• الحمدللہ محدث فورم کو نئےسافٹ ویئر زین فورو 2.1.7 پر کامیابی سے منتقل کر لیا گیا ہے۔ شکایات و مسائل درج کروانے کے لئے یہاں کلک کریں۔
  • آئیے! مجلس التحقیق الاسلامی کے زیر اہتمام جاری عظیم الشان دعوتی واصلاحی ویب سائٹس کے ساتھ ماہانہ تعاون کریں اور انٹر نیٹ کے میدان میں اسلام کے عالمگیر پیغام کو عام کرنے میں محدث ٹیم کے دست وبازو بنیں ۔تفصیلات جاننے کے لئے یہاں کلک کریں۔

کیا کارکنان داعش عبادات اور جہاد میں انتھک محنت کرتے ہیں لہذا وہ حق پر ہیں؟

شمولیت
مارچ 16، 2016
پیغامات
7
ری ایکشن اسکور
0
پوائنٹ
3
شبہ کی تفصیل:
داعش کو خوارج کیسے کہا جاسکتا ہے جبکہ یہ لوگ بہت عبادت گزار ہیں اور عبادات کرنے کے بہت حریص ہیں۔ ان میں کوئی تمباکو نوش اور بے نماز نہیں ہے۔ رزم میں بڑے گرم ہوتے ہیں اور جہادی کاروائیوں میں اپنی جانیں کھپا دیتے ہیں۔ یہ عبادت تقویٰ کے نتیجہ میں ہی سامنے آتی ہے۔ بلکہ ہم تو دیکھتے ہیں کہ ان میں سے بہت سے افراد عام لوگوں سے حسن اخلاق سے پیش آتے ہیں۔ اس سے پتہ چلتا ہے کہ ان کا منہج بالکل ٹھیک ہے۔
جواب :
پہلی بات:
اگر یہ مان بھی لیا جائے کہ کارکنان ِ داعش بعض دینی امور کی پابندی کرتے ہیں، مثلاً: داڑھی رکھتے ہیں، نمازوں کی ادائیگی پر زور دیتے ہیں اور تمباکو نوشی سے پرہیز کرتے ہیں، تو اس کا لازمی مطلب یہ نہیں نکلتا کہ داعش پورے دین کو اپنائے ہوئے ہے۔ کیونکہ تنظیم میں بہت بڑے نقص اور خطرات پائے جاتے ہیں، مثلاً: عقیدہ ومنہج کا فساد، مسلمانوں کی تکفیر، ان کے جان ومال کو لوٹنا، جھوٹ، دھوکا دہی، خیانت، اہل علم پر طعنہ زنی اور ان پر بداعتمادی وغیرہ۔
لہٰذا دین کے چند ظاہری پہلوؤں کو اپنا لینا اور دوسری طرف اہم اور بڑے معاملات کو نظر انداز کرنا ، دراصل دین کو صحیح طریقے سے نہ اپنانے کا اظہار ہے۔ رب تعالیٰ اس چیز سے ڈراتے ہوئے فرماتے ہیں:
‹اَفَتُؤْمِنُوْنَ بِبَعْضِ الْكِتٰبِ وَتَكْفُرُوْنَ بِبَعْضٍ۝۰ۚ فَمَا جَزَاۗءُ مَنْ يَّفْعَلُ ذٰلِكَ مِنْكُمْ اِلَّا خِزْيٌ فِي الْحَيٰوۃِ الدُّنْيَا۝۰ۚ وَيَوْمَ الْقِيٰمَۃِ يُرَدُّوْنَ اِلٰٓى اَشَدِّ الْعَذَابِ۝۰ۭ وَمَا اللہُ بِغَافِلٍ عَمَّا تَعْمَلُوْنَ۝۸۵›
کیا تم کتاب کے بعض احکام مانتے ہو اور بعض کا انکار کر دیتے ہو؟ بھلا جو لوگ ایسے کام کریں ان کی سزا اس کے سوا اور کیا ہو سکتی ہے کہ دنیا میں ذلیل و خوار ہوں اور قیامت کے دن وہ سخت عذاب کی طرف دھکیل دیے جائیں؟ اور جو کچھ تم کرتے ہو اللہ اس سے بےخبر نہیں۔
[البقرۃ: 85]
اس کے علاوہ تنظیم کے بہت سے افراد ایسے بھی موجود ہیں جن میں عبادت گزاری کا یہ جذبہ نظر نہیں آتا۔
دوسری بات:
جب یہ دینداری دین میں بدعتوں کی ایجاد، مسلمانوں کے ناحق مال وجان لوٹنے، دھوکا دہی، جھوٹ اور بداخلاقی سے نہیں روک رہی تو یہ بالکل غیر معتبر ہے۔ اس سے منہج کی درستگی یا عقیدہ کی سلامتی پر استدلال فضول ہے۔ عبادت کے ساتھ انحراف اور بدعت جمع ہوجاتی ہے بلکہ خوارج کی طویل تاریخ سے یہی معلوم ہوتا ہے۔
نبی کریمﷺ نے ہمیں خوارج کی عبادت گزاری میں محنت کا حال پہلے ہی بتا دیا تھا تاکہ ہم اس دھوکے میں نہ آئیں۔ آپﷺ نے عبادت گزار اور دین وفضیلت کے حاملین صحابہ کرام﷢ سے مخاطب ہوکر فرمایا:
«يَحْقِرُ أَحَدُكُمْ صَلاَتَهُ مَعَ صَلاَتِهِمْ، وَصِيَامَهُ مَعَ صِيَامِهِمْ».
تم میں سے ہر ایک اپنی نماز کو خوارج کی نماز اور اپنے روزہ کو خوارج کے روزہ سے حقیر سمجھے گا۔
[صحیح البخاري: 3610، صحیح مسلم: 1064]
حافظ ابن حجر﷫ لکھتے ہیں: ’’تلاوت وعبادت میں ان کی محنت کی شدت کو دیکھ کر انہیں قراء کہا جاتا تھا۔ لیکن یہ لوگ قرآن کی غلط تاویلیں کرتے تھے اور اپنی رائے کو ٹھونسنے کی کوشش کرتے تھے۔ دنیا سے بےرغبتی اور خشوع وغیرہ میں تکلف سے کام لیتے تھے۔‘‘
[فتح الباري: 12/291]
اسی طرح معرکوں میں جان لڑانا اور فدائی کاروائیاں بھی دینداری اور منہج کے صحیح ہونے کی دلیل نہیں بن سکتیں۔ خوارج کی پوری تاریخ اٹھا کر دیکھ لیں، وہ لوگ بھی بہت بہادر، دلیر اور جراءت مند تھے۔ میدان میں خوب جم کر لڑتے تھے۔ سیدنا علی بن ابی طالب﷜ کے خلاف جنگ نہروان میں خوارج اتنا ڈٹ کر لڑے کہ صرف دس آدمی زندہ بچے۔ پھر اموی سلطنت کے خلاف ان کی ریشہ دوانیاں جاری رہیں حتی کہ ان کی شدت اور سختی کی وجہ سے معرکوں میں پورے پورے لشکر کام آجاتے تھے۔
حافظ ابن حجر﷫ لکھتے ہیں: ’’اپنی تمام بدخصلتوں کے باوجود خوارج میدان ِ قتال میں جم کر اور موت کی آنکھوں میں آنکھیں ڈال کر لڑتے تھے۔ ان کی تاریخ جس نے بھی پڑھی ہے، وہ اس بات کو خوب اچھی طرح جانتا ہے۔‘‘
[ فتح الباري: 9/48]
بلکہ یہ پیش قدمی اور شدت تو بعض اوقات منحرف لوگوں بلکہ غیر مسلموں میں بھی دیکھنے کو مل جاتی ہے۔ تاریخ میں غیر مسلموں کی ثابت قدمی، شدت اور اپنی جانیں قربان کرنے کے بہت سے واقعات ملتے ہیں۔ جیسا کہ بھنگی اسماعیلیوں کے پرانے واقعات اور جاپانی کامیکازی (یہ سلطنت جاپان کے خودکش حملہ آور ہواباز تھے جن کی شہرت دوسری جنگ عظیم کی بحر الکاہل مہم کے اختتامی مراحل میں اتحادی افواج کے بحری جہازوں پر حملوں کی وجہ سے ہے۔ )
کامیکازی کا مطلب ہے: مقدس ہوا، طوفانی جھکڑ۔ کہتے ہیں کہ 1281ء میں قبلائی خان کی قیادت میں آنے والے بحری بیڑے سے جاپان کو اس طوفان نے بچایا تھا۔
بہت سی کمیونسٹ تنظیموں نے فلسطین پر یہودی قبضہ کو ختم کرنے کےلیے قربانیاں دیں۔ لیکن ان کی یہ کوششیں، محنتیں اور قربانیاں شریعت اور حق کے ترازو میں ذرہ برابر بھی وزن نہیں رکھتیں جب تک وہ غیر مسلم ہیں۔
معلوم ہوا کہ قوت، جراءت، جنگی صلاحیت اور جان ہتھیلی پر رکھنا قبولیت عمل اور منہج کے درست ہونے کی دلیل نہیں ہے۔
تیسری بات:
محض نفاذ شریعت کی دعوت، طاغوت سے لڑائی یا اسلامی نعروں کو دینداری، منہج کی درستی اور انحراف سے سلامتی پر دلیل سمجھنا بہت بڑی غلطی ہے۔
اچھی باتیں اور اچھے نعرے ہر ایک کو اچھے لگتے ہیں، بلکہ اکثر اوقات بری نیت اور ارادے والا ہی خوبصورت نعرے لگا رہا ہوتا ہے۔ نبی کریمﷺ نے فرمایا تھا:
«إِنَّ أَخْوَفَ مَا أَخَافُ عَلَى أُمَّتِي كُلُّ مُنَافِقٍ عَلِيمِ اللِّسَانِ»
مجھے اپنی امت پر چرب لسان منافق سے زیادہ خطرہ ہے۔
[مسند أحمد: 143]
آخری زمانے کی ایک علامت یہ بھی بتائی گئی ہے کہ لوگوں کے قول وعمل میں بہت تضاد ہوگا۔ رسول اللہﷺ کا ارشاد گرامی ہے:
.«سَيَأْتِي عَلَى النَّاسِ سَنَوَاتٌ خَدَّاعَاتُ، يُصَدَّقُ فِيهَا الْكَاذِبُ، وَيُكَذَّبُ فِيهَا الصَّادِقُ، وَيُؤْتَمَنُ فِيهَا الْخَائِنُ، وَيُخَوَّنُ فِيهَا الْأَمِينُ».
مکر و فریب والے سال آئیں گے ، ان میں جھوٹے کو سچا سمجھا جائے گا اور سچے کو جھوٹا ۔ خائن کو امانت دار اور امانت دار کو خائن سمجھا جائے گا۔
[سنن ابن ماجہ: 4036]
آپﷺ نے ہمیں خوارج کے بارے میں بتایا ہے کہ وہ بہت اچھی باتیں کریں گے۔ حق کی دعوت کا اظہار کریں گے لیکن ان کا منہج غلط ہوگا اور عقیدہ میں فساد ہوگا۔ فرمایا:
«يُحْسِنُونَ الْقِيلَ وَيُسِيئُونَ الْفِعْلَ»
باتیں بہت اچھی کریں گے لیکن کام ان کے بہت برے ہوں گے۔
[سنن أبي داؤد: 4765]
ایک اور جگہ فرمایا:
«يَتَكَلَّمُونَ بِكَلِمَةِ الْحَقِّ لَا يُجَاوِزُ حُلُوقَهُمْ»
کلمہ حق کہیں گے لیکن وہ ان کے اپنے حلق سے نیچے نہیں اترے گا۔
[مسند أحمد: 1255]
علامہ سندھی ﷫ لکھتے ہیں: ’’ یعنی ایسی باتیں کریں گے جو بظاہر بہت اچھے اقوال ہوں گے ، مثلاً:«إن الحکم إلا للہ» ’’حکم صرف اللہ کا چلے گا۔‘‘ اور اسی طرح کی دیگر باتیں، مثلاً: کتاب اللہ کی طرف دعوت۔‘‘
[حاشیۃ السندي علی سنن النسائي: 1/72]
سیدنا علی بن ابی طالب﷜ کے دور ِ خلافت میں خوارج ایک جگہ جمع ہوئے اور انہوں نے قرآن کو اپنا قاضی بنانے، حق کی تلاش، ظلم سے انکار، ظالموں سے جہاد، دنیا کی طرف عدم التفات، امر بالمعروف اور نہی عن المنکر پر آپس میں معاہدہ کیا اور پھر اس کے بعد صحابہ﷢ سے قتال کرنے کےلیے چل پڑے۔
ابن ابی نُعْم کہتے ہیں کہ میں سیدنا عبد اللہ بن عمر﷜ کے پاس موجود تھا جب ان سے ایک آدمی نے مچھر مارنے کے متعلق پوچھا۔ آپ﷜ نے سوال کیا: ’’تمہارا تعلق کس علاقہ سے ہے؟‘‘ کہنے لگا: ’’عراق سے۔‘‘ فرمایا: ’’اس ظالم کو دیکھو کہ مجھ سے مچھر مارنے کے متعلق پوچھ رہا ہے حالانکہ انہوں نے نبی کریمﷺ کے نواسہ سیدنا حسین بن علی﷜ کو قتل کیا ہے۔‘‘
[صحیح البخاري: 5994]
اس ساری بحث سے یہ بخوبی معلوم ہوجاتا ہے کہ اچھی اچھی باتیں کرنا، نعرے مارنا اور دینی کاموں میں شوق ظاہر کرنا قطعاً کہنے والے کی سچائی اور اس کے منہج کی درستی کی دلیل نہیں ہوتا۔
چوتھی بات:
جہاں تک کارکنانِ داعش کے حسن اخلاق کی بات ہے تو:
۔ یہ بات بالکل غلط ہے۔ تنظیم میں بااخلاق افراد بہت کم ہیں جبکہ فیصلہ اکثریت کو دیکھ کر کیا جاتا ہے۔

۔ اس دعویٰ کے خلاف بہت سے دلائل موجود ہیں۔ مثلاً: دوسروں سے اپنے آپ کو بڑا سمجھنا، انہیں ذلیل کرنا، ان کی جہالت کا اظہار کرنا اور ان کا مذاق اُڑانا وغیرہ جیسے کام قائدین اور عام کارکنان کی بداخلاقی کی بہت بڑی دلیل ہے۔

۔ تنظیم کے بعض کارکنان کی طرف سے تو اس سے بھی سخت اور ہولناک باتیں سامنے آچکی ہیں۔مثلاً: باغیوں میں سے جو بھی ان کے ہاتھ آیا، اس پر مختلف قسم کے الزام لگا کر ، جن میں زیادہ تر غداری اور ارتداد کا الزام تھا، اسے گرفتار کیا، سزائیں دیں اور پھر قتل کردیا۔ اس طرح ان لوگوں نے مجاہدین اور عوام الناس میں سے تقریباً پانچ ہزار افراد قتل کیے ہیں۔ پھر قتل کے ساتھ انہوں نے مقتولین کو گالیاں دیں، برا بھلا کہا، سفاکانہ مناظر پیش کیے، جسموں کی چیر پھاڑ کی اور ان سے ایسے برے انداز سے چھیڑ چھاڑ کی کہ عام انسان کو دیکھ کر گھن آتی ہے۔ ان سب افعال کے گواہ بھی موجود ہیں اور ویڈیو ز بھی دستیاب ہیں۔ اگر مان بھی لیا جائے کہ یہ عام لوگوں سے حسن اخلاق سے پیش آتے ہیں تو بہترین لوگوں یعنی مجاہدین اور داعی حضرات کے ساتھ یہ تکفیر اور قتل کا معاملہ کیا منظر پیش کرتا ہے؟

۔ جہاں تک عام لوگوں کی بات ہے جو تنظیم کے خلاف کسی قسم کی کاروائی میں حصہ نہیں لیتے اور نہ ان کے تنظیم کے باغیوں یا الگ ہونے والے مجاہدوں سے تعلقات اور روابط ہیں تو تنظیم ان کے ساتھ اس وقت تک درست رویہ رکھتی ہے جب تک وہ اس کے فرمانبردار رہتے ہیں اور اس کے فیصلوں، منہج، فتاویٰ اور احکام کی خلاف ورزی نہیں کرتے۔ حکومت کے ماتحت بھی لوگوں کا یہی حال تھا۔ لوگ جب تک حکومت کے مطیع وفرمانبردار رہتے تھے، حکومت انہیں کسی تنگی وتکلیف اور پریشانی میں مبتلا نہیں کرتی تھی۔ ایک شخص نے انقلاب اور اس کی وجہ سے آنے والی مشکلات پر تنقید کرتے ہوئے کہا کہ ’’پہلے ہم زندہ تو تھے!‘‘

۔ لوگوں کی اکثریت ان کے ماتحت ہے اور ان کی مخالفت نہیں کرتی تو اس کا سبب ان کا ڈر اور ان کے شر سے بچاؤ ہے، نہ کہ ان سے راضی خوشی وہ خاموش رہتے ہیں یا ان کے منہج کو پسند کرتے ہیں۔ کیونکہ ان سے پہلے ظالم حکمرانوں کے سامنے بھی وہ ان کی پکڑ اور گرفت کی وجہ سے فرمانبرداری کا اظہار کرتے تھے۔ لہٰذا یہ فرمانبرداری ان ظالموں کے منہج کے صحیح ہونے، اقدامات کے درست ہونے یا ان کے بااخلاق ہونے کی دلیل قطعاً نہیں ہے۔ اس میں ان کےلیے کوئی تعریف وستائش موجود نہیں ہے۔نبی کریمﷺ نے فرمایا تھا:
«إِنَّ شَرَّ النَّاسِ عِنْدَ اللَّهِ مَنْزِلَةً يَوْمَ القِيَامَةِ مَنْ تَرَكَهُ النَّاسُ اتِّقَاءَ شَرِّهِ».

اللہ تعالیٰ کے نزدیک روز ِ قیامت سب سے بدتر وہ شخص ہوگا جسے لوگوں نے اس کے شر سے بچنے کےلیے کچھ بھی کہنا چھوڑ دیا ہوگا۔
[صحیح البخاري: 6032]
لوگوں کے ان سے ڈرنے کی سب سے بڑی دلیل ایک جم غفیر کا تنظیم کے دردناک قبضہ سے ڈر کر اس کے زیر کنٹرول علاقوں سے نکل بھاگنا ہے یا ان علاقوں سے بھی بھاگ جانا ہے جو تنظیم کے کنٹرول میں آسکتے ہیں۔
۔ اگر حسن اخلاق یا حسن سلوک ہی منہج کی درستی کی دلیل ہے تو کفار میں بھی بہت سے لوگ حسن اخلاق اور حسن سلوک سے پیش آنے والے ہوتے ہیں۔ بلکہ گزشتہ چند دہائیوں سے مغربی ممالک بہت سے مسلمانوں کی پناہ گاہ بن چکے ہیں کیونکہ انہیں وہاں حسن سلوک اور انصاف ملتا ہے جو ظلم کے تحت چلنے والے اسلامی ممالک میں نظر بھی نہیں آتا۔

بلکہ حکومت کے بہت سے ارکان انقلاب سے پہلے بلکہ بعد میں بھی بہترین سلوک کرنے والے تھے، کیا یہ ان کے بھی منہج کے درست ہونے کی دلیل ہے؟
پانچویں بات:
اس بات میں دیگر جہادی گروہوں پر طعنہ زنی اور ان میں دینی امور کے شوق کی نفی موجود ہے۔
دینداری، عبادات کا شوق اور شرعی دروس دیگر گروہوں میں بھی واضح اور نمایاں ہیں ، چاہے ان کے افراد میں ہوں یا رہنماؤں میں۔ بلکہ بہت سے گروہوں میں ایسے افراد بھی ہیں جن کے علم وفضل کی دنیا معترف ہے۔ ان کی حسن سیرت کا چرچا ہے۔ البتہ اللہ کے مقابلہ میں ہم کسی کو پاکیزہ قرار نہیں دیتے۔
لہٰذا یہ کہنا کہ ایک جماعت تو ان چیزوں کی پابند ہے اور دوسری نہیں تو یہ محض سینہ زوری ہے، جو بلا دلیل ہے۔ اس کا یہ مطلب نہیں کہ بعض افراد یا گروہوں میں دینی احکام کی پابندی میں کمی نہیں ہوتی۔ بلکہ ہوتی ہے کیونکہ یہ فرق تو طبعی ہے اور خصوصاً شام کے سابقہ معاشرتی حالات میں تو چیز بالکل واضح ہے۔
بعض لوگ کچھ مخصوص کام کرنے کو عبادت گزاری، دین پر پابندی اور جہاد کی درستی کا ذریعہ سمجھتے ہیں مثلاً: لمبے بال رکھنا یا مخصوص طریقہ سے لباس پہننا۔ مثلاً ایسا لباس پہننا جو افغانستان میں معروف ہے، یا پگڑی باندھنا یا کالا رنگ استعمال کرنا وغیرہ۔ یہ اور ان جیسے کام دینداری، جہاد اور منہج کے درست ہونے کی دلیل نہیں ہے۔
.
خلاصہ کلام
بات کچھ یہ ہے کہ داعش کے کارکنان دیگر لوگوں سے زیادہ عبادت گزار یا اطاعت شعار نہیں ہیں۔ بلکہ ان کے عقیدہ میں انحراف ہےاور یہ کبیرہ گناہوں کے مرتکب ہیں۔ مسلمانوں کے حقوق پر ڈاکا ڈالنے والے مجرم ہیں، جس سے دوسرے لوگ بری ہیں۔ اگرچہ ان میں بعض لوگ بہت عبادت گزار اور اطاعت شعار بھی ہیں لیکن اطاعت وعبادت میں محنت منہج کی درستی یا عقیدہ کی سلامتی کی قطعاً دلیل نہیں ہے۔
عبادت وعمل میں محنت صرف خوارج کا ہی طرہ امتیاز نہیں ہے بلکہ بہت سے غیر مسلم بھی اس میدان میں آگے نظر آتے ہیں۔ مثلاً: ہندو سادھو، سکھ، بدھ بھکشو، عیسائی راہب وغیرہ۔ لیکن یہ محنتیں روزِ قیامت انہیں کچھ بھی فائدہ نہ دے سکیں گی کیونکہ عمل کے درست ہونے اور قبول ہونے کی دو شرطیں ہیں: اخلاص اور شریعت کی پیروی۔
فضیل بن عیاض﷫ فرماتے ہیں کہ اللہ تعالیٰ نے جو یہ کہا ہے کہ ’’اس نے موت اور حیات اس لیے بنائی ہے تاکہ تمہیں آزمائے کہ کون اچھے اعمال کرکے آتا ہے۔‘‘
[الملك: 2]
تو اس سے مراد ایسے اعمال ہیں جو خلوص دل سے کیے جائیں اور درست ہوں۔ کسی نے کہا: تھوڑی وضاحت کریں۔ فرمایا: اگر عمل خلوص دل سے تو کیا گیا ہو لیکن درست نہ ہو تو قبول نہیں۔ اگر درست تو ہو لیکن خلوص دل سے نہ کیا گیا ہو تو وہ بھی قبول نہیں۔ خلوص دل کا مطلب ہے کہ صرف اللہ تعالیٰ کو راضی کرنے کےلیے ہو اور درست ہونے کا مطلب یہ ہے کہ سنت کے مطابق ہو۔
(حلیۃ الأولیاء لأبي نعیم: 8/95)
 
Top