• الحمدللہ محدث فورم کو نئےسافٹ ویئر زین فورو 2.1.7 پر کامیابی سے منتقل کر لیا گیا ہے۔ شکایات و مسائل درج کروانے کے لئے یہاں کلک کریں۔
  • آئیے! مجلس التحقیق الاسلامی کے زیر اہتمام جاری عظیم الشان دعوتی واصلاحی ویب سائٹس کے ساتھ ماہانہ تعاون کریں اور انٹر نیٹ کے میدان میں اسلام کے عالمگیر پیغام کو عام کرنے میں محدث ٹیم کے دست وبازو بنیں ۔تفصیلات جاننے کے لئے یہاں کلک کریں۔

کیا ہم تمھیں وہ لوگ بتائیں جو اعمال میں سب سے زیادہ خسارے والے ہیں؟

شمولیت
اگست 16، 2017
پیغامات
112
ری ایکشن اسکور
13
پوائنٹ
55
بسم الله الرحمن الرحیم
دینِ مصلحت کے پیروکاروں کی تحریف کبھی بھی رکنے کا نام نہیں لیتی، وہ صرف حرام چیزوں کو حلال کرنے پر ہی اکتفاء نہیں کرتے، بلکہ وہ تو اسلام اور مسلمانوں کی نام نہاد مصلحت کے نام پر توحیدِ باری تعالی کے نواقض کو بھی حلال کرڈالتے ہیں، جو کہ دین اسلام کی اصل بنیاد ہے، تو اس کی بنیاد کو گرا ڈالنے کے بعد پھر وہ کس اسلام کیلیے مصلحت کی بات کرتے ہیں؟ اور وہ کس کھاتے کے مسلمان ہیں جو اللہ سبحانہ و تعالی کی توحید کو اپنی مصلحتوں کی بھینٹ چڑھادیتے ہیں؟

اور پھر یہ مصیبت اس صریح گمراہی تک ہی جا کر نہیں رک جاتی، بلکہ وہ جن نام نہاد مصلحتوں کے حصول کیلیے اور جن نام نہاد خرابیوں سے بچنے کیلئے اپنے دین تک کو بدل ڈالتے ہیں، دیکھنے والا جب انہیں دیکھتا ہے تو اسے معلوم ہوجاتا ہے کہ جن چیزوں کو وہ حقیقی واقعات کہہ کر ان کا مطالبہ کررہے ہیں وہ سوائے فریبی وہموں کے کچھ بھی نہیں، اور جن در پیش چیزوں سے وہ بچنا چاہ رہے ہیں تو ان کا سامنا وہ صرف اس لئے کررہے ہیں کہ انہوں نے اللہ تعالی کے اس حکم کو چھوڑ دیا کہ جس پر ہر چاہت و پسندیدگی میں عمل کرنا ضروری تھا۔

اور اسی طرح یہ گمراہ کرنے والے گمراہ لوگ لوگوں کے دین کو ضائع کر ڈالتے ہیں، اس حجت کے ساتھ کہ وہ ان کی دنیا کی حفاظت کرسکیں گے، اور پھر وہ غیر شرعی طریقے کہ جن میں دنیا کے بچنے کا کوئی امکان ہی نہیں ہے وہ ان پر چل کر اپنے پیروکاروں کی دنیا کو بھی ضائع کرڈالتے ہیں، تاکہ جس کسی نے بھی ان کی گمراہی میں ان کی پیروی کی یا ان کے کفر پر ان کی اتباع کی تو وہ اسے دنیا و آخرت میں خسارے سے دوچار کرڈالیں، اور یہی کھلا خسارہ ہے، جیسا کہ ارشادِ باری تعالی ہے:


قُلْ هَلْ نُنَبِّئُكُم بِالْأَخْسَرِينَ أَعْمَالًا۔الَّذِينَ ضَلَّ سَعْيُهُمْ فِي الْحَيَاةِ الدُّنْيَا وَهُمْ يَحْسَبُونَ أَنَّهُمْ يُحْسِنُونَ صُنْعًا
۔(سورۃ الكهف: ۱۰۳- ۱۰۴)

ترجمہ:کہہ دو کہ کیا ہم تمھیں وہ لوگ بتائیں جو اعمال میں سب سے زیادہ خسارے والے ہیں؟، وہ وہ لوگ ہیں جن کا دنیا میں کیا دھرا سارا بیکار ہوگیا اور وہ اسی گمان میں رہے کہ وہ بہت اچھے کام کررہے ہیں۔

اور جمہوریت پرست مشرکین اور وطن پرست کفار ایک صدی سے لوگوں کو یہ دعوت دیتے چلے آرہے ہیں کہ وہ دینِ وطنیت سے چمٹ جائیں، جوکہ الولاء والبراء کی شرعی حقیقت سے متناقض ہے، یہ سب اس لئے کہ تاکہ وہ جن ممالک میں رہتے ہیں وہاں کفار کے ساتھ کسی طرح برابری حاصل کرلیں، اور وہ لوگوں کو کفرِ جمہوریت پر ایمان لانے پراس بہانے سے اکساتے ہیں کہ وہ اسلام سے نسبت رکھنے والے اپنے بعض افراد کو حکومت تک پہنچائیں گے اور پھر ان کفریہ قوانین کو نافذ کرواکر اپنے مفادات حاصل کرسکیں گے کہ جن میں شاید ہی مسلمانوں کا کچھ نفع ہو۔


یہ مشرکین بھلے جس ملک میں بھی رہتے ہوں، ان کے یہ بہانے نہیں بدلتے، چاہے یہ وہاں اکثریت ہوں یا اقلیت، پس اگر یہ مرتدین کہیں اقلیت ہوں تو کہتے ہیں کہ وطنیت پر ایمان لے کر آنے سے وہ کفریہ قانون کے سامنے برابری کا حق حاصل کرلیں گے، جس سے انہیں ان کے ماسوا اکثریت کی ایذاء رسانی سے چھٹکارا مل جائے گا، اور وہ پھر لوگوں سے مطالبہ کرتے ہیں کہ وہ قانون سازی و حاکمیت کیلیے ان کے طواغیت کو منتخب کریں، تاکہ ان کا بھی کچھ وزن بن سکے جس کی کفریہ جماعتوں کی نظر میں کچھ وقعت ہو، تاکہ ان کو اس سے کچھ فائدہ حاصل ہوسکے۔

اور اگر یہ کسی جگہ اکثریت ہوں تو تب بھی یہ لوگوں سے وطنیت پر ایمان لانے کا مطالبہ کرتے ہیں، تاکہ یہ ان کفریہ ممالک کے عتاب سے بچ سکیں کہ جنہیں مسلمانوں کے علاوہ تمام اقلیتوں کی ہمیشہ بڑی فکر رہتی ہے، اور تب دینِ جمہوریت میں داخل ہونے کیلئے ان کا بہانہ یہ ہوتا ہے کہ وہ اپنی اکثریت سے حکومت پر قبضہ کرسکتے ہیں تاکہ وہ کفریہ قوانین کو اپنے زعم میں احکامِ شریعت کے موافق بنا سکیں، چاہے انہیں اس کیلئے کوئی کفریہ طریقہ ہی کیوں نہ اختیار کرنا پڑے۔

پس لاکھوں لوگ اللہ کی شریعت کو بدل ڈالنے والے، اللہ کے نازل کردہ دین کے علاوہ سے حاکمیت کرنے والے، اس کے دین کو توڑ ڈالنے والے اور اس کے نبی ﷺ کی سنت کو بدل ڈالے والے ان طواغیت کی پیروی کرکے کفر کی کھائیوں میں جا گرے، اس طور پر کہ انہوں نے کفریہ دستوروں کا اقرار کرلیا، طواغیت کا چناؤ کیا، انہیں اللہ کے نازل کردہ دین سے ہٹ کر اپنی حمایت میں قانون سازی کرنے کا حق سونپ دیا، اور پھر یہ کہ انہوں نے وطن سے وفاداری کے نام پر خطے کے باسی کفار و مشرکین سے یاریاں گانٹھ لیں، اور پھر وطن اور ان کے کفریہ نظام کے دفاع کے نام پر دین سے روکنے والی کفریہ جماعتوں یعنی طواغیت کی افواج، ان کی پولیس اور ان کے سیکورٹی عملوں میں جا شامل ہوئے۔

اور پھر اپنے دین میں پوری طرح سے خسارہ اٹھانے کے بعد ابھی کچھ پل ہی گزرے تھے کہ ان پر ان کے وطنی بھائی جھپٹ پڑے، اور ان سے ان کی دنیا بھی چھین لیں، اور انہیں قتل و گرفتار اور لوٹ مار کرکے انہیں بدترین عذاب سے دوچار کردیا، یہاں تک کہ انہیں ان کی وطنی نسبتوں، دینِ وطنیت پر ان کے ایمان اور حکمرانوں سے ان کی وفاداری سے بھی محروم کرڈالا، اور انہیں وہاں سے دربدر کرکے وہاں کی شہریت سے بھی تہی دست کردیا، اور انہیں نئے علاقوں میں پناہ گزین ہونے پر مجبور کردیا، جہاں کچھ بعید نہیں کہ وہ کچھ وقت کے بعد خود کو وہاں کا باسی قرار دینے لگیں، ان میں شمولیت اختیار کرلیں اور پھر وہاں کے غیر مسلموں سے اپنی وفاداری کا اعلان کرنے لگیں۔

اور جو کچھ ہندوستان میں تقریبا ایک صدی کے دوران وقوع پذیر ہوا ہے یہ اس گمراہی کی مشہور مثالوں میں سے ایک ہے، ایک وقت تھا کہ جب علماءِ سوء اور فتنے کے داعیوں نے لوگوں کو اس وقت خطے پر مسلط انگریز سے وفاداری کی دعوت دی، اور لوگوں کو ان کے خلاف جہاد کرنے سے روکا اور پھر بات یہاں تک جا پہنچی کہ جو کوئی ان کے خلاف جہاد کرتا تو وہ اس کو اسلام سے خارج قرار دے دیتے، جبکہ اسی دوران وہ ہندوستان سے وفاداری اور وطنی اشتراکیت کے نام پر لوگوں کو ہندؤوں، سکھوں، بدھ متوں اور دیگر کفریہ گروہوں سے یاریاں گانٹھنے کی طرف بلارہے تھے، اور انہوں نے انگریز کے نکل جانے کے بعد لوگوں کو شرکِ جمہوریت میں شمولیت پر ابھارا، اس گمان کے ساتھ کہ وہ اس کے ذریعے مسلمانوں کا دفاع کرسکیں گے اور اس کفریہ قانون کے ذریعے ان کے مفادات کو یقینی بنائیں گے، پس اس میں بہت سے لوگوں نے ان کی پیروی کرلی، جو کہ خود کو مسلمان سمجھتے تھے۔

جبکہ وہ سب یہ بھول گئے کہ جس جمہوریت کے ذریعے ان کو قانون میں اثر انداز ہونے کی اور اپنے نقصانات کم کرنے کی قدرت ملی ہے تو اسی جمہوریت کے ذریعے ان کے دشمن بھی پارلیمنٹ اور حکومت میں اپنی برتری کی بنا پر یہ سب کچھ کر لیں گے اور ایسے قوانین بنائیں گے کہ جن کو منظور کرکے وہ ان پر ہر قسم کا مظالم ڈھاسکیں گے، پس وہ ان کی جانیں، عزتیں اور ان کے اموال کو حلال کر ڈالیں گے، اور اگر جنہوں نے بھی ان کے سامنے چوں چراں کی تو وہ اپنی وطنی وفاداری کی صفت کھو بیٹھیں گے جو کہ ان قوانین کے مرہونِ منت ہوگی، اور پھر انہیں دھتکار دیا جائے گا، اور ان کے ساتھ غداروں اور دشمنوں والا برتاؤ کیا جائے گا، نا کہ بھائیوں اور دوستوں والا، جیسا کہ وہ گمان کرتے ہونگے۔

اور یہی سب کچھ ہم آج ہندوستان میں وقوع پذیر ہوتا ہوا دیکھ رہے ہیں، کہ غالی ہندو مشرکین جمہوریت کے ذریعے حکومت پر مسلط ہوچکے ہیں، جو کہ کبھی ایسا قانون منظور کرتے ہیں کہ جس کے ذریعے وہ مسلمانوں کو وطن میں رہنے سے محروم کردیتے ہیں اور انہیں ان کے گھروں سے نکال کر اس درودیار سے در بدر کرنے کے راستے ہموار کرتے ہیں، اور کبھی انہی قوانین کے ذریعے وہ ان کی مساجد پر قبضہ کرکے انہیں اپنے بتوں کی عبادت گاہوں میں تبدیل کر رہے ہیں، اور یہاں تک کہ وہ انہی قوانین کے ذریعے خطہ کشمیر کی وضعِ خاص کو بھی مسترد کرڈالا ہے جو کہ وہاں نصف صدی سے طاری ہے، اور انہوں نے کھلے عام وہاں ہنگامی قوانین اور مارشل لاء کو لاگو کردیا ہے تاکہ جو کوئی مسلمان بھی اس کا انکار کرے تو وہ اسے قتل کرڈالیں۔

اور اسی طرح آج ہندوستان میں مسلمان جمہوریت کی تلوار کے ساتھ ذبح کیے جارہے ہیں، اور وطنیت کی ہتھکڑیوں کے ساتھ ان کے ہاتھ باندھ دیے گئے ہیں، اور جاہلیتی قوانین کی فرمانروائی سے ان کے خون، ان کی عزتیں اور ان کے اموال حلال کردیے گئے ہیں، لیکن پھر بھی مشرکین صبح و شام اسی کھلے کفر سے چمٹے رہنے کی دعوت دیے جارہے ہیں، اور گمان کررہے ہیں کہ زمین میں یہ فساد پھیلانا ہی مسلمانوں کی مصلحت ہے۔

بلا شبہ دنیا و آخرت میں مسلمانوں کی بہتری و اصلاح کبھی بھی اللہ کی نافرمانی کے ساتھ نہیں ہوسکتی، چہ جائے کہ اس ذاتِ باری تعالی کے ساتھ کفر و شرک کیا جائے، اور یہ بہتری و اصلاح تو صرف اسی صورت میں ممکن ہے کہ جس چیز کا اس نے حکم دیا ہے اس کو بجا لائیں، اور جس چیز سے اس نے روکا ہے اس سے رک جائیں ، اور اس کی توحید کو اور اس کے نبیﷺ کی سنت کو مظبوطی سے تھام لیں، اور مسلمانوں کی جماعت کے ساتھ چمٹ جائیں، اور کفار و مشرکین کے خلاف جہاد پر کمر بستہ ہوجائیں، یہاں تک کہ فتنہ باقی نہ رہے اور سارے کا سارا دین اللہ ہی کیلئے ہوجائے، اور اللہ اس کی ضرور مدد کرتا ہے جو اس کی مدد کرتا ہے، بے شک اللہ طاقتور اور زبردست ہے۔

والحمد للہ رب العالمین۔
 
Top