• الحمدللہ محدث فورم کو نئےسافٹ ویئر زین فورو 2.1.7 پر کامیابی سے منتقل کر لیا گیا ہے۔ شکایات و مسائل درج کروانے کے لئے یہاں کلک کریں۔
  • آئیے! مجلس التحقیق الاسلامی کے زیر اہتمام جاری عظیم الشان دعوتی واصلاحی ویب سائٹس کے ساتھ ماہانہ تعاون کریں اور انٹر نیٹ کے میدان میں اسلام کے عالمگیر پیغام کو عام کرنے میں محدث ٹیم کے دست وبازو بنیں ۔تفصیلات جاننے کے لئے یہاں کلک کریں۔

کیا یزید بن معاویہؓ فوجِ مغفور لہم کا سپہ سالار تھا؟

کلیم حیدر

ناظم خاص
رکن انتظامیہ
شمولیت
فروری 14، 2011
پیغامات
9,748
ری ایکشن اسکور
26,379
پوائنٹ
995
اس سلسلہ کی بعض احادیث بھی ملاحظہ فرمائیں :
عن أسلم أبي عمران قال: غزونا من المدينة نُرید القسطنطينية وعلی الجماعة عبدالرحمٰن بن خالد بن الولید والروم مُلصقو ظُہُورہم بحائط المدينة فحمل رجل علی العدوّ فقال الناس: مہ مہ لا إلہ إلا اﷲ یلقي بیدیہ إلی التهلكة۔فقال أبو أیوب: إنما نزلت ہذہ الآية فینا معشر الأنصار لما نصر اﷲ نبیَّہ وأظہر الإسلام قلنا ہلمَّ نقیم في أموالنا ونُصْلِحُہَا فأنزل اﷲ {وَاَنْفِقُوْا فِیْ سَبِیْلِ اﷲِ وَ لاَتُلْقُوْا بِاَیْدِیْکُمْ اِلی التَّهْلُكَةِ} فالإلقاء بالأیدي إلی التهلكة أن نقیم في أموالنا ونصلحہا وندع الجہاد۔ قال أبو عمران: فلم یزل أبو أیوب یجاہد في سبیل اﷲ حتی دفن بالقسطنطينية (سنن ابو داؤد: کتاب الجہاد: باب فی قولہ عزوجل ولا تلقوا بایدیکم)
’’سیدنا اسلم ابو عمران کا بیان ہے کہ ہم مدینہ سے جہاد کے لیے قسطنطنیہ کی طرف روانہ ہوئے اس وقت امیر جیش سیدنا عبدالرحمن بن خالدبن الولید تھے۔رومی فوج شہر پناہ سے پشت لگائے مسلمانوں سے آمادہ پیکار تھی۔ اسی اثنا میں (مسلمانوں کی صف میں سے نکل کر) ایک شخص نے دشمن (کی فوج) پرحملہ کردیا۔ لوگ کہتے رہے: ’’رکو، رکو، لا الہ اِلا اللہ یہ شخص تو خود اپنے ہاتھوں اپنے آپ کو ہلاکت میں ڈال رہا ہے۔‘‘ یہ سن کر سیدنا اَبوایوب اَنصاری نے فرمایا کہ یہ آیت تو ہم انصاریوں کے بارے میں اتری ہے۔ (واقعہ یہ ہے) کہ جب اللہ تعالیٰ نے اپنے نبیﷺ کی مدد فرمائی اور اسلام کو غلبہ نصیب فرمایا تو ہم نے کہا تھا کہ اب تو ہم کو مدینہ میں رہ کر اپنے اَموال کی خبرگیری اور ان کی اصلاح کی طرف توجہ دینا چاہئے۔ اس پر اللہ عزوجل نے یہ آیت ِشریفہ نازل فرمائی:
’’ وَاَنْفِقُوْا فِیْ سَبِیْلِ اﷲِ وَ لاَتُلْقُوْا بِاَیْدِیْکُمْ اِلی االتَّهْلُكَةِ ‘‘ (البقرۃ:۱۹۵) ’’اور اللہ کی راہ میں خرچ کرو اور اپنے آپ کو اپنے ہاتھوں ہلاکت میںنہ ڈالو۔‘‘
لہٰذا اپنے آپ کو ہلاکت میں ڈالنا تو جہاد کو چھوڑ کر ہمارا اپنے اَموال کی خبرگیری اور اس کی اصلاح کے خیال سے اپنے گھروں میں بیٹھ رہنا تھا۔ سیدنا ابوعمران کہتے ہیں کہ سیدنا ابوایوب مسلسل اللہ کی راہ میں جہاد ہی کرتے رہے تاآنکہ وہ دفن بھی قسطنطنیہ میں ہوئے۔‘‘
حافظ زبیر علی زئی حفظہ اللہ لکھتے ہیں:
’’سنن ابوداود والی روایت بالکل صحیح اور محفوظ ہے جس کی سند مع متن یہ ہے: ابن وھب عن حیوۃ بن شریح عن یزید بن أبي حبیب عن أسلم أبي عمران قال: غزونا من المدينة نرید القسطنطينية وعلی الجماعة عبد الرحمٰن بن خالد بن الولید… الخ‘‘
’’اسلم ابوعمران سنن ابی داؤد، ترمذی و نسائی کے راوی اور ثقہ تھے۔ (تقریب التہذیب: ص۱۳۵) یزید بن ابی حبیب کتب ِ ستہ کے راوی اور’’ثقة فقیہ وکان یرسل‘‘ ہیں۔ (ایضاً ص۱۰۷۳) وکان یُرسل کوئی جرح نہیں ہے۔ حیوہ بن شریح صحیح بخاری کے راوی اور ثقہ تھے۔ (ایضاً ص۲۷۲ بہ تحقیق شیخ ابو اَشبال شاغف)
عبد اللہ بن وہب کتب ِستہ کے بنیادی راوی اور ثقہ حافظ عابد ہیں۔(تقریب التہذیب:ص۵۵۶) صحیح بخاری میں ان کی تقریباً ایک سو تیس روایات موجود ہیں۔آپ اُصولِ حدیث کی ایک قسم الرواية بالإجازۃ کے قائل تھے جو کہ ایک مستقل فقہی موقف ہے اور راجح بھی یہی ہے کہ روایت بالا جازۃ جائز ہے۔ دیکھئے مقدمة ابن الصلاح وغیرہ
 

کلیم حیدر

ناظم خاص
رکن انتظامیہ
شمولیت
فروری 14، 2011
پیغامات
9,748
ری ایکشن اسکور
26,379
پوائنٹ
995
ابن سعد نے آپ پر تدلیس کا الزام لگایا ہے جو کہ (اس روایت میں) کئی لحاظ سے مردود ہے:
1۔اس روایت میں ابن وہب نے سماع کی تصریح کررکھی ہے۔
2۔ابن وہب کی سند کی متابعت بھی موجود ہے۔ حافظ ابن عساکرؒ نے کہا :
أخبرنا أبو محمّد بن الأکفاني بقرأتي علیہ قال: ثنا عبدالعزیز بن أحمد: أنبأ أبو محمد بن أبي نصر: أنا أبو القاسم بن أبي العقب: أنا أحمد بن إبراہیم القرشي ثنا ابن عائذ: ثنا الولید: ثنا عبد اﷲ بن لهيعة واللیث بن سعد عن یزید عن أبي عمران التجیبي قال: غزونا القسطنطينية وعلی أھل مصر عقبة بن عامر الجھني وعلی الجماعة عبدالرحمٰن بن خالد بن الولید (تاریخ دمشق مصور: ج۹؍ ص۹۲۹)
اس سند میں لیث بن سعد کتب ِستہ کے مرکزی راوی اور ’’ثقة ثبت فقیہ إمام مشہور‘‘ ہیں۔ (تقریب التہذیب: ص۸۱۷)
لیث بن سعد نے ابن وہب کے اُستاد حیوہ بن شریح کی ’متابعت ِتامہ‘ کررکھی ہے۔والحمدﷲ
3۔حافظ ابن حجر کی تحقیق بھی یہ ہے کہ ابنِ وہب مدلس نہیں تھے۔ (دیکھئے النکت علیٰ ابن الصلاح: ج۲؍ ص۶۳۷)
 

کلیم حیدر

ناظم خاص
رکن انتظامیہ
شمولیت
فروری 14، 2011
پیغامات
9,748
ری ایکشن اسکور
26,379
پوائنٹ
995
نوٹ:
راجح یہی ہے کہ عبداللہ بن وہبؒ ثقہ ہونے کے ساتھ مدلس بھی تھے۔ اس تفصیل سے معلوم ہوا کہ سنن ابی داؤد کی اس حدیث کی سند بالکل صحیح ہے۔ اسی وجہ سے امام حاکم اور ذہبی نے اسے بخاری و مسلم کی شرط پر صحیح کہا ہے۔ اگر شرط سے مراد یہ لیا جائے کہ اس سند کے تمام راوی بخاری و مسلم کے ہیں تو ظاہر ہے کہ یہ بات وہم ہے کیونکہ اسلم صحیح بخاری یا مسلم کے راوی نہیں ہیں اور اگر یہ مراد لیا جائے کہ اس کے راوی بخاری و مسلم کے راویوں کی طرح ثقہ ہیں، سند متصل ہے اور شاذ یا معلول نہیں تو یہ بات بالکل صحیح ہے۔ مستدرک کے مطالعہ سے بھی یہی ثابت ہوتا ہے کہ امام حاکم صحیح بخاری و مسلم کے راویوں یا ان جیسے ثقہ راویوں کی غیرمعلول روایت کوصحیح علیٰ شرط الشیخین أو علی أحدھما کہہ دیتے ہیں اور حافظ ذہبی ان کی موافقت کرتے ہیں جیسا کہ حاکم فرماتے ہیں:
’’وأنا اَستعین اﷲ علیٰ إخراج أحادیث رواتھا ثقات قد احتج بمثلھا الشیخان رضي اﷲ عنھما أو أحدھما‘‘(المستدرک:ج۱؍ ص۳) یعنی’’میں اللہ کی مدد مانگتا ہوں ان احادیث کی روایت کے لیے جن کے راوی ثقہ ہیں۔بخاری ومسلم یا صرف بخاری یا صرف مسلم نے ان راویوں جیسے راویوں سے حجت پکڑی ہے۔‘‘
اس عبارت سے بھی دوسری بات کی تائید ہوتی ہے اور یہی راجح ہے۔ لہٰذا علیٰ شرط الشیخین وغیرہ عبارات سے بعض محققین عصر کا حاکم و ذہبی کے بارے میں پروپیگنڈہ کرنا صحیح نہیں ہے، مزید تفصیل آگے آرہی ہے۔ ان شاء اللہ
یاد رہے کہ اَوہام اس سے مستثنیٰ ہیں۔
 

کلیم حیدر

ناظم خاص
رکن انتظامیہ
شمولیت
فروری 14، 2011
پیغامات
9,748
ری ایکشن اسکور
26,379
پوائنٹ
995
اِس لشکر کے اُمرا کون کون تھے؟
سنن ابو داود کی اس صحیح حدیث سے معلوم ہواکہ اس لشکر میں مصریوں کے امیر سیدنا عقبہ بن عامر اور شامیوں کے امیر سیدنا فضالہ بن عبید تھے جبکہ پورے لشکر کے امیر سیدنا عبدالرحمن بن خالد بن الولید تھے۔ حیوہ بن شریح کے سارے شاگرد اہل مصر کا امیر عقبہ بن عامر کو قرار دیتے ہیں اور یہی بات لیث بن سعد اور ابن لہیعہ کی روایت عن یزید بن ابی حبیب میں ہے۔ کما تقدّم لہٰذا یہ بات اِجماعی واتفاقی ہے۔
حیوہ کے دونوں شاگرد عبداللہ بن یزید المقرئ اور عبداللہ بن المبارک بالاتفاق یہ بیان کرتے ہیں کہ اہل شام کے امیر فضالہ بن عبید تھے۔ یہی بات لیث بن سعد و ابن لہیعہ کی روایت میں ہے۔لیث بن سعد اور ابن لہیعہ کی روایت میں بھی اہل شام کا امیر فضالہ بن عبید کو قرار دیا گیا ہے۔
البتہ ضحاک بن مخلد کے شاگردوں میں اس بابت اختلاف ہے۔ عبد بن حمید کی روایت میں: وعلی الجماعة فضالة بن عبید کے الفاظ ہیں۔ (سنن ترمذی) جبکہ عمرو بن ضحاک اور عبید اللہ بن سعید کی روایتوں میں اس کا تذکرہ نہیں ہے۔ اس تفصیل سے معلوم ہوا کہ ضحاک بن مخلد کی روایت ابن المبارک وغیرہ کی مخالفت اور اپنے شاگردوں کے اختلاف کی وجہ سے شاذ و مردود ہے۔
 

کلیم حیدر

ناظم خاص
رکن انتظامیہ
شمولیت
فروری 14، 2011
پیغامات
9,748
ری ایکشن اسکور
26,379
پوائنٹ
995
اگر یہ صحیح بھی ہوتی تو اس کا مطلب یہ تھا کہ قسطنطنیہ پر بہت سے حملے ہوئے ہیں۔ بعض میں امیر لشکرعبدالرحمن بن خالد بن ولید تھے، بعض میں فضالہ بن عبید اور بعض میں یزید بن معاویہ اور بعض میں کوئی اور؛ لہٰذا جامع ترمذی کی روایت سے بھی پروفیسر صاحب کا یہ دعویٰ ہرگز ثابت نہیں ہوتا کہ قسطنطنیہ پر صرف اور صرف ایک ہی حملہ ہوا ہے اور اس حملہ میں یزیدبھی موجود تھا۔ یاد رہے کہ سنن ابو داؤد کی ایک دوسری روایت (کتاب الجہاد، باب ۱۲۹ فی قتل الاسیر بالنبل حدیث: ۲۶۸۷)سے بھی عبدالرحمن بن خالد بن ولید اور سیدنا ابوایوب کا مل کر جہاد کرنا ثابت ہوتاہے جیسا کہ آگے آرہا ہے۔
 

کلیم حیدر

ناظم خاص
رکن انتظامیہ
شمولیت
فروری 14، 2011
پیغامات
9,748
ری ایکشن اسکور
26,379
پوائنٹ
995
سنن ترمذی کی روایت میں وعلی الجماعة فضالة بن عبید کے جو اَلفاظ آئے ہیں، ان کا وہم ہونا کئی وجوہ سے ثابت ہے :
1۔حیوہ بن شریح کے تمام شاگرد وعلی أھل الشام فضالة بن عبید کے الفاظ روایت کررہے ہیں۔
2۔یہ الفاظ سنن ترمذی کے علاوہ دوسری کسی کتاب میں نہیں ہیں۔
3۔محققین نے ترمذی کی روایت کے وہم کی طرف اشارہ کیا ہے۔
’’ محققین سے مراد سید حلیمی اور صبری شافعی ہیں۔ یہ وہی محققین ہیں جن کا حوالہ پروفیسر محمد شریف نے دیاہے۔ ہفت روزہ اہل حدیث لاہور: ج۲۹؍ شمارہ ۱۹، ص۱۰ کالم نمبر ۱ اور آگے جاکر اسی صفحہ پرکالم نمبر۲ پر لکھتے ہیں: ’’حافظ زبیر صاحب نے جو تفسیر نسائی کے حاشیہ کا حوالہ دیا، یہ ایک مبہم حوالہ ہے، محشی کون ہے؟ اس نے یہ الفاظ کہاں سے لئے؟‘‘سبحان اﷲ!
 

کلیم حیدر

ناظم خاص
رکن انتظامیہ
شمولیت
فروری 14، 2011
پیغامات
9,748
ری ایکشن اسکور
26,379
پوائنٹ
995
خلیل احمد سہارنپوری دیوبندی لکھتے ہیں:
’’فظھر بھذہ الروایات أن عبدالرحمٰن بن خالد کان أمیرًا علی الجمیع‘‘ (بذل المجہود: ج۱۱؍ ص۴۳۵)
یعنی ’’ان روایات سے ظاہر ہوا کہ سیدنا عبدالرحمن بن خالد تمام لشکر پرامیر تھے۔‘‘
تاریخ سے بھی معلوم ہوتا ہے کہ قسطنطنیہ پر کئی حملے ہوئے ہیں۔ جیسا کہ حافظ ابن کثیر لکھتے ہیں کہ سیدنا معاویہؓ نے رومیوں کی زمین پر سولہ مرتبہ فوج کشی کی۔ (البدایہ : ج۸؍ ص۳۳ ۱) ایک لشکر سردیوں (شواتی) میں اور دوسرا گرمیوں (صوائف) میں حملہ آور ہوتا۔(ایضاً: ص ۱۲۷)
 

کلیم حیدر

ناظم خاص
رکن انتظامیہ
شمولیت
فروری 14، 2011
پیغامات
9,748
ری ایکشن اسکور
26,379
پوائنٹ
995
دیگر کتب ِحدیث میں عبد الرحمن بن خالد کی زیر امارت حملہ قسطنطنیہ کا تذکرہ
بعض لوگوں نے یہ اعتراض کیا ہے کہ سنن ابو داؤد کے علاوہ عبدالرحمن بن خالدبن الولید کے تمام لشکر پر سپہ سالار ہونے کا ثبوت کسی بھی دوسری کتاب میں نہیں ملتا۔ اس کا جواب دیتے ہوئے اُستاذ موصوف فرماتے ہیں کہ
’’درج ذیل کتابوں میں بھی صحیح سند کے ساتھ اس حملہ آور فوج کاقائد عبدالرحمن بن خالد بن الولید ہی مذکور ہے:
1۔جامع البیان فی تفسیر القرآن، المعروف بہ تفسیر طبری (ج۲؍ص۱۱۸،۱۱۹)
2۔ تفسیر ابن ابی حاتم الرازی (ج۱؍ ص۳۳۰،۳۳۱)
3۔احکام القرآن از جصاص (ج۱؍ ص۳۲۶،۳۲۷)
4۔مستدرک حاکم (ج۲؍ ص۸۴،۸۵) اسے حاکم اور ذہبی دونوں نے بخاری و مسلم کی شرط پرصحیح کہا ہے۔‘‘(مقالاتِ حافظ زبیر علی زئی:ص۳۰۷ تا۳۱۱)
مستدرک حاکم کی روایت جو اسی سند سے ذکر ہوئی ہے، اس میں وضاحت ہے کہ اہل مصر کے امیر عقبہ بن عامر جہنی اور اہل شام کے امیر فضالہ بن عبید انصاری تھے جس سے واضح ہوتا ہے کہ صحابہ کرام اور تابعین کی کثیر تعداد جہادِ قسطنطنیہ میں شریک تھی اور یہ حملے یزید بن معاویہ کے حملے سے بہت پہلے کئے گئے تھے۔ فضالہ بن عبیدانصاری کی ایک روایت صحیح مسلم (رقم : ۹۶۸ ) میں بھی ہے جس میں ان کی ارضِ روم کے جزیرہ رُودس میں جہادی مہم کا ذکر موجود ہے جس سے فضالہ کے ۵۱ ہجری میں شام پر امیر ہونے کی مزید تصریح ہوتی ہے اور فضالہ کی وفات ۵۳ھ میں ہوئی۔
 

کلیم حیدر

ناظم خاص
رکن انتظامیہ
شمولیت
فروری 14، 2011
پیغامات
9,748
ری ایکشن اسکور
26,379
پوائنٹ
995
سنن ابو داود کی دوسری حدیث
ایسے ہی سنن ابوداؤد کی ایک دوسری روایت سے بھی ثابت ہے کہ عبدالرحمن بن خالد بن الولیدؓ کے ساتھ ابوایوب انصاریؓ اس غزوہ میں شریک تھے اور عبدالرحمن پوری جماعت پر امیر تھے۔ پوری حدیث کے الفاظ حسب ِذیل ہیں:
عن ابن تِعْلی قال: غزونا مع عبد الرحمٰن بن خالد بن الولید فأتي بأربعة أعلاج من العدو فأمر بہم بہم فقتلوا صبرًا۔ قال أبو داود قال لنا غیر سعید عن ابن وہب في ہذا الحدیث قال بالنبل صبرا فبلغ ذلک أبا أیوب الأنصاري فقال سمعت رسول اﷲ ﷺ ینہیٰ عن قتل الصبر ۔۔۔ الحدیث (سنن ابو داؤد: کتاب الجہاد: باب ۱۲۹، فی قتل الاسیر بالنبل:۲۶۸۷)
’’سیدنا عبیدبن تعلی بیان کرتے ہیں کہ ہم سیدناعبدالرحمن بن خالد بن الولید کے ساتھ جہاد میں شریک تھے۔ (اسی مہم میں) ان کے سامنے دشمن کے چار شخص پیش کئے گئے جن کے قتل کرنے کا اُنہوں نے حکم دیا اور تعمیل حکم میں ان کو باندھ کر قتل کردیا گیا۔‘‘
امام ابوداؤد فرماتے ہیں کہ
’’ہم سے ہمارے استاذامام سعید بن منصور کے علاوہ ایک دوسرے صاحب نے ابن وہب سے اس حدیث کو یوں نقل کیا کہ ان چاروں کوباندھ کر تیروں کا ہدف بنایا۔ جب اس بات کی خبر سیدنا ابوایوبؓ انصاری کو ہوئی تو انہوں نے فرمایا کہ میں نے رسول اللہﷺ سے سنا ہے کہ اُنہوں نے اس طرح ہاتھ باندھ کر قتل کرنے سے منع فرمایا ہے۔ بس قسم ہے اس ذات کی کہ جس کے ہاتھ میں میری جان ہے، اگر کوئی مرغی بھی ہو تو میں اس کا باندھ کر نشانہ نہ لوں۔ جب یہ بات سیدنا عبدالرحمن بن خالد بن الولید کو پہنچی تو انہوں نے اس کے کفارے میں چار غلام آزاد کئے۔‘‘
یہ حدیث سنن ابوداؤد کے علاوہ سنن سعید بن منصور۶۶۷، مسنداحمد:۵؍۴۲۲، طبرانی:۴؍ ۵۹؍ ۴۰۰۲،السنن الکبریٰ:۹؍۷۱، الدارمی:۱۹۷۴، صحیح ابن حبان: ۸؍۴۵۰، ۵۵۸۰۱،الطحاوی: ۳؍۱۸۲، والشاشی:۱۱۶۰۔۱۱۶۱، مصنف ابن ابی شیبہ:۵؍۳۹۸ وغیرہ میں بھی موجود ہے۔ تفصیل کے لیے ملاحظہ فرمائیں: الموسوعة الحديثية مسند احمد:۳۸؍۵۶۱، امام ابوداؤد نے دوسرے اُستاد سے جو کچھ روایت کیا ہے، یہی کچھ امام سعید بن منصور بھی بیان کرتے ہیں۔ (السنن سعیدبن منصور:۲۶۶۷)
سنن ابوداؤد کی مذکورہ بالا حدیث کی سند ملاحظہ فرمائیں :
حدثنا سعید بن منصور قال حدثنا عبد اﷲ بن وہب قال أخبرني عمرو بن الحارث عن بکیر بن عبد اﷲ بن الأشج عن ابن تِعْلیٰ
نیز دیکھئے: سنن سعید بن منصور:
 

کلیم حیدر

ناظم خاص
رکن انتظامیہ
شمولیت
فروری 14، 2011
پیغامات
9,748
ری ایکشن اسکور
26,379
پوائنٹ
995
امام احمد بن حنبل نے اس حدیث کو شریح بن نعمان کے واسطے سے ابن وہب سے اس طرح بیان کیا ہے۔اس واقعہ کوبیان کرنے والے عبید بن تعلی طائی فلسطینی ہیں اور ان کے متعلق حافظ ابن حجر عسقلانی فرماتے ہیں کہ وہ صدوق من الثالثہ ہیں۔ (التقریب:۷۹۰۶ ) اور دوسرے مقام پر فرماتے ہیں:امام نسائی نے اُنہیں ثقہ کہا اور ابن حبان نے اُنہیں الثقات میں ذکر کیاہے۔ امام ابن مدینیؒ نے یہ اعتراض کیا ہے کہ جس نے اس سند میں سے بکیرکے والد کا واسطہ گرایا ہے، وہ محمد بن اسحق ہیں اور یہ روایت منقطع ہے اور کہا کہ یہ اسناد حسن ہے سوائے اس کے کہ عبید بن تعلی نے احادیث کی سماعت نہیں کررکھی ہے اور ان کی روایت کو بکیر بن اشج کی ان سے روایت نے مضبوط کردیا کہ وہ صاحب ِحدیث ہیں اور ہم اس سے ابوایوب انصاری کی اس حدیث کے علاوہ کوئی حدیث نہیں جانتے اور عبدالحمید بن جعفر نے اس روایت کوسند سے بیان کیاہے اور اسے عمدہ قرار دیا۔ (التہذیب:۷؍۶۱)
محدثین نے اس حدیث کو دوسندوں سے بیان کیاہے: ایک سند میں بکیر بن اشج اور ابن تعلی کے درمیان عن أبیہ کا واسطہ ہے اور دوسری سندوں میں یہ واسطہ نہیں ہے۔امام سعید بن منصور، امام احمد بن حنبل اور ابن حبان وغیرہ۔ ابن وہب کے واسطے سے عن ابیہ کاذکرنہیں کیا ہے۔ نیز امام محمد بن اسحق نے اس روایت کو دونوں طرح سے روایت کیا ہے۔ لہٰذا یہ روایت عن بکیر عن ابن تعلی بھی درست ہے کیونکہ بکیر بعض صحابہ کرام سے بھی حدیث کے راوی ہیں لہٰذا ابن تعلی سے ان کا سماع ناممکن نہیں ہے بلکہ اُنہوں نے ابن تعلی سے اس حدیث کاسماع کیا ہے چنانچہ ابن حبان میں یہ الفاظ موجود ہیں:عن بکیر بن الأشج عن عبید بن تعلی سمعہ یقول سمعت أبا أیوب الأنصاري(۵۵۸۰)
جس سے ثابت ہوا کہ یہ سند صحیح و متصل ہے۔یہی وجہ ہے کہ شیخ شعیب ارناؤط نے صحیح ابن حبان کی تحقیق میں اس روایت کو صحیح قرار دیا ہے۔ نیز حافظ ابن حجر عسقلانی نے بھی اس روایت کو صحیح قرار دیا ہے کیونکہ دوسرے محدثین بھی اسے بغیر واسطے کے روایت کرتے ہیں، لہٰذا یہ روایت منقطع نہیں ہے۔
 
Top