• الحمدللہ محدث فورم کو نئےسافٹ ویئر زین فورو 2.1.7 پر کامیابی سے منتقل کر لیا گیا ہے۔ شکایات و مسائل درج کروانے کے لئے یہاں کلک کریں۔
  • آئیے! مجلس التحقیق الاسلامی کے زیر اہتمام جاری عظیم الشان دعوتی واصلاحی ویب سائٹس کے ساتھ ماہانہ تعاون کریں اور انٹر نیٹ کے میدان میں اسلام کے عالمگیر پیغام کو عام کرنے میں محدث ٹیم کے دست وبازو بنیں ۔تفصیلات جاننے کے لئے یہاں کلک کریں۔

کیا یہ بھی انکار حدیث ہے؟؟؟؟

بہرام

مشہور رکن
شمولیت
اگست 09، 2011
پیغامات
1,173
ری ایکشن اسکور
439
پوائنٹ
132
جہاں تک حضرت تھانوی رحمہ اللہ کا مکر کا تدبیر سے محمودالحسن صاحب کا مکر کا داؤ سے ترجمہ کرنا خلاف ادب نہیں کیوں کہ مکر کے جو معنی آتے ہیں ان میں یہ دو الفاظ اقرب الی الادب معلوم ہوتے ہیں ۔۔۔۔۔۔
میں کچھ مذید لکھنا چاہ رہا تھا لیکن خیال آیا کہ آپ کی تحریر سے یہ تآثر ابھر رہا ہے کہ آپ کے نذدیک محترم ہستیوں کے بارے میں ترجمے کرتے ہوئے ادب نام کی کی کوئ چیز ملحوظ خاطر نہیں رکھنا چانئیے ؟ کیا یہ صحیح ہے ؟ مختصرا اپنا موقف بتائیے گا ۔ پھر ہی کچھ مذید عرض کرسکوں گا ۔
ویمکرون ویمکراللہ واللہ خیرالمٰاکرین
ترجمہ ::اور وہ بھی فریب کرتے تھے اور اللہ بھی فریب کرتا تھا اور اللہ کا فریب سب سے بہتر ہے ۔ ( شاہ عبدالقادر )
ترجمہ : اور مکر کرتے تھے وہ اور مکر کرتا تھا اللہ تعالٰی اور اللہ تعالٰی نیک مکر کرنے والوں کا ہے ۔ ( شاہ رفیع الدین )
ترجمہ : وایشاں بد سگالی می کردند و خدا بد سگالی می کرد ( یعنی بایشاں ) وخدا بہترین بد سگالی کنندگان است۔ ( شاہ ولی اللہ )
ترجمہ : اور وہ بھی داؤ کرتے تھے اور اللہ بھی داؤ کرتا تھا اور اللہ کا داؤ سب سے بہتر ہے ۔( محمود الحسن دیوبندی )
ترجمہ : اور حال یہ کہ کافر اپنا داؤ کر رہے تھے اور اللہ اپنا داؤ کررہا تھا اور اللہ سب داؤ کرنے والوں سے بہتر داؤ کرنے والا ہے ۔ ( ڈپٹی نذیر احمد )
ترجمہ : اور وہ تو اپنی تدبیر کر رہے تھے اور اللہ میاں اپنی تدبیر کر رہے تھے اور سب سے زیادہ مستحکم تدبیر والا اللہ ہے۔( تھانوی دیوبندی)

کیا میاں بھی اللہ کی صفت ہے ؟؟؟

کیا اللہ کے لئے مکر اور فریب جیسے الفاط بھی اقرب الی الادب معلوم ہوتے ہیں ؟؟
اسی طرح جب صحابہ کرام رضی اللہ عنہم اجمعین کے متلق بات ہو گي اور گرائمر یا قاموس کے لے لحاظ سے ایک سے ذیادہ تشریح ممکن ہو تو وہ ترجمہ اور تشریح لی جائے گي جب ادب سے زیادہ قریب ہو گي"
اور یہ اقرب الی الادب الفاظ کیا صرف صحابہ کے لئے ہی ہیں جبکہ اللہ اور اس کے رسول صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے لیے اس طرح کے گستاخ الفاظ آپ کے مولوی بے دریغ استعمال کریں اور آپ کے کانوں پر جوں بھی نہیں رینگتی بلکہ بعض مولوی تو اس کی تاویلیں بھی کرتے پھرتے ہیں اور مجھ تو یہ لگ رہا ہے کہ آپ بھی کچھ دیربعد ان گستاخانہ الفاظ کی توویل گھڑنا شروع کردینگے !!! کیا یہ صحابہ پرستی نہیں ؟؟؟؟
والسلام
 

تلمیذ

مشہور رکن
شمولیت
ستمبر 12، 2011
پیغامات
765
ری ایکشن اسکور
1,506
پوائنٹ
191
یہ تو ہوئے سوال اور جواب جہاں تک اسلاف کے اختلافات میں فیصلے کی بات تو ہمیں خود یہ فیصلہ نہیں کرنا چاھئے اوراس کا فیصلہ اللہ اور اس کے رسول صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے سپرد کردینا چاھئے اور اللہ اور اس کے رسول صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم جو فیصلہ کردیں اس کوبلا چوں وچرا قبول کرنا چاھئے آپ کے سوال کا فیصلہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم فرماچکے ہیں ۔۔غور کریں
جزاک اللہ ، جزاک اللہ ، جزاک اللہ ،
بلا شبہ اختلاف اسلاف میں ہمیں خود کوئی فیصلہ نہیں کرنا جاہئیے اور ان کے اختلاف کو اللہ اور رسول صلی اللہ علیہ وسلم کی طرف سپرد کرنا چاہئیے ، اس پر بھی ہمارا اتفاق ہوگيا اور اسی نکتہ پر آپ کو لانے لئیے حضرت علی کرم اللہ وجھہ اور حضرت حسن رضی اللہ عنہ کے سلسلے میں سوال کیا تھا
اب آتے ہیں اس حدیث کی طرف جو اس تھریڈ کا موضوع ہے
میں اپنی بات دوبارہ دہراتا ہوں

اللہ تبارک و تعالی قرآن مجید میں فرماتے ہیں

يَا أَيُّهَا الرَّسُولُ بَلِّغْ مَا أُنزِلَ إِلَيْكَ مِن رَّبِّكَ وَإِن لَّمْ تَفْعَلْ فَمَا بَلَّغْتَ رِسَالَتَهُ وَاللّهُ يَعْصِمُكَ مِنَ النَّاسِ إِنَّ اللّهَ لاَ يَهْدِي الْقَوْمَ الْكَافِرِينَ

یہ بات ناممکنات میں سے ہے کہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ و سلم حضرت عمر رضی اللہ عنہ کے منع کرنے سے حق بیان کرنے سے رک جائین ، کیوں کہ ارشاد ہو چکا ہے

يَا أَيُّهَا الرَّسُولُ بَلِّغْ مَا أُنزِلَ إِلَيْكَ مِن رَّبِّكَ وَإِن لَّمْ تَفْعَلْ فَمَا بَلَّغْتَ رِسَالَتَه

اس لئیےخاکم بدہن اگر بالفرض نبی اکرم صلی اللہ علیہ و سلم حضرت عمر رضی اللہ عنہ کے منع کرنے سے رک گئے تھے تو انہوں نبوت کا حق ادا نہیں کیا اور یہ بات نا ممکن ہے ویسے بھی اللہ تبارک و تعالی کہ چکا ہے

وَاللّهُ يَعْصِمُكَ مِنَ النَّاسِ
اس لئیے یہ بھی نا ممکن ہے کسی حق بات کو کسی کے بھی ڈر سے نبی اکرم صلی اللہ علیہ و سلم حق بات بیان کرنے سے رہ جائیں کیوں نبی اکرم صلی اللہ علیہ و سلم کی حفاظت کا ذمہ اللہ تبارک و تعالی نے لیا ہے

سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ نبی اکرم صلی اللہ و علیہ وسلم نے حضرت عمر رضی اللہ عنہ کے منع کرنے کے بعد وہ مکتوب کیوں نہ لکھا اور نبی اکرم صلی اللہ علیہ و سلم نے صرف حضرت عمر رضی اللہ عنہ کو باہر جانے کا کیوں نہ کہا اور قوموا عنی کیوں کہا
اس سے یہ ثابت ہوتا ہے کہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کا حضرت عمر رضی اللہ عنہ کے منع کرنے سے کچھ لکھنے سے رک جانا اس بات کی علامت ہے نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم حضرت عمر کی رائے سے متفق ہوچکے تھے ورنہ وَإِن لَّمْ تَفْعَلْ فَمَا بَلَّغْتَ رِسَالَتَه کہلائے گا اور یہ ناممکنات میں سے ہے۔

و اللہ اعلم بالصواب

مہربانی فرماکر آپ یہ غلط فہمی دور کردیں اور اس دھاگہ کو شروع کرنے کا مقصد بھی یہی ہے اسی لیئے اس دھاگے کو سوالیہ انداز میں شروع کیا گیا ہے "" کیا یہ بھی انکار حدیث ہے؟؟؟؟ ""

مگرمعاف کیجیئے گا اب تک کوئی دلیل ایسی نہیں آئی جس سے یہ غلط فہمی دور ہو
ہا ں یہ ضرور ہوا کہ حضرت عمر کے مقابلے پر اہل بیت اطہار کو لاکھڑا کیا مثلا یہ بات حضرت عمر نے نہیں کہی بلکہ اہل بیت نے کہی وغیرہ وغیرہ
آپ نے پوچھا ہے کہ کیا یہ انکار حدیث ہے ؟؟؟؟
اگر یہ انکار حدیث ہوتا تویہ کیسے ممکن ہے کہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے سامنے کوئی منکر امرہو اور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم سکوت فرمائيں ۔ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کا حضرت عمر رضی اللہ عنہ کو کوئی تنبیہ نہ کرنا اس بات کی دلیل ہے یہاں کوئی انکار حدیث نہیں


ویمکرون ویمکراللہ واللہ خیرالمٰاکرین
ترجمہ ::اور وہ بھی فریب کرتے تھے اور اللہ بھی فریب کرتا تھا اور اللہ کا فریب سب سے بہتر ہے ۔ ( شاہ عبدالقادر )
ترجمہ : اور مکر کرتے تھے وہ اور مکر کرتا تھا اللہ تعالٰی اور اللہ تعالٰی نیک مکر کرنے والوں کا ہے ۔ ( شاہ رفیع الدین )
ترجمہ : وایشاں بد سگالی می کردند و خدا بد سگالی می کرد ( یعنی بایشاں ) وخدا بہترین بد سگالی کنندگان است۔ ( شاہ ولی اللہ )
ترجمہ : اور وہ بھی داؤ کرتے تھے اور اللہ بھی داؤ کرتا تھا اور اللہ کا داؤ سب سے بہتر ہے ۔( محمود الحسن دیوبندی )
ترجمہ : اور حال یہ کہ کافر اپنا داؤ کر رہے تھے اور اللہ اپنا داؤ کررہا تھا اور اللہ سب داؤ کرنے والوں سے بہتر داؤ کرنے والا ہے ۔ ( ڈپٹی نذیر احمد )
ترجمہ : اور وہ تو اپنی تدبیر کر رہے تھے اور اللہ میاں اپنی تدبیر کر رہے تھے اور سب سے زیادہ مستحکم تدبیر والا اللہ ہے۔( تھانوی دیوبندی)

کیا میاں بھی اللہ کی صفت ہے ؟؟؟

کیا اللہ کے لئے مکر اور فریب جیسے الفاط بھی اقرب الی الادب معلوم ہوتے ہیں ؟؟


اور یہ اقرب الی الادب الفاظ کیا صرف صحابہ کے لئے ہی ہیں جبکہ اللہ اور اس کے رسول صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے لیے اس طرح کے گستاخ الفاظ آپ کے مولوی بے دریغ استعمال کریں اور آپ کے کانوں پر جوں بھی نہیں رینگتی بلکہ بعض مولوی تو اس کی تاویلیں بھی کرتے پھرتے ہیں اور مجھ تو یہ لگ رہا ہے کہ آپ بھی کچھ دیربعد ان گستاخانہ الفاظ کی توویل گھڑنا شروع کردینگے !!! کیا یہ صحابہ پرستی نہیں ؟؟؟؟
والسلام
میں نے آپ سے پوچھا تھا کہ آپ کی تحریر سے یہ تآثر ابھر رہا ہے کہ آپ کے نذدیک محترم ہستیوں کے بارے میں ترجمے کرتے ہوئے ادب نام کی کی کوئ چیز ملحوظ خاطر نہیں رکھنا چانئیے ؟ کیا یہ صحیح ہے ؟ مختصرا اپنا موقف بتائیے گا ۔ پھر ہی کچھ مذید عرض کرسکوں گا ۔
آپ نے ادب کے حوالہ سے اپنا موقف بتانے گریز کیا ۔ آخر کیا وجہ ہے ؟
باقی آپ کی پوسٹ ایک الگ موضوع کے متعلق ہے یعنی "علماء دیوبند کے ہاں اللہ اور اس کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کا ادب "
یہ ایک الگ موضوع ہے کبھی زندگی رہی اور ٹائم میسر رہا تو اس موضوع پر کچھ بات ہوجائے گی ۔ ان شاء اللہ
 

بہرام

مشہور رکن
شمولیت
اگست 09، 2011
پیغامات
1,173
ری ایکشن اسکور
439
پوائنٹ
132
جزاک اللہ ، جزاک اللہ ، جزاک اللہ ،
بلا شبہ اختلاف اسلاف میں ہمیں خود کوئی فیصلہ نہیں کرنا جاہئیے اور ان کے اختلاف کو اللہ اور رسول صلی اللہ علیہ وسلم کی طرف سپرد کرنا چاہئیے ، اس پر بھی ہمارا اتفاق ہوگيا اور اسی نکتہ پر آپ کو لانے لئیے حضرت علی کرم اللہ وجھہ اور حضرت حسن رضی اللہ عنہ کے سلسلے میں سوال کیا تھا
پوری بات کچھ اس طرح ہے
اختلاف اسلاف میں ہمیں خود کوئی فیصلہ نہیں کرنا جاہئیے اور ان کے اختلاف کو اللہ اور رسول صلی اللہ علیہ وسلم کی طرف سپرد کرنا چاہئیےاور اللہ اور رسول صلی اللہ علیہ وآلہ و سلم جو فیصلہ فرمادیں اس کو دل جان سے قبول کرلینا چاھئے
اور اس اختلاف اسلاف میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کا فیصلہ کیا ہے یہ بھی ارشاد فرمادیں کون حق کے قریب ہے مولا علی علیہ السلام یا معاویہ اور حضرت حسن مجتبیٰ علیہ السلام یا معاویہ ؟؟
 

بہرام

مشہور رکن
شمولیت
اگست 09، 2011
پیغامات
1,173
ری ایکشن اسکور
439
پوائنٹ
132
اب آتے ہیں اس حدیث کی طرف جو اس تھریڈ کا موضوع ہے
میں اپنی بات دوبارہ دہراتا ہوں

اللہ تبارک و تعالی قرآن مجید میں فرماتے ہیں

يَا أَيُّهَا الرَّسُولُ بَلِّغْ مَا أُنزِلَ إِلَيْكَ مِن رَّبِّكَ وَإِن لَّمْ تَفْعَلْ فَمَا بَلَّغْتَ رِسَالَتَهُ وَاللّهُ يَعْصِمُكَ مِنَ النَّاسِ إِنَّ اللّهَ لاَ يَهْدِي الْقَوْمَ الْكَافِرِينَ

یہ بات ناممکنات میں سے ہے کہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ و سلم حضرت عمر رضی اللہ عنہ کے منع کرنے سے حق بیان کرنے سے رک جائین ، کیوں کہ ارشاد ہو چکا ہے

يَا أَيُّهَا الرَّسُولُ بَلِّغْ مَا أُنزِلَ إِلَيْكَ مِن رَّبِّكَ وَإِن لَّمْ تَفْعَلْ فَمَا بَلَّغْتَ رِسَالَتَه

اس لئیےخاکم بدہن اگر بالفرض نبی اکرم صلی اللہ علیہ و سلم حضرت عمر رضی اللہ عنہ کے منع کرنے سے رک گئے تھے تو انہوں نبوت کا حق ادا نہیں کیا اور یہ بات نا ممکن ہے ویسے بھی اللہ تبارک و تعالی کہ چکا ہے

وَاللّهُ يَعْصِمُكَ مِنَ النَّاسِ
اس لئیے یہ بھی نا ممکن ہے کسی حق بات کو کسی کے بھی ڈر سے نبی اکرم صلی اللہ علیہ و سلم حق بات بیان کرنے سے رہ جائیں کیوں نبی اکرم صلی اللہ علیہ و سلم کی حفاظت کا ذمہ اللہ تبارک و تعالی نے لیا ہے

سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ نبی اکرم صلی اللہ و علیہ وسلم نے حضرت عمر رضی اللہ عنہ کے منع کرنے کے بعد وہ مکتوب کیوں نہ لکھا اور نبی اکرم صلی اللہ علیہ و سلم نے صرف حضرت عمر رضی اللہ عنہ کو باہر جانے کا کیوں نہ کہا اور قوموا عنی کیوں کہا
اس سے یہ ثابت ہوتا ہے کہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کا حضرت عمر رضی اللہ عنہ کے منع کرنے سے کچھ لکھنے سے رک جانا اس بات کی علامت ہے نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم حضرت عمر کی رائے سے متفق ہوچکے تھے ورنہ وَإِن لَّمْ تَفْعَلْ فَمَا بَلَّغْتَ رِسَالَتَه کہلائے گا اور یہ ناممکنات میں سے ہے۔

و اللہ اعلم بالصواب
میں یہ سمجھتا ہوں اس کی یہ وجہ ہے جیسا کہ اس حدیث میں بیان ہوا کہ جب اللہ کے رسول محمد مصطفٰی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے حضور لوگوں کا اختلاف اور نزاع ہوجائے تو بھی کسی مفید امر کا علم اٹھا لیا جاتا ہے
صحیح بخاری
کتاب لیلۃ القدر
باب: شب قدر کا رمضان کی آخری دس طاق راتوں میں تلاش کرنا۔ اس باب میں عبادہ بن صامت سے روایت ہے
حدیث نمبر : 2023
حدثنا محمد بن المثنى: حدثنا خالد بن الحارث: حدثنا حميد: حدثنا أنس،‏‏‏‏ عن عبادة بن الصامت قال: خرج النبي صلى الله عليه وسلم ليخبرنا بليلة القدر،‏‏‏‏ فتلاحى رجلان من المسلمين،‏‏‏‏ فقال: (خرجت لأخبركم بليلة القدر،‏‏‏‏ فتلاحى فلان وفلان فرفعت،‏‏‏‏ وعسى أن يكون خيرا لكم،‏‏‏‏ فالتمسوها في التاسعة والسابعة والخامسة).‏
ہم سے محمد بن مثنی نے بیان کیا ، ان سے خالد بن حارث نے بیان کیا ، ان سے حمید طویل نے بیان کیا ، ان سے انس رضی اللہ عنہ نے بیان کیا اور ان سے عبادہ بن صامت رضی اللہ عنہ نے بیان کیا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ہمیں شب قدر کی خبر دینے کے لیے تشریف لا رہے تھے کہ دو مسلمان آپس میں جھگڑا کرنے لگے۔ اس پر آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ میں آیاتھا کہ تمہیں شب قدر بتادوں لیکن فلاں فلاں نے آپس میں جھگڑا کر لیا۔ پس اس کا علم اٹھا لیا گیا اور امید یہی ہے کہ تمہارے حق میں یہی بہتر ہو گا۔ پس اب تم اس کی تلاش (آخری عشرہ کی) نو یا سات یا پانچ (کی راتوں) میں کیا کرو۔
 

بہرام

مشہور رکن
شمولیت
اگست 09، 2011
پیغامات
1,173
ری ایکشن اسکور
439
پوائنٹ
132
میں نے آپ سے پوچھا تھا کہ آپ کی تحریر سے یہ تآثر ابھر رہا ہے کہ آپ کے نذدیک محترم ہستیوں کے بارے میں ترجمے کرتے ہوئے ادب نام کی کی کوئ چیز ملحوظ خاطر نہیں رکھنا چانئیے ؟ کیا یہ صحیح ہے ؟ مختصرا اپنا موقف بتائیے گا ۔ پھر ہی کچھ مذید عرض کرسکوں گا ۔
آپ نے ادب کے حوالہ سے اپنا موقف بتانے گریز کیا ۔ آخر کیا وجہ ہے ؟
اور یہ اقرب الی الادب الفاظ کیا صرف صحابہ کے لئے ہی ہیں جبکہ اللہ اور اس کے رسول صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے لیے اس طرح کے گستاخ الفاظ آپ کے مولوی بے دریغ استعمال کریں اور آپ کے کانوں پر جوں بھی نہیں رینگتی بلکہ بعض مولوی تو اس کی تاویلیں بھی کرتے پھرتے ہیں اور مجھ تو یہ لگ رہا ہے کہ آپ بھی کچھ دیربعد ان گستاخانہ الفاظ کی توویل گھڑنا شروع کردینگے !!! کیا یہ صحابہ پرستی نہیں ؟؟؟؟
والسلام
اب اتنے واضح موقف اپنا بیان کرچکا اللہ و رسول کے لیے تو آپ کے کےدیو بندی مولوی جیسے چاہیں الفاظ استعمال کریں نعوذ با للہ اللہ کو فریبی مکار جانے کیا کچھ کہتے رہیں اور رسول اللہ کو نعوذبا للہ بھٹکا ہوا گنہگار اور جانے کیا کچھ کہتے رہیں اس وقت آپ کو خیال نہیں آتا کہ اقرب الی الادب الفاظ لئے جائیں لیکن جہاں صحابہ کی بات آئے تو بقول آپ کے
اسی طرح جب صحابہ کرام رضی اللہ عنہم اجمعین کے متلق بات ہو گي اور گرائمر یا قاموس کے لے لحاظ سے ایک سے ذیادہ تشریح ممکن ہو تو وہ ترجمہ اور تشریح لی جائے گي جب ادب سے زیادہ قریب ہو گي"
میں یہ سمجھتا ہوں کہ ان اقرب الی الادب الفاظ پر اللہ اور اس کے رسول کا حق صحابہ سے لاکھ گنا ذیادہ ہے معاف کرنا آپ کے دیو بندی مولوی اس بات کا خیال نہیں رکھتے ترجمہ کرتے ہوئے اور پھر ان کے اس عمل پر تاویلیں بھی پیش کی جاتی ہے اور اگر کوئی صحابہ کے بارے ترجمہ کرتے ہوئے کوئی ہلکا لفظ استعمال کرلے تو فورا اس پر فتوہ لگا دیا جاتا ہے کہ یہ صحابہ کا گستاخ ہے اور واجب القتل ہے اور خود اللہ اور رسول کی کسی ہی گستاخی کرلیں ترجمہ کرتے ہوئے لیکن پھر بھی مومن کا مومن اس سے ایسا معلوم ہوتا ہے کہ جیسے صحابہ اللہ و رسول سے بھی بڑی کوئی ہستی ہیں نعوذبا للہ
اللہ اعلم و رسولہ اعلم
والسلام
 

بہرام

مشہور رکن
شمولیت
اگست 09، 2011
پیغامات
1,173
ری ایکشن اسکور
439
پوائنٹ
132
باقی آپ کی پوسٹ ایک الگ موضوع کے متعلق ہے یعنی "علماء دیوبند کے ہاں اللہ اور اس کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کا ادب "
یہ ایک الگ موضوع ہے کبھی زندگی رہی اور ٹائم میسر رہا تو اس موضوع پر کچھ بات ہوجائے گی ۔ ان شاء اللہ
یہ بات میں پہلے ہی عرض کرچکا

مجھ تو یہ لگ رہا ہے کہ آپ بھی کچھ دیربعد ان گستاخانہ الفاظ کی توویل گھڑنا شروع کردینگے
والسلام
 

شاکر

تکنیکی ناظم
رکن انتظامیہ
شمولیت
جنوری 08، 2011
پیغامات
6,595
ری ایکشن اسکور
21,396
پوائنٹ
891
بہرام صاحب،
گستاخی کے موضوع پر بحث کرنی ہو اور حضرت عمر رضی اللہ عنہ کے انکار حدیث کے دیگر دلائل پیش کرنے ہوں، تو علیحدہ دھاگا کھول لیجئے۔ اس دھاگے میں فقط اتنی ہی بات پر بحث کریں جو موضوع ہے۔ اور جو اس دھاگے کی پہلی پوسٹ میں بیان ہوا ہے۔
اگر یہ گستاخی والا موضوع موجودہ موضوع سے لنک ہے تب بھی اس دھاگے میں فقط نئے دھاگے کا لنک دے دیجئے تاکہ بات کسی نتیجہ تک پہنچ سکے۔
 

تلمیذ

مشہور رکن
شمولیت
ستمبر 12، 2011
پیغامات
765
ری ایکشن اسکور
1,506
پوائنٹ
191
بہرام صاحب،
موضوع سے عین متعلق میرا سوال آپ گول کرگئے

آپ نے پوچھا ہے کہ کیا یہ انکار حدیث ہے ؟؟؟؟
اگر یہ انکار حدیث ہوتا تویہ کیسے ممکن ہے کہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے سامنے کوئی منکر امرہو اور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم سکوت فرمائيں ۔ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کا حضرت عمر رضی اللہ عنہ کو کوئی تنبیہ نہ کرنا اس بات کی دلیل ہے یہاں کوئی انکار حدیث نہیں
پہلے بتادیں کہ آپ کو اس سے اختلاف ہے یا نہیں اور اگر حضرت عمر رضی اللہ عنہ کا نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کو کچھ لکھنے سے منع کرنا انکار حدیث ہے نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے اس پر حضرت عمر رضی اللہ عنہ کو کوئی تنبیہ کیوں نہ کی ؟؟؟؟؟
پہلے موضوع سے متعلق سوال کا جواب جس کو آپ گول کرگئے پھر ان شاء اللہ آپ کی گذارشات کے متعلق موضوع میں رہتے ہوئے کچھ عرض کروں گا
 

بہرام

مشہور رکن
شمولیت
اگست 09، 2011
پیغامات
1,173
ری ایکشن اسکور
439
پوائنٹ
132
بہرام صاحب،
موضوع سے عین متعلق میرا سوال آپ گول کرگئے



پہلے بتادیں کہ آپ کو اس سے اختلاف ہے یا نہیں اور اگر حضرت عمر رضی اللہ عنہ کا نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کو کچھ لکھنے سے منع کرنا انکار حدیث ہے نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے اس پر حضرت عمر رضی اللہ عنہ کو کوئی تنبیہ کیوں نہ کی ؟؟؟؟؟
پہلے موضوع سے متعلق سوال کا جواب جس کو آپ گول کرگئے پھر ان شاء اللہ آپ کی گذارشات کے متعلق موضوع میں رہتے ہوئے کچھ عرض کروں گا
جواب عرض کرچکا ہوں اگر آپ غور کریں اس حدیث میں بھی ایک اہم امر کی اطلاع دینے کے لئے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم تشریف لائے مگر جب لوگوں کے درمیان نزاع ہو تو اس امر مفید کا علم اٹھا لیا گیا اور اس پر بھی آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے کسی کو تنبیہ نہ کی

صحیح بخاری
کتاب لیلۃ القدر
باب: شب قدر کا رمضان کی آخری دس طاق راتوں میں تلاش کرنا۔ اس باب میں عبادہ بن صامت سے روایت ہے
حدیث نمبر : 2023
حدثنا محمد بن المثنى: حدثنا خالد بن الحارث: حدثنا حميد: حدثنا أنس،‏‏‏‏ عن عبادة بن الصامت قال: خرج النبي صلى الله عليه وسلم ليخبرنا بليلة القدر،‏‏‏‏ فتلاحى رجلان من المسلمين،‏‏‏‏ فقال: (خرجت لأخبركم بليلة القدر،‏‏‏‏ فتلاحى فلان وفلان فرفعت،‏‏‏‏ وعسى أن يكون خيرا لكم،‏‏‏‏ فالتمسوها في التاسعة والسابعة والخامسة).‏
ہم سے محمد بن مثنی نے بیان کیا ، ان سے خالد بن حارث نے بیان کیا ، ان سے حمید طویل نے بیان کیا ، ان سے انس رضی اللہ عنہ نے بیان کیا اور ان سے عبادہ بن صامت رضی اللہ عنہ نے بیان کیا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ہمیں شب قدر کی خبر دینے کے لیے تشریف لا رہے تھے کہ دو مسلمان آپس میں جھگڑا کرنے لگے۔ اس پر آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ میں آیاتھا کہ تمہیں شب قدر بتادوں لیکن فلاں فلاں نے آپس میں جھگڑا کر لیا۔ پس اس کا علم اٹھا لیا گیا اور امید یہی ہے کہ تمہارے حق میں یہی بہتر ہو گا۔ پس اب تم اس کی تلاش (آخری عشرہ کی) نو یا سات یا پانچ (کی راتوں) میں کیا کرو۔
 

تلمیذ

مشہور رکن
شمولیت
ستمبر 12، 2011
پیغامات
765
ری ایکشن اسکور
1,506
پوائنٹ
191
جواب عرض کرچکا ہوں اگر آپ غور کریں اس حدیث میں بھی ایک اہم امر کی اطلاع دینے کے لئے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم تشریف لائے مگر جب لوگوں کے درمیان نزاع ہو تو اس امر مفید کا علم اٹھا لیا گیا اور اس پر بھی آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے کسی کو تنبیہ نہ کی
تبیہ ہوئی تو ہے
خرجت لأخبركم بليلة القدر،‏ فتلاحى فلان وفلان فرفعت
نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم سب کے سامنے تبیہ فرما رہے ہیں کہ فلان اور فلاں کے جھگڑے کی وجہ سے لیلہ القدر کی خبر اٹھا لی گئي اور اب ذیادہ راتوں میں ڈھونڈنی ہوگي سب کے سامنے نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کا یہ اعلان بہت بڑی تنبیہ ہے ۔
حضرت عمر رضی اللہ عنہ کے عمل کو آپ انکار حدیث بتارہے ہیں تو یہاں تو اس عمل کی نوعیت سے بہت سخت قسم کی تنبیہ ہونی چاہئیے تھی لیکن حضرت عمر رضی اللہ عنہ کو کچھ نہ کہا گيا
یہ کیسے ممکن ہے نبی اکرم صلی اللہ علیہ و سلم کے سامنے انکار حدیث ہو اور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم خاموش رہیں
اب اتنے واضح موقف اپنا بیان کرچکا اللہ و رسول کے لیے تو آپ کے کےدیو بندی مولوی جیسے چاہیں الفاظ استعمال کریں نعوذ با للہ اللہ کو فریبی مکار جانے کیا کچھ کہتے رہیں اور رسول اللہ کو نعوذبا للہ بھٹکا ہوا گنہگار اور جانے کیا کچھ کہتے رہیں اس وقت آپ کو خیال نہیں آتا کہ اقرب الی الادب الفاظ لئے جائیں لیکن جہاں صحابہ کی بات آئے تو بقول آپ کے

میں یہ سمجھتا ہوں کہ ان اقرب الی الادب الفاظ پر اللہ اور اس کے رسول کا حق صحابہ سے لاکھ گنا ذیادہ ہے معاف کرنا آپ کے دیو بندی مولوی اس بات کا خیال نہیں رکھتے ترجمہ کرتے ہوئے اور پھر ان کے اس عمل پر تاویلیں بھی پیش کی جاتی ہے اور اگر کوئی صحابہ کے بارے ترجمہ کرتے ہوئے کوئی ہلکا لفظ استعمال کرلے تو فورا اس پر فتوہ لگا دیا جاتا ہے کہ یہ صحابہ کا گستاخ ہے اور واجب القتل ہے اور خود اللہ اور رسول کی کسی ہی گستاخی کرلیں ترجمہ کرتے ہوئے لیکن پھر بھی مومن کا مومن اس سے ایسا معلوم ہوتا ہے کہ جیسے صحابہ اللہ و رسول سے بھی بڑی کوئی ہستی ہیں نعوذبا للہ
اللہ اعلم و رسولہ اعلم
والسلام
یہ بات آپ نے بھی مانی کہ محترم شخصیات کے بارے میں ترجمہ کرتے ہوئے ان الفاظ کا چناؤ کرنا چاہئیے جو اقرب الی الادب ہیں ۔ اس بات پر بھی ہمارا اتفاق ہوگيا ۔ جہاں تک علماء دیوبند کے الفاظ کے متعلق آپ کی تحریر کا تعلق ہے ان کے متعلق میں فی الحال کچھ عرض نہیں کروں گا کیوں ایک تو موضوع تھریڈ کے دائرے سے باہر ہے اور دوم اگر میں دفاع علماء دیوبند اس تھریڈ میں شروع کردوں تو دفاع عمر رضی اللہ عنہ کا موضوع اپنی افادیت کھو دے گا جو میں فی الحال نہیں چاہتا کبھی ٹائم میسر ہوا تو الگ تھریڈ میں اس پر بھی ان شاء اللہ بات کرلیں گے
 
Top