• الحمدللہ محدث فورم کو نئےسافٹ ویئر زین فورو 2.1.7 پر کامیابی سے منتقل کر لیا گیا ہے۔ شکایات و مسائل درج کروانے کے لئے یہاں کلک کریں۔
  • آئیے! مجلس التحقیق الاسلامی کے زیر اہتمام جاری عظیم الشان دعوتی واصلاحی ویب سائٹس کے ساتھ ماہانہ تعاون کریں اور انٹر نیٹ کے میدان میں اسلام کے عالمگیر پیغام کو عام کرنے میں محدث ٹیم کے دست وبازو بنیں ۔تفصیلات جاننے کے لئے یہاں کلک کریں۔

کیا کلمہ گو مشرک کو مشرک کہنے والا خودمشرک ہو جاتا ہے۔؟

محمد زاہد بن فیض

سینئر رکن
شمولیت
جون 01، 2011
پیغامات
1,957
ری ایکشن اسکور
5,787
پوائنٹ
354
السلام و علیکم ورحمۃ اللہ وبرکاۃ
ایک بریلوی بھائی نے ایک حدیث پیش کی ہے۔ریفرنس طلب کرنے پر ریفرنس بھی دیا ہے جو کہ مندرجہ زیل ہے۔کیا اس کی سند ٹھیک ہے۔اور مندرجہ زیل حوالہ جات بھی ٹھیک ہیں۔؟
مسلمان کو کافر و مشرک بنانا بذات خود کفر و شرک کا سبب ہے۔

سیدنا حذیفہ بن یمان رضی اللہ عنہ روایت کرتے ہیں،رسول اکرم صلی اﷲ علیہ وآلہ وسلم نے ارشاد فرمایا:
ان ممااخاف علیکم رجل قرأالقراٰن حتی اذا روئیت بہجتہٗ علیہ وکان ردائہ الاسلام اعتراہ الی ماشآء اللہ انسلخ منہ ونبذہ وراء ظھرہ وسعٰی علی جارہ بالسیف ورماہ بالشرک قال قلت یانبی اللہ ایھما اولیٰ بالشرک المرمی اوالرامی؟قال بل الرامی۔
ترجمہ:یعنی مجھے تم پر ایک ایسے آدمی کا اندیشہ ہے جو قرآن پڑھے گا حتیٰ کہ اس کی روشنی اس پر دکھائی دینے لگے گی،اور اس کی چادر(ظاہری روپ)اسلام ہوگا۔یہ حالت اس کے پاس رہے گی جب تک اللہ تعالیٰ چاہے گا،پھر وہ اس سے نکل جائے گا اسے پس پشت ڈال دے گا،اور اپنے(مسلمان)ہمسائے پر تلوار اٹھائے گااور اس پر شرک کا فتویٰ جڑے گا،راوی کا بیان ہے کہ میں نے عرض کیا:یانبی اللہ!دونوں میں شرک کا حقدار کون ہوگا؟جس پر فتویٰ لگا یا فتویٰ لگانے والا،آپ نے فرمایا:فتویٰ لگانے والا (مشرک ہوگا)
یعنی وہ فتویٰ مسلمان پر چسپاں نہیں ہوگا بلکہ جدھر سے صادر ہواتھاواپس اسی کی طرف لوٹ جائے گا،اور وہ مسلمان کو مشرک کہنے والا خود مشرک بن جائے گا۔
اس روایت کو حافظ ابن کثیر علیہ الرحمۃ نے پارہ نمبر۹، سورۃ الاعراف ،آیت نمبر ۱۷۵یعنی واتل علیہم نبأالذی اٰتینا ہ آیاتنا فانسلخ منھا …آلایۃ۔کی تفسیر میںنقل کیا اور لکھا ہے:ھذا اسناد جید یعنی اس روایت کی سند جید،عمدہ اور کھری ہے۔
ملاحظہ ہو!1-تفسیرابن کثیر جلد۲صفحہ۲۶۵،امجد اکیڈمی لاہور۔
2-تفسیر ابن کثیر جلد۲صفحہ۲۶۵ دارالفکر، بیروت
علاوہ ازیں یہ مضمون درج ذیل مقامات پر بھی موجود ہے:
3…مختصر تفسیر ابن کثیر جلد۲صفحہ۶۶۔ ۳…مسند ابو یعلی موصلی۔( تفسیر ابن کثیر جلد۲صفحہ۲۶۵)
4-الاحسان بترتیب صحیح ابن حبان جلد۱صفحہ۱۴۹ برقم ۱۸۔
5…صحیح ابن حبان،للبلبان جلد اول صفحہ۲۴۸ برقم ۸۱، بیروت۔
6-المعجم الکبیر للطبرانی،جلد۲۰صفحہ۸۸ برقم ۱۶۹ ،بیروت ۔
7…شرح مشکل الآثار للطحاوی،جلد۲صفحہ۳۲۴ برقم ۸۶۵، بیروت۔
8…مسند الشامیین للطبرانی،جلد۲صفحہ۲۵۴برقم ۱۲۹۱، بیروت۔
9…کشف الاستارعن زوائد البزار للہیثمی جلد۱صفحہ۹۹ برقم ۱۷۵، بیروت۔
10…جامع المسانید والسنن ،لابن کثیر جلد۳صفحہ۳۵۳،۳۵۴ برقم ۱۸۴۲، بیروت۔
11…جامع الاحادیث الکبیر،للسیوطی جلد۳صفحہ۱۲۱ برقم ۸۱۳۲،بیروت ۔
12…کنزالعمال،للمتقی ہندی جلد۳صفحہ۸۷۲ برقم ۸۹۸۵۔
13…ناصر الدین البانی (غیر مقلدسلفی) نے اس حدیث کو صحیح قرار دیا ہے۔
دیکھیئے!سلسلۃ الاحادیث الصحیحہ رقم الحدیث ۳۲۰۱۔ ۱۴…کتاب المعرفۃ والتاریخ للفسوی جلد۲صفحہ۳۵۸۔
ثابت ہوگیا کہ مسلمانوں کو مشرک کہنے والا بذات خود مشرک ہے۔
کیونکہ اصول یہ ہے کہ کسی مسلمان کی طرف کفر،شرک اور بے ایمانی کی نسبت کرنے سے قائل خود ان چیزوں کا حقدار ہوجاتا ہے۔مثلاً:
ارشاد نبوی ہے:
من کفر مسلما فقد کفر(مسند احمد جلد۲صفحہ۲۳)
جس نے کسی مسلمان کو کافر قرار دیا وہ خود کافر ہوگیا۔
مزید فرمایا:
من دعا رجلا بالکفر اوقال عد وا للہ ولیس کذلک الا حار علیہ ۔
( مسلم جلد۱صفحہ۵۷،مشکوٰۃ صفحہ۴۱۱)
جس نے کسی (مسلمان) شخص کو کافر یا اللہ تعالیٰ کا دشمن کہا اور وہ ایسا نہیں تھا تو یہ (باتیں) خود اس کی طرف لوٹ جائیں گی۔ یعنی وہ خود کافر اور بے ایمان ہوجائے گا۔
مزید ارشاد فرمایا:
اذا قال الرجل لاخیہ یا کافر فقد باء بہٖ احدھما۔
(بخاری جلد۲صفحہ۹۰۱واللفظ لہٗ مسلم جلد۱صفحہ۵۷)
جس نے اپنے (مسلمان)بھائی کو کہا:اے کافر!… تو یہ کلمہ دونوں میں سے کوئی ایک لے کر اٹھے گا ۔
یعنی اگر کہنے والا سچا ہے تو دوسرا کافر ہوگا ورنہ کہنے والا خود کافر ہوجائے گا۔
امام بخاری علیہ الرحمۃ نے لکھا ہے:
من اکفر اخاہ بغیر تاویل فھو کما قال۔(بخاری جلد۲صفحہ۹۰۱)
جس نے بغیر تاویل کے اپنے(اسلامی) بھائی کو کافر قرار دیا تو وہ خود کافر ہوجائے گا۔

ان دلائل اور مستند حوالہ جات سے واضح ہوگیا کہ مسلمانوں کو بلاوجہ کافر ومشرک قرار دینا خود کافر اور مشرک ان دلائل سے واضح ہوگیا کہ مسلمانوں کو بلاوجہ کافر ومشرک قرار دینا خود کافر اور مشرک بننا ہے۔العیاذباللہ تعالیٰ ۔
مہربانی فرما کر اس تحریر کا علمی جواب دیں۔شکریہ جزاک اللہ خیرا
 

کفایت اللہ

عام رکن
شمولیت
مارچ 14، 2011
پیغامات
4,999
ری ایکشن اسکور
9,800
پوائنٹ
722
مذکورہ روایت درج ذیل دو صحابہ کرام رضی اللہ عنہم سے منقول ہے۔

معاذبن جبل رضی اللہ عنہ۔
حذیفہ بن الیمان رضی اللہ عنہ ۔



معاذ بن جبل رضی اللہ عنہ کی روایت

6-المعجم الکبیر للطبرانی،جلد۲۰صفحہ۸۸ برقم ۱۶۹ ،بیروت ۔
8…مسند الشامیین للطبرانی،جلد۲صفحہ۲۵۴برقم ۱۲۹۱، بیروت۔

امام أبو بكر بن أبي عاصم رحمہ اللہ(المتوفى: 287) نے کہا:
ثنا عيسى بن يونس أبو موسى الرملي، ثنا ضمرة، عن ابن شوذب، عن مطر، عن شهر بن حوشب، عن معدي كرب، عن معاذ بن جبل، قال: قال رسول الله صلى الله عليه وسلم: " أخوف ما أخاف عليكم ثلاث: رجل قرأ كتاب الله حتى إذا رؤيت عليه بهجته، وكان ردءا للإسلام أعاره الله إياه، اخترط سيفه فضرب به جاره ورماه بالشرك ". قلنا: يا رسول الله الرامي أحق بها، أم المرمي؟ قال: «الرامي»
[ السنة لابن عاصم :١/ ٢٣ و الديات:ص ٢٢ ،واخرجہ ایضا الطبرانی فی المعجم الكبير: ٢٠/ ٨٨ ، و مسند الشاميين: ٢/ ٢٥٤ ، و اخرجہ ایضا قوام السنہ فی الحجة في بيان المحجة :٢/ ٤٥٤ ، واخرجہ ایضا الھروی فی ذم الكلام وأهله (١/ ١٠١) ، واخرجہ ایضا الفسوی فی المعرفة والتاريخ : 2/ 358 کلھم من طریق ضمرہ بہ]۔

یہ روایت ضعیف ہے اس میں درج ذیل علتیں ہیں:

اولا:
معدي كرب المشرقي مجہول ہے ابن حبان کے علاوہ کسی نے اس کی توثیق نہیں کی ہے۔


ثانیا:
مطر بن طهمان الوراق کو جمہور محدثین نے ضعیف قرار دیا ہےا ۔

امام يحيى بن سعيد رحمه الله (المتوفى 198)نے اسے سیء الحفظ کہا:
كان يحيى بن سعيد يشبه مطر الوراق بابن أبى ليلى في سوء الحفظ[الجرح والتعديل لابن أبي حاتم: 8/ 287 وسندہ صحیح]

امام ابن سعد رحمه الله (المتوفى230)نے کہا:
كان فيه ضعف في الحديث[الطبقات الكبرى لابن سعد : 7/ 189]۔

امام علي بن المديني رحمه الله (المتوفى:234)نے کہا:
لم يكن بِالْقَوِيّ[سؤالات ابن أبي شيبة لابن المديني: ص: 48]۔

امام احمد رحمه الله (المتوفى:241)نے کہا:
ما أقربه من ابن ابى ليلى في عطاء خاصة[الجرح والتعديل لابن أبي حاتم 8/ 288 وسندہ صحیح]۔

امام أبو زرعة الرازي رحمه الله (المتوفى:264)نے کہا:
’’صالح‘‘ قال ابن أبي حاتم: كأنه لين امره [الجرح والتعديل لابن أبي حاتم: 8/ 287 وسندہ صحیح]۔

امام نسائي رحمه الله (المتوفى303)نے کہا:
مطر بن طهْمَان الْوراق لَيْسَ بِالْقَوِيّ[الضعفاء والمتروكون للنسائي: ص: 97]۔

امام عقيلي رحمه الله (المتوفى322):
مَطَرُ بْنُ طَهْمَانَ أَبُو رَجَاءٍ الْخُرَاسَانِيُّ[الضعفاء الكبير للعقيلي: 4/ 219]۔

امام ابن حبان رحمه الله (المتوفى:354)نے کہا:
كان رديء الحفظ على صلاح فيه[مشاهير علماء الأمصار لابن حبان: ص: 95]۔

امام ابن عدي رحمه الله (المتوفى365)نے کہا:
هو مع ضعفه يجمع حديثه ويكتب[الكامل في ضعفاء الرجال لابن عدي: 8/ 134]۔

امام دارقطني رحمه الله (المتوفى385)نے کہا:
والصعق والمطر ليسا بالقويين[الإلزامات والتتبع للدارقطني: ص: 169]۔

تحرير التقريب كي مؤلفين (دكتور بشار عواد اور شعيب ارنؤوط)نے کہا:
ضعيف يعتبر به في المتابعات والشواهد[تحرير التقريب ،رقم 6699]۔

جمہور کی اس تضعیف کی بناپر راوی مذکور ضعیف ہے۔

خلاصہ یہ کہ:
معاذ بن جبل رضی اللہ عنہ سے مروی مذکورہ روایت ضعیف ہے۔

فائدہ:
علامہ البانی رحمہ اللہ نے بھی اس روایت کو ضعیف قراردیا ہے لکھتے ہیں:
إسناده ضعيف من أجل شهر بن حوشب فإنه ضعيف لسوء حفظه ومثله مطر وهو ابن طهمان الوراق وضمرة هو ابن ربيعة الفلسطيني وهو ثقة وكذلك سائر الرواة [ظلال الجنة مع تحقیق الالبانی: 1/ 18]۔


جاری ہے ۔۔۔۔۔
 

کفایت اللہ

عام رکن
شمولیت
مارچ 14، 2011
پیغامات
4,999
ری ایکشن اسکور
9,800
پوائنٹ
722
حذیفہ بن الیمان رضی اللہ عنہ کی روایت


1-تفسیرابن کثیر جلد۲صفحہ۲۶۵،امجد اکیڈمی لاہور۔
2-تفسیر ابن کثیر جلد۲صفحہ۲۶۵ دارالفکر، بیروت
علاوہ ازیں یہ مضمون درج ذیل مقامات پر بھی موجود ہے:
3…مختصر تفسیر ابن کثیر جلد۲صفحہ۶۶۔ ۳…مسند ابو یعلی موصلی۔( تفسیر ابن کثیر جلد۲صفحہ۲۶۵)
4-الاحسان بترتیب صحیح ابن حبان جلد۱صفحہ۱۴۹ برقم ۱۸۔
5…صحیح ابن حبان،للبلبان جلد اول صفحہ۲۴۸ برقم ۸۱، بیروت۔
7…شرح مشکل الآثار للطحاوی،جلد۲صفحہ۳۲۴ برقم ۸۶۵، بیروت۔
9…کشف الاستارعن زوائد البزار للہیثمی جلد۱صفحہ۹۹ برقم ۱۷۵، بیروت۔
10…جامع المسانید والسنن ،لابن کثیر جلد۳صفحہ۳۵۳،۳۵۴ برقم ۱۸۴۲، بیروت۔
11…جامع الاحادیث الکبیر،للسیوطی جلد۳صفحہ۱۲۱ برقم ۸۱۳۲،بیروت ۔
12…کنزالعمال،للمتقی ہندی جلد۳صفحہ۸۷۲ برقم ۸۹۸۵۔
13…ناصر الدین البانی (غیر مقلدسلفی) نے اس حدیث کو صحیح قرار دیا ہے۔دیکھیئے!سلسلۃ الاحادیث الصحیحہ رقم الحدیث ۳۲۰۱۔
امام بزار رحمہ اللہ ( المتوفى : 292)نے کہا:
حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ مَرْزُوقٍ ، وَالْحُسَيْنُ بْنُ أَبِي كُبَيْشَةَ ، قَالا : أَخْبَرَنَا مُحَمَّدُ بْنُ بَكْرٍ الْبُرْسَانِيُّ ، قَالَ : أَخْبَرَنَا الصَّلْتُ ، عَنِ الْحَسَنِ ، قَالَ : أَخْبَرَنَا جُنْدُبٌ ، فِي هَذَا الْمَسْجِدِ يَعْنِي مَسْجِدَ الْبَصْرَةِ ، أَنَّ حُذَيْفَةَ حَدَّثَهُ قَالَ : قَالَ رَسُولُ اللهِ صلى الله عليه وسلم : إِنَّمَا أَتَخَوَّفُ عَلَيْكُمْ رَجُلا قَرَأَ الْقُرْآنَ حَتَّى إِذَا رُئِيَ عَلَيْهِ بَهْجَتُهُ ، وَكَانَ رِدْءًا لِلإِسْلامِ اعْتَزَلَ إِلَى مَا شَاءَ اللَّهُ ، وَخَرَجَ عَلَى جَارِهِ بِسَيْفِهِ ، وَرَمَاهُ بِالشِّرْكِ.
ولفظ اخر:
" أَخْوَفُ مَا أَخَافُ عَلَى أُمَّتِي رَجُلٌ قَدْ قَرَأَ الْقُرْآنَ حَتَّى إِذَا لَمْ يَبْقَ عَلَيْهِ أَلِفٌ وَلا وَاوٌ رَمَى جَارَهُ بِالْكُفْرِ، وَخَرَجَ عَلَيْهِ بِالسَّيْفِ ".قَالَ: قَالَتْ: يَا رَسُولَ اللَّهِ، أَيُّهُمَا أَوْلَى بِالْكُفْرِ الرَّامِي أَوِ الْمَرْمِيُّ؟ قَالَ: " الرَّامِي ".

[مسند البزار :/ 427 واللفظ الاول لہ ، واخرجہ ایضا ابویعلی کمافی إتحاف الخيرة المهرة بزوائد المسانيد العشرة (6/ 339) واللفظ الآخر لہ ،ومن طریقہ الھروی فی ذم الكلام وأهله (1/ 103) و اخرجہ ایضا ابن حبان فی صحیحہ (1/ 282) وابن عساکر فی تبيين كذب المفتري ص: 403 من طریق محمدبن بکر بہ ، واخرجہ ایضا ابوبکر الانباری کما فی المنتقی (ص: 34) و قوام السنہ فی الحجة (2/ 452) والبخاری فی التاریخ: 4/301 و ابو نعیم فی معرفة الصحابة: 2/ 690 ،کلھم من طریق علی ابن المدینی عن البرسانی بہ]۔

یہ روایت بھی ضعیف ہے جس کی تفصیل درج ذیل ہے:
روایت مذکورہ میں ’’صلت ‘‘ نامی راوی کون ہیں اس سلسلے میں اختلاف ہے ۔

ابن حبان رحمہ اللہ کی رائے یہ ہے کہ یہ صلب بن بھرام ہیں ، موصوف فرماتے ہیں:
الصلت بن بهرام كوفى عزيز الحديث يروى عن جماعة من التابعين روى عنه أهل الكوفة وهو الذي يروى عن الحسن روى عنه محمد بن بكر المقرىء الكوفى ليس بالبرساني ومن قال إنه الصلت بن مهران فقد وهم إنما هو الصلت بن بهرام [الثقات لابن حبان: 6/ 471]۔

لیکن امام بخاری رحمہ اللہ نے روایت مذکورہ میں صلت کی تعیین صلت بن مھران سے کی ہے، امام بخاری رحمہ اللہ فرماتے ہیں:
2907- صَلت بْن مِهران.قَالَ لَنَا عليٌ: حدَّثنا مُحَمد بن بَكر، حدَّثنا الصَّلت، حدَّثنا الْحَسَنُ، حدَّثني جُندُب، أَنَّ حُذَيفة حَدَّثَهُ، أَنَّ النَّبيَّ صَلى اللَّهُ عَلَيه وسَلم قَالَ: أَخوَفُ مَا أَتَخَوَّفُ رَجُلٌ قَرَأَ القُرآنَ، خَرَجَ عَلى جارِهِ بِالسَّيفِ، ورَماهُ بِالشِّركِ.[التاريخ الكبير للبخاري: 4/ 301]۔

امام بخاری رحمہ اللہ کی اس صراحت سے حافظ ابن حجر رحمہ اللہ نے اتفاق کیا ہےبلکہ اس کی بنیاد پر حافظ ابن حجر نے ابن حبان پر رد کیا ہے اورکہا:
قلت هذا الذي رده جزم به البخاري عن شيخه علي بن المديني وهو أخبر بشيخه وقال البخاري في التاريخ قال لي علي ثنا محمد بن بكر البرساني عن الصلت بن مهران حدثني الحسن البصري فذكر حديثا[تهذيب التهذيب لابن حجر: 4/ 433]۔

علامہ البانی رحمہ اللہ کا بھی یہی موقف ہے کہ مذکورہ روایت میں صلت یہ صلت ابن مھران ہی ہیں ، بلکہ علامہ البانی رحمہ اللہ نے امام بخاری کی تصریح کے ساتھ ساتھ ابوحاتم کے حوالے سے بھی اپنے موقف کو مدلل کیا ہے چنانچہ فرماتے ہیں:'
إذا كان الأمر كذلك؛ فمن يكون الصلت هذا؟ أما البخاري فصنيعه المتقدم صريح بأنه ابن مهران؛ لأنه ساق الحديث في ترجمته، ونحوه قول ابن أبي حاتم فيه (٤/٤٣٩/٩٢٧ ١) : "روى عن الحسن وشهر بن حوشب، وعنه محمد بن بكر البرساني وسهل ابن حماد". وعليه " فالصلت هنا اثنان: ابن بهرام، وقد وثقه جماعة كما تقدم، وابن مهران، وهو غير مشهور؛ لأنه لم يرو عنه غير البرساني وشهر، ولذلك قال الذهبي في " الميزان ": "مستور، قال ابن القطان: مجهول الحال ".[سلسلة الأحاديث الصحيحة: 7/ 607]۔

عرض ہے کہ ابن عساکر کی روایت میں صلت کے ساتھ صلت ابن مھران کی صراحت بھی ہے چنانچہ:
امام ابن عساكر رحمه الله (المتوفى:571)نے کہا:
أَخْبَرَنَا الشُّيُوخُ أَبُو سَعْدٍ إِسْمَاعِيلُ بْنُ أَحْمد بن عَبْدِ الْمَلِكِ النَّيْسَابُورِي الْمَعْرُوفُ بِالْكِرْمَانِيِّ الْفَقِيهُ بِبَغْدَادَ وَأَبُو الْمُظَفَّرِ عَبْدُ الْمُنْعِمِ بْنُ عَبْدِ الْكَرِيم بن هوَازن وَأَبُو الْقسم زَاهِرُ بْنُ طَاهِرِ بْنِ مُحَمَّدٍ الشَّحَّامِيُّ بِنَيْسَابُورَ قَالُوا أَخْبَرَنَا أَبُو بَكْرٍ أَحْمَدُ بْنُ مَنْصُورِ بْنِ خلف القيرواني قَالَ أَنا أَبُو طَاهِرٍ مُحَمَّدُ بْنُ الْفَضْلِ بن مُحَمَّد بن اسحق بن خُزَيْمَة قَالَ ثَنَا جَدِّي أَبُو بَكْرٍ مُحَمَّدُ بْنُ اسحق قَالَ ثَنَا رَجَاء بن مُحَمَّد العذري ثَنَا أَبُو الْحَسَنِ مُحَمَّدُ بْنُ بَكْرٍ البرْسَانِي قَالَ ثَنَا الصَّلْت بن مهْرَان قَالَ ثَنَا الْحسن قَالَ ثَنَا جُنْدُبُ بْنُ عَبْدِ اللَّهِ الْبَجْلِيُّ فِي هَذَا الْمَسْجِدِ عَنْ حُذَيْفَةَ بْنِ الْيَمَانِ قَالَ قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَإِنَّ مِمَّا أَخَافُ عَلَيْكُمْ بَعْدِي رجل قَرَأَ كتاب الله عزوجل حَتَّى إِذَا رُؤِيَتْ عَلَيْهِ بَهْجَتُهُ وَكَانَ رِدْءًا للإِسْلامِ اغْتَرَّهُ ذَلِكَ إِلَى مَا شَاءَ اللَّهُ فَانْسَلَخَ مِنْهُ وَخَرَجَ عَلَى جَارِهِ بِالسَّيْفِ وَشهد عَلَيْهِ بالشرك قُلْنَا يارسول اللَّهِ مَنْ أَوْلَى بِهَا الْمَرْمِيُّ أَوِ الرَّامِي قَالَ بَلِ الرَّامِي[تبيين كذب المفتري ص: 403]۔

اس تفصیل سے معلوم ہواکہ مذکورہ روایت میں صلت بن بھران راوی ہے اور یہ مجہول ہے اس کے بارے میں کسی کی توثیق نہیں ملتی لہٰذا یہ روایت ضعیف ہے۔


جاری ہے۔۔۔۔۔۔۔
 

کفایت اللہ

عام رکن
شمولیت
مارچ 14، 2011
پیغامات
4,999
ری ایکشن اسکور
9,800
پوائنٹ
722
ابن حبان رحمہ اللہ کے موقف کا جائزہ


اوپربتایا جاچکا ہے کہ ابن حبان رحمہ اللہ نے حذیفہ رضی اللہ عنہ سے منقول مذکورہ حدیث کی سند میں موجود صلت نامی راوی کی تعیین صلت بن بھرام سے کی ہے۔
مزید عرض ہے کہ ابن حبان رحمہ اللہ نے اسی سند کے ایک دوسرے راوی کی تعیین میں بھی شذور اختیار کیا ہے چنانچہ مذکورہ سند میں صلت کے شاگرد ’’مُحَمد بن بَكر‘‘ ہیں، تمام محدثیں نے ان کی تعیین ’’محمد بن بكر البرساني‘‘ سے کی ہے ۔
اوربعض طریق میں برسانی کی صراحت بھی ہے مگر ابن حبان رحمہ اللہ کہتے ہیں کہ:
الصلت بن بهرام كوفى عزيز الحديث يروى عن جماعة من التابعين روى عنه أهل الكوفة وهو الذي يروى عن الحسن روى عنه محمد بن بكر المقرىء الكوفى ليس بالبرساني ومن قال إنه الصلت بن مهران فقد وهم إنما هو الصلت بن بهرام الثقات لابن حبان: 6/ 471]۔

یعنی ابن حبان رحمہ اللہ کا کہنا یہ ہے کہ مذکورہ طریق اوراس جیسے طریق میں محمدبن بکر سے مراد محمدبن بکر المقری ہے۔

عرض ہے کہ اگر یہ بات تسلیم کرلی جائے تو محمدبن بکر المقری کی وجہ سے مذکورہ روایت ضعیف ہوجائے گی ،کیونکہ کتب رجال میں محمدبن بکر المقری نامی راوی کی توثیق کہیں نہیں ملتی :
علامہ البانی رحمہ اللہ فرماتے ہیں:
لا نعرف في الرواة (محمد بن بكر المقرئ الكوفي) حتى يَرِدَ جزم ابن حبان بأنه هو، ولو احتمالاً، وكان على ابن حبان أن يورده في "ثقاته " كما فعل بـ (البرساني) ، فقد أورده في موضعين منه؛ في (أتباع التابعين) (٧/٤٤٢) ، وفي (أتباع أتباعهم) (٩/٣٨) ؛ فهو إذن من المجهولين.[سلسلة الأحاديث الصحيحة :7/ 607]۔

الغرض یہ کہ اگرابن حبان رحمہ اللہ کی تحقیق مان لی جائے تو ان کی تحقیق کی بنیاد پر بھی روایت مذکورہ ضعیف قرار پاتی ہے۔

جاری ہے۔۔۔۔۔۔۔
 

کفایت اللہ

عام رکن
شمولیت
مارچ 14، 2011
پیغامات
4,999
ری ایکشن اسکور
9,800
پوائنٹ
722
علامہ البانی رحمہ اللہ کا موقف اور اس کا جائزہ


شروع میں عرض کیا گیا کہ مذکورہ روایت دو صحابہ کرام رضی اللہ عنہہم سے مروی ہے ۔
معاذبن جبل رضی اللہ عنہ۔
حذیفہ بن الیمان رضی اللہ عنہ ۔


معاذبن جبل رضی اللہ عنہ کی روایت کو تو علامہ البانی رحمہ اللہ نے واضح طورپر ضعیف کہا ہے چنانچہ فرماتے ہیں:
إسناده ضعيف من أجل شهر بن حوشب فإنه ضعيف لسوء حفظه ومثله مطر وهو ابن طهمان الوراق وضمرة هو ابن ربيعة الفلسطيني وهو ثقة وكذلك سائر الرواة [ظلال الجنة مع تحقیق الالبانی: 1/ 18]۔

اور حذیفہ رضی اللہ عنہ کی روایت کو علامہ البانی رحمہ اللہ نے انفرادی طور پر گرچہ ضعیف مانا ہے مگر بعض متفرق شواہد کی بنیاد پر اسے صحیح کہا ہے ، ملاحظہ ہو علامہ البانی رحمہ اللہ کے الفاظ:
قلت: وسواء كان هذا أو ذاك، فالحديث حسن إن شاء الله تعالى؛ لأن له شواهد في الجملة، منها حديث عمر مرفوعاً:"إن أخوف ما أخاف على أمتي كل منافق عليم اللسان "رواه أحمد وغيره بسند صحيح عن عمر، وهو مخرج فيما تقدم (٣/١١/١٠١٣) . ورواه البيهقي في "شعب الإيمان " (٢/٢٨٤/٧٧٧ ١) بلفظ:".. منافق يتكلم بالحكمة، ويعمل بالجور". وحديث ابن عمر مرفوعاً بلفظ:"إذا قال الرجل للرجل: "يا كافر! فقد باء به أحدهما إن كان كما قال، وإلا؛ رجعت على الآخر".أخرجه أحمد (2/44) ، ومسلم وغيرهما[سلسلة الأحاديث الصحيحة : 7/ 608]۔

یعنی علامہ البانی رحمہ اللہ نے درج ذیل دو احادیث کو بطور شاہد پیش کیا ہے:
  • إن أخوف ما أخاف على أمتي كل منافق عليم اللسان
  • إذا قال الرجل للرجل: "يا كافر! فقد باء به أحدهما إن كان كما قال، وإلا؛ رجعت على الآخر

قارئین غور فرمائیں کہ ان دونوں احادیث کا مفہورم مشہود لہ حدیث سے بہت مختلف ہے اور شواہد کی بنیاد پر حدیث کی تصحیح کے لئے لازمی شرط یہی ہے کہ شاہد اور مشہودلہ کا مفہوم لفظا یا معنی یکساں ہو۔
حافظ ابن حجررحمہ اللہ فرماتے ہیں:
وإِنْ وُجِدَ مَتْنٌ يُروى مِن حديثِ صحابيٍّ آخَرَ يُشْبِهُهُ في اللَّفظِ والمعنى ، أَو في المعنى فقطْ ؛ فهُو الشَّاهِدُ . [نزهة النظر في توضيح نخبة الفكر في مصطلح أهل الأثر ص: 16]


خود علامہ البانی رحمہ اللہ نے بھی مختلف مقامات پر یہی بات واضح فرمائی ہے چنانچہ :

علامہ البانی رحمہ اللہ ایک مقام پرفرماتے ہیں:
هذا، وقد جعل المعلق على "مسند أبي يعلى" حديث كثير النواء شاهداً لحديث الترجمة، وأرى أنه لا يصلح للشهادة؛ لأنه مختصر ليس فيه:"فاقتلوهم فإنهم مشركون ".[سلسلة الأحاديث الضعيفة :13/ 572].

علامہ البانی رحمہ اللہ ایک اورمقام پر فرماتے ہیں:
136 - " من حدث حديثا فعطس عنده فهو حق ".
باطل أخرجه تمام في " الفوائد " ۔۔۔۔وتعقبه السيوطي في " اللآليء " (٢ / ٢٨٦) بأحاديث أوردها، بعضها مرفوعة وبعضها موقوفة، ثم إن بعضها في فضل العطاس مطلقا فلا يصلح شاهدا لوصح. [سلسلة الأحاديث الضعيفة: 1/ 262].

علامہ البانی رحمہ اللہ ایک اورمقام پر فرماتے ہیں:
ولوقيل بأنه ضعيف فقط فلا يصلح شاهدا لهذا، لوجهين: الأول: أنه مغاير له في المعنى ولا يلتقي معه إلا في مطلق الزيارة. [سلسلة الأحاديث الضعيفة :1/ 127].


حاصل یہ کہ مشہود لہ اور شاہد میں اگر کسی طرح کا فرق ہو تو شہادت کام نہ دے گی، اوریہاں مشہود لہ اورشاہد میں فرق بالکل واضح ہے ، مشہود لہ میں ایک آدمی کی حالت ایک خاص سیاق میں اوربتدریج بیان کی گئی ہے جبکہ علامہ البانی رحمہ اللہ کی طرف سے پیش کردہ دونوں شواہدمیں سے پہلے میں یہ بات سرے سے ہے ہی نہیں اور دوسرے شاہد میں ایک مطلق حکم کا تذکرہ ہے نہ کی کسی خاص آدمی کے تعلق سے کوئی بات ہے ۔

نیز ایک بنیادی فرق یہ بھی ہے کہ مشہود لہ میں پیشین گوئی کی بات ہے یعنی یہ بات مستقبل میں ظاہر ہوگی جبکہ پیش کردہ دنوں شواہد میں ایک عمومی حکم ہے جو عہد رسالت و عہدصحابہ کے منافقوں پر بھی منطبق ہوتا ہے۔

لہٰذا شاہد اور مشہود لہ میں لفظی اور معنوی ہر لحاظ سے عدم یکسانیت کے سبب مذکورہ روایت کو صحیح قرار دینا درست نہیں ہے۔

حیرت ہے کہ علامہ البانی رحمہ اللہ نے معاذبن جبل والی روایت کو صریح طورپر ضعیف قراردیا ہے ، حالانکہ علامہ موصوف نے جو شواہد پیش کئے ہیں اگر وہ حذیفہ رضی اللہ عنہ کی حدیث کے لئے شہادت کا کام دے سکتے ہیں تو معاذبن جبل رضی اللہ عنہ کی روایت کے لئے بھی یہ شاہد بن سکتے ہیں ، کیونکہ دونوں روایات میں معنوی طور پر یکسانیت ہے ، چنانچہ سوال میں میں بھی ترجمہ ایک ہی روایت کا درج ہے اورحوالے دونوں روایات کے دئے گئے ہیں۔
لہٰذا اگر علامہ البانی رحمہ اللہ کی نظرمیں ان کے پیش کردہ شواہد معاذبن جبل رضی اللہ عنہ کی روایت کے لئے کام نہیں دسے سکتے تو حذیفہ رضی اللہ عنہ کی روایت کے لئے بھی یہ شواہد بے سود ہیں۔

جاری ہے۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
 

کفایت اللہ

عام رکن
شمولیت
مارچ 14، 2011
پیغامات
4,999
ری ایکشن اسکور
9,800
پوائنٹ
722
حدیث مذکور کا مصداق کون؟

ہمارے ناقص علم کے مطابق تاریخ اسلام کے چودہ سو سالہ دور میں شخصیات و جماعات پر سب سے زیادہ کفر کے فتوے امام احمد رضا صاحب نے لگائے ہیں ، قارئین علامہ احسان الہی ظہر رحمہ اللہ کی کتاب بریلویت ، تاریخ و عقائد کا مطالعہ فرمالیں ، لہیذا اگر کوئی راویت مذکورہ کو صحیح مانتا ہے تو اسے چاہئے کہ امام احمد رضا صاحب کو پہلے نمبر پر اس حدیث کا مصداق بتلائے ۔
 

کفایت اللہ

عام رکن
شمولیت
مارچ 14، 2011
پیغامات
4,999
ری ایکشن اسکور
9,800
پوائنٹ
722
ارشاد نبوی ہے:
من کفر مسلما فقد کفر(مسند احمد جلد۲صفحہ۲۳)
جس نے کسی مسلمان کو کافر قرار دیا وہ خود کافر ہوگیا۔
ان الفاظ کے ساتھ کوئی حدیث مسند احمد تو درکنار دنیا کی کسی کتاب میں سند کے ساتھ موجود نہیں ہے ، اس طرح کی معدوم الوجود احادیث صرف نام نہاد فقہاء کے یہاں ہی ملتی ہیں۔


جاری ہے۔۔۔۔۔۔۔۔
 

کفایت اللہ

عام رکن
شمولیت
مارچ 14، 2011
پیغامات
4,999
ری ایکشن اسکور
9,800
پوائنٹ
722
من دعا رجلا بالکفر اوقال عد وا للہ ولیس کذلک الا حار علیہ ۔
( مسلم جلد۱صفحہ۵۷،مشکوٰۃ صفحہ۴۱۱)
جس نے کسی (مسلمان) شخص کو کافر یا اللہ تعالیٰ کا دشمن کہا اور وہ ایسا نہیں تھا تو یہ (باتیں) خود اس کی طرف لوٹ جائیں گی۔ یعنی وہ خود کافر اور بے ایمان ہوجائے گا۔
مزید ارشاد فرمایا:
اذا قال الرجل لاخیہ یا کافر فقد باء بہٖ احدھما۔
(بخاری جلد۲صفحہ۹۰۱واللفظ لہٗ مسلم جلد۱صفحہ۵۷)
جس نے اپنے (مسلمان)بھائی کو کہا:اے کافر!… تو یہ کلمہ دونوں میں سے کوئی ایک لے کر اٹھے گا ۔
یعنی اگر کہنے والا سچا ہے تو دوسرا کافر ہوگا ورنہ کہنے والا خود کافر ہوجائے گا۔
امام بخاری علیہ الرحمۃ نے لکھا ہے:
من اکفر اخاہ بغیر تاویل فھو کما قال۔(بخاری جلد۲صفحہ۹۰۱)
جس نے بغیر تاویل کے اپنے(اسلامی) بھائی کو کافر قرار دیا تو وہ خود کافر ہوجائے گا۔
اولا:
ان احادیث میں وعید ان کے لئے ہے جو کسی مسلمان کو کافر کہیں البتہ اگر کوئی کسی کافر کو کافر کہے مثلا ابن سباء یہودی کو کافر کہے یا قادیانی کو کافر کہے تو اس کے لئے یہ وعید نہیں ہے۔

ثانیا:
ان احادیث میں مسلمان بھائی کو کافر کہنے پر جس کفر کی وعید ہے اس سے کفر دون کفر والا کفر مرادہے۔

اس کی دلیل درج ذیل روایت ہے:
عَنْ ثَابِتِ بْنِ الضَّحَّاكِ، قَالَ: قَالَ النَّبِيُّ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: " مَنْ حَلَفَ بِغَيْرِ مِلَّةِ الإِسْلاَمِ فَهُوَ كَمَا قَالَ، قَالَ: وَمَنْ قَتَلَ نَفْسَهُ بِشَيْءٍ عُذِّبَ بِهِ فِي نَارِ جَهَنَّمَ، وَلَعْنُ المُؤْمِنِ كَقَتْلِهِ، وَمَنْ رَمَى مُؤْمِنًا بِكُفْرٍ فَهُوَ كَقَتْلِهِ "[صحيح البخاري: 8/ 133]۔
مذکورہ روایت میں غورکریں کہ اس میں تکفیر مسلم کو قتل مسلم سے تشبیہ دی گئی ہے اور قتل مسلم حقیقی کفر نہیں بلکہ کفر دون کفر ہے لہٰذا تکفیر مسلم بھی حقیقی کفر نہیں بلکہ کفر دون کفر ہے۔

نیز درج ذیل روایت پر بھی غورکریں:
عَنْ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ عُمَرَ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُمَا: أَنَّ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ قَالَ: «أَيُّمَا رَجُلٍ قَالَ لِأَخِيهِ يَا كَافِرُ، فَقَدْ بَاءَ بِهَا أَحَدُهُمَا»[صحيح البخاري: 8/ 26]۔

اس حدیث کی روشنی میں ابن تیمیہ رحمہ اللہ فرماتے ہیں:
كَمَا قَالَ بَعْضُ الصَّحَابَةِ : كُفْرٌ دُونَ كُفْرٍ . وَكَذَلِكَ قَوْلُهُ : { مَنْ قَالَ لِأَخِيهِ يَا كَافِرُ فَقَدْ بَاءَ بِهَا أَحَدُهُمَا } فَقَدْ سَمَّاهُ أَخَاهُ حِينَ الْقَوْلِ ؛ وَقَدْ أَخْبَرَ أَنَّ أَحَدَهُمَا بَاءَ بِهَا فَلَوْ خَرَجَ أَحَدُهُمَا عَنْ الْإِسْلَامِ بِالْكُلِّيَّةِ لَمْ يَكُنْ أَخَاهُ بَلْ فِيهِ كُفْرٌ[مجموع الفتاوى ( الباز المعدلة ) 7/ 355]

ابن قدامة المقدسي رحمہ اللہ (المتوفى: 682) فرماتے ہیں:
وَأَمَّا الْأَحَادِيثُ الْمُتَقَدِّمَةُ فَهِيَ عَلَى سَبِيلِ التَّغْلِيظِ، وَالتَّشْبِيهِ لَهُ بِالْكُفَّارِ، لَا عَلَى الْحَقِيقَةِ، كَقَوْلِهِ - عَلَيْهِ السَّلَامُ -: «سِبَابُ الْمُسْلِمِ فُسُوقٌ، وَقِتَالُهُ كُفْرٌ» . وَقَوْلِهِ: «كُفْرٌ بِاَللَّهِ تَبَرُّؤٌ مِنْ نَسَبٍ وَإِنْ دَقَّ» . وَقَوْلُهُ: «مَنْ قَالَ لِأَخِيهِ يَا كَافِرُ. فَقَدْ بَاءَ بِهَا أَحَدُهُمَا» . وَقَوْلُهُ: «مَنْ أَتَى حَائِضًا أَوْ امْرَأَةً فِي دُبُرِهَا، فَقَدْ كَفَرَ بِمَا أُنْزِلَ عَلَى مُحَمَّدٍ» . قَالَ: «وَمَنْ قَالَ: مُطِرْنَا بِنَوْءِ الْكَوَاكِبِ. فَهُوَ كَافِرٌ بِاَللَّهِ، مُؤْمِنٌ بِالْكَوَاكِبِ» . وَقَوْلُهُ: «مَنْ حَلَفَ بِغَيْرِ اللَّهِ فَقَدْ أَشْرَكَ» .وَقَوْلِهِ: «شَارِبُ الْخَمْرِ كَعَابِدِ وَثَنٍ» . وَأَشْبَاهِ هَذَا مِمَّا أُرِيدَ بِهِ التَّشْدِيدُ فِي الْوَعِيدِ، وَهُوَ أَصْوَبُ الْقَوْلَيْنِ، وَاَللَّهُ أَعْلَمُ.[المغني لابن قدامة (2/ 332)].


ختم شد
 
Top