی ہے کہ وہ انسان کی زندگی پر کسی قسم کا کوئی اثر رکھتا ہے ؟؟؟ اللہ سُبحانہ ُ و تعالیٰ نے اپنی کتاب قران مجید میں صرف چار مقامات پر ایسے پتھروں میں سے کچھ کا ذ،کر فرمایا ہے جن پتھروں کو نفع یا نقصان دینے والے ، یا نقصان سے بچانے والے سمجھا جا تا ہے ، اور وہ مقامات درج ذیل ہیں۔

گویا کہ وہ (حوریں)یاقوت اور مونگے ہیں ۔ سُورت الرحمٰن آیت 22
اُن دونوں(سُمندورں ) میں سے موتی اور مونگے نکلتے ہیں - سُورت الرحمٰن آیت 58
(وہ حوریں )چُھپے ہوئے موتی کی طرح(ہیں)سُورت الواقعہ آیت 23
اور ان (جنّتیوں)کے اِر گِرد ہمیشہ(ایک ہی عمر میں ) رہنے والے چھوٹی عمر کے لڑکے رہا کریں گے ، اگر آپ اُن(لڑکوں) کو دیکھیں تو بکھرے ہوئے موتی سمجھیں سُورت الانسان آیت 19

ان سب ہی آیات مبارکہ میں جن پتھروں کا ذِکر فرمایا گیا ہے ان میں کسی کے بارے میں ایسی کوئی خبر نہیں بیان فرمائی گئی کہ یہ پتھر انسان کی دُنیاوی زندگی میں ، یا اُخروی زندگی میں اسے کوئی روحانی یا مادی فائدہ یا نقصان پہنچانے کی قدرت یا صلاحیت رکھتے ہیں ، بلکہ صِرف آخرت میں اہل جنّت کو دی جانے والی نعمتوں کے بارے میں کچھ اندازہ کرنے کے لیے ان پتھروں کو تشبیہ ، مثال کے طور پر ذِکر فرمایا گیا ہے ، ان آیات شریفہ میں کہیں بھی ، اِشارۃً بھی ایسا کوئی ذِکر نہیں جس کی بنا پر اِن پتھروں کو انسانی زندگی میں رواحانی یا مادی طور پر کسی بھی قسم کا اثر رکھنے والا سمجھا جائے ، اور نہ ہی اللہ کے مقرر کردہ مفسر اور شارح قران محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وعلی آلہ وسلم کی طرف سے ، اور نہ ہی اُن صلی اللہ علیہ وعلی آلہ وسلم کے شاگردوں صحابہ رضی اللہ عنہم اجمعین کی طرف سے ، اور نہ ہی اُمت کے أئمہ کرام رحمہم اللہ کی طرف سے ان آیات شریفہ کی کوئی ایسی تفسیر بیان ہوئی ہے جس کی بنا پر ان آیات مبارکہ میں مذکور پتھروں یا ان جیسے دوسرے پتھروں یا کسی بھی اور پتھر کے بارے میں یہ سمجھا جا سکے کہ وہ انسانی زندگی میں کسی تاثیر کے حامل ہوتے ہیں ، لہذا اس قسم کے عقائد کی درستگی کے لیے اللہ کی کتاب قران مجید میں سے بھی کوئی دلیل میسر نہیں ہو پاتی۔

قران کریم کے بعد ، اللہ کے دِین کے احکام ، معاملات اور اللہ کی رضا کے مطابق عقائد کا دوسرا ذریعہ اور دوسری کسوٹی اللہ کے رسول محمد صلی اللہ علیہ وعلی آلہ وسلم کی قولی ، فعلی یا تقریری سُنّت مبارکہ ہے ، جب ہم سُنّت شریفہ کا مطالعہ کرتے ہیں تو ہمیں وہاں بھی کوئی ایسی صحیح ثابت شدہ خبر نہیں ملتی جو کچھ خاص پتھروں کو یا کسی بھی پتھر کو انسان کی زندگی میں کسی بھی قسم کے اثر والا بتاتی ہو ، ایسی روایات جن میں کسی پتھر کے بارے میں کوئی ایسی خبر ہے کہ وہ پتھر انسان کو کسی قسم کا فائدہ دیتا ہے ، یا کسی قسم کے نقصان سے بچاتا ہے ، وہ ساری ہی روایات خود ساختہ ، من گھڑت اور جھوٹی ہیں ، جن کی حقیقت صدیوں پہلے حدیث شریف کی تحقیق کرنے والے اِماموں رحمہم اللہ جمعیاً نے واضح کر دی ہے ، مثال کے طور پر چند ایک روایات کا ذِکر درج ذیل ہے۔
عقیق کی انگوٹھی پہنا کرو کیونکہ وہ مُبارک ہے إِمام العقیلی رحمہُ اللہ نے اس روایت کو ذِکر کرنے کے بعد کہا اس روایت کو ابن الجوزی نے "الموضوعات " میں ذِکر کیا ہے اور اس موضوع کے بارے میں (ملنے والی ساری ہی روایات میں سے)کچھ بھی ثابت نہیں ہوتا
عقیق کی انگوٹھی پہنا کرو کہ عقیق غربت دور کرتا ہے
عقیق کی انگوٹھی پہنا کرو کہ عقیق کاموں میں کامیابی والا ہوتا ہے اور دائیں ہاتھ سجاوٹ کا زیادہ حقدار ہے
جس نے عقیق کی انگوٹھی پہنی اور اس پر یہ نقش کیا کہ :اور مجھے توفیق دینےو الا اللہ ہی ہے :تو اللہ اس کے لیے ہر خیر مہیا کر دیتا ہے اور دونوں مقرر فرشتے اس شخص سے محبت کرنے لگتے ہیں
جس نے عقیق کی انگوٹھی پہنی اس کے صِرف اسی کا فیصلہ کیا جاتا ہے جو بہترین ہوتا ہے
زمرد کی انگوٹھی پہنا کرو کہ زمرد آسانیوں والا ہے اور اس میں کوئی تنگی نہیں
زبرجد کی انگوٹھی پہنا کرو کہ زبرجد آسانیوں والا ہے اور اس میں کوئی تنگی نہیں
عقیق کی انگوٹھی پہنا کرو کہ عقیق غربت دور کرتا ہے
اور اسی قِسم کی دوسری روایات جن میں ان پتھروں کے بارے میں نفع پہنچانے یا تقصان دور کرنے والے ہونے کی خبریں ہیں ، کوئی ایک روایت بھی سچی نہیں ، کوئی ایک روایت بھی حدیث کے طور پر تو کیا اُن بزرگوں سے بھی ثابت نہیں جن سے یہ منسوب کی جاتی ہیں، جیسا کہ بعض حضرات اپنے اپنے اماموں ، اور سلسلوں کے بزرگوں سے اس قسم کی خبریں منسوب کیے ہوئے ہیں ، اور اگر کسی طور یہ خبریں ان اماموں یا بزرگوں سے ثابت بھی ہو جائیں تو بھی یہ خبریں مردود ہیں کیونکہ اللہ اور اس کے رسول صلی اللہ علیہ وعلی آلہ وسلم کی طرف سے ان خبروں کی کوئی تصدیق میسر نہیں ، بلکہ یہ خبریں اللہ تبارک و تعالیٰ کے فرامین کے خِلاف ہیں۔

کیونکہ اللہ تعالیٰ تو فرماتا ہے کہ
اللہ تعالیٰ لوگوں کے لیے رحمت میں سے جو کچھ عطاء کرتا ہے ، تو اللہ کے بعد اس رحمت کو روکنے والا کوئی نہیں، اور جس کو اللہ روک لے اسے ( اللہ کے بعد ، مخلوق کی طرف)بھیجنے والا کوئی نہیں ، اور اللہ زبردست ہے حکمت والا ہے۔سُورت الفاطر(آیت2،

اور ارشاد رفرمایا ہے
اور اگر اللہ تعالیٰ آپ کو سختی میں ڈال دے تو اُس سختی کو دور کرنے والا سوائے اللہ کے کوئی بھی نہیں ،اور اگر اللہ آپ کو خیر دینا چاہے تو اللہ کے فضل کو دور کرنے والا کوئی بھی نہیں ، اللہ اپنے بندوں میں سےجسے چاہے اپنا فضل عطاء فرماتا ہے اور اللہ بخشنے والا ، رحم کرنے والا ہے سُورت یُونُس آیت107

اللہ جلّ جلالہُ کے اِن فرامین کے بعد کسی پتھر یا دھات یا کسی بھی اور مخلوق کو کسی دوسری مخلوق کے لیے کسی مادی ذریعے یا سبب کے بغیر ہی کسی طور کوئی نفع پہنچانے یا کسی نقصان سے بچانے والا سمجھنا سوائے گمراہی اور تباہی کے کچھ اور نہیں ، اللہ تعالیٰ ہم سب کو اور ہر ایک مسلمان کو وہ عقائد اپنانے اور وہ عمل کرنے کی ہمت دے جن پر اللہ راضی ہوتا ہے ، اور ہر گمراہی اور شر سے بچنے کی توفیق عطاء فرمائے۔
تحریر:عادل سہیل ظفر
 
شمولیت
ستمبر 08، 2013
پیغامات
180
ری ایکشن اسکور
163
پوائنٹ
41
حجر اسود اور چیز ہے، جبکہ دوسرے پتھر اور چیز ہیں۔ یہ دو مختلف چیزیں ہیں۔
حجراسود کو دوسرے پتھروں کے ساتھ نہیں ملایا جا سکتا،،،، اس کا ایک اپنا مقام ہے جبکہ دوسرے پتھروں کا ایک اپنا مقام ہے۔ جیسا کہ اللہ تعالیٰ سورۃ الرحمن میں پتھروں کا ذکر کچھ اس طرح فرماتے ہیں۔
يَخرُجُ مِنهُمَا اللُّؤلُؤُ وَالمَرجانُ ﴿٢٢﴾
كَأَنَّهُنَّ الياقوتُ وَالمَرجانُ ﴿٥٨﴾
سورۃ الوقعہ میں بھی اللہ تعالیٰ کا ارشاد گرامی ہے
كَأَمثـٰلِ اللُّؤلُؤِ المَكنونِ ﴿٢٣﴾
سورۃ الانسان میں بھی اللہ تعالیٰ کا ارشاد گرامی ہے
وَيَطوفُ عَلَيهِم وِلدٰنٌ مُخَلَّدونَ إِذا رَأَيتَهُم حَسِبتَهُم لُؤلُؤًا مَنثورًا ﴿١٩﴾
ہر بندے کا اپنا عقیدہ ہے کہ کس چیز کو کس نگاہ سے دیکھتا ہے۔اگر پتھروں کا وجود نہ ہوتا تو اللہ رب العزت کیوں ان کا تذکرہ قرآن حکیم میں فرماتے؟
اس سے ظاہر ہوا کہ یہ ہمارا علم کم ہو سکتا ہے۔ لیکن اللہ تعالیٰ کی جو حکمتیں ہیں ان کو سمجھنے سے ہم قاصر ہیں۔
 
شمولیت
اگست 11، 2013
پیغامات
17,117
ری ایکشن اسکور
6,783
پوائنٹ
1,069
حجر اسود اور چیز ہے، جبکہ دوسرے پتھر اور چیز ہیں۔ یہ دو مختلف چیزیں ہیں۔
حجراسود کو دوسرے پتھروں کے ساتھ نہیں ملایا جا سکتا،،،، اس کا ایک اپنا مقام ہے جبکہ دوسرے پتھروں کا ایک اپنا مقام ہے۔ جیسا کہ اللہ تعالیٰ سورۃ الرحمن میں پتھروں کا ذکر کچھ اس طرح فرماتے ہیں۔
يَخرُجُ مِنهُمَا اللُّؤلُؤُ وَالمَرجانُ ﴿٢٢﴾
كَأَنَّهُنَّ الياقوتُ وَالمَرجانُ ﴿٥٨﴾
سورۃ الوقعہ میں بھی اللہ تعالیٰ کا ارشاد گرامی ہے
كَأَمثـٰلِ اللُّؤلُؤِ المَكنونِ ﴿٢٣﴾
سورۃ الانسان میں بھی اللہ تعالیٰ کا ارشاد گرامی ہے
وَيَطوفُ عَلَيهِم وِلدٰنٌ مُخَلَّدونَ إِذا رَأَيتَهُم حَسِبتَهُم لُؤلُؤًا مَنثورًا ﴿١٩﴾
ہر بندے کا اپنا عقیدہ ہے کہ کس چیز کو کس نگاہ سے دیکھتا ہے۔اگر پتھروں کا وجود نہ ہوتا تو اللہ رب العزت کیوں ان کا تذکرہ قرآن حکیم میں فرماتے؟
اس سے ظاہر ہوا کہ یہ ہمارا علم کم ہو سکتا ہے۔ لیکن اللہ تعالیٰ کی جو حکمتیں ہیں ان کو سمجھنے سے ہم قاصر ہیں۔


عمر ابن خطاب نے حجر الاسود کو مخاطب کر کے کہا کہ:
توصرف ایک پتھر ہے اور مجھے پتا ہے کہ تجھ میں نفع یا نقصان پہنچانے کی کوئی طاقت نہیں ہے۔ اور اگر میں نے رسول ﷺ کو نہ دیکھا ہوتا کہ وہ تجھے چوم رہےہیں، تو میں تجھے کبھی نہ چومتا۔
 
شمولیت
اگست 11، 2013
پیغامات
17,117
ری ایکشن اسکور
6,783
پوائنٹ
1,069
حجراسود کے بارہ میں سوالات :

میں نے حجراسود کے موضوع پرایک مقالہ پڑھا ، میں کچھ احادیث اورروایات کی صحت کے بارہ میں معلوم کرنا چاہتا ہوں کہ آيا ان پرعمل ہوسکتا ہے یا کہ یہ روایات موضوع ہیں ، اللہ تعالی آپ کوجزائے خیرعطا فرمائے ذیل میں میں وہ مقالہ ذکر کرتا ہوں ؟ : " آپ تصدیق کریں یا نہ کريں "
جی ہاں ، روئے زمین پرصرف ایک ایسا پتھر ہے جوپانی کے اوپرآجاتا ہے اورنیچے تہ میں نہیں رہتا ، وہ پتھر حجر اسود ہے جومکہ مکرمہ میں کعبہ شریف کے جنوب مشرقی کنارے میں موجود ہے ۔
جلال الدین السیوطی رحمہ اللہ تعالی کہتے ہیں :
کہا جاتا ہے کہ جب المطیع للہ نے ابوطاھر قرمطی سے حجراسود خریدا توعبداللہ بن عکیم المحدث آئے اورکہنے لگے :

ہمارے اس پتھرمیں ہماری دونشانیاں ہیں :
یہ پانی کے اوپر رہتا ہے اورتہ میں نہيں بیٹھتا ، اورآگ سے گرم نہيں ہوتا ، توایک پتھرکوخوشبوسے لت پت اورریشمی کپڑے میں لپیٹ کرلایا گيا تاکہ یہ مغالطہ ڈالا جاسکے یہ ہی وہ پتھر ہے ، لھذا جب اسے پانی میں ڈالا گيا تووہ ڈوب گيا ، اورجب اسے آگ میں رکھا گيا تووہ پھٹنے کے قریب ہوگیا ۔ پھر ایک اورپتھرلايا گيا تواس کے ساتھ بھی وہی کچھ کیا گياتھا جوپہلے پتھر سے کیا گيا تھا اوراس کے ساتھ بھی وہی کچھ ہوا جوپہلے پتھر کےساتھ ہوا تھا ، پھر حجراسود لایا گيا اوراسے پانی میں ڈالا گيا تووہ اوپرتیرنے لگا ، اورآگ میں رکھا گيا توگرم نہ ہوا ۔
توعبداللہ کہنے لگے ہمارا پتھر یہ ہے ، تواس وقت ابوطاھر قرمطی نے بہت تعجب کیا اوروہ کہنے لگا تمہیں یہ دلائل کہاں سے ملے ؟ توعبداللہ کہنے لگے :
رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم سے وارد ہے کہ زمین میں حجراسود اللہ تعالی کا دایاں ہے ، روزقیامت آئے گا تواس کی ایک زبان ہوگي جس نے بھی اسے حق یا باطل کے ساتھ چوما اس کی گواہی دے گا ، پانی نہيں ڈوبتااورنہ ہی آگ سے گرم ہوتا ہے ۔۔۔"
اورحجراسود وہ ہے جوکعبہ کے جنوب مشرقی کنارے میں ہے اوریہيں سے طواف کی ابتداء ہوتی ہے ، یہ اصل میں جنت کے یاقوتوں میں سے ہے ، اس کا رنگ مقام ( ابراھیم ) کی طرح سفید شفاف تھا ، اوریہ آنسوبہانے اوردعا کے قبول ہونے کی جگہ ہے ، اسے چھونا اوراس کا بوسہ لینا مسنون ہے ، اورزمین میں یہ اللہ تعالی کا دایاں ہاتھ ہے یعنی اللہ تعالی ساتھ توبہ کا عھد کرتے ہوئے مصافحہ کامقام ہے ، جس نے بھی اسے چھویا روزقیامت اس کی گواہی دے گا ، اورجواس کے برابرہوتا ہے وہ رحمن کے ہاتھ سے معاھدہ کررہا ہے ، اوراسے چھونے سے گناہ معاف ہوتے ہیں ، یہ انبیاء ، صالحین ، اورحجاج اورعمرہ اورزيارت کرنے والوں کے لبوں کے ملنے کی جگہ ہے ، فسبحان اللہ العظیم ۔


الحمد للہ

اول :
حجراسود :
وہ ہے جوکعبہ کے جنوب مشرقی کنارے میں باہرکی جانب منصوب ہے اوراس کے ارد گرد چاندی سے گھیرا ہوا ہے ، اورطواف کے ابتدا کرنے کی جگہ ہے اوریہ پتھر زمین سے ڈیڑھ میٹر بلند ہے ۔

اورسوال میں جومقالہ ذکر کیا گيا ہے اس میں کچھ توحق ہے اوراس کے صحیح دلائل ملتے ہيں ، اورکچھ ایسی روایات بھی ہیں جن کی کوئي اصل نہيں ملتی ۔

ہم نے سوال نمبر ( 1902 ) کےجواب میں حجراسود کے بارہ میں سنت صحیحہ میں وارد شدہ اکثر دلائل ذکر کیے ہیں جن میں یہ بھی شامل ہے کہ :

اللہ تعالی نے حجراسود جنت سے اتارا تویہ دودھ سے بھی سفید تھا اور اولاد آدم کی خطاؤں اورگناہوں نے اسے سیاہ کردیا ہے ، اورروزقیامت حجراسود آئے گاتواس کی دو آنکھیں ہونگی ان سے دیکھے گا اور زبان ہوگي جس سے بولے گا اورجس نے بھی اسے حق کے ساتھ استلام کیا اس کی گواہی دے گا ، اوراسے چھونا یا اس کا بوسہ لینا یا اس کی طرف اشارہ کرنے سے طواف کی ابتداء ہوتی ہے چاہے وہ طواف حج کا ہویا عمرہ کا یا نفلی ۔

نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے بھی حجراسود کابوسہ لیا تھا اوران کی اتباع میں امت محمدیہ بھی اس کا بوسہ لیتی ہے ، اگربوسہ نہ لیا جاسکے تواسے ہاتھ یا کسی چيز سے چھوکراسے چوما جائے ، اوراگراس سے بھی عاجز ہوتواپنے ہاتھ سے اشارہ کرے اوراللہ اکبر کہے ، اورحجر اسود کوچھونے سے غلطیاں ختم ہوتی ہیں

دوم :
اورقرامطیوں کاحجراسود چوری کرنا اوراسے ایک لمبی مدت تک اپنے پاس رکھنا صحیح ہے اورتاریخی طورپراس کا ثبوت ملتا ہے ۔

حافظ ابن کثیررحمہ اللہ تعالی 278 ھجری کے واقعات میں لکھتے ہيں :
اوراس برس میں قرامطی حرکت میں آئے ، اوریہ فرقہ ملاحدہ اورزندیقوں میں سے ہے اورفرس میں سے فلسفیوں کا پیروکار ہے جوزردشت اورمزدک کی نبوت کا اعتقاد رکھتے ہيں ، اوریہ دونوں حرام اشیاء کومباح قرار دیتے تھے ۔
پھر وہ ہرباطل کی طرف بلانے والے کے پیروکارہيں ، اوران میں اکثر رافضیوں کی جانب سے اس طرف آتے ہیں اوروہی باطل میں داخل ہوتے ہیں کیونکہ لوگوں میں یہی لوگ سب سے کم عقل ہیں اورانہيں اسماعیلی بھی کہا جاتا ہے کیونکہ اسماعیل الاعرج بن جعفرالصادق کی طرف منسوب ہوتے ہيں ۔

اورانہيں قرامطہ کہا جاتا ہے : کہا جاتا ہے کہ قرمط بن اشعث البقار کی طرف منسوب ہونے کی وجہ سے قرامطہ کہا جاتا ہے ، اوریہ بھی کہا جاتا ہے کہ ان کا قائد اپنے پیروکاروں کوسب سے پہلے جس چيزکا حکم دیتا تھا وہ یہ تھا کہ وہ ایک دن اوررات میں پچاس نمازيں ادا کرے اوراس میں اس کا مقصد یہ تھا انہيں مشغول رکھے اورخود چالیں چلتا رہے ۔۔۔
مقصد یہ ہے کہ یہ فرقہ اورگروہ اس سال حرکت میں آیا ، اورپھر ان کا معاملہ بڑھتا ہی چلا گیا اورحالات بھی ان کے موافق ہوگئے – جیسا کہ ہم بیان بھی کریں گے – حتی کہ حالات ان کے موافق ہوگئے اوریہ مسجدحرام میں داخل ہوئے اورحجاج کرام کومسجد کے اندر کعبہ کے ارد گرد قتل کیا اورحجر اسود کوتوڑا اوراکھاڑ کے317 ھجری میں اپنے ساتھ اپنے ملک لے گئے ، اوریہ پتھر339 ھجری تک ان کے پاس ہی رہا اوربیت اللہ میں اپنی جگہ سے بائيس برس تک غائب رہا ، انا للہ وانا الیہ راجعون ۔
دیکھیں : البدايۃ والنھايۃ ( 11 / 72 - 73 ) ۔

سوم :
اورجویہ ذکر کیا گيا ہے کہ حجراسود آنسوبہانے کی جگہ ہے ، اس کے بارہ میں ایک حدیث ابن ماجہ میں مروی ہے لیکن یہ حدیث ضعیف ہے ، ہم اسے ذیل میں ذکر کرتےہيں :
ابن عمررضي اللہ تعالی عنہ بیان کرتے ہیں کہ رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے حجراسود کی جانب رخ کیا اوراپنے ہونٹ مبارک حجراسود پررکھے اوربہت دیرتک روتے رہے ، پھر وہ پیچھے متوجہ ہوئے تودیکھا کہ عمربن خطاب رضي اللہ تعالی عنہ رو رہے ہيں تونبی صلی اللہ علیہ وسلم فرمانے لگے :
( اے عمر ( رضي اللہ تعالی عنہ ) یہاں پرآنسوبہائے جاتے ہیں ) دیکھیں ابن ماجہ حدیث نمبر ( 2945 ) ۔
لیکن یہ حدیث ضعیف ہے اورعلامہ البانی رحمہ اللہ تعالی نے ارواء الغلیل میں اسے بہت ہی زيادہ ضعیف قرار دیا ہے ۔ اھـ دیکھیں : ارواء الغلیل حدیث نمبر ( 1111 ) ۔

اوردوسری حدیث :
زمین میں حجراسود اللہ تعالی کا دایاں ہاتھ ہے " کے بارہ میں جواب یہ ہے کہ یہ حدیث باطل ہے اورنبی صلی اللہ علیہ وسلم سے ثابت نہيں ۔
ابن جوزی رحمہ اللہ تعالی نے العلل المتناھیۃ میں کہا ہے کہ یہ حدیث صحیح نہيں ۔
دیکھیں : العلل المتناھیۃ لابن الجوزی ( 2 / 575 ) اورتلخیص العلل للذھبی صفحہ نمبر ( 191 ) ۔

اورابن العربی کہتے ہيں :
یہ حدیث باطل ہے اس کی طرف التفات بھی نہيں کیا جاسکتا ۔

شیخ الاسلام ابن تیمیہ رحمہ اللہ تعالی کہتے ہيں :
نبی صلی اللہ علیہ وسلم سے ایسی سند کے ساتھ روایت کی گئي ہے جو ثابت ہی نہيں ہوتی ، تواس بنا پراس کے معنی میں غوروخوض کرنے کی کوئي ضرورت ہی نہيں رہتی ۔
دیکھیں : مجموع الفتاوی الکبری ( 6 / 397 ) ۔

اورآپ نے حجر اسود کے بارہ میں جویہ وصف ذکر کیا ہے کہ یہ آنسو بہانے کی جگہ ہے ، اس کے بارہ میں ابن ماجہ میں ایک حدیث وارد ہے لیکن وہ صحیح نہيں بلکہ ضعیف ہے جیسا کہ اوپربیان بھی ہوچکا ہے ۔

چہارم :
اورمقالہ میں جویہ ذکرکیا گيا ہے کہ حجراسود پانی پرتیرتا ہے اورآگ سے گرم نہيں ہوتا ، اوردعا قبول ہوتی ہے ، یہ بھی ایسی اشیاء میں شامل ہے جس کا سنت نبویہ میں ثبوت نہیں ملتا اوراس کی کوئي اصل نہيں ۔

واللہ اعلم .
الشیخ محمد صالح المنجد
 
شمولیت
اگست 11، 2013
پیغامات
17,117
ری ایکشن اسکور
6,783
پوائنٹ
1,069
حجر اسود کی اہمیت:

حجراسود کی اہمیت کیا ہے ؟

الحمد للہ:

حجراسود کے بارہ میں چندایک احادیث اورمسائل آۓ ہیں جنہیں ہم سائل کے لیے ذکر کرتے ہيں ہوسکتا ہے اللہ تعالی اسے ان سے نفع دے :

1 - حجراسود اللہ تعالی نے زمین پرجنت سے اتارا ہے ۔
ابن عباس رضي اللہ تعالی عنہ بیان کرتے ہیں کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا :
( حجراسود جنت سے نازل ہوا ) ۔
سنن ترمذي حدیث نمبر ( 877 ) سنن نسائ حدیث نمبر ( 2935 ) امام ترمذی رحمہ اللہ تعالی نے اسے حدیث کوصحیح قرار دیا ہے ۔

2 - حجراسود دودھ سے بھی زیادہ سفید تھا جسے اولاد آدم کے گناہوں نے سیاہ کردیا ہے :
ابن عباس رضي اللہ تعالی عنہما بیان کرتے ہیں کہ رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا :
( حجراسود جنت سے آیا تودودھ سے بھی زیادہ سفید تھا اوراسے بنو آدم کے گناہوں نے سیاہ کردیاہے ) ۔
سنن ترمذي حدیث نمبر ( 877 ) مسنداحمد حدیث نمبر ( 2792 ) اورابن خزيمہ نے صحیح ابن خزيمہ ( 4 / 219 ) میں اسے صحیح قرار دیا ہے ، اورحافظ ابن حجر رحمہ اللہ تعالی نے فتح الباری ( 3 / 462 ) میں اس کی تقویت بیان کی ہے ۔

ا - شیخ مبارکپوری رحمہ اللہ تعالی کہتے ہیں :
مرقاۃ میں کہتے ہیں کہ : یعنی بنی آدم کے چھونےکی بنا پر ان کے گناہوں کے سبب سے سیاہ ہوگیا ، اورظاہرتویہی ہوتا ہے کہ اس حدیث کوحقیقت پرمحمول کیا جاۓ ، جبکہ اس میں نہ تو عقل اور نہ ہی نقل مانع ہے ۔
دیکھیں تحفۃ الاحوذی ( 3 / 525 ) ۔

ب - حافظ ابن حجر رحمہ اللہ تعالی کا کہنا ہے :
اوپرگزری ہوئ حدیث پربعض ملحدین نے اعتراض کرتے ہوۓ کہا ہے کہ مشرکوں کے گناہوں نے اسے سیاہ کیسے کردیا اورمؤحدین کی اطاعات نے اسے سفید کیوں نہیں کیا ؟
جواب میں وہ کہا جاتا ہے جوابن قتیبہ رحمہ اللہ تعالی نے کہا ہے :
اگراللہ تعالی چاہتا تواس طرح ہوجاتا ، اللہ تعالی نے یہ طریقہ اورعادت بنائ ہے کہ سیاہ رنگا ہوجاتا ہے اوراس کے عکس نہيں ہوسکتا ۔

ج - اورمحب الطبری کا کہنا ہے کہ :
سیاہ رنگ میں اہل بصیرت کے لیے عبرت ہے وہ اس طرح کہ اگر گناہ سخت قسم کے پتھر پر اثرانداز ہوکر اسے سیاہ کرسکتے ہیں تودل پران کی اثرہونا زيادہ سخت اورشدید ہوگا ۔ فتح الباری ( 3 / 463 ) ۔

3 - حجراسود روزقیامت ہراس شخص کی گواہی دے گا جس نے اس کا حق کے ساتھ استلام کیا ۔
ابن عباس رضي اللہ تعالی عنہما بیان کرتے ہیں :
نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے حجراسود کے بارہ میں فرمایا :
اللہ کی قسم اللہ تعالی اسے قیامت کولاۓ گا تواس کی دوآنکھیں ہونگی جن سے یہ دیکھے اورزبان ہوگي جس سے بولے اور ہراس شخص کی گواہی دے گا جس نے اس کا حقیقی استلام کیا ۔
سنن ترمذي حدیث نمبر ( 961 ) سنن ابن ماجہ حدیث نمبر ( 2944 ) امام ترمذی نے اس حدیث کوحسن کہا ہے اورحافظ ابن حجرنے فتح الباری ( 3 /462 ) میں اس کی تقویت بیان کی ہے ۔

4 - حجراسود کا استلام یا بوسہ یا اس کی طرف اشارہ کرنا :
یہ ایسا کام ہے جوطواف کے ابتدا میں ہی کیا جاتا ہے چاہے وہ طوا ف حج میں ہو یا عمرہ میں یا پھر نفلی طواف کیا جارہا ہو ۔
جابربن عبداللہ رضي اللہ تعالی عہہ بیان کرتے ہیں کہ رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم جب مکہ مکرمہ تشریف لاۓ توحجر اسود کا استلام کیا اورپھراس کے دائيں جانب چل پڑے اورتین چکروں میں رمل کیا اورباقی چار میں آرام سے چلے ۔
صحیح مسلم حدیث نمبر ( 1218 ) ۔
حجر اسود کا استلام یہ ہے کہ اسے ہاتھ سے چھوا جاۓ ۔

5 - نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے حجراسود کا بوسہ لیا اورامت بھی نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی اتباع میں اسے چومتی ہے ۔

عمررضي اللہ تعالی عنہ حجراسود کے پاس تشریف لاۓ اوراسے بوسہ دے کرکہنے لگے : مجھے یہ علم ہے کہ توایک پتھر ہے نہ تونفع دے سکتا اورنہ ہی نقصان پہنچا سکتا ہے ، اگرمیں نےنبی صلی اللہ علیہ وسلم کوتجھے چومتے ہوۓ نہ دیکھا ہوتا تومیں بھی تجھے نہ چومتا ۔
صحیح بخاری حدیث نمبر ( 1250 ) صحیح مسلم حدیث نمبر ( 1720 ) ۔

6 - اگر اس کا بوسہ نہ لیا جا‎سکے تواپنے ہاتھ یا کسی اورچيز سے استلام کرکے اسے چوما جاسکتا ہے ۔

ا - نافع رحمہ اللہ تعالی عنہ بیان کرتے ہیں کہ ابن عمررضي اللہ تعالی عنہما نے حجراسود کا استلام کیا اورپھر اپنے ہاتھ کوچوما ، اورفرمانے لگے میں نے جب سے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کویہ کرتے ہوۓ دیکھا ہے میں نے اسے نہیں چھوڑا ۔
صحیح مسلم حدیث نمبر ( 1268 ) ۔

ب - ابوطفیل رضي اللہ تعالی عنہ بیان کرتے ہیں کہ میں نے رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کودیکھا کہ آپ بیت اللہ کا طواف کررہے تھے اورحجر اسود کا چھڑی کے ساتھ استلام کرکے چھڑی کوچومتے تھے ۔
صحیح مسلم حدیث نمبر ( 1275 ) ۔
المحجن : اس چھڑی کوکہتے ہیں جو ایک طرف سے ٹیڑھی ہو ۔

7 - اگر استلام سے بھی عاجزہوتواشارہ کرے اور اللہ اکبرکہے :

ابن عباس رضي اللہ تعالی عنہما بیان کرتے ہيں کہ رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنے اونٹ پرطواف کیا توجب بھی حجر اسود کے پاس آتے تواشارہ کرتے اوراللہ اکبر کہتے ۔
صحیح بخاری حدیث نمبر ( 4987 ) ۔

8 - حجراسود کوچھونا گناہوں کا کفارہ ہے :
ابن عمررضي اللہ تعالی عنہما بیان کرتے ہیں کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا : ان کا چھونا گناہوں کا کفارہ ہے ۔
سنن ترمذی حدیث نمبر ( 959 ) امام ترمذی نے اسے حسن اورامام حاکم نے ( 1 / 664 ) صحیح قرار دیا اور امام ذھبی نے اس کی موافقت کی ہے ۔

اورکسی مسلمان کے لیے یہ جائزنہيں کہ وہ حجراسود کے قریب کسی دوسرے مسلمان کودھکے مارکر تکلیف پنچاۓ اس لیے کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے حجراسود کے بارہ میں فرمایا ہے :
( کہ وہ ہراس شخص کی گواہی دے گا جس نے بھی اس کا حقیقی استلام کیا )۔


اے اللہ کے بندو جس نے بھی اس کا استلام کیا وہ کسی کوایذاء نہ دے ۔

واللہ اعلم .
الشیخ محمد صالح المنجد
 
Top