• الحمدللہ محدث فورم کو نئےسافٹ ویئر زین فورو 2.1.7 پر کامیابی سے منتقل کر لیا گیا ہے۔ شکایات و مسائل درج کروانے کے لئے یہاں کلک کریں۔
  • آئیے! مجلس التحقیق الاسلامی کے زیر اہتمام جاری عظیم الشان دعوتی واصلاحی ویب سائٹس کے ساتھ ماہانہ تعاون کریں اور انٹر نیٹ کے میدان میں اسلام کے عالمگیر پیغام کو عام کرنے میں محدث ٹیم کے دست وبازو بنیں ۔تفصیلات جاننے کے لئے یہاں کلک کریں۔

کیا یوسف علیہ السلام نے زلیخا سے نکاح کیا تھا؟

فہد حارث

مبتدی
شمولیت
جولائی 14، 2013
پیغامات
8
ری ایکشن اسکور
13
پوائنٹ
10
سب سے پہلے تو یہ بات سمجھ لینی چاہیئے کہ قرآن میں ان خاتون کا کوئی نام نہیں آیا۔ انکے لئے صرف عزیز مصر کی بیوی کی اصطلاح استعمال ہوئی ہے۔تلمود میں ان خاتون کا نام زَلِیخا لکھا ہے اور وہی سے یہ نام اسلامی روایات میں مشہور ہوا۔ مگر یہ جو ہمارے ہاں عام شہرت ہے کہ بعد میں اس عورت سے یوسف ؑ کا نکاح ہُوا، اس کی کوئی اصل نہیں ہے،نہ قرآن میں اور نہ اسرائیلی تاریخ میں۔ حقیقت یہ ہے کہ ایک نبی کے مرتبے سے یہ بات بہت فروتر ہے کہ وہ کسی ایسی عورت سے نکاح کرے جس کی بدچلنی کا اس کو ذاتی تجربہ ہوچکا ہو۔ قرآن مجید میں یہ قاعدہٴ کلیہ ہمیں بتایا گیا ہے کہ اَلخَبِیثٰتُ لِلخَبِیثِینَ وَالخَبِیثُونَ للخَبِیثٰتِ وَالطَّیِّبٰتُ لِلطَّیِّبِینَ وَالطَّیِّبُونَ لِلطَّیِّبٰتِ۔بُری عورتیں بُرے مَردوں کے لیے ہیں اور بُرے مرد بُری عورتوں کے لیے۔ اور پاک عورتیں پاک مردوں کے لیے ہیں اور پاک مرد پاک عورتوں کے لیے۔
دراصل یہ ساری غلط فہمی یوسف علیہ السلام کیلئے لفظ عزیز کے استعمال سے پیدا ہوئی ہے جو کہ سورۃ یوسف آیت نمبر ۷۸ میں یوسف علیہ السلام کے بھائیوں نے یوسف علیہ السلام کے لئے استعمال کیا ہے۔ صرف اس بنا پر مفسرین نےقیاس کر لیا کہ یوسفؑ اسی منصب پر مامور ہوئے تھے جس پر اس سے پہلے زلیخا کا شوہر مامور تھا۔ پھر اس پر مزید قیاسات کی عمار ت کھڑی کر لی گئی کہ سابق عزیز مر گیا تھا ، یوسفؑ اس کی جگہ مقرر کیے گئے ، زلیخا از سر نو معجزے کے ذریعہ سے جو ان کی گئی ، اور شاہ ِ مصر نے اس سے یوسفؑ کا نکا ح کر دیا۔ حد یہ ہے کہ شب عروسی میں یوسفؑ اور زلیخا کے درمیان جو باتیں ہوئیں وہ تک کسی ذریعہ سے ہمارے مفسرین کو پہنچ گئیں۔ حالانکہ یہ سب باتیں سراسر وہم ہیں ۔ لفظ "عزیز" مصر میں کسی خاص منصب کا نام نہ تھا بلکہ محض"صاحب اقتدار" کے معنی میں استعمال کیا جاتا تھا۔ غالبًا مصر میں بڑے لوگوں کے لیے اُس طرح کا کوئی لفظ اصطلاحًا رائج تھا جیسے ہمارے ملک میں لفظ"سرکار" بولا جاتا ہے۔ اسی کا ترجمہ قرآن میں "عزیز" کیا گیا ہے۔ رہا زلیخا سے یوسفؑ کا نکاح، تو اس افسانے کی بنیاد صرف یہ ہے کہ بائیبل اور تلمود میں فوطیفرع کی بیٹی آسناتھ سے اُن کے نکاح کی روایت بیان کی گئی ہے ۔ اور زلیخا کے شوہر کا نام فوطیفار تھا۔ یہ چیزیں اسرائیلی روایات سے نقل در نقل ہوتی ہوئی مفسرین تک پہنچیں اور جیسا کہ زبانی افواہوں کا قاعدہ ہے ، فوطیفرع بآسانی فوطیفار بن گیا، بیٹی کی جگہ بیوی کو مل گئی اور بیوی لامحالہ زلیخا ہی تھی ، لہٰذا اس سے یوسفؑ کا نکاح کرنے کے لیے فوطیفار کو مار دیا گیا ، اور اس طرح "یوسف زلیخا" کی تصنیف مکمل ہو گئی۔ اللہ ہمیں اپنے بر گزیدہ انبیاء کیلئے ایسی واہیات اور لغو کہانیوں کو گھڑنے اور سچ جاننے سے محفوظ رکھے۔ آمین۔
 

Aamir

خاص رکن
شمولیت
مارچ 16، 2011
پیغامات
13,382
ری ایکشن اسکور
17,097
پوائنٹ
1,033
سوال: اخبار اہل حدیث کے سابق پرچوں میں یہ سوال ہوا تھا کہ ذلیخا کا عقد یوسف علیہ سلام سے ہوا تھا۔ یا نہیں؟آپ نے نفی میں جواب لکھا تھا۔ حالانکہ تفسیر احسن التفاسیر میں اس کا ثبوت ملتا ہے۔ ملاحظہ ہو۔ ص149) (محمد عثمان خان محبوب نگر حیدر آباد)

جواب: نکاح کا کوئی ثبوت نہیں ہے۔ بلکہ بائبل میں اس کے خلاف ہے۔ حضرت یوسف ؑ کا نکاح کسی اور جگہ ہوا تھا۔ قاضی سلیمان نے تفسیر سورہ یوسف میں نکاح کا انکار کیاہے۔ اللہ اعلم۔ (اہل حدیث جلد 43 نمبر 36)
فتاویٰ ثنائیہ جلد 01 ص 159
 

محمد علی جواد

سینئر رکن
شمولیت
جولائی 18، 2012
پیغامات
1,986
ری ایکشن اسکور
1,551
پوائنٹ
304
بائیبل میں اکثر واقعیات تحریف شدہ ہیں - اس لئے ان پر اعتماد نہیں کیا جا سکتا -

سوره کہف میں حضرت موسیٰ علیہ سلام کے ساتھ جو الله کا نیک بندہ عازم سفر ہوا تھا - اس کا نام خضر بیان کیا جاتا ہے - جب کہ قرآن میں خضر نام مذکور نہیں - یہ نام بھی شاید بائیبل میں ہی مذکور ہے-
 

کیلانی

مشہور رکن
شمولیت
مارچ 24، 2013
پیغامات
347
ری ایکشن اسکور
1,110
پوائنٹ
127
انتہائی معذرت کے ساتھ عرض کرنا چاہوں گا کہ درج بالا بحث پڑھنے کے بعد میرے ذہن میں ابن تیمیہ کی رسالہءتفسیر کی بحث آگئی جس میں انہوں نے یہ فرمایا ہے کہ تفسیر قرآنی میں ہمیں ایسی بحثوں سے ہمیشہ ہی گریز کرنا چاہیے جن میں کوئی عملی یا اخروی فائدہ نہیں۔مثلا اصحاب کہف کی تعداد کتنی تھی؟ان کے ساتھ جوکتا تھا اس کا رنگ کیا تھا؟ۃغیرہ وغیرہ اسی طرح جب بغداد کو تاتاری تاخت و تاراج کر رہے تھے تو اس وقت بھی بغداد میں مسلمان علماء اس موضوع پر مناظرہ کررہے تھے کہ سوئی کے ناکے سے اونٹ گزر سکتا ہے یا نہیں؟میرےخیال میں اس طرح کی بے سر و پا روایات پر بحث کر کے انہیں اہمیت دینے کے مترادف ہے۔باقی جیسے آپ مناسب سمجھیں۔
 

فہد حارث

مبتدی
شمولیت
جولائی 14، 2013
پیغامات
8
ری ایکشن اسکور
13
پوائنٹ
10
اس طرح کی پوسٹ بحث و مباحثہ کے لئے نہیں بلکہ صرف انبیاء کے بارے میں غلط فہمی رفع کرنے کے لئے ہوتی ہیں۔ تاکہ یہود تاریخ سے متاثر ہو کر ہمارے ہاں انبیاء سے متعلق جو غلط با تیں مشہور ہو گئی ہیں انکا رد کیا جا سکے۔ یہ مضمون تعمیری ذہن کے ساتھ لکھے جاتے ہیں۔
 

انس

منتظم اعلیٰ
رکن انتظامیہ
شمولیت
مارچ 03، 2011
پیغامات
4,178
ری ایکشن اسکور
15,346
پوائنٹ
800
بائیبل میں اکثر واقعیات تحریف شدہ ہیں - اس لئے ان پر اعتماد نہیں کیا جا سکتا -

سوره کہف میں حضرت موسیٰ علیہ سلام کے ساتھ جو الله کا نیک بندہ عازم سفر ہوا تھا - اس کا نام خضر بیان کیا جاتا ہے - جب کہ قرآن میں خضر نام مذکور نہیں - یہ نام بھی شاید بائیبل میں ہی مذکور ہے-
صحیح بخاری میں ان کا نام خضر آیا ہے، علیہ السلام! جن سے ملاقات کرنے سیدنا موسیٰ﷤ گئے تھے۔ جبکہ سیدنا موسیٰ﷤ کے خادم نوجوان کا نام یوشع بن نون تھا۔
 
Top