• الحمدللہ محدث فورم کو نئےسافٹ ویئر زین فورو 2.1.7 پر کامیابی سے منتقل کر لیا گیا ہے۔ شکایات و مسائل درج کروانے کے لئے یہاں کلک کریں۔
  • آئیے! مجلس التحقیق الاسلامی کے زیر اہتمام جاری عظیم الشان دعوتی واصلاحی ویب سائٹس کے ساتھ ماہانہ تعاون کریں اور انٹر نیٹ کے میدان میں اسلام کے عالمگیر پیغام کو عام کرنے میں محدث ٹیم کے دست وبازو بنیں ۔تفصیلات جاننے کے لئے یہاں کلک کریں۔

کیا ھمارے حنفی بھائی اپنی نماز کی ابتدا بدعت سے کرتے ہیں ؟

شمولیت
اگست 11، 2013
پیغامات
17,117
ری ایکشن اسکور
6,783
پوائنٹ
1,069
کیا ھمارے حنفی بھائی اپنی نماز کی ابتدا بدعت سے کرتے ہیں ؟


امام ابن ہمام حنفی فرماتے ہیں:

بعض حفاظ نے کہا ہے کہ کسی صحیح یا ضعیف سند سے بھی ثابت نہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نماز کی ابتدا کرتے وقت یہ فرماتے کہ میں فلاں نماز ادا کر رہا ہوں اور نہ ہی صحابہ یا تابعین میں سے کسی سے یہ منقول ہے۔ بلکہ جو منقول ہے وہ یہ کہ آپ جب نماز کے لیے کھڑے ہوتے تو ’اللہ اکبر‘ کہتے، اور یہ (زبان سے نیت کرنا) بدعت ہے۔ (فتح القدیر شرح الہدایہ‘‘ (۱/۲۶۶،۲۶۷)

علامہ حموی حنفی رقم طراز ہیں:

’ابن امیر حاج ’’حلیہ شرح منیہ‘‘ میں ’’فتح القدیر‘‘ کی عبارت پر اضافہ کرتے ہیں کہ یہ فعل ائمۂ اربعہ سے بھی مروی نہیں۔ ’’شرح الأشباہ والنظائر‘‘ (ص۴۵) میں (۵۔۶)

علامہ ابن نجیم حنفی لکھتے ہیں:

ظاہر ہےفتح القدیر سے اس کا بدعت ہونا ہی ثابت ہوتا ہے۔‘‘’(بحر الرائق‘‘ (ص۲۱۰)


علامہ حسن شرنبلالی حنفی نے ’’مجمع الروایات‘‘ سے نقل کیا ہے :

کہ زبان سے نیت بولنے کو بعض علماء نے حرام کہا ہے، اس لیے کہ عمر رضی اللہ عنہ نے اس کے کرنے والے کو سزا دی ہے۔‘‘ (شرح نور الایضاح:۵۶)
فتاویٰ غربیۃ، کتاب الصلوۃ کے دسویں باب میں ہے:
’’کہا گیا ہے کہ زبان سے نیت کرنا بدعت ہے۔‘‘(فتاوی غربیہ:ج۳،ص۲۳۴)


امام ابن عابدین حنفی اپنی کتاب ) میں فرماتے ہیں:

زبان سے نیت کرنا بدعت ہے۔(رد المحتار‘‘ ۱/۲۷۹


امام ملا علی قاری حنفی لکھتے ہیں:

’’الفاظ کے ساتھ نیت کرنا جائز نہیں ہے کیونکہ یہ بدعت ہے۔ اور نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی اتباع جس طرح آپ کے کاموں میں کرنا لازم ہے، اسی طرح اتباع کام کے نہ کرنے میں بھی لازم ہے، جو شخص آپ کے نہ کیے ہوئے پر اڑا رہےگا وہ بدعتی ہے... نیز فرماتے ہیں: تم جان چکے ہو کہ نہ بولنا ہی افضل ہے۔(مرقاۃ المفاتیح شرح مشکاۃ المصابیح‘‘ (۱/۴۱)

مجدد الف ثانی شیخ احمد سرہندی نقشبندی حنفی لکھتے ہیں:

’’زبان سے نیت کرنا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے سند صحیح بلکہ سند ضعیف سے بھی ثابت نہیں اور صحابۂ کرام رضی اللہ عنہم اور تابعین عظام رحمۃ اللہ علیہم زبان سے نیت نہیں کرتے تھے بلکہ جب اقامت کہتے تو صرف ’اللہ اکبر‘ کہتے تھے، زبان سے نیت بدعت ہے۔‘‘ (مکتوبات دفتر اول حصہ سوم، مکتوب نمبر ۱۸۶ ص۷۳)
طحطاوی حنفی ’’میں لکھتے ہیں:

’’صاحب در مختار‘‘ کے قول: ’’یعنی سلف نے اس کو پسند کیا ہے‘‘، اس میں اشارہ ہے اس امر کا کہ حقیقت میں نیت کے ثابت ہو نے کے بارے میں کسی کا اختلاف نہیں ہے اس لیے کہ زبان سے بولنا نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے ثابت نہیں ہے اور نہ صحابہ وائمہ اربعہ سے، یہ تو محض بدعت ہے۔‘(‘شرح در مختار‘‘ (۱/۱۹۴)


علامہ انور شاہ کاشمیری دیوبندی حنفی فرماتے ہیں:

’’نیت صرف دل کا معاملہ ہے۔‘‘ (فیض الباری شرح صحیح البخاری :۱/۸)
علامہ عبد الحی لکھنوی حنفی فرماتے ہیں:

نماز کی ابتداء میں زبان سے نیت کرنا بدعت ہے۔(عمدۃ الرعایۃ حاشیہ شرح الوقایہ‘‘(۱/۱۵۹)

مولانا اشرف علی تھانوی اپنی لکھتے ہیں:

زبان سے نیت کرنا ضروری نہیں ہے بلکہ دل میں جب اتنا سوچ لیوے کہ آج کی ظہر کے فرض پڑھتی ہوں اور اگر سنت نماز پڑھتی ہو تو یہ سوچ لے کہ ظہر کی سنت پڑھتی ہوں، بس اتنا خیال کر کے ’اللہ اکبر‘ کہہ کے ہاتھ باندھ لیوے تو نماز ہو جاوےگی اور جو لمبی چوڑی نیت لوگوں میں مشہور ہے اس کا کہنا کچھ ضروری نہیں( ’’بہشتی زیور‘‘ (۲/۲۸)

تمام حنفی مساجد میں آج اس بدعت پر عمل جاری ہے، کیا ہمارے حنفی بھائی اس بدعت کو اپنی مساجد سے ختم کرنے کوشش کریں گے؟؟؟؟؟

نماز کے شروع میں زبان سے نیت کرنا اکابر حنفی علما کے نزدیک بدعت ہے
 
شمولیت
اگست 11، 2013
پیغامات
17,117
ری ایکشن اسکور
6,783
پوائنٹ
1,069
نماز تراویح وغیرہ میں زبانی نیت کرنا بدعت ہے

رمضان المبارک میں ہم تراویح تو ادا کرتے ہیں لیکن ہمیں تراویح کے شروع میں کیا کہنا چاہیے مثلا کیا ہم یہ کہیں ( میں اللہ تعالی کے لیے دورکعت تراویح پیچھے اس امام کے ۔۔۔۔ جونیت معروف ہے ، کہہ سکتے ہیں ؟


الحمد للہ:

نماز پڑھتے وقت زبان سے نیت کی ادائيگي بدعت ہے چاہے وہ نماز تراویح ہویا کوئي اورنماز ۔

حافظ ابن قیم رحمہ اللہ تعالی کہتے ہیں :

نبی مکرم صلی اللہ علیہ وسلم جب نماز کے لیے کھڑے ہوتے ہو اللہ اکبر کہہ کرنماز شروع کرتے اوراس سے پہلے کچھ بھی نہيں کہتے تھے ، اورنبی صلی اللہ علیہ وسلم نے بالکل قطعی طور پر کبھی بھی زبان سے نیت کی ادائيگي نہیں فرمائي ، اورنہ ہی نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے کبھی یہ نہیں کہا کہ میں اللہ تعالی کے لیے فلاں نماز ، اورقبلہ رخ ہوکر ، چار رکعات ، بطو امام ، یا پیچھے اس امام کے ، ادا کرتا ہوں اور نہ ہی کبھی یہ کہا کہ میں نماز قضاء یا ادا یا فرضي اوریا نفلی ادا کرتا ہوں ۔

یہ دس بدعات ہیں جونبی صلی اللہ علیہ وسلم سے ثابت نہیں اور نہ ہی منقول ہیں ، نہ تو صحیح سند کے ساتھ اور نہ ہی کسی ضعیف سند کے ساتھ ، بلکہ کسی مرسل سند میں ان الفاظ میں سے کوئي ایک لفظ بھی ثابت نہيں ۔

بلکہ نہ تو یہ کسی صحابی سے ثابت ہے اور نہ ہی تابعین کرام میں سے کسی نے اسے مستحسن قرار دیا ہے اورنہ ہی آئمہ اربعہ میں سے کسی امام نے اسے کہنے کا کہا ہے ۔

دیکھیں کتاب : زاد المعاد لابن قیم ( 1 / 201 ) ۔

آپ مزید تفصیل کے لیے سوال نمبر ( 13337 ) کے جواب کا مطالعہ ضرورکریں ۔

اس لیے مسلمان کو چاہیے کہ وہ صرف دل سے ہی نماز کا ارادہ کرے کیونکہ نیت کا تعلق دل سے ہے نہ کہ زبان سے اس لیے اسے اپنی زبان سے کوئي لفظ ادا نہيں کرنا چاہییں ۔

واللہ اعلم .

الاسلام سوال وجواب

http://islamqa.info/ur/37841
 
شمولیت
اگست 11، 2013
پیغامات
17,117
ری ایکشن اسکور
6,783
پوائنٹ
1,069
عبادات ميں زبان سے نيت كرنے كا حكم

كيا مسلمان عبادات كرتے وقت زبان سے نيت كرے مثلا ميں وضوء كى نيت كرتا ہوں، اور ميں نماز كى نيت كرتا ہوں اور ميں روزے كى نيت كرتا ہوں ؟


الحمد للہ:

شيخ الاسلام ابن تيميہ رحمہ اللہ سے درج ذيل سوال دريافت كيا گيا:

كيا نماز وغيرہ دوسرى عبادات شروع كرنا زبان سے نيت كى محتاج ہيں، مثلا كوئى كہے: ميں نے نماز كى نيت كى، اور ميں نے روزے ركھنے كى نيت كى ؟

شيخ الاسلام كا جواب تھا:

الحمد للہ:

طہارت يعنى غسل يا وضوء يا تيمم اور نماز روزہ اور زكاۃ اور كفارات وغيرہ دوسرى عبادات ميں بالاتفاق انسان زبان سے نيت كرنے كا محتاج نہيں، بلكہ نيت دل سے ہوتى ہے اس پر سب آئمہ كا اتفاق ہے، اس ليے اگر اس نے اپنى زبان سے دل كے مخالف الفاظ نكالے تو اعتبار دل كا ہو گا نہ كہ جو اس نے زبان سے الفاظ نكالے ہيں.

اس ميں كسى نے بھى اختلاف نہيں كيا، ليكن متاخرين اصحاب شافعى رحمہ اللہ نے اس ميں ايك وجہ سے اسے كو غلط قرار ديا ہے، علماء كرام كا اس ميں تنازع ہے كہ آيا نيت كے الفاظ زبان سے ادا كرنے مستحب ہيں يا نہيں ؟

اس ميں دو قول پائے جاتے ہيں:

پہلا قول:

اصحاب ابو حنيفہ اور شافعى اور احمد زبان سے نيت كے الفاظ ادا كرنے كو مستحب كہتے ہيں كيونكہ يہ زيادہ تاكيدى ہے.

دوسرا قول:

اصحاب مالك اور احمد وغيرہ كہتے ہيں زبان سے نيت كے الفاظ ادا كرنےمستحب نہيں؛ كيونكہ يہ بدعت ہے اس ليے كہ رسول كريم صلى اللہ عليہ وسلم سے اس كا ثبوت نہيں ملتا، اور نہ ہى صحابہ كرام سے ايسا كرنا منقول ہے، اور نہ ہى نبى كريم صلى اللہ عليہ وسلم نے اپنى امت ميں سے كسى كو زبان سے نيت كے الفاظ ادا كرنے كا حكم ديا ہے، اور نہ كسى مسلمان كو اس كى تعليم دى.

اگر يہ مشروع ہوتا تو نبى كريم صلى اللہ عليہ وسلم اس ميں سستى نہ كرتے، اور نہ ہى صحابہ كرام اس ميں اہمال سے كام ليتے، باوجود اس كے كہ امت كو اس كى ہر روز صبح و شام ضرورت تھى.

يہ دوسرا قول زيادہ صحيح ہے، بلكہ زبان سے نيت كى ادائيگى تو عقلى اور دينى دونوں طرح سے نقص معلوم ہوتا ہے دينى نقص اس ليے كہ يہ بدعت ہے، اور عقلى نقص اس طرح كہ يہ بالكل كھانے كھانے كى جگہ ہے جيسے كوئى كھانا چاہے تو كہے: ميں برتن ميں ہاتھ ڈالنے اور اس سے لقمہ لينے كى نيت كرتا ہوں اور وہ لقمہ اپنے منہ ميں ڈال كر چباؤنگا، پھر اسے نگل لونگا تا كہ پيٹ بھر سكوں، اگر كوئى ايسا كرے تو يہ حماقت اور جہالت ہے.

اس ليے كہ نيت علم كے تابع ہے، لہذا جب بندے كو اپنے فعل كا علم ہو جائے تو ضرورتا اس نے نيت كر لى، اس ليے علم كى موجودگى ميں نيت نہيں ہو سكتى، اور پھر علماء كرام اس پر متفق ہيں كہ بلند آواز اور تكرار سے نيت كرنا مشروع نہيں ہے بلكہ جو ايسا كرنے كا عادى ہو اسے ادب سكھايا جائے اور ايسى سزا دى جائے جو عبادات ميں بدعت كى ايجاد ميں مانع ہو، اور بلند آواز كر كے لوگوں كو اذيت دينے سے باز ركھے.

ديكھيں: الفتاوى الكبرى ( 1 / 214 - 215 )

http://islamqa.info/ur/13337
 
شمولیت
مئی 01، 2014
پیغامات
60
ری ایکشن اسکور
38
پوائنٹ
63
کئی مرتبہ احناف کی مساجد میں نماز پڑھنے کا اتفاق ہوا میں نے کسی کو زبان سے نیت کرتے نہیں سُنا۔ اسی طرح کئی دوست احباب و عزیز بھی حنفی ہیں مگر زبان سے نیت نہیں ادا کرتے۔۔اگر معدودے چند ہوں تو اور بات ہے ۔
شاید آپ نے زیادہ تر کو یہ الفاظ ادا کرتے سنا ہو تبھی یہ قیاس کر لیا کہ سب یا اکثر حنفی زبان سے نیت ادا کرتے ہیں ۔۔
ویسے اگر آپ اس تھریڈ کا موضوع یہ رکھتے تو زیادہ بہتر ہوتا
نماز کے شروع میں زبان سے نیت کرنا اکابر حنفی علما کے نزدیک بدعت ہے
اور پھر آخر میں تاکید کر دیتے کہ جو احناف ابھی تک اس بدعت پر عمل پیرا ہیں وہ اس سے رجوع کر لیں۔ تو یہ تھریڈ کافی جاندار ہوجاتا۔
براہِ راست سب احناف پر بدعت کا اطلاق کرنے سے یہ بالکل ایک سطحی سا مسلکی اختلافات لگتا ہے۔
بہرحال یہ میری رائے ہے ۔ ممکن ہے آپ کو مناسب معلوم نہ ہو۔

اور بہتر تو یہ ہے مسلکی اختلافات سے پرہیز کیا جائے ۔ ہاں عقیدے کی خرابی پر ضرور اچھے طریقے سے بات سمجھائی جائے ۔ جیسے کہ آج کل ہر مسلک کے لوگوں کی اکثریت عقیدہ الولا والبرا ٔ سے نا واقف ہے ۔ اسی طرح امت کے ایک کثیر تعداد وطنیت اور جمہوریت کے بتوں کو گلے سے لگائے ہوئے ہے۔ اسلامی ممالک میں قرآن و سنت کے بجائے کفار کے قوانین نافذ ہیں ۔ مسلم ممالک کی افواج کفار کے شانہ بشانہ مسلمانوں کا خون بہانے میں مصروف ہیں۔ لال مسجد اور رابعہ عدویہ جیسے سانحات رونما ہو رہے ہیں جہاں قرآن و سنت کا مطالبہ کرنے والوں کو مسلمان کہلوانے والے فوجی صرف اپنی نوکری کی خاطر لہو میں نہا دیتے ہیں ۔ ایسے میں جس قدر ہوسکے اختلافی مسائل سے پرہیز کیا جائے۔
 
Top