• الحمدللہ محدث فورم کو نئےسافٹ ویئر زین فورو 2.1.7 پر کامیابی سے منتقل کر لیا گیا ہے۔ شکایات و مسائل درج کروانے کے لئے یہاں کلک کریں۔
  • آئیے! مجلس التحقیق الاسلامی کے زیر اہتمام جاری عظیم الشان دعوتی واصلاحی ویب سائٹس کے ساتھ ماہانہ تعاون کریں اور انٹر نیٹ کے میدان میں اسلام کے عالمگیر پیغام کو عام کرنے میں محدث ٹیم کے دست وبازو بنیں ۔تفصیلات جاننے کے لئے یہاں کلک کریں۔

کیا یزید بن معاویہؓ فوجِ مغفور لہم کا سپہ سالار تھا؟

کلیم حیدر

ناظم خاص
رکن انتظامیہ
شمولیت
فروری 14، 2011
پیغامات
9,748
ری ایکشن اسکور
26,379
پوائنٹ
995
چودھویں صدی میں ناصبیوں کے امام جناب محمود احمد عباسی نے بھی لکھا ہے :
’’چنانچہ ۴۹ھ میں حضرت معاویہؓ نے جہادِ قسطنطنیہ کے لیے بری اور بحری حملوں کا انتظام کیا۔ بری فوج میں شامی عرب تھے خصوصاً بنی کلیب جو امیر یزید کا ننہالی قبیلہ تھا، ان کے علاوہ حجاز قریش غازیوں کا بھی دستہ تھا جس میں صحابہ کرام کی ایک جماعت شامل تھی۔ اس فوج کا امیر اور سپہ سالار امیرالمومنین کے لائق فرزند امیر یزید تھے۔ یہی وہ پہلا اسلامی جیش ہے جس نے قسطنطنیہ پرجہادکیا۔‘‘ (خلافت ِ معاویہ و یزید: ص۷۳)
اور اسی قول کو محمود احمدعباسی صاحب کے لائق شاگرد جناب محمد عظیم الدین صدیقی نے اپنی کتاب ’حیاتِ سیدنا یزید‘ میں اختیار کیا ہے۔(ص۶۷)
 

کلیم حیدر

ناظم خاص
رکن انتظامیہ
شمولیت
فروری 14، 2011
پیغامات
9,748
ری ایکشن اسکور
26,379
پوائنٹ
995
امام خلیفہ بن خیاط اپنی تاریخ میں ۵۰ھ کے ضمن میں لکھتے ہیں:
’’اور اسی سن میں یزید بن معاویہؓ نے ارضِ روم میں جہاد کیا اور ان کے ساتھ سیدنا ابوایوب انصاریؓ بھی تھے۔‘‘ (تاریخ خلیفہ بن خیاط: ص۲۱۱)
حافظ ابن کثیرؒ نے ۵۲ھ کا عنوان قائم کرکے اس کے ضمن میں سیدنا ابوایوب انصاریؓ کی وفات کا ذکر کیا ہے اور ۵۲ھ کے قول کو سب سے زیادہ قوی قرار دیاہے۔‘‘(البدایۃ والنہایۃ: ج۸؍ ص۵۹)
 

کلیم حیدر

ناظم خاص
رکن انتظامیہ
شمولیت
فروری 14، 2011
پیغامات
9,748
ری ایکشن اسکور
26,379
پوائنٹ
995
حافظ ابن حجر عسقلانیؒ فرماتے ہیں:
’’اور یہ غزوئہ مذکور ۵۲ھ میں ہوا اور اسی غزوہ میں اَبو اَیوب انصاریؓ کی وفات ہوئی اور اُنہوں نے وصیت فرمائی کہ اُنہیں قسطنطنیہ کے دروازہ کے قریب دفن کیا جائے۔‘‘ (فتح الباری: ۶؍۱۰۳)
 

کلیم حیدر

ناظم خاص
رکن انتظامیہ
شمولیت
فروری 14، 2011
پیغامات
9,748
ری ایکشن اسکور
26,379
پوائنٹ
995
علماے کرام کے اَقوال میں تضاد و اِضطراب
حافظ ابن حجر عسقلانیؒ ، حافظ ابن کثیرؒ اور حافظ ابن تیمیہؒ وغیرہ نے ایک طرف یزید بن معاویہ کے لشکر کو اوّل جیش کا مصداق قرار دیا ہے جیسا کہ پہلے گزرا ہے لیکن پھر یہی علما یہ بات نقل کرتے ہیں کہ یزیدبن معاویہ کا یہ حملہ ۴۹ھ سے شروع ہوا تھا اور اس کی سب سے بڑی دلیل صحیح بخاری کی وہ روایت ہے کہ
جس میں سیدنا محمود بن الربیع کا یہ بیان موجود ہے کہ یزید بن معاویہ اس لشکر کے سالار تھے جس میں ابوایوب انصاری بھی شریک تھے اور اس میں اُنہوں نے وفات پائی تھی۔ (صحیح بخاری:۱۱۸۶)
اور ابوایوب انصاریؓ کی وفات ۵۲ھ میں ہوئی حالانکہ دیگر تاریخی حقائق سے ثابت ہوتا ہے کہ اس غزوہ سے پہلے بھی قسطنطنیہ پر کئی حملے ہوچکے تھے جن کا ذکر احادیث اور تاریخ کی کتب میں موجود ہے اور ان کو آگے ذکر کیا جارہا ہے۔
 

کلیم حیدر

ناظم خاص
رکن انتظامیہ
شمولیت
فروری 14، 2011
پیغامات
9,748
ری ایکشن اسکور
26,379
پوائنٹ
995
اس وضاحت سے ثابت ہوا کہ یہ حملہ نہ تو پہلا حملہ ہے اور نہ ہی ان کا لشکر ’اوّل جیش‘ کا مصداق ہے۔ جن حضرات نے یزید بن معاویہؓ کے لشکر کو اوّل جیش کا مصداق قراردیا ہے اُنہیں اس سلسلہ میں غلطی لگی ہے اور انہوں نے اس بات کی کوئی دلیل ذکر نہیں کی اور نہ سنداً کوئی روایت بیان کی ہے بلکہ صرف یہی بات ذکر کرکے کہ یزید کے لشکر نے قسطنطنیہ پر لشکرکشی کی تھی اور بس… چنانچہ اس بات کی اشد ضرورت محسوس کی گئی کہ یہ معلوم کیا جائے کہ قسطنطنیہ پر کتنے حملے کئے گئے اور ان حملوں میں سب سے پہلا حملہ کس نے کیا تھا۔
 

کلیم حیدر

ناظم خاص
رکن انتظامیہ
شمولیت
فروری 14، 2011
پیغامات
9,748
ری ایکشن اسکور
26,379
پوائنٹ
995
1۔ قسطنطنیہ پر پہلا حملہ سیدنا معاویہؓ نے کیا تھا
حافظ ابن کثیرؒ نے اگرچہ یزیدبن معاویہؓ کے لشکر کو ’اوّل جیش‘ کا مصداق قرار دیا ہے لیکن وہ خود ہی دوسرے مقام پر لکھتے ہیں :
’’اور ۳۲ھ میں سیدنا معاویہؓ نے بلادِ روم پر چڑھائی کی۔ یہاں تک کہ وہ خلیج قسطنطنیہ تک پہنچ گئے۔‘‘ (البداية والنہاية:ج۷؍ص۱۵۹)
حافظ موصوف ایک اور مقام پر لکھتے ہیں:
’’کہتے ہیں کہ خلیج قسطنطنیہ کی جنگ سیدنا معاویہ کی امارت میں ۳۲ھ میں ہوئی اور وہ خود اس سال لوگوں پرامیر تھے۔‘‘ (ایضاً: ج۸؍ ص۱۲۶)
حافظ زبیر علی زئی لکھتے ہیں:
’’یہ حملہ ۳۲ھ بمطابق ۶۵۲،۶۵۳ھ میںہوا تھا۔ (دیکھئے تاریخ طبری: ج۴؍ ص۳۰۴، العبر از ذہبی:ج۱؍ ص۲۴، المنظم از ابن جوزی:ج۵؍ ص۱۹ طبع۱۹۹۲ئ، البداية والنھاية:ج۷؍ ص۱۵۹، ج۸؍ ص۱۲۶، تاریخ الاسلام از ذہبی وغیرہ)
اس وقت یزید کی عمر تقریباً چھ سال تھی۔ (دیکھئے تقریب التہذیب وغیرہ)
صرف اس ایک دلیل سے ہی روزِ روشن کی طرح ثابت ہوتا ہے کہ ’اوّل جیش‘ والی حدیث ِمبارکہ کو یزید پر فٹ کرنا صحیح نہیں ہے۔ ‘‘(ماہنامہ ’الحدیث‘ حضرو: شمارہ ۶؍ ص۹؛ مقالات ج۱؍ ص۳۱۱)
موصوف دوسرے مقام پر لکھتے ہیں:
’’یہ حملہ قسطنطنیہ پر مضیق القسطنطينية کی طرف سے ہوا تھا، یہ مقام اس شہر سے قریب ہے۔‘‘
حافظ ذہبی لکھتے ہیں:
’’فیھا کانت وقعة المضیق بالقرب من قسطنطينة وأمیرھا معاوية‘‘ (تاریخ اسلام از ذہبی، عہد خلفاے راشدین: ص۳۷۱)
’’اس سن میں مضیق کا واقعہ ہوا جو کہ قسطنطنیہ کے قریب ہے اور اس کے امیر معاویہؓ تھے۔ لہٰذا یہ حملہ بھی قسطنطنیہ پر ہی تھا۔ معاویہؓ نے یہ حملہ عثمان بن عفان کے دورِ خلافت میں کیا تھا۔‘‘
 

کلیم حیدر

ناظم خاص
رکن انتظامیہ
شمولیت
فروری 14، 2011
پیغامات
9,748
ری ایکشن اسکور
26,379
پوائنٹ
995
2۔سیدنا معاویہؓ کا قسطنطنیہ پر دوسرا حملہ
قسطنطنیہ پر دوسرا حملہ سیدنا معاویہؓ نے اپنے دورِ خلافت میںکیا تھا جس کی تفصیل ملاحظہ فرمائیں:
امام بخاری روایت کرتے ہیں:
حدثنا عبداﷲ بن صالح حدثنی معاوية عن عبدالرحمن بن جبیر بن نفیر عن أبیہ عن أبي ثعلبۃ الخشني قال سمعتہ في خلافة معاوية بالقسطنطينية وکان معاوية غزا الناس بالقسطنطينية إن اﷲ لا یعجز ھذہ الأمة من نصف یوم (التاریخ الصغیر: ص۵۶ طبع سانگلہ ہل پاکستان؛ طبع دوم ۱؍۱۲۳، التاریخ الکبیر: ج۱؍ص۲۴۸ ق۲،ج۱)
’’سیدنا ابوثعلبہ خشنی بیان کرتے ہیں کہ میں نے معاویہ ؓ کو ان کے دورِ خلافت میں قسطنطنیہ میں یہ فرماتے ہوئے سنا جبکہ وہ لوگوں کو قسطنطنیہ پر چڑھائی کے لیے روانہ کررہے تھے کہ
’’بے شک اللہ تعالیٰ اس امت کو آدھے دن کے بقدر بھی عاجزنہیں کرے گا۔‘‘
اس روایت کی سند بالکل صحیح ہے کیونکہ اسے روایت کرنے والے سیدنا ابوثعلبہ خشنی مشہور صحابی رسولﷺ ہیں اور ان سے ان کے شاگرد سیدنا جبیر بن نفیر ثقہ اور جلیل القدر تابعی ہیں اور صحاحِ ستہ میں سے امام بخاریؒ کے علاوہ سب نے ان سے حدیث روایت کی ہے اور امام بخاریؒ نے بھی الادب المفرد، التاریخ الصغیر اور التاریخ الکبیر میں ان سے حدیث روایت کی ہے۔ جبیر سے ان کے بیٹے عبدالرحمن بن جبیر اس روایت کو بیان کرتے ہیں اور وہ ثقہ ہیں اور ان محدثین نے ان سے حدیث روایت کی ہے کہ جنہوں نے ان کے والد ِمحترم سے حدیث لی ہے۔ عبدالرحمن کے شاگرد معاویہ بن صالح ہیں جو صدوق ہیں اور اُنہیں اَوہام بھی ہوئے ہیں۔ امام بخاری کے علاوہ دیگر صحاحِ ستہ والوں نے ان کی حدیث روایت کی ہے۔ گویا یہ تینوں راویان صحیح مسلم کے راوی ہیں۔ معاویہ سے اس روایت کو نقل کرنے والے عبداللہ بن صالح ہیں جن کے متعلق حافظ ابن حجر عسقلانی فرماتے ہیں:
’’وہ صدوق ہیں،بہت غلطیاں کرنے والے ہیں لیکن جب وہ کتاب سے روایت کرتے ہیں تو ان کی روایت مضبوط ہوتی ہے اور ان میں کچھ فضیلت پائی جاتی ہے۔ (تقریب) لیکن عبداللہ بن صالح اس روایت کو بیان کرنے میں منفرد نہیں ہیں بلکہ مسنداحمد میں لیث بن سعد نے ان کی متابعت کررکھی ہے اور لیث ثقہ، تبت، فقیہ اور مشہور امام ہیں اور صحاحِ ستہ کے راوی ہیں لہٰذا یہ روایت صحیح ہے۔‘‘
 

کلیم حیدر

ناظم خاص
رکن انتظامیہ
شمولیت
فروری 14، 2011
پیغامات
9,748
ری ایکشن اسکور
26,379
پوائنٹ
995
مسند احمد کی متابعت والی روایت کے الفاظ یہ ہیں :

’’عن عبد الرحمٰن بن جبیر عن أبیہ قال سمعت أبا ثعلبة الخشني صاحب رسول اﷲ ﷺ أنہ سمعہ یقول وھو بالفسطاط في خلافة معاوية وکان معاوية أغزٰی الناس القسطنطينية فقال: واﷲ لا تعجز ھذہ الأمة من نصف یوم إذا رأیت الشام مائدۃ رجل واحد وأھل بیتہ فعند ذلک فَتْحُ القسطنطينية ‘‘

’’سیدنا جبیر بن نفیر بیان کرتے ہیں کہ میں نے رسول اللہﷺ کے صحابی سیدنا ابوثعلبہ خشنی کو اس وقت فرماتے سنا جب کہ وہ خیمہ میں تھے اور یہ معاویہ ؓ کی خلافت کا زمانہ تھا اور سیدنا معاویہ اس وقت لوگوں کو قسطنطنیہ پر لشکر کشی کے لیے روانہ فرما رہے تھے پس اُنہوں نے فرمایا اللہ کی قسم! اللہ تعالیٰ اس اُمت کو آدھے دن کے بقدر بھی عاجز نہیں کرے گا اور جب توشام میں ایک شخص اور اس کے گھر والوں کے لیے ایک دستر خوان دیکھے تو اس وقت قسطنطنیہ فتح ہوگا۔‘‘ (مسنداحمد:ج۴؍ ص۱۹۳، وقال شیخ شعیب ارناوط: اسنادہ علیٰ شرط مسلم؛ مسندالامام احمدبن حنبل :۲۹؍۲۶۹،ح۱۷۷۳۴، وقال ہیثمی: رواہ احمد و رجالہ رجال الصحیح؛مجمع الزوائد:۶؍۲۱۹)
اس حدیث میں یہ الفاظ
’’ واﷲ لاتعجز ھذہ الأمة من نصف یوم‘‘مرفوعاً بھی ثابت ہیں۔ (دیکھئے سنن ابوداؤد:۴۳۴۹، مستدرک حاکم:۴؍۴۲۴ علیٰ شرط الشیخین ووافقہ الذہبی والطبرانی فی الکبیر: ۲۲؍۵۷۲، ۵۷۶ وفی الشامیین:۲۰۲۹)
سیدنا معاویہؓ نے
رومیوں کی سرزمین پر سولہ حملے کئے تھے۔(البدایہ:۸؍۱۳۳)
اور ان میں سے جس جس حملہ کی بھی کچھ تفصیلات ملی ہیں، اسے بیان کیا جارہا ہے نیز اس سلسلہ میں مزید کوشش کی جائے اور مطالعہ کیا جائے تو بہت سے حقائق سامنے آسکتے ہیں۔
 

کلیم حیدر

ناظم خاص
رکن انتظامیہ
شمولیت
فروری 14، 2011
پیغامات
9,748
ری ایکشن اسکور
26,379
پوائنٹ
995
3۔سیدنا معاویہ کا قسطنطنیہ پر تیسرا حملہ
سیدنا معاویہؓ کے قسطنطنیہ پر ایک اور حملہ کی نشاندہی سیدنا عبداللہ بن عباس کی اس روایت سے ہوتی ہے۔ عبداللہ بن عباس سیدنا ابوایوب انصاری کا ذکر کرتے ہوئے فرماتے ہیں:

إن أبا أیوب خالد بن زید الذي کان رسول اﷲ ﷺ نزل في دارہ، غزا أرض الروم فمرَّ علی معاوية فجفاہ معاوية ثم رجع من غزوتہ فجفاہ ولم یرفع بہ رأسًا قال أبو أیوب: إن رسول اﷲ ﷺ أنبأنا: إنا سنرٰی بعدہ إثرۃ۔قال معاوية: فما أمرَکم؟ فقال: أمرنا أن نصبر۔قال: فاصبروا
(مستدرک حاکم:۳؍۴۶۲، وقال الحاکم والذہبی: صحیح؛ المعجم الکبیر للطبرانی:۴؍۱۲۵، ج:۳۸۷۶)
’’بے شک ابوایوب انصاری خالد بن زید وہ ہیں کہ جن کے ہاں ان کے گھر پر رسول اللہﷺ اُترے تھے(اور اُنہوں نے نبیﷺ کی کئی دن تک میزبانی فرمائی تھی)۔ اُنہوں نے ارضِ روم میں جنگ کی۔ پس معاویہ ان پر گزرے اور معاویہ نے ان سے بے رختی برتی پھر وہ اس غزوہ سے واپس آگئے تو پھر بھی معاویہ نے ان سے بے رخی برتی اور ان کی طرف سر اُٹھا کر بھی نہیں دیکھا۔ سیدنا ابوایوب نے کہا کہ رسول اللہﷺ نے ہم سے فرمایا تھا کہ ہم آپؐ کے بعد حق تلفی دیکھیں گے یعنی ہم(انصار) کو نظرانداز کیا جائے گا۔ معاویہؓ نے کہا کہ ایسی صورت میں تمہیں کیا حکم دیا گیاہے؟ کہا کہ ہمیں حکم دیا گیا ہے کہ ہم صبر کریں تو اُنہوں نے کہا کہ بس پھر صبر کرو ۔‘‘
اس روایت سے واضح ہورہا ہے کہ سیدنا ابوایوب انصاری، سیدنا معاویہ کے ساتھ بھی قسطنطنیہ کے جہاد میںشریک ہوئے تھے اور پھر اس جہاد میں حصہ لے کر وہ معاویہ کے ساتھ واپس بھی آگئے۔ سیدنا ابوثعلبہ خشنی اور عبداللہ بن عباس دونوں کی روایات کو الگ الگ واقعات مانا جائے تو خلیج قسطنطنیہ کوملا کر یہ تین حملے بنتے ہیں جو معاویہ کے زیر امارت قسطنطنیہ پر کئے گئے تھے کیونکہ بقول حافظ ابن کثیرؒ : معاویہؓ نے ارضِ روم پر سولہ مرتبہ لشکرکشی کی تھی جیسا کہ پیچھے باحوالہ گزر چکا ہے۔
 

کلیم حیدر

ناظم خاص
رکن انتظامیہ
شمولیت
فروری 14، 2011
پیغامات
9,748
ری ایکشن اسکور
26,379
پوائنٹ
995
4۔قسطنطنیہ پر چوتھا حملہ سیدنا عبدالرحمن بن خالد بن الولید کے زیر امارت ہوا
سیدنا عبدالرحمن بن خالد بن ولید اپنے باپ خالدؓ بن ولید کی طرح انتہائی شجاع تھے۔ اُنہیں بعض محدثین نے صغار صحابہ میں بھی شمار کیا ہے۔ حافظ ابن حجر عسقلانی ؒنے الإصابة في تمییز الصحابة میں ان کا مفصل ترجمہ لکھا ہے اور ساتھ ہی یہ بھی تصریح کردی ہے کہ
أخرج ابن عساکرمن طرق کثیرۃ أنہ کان یؤمر علی غزو الروم أیام معاوية
’’حافظ ابن عساکرنے بہت سی سندوں سے نقل کیا ہے کہ جناب معاویہؓ کے عہد ِحکومت میں ان کو رومیوں سے جو جنگیں لڑی جاتی تھیں، ان میں امیر بنایا جاتاتھا۔‘‘ (الاصابہ:۳؍۶۸)
امام ابن جریر طبریؒ نے اپنی تاریخ میں ۴۴ھ اور ۴۵ ھ کے واقعات کے ضمن میں اور حافظ ابن کثیر نے البدایہ والنھایہ میں۴۴ھ اور ۴۶ھ کے واقعات کے ذیل میں بلادِ روم میں ان کی زیر امارت رومیوں سے مسلمانوں کے سرمائی جہاد کا ذکر کیاہے۔ افسوس کہ ۴۶ھ میں بلادِ روم ہی میں ان کو حمص میں زہر دے کر شہید کردیاگیا تھا۔ عبدالرحمن بن خالدؓ اپنے غزوات و جہاد کی وجہ سے شامی مسلمانوں میں بڑے محبوب و بااثر تھے۔ (البدایہ والنہایہ:۸؍۳۱)
 
Top