• الحمدللہ محدث فورم کو نئےسافٹ ویئر زین فورو 2.1.7 پر کامیابی سے منتقل کر لیا گیا ہے۔ شکایات و مسائل درج کروانے کے لئے یہاں کلک کریں۔
  • آئیے! مجلس التحقیق الاسلامی کے زیر اہتمام جاری عظیم الشان دعوتی واصلاحی ویب سائٹس کے ساتھ ماہانہ تعاون کریں اور انٹر نیٹ کے میدان میں اسلام کے عالمگیر پیغام کو عام کرنے میں محدث ٹیم کے دست وبازو بنیں ۔تفصیلات جاننے کے لئے یہاں کلک کریں۔

کیا یزید بن معاویہ سنت کو بدلنے والے تھے؟

سٹیٹس
مزید جوابات پوسٹ نہیں کیے جا سکتے ہیں۔

کفایت اللہ

عام رکن
شمولیت
مارچ 14، 2011
پیغامات
4,999
ری ایکشن اسکور
9,800
پوائنٹ
722
امام بخاری رحمہ اللہ کے اقوال کی مزیدمثالیں


اسی طرح امام بخاری رحمہ اللہ بہت سے رواۃ کو منکرالحدیث اور بہت سے رواۃ کو معروف الحدیث کہتے ہیں مثلا:
الوَلِيد بْن عُتبَةَ، الدِّمَشقِيُّ.روى عَنْ مُعاوية بْن صالح، مَعروفُ الحديثِ[التاريخ الكبير للبخاري: 8/ 150]۔
إبراهيم أبو إسحاق عن بن جريج سمع منه وكيع معروف الحديث [التاريخ الكبير للبخاري 1/ 273]

تو کیا یہ کہہ دیاجائے کہ امام بخاری رحمہ اللہ کا یہ قول بے سندہے؟؟؟

اسی طرح امام بخاری رحمہ اللہ نے ابوبردہ کے نام کی وضاحت کرتے ہوئے کہا:
الحارث بن عمرو ويقال له أبو بردة خال البراء ويقال عم البراء بن عازب وخال أصح والمعروف اسم أبي بردة هانئ بن نيار [التاريخ الكبير للبخاري 2/ 259]۔

تو کیا یہ کہہ دیاجائے کہ امام بخاری رحمہ اللہ کا یہ قول بے سندہے؟؟؟

اسی طرح امام بخاری رحمہ اللہ نے عبدالعزیز سے یزید کے عدم سماع کے بارے میں کہتے ہیں:
ويزيد هذا غير معروف سماعه من عبد العزيز [التاريخ الصغير للبخاري: 2/ 65]۔

تو کیا یہ کہہ دیاجائے کہ امام بخاری رحمہ اللہ کا یہ قول بے سندہے؟؟؟

یادرہے کہ اسی طرح اقوال دیگرائمہ سے بھی ملتے ہیں۔

الغرض یہ کہ امام بخاری رحمہ اللہ نے ایک خاص مقام پر دوصحابہ کی عدم ملاقات کی جو بات کہی ہے تو اس بات کا تعلق محدثین وناقدین کے فن سے ہیں ، محدثین وناقدین کو یہ اتھارٹی حاصل ہے کہ وہ کسی دو رواۃ کے مابین عدم سماع یا عدم معاصرت یا عدم لقاء کی صراحت کریں اور محدثین کے اس طرح کے اقوال کی بنیاد محدثین کی فنی مہارت ہوتی ہے لہٰذا محدثین اپنے فن کی بات کہیں تو یہ حجت ہے یہاں محدثین سے سند کا مطالبہ مردود ہے ۔

اسی طرح ناقدین جب اپنے دور سے قبل کے رواۃ کی تاریخ پیدائش یا تاریخ وفات بتلائیں یعنی یہ بتلائیں کہ یہ فلاں کی شخص کے موت کے بعد پیدا ہوا یہ فلان کے پیدا ہونے سے پہلے فوت ہوگیا ، یا طبقہ بتلائیں تو یہ حجت ہے کیونکہ ناقدین کا یہ فیصلہ ان کے فن کا ہے ، ایسے اقوال میں یہ مطالبہ کہ فلاں راوی کی تاریخ وفات یا تاریخ پیدائش یا طبقہ کی سندصحیح بھی بتلائیں تو یہ مطالبہ ہی مردود ہے ، ورنہ ہم بھی حافظ موصوف سے مطالبہ کرتے ہیں کہ آں جناب نے جہاں جہاں بھی سند کے انقطاع پر ناقدین کے حوالے سے تاریخ وفات یا تاریخ پیدائش کے اقوال پیش کئے ہیں ان اقوال کی سند صحیح پیش کرنے کیے ساتھ ساتھ اقوال میں میں جوبات ہے اس کی بھی سند صحیح پیش کریں !!

اوراگراس طرح کے اقوال میں براہ راست ناقدین سے سند کا مطالبہ درست ہے توہمارا دعوی ہے کہ عام کتب احادیث تو دور کی بات سنن اربعہ کی کوئی ایک حدیث بھی صحیح یاضعیف ثابت نہیں کی جاسکتی ۔
کیونکہ رواۃ کے تعارف میں ناقدین کے جواقوال پیش کئے جائیں گے تو یہاں دو طرح کی سند کا مطالبہ کیا جائے گا:

  • اول: ناقدکا جوفیصلہ ہے وہ اس کی کتاب سے یاکسی اورکتاب سے بسند صحیح پیش کیاجائے۔
  • دوم: ناقد کے اپنے فیصلہ میں جو بات ہے مثلا یہ کہ فلاں کذاب ہے یافلاں کی فلاں سے ملاقات نہیں اور یہ فلاں ناقد کے زمانہ کا نہ ہو یا ہو بھی تو کذاب کہنے کی بھی دلیل ، اسی طرح عدم لقاء یا عدم سماع کی بھی دلیل وغیرہ وغیرہ جیسی تمام باتوں کی بھی سند صحیح بھی پیش کرنی ہوگی ۔


میرے خیال سے اس اصول کے تحت دیگر کتب تو دور کی بات سنن اربعہ ہی سے کسی ایک بھی حدیث کو صحیح یا ضعیف ثابت کرنا ناممکن ہے اور اگرممکن ہے تو ہمیں صرف ایک حدیث کی تحقیق ناقدین سے بسند صحیح ثابت اقوال نیز ناقدین کے اقوال میں جوبات ہے اس کی بھی سندصحیح پیش کرکے دکھلایاجائے۔۔۔۔۔۔۔بارک اللہ فیکم۔



جاری ہے۔۔۔۔۔
 

کفایت اللہ

عام رکن
شمولیت
مارچ 14، 2011
پیغامات
4,999
ری ایکشن اسکور
9,800
پوائنٹ
722
زیرِ بحث روایت کا کوئی راوی ضعیف و کذاب نہیں ہے۔
ہم نے کب کہا کہ زیربحث روایت کا کوئی راوی ضعیف یا کذاب ہے ؟ لیکن کیا سند کے تمام رواۃ کا ثقہ ہونا سند کی صحت کے لئے کافی ہے؟؟؟؟؟؟
اگرکافی ہے تو خود حافظ موصوف نے یزیدبن خصیفہ کےطریق سے مروی بیس رکعات تراویح والی روایت کو ضعیف کیوں کہا ؟؟ کیا اس سند میں کوئی ضعیف یا کذاب راوی ہے؟؟
اسی طرح رفع الیدین کے مسئلہ میں معانی الآثار للطحاوی کی حصین عن مجاہد والی روایت جو ابن عمررضی اللہ عنہ کے صرف ایک بار رفع الیدین کرنے سے متعلق ہے اسے ضعیف کیوں کہا گیا؟؟ کیا اس میں کوئی ضعیف یا کذاب راوی ہے ؟؟

ایک لازمی مطالبہ:
أَخْبَرَنَا أَبُو الْفَضْلِ مُحَمَّدُ بْنُ طَاهِرِ بْنِ عَلِيٍّ الْحَافِظُ، أَخْبَرَنَا أَحْمَدُ بْنُ مُحَمَّدِ بْنِ أَحْمَدَ، قَالَ: حَدَّثَنَا عِيسَى بْنُ عَلِيِّ بْنِ عَلِيِّ بْنِ عِيسَى، إِمْلَاءً، قَالَ: حَدَّثَنَا أَبُو الْقَاسِمِ عَبْدُ اللَّهِ بْنُ مُحَمَّدِ بْنِ عَبْدِ الْعَزِيزِ الْبَغَوِيُّ، قَالَ: حَدَّثَنَا أَبُو بَكْرِ بْنُ أَبِي شَيْبَةَ، قَالَ: حَدَّثَنَا عَفَّانُ، عَنْ سَلِيمِ بْنِ حَيَّانَ، عَنْ سَعِيدِ بْنِ مِينَا، عَنْ جَابِرِ بْنِ عَبْدِ اللَّهِ الْأَنْصَارِيِّ وَعَبْدِ اللَّهِ بْنِ عَبَّاسٍ، أَنَّهُمَا قَالَا: «وُلِدَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ يَوْمَ الْفِيلِ، يَوْمَ الِاثْنَيْنِ، الثَّانِي عَشَرَ مِنْ شَهْرِ رَبِيعٍ الْأَوَّلِ، وَفِيهِ بُعِثَ، وَفِيهِ عَرَجَ إِلَى السَّمَاءِ، وَفِيهِ هَاجَرَ، وَفِيهِ مَاتَ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ»[الأباطيل والمناكير للجورقاني: 1/ 267]۔

اس روایت میں ہے کہ 12 ربیع الاول ہی کو اللہ کے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی پیدائش ہوئی اور 12 ربیع الاول ہی کو اللہ کے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی وفات ہوئی اور 12 ربیع الاول ہی کو آپ کی بعثت ہوئی اور 12 ربیع الاول ہی کو آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو معراج کرائی گئی اور 12 ربیع الاول ہی کو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے ہجرت کی ۔

اس روایت کی استنادی حالت واضح کردیں اوربتائیں کہ اس میں کوئی ضعیف یا کذاب راوی ہے کیا ؟؟؟ جزاکم اللہ خیرا۔


ہم نے زیربحث روایت کو مردو قرار دیا تو اس لئے نہیں کہ اس کی سند میں کوئی ضعیف یا کذاب راوی ہے بلکہ اس لئے کہ اس کی سند منقطع ہے ، اور عبدالوھاب والی سند منکر ہے کیونکہ عبدالوھاب پر جرح ہوئی ہے اور اس نے دیگرثقہ رواۃ کے خلاف اس حدیث کو موصول بیان کردیا، اسی طرح ہم نے امام بخاری رحمہ اللہ کے قول کو بھی بنیاد بنیایا ہے اور امام بخاری رحمہ اللہ کا کیا مقام ہے یہ بتانے کی ضرورت نہیں ہے۔

فائدہ:
ہم نے زیربحث حدیث کے کسی راوی کو ضعیف یا کذاب تو نہیں کہا بلکہ عبدالوھاب کے بارے میں یہ کہا ہے کہ اس سے حدیث کو موصول بیان کرنے میں غلطی ہوئی لیکن اگر کوئی اس بات کوتسلیم نہ کرے تو اس کے اصول سے اس روایت کی سند میں موجود ابو مسلم کا کذاب ہونا ثابت ہوتا کیونکہ یہ یہ روایت ابومسلم ہی کی بیان کردہ ہے اور یہ بے چارہ جس جگہ دو صحابہ کی ملاقات دکھلا رہا ہے وہاں پر امام بخاری رحمہ اللہ کی تصریح کے مطابق ان دونوں صحابہ کی ملاقات قطعا نہیں ہوسکتی ، لہٰذا عبدالوھاب کے بیان کو درست مان لیا جائے تو امام بخاری رحمہ اللہ کی تصریح کی روشنی میں ابومسلم کا کذاب ودجال ہوناثابت ہوتاہے ۔
ہمارے نزدیک راجح بات یہی ہے کہ زیربحث روایت کی سند سے ایک راوی ساقط ہے اور یہ نامعلوم ہے اس نے امام بخاری رحمہ اللہ کے قول کی روشنی میں ناممکن بات بیان کی ہے لہٰذا یہ روایت موضوع ومن گھڑت ہے اسی کسی دجال و کذاب سبائی نے گھڑا ہے ۔

یاد رہے کہ عدم سماع و عدم لقاء کی صراحت کرنے میں نقاد محدثین کو اتھارٹی حاصل ہوتی ہے اور ان کا قول حجت ہوتا ہے اور امام بخاری رحمہ اللہ کا نقد وعلل میں کیا مقام تھا یہ بتانے کی ضرورت نہیں ۔



جاری ہے۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
 

کفایت اللہ

عام رکن
شمولیت
مارچ 14، 2011
پیغامات
4,999
ری ایکشن اسکور
9,800
پوائنٹ
722

نیز شیخ البانی نے بھی اس متن کی اایک روایت کو صحیح قرار دیا ہے:
۔ " أول من يغير سنتي رجل من بني أمية ".
أخرجه ابن أبي عاصم في " الأوائل " (7 / 2) : حدثنا عبيد الله بن معاذ حدثنا أبي حدثنا عوف عن المهاجر أبي مخلد عن أبي العالية عن أبي ذر أنه قال ليزيد ابن أبي سفيان: سمعت رسول الله صلى الله عليه وسلم، فذكره. قلت: وهذا إسناد حسن، رجاله ثقات رجال الشيخين غير المهاجر وهو ابن مخلد أبو مخلد، قال ابن معين: " صالح ". وذكره ابن حبان في " الثقات ". وقال الساجي: " صدوق ". وقال أبو حاتم: " لين الحديث ليس بذاك وليس بالمتقن، يكتب حديثه ".
قلت: فمثله لا ينزل حديثه عن مرتبة الحسن. والله أعلم. ولعل المراد بالحديث تغيير نظام اختيار الخليفة، وجعله وراثة. والله أعلم. ( سلسلۃ الاحادیث الصحیحۃ ح:۱۷۴۹) ۲۔ "أول من يبدل سنتي رجل من بني أمية". "حسن". "ع" عن أبي ذر. الصحيحة 1749: ابن أبي عاصم. (صحیح الجامع:۲۵۲۸)

اولا:
شیخ البانی رحمہ اللہ عصرحاضر کے محدث ہیں اور ان کے فیصلہ کے برخلاف متقدمین محدثین نے بالاتفاق اس روایت کومردود قرار دیاہے، متقدمین کے متفقہ فیصلہ کے ہوتے ہوئے متاخرین کی بات کون سنے گا؟؟

ثانیا:
  • شیخ البانی رحمہ اللہ نے جس روایت کو صحیح کہا ہے اس کا متن زیربحث روایت سے بہت مختلف ہے۔
  • شیخ البانی کی تصحیح کردہ روایت میں یزیدبن ابی سفیان رضی اللہ عنہ پر گھناؤنا الزام نہیں ہے۔
  • شیخ البانی رحمہ اللہ کی تصحیح کردہ روایت میں سنت بدلنے والے شخص کا نام مذکور نہیں ۔

اتنے فرق ہونے کے باوجود بھی یہ کہنا محل نظرہے کہ :
نیز شیخ البانی نے بھی اس متن کی اایک روایت کو صحیح قرار دیا ہے

ثالثا:
شیخ البانی رحمہ اللہ کی تصحیح کردہ سند عبدالوھاب والی نہیں ہے ، یہ سند صریحا منقطع ہے کیونکہ اس میں ابومسلم اور ابوذر رضی اللہ عنہ کے مابین کسی واسطے کاذکر نہیں ،اور ابوذر رضی اللہ عنہ سے ابومسلم کے سماع کا کوئی ثبوت قطعا نہیں ، ناقدین محدثین نے واضح طور پر یہاں انقطاع کی صراحت کی ہے ۔


رابعا:

یہ روایت ابن ابی عاصم میں مختصر ہے اور ابن عساکر میں مفصل ہے اور اس کی روشنی میں یہ روایت ابوذر رضی اللہ عنہ نے اسی جگہ بیان کی ہے جہاں امام بخاری کے کے بقول ابوذر رضی اللہ عنہ بیان ہی نہیں کرسکتے لہٰذا یہ روایت موضوع ومن گھڑت ہے ۔

جاری ہے۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
 

کفایت اللہ

عام رکن
شمولیت
مارچ 14، 2011
پیغامات
4,999
ری ایکشن اسکور
9,800
پوائنٹ
722
اس کے علاوہ کیا یہ اصول حدیث کا مسئلہ ہے کہ متن کی نکارت کی بنا پر بھی روایت موضوع ہو جاتی ہے جبکہ اس میں کوئی کذاب راوی نہ ہو؟

ہم بھی سوال کرسکتے ہیں کہ کیا یہ اصول حدیث کا مسئلہ ہے کہ کسی روایت کی سند میں کذاب راوی ہو تو اس روایت کوموضوع کہتے ہیں ، اگر ایسا ہے تو ہمیں اصول حدیث کی کتب میں یہ مسئلہ دکھایا جائے اوربتایاجائے کہ کس کس محدث نے موضوع حدیث کی یہ تعریف کی ہے کہ جس حدیث میں کذاب راوی ہواسے موضوع کہتے ہیں؟؟؟؟؟؟؟
ہمارے علم کی حدتک تو اصول حدیث کی کسی بھی کتاب میں موضوع حدیث کی یہ تعریف نہیں ملتی کہ موضوع حدیث وہ ہے جس کی سند میں کوئی کذاب راوی ہو ۔
ہاں یہ بات ضرور ہے کہ محدثین کا یہ طرزعمل ہے کہ وہ ایسی احادیث کو موضوع قراردیتے ہیں جن کی اسناد میں کذاب راوی ہو ، اورٹھیک اسی طرح محدثین ایسی روایات کو بھی موضوع و باطل قرار دیتے ہیں جس کی سند ضعیف ہو اور متن میں ناممکن بات ہو اور اس کے لئے میں نے پہلے ہی ابن الجوزی اور حافظ ابن الحجر رحمہ اللہ کا حوالہ دیا ہے کہ ان حضرات نے ترمذی کی ایک ایسی حدیث کو موضوع کہا ہے کہ جس کے سارے راوی نہ صرف ثقہ ہیں بلکہ بخاری ومسلم کے راوی ہیں اورعلامہ البانی رحمہ اللہ نے بھی اسے موضوع قراردیاہے۔
اسی طرح ابن تیمیہ رحمہ اللہ نے بھی متعدد ضعیف السند احادیث کے متن کو دیکھتے ہوئے اسے موضوع کہا ہے ۔
الغرض یہ کہ محدثین کاجس طرح یہ طرزعمل ملتاہے کہ وہ کذاب راوی سے مروی روایت کو موضوع کہتے ہیں اسی طرح محدثین کا یہ بھی طرزعمل رہا ہے کہ وہ ضعیف رواۃ کے ذریعہ منقول شدید نکارت یا ناممکن باتوں پرمشتمل روایت کو بھی موضوع قرار دیتے ۔



جاری ہے۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
 

کفایت اللہ

عام رکن
شمولیت
مارچ 14، 2011
پیغامات
4,999
ری ایکشن اسکور
9,800
پوائنٹ
722
خلاصہ


ہم اب بھی اپنے موقف پر اللہ کے فضل وکرم سے پوری طرح مطمئن ہیں بلکہ اپنے دلائل کا معقول جواب نہ پاکر ہمیں اپنے موقف کی صحت پر پہلے سے بھی زیادہ یقین کامل ہوگیاہے والحمدللہ ۔
ہم زیربحث روایت کو مردود وباطل اور موضوع ومن گھرٹ سمجھتے ہیں، تمام طرق سامنے رکھنے کے بعد زیر بحث روایت کی سند کا ضعف واضح ہوجاتا ہے اورامام بخاری رحمہ اللہ کی تصریح کے مطابق اس روایت کا جس جگہ بیان ہونا بتایاگیا ہے اس جگہ اس روایت کا بیان کیا جانا ناممکن ہے اس لئے یہ روایت موضوع ومن گھڑت ہے اس کے ساتھ جب ہم اس من گھڑت روایت کے مشمولات کو دیکھتے ہیں تو جلیل القدر صحابی رسول یزید ابی سفیان رضی اللہ عنہ پر حسن پرستی اور اس کی خاطر کسی اور کے حصہ کی لونڈی غضب کرنے کا جھوٹا الزام لگایا گیا ہے اور ساتھ میں یزیدبن معاویہ رحمہ اللہ کو بھی مطعون کیا گیا ہے اس لئے یہ روایت کسی سبائی ذہن کی تراشیدہ معلوم ہوتی ہے ، اورسبائی درندوں کا کام ہی ہے امت مسلمہ کے بیچ فتنہ برپا کرنا اورانہیں ایک دوسرے سے لڑانا اور صحابہ کے خلاف جھوٹے پروپیگنڈے کرنا ۔
اللہ تبارک وتعالی ہم سب کو سبائی سازش سے بچائے آمین یا رب العالمین۔

واضح رہے کہ ہم حافظ زبیرعلی زئی حفظہ اللہ کی طرف سے اس روایت کی تحسین کو آں موصوف کی اجتہادی خطاء سمجھتے اوراس معاملہ میں ان سے اختلاف کے باوجود ان کا احترام کرتے ہیں ، لیکن اس روایت کے اندر جوباتیں ہیں ہم ان کا احترام کسی بھی صورت میں نہیں کرسکتے ہیں کیونکہ ہمارے نزدیک روز روشن کی طرح اس روایت کا کذب ودجل واضح ہے، اور ہمیں پورا یقین ہے اس مکذوب روایت میں جس چیز کو فرمان رسول کہا گیا ہے وہ فرمان رسول نہیں بلکہ کسی سبائی شیطان کی من گھڑت خرافات ہے ۔
اس کے برخلاف حافظ موصوف چونکہ اسے صحیح حدیث باور کرتے ہیں اس لئے آں موصوف اور ان کے موافقین اس روایت کا احترام کریں اور اس میں جس بات کو اللہ کے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی طرف منسوب کیا ہے اسے حدیث رسول سمجھیں تو ہمیں اس سے کوئی شکوہ نہیں ۔

تمت
 

ابن بشیر الحسینوی

رکن مجلس شوریٰ
رکن انتظامیہ
شمولیت
اپریل 14، 2011
پیغامات
1,114
ری ایکشن اسکور
4,478
پوائنٹ
376
جزاکم اللہ خیرا۔
اللہ تعالی مزید احقاق حق اور ابطال باطل کی توفیق عطا فرمائے آمین
اللہ تعالی حق بات قبول کرنے کی توفیق سے نوازے آمین
 

شاکر

تکنیکی ناظم
رکن انتظامیہ
شمولیت
جنوری 08، 2011
پیغامات
6,595
ری ایکشن اسکور
21,396
پوائنٹ
891
ماشاءاللہ کفایت اللہ بھائی، آپ نے اپنی بات ہمیشہ کی طرح خوب مدلل و مفصل بیان کر دی۔ آپ کا انداز بیان ایسا ہے کہ ہم جیسے عامی بھی پوری طرح بات نہ صرف سمجھ جاتے ہیں بلکہ دلیل کی قوت اور ضعف بھی سے بھی بخوبی واقف ہو جاتے ہیں۔
محمد اسد حبیب بھائی، آپ کی ماشاءاللہ شیخ زبیر حفظہ اللہ تک پہنچ ہے۔ ازراہ کرم اگر آپ شیخ کفایت اللہ کا بالا مفصل جواب بھی فضیلۃ الشیخ تک پہنچا دیں تو نوازش ہوگی۔ ہمیں پورا یقین ہے کہ فضیلۃ الشیخ یا تو دلیل سے بات کرتے ہیں اور یا پھر اپنے مؤقف سے اعلانیہ برات کا اظہار کرتے ہیں۔ اللہ تعالیٰ ان دونوں حضرات کو جزائے خیر عطا فرمائیں۔
 

خضر حیات

علمی نگران
رکن انتظامیہ
شمولیت
اپریل 14، 2011
پیغامات
8,773
ری ایکشن اسکور
8,473
پوائنٹ
964
ماشاء اللہ تبارک اللہ ۔
کفایت اللہ بھائی آپ واقعتا اسم با مسمی ہیں ۔
نہایت وضاحت کے ساتھ آپ اپنا موقف پیش کرتے ہیں ۔ اللہ آپ کو جزائے خیردے ۔
مضمون کی بعض جزئیات ہضم نہیں ہو سکیں شاید اس کی وجہ ہماری اس علم سے ناواقفیت ہے ۔ البتہ مجموعی طور پر یہی لگتا ہے کہ حدیث مذکور معلول (مُعل) یعنی ضعیف ہے ۔

اب جب تک زبیر علی زئی صاحب کے قلم سے اس کا رد نہیں آ جاتا ہم آ پکے موقف سے سو فیصد متفق ہونے کے لیے مجبور ہیں ۔
زبیر علی زئی صاحب کے معاونین یا تلامذہ وغیرہ کوشش کریں کہ اس سلسلے میں خود حافظ موصوف سے رد لکھوائیں اور یہاں پیش کریں ۔
کیونکہ اوپر اسد حبیب بھائی نے حافظ صاحب کی طرف سے جو باتیں پیش کی ہیں وہ لگتا ہے کہ حافظ صاحب کے تحقیقی مزاج کے خلاف ہیں ۔
واللہ أعلم ۔
 

کفایت اللہ

عام رکن
شمولیت
مارچ 14، 2011
پیغامات
4,999
ری ایکشن اسکور
9,800
پوائنٹ
722
کیونکہ اوپر اسد حبیب بھائی نے حافظ صاحب کی طرف سے جو باتیں پیش کی ہیں وہ لگتا ہے کہ حافظ صاحب کے تحقیقی مزاج کے خلاف ہیں ۔واللہ أعلم ۔
خضر حیات بھائی ہم نے تو یہی سمجھا کہ یہ جواب حافظ زبیرعلی زئی حفظہ اللہ کا ہے ، کیونکہ باقاعدہ ان کے نام سے پیش کیا گیا اور ساتھ حافظ ندیم صاحب کا بھی نام ہے گویا کہ یہ جواب یا تو حافظ موصوف کا ہے یا اگرندیم صاحب کا ہے تو حافظ موصوف بھی متفق ہیں ۔

لیکن اگر یہ جواب حافظ زبیرعلی زئی حفظہ اللہ کا نہیں ہے تو ہم نے جواب دیتے ہوئے جہاں کہیں انہیں مخاطب کیا ہے اس پر ہم معذرت خواہ ہیں ۔
 
سٹیٹس
مزید جوابات پوسٹ نہیں کیے جا سکتے ہیں۔
Top