السلام علیکم
محترم
@اسحاق سلفی بھائی! میں نے ایک جگہ ایک فتویٰ پڑھا تھا جس میں یہ تھا کہ پیشاب کے قطرے جس کو بار بار آتے ہیں وہ ہر نماز کے وقت وضو کرے اور پھر دوران نماز پیشاب کے قطرے آ جائیں تو نماز مکمل کریں اور ساتھ میں یہ بھی لکھا تھا کہ:
"یہی حکم گیس ٹربل والے مریض کا ہے، وہ ہر نماز پر نیا وضو کر کے نماز پڑھے پھر دورانِ نماز اگر گیس خارج بھی ہو جائے تب بھی وہ نماز مکمل کرے"
اس بارے میں بتائیے نیز:
نماز میں جب تک گیس خارج ہونے کی بو یا آواز نہ آئے نماز نہیں توڑنی چاہئے، لیکن اگر نماز سے پہلے نماز کے انتظار میں بیٹھے وقت یا وضو کرنے کے بعد یہی شک ہو تب بھی بو یا آواز آئے تب ہی نیا وضو کرنا چاہئے یا یہ صرف نماز کی حالت میں ایسا ہو تب کرنا چاہئے؟
ان دو سوالوں کے جواب دیجئے۔ جزاک اللہ خیرا
وعلیکم السلام ورحمۃ اللہ ۔
محترم بھائی ۔۔آپ درج ذیل فتوی غور سے دیکھئے۔۔
اور اگر مزید وضاحت مطلوب تو بتایئے ؛
كيا مسلسل ہوا خارج ہونے سے وضوء ٹوٹ جاتا ہے ؟
ميں پٹھوں كے قولون كى بيمارى كى شكار ہوں، ہوا خارج ہونے كا احساس سا ہوتا رہتا ہے، اس بنا پر ميں جب بھى وضوء كروں تو بار بار وضوء كرنا پڑتا ہے، بعض اوقات وضوء كے دوران يا بعد ميں يا پھر نماز كے دوران ہوا خارج ہونے كى بنا پر كم از كم پانچ بار وضوء كرنا پڑتا ہے، جيسا كہ آپ ديكھ رہے ہيں ميرے ساتھ ايسا ہر وقت نہيں ہوتا ليكن اكثر طور پر ايسا ہوتا رہتا ہے، اس بنا پر ميں نماز تراويح ادا نہيں كر سكتى.... الخ
باوجود اس كے كہ ميں لڑكى ہوں مگر ميں نماز جمعہ ادا كرنے كى رغبت ركھتى ہوں، ليكن موجودہ بالا اسباب كے پيش نظر نہيں جا سكتى، كيونكہ ہوا كے ساتھ بہت گندى قسم كى بدبو بھى خارج ہوتى ہے جو عام طور پر نہيں ہوتى، چنانچہ مجھے كيا كرنا چاہيے ؟
كيا ميں بار بار وضوء كى تجديد كرتى رہوں، كيا مجھے ايسا ہى كرنا چاہيے ؟
الجواب ::
الحمد للہ :
اول:
اللہ تعالى سے دعاء ہے كہ سوال كرنے والى بہن كو شفا نصيب فرمائے، اور دينى معاملات ميں بصيرت كے حصول كے ليے دين كى سمجھ كى حرص ركھنے اور اس ميں نہ شرمانے پر اللہ تعالى اسے جزائے خير عطا فرمائے.
دوم:
بعض اوقات نماز كو وہم سا ہونے لگتا ہے كہ اس كى ہوا خارج ہوئى ہے، حالانكہ كچھ بھى خارج نہيں ہوتا، يہ شيطانى وسوسہ ہوتا ہے جو انسان كى نماز خراب كرنے اور اس ميں عدم خشوع كے ليے پيدا كرتا ہے، اس ليے نمازى كو اس وقت تك نماز نہيں توڑنى چاہيے جب تك كہ اسے ہوا خارج ہونے كا يقين نہ ہو جائے.
’’
عن عباد بن تميم عن عمه : أنه شكا إلى رسول الله صلى الله عليه وسلم الرجل الذي يخيَّل إليه أنه يجد الشيء في الصلاة ، فقال : لا ينفتل – أو: لا ينصرف - حتى يسمع صوتاً أو يجد ريحا " . ۔(رواه البخاري ( 137 ) - واللفظ له - ومسلم ( 362 ).
عباد بن تميم اپنے چچا سے بيان كرتے ہيں كہ ايك شخص نے رسول كريم صلى اللہ عليہ وسلم كے سامنے شكايت كى كہ اسے نماز ميں خيال سا آتا ہے كہ اس كى ہوا خارج ہوئى ہے، تو رسول كريم صلى اللہ عليہ وسلم نے فرمايا:
" وہ نماز سے اس وقت نہ نكلے، يا نماز اس وقت تك مت توڑے جب تك وہ ہوا خارج ہونے كى آواز نہ سنے يا اس كى بدبو نہ پائے "
صحيح بخارى حديث نمبر ( 137 ) صحيح مسلم حديث نمبر ( 362 ).
حديث سے يہ مراد نہيں كہ حكم آواز سننے يا پھر بدبو آنے پر معلق ہے بلكہ مراد يہ ہے كہ ہوا خارج ہونے كا يقين ہو جائے، چاہے اسے آواز نہ بھى آئے اور بدبو نہ بھى سونگھى ہو.۔۔(ديكھيں: شرح مسلم للنووى ( 4 / 49 ).
اگر نمازى باوضوء ہو تو اس كے ليے اصل يہى ہے كہ: اس كا وضوء شك كى بنا پر نہيں ٹوٹے گا، بلكہ اسے وضوء ٹوٹنے كا يقين كرنا ضرورى ہے، اگر اسے وضوء ٹوٹنے كا يقين ہو جائے تو پھر وہ نماز توڑ كر نكل جائے اور وضوء كرے.
اور وضوء اس وقت ٹوٹتا ہے جب پاخانہ اور پيشاب كى جگہ سے يقينى طور پر كوئى چيز خارج ہو نہ كہ بطور شك، ليكن صرف نكلنے كا احساس ہونے يا پيٹ پھولنے سے وضوء نہيں ٹوٹتا حتى كہ ہوا خارج نہ ہو جائے.
آپ نے جن گيسز كى شكايت كى ہے وہ استحاضہ كى طرح ہى ہيں، اور ان كا حكم استحاضہ اور مسلسل پيشاب آنے والے كے حكم كى طرح ہى ہے.
(ديكھيں: الشرح الممتع ( 1 / 437 )
اس كى دو حالتيں ہيں:
پہلى حالت:
اس كے ليے كوئى وقت ہو جس ميں ہوا خارج نہ ہوتى ہو، مثلا اگر ہوا خارج ہوتى ہے اور كچھ دير تك خارج نہيں ہوتى جس ميں آپ وضوء كر كے بروقت نماز ادا كر سكتى ہيں اور پھر ہوا خارج ہونا شروع ہو جاتى ہو، تو اس حالت ميں آپ اس وقت وضوء كر كے نماز ادا كريں جب ہوا خارج نہ ہوتى ہو.
دوسرى حالت:
يہ كہ ہوا مسلسل خارج ہوتى رہتى ہے اور كسى بھى وقت ركتى ہى نہيں، بلكہ ہر وقت نكلتى رہے، چنانچہ نماز كا وقت ہونے كے بعد آپ وضوء كر كے نماز ادا كرليں، اور ہوا كا خروج آپ كو كوئى نقصان نہيں دے گا، چاہے دوران وضوء يا پھر نماز كے دوران ہى خارج ہو.
شيخ الاسلام ابن تيميہ رحمہ اللہ تعالى كہتے ہيں:
فمن لم يمكنه حفظ الطهارة مقدار الصلاة فإنه يتوضأ ويصلي ولا يضره ما خرج منه في الصلاة ، ولا ينتقض وضوءه بذلك باتفاق الأئمة وأكثر ما عليه أن يتوضأ لكل صلاة .
مجموع الفتاوى 21 / 221
جس شخص كے ليے نماز ادا كرنے كى مدت كى مقدار بھى طہارت قائم ركھنا ممكن نہ ہو تو وہ شخص وضوء كر كے نماز ادا كر لے، اور نماز كے دوران اس سے خارج ہونے والى چيز اسے كوئى نقصان نہيں دے گى، اور نہ ہى اس سے وضوء ٹوٹے گا، اس پر آئمہ كرام كا اتفاق ہے، اور زيادہ سے زيادہ يہ ہے كہ وہ ہر نماز كے ليے وضوء كر لے.
ديكھيں: مجموع فتاوى ( 21 / 221 ).
مستقل فتوى كميٹى سے درج ذيل سوال كيا گيا:
ايك شخص سلسل البول كا شكار ہے، پيشاب كرنے كے بعد پھر پيشاب آجاتا ہے، اگر وہ اس كے ختم ہونے كا انتظار كرے تو نماز جاتى رہتى ہے، اس صورت ميں كيا حكم ہے ؟
كميٹى كا جواب تھا:
جب يہ معلوم ہو كہ پيشاب نہيں ركے گا تو اس كے ليے اسى حالت ميں جماعت كى فضيلت كے حصول كے ليے نماز ادا كرنى صحيح نہيں، بلكہ اسے پيشاب ختم ہونے كا انتظار كرنا ہو گا، اور پيشاب ختم ہونے كے بعد استنجاء كر كے وضوء كرے اور نماز ادا كر لے، چاہے جماعت جاتى رہے، ايسے شخص كو نماز كا وقت شروع ہونے كے بعد ہى استنجاء اور وضوء كرنے ميں جلدى كرنى چاہيے تا كہ وہ باجماعت نماز ادا كر سكے.
مستقل فتوى كميٹى كے فتاوى جات ميں يہ فتوى بھى ہے:
’’ الأصل أن خروج الريح ينقض الوضوء ، لكن إذا كان يخرج من شخص باستمرار وجب عليه أن يتوضأ لكل صلاة عند إرادة الصلاة ، ثم إذا خرج منه وهو في الصلاة لا يبطلها وعليه أن يستمر في صلاته حتى يتمها ، تيسراً من الله تعالى لعباده ورفعاً للحرج عنهم ، كما قال تعالى : ( يريد الله بكم اليسر ) وقال : ( ما جعل عليكم في الدين من حرج )
اللجنة الدائمة للبحوث 5 / 411
اصل يہى ہے كہ ہوا خارج ہو جانے سے وضوء ٹوٹ جاتا ہے، ليكن اگر كسى شخص كى ہوا مسلسل خارج ہوتى رہے اس پر واجب ہے كہ وہ جب نماز كا ارادہ كرے تو وضوء كر لے، پھر اگر دوران نماز ہوا خارج ہو جائے تو اس كى نماز باطل نہيں ہو گى، بلكہ اسے نماز مكمل كرنى چاہيے، يہ اللہ تعالى كى جانب سے اپنے بندوں پر آسانى و سہولت اور ان سے حرج و مشكل ختم كرنے كے ليے ہے، جيسا كہ فرمان بارى تعالى ہے:
﴿ اللہ تعالى تمہارے ساتھ آسانى كرنا چاہتا ہے ﴾.
اورايك مقام پر ارشاد بارى تعالى ہے:
﴿ اللہ تعالى نے دين ميں تم پر كوئى تنگى و مشكل نہيں بنائى ﴾. (( ديكھيں: فتاوى اللجنۃ ادائمۃ للبحوث العلميۃ والافتاء ( 5 / 411 ).
سوم:
ايسى بدبو كے ہوتے ہوئے آپ كا مسجد جانا جائز نہيں، كيونكہ مساجد كو ہر قسم كى كريہہ بدبو سے پاك ركھنا ضرورى ہے، اس ليے كہ اس سے نمازيوں اور فرشتوں كو اذيت ہوتى ہے.
اور پھر نبى كريم صلى اللہ عليہ وسلم نے لہسن اور پياز كھا كر آنے والے شخص كو مسجد كے قريب آنے سے بھى منع فرمايا ہے.
وروى مسلم ( 564 ) أن النبي صلى الله عليه وسلم قال : ( من أكل البصل والثوم والكراث فلا يقربن مسجدنا فإن الملائكة تتأذى مما يتأذى منه بنو آدم )
" جو شخص لہسن يا پياز كھائے وہ ہم سے دور رہے "کیونکہ فرشتے بھی اس چیز سے تکلیف پاتے ہیں جس سے بنو آدم تکلیف محسوس کریں ‘‘
.
روى مسلم ( 567 ) عن عمر بن الخطاب قال : لقد رأيت رسول الله صلى الله عليه وسلم إذا وجد ريحهما من الرجل في المسجد أمر به فأخرج إلى البقيع .
چانچہ بخارى اور مسلم رحمہما اللہ نے جابر بن عبد اللہ رضى اللہ تعالى عنہما سے حديث بيان كى ہے كہ رسول كريم صلى اللہ عليہ وسلم نے فرمايا:
( من أكل البصل والثوم والكراث فلا يقربن مسجدنا فإن الملائكة تتأذى مما يتأذى منه بنو آدم )
نبى كريم صلى اللہ عليہ وسلم نے فرمايا:
" جس نے بھى لہسن اور پياز اور گندنا ( بدبو دار تركارى ہے ) كھايا وہ ہمارى مسجد كے قريب نہ آئے، كيونكہ جس چيز سے بنو آدم اذيت محسوس كرتے ہيں فرشتے بھى اس سے اذيت محسوس كرتے ہيں "
امام مسلم رحمہ اللہ تعالى نے عمر بن خطاب رضى اللہ تعالى عنہ سے بيان كيا ہے وہ كہتے ہيں:
روى مسلم ( 567 ) عن عمر بن الخطاب قال : لقد رأيت رسول الله صلى الله عليه وسلم إذا وجد ريحهما من الرجل في المسجد أمر به فأخرج إلى البقيع .
" ميں نے ديكھا كہ جب مسجد ميں كسى شخص سے ان دونوں اشياء كى بو آ رہى ہوتى تو رسول كريم صلى اللہ عليہ وسلم اسے نكل جانے كا حكم ديتے تو اسے بقيع كى طرف نكال ديا جاتا "(صحيح مسلم حديث نمبر ( 567 )
واللہ اعلم .
الاسلام سوال وجواب