• الحمدللہ محدث فورم کو نئےسافٹ ویئر زین فورو 2.1.7 پر کامیابی سے منتقل کر لیا گیا ہے۔ شکایات و مسائل درج کروانے کے لئے یہاں کلک کریں۔
  • آئیے! مجلس التحقیق الاسلامی کے زیر اہتمام جاری عظیم الشان دعوتی واصلاحی ویب سائٹس کے ساتھ ماہانہ تعاون کریں اور انٹر نیٹ کے میدان میں اسلام کے عالمگیر پیغام کو عام کرنے میں محدث ٹیم کے دست وبازو بنیں ۔تفصیلات جاننے کے لئے یہاں کلک کریں۔

کیا کتب فقہ احناف میں عدم سماع موتی کا ثبوت ہے؟

ابن بشیر الحسینوی

رکن مجلس شوریٰ
رکن انتظامیہ
شمولیت
اپریل 14، 2011
پیغامات
1,114
ری ایکشن اسکور
4,478
پوائنٹ
376
فضیلۃ الشیخ مولاناعبد الرحمن ضیاء حفظہ اللہ



سوال: کیا کتب فقہ احناف میں عدم سماع موتی کا ثبوت ہے؟
الجواب بعون الوہاب: الحمد للہ رب العالمین والصلوۃ والسلام علی رسولہ الأمین و بعد
جی ہاں! کتب فقہ احناف میں عدم سماعِ موتیٰ کا ثبوت ہے۔
ہدایۃ اولین جو کہ احناف کے نزدیک فقہ حنفی کی سب سے معتبر کتاب ہے۔ اس میں کتاب الجنائز میں اس مسئلہ پر کہ مردے کو کلمہ شہادت کی تلقین کی جائے یہ دلیل پیش کی ہے کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:
لَقِّنُوا مَو تَاکُم شَہَادَۃَ أَن لَّا اِلٰہَ اِلَّا اللّٰہُ۔
ترجمہ :کہ اپنے قریب الوفات لوگوں کو لاالہ الا اللہ کی تلقین کیا کرو۔
صاحب ہدایہ اس حدیث کی تشریح کرتے ہوئے لکھتے ہیں :
اَلْمُرَاد: الَّذِی قَرُبَ مِنَ الْمَوْتِ یعنی میت کوکلمہ کی تلقین کی جائے اس لیے کہ نبی علیہ السلام نے فرمایا اپنے مُردوں کو لا الہ الا اللہ کی تلقین کرو ’’موتیٰ‘‘ سے مراد قریب المرگ ہے انتھی۔
یہاں صاحب ہدایہ نے ’’موتیٰ‘‘ سے حقیقی مردے یعنی جن کی روح جسم سے جدا ہوچکی ہو مراد کیوں نہیں لیتے؟ اس کی وجہ امام ابن ھمام حنفی ہدایہ کی شرح فتح القدیر میں بیان فرماتے ہیں :
وَعِنْدِی أنَّ مَبْنَی ارْتِکَابِ ھٰذا الْمَجَازِ ھُنَا عِنْدَ اَکْثَرِ مَشَاءِخِنَا ھُوَ أنَّ الْمَیِّتَ لَا یَسْمَعُ عِنْدَھُمْ عَلیٰ مَا صَرَّحُوا بِہٖ فِی کِتَابِ الْاَیْمَانِ فی باب الْیَمِیْنِ بِالضَّرْبِ: لَوْ حَلَفَ لَا یُکَلِّمُہٗ فَکَلَّمَہٗ مَیِّتاً لَا یَحْنَثُ لِاَنَّھَا تَنْعَقِدُ عَلیٰ مَا بحَیثُ یَفْھَمُ وَالْمَیِّتُ لَیْسَ کَذَلِکَ لِعَدَمِ السَّماعِ( ج 1 ص 104) یعنی میرے نزدیک ہدایہ کے مصنف کے اس مقام پر ’’موتیٰ‘‘ سے مجازی مردے یعنی قریب الموت مراد لینے کی وجہ یہ ہے کہ ہمارے اکثر مشائخ نے وضاحت کی ہے کہ اگر کوئی آدمی یہ قسم کھالے کہ میں فلاں سے کلام نہیں کروں گا۔ اگر اس نے فلاں آدمی کے مرنے کے بعد اس سے کلام کیا تو اس کی قسم نہیں ٹوٹے گی۔ کیونکہ قسم اس وقت منعقد ہونی تھی جبکہ وہ کلام کو سمجھے اور مردہ وہ کلام نہیں سمجھ سکتا۔ اس لیے کہ اس میں قوت سماعت نہیں ہوتی ۔ (کلام مکمل ہوا)
لہٰذا مردہ تلقین شہادت لا الہ الا اللہ بھی نہیں سن سکتا ۔
اور صاحب کنز الدقائق ابو البرکات عبد اللہ بن احمد حافظ الدین نسفی لکھتے ہیں:’’إِنْ ضَرَبْتُکَ أَوْ کَسَوْتُکَ أَوْ کَلَّمْتُکَ أَو دَخَلْتُ عَلَیْکَ تَقَیَّذَ بِالْحَیٰوۃیعنی اگر کوئی شخص اپنے غلام کو یہ کہے کہ اگر میں تجھے ماروں یا تجھے جُبہ پہناؤں یا تجھ سے بات کروں یا تیرے پاس آؤں توتو آزاد ہے۔ یہ سب قسمیں زندگی کے ساتھ مقید ہیں (کنز الدقائق : ص 178) مولانا محمد احسن نانوتوی اس کے حاشیہ پر لکھتے ہیں۔ اَیْ بِحَیَوٰۃِ المخَاطِب حَتَّی لَوْ
فَعَلَ بِہٖ ھَذِہٖ الأَشْیَاءَ بَعْدَ مَوتِ الْمَخَاطَبِ لَمْ یَحْنَث لِأَنَّھا لا تَتحقَّقُ فِی المَیِّت (ص 178 حاشیہ نمبر 1) یعنی یہ سب قسمیں مخاطب کی زندگی کے ساتھ مقید ہیں اگر کسی شخص نے یہ کام مخاطب کے مرنے کے بعد کیے تو اس کی قسم نہیں ٹوٹے گی کیونکہ یہ امور میت میں موجود نہیں ہوسکتے۔ اور کنز کے محشی محمد رفیق حنفی نے بھی اسی طرح کہا ہے( دیکھیے ص 165 حاشیہ 3 )

علامہ عینی حنفی شرح کنز الدقائق میں اس مقام کی شرح کرتے ہوئے فرماتے ہیں: لِأَنَّ الضَّرْبَ ھُوَ الْفِعْلُ الْمؤلِمُ وَلَا یَتَحَقَّقُ فِی الْمَیِّتِ وَالمُرادُ مِنَ الْکَلَامِ الإِفْہَامُ وَإنَّہٗ یَخْتَصُّ بِالحَیِّ۔ انتھی یعنی یہ قسمیں زندگی کے ساتھ اس لیے مقید ہیں کیونکہ مارنا ایک درد دینے والا فعل ہے اور میت میں درد دینے والا فعل موجود نہیں ہوتا۔ اور کسی سے بات کرنے کا مقصد اس کو سمجھانا ہوتا ہے اور سمجھانا زندہ کے ساتھ مخصوص ہے۔ ۱ھ ۔
اور علامہ ابن نجیم حنفی البحر الرائق شرح کنز الدقائق میں لکھتے ہیں کہ لِأَنَّ المَقصُودَ مِنَ الکَلَامِ الإِفْھامُ وَالْمَوتُ یُنَافِیہِ یعنی کلام کا مقصد سمجھانا ہے اور موت اس کے منافی ہے ۔انتھی
علامہ نعمان جو کہ صاحب تفسیر روح المعانی کے فرزند ارجمند ہیں رقم طراز ہیں :
’’فَتَبَیَّنَ مِن (تنویر الأبصار) وَشرحِہٖ (الدر المختار) و (حاشیتیہ) لِلطَحَاوِی وَلِابن عابدین وَمِن فَتحِ القَدِیْرِ وَالْھِدَایَۃِ وَمِن مَرَاقِی الفَلَاحِ وَحَاشِیَتِہٖ و شُرُوحِ الْکَنزِ وَمِنْ سَاءِر المتون المَبْنِیَّۃِ عَلَی المُفْتٰی بِہٖ مِن قَوْلِ الإِمَامِ اَبی حَنِیْفَۃَ وَصَاحِبَیہِ ومَشَاءِخِ الْمَذْھبِ أَنَّ الْمَیِّتَ لَا یَسْمَعُ بَعْدَ خُرُوجِ رُوحِہٖ کَمَا قَالَتْ (عائشۃ) وَتَبِعَھا طَاءِفۃٌ مِن اَھْلِ العِلم وَالمَذَاھِبِ الأخْریٰ وَأَنَّ الحنفیۃ لَم یَحْکَوا خِلَافاً فِی حُکمِہم ھَذا عَن أحدٍ مِن عُلَمَاءِ المَذْھَبِ وَلَم یُحَنَّثُوا الحالِفَ کَمَا فَصَّلْنَا وَھُوَ الْمَطْلُوبُ وَلِلّٰہِ الْحَمْدُ۔ یعنی تنویر الابصار اور اس کی شرح در مختار اور اس کے دو حاشیے طحطاوی اور ابن عابدین کا، برفتح القدیر اور ہدایہ، مراقی الفلاح اور اس کے حاشیے، کنز الدقائق اور اس کی شروحات اور علاوہ ازینھا باقی متون فقہ کہ جن پر امام ابو حنیفہ، صاحبین اور مشائخ مذہب (حنفی) کے اقوال کے مطابق فتوی دیا جاتا ہے، سے یہ بات واضح ہوگئی کہ مردہ روح نکلنے کے بعد نہیں سنتا جیسا کہ حضرت عائشہ صدیقہ اور اہل علم کی ایک جماعت نے فرمایا ہے۔ اور دیگر کئی مذاہب نے بھی ان کی متابعت کی ہے اور پھر علماء احناف نے علماء مذہب میں سے کسی ایک بھی عالم کا قول اپنے اس مذہب کے خلاف نقل نہیں کیا۔ اور انہوں نے قسم اٹھانے والے شخص کو حانث قرار نہیں دیا جس طرح کہ ہم نے اس کی تفصیل بیان کر دی ہے۔ اور ہمیں یہی مطلوب ہے ۔وللہ الحمد

کَذَا فِی الآیاتِ البَیِّنَاتِ فِی عَدَمِ سِمَاعِ الأمَواتِ عَلیٰ مَذہَبِ الحَنَفیۃ السَّادات (ص 19) اور فتاوی عالمگیری میں ہے۔ حَلَفَ لَیَضْرِبَنَّ فُلَاناً اَو لَیُکَلِّمَنَّ فُلَانًا و فُلَانٌ مَیّتٌ فَإِنْ کَانَ لَا یَعْلَمُ مَوتَہٗ فَلا یحَنثُ عِند أبِی حَنِیْفَۃ وَ مُحَمدٍ رحمہما اللہ تعالیٰ وَإن کَانَ یَعْلَمُ لِمَوتِہٖ تَنعَقِدُ یَمِیْنُہٗ وَیَحْنَثُ مِن سَاعَتِہٖ بِالإِجْمَاعِ (کَذَا فِی الْمُحِیْطِ ج 2ص 130)
یعنی اگر کسی نے قسم اٹھائی کہ وہ فلاں کو ضرور مارے گا۔ یا فلان سے ضرور بات کرے گا حالانکہ فلاں شخص مر گیا ہوتا ہے تو اس کی دوصورتیں ہیں:
( نمبر1) قسم اٹھانے والے کو اس کی موت کا علم ہوگا ۔
(نمبر 2) یا علم نہیں ہوگا۔
پہلی صورت میں امام ابو حنیفہ اور محمد رحمہم اللہ کے نزدیک حانث نہیں ہوگا اور دوسری صورت میں اسی وقت بالاجماع حانث ہوجائے گا۔ محیط میں اسی طرح مذکور ہے کہ اس کے حانث ہونے کی وجہ وہی ہے جو کہ ہم نے کمال ابن ہمام کے کلام میں مشائخ حنفیہ سے ذکر کی ہے یعنی میت کا نہ سننا۔

بحوالہ البشارہ ڈاٹ کام
 
Top