محمد عامر یونس
خاص رکن
- شمولیت
- اگست 11، 2013
- پیغامات
- 17,117
- ری ایکشن اسکور
- 6,783
- پوائنٹ
- 1,069
کیا ھمارے حنفی بھائی اپنی نماز کی ابتدا بدعت سے کرتے ہیں ؟
بعض حفاظ نے کہا ہے کہ کسی صحیح یا ضعیف سند سے بھی ثابت نہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نماز کی ابتدا کرتے وقت یہ فرماتے کہ میں فلاں نماز ادا کر رہا ہوں اور نہ ہی صحابہ یا تابعین میں سے کسی سے یہ منقول ہے۔ بلکہ جو منقول ہے وہ یہ کہ آپ جب نماز کے لیے کھڑے ہوتے تو ’اللہ اکبر‘ کہتے، اور یہ (زبان سے نیت کرنا) بدعت ہے۔ (فتح القدیر شرح الہدایہ‘‘ (۱/۲۶۶،۲۶۷)
علامہ حموی حنفی رقم طراز ہیں:
’ابن امیر حاج ’’حلیہ شرح منیہ‘‘ میں ’’فتح القدیر‘‘ کی عبارت پر اضافہ کرتے ہیں کہ یہ فعل ائمۂ اربعہ سے بھی مروی نہیں۔ ’’شرح الأشباہ والنظائر‘‘ (ص۴۵) میں (۵۔۶)
علامہ ابن نجیم حنفی لکھتے ہیں:
ظاہر ہےفتح القدیر سے اس کا بدعت ہونا ہی ثابت ہوتا ہے۔‘‘’(بحر الرائق‘‘ (ص۲۱۰)
علامہ حسن شرنبلالی حنفی نے ’’مجمع الروایات‘‘ سے نقل کیا ہے :
کہ زبان سے نیت بولنے کو بعض علماء نے حرام کہا ہے، اس لیے کہ عمر رضی اللہ عنہ نے اس کے کرنے والے کو سزا دی ہے۔‘‘ (شرح نور الایضاح:۵۶)
فتاویٰ غربیۃ، کتاب الصلوۃ کے دسویں باب میں ہے:
’’کہا گیا ہے کہ زبان سے نیت کرنا بدعت ہے۔‘‘(فتاوی غربیہ:ج۳،ص۲۳۴)
امام ابن عابدین حنفی اپنی کتاب ) میں فرماتے ہیں:
زبان سے نیت کرنا بدعت ہے۔(رد المحتار‘‘ ۱/۲۷۹
امام ملا علی قاری حنفی لکھتے ہیں:
’’الفاظ کے ساتھ نیت کرنا جائز نہیں ہے کیونکہ یہ بدعت ہے۔ اور نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی اتباع جس طرح آپ کے کاموں میں کرنا لازم ہے، اسی طرح اتباع کام کے نہ کرنے میں بھی لازم ہے، جو شخص آپ کے نہ کیے ہوئے پر اڑا رہےگا وہ بدعتی ہے... نیز فرماتے ہیں: تم جان چکے ہو کہ نہ بولنا ہی افضل ہے۔(مرقاۃ المفاتیح شرح مشکاۃ المصابیح‘‘ (۱/۴۱)
مجدد الف ثانی شیخ احمد سرہندی نقشبندی حنفی لکھتے ہیں:
’’زبان سے نیت کرنا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے سند صحیح بلکہ سند ضعیف سے بھی ثابت نہیں اور صحابۂ کرام رضی اللہ عنہم اور تابعین عظام رحمۃ اللہ علیہم زبان سے نیت نہیں کرتے تھے بلکہ جب اقامت کہتے تو صرف ’اللہ اکبر‘ کہتے تھے، زبان سے نیت بدعت ہے۔‘‘ (مکتوبات دفتر اول حصہ سوم، مکتوب نمبر ۱۸۶ ص۷۳)
طحطاوی حنفی ’’میں لکھتے ہیں:
’’صاحب در مختار‘‘ کے قول: ’’یعنی سلف نے اس کو پسند کیا ہے‘‘، اس میں اشارہ ہے اس امر کا کہ حقیقت میں نیت کے ثابت ہو نے کے بارے میں کسی کا اختلاف نہیں ہے اس لیے کہ زبان سے بولنا نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے ثابت نہیں ہے اور نہ صحابہ وائمہ اربعہ سے، یہ تو محض بدعت ہے۔‘(‘شرح در مختار‘‘ (۱/۱۹۴)
’’نیت صرف دل کا معاملہ ہے۔‘‘ (فیض الباری شرح صحیح البخاری :۱/۸)
علامہ عبد الحی لکھنوی حنفی فرماتے ہیں:
نماز کی ابتداء میں زبان سے نیت کرنا بدعت ہے۔(عمدۃ الرعایۃ حاشیہ شرح الوقایہ‘‘(۱/۱۵۹)
مولانا اشرف علی تھانوی اپنی لکھتے ہیں:
زبان سے نیت کرنا ضروری نہیں ہے بلکہ دل میں جب اتنا سوچ لیوے کہ آج کی ظہر کے فرض پڑھتی ہوں اور اگر سنت نماز پڑھتی ہو تو یہ سوچ لے کہ ظہر کی سنت پڑھتی ہوں، بس اتنا خیال کر کے ’اللہ اکبر‘ کہہ کے ہاتھ باندھ لیوے تو نماز ہو جاوےگی اور جو لمبی چوڑی نیت لوگوں میں مشہور ہے اس کا کہنا کچھ ضروری نہیں( ’’بہشتی زیور‘‘ (۲/۲۸)
تمام حنفی مساجد میں آج اس بدعت پر عمل جاری ہے، کیا ہمارے حنفی بھائی اس بدعت کو اپنی مساجد سے ختم کرنے کوشش کریں گے؟؟؟؟؟
نماز کے شروع میں زبان سے نیت کرنا اکابر حنفی علما کے نزدیک بدعت ہے
نماز کے شروع میں زبان سے نیت کرنا اکابر حنفی علما کے نزدیک بدعت ہے