• الحمدللہ محدث فورم کو نئےسافٹ ویئر زین فورو 2.1.7 پر کامیابی سے منتقل کر لیا گیا ہے۔ شکایات و مسائل درج کروانے کے لئے یہاں کلک کریں۔
  • آئیے! مجلس التحقیق الاسلامی کے زیر اہتمام جاری عظیم الشان دعوتی واصلاحی ویب سائٹس کے ساتھ ماہانہ تعاون کریں اور انٹر نیٹ کے میدان میں اسلام کے عالمگیر پیغام کو عام کرنے میں محدث ٹیم کے دست وبازو بنیں ۔تفصیلات جاننے کے لئے یہاں کلک کریں۔

کیا گیس ٹربل کے مریض کا حکم بھی پیشاب کے قطرے والے مریض جیسا ہے؟

محمد ارسلان

خاص رکن
شمولیت
مارچ 09، 2011
پیغامات
17,861
ری ایکشن اسکور
41,093
پوائنٹ
1,155
السلام علیکم
محترم @اسحاق سلفی بھائی! میں نے ایک جگہ ایک فتویٰ پڑھا تھا جس میں یہ تھا کہ پیشاب کے قطرے جس کو بار بار آتے ہیں وہ ہر نماز کے وقت وضو کرے اور پھر دوران نماز پیشاب کے قطرے آ جائیں تو نماز مکمل کریں اور ساتھ میں یہ بھی لکھا تھا کہ:
"یہی حکم گیس ٹربل والے مریض کا ہے، وہ ہر نماز پر نیا وضو کر کے نماز پڑھے پھر دورانِ نماز اگر گیس خارج بھی ہو جائے تب بھی وہ نماز مکمل کرے"
اس بارے میں بتائیے نیز:
نماز میں جب تک گیس خارج ہونے کی بو یا آواز نہ آئے نماز نہیں توڑنی چاہئے، لیکن اگر نماز سے پہلے نماز کے انتظار میں بیٹھے وقت یا وضو کرنے کے بعد یہی شک ہو تب بھی بو یا آواز آئے تب ہی نیا وضو کرنا چاہئے یا یہ صرف نماز کی حالت میں ایسا ہو تب کرنا چاہئے؟

ان دو سوالوں کے جواب دیجئے۔ جزاک اللہ خیرا
 

اسحاق سلفی

فعال رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
اگست 25، 2014
پیغامات
6,372
ری ایکشن اسکور
2,564
پوائنٹ
791
السلام علیکم
محترم @اسحاق سلفی بھائی! میں نے ایک جگہ ایک فتویٰ پڑھا تھا جس میں یہ تھا کہ پیشاب کے قطرے جس کو بار بار آتے ہیں وہ ہر نماز کے وقت وضو کرے اور پھر دوران نماز پیشاب کے قطرے آ جائیں تو نماز مکمل کریں اور ساتھ میں یہ بھی لکھا تھا کہ:
"یہی حکم گیس ٹربل والے مریض کا ہے، وہ ہر نماز پر نیا وضو کر کے نماز پڑھے پھر دورانِ نماز اگر گیس خارج بھی ہو جائے تب بھی وہ نماز مکمل کرے"
اس بارے میں بتائیے نیز:
نماز میں جب تک گیس خارج ہونے کی بو یا آواز نہ آئے نماز نہیں توڑنی چاہئے، لیکن اگر نماز سے پہلے نماز کے انتظار میں بیٹھے وقت یا وضو کرنے کے بعد یہی شک ہو تب بھی بو یا آواز آئے تب ہی نیا وضو کرنا چاہئے یا یہ صرف نماز کی حالت میں ایسا ہو تب کرنا چاہئے؟

ان دو سوالوں کے جواب دیجئے۔ جزاک اللہ خیرا
وعلیکم السلام ورحمۃ اللہ ۔
محترم بھائی ۔۔آپ درج ذیل فتوی غور سے دیکھئے۔۔
اور اگر مزید وضاحت مطلوب تو بتایئے ؛

كيا مسلسل ہوا خارج ہونے سے وضوء ٹوٹ جاتا ہے ؟

ميں پٹھوں كے قولون كى بيمارى كى شكار ہوں، ہوا خارج ہونے كا احساس سا ہوتا رہتا ہے، اس بنا پر ميں جب بھى وضوء كروں تو بار بار وضوء كرنا پڑتا ہے، بعض اوقات وضوء كے دوران يا بعد ميں يا پھر نماز كے دوران ہوا خارج ہونے كى بنا پر كم از كم پانچ بار وضوء كرنا پڑتا ہے، جيسا كہ آپ ديكھ رہے ہيں ميرے ساتھ ايسا ہر وقت نہيں ہوتا ليكن اكثر طور پر ايسا ہوتا رہتا ہے، اس بنا پر ميں نماز تراويح ادا نہيں كر سكتى.... الخ
باوجود اس كے كہ ميں لڑكى ہوں مگر ميں نماز جمعہ ادا كرنے كى رغبت ركھتى ہوں، ليكن موجودہ بالا اسباب كے پيش نظر نہيں جا سكتى، كيونكہ ہوا كے ساتھ بہت گندى قسم كى بدبو بھى خارج ہوتى ہے جو عام طور پر نہيں ہوتى، چنانچہ مجھے كيا كرنا چاہيے ؟
كيا ميں بار بار وضوء كى تجديد كرتى رہوں، كيا مجھے ايسا ہى كرنا چاہيے ؟

الجواب ::
الحمد للہ :
اول:
اللہ تعالى سے دعاء ہے كہ سوال كرنے والى بہن كو شفا نصيب فرمائے، اور دينى معاملات ميں بصيرت كے حصول كے ليے دين كى سمجھ كى حرص ركھنے اور اس ميں نہ شرمانے پر اللہ تعالى اسے جزائے خير عطا فرمائے.

دوم:

بعض اوقات نماز كو وہم سا ہونے لگتا ہے كہ اس كى ہوا خارج ہوئى ہے، حالانكہ كچھ بھى خارج نہيں ہوتا، يہ شيطانى وسوسہ ہوتا ہے جو انسان كى نماز خراب كرنے اور اس ميں عدم خشوع كے ليے پيدا كرتا ہے، اس ليے نمازى كو اس وقت تك نماز نہيں توڑنى چاہيے جب تك كہ اسے ہوا خارج ہونے كا يقين نہ ہو جائے.
’’
عن عباد بن تميم عن عمه : أنه شكا إلى رسول الله صلى الله عليه وسلم الرجل الذي يخيَّل إليه أنه يجد الشيء في الصلاة ، فقال : لا ينفتل – أو: لا ينصرف - حتى يسمع صوتاً أو يجد ريحا " . ۔(رواه البخاري ( 137 ) - واللفظ له - ومسلم ( 362 ).
عباد بن تميم اپنے چچا سے بيان كرتے ہيں كہ ايك شخص نے رسول كريم صلى اللہ عليہ وسلم كے سامنے شكايت كى كہ اسے نماز ميں خيال سا آتا ہے كہ اس كى ہوا خارج ہوئى ہے، تو رسول كريم صلى اللہ عليہ وسلم نے فرمايا:
" وہ نماز سے اس وقت نہ نكلے، يا نماز اس وقت تك مت توڑے جب تك وہ ہوا خارج ہونے كى آواز نہ سنے يا اس كى بدبو نہ پائے "
صحيح بخارى حديث نمبر ( 137 ) صحيح مسلم حديث نمبر ( 362 ).

حديث سے يہ مراد نہيں كہ حكم آواز سننے يا پھر بدبو آنے پر معلق ہے بلكہ مراد يہ ہے كہ ہوا خارج ہونے كا يقين ہو جائے، چاہے اسے آواز نہ بھى آئے اور بدبو نہ بھى سونگھى ہو.۔۔(ديكھيں: شرح مسلم للنووى ( 4 / 49 ).

اگر نمازى باوضوء ہو تو اس كے ليے اصل يہى ہے كہ: اس كا وضوء شك كى بنا پر نہيں ٹوٹے گا، بلكہ اسے وضوء ٹوٹنے كا يقين كرنا ضرورى ہے، اگر اسے وضوء ٹوٹنے كا يقين ہو جائے تو پھر وہ نماز توڑ كر نكل جائے اور وضوء كرے.

اور وضوء اس وقت ٹوٹتا ہے جب پاخانہ اور پيشاب كى جگہ سے يقينى طور پر كوئى چيز خارج ہو نہ كہ بطور شك، ليكن صرف نكلنے كا احساس ہونے يا پيٹ پھولنے سے وضوء نہيں ٹوٹتا حتى كہ ہوا خارج نہ ہو جائے.

آپ نے جن گيسز كى شكايت كى ہے وہ استحاضہ كى طرح ہى ہيں، اور ان كا حكم استحاضہ اور مسلسل پيشاب آنے والے كے حكم كى طرح ہى ہے.
(ديكھيں: الشرح الممتع ( 1 / 437 )

اس كى دو حالتيں ہيں:
پہلى حالت:
اس كے ليے كوئى وقت ہو جس ميں ہوا خارج نہ ہوتى ہو، مثلا اگر ہوا خارج ہوتى ہے اور كچھ دير تك خارج نہيں ہوتى جس ميں آپ وضوء كر كے بروقت نماز ادا كر سكتى ہيں اور پھر ہوا خارج ہونا شروع ہو جاتى ہو، تو اس حالت ميں آپ اس وقت وضوء كر كے نماز ادا كريں جب ہوا خارج نہ ہوتى ہو.

دوسرى حالت:
يہ كہ ہوا مسلسل خارج ہوتى رہتى ہے اور كسى بھى وقت ركتى ہى نہيں، بلكہ ہر وقت نكلتى رہے، چنانچہ نماز كا وقت ہونے كے بعد آپ وضوء كر كے نماز ادا كرليں، اور ہوا كا خروج آپ كو كوئى نقصان نہيں دے گا، چاہے دوران وضوء يا پھر نماز كے دوران ہى خارج ہو.

شيخ الاسلام ابن تيميہ رحمہ اللہ تعالى كہتے ہيں:
فمن لم يمكنه حفظ الطهارة مقدار الصلاة فإنه يتوضأ ويصلي ولا يضره ما خرج منه في الصلاة ، ولا ينتقض وضوءه بذلك باتفاق الأئمة وأكثر ما عليه أن يتوضأ لكل صلاة .
مجموع الفتاوى 21 / 221

جس شخص كے ليے نماز ادا كرنے كى مدت كى مقدار بھى طہارت قائم ركھنا ممكن نہ ہو تو وہ شخص وضوء كر كے نماز ادا كر لے، اور نماز كے دوران اس سے خارج ہونے والى چيز اسے كوئى نقصان نہيں دے گى، اور نہ ہى اس سے وضوء ٹوٹے گا، اس پر آئمہ كرام كا اتفاق ہے، اور زيادہ سے زيادہ يہ ہے كہ وہ ہر نماز كے ليے وضوء كر لے.

ديكھيں: مجموع فتاوى ( 21 / 221 ).

مستقل فتوى كميٹى سے درج ذيل سوال كيا گيا:

ايك شخص سلسل البول كا شكار ہے، پيشاب كرنے كے بعد پھر پيشاب آجاتا ہے، اگر وہ اس كے ختم ہونے كا انتظار كرے تو نماز جاتى رہتى ہے، اس صورت ميں كيا حكم ہے ؟

كميٹى كا جواب تھا:
جب يہ معلوم ہو كہ پيشاب نہيں ركے گا تو اس كے ليے اسى حالت ميں جماعت كى فضيلت كے حصول كے ليے نماز ادا كرنى صحيح نہيں، بلكہ اسے پيشاب ختم ہونے كا انتظار كرنا ہو گا، اور پيشاب ختم ہونے كے بعد استنجاء كر كے وضوء كرے اور نماز ادا كر لے، چاہے جماعت جاتى رہے، ايسے شخص كو نماز كا وقت شروع ہونے كے بعد ہى استنجاء اور وضوء كرنے ميں جلدى كرنى چاہيے تا كہ وہ باجماعت نماز ادا كر سكے.

مستقل فتوى كميٹى كے فتاوى جات ميں يہ فتوى بھى ہے:
’’ الأصل أن خروج الريح ينقض الوضوء ، لكن إذا كان يخرج من شخص باستمرار وجب عليه أن يتوضأ لكل صلاة عند إرادة الصلاة ، ثم إذا خرج منه وهو في الصلاة لا يبطلها وعليه أن يستمر في صلاته حتى يتمها ، تيسراً من الله تعالى لعباده ورفعاً للحرج عنهم ، كما قال تعالى : ( يريد الله بكم اليسر ) وقال : ( ما جعل عليكم في الدين من حرج )
اللجنة الدائمة للبحوث 5 / 411

اصل يہى ہے كہ ہوا خارج ہو جانے سے وضوء ٹوٹ جاتا ہے، ليكن اگر كسى شخص كى ہوا مسلسل خارج ہوتى رہے اس پر واجب ہے كہ وہ جب نماز كا ارادہ كرے تو وضوء كر لے، پھر اگر دوران نماز ہوا خارج ہو جائے تو اس كى نماز باطل نہيں ہو گى، بلكہ اسے نماز مكمل كرنى چاہيے، يہ اللہ تعالى كى جانب سے اپنے بندوں پر آسانى و سہولت اور ان سے حرج و مشكل ختم كرنے كے ليے ہے، جيسا كہ فرمان بارى تعالى ہے:
﴿ اللہ تعالى تمہارے ساتھ آسانى كرنا چاہتا ہے ﴾.

اورايك مقام پر ارشاد بارى تعالى ہے:
﴿ اللہ تعالى نے دين ميں تم پر كوئى تنگى و مشكل نہيں بنائى ﴾. (( ديكھيں: فتاوى اللجنۃ ادائمۃ للبحوث العلميۃ والافتاء ( 5 / 411 ).

سوم:

ايسى بدبو كے ہوتے ہوئے آپ كا مسجد جانا جائز نہيں، كيونكہ مساجد كو ہر قسم كى كريہہ بدبو سے پاك ركھنا ضرورى ہے، اس ليے كہ اس سے نمازيوں اور فرشتوں كو اذيت ہوتى ہے.

اور پھر نبى كريم صلى اللہ عليہ وسلم نے لہسن اور پياز كھا كر آنے والے شخص كو مسجد كے قريب آنے سے بھى منع فرمايا ہے.
وروى مسلم ( 564 ) أن النبي صلى الله عليه وسلم قال : ( من أكل البصل والثوم والكراث فلا يقربن مسجدنا فإن الملائكة تتأذى مما يتأذى منه بنو آدم )
" جو شخص لہسن يا پياز كھائے وہ ہم سے دور رہے "کیونکہ فرشتے بھی اس چیز سے تکلیف پاتے ہیں جس سے بنو آدم تکلیف محسوس کریں ‘‘
.
روى مسلم ( 567 ) عن عمر بن الخطاب قال : لقد رأيت رسول الله صلى الله عليه وسلم إذا وجد ريحهما من الرجل في المسجد أمر به فأخرج إلى البقيع .
چانچہ بخارى اور مسلم رحمہما اللہ نے جابر بن عبد اللہ رضى اللہ تعالى عنہما سے حديث بيان كى ہے كہ رسول كريم صلى اللہ عليہ وسلم نے فرمايا:
( من أكل البصل والثوم والكراث فلا يقربن مسجدنا فإن الملائكة تتأذى مما يتأذى منه بنو آدم )

نبى كريم صلى اللہ عليہ وسلم نے فرمايا:
" جس نے بھى لہسن اور پياز اور گندنا ( بدبو دار تركارى ہے ) كھايا وہ ہمارى مسجد كے قريب نہ آئے، كيونكہ جس چيز سے بنو آدم اذيت محسوس كرتے ہيں فرشتے بھى اس سے اذيت محسوس كرتے ہيں "

امام مسلم رحمہ اللہ تعالى نے عمر بن خطاب رضى اللہ تعالى عنہ سے بيان كيا ہے وہ كہتے ہيں:
روى مسلم ( 567 ) عن عمر بن الخطاب قال : لقد رأيت رسول الله صلى الله عليه وسلم إذا وجد ريحهما من الرجل في المسجد أمر به فأخرج إلى البقيع .
" ميں نے ديكھا كہ جب مسجد ميں كسى شخص سے ان دونوں اشياء كى بو آ رہى ہوتى تو رسول كريم صلى اللہ عليہ وسلم اسے نكل جانے كا حكم ديتے تو اسے بقيع كى طرف نكال ديا جاتا "(صحيح مسلم حديث نمبر ( 567 )

واللہ اعلم .
الاسلام سوال وجواب
 

اسحاق سلفی

فعال رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
اگست 25، 2014
پیغامات
6,372
ری ایکشن اسکور
2,564
پوائنٹ
791
محدث فتوی
فتویٰ نمبر : 10169

ہوا کا مسلسل خروج

السلام عليكم ورحمة الله وبركاته
میں ایک ایسے مر ض میں مبتلا ہو گیا ہوں جس کی وجہ سے میرا وضوء بر قرار نہیں رہتا جس کی وجہ سے مجھے نماز تلا وت قرآن اور ان تما م عبا دا ت میں مشقت کا سا منا ہے جن کے لئے وضوء لا ز م ہے عجیب با ت یہ ہے کہ جو ں ہی وضےء کا پا نی میر ے جسم کو چھونے لگتا ہے میرے قصدوارادہ کے بغیر ہو ا خا ر ج ہو نا شر وع ہو جا تی ہے نماز جمعہ عیدین فرض نمازوں اور تلاوت قرآن کر یم کے لئے بیٹھنے میں بھی دشوا ری ہوتی ہے اور سکو ن اس وقت ہو تا ہے جب ہوا خا رج ہو جا ئے اس بیماری کی وجہ سے مجھے نماز میں اطمینا ن حا صل نہیں ہو تا کیو نہ مجھے وضوء کے با رے میں اندیشہ رہتا ہے تو سوال یہ ہے کیا میرے لئے رخصت یا جوا ز ہے جس سے اس مر ض کی حدت میں تخفیف ہو جا ئے خواہ اسے فالج پر قیا س کر لیا جا ئے ؟ مجھے اس مسئلہ کا حل بتا ئیے ؟ اللہ تعالیٰاپ کو اجرو ثوا ب سے نوا زے !

الجواب بعون الوهاب بشرط صحة السؤال
وعلیکم السلام ورحمة اللہ وبرکاته!الحمد لله، والصلاة والسلام علىٰ رسول الله، أما بعد!
بظا ہریوں معلوم ہو تا ہے کہ یہ وہ وسوسہ ہے جس میں بہت سےلو گ وضوءاور نماز کے سلسلہ میں مبتلا ہیں اگرصورت حا ل اسی طرح ہے جس طرح آپ نے ذکر کی تو آپ معذور ہیں اور آپ کو اس شخص پر قیا س کیا جا ئے گا جس کی نا پا کی دایمی جیسے کہ سلسل البول کا مر یض ہوتا ہے لہذا آپ اس وقت وضوء کیجیے جب نما ز کا وقت شروع ہو جا ئے اور اقا مت قریب ہو پھر مقدور بھر کو شش کر کے وضوء کو ٹو ٹنے سے بچائیے اور اگر مغلوب ہو جا ئیں اور ہو ا کو روکنے پر قا در نہ ہوں تو اپ کی نماز (ان شاء اللہ ) صحیح ہو گی کیو نکہ یہ امر انسا نی اختیا ر سے با ہر اور اضطرار کے مشا بہ ہے

ھذا ما عندی واللہ اعلم بالصواب
فتاویٰ اسلامیہ
ج1ص268

محدث فتویٰ
 
شمولیت
اگست 11، 2013
پیغامات
17,117
ری ایکشن اسکور
6,783
پوائنٹ
1,069
الحمد للہ

پیشاب جاری رہنا اور جو اسکے حکم میں آتا ہے یعنی جو ارادہ کے بغیر نکلے اور اس پر کنٹرول نہ ہو اسے نہیں دیکھا جائے گا بلکہ انسان اپنی اسی حالت میں نماز ادا کریگا اگرچہ وہ نماز کے دوران بھی خارج ہوتا رہے کیونکہ اس سے دور اور پاک ہونے میں مشقت اور تنگی وحرج ہے۔

ارشاد باری تعالی ہے :

{ اور اس نے تمہارے لئے دین میں کوئی تنگی نہیں بنائی }

لیکن اگر اس بات کا ڈر ہو کہ بدن اور کپڑے گندگی سے بھر جائیں گے تو ٹشو پیپر یا کوئی اور چیز لپیٹ لے (یعنی اپنے عضو تناسل پر) اور وضوء کے بعد نماز پڑھ لے اور جس کے نکلنے پر کنٹرول نہ ہو اسکی طرف دھیان نہ دے ، اور یہ مرض عام اور بہت پھیلا ہوا اور جن کی کارستانی نہیں اور نہ ہی انکے سبب ہے

نیز ہر فرضی نماز کے لئے آپ پر طہارت کرنا ضروری ہے۔

واللہ اعلم .

الشیخ عبدالکریم الخضیر

http://islamqa.info/ur/8285
 
شمولیت
اگست 11، 2013
پیغامات
17,117
ری ایکشن اسکور
6,783
پوائنٹ
1,069
السلام علیکم !

وضو کے بعد پیشاب کے قطرے خارج ہونا :


اس ويب سائٹ پر لباس پر پيشاب كے قطرے پڑ جانے كے متعلق سوال و جواب كا مطالعہ كرنے كے باوجود ميں ايك سوال كرنا چاہتى ہوں يہ كہ جب ميں اپنے گھر مثلا بازار يا آفس ميں ہوں تو پيشاب كے قطرات ختم اور خشك ہونے كا انتظار نہيں كرسكتى، جو كہ غالبا وضوء كے دوران پاؤں دھونے كے ليے پاؤں اٹھاتے وقت خارج ہوتے ہيں، اور نہ ہى ميں اپنے ساتھ انڈر وئير ركھ سكتى ہوں كہ جہاں جاؤں پہن لوں اس حالت ميں ميرى نماز كا حكم كيا ہو گا، اللہ آپ كو جزائے خير عطا فرمائے ؟

الحمد للہ:

اگر آپ كو پيشاب كے قطرے خارج ہونے كا يقين ہو تو آپ كے ليے جہاں پيشاب لگا ہو اسے دھو كر وضوء دوبارہ كرنا ہوگا، اور اگر آپ كو يہ علم نہ ہو سكے كہ قطرے كہاں لگے ہيں تو آپ غالب ظن كے مطابق جہاں قطرے لگے ہوں اس جگہ كو دھوئيں حتى كہ آپ كو نجاست زائل ہونے كا يقين ہو جائے.

زاد المستقنع ميں ہے:

" اور اگر نجاست والى جگہ كا علم نہ ہو اور وہ اس پر مخفى رہے تو وہ اسے نجاست زائل ہونے كا يقين ہونے تك دھوئے "

يعنى: جب كسى چيز كو نجاست لگے اور جگہ كا علم نہ ہو تو اس نجاست لگى چيز كو دھونا واجب ہے حتى كہ نجاست زائل ہونے كا يقين ہو جائے، آپ يہ بات علم ميں ركھيں كہ جس چيز كو نجاست لگ جائے وہ دو باتوں سے خالى نہيں: يا تو وہ تنگ ہو گى يا كھلى اور وسيع، اگر تو وہ چيز وسيع اور كھلى ہو تو وہ تلاش كرے، اور جہاں غالب گمان ہو كہ يہاں نجاست لگى ہے وہاں سے دھوئے؛ كيونكہ كھلى اور مكمل اور سارى وسيع اور كھلى جگہ دھونے ميں صعوبت اور مشقت ہے، اور اگر وہ تنگ ہو اس كى نجاست زائل ہونے تك دھونا واجب ہے " انتہى.

ديكھيں: الشرح الممتع ( 1 / 435 ).

اور جب آپ كو يہ علم ہے كہ پيشاب كے قطرے دوران وضوء پاؤں دھونے كے ليے پاؤں اٹھاتے وقت خارج ہوتے ہيں تو آپ ايسا نہ كريں، بلكہ اپنے پاؤں زمين پر ہى ركھ كر دھو ليں اور ان پر پانى بہا ليں، اور اگر آپ كو شك ہو كہ آيا كوئى چيز خارج ہوئى ہے يا نہيں تو اس حالت ميں آپ كے ليے تلاش كرنا لازم نہيں، بلكہ آپ اس شك سے اعراض كريں اور اس كى طرف دھيان مت ديں، اور آپ كا وضوء صحيح اور آپ كا لباس پاك اور طاہر ہے.

شيخ ابن عثيمين رحمہ اللہ سے درج ذيل سوال كيا گيا:

جب ميں وضوء كر كے نماز كے ليے جاؤں تو مجھے محسوس ہوتا ہے كہ پيشاب كے كچھ قطرے خارج ہوئے ہيں، مجھے كيا كرنا چاہيے ؟

شيخ رحمہ اللہ كا جواب تھا:

" اس سے اعراض كرنا چاہيے اور اس كى طرف دھيان نہيں دينا چاہيے جيسا كہ مسلمان آئمہ كرام نے ايسا كرنے كا حكم ديا ہے، اور اس چيز كى طرف التفات بھى نہ كريں، اور اسے اپنے عضو تناسل كو نہيں ديكھنا چاہيے كہ آيا اس ميں سے كچھ خارج ہوا ہے يا نہيں ؟

جب وہ اعوذ باللہ من الشيطن الرجيم پڑھ كر شيطان مردود سے اللہ كى پناہ ميں آئے گا اور اس شك كو ترك كرے گا تو اللہ كے حكم سے يہ احساس اور شك زائل ہو كر رہےگا، ليكن اگر اسے سورج كى طرح يقين ہو كہ كوئى چيز خارج ہوئى ہے تو جہاں پيشاب لگا ہو اسے دھو كر وضوء دوبارہ كرنا ہوگا.

كيونكہ بعض لوگ جب عضو تناسل كے سرے پر ٹھنڈك محسوس كرتے ہيں تو يہ خيال كرتے ہيں كہ كچھ خارج ہوا ہے، اس ليے اگر تو اس كا يقين ہو تو جيسے ميں نے آپ سے كہا ہے اس پر عمل كريں، اور جو چيز آپ كہہ رہے ہيں يہ مسلسل پيشاب كى بيمارى نہيں؛ كيونكہ وہ تو ركتا ہى نہيں، بلكہ انسان كو مسلسل پيشاب آتا رہتا ہے.

ليكن يہ تو حركت كے بعد كوئى ايك يا دو قطرے خارج ہوتے ہيں اور يہ مسلسل پيشاب كى بيمارى ميں شامل نہيں ہوتا؛ اس ليے جب دو قطرے نكليں اور پھر پيشاب رك جائے تو اسے دھو كر دوبارہ وضوء كيا جائيگا، اور ہميشہ وہ اسى طرح كرے، اوراسے اس پر صبر كرتے ہوئے اجروثواب كى نيت كرنى چاہيے " انتہى.

ماخوذ از: لقاء الباب المفتوح ( 15 / 184 ).

اور يہ ممكن ہے كہ آپ انڈر ويئر ميں كوئى كپڑا يا ٹيشو پيپر ركھ ليں تا كہ پيشاب كے قطرے لباس كو نہ لگيں، تو اس طرح آپ كو كپڑے نہيں دھونا پڑينگے، بلكہ آپ كے ليے صرف ٹيشو پيپر وغيرہ پھينك دينا ہى كافى ہے.

واللہ اعلم .

الاسلام سوال و جواب

http://islamqa.info/ur/93877
 
شمولیت
اگست 11، 2013
پیغامات
17,117
ری ایکشن اسکور
6,783
پوائنٹ
1,069
كيا پيشاب كى بيمارى ميں مبتلا شخص نماز باجماعت ادا كر سكتا ہے ؟
ميرے خاندان ميں ايك شخص پيشاب كى بيمارى ميں مبتلا ہے، كيا اس كے نماز باجماعت ادا كرنا واجب ہے، يا كہ وہ اكيلا نماز ادا كرے ؟

الحمد للہ :

پيشاب كى بيمارى ميں مبتلا شخص كى دو حالتيں ہيں:

پہلى حالت:

پيشاب مستقل اور مسلسل جارى رہے اس طرح كہ نماز اور وضوء كے وقت بھى نہ ركتا ہو، ايسے شخص كے ليے حكم يہ ہے كہ وضوء كرے اور انڈروير وغيرہ پہن لے تا كہ پيشاب سارے لباس ميں نہ پھيلے، نماز كا وقت شروع ہونے كے بعد وضوء كرے اور پھر سب لوگوں كى طرح باجماعت نماز ادا كرے.

ليكن اگر مسجد ميں گندگى پھيلنے كا خدشہ ہو تو اس كے ليے مسجد ميں داخل ہونا حلال نہيں، بلكہ اگر ميسر ہو تو وہ گھر ميں نماز باجماعت ادا كرے يا پھر اكيلا ہى ادا كر لے.

ابن قدامہ رحمہ اللہ تعالى " المغنى " ميں كہتے ہيں:

" مستحاضہ عورت اور پيشاب كى بيمارى والا شخص مسجد ميں ٹھر اور وہاں سے گزر سكتا ہے، ليكن شرط يہ ہے كہ مسجد ميں گندگى پھيلنے كا خدشہ نہ ہو؛ كيونكہ عائشہ رضى اللہ تعالى عنہا سے مروى ہے كہ:

" نبى كريم صلى اللہ عليہ وسلم كى ايك زوجہ متحرمہ نے نبى كريم صلى اللہ عليہ وسلم كے ساتھ اعتكاف كيا اور وہ استحاضہ كى حالت ميں تھى، اور سرخى اور زردى ديكھتى، اور بعض اوقات وہ نماز ادا كر رہى ہوتى تو ان كے نيچے برتن ركھا ہوتا تھا "

اسے بخارى نے روايت كيا ہے.

چنانچہ اگر مسجد گندى ہونے كا خدشہ ہو تو اسے مسجد ميں سے گزرنے كا حق نہيں؛ كيونكہ مسجد اس سے صاف رہنى چاہيے جس طرح پيشاب سے اسے صاف ركھا جاتا ہے، اور اگر حائضہ عورت كا مسجد سے گزرنے كى بنا پر مسجد گندى ہونے كا خدشہ ہو تو اسے مسجد سے گزرے كا حق نہيں " انتہى باختصار.

ديكھيں: المغنى لابن قدامہ ( 1 / 201 ).

امام نووى رحمہ اللہ تعالى " المجموع " ميں لكھتے ہيں:

" مسجد ميں نجاست لے جانى منع ہے، جس كے بدن ميں نجاست لگى ہو يا اسے زخم ہو جس سے مسجد ميں گندگى پيھلنے كا خدشہ ہو تو اس شخص كے ليے مسجد ميں داخل ہونا حرام ہے، ليكن اگر گندگى پھيلنے كا خدشہ نہ ہو تو پھر حرام نہيں، ان مسائل كى دليل مندرجہ ذيل حديث ہے:

انس رضى اللہ تعالى عنہ بيان كرتے ہيں كہ رسول كريم صلى اللہ عليہ وسلم نے فرمايا:

" يہ مساجد ميں پيشاب اور گندگى وغيرہ كے ليے نہيں، بلكہ يہ مساجد اللہ تعالى كا ذكر اور قرآن مجيد كى تلاوت كے ليے ہيں "

او كما قال رسول اللہ صلى اللہ عليہ وسلم.

اسے مسلم نے روايت كيا ہے. انتہى

ديكھيں: المجموع للنووى ( 2 / 177 ).

دوسرى حالت:

اس كا پيشاب وضوء اور نماز كے وقت تك ركتا ہو، مثلا جس كے متعلق علم ہو كہ قضاء حاجت كے بعد پيشاب كچھ دير كے ليے رك جاتا ہے، تو ايسے شخص كے ليے پيشاب ركنے كے وقت تك نماز مؤخر كرنى لازم ہے، چاہے ايسا كرنے سے نماز باجماعت ادا نہ ہو سكے.

اس وقت اسے چاہيے كہ وہ اگر ميسر ہو سكے تو اپنے گھر والوں كے ساتھ نماز ادا كرے تا كہ نماز باجماعت كا ثواب حاصل ہو سكے.

مستقل فتوى كميٹى كے علماء كرام سے درج سوال كيا گيا:

ايك شخص پيشاب كى بيمارى ميں مبتلا ہے، اور پيشاب كے بعد كچھ دير كے ليے پاك صاف رہتا ہے، اگر وہ پيشاب ركنے كا انتظار كرے تو جماعت ختم ہو جاتى ہے، اس كا حكم كيا ہے؟

كميٹى كے علماء كرام كا جواب تھا:

" اگر معلوم ہو كہ پيشاب رك جاتا ہے تو اس كے ليے پيشاب آنے كى صورت ميں جماعت كى فضيلت حاصل كرنے كے ليے نماز ادا كرنى جائز نہيں بلكہ اسے پيشاب ركنے كا انتظار كرنا ہو گا اور اس كے بعد وہ استنجا كر كے وضوء كرے اور نماز ادا كرلے چاہے جماعت ختم ہو چكى ہو.

اسے وقت داخل ہونے كے بعد استنجاء اور وضوء جلد كرنا چاہيے، تا كہ وہ نماز باجماعت ادا كر سكے " انتہى

ديكھيں: فتاوى اللجنۃ الدائمۃ للبحوث العلميۃ والافتاء ( 5 / 408 ).

مزيد تفصيل كے ليے سوال نمبر ( 50075 ) اور ( 39494 ) كے جواب كا مطالعہ كريں.

واللہ اعلم .

الاسلام سوال وجواب

http://islamqa.info/ur/66074
 
Top