• الحمدللہ محدث فورم کو نئےسافٹ ویئر زین فورو 2.1.7 پر کامیابی سے منتقل کر لیا گیا ہے۔ شکایات و مسائل درج کروانے کے لئے یہاں کلک کریں۔
  • آئیے! مجلس التحقیق الاسلامی کے زیر اہتمام جاری عظیم الشان دعوتی واصلاحی ویب سائٹس کے ساتھ ماہانہ تعاون کریں اور انٹر نیٹ کے میدان میں اسلام کے عالمگیر پیغام کو عام کرنے میں محدث ٹیم کے دست وبازو بنیں ۔تفصیلات جاننے کے لئے یہاں کلک کریں۔

کیا یہ بھی انکار حدیث ہے؟؟؟؟

بہرام

مشہور رکن
شمولیت
اگست 09، 2011
پیغامات
1,173
ری ایکشن اسکور
439
پوائنٹ
132
تبیہ ہوئی تو ہے
خرجت لأخبركم بليلة القدر،‏ فتلاحى فلان وفلان فرفعت
نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم سب کے سامنے تبیہ فرما رہے ہیں کہ فلان اور فلاں کے جھگڑے کی وجہ سے لیلہ القدر کی خبر اٹھا لی گئي اور اب ذیادہ راتوں میں ڈھونڈنی ہوگي سب کے سامنے نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کا یہ اعلان بہت بڑی تنبیہ ہے ۔
حضرت عمر رضی اللہ عنہ کے عمل کو آپ انکار حدیث بتارہے ہیں تو یہاں تو اس عمل کی نوعیت سے بہت سخت قسم کی تنبیہ ہونی چاہئیے تھی لیکن حضرت عمر رضی اللہ عنہ کو کچھ نہ کہا گيا
یہ کیسے ممکن ہے نبی اکرم صلی اللہ علیہ و سلم کے سامنے انکار حدیث ہو اور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم خاموش رہیں
یہ اطلاع تھی کہ فلاں فلاں میں جھگڑا ہوا اس لیے اس مفید امر کا علم اٹھا لیا گیا نہ کہ وارنگ
چلیں اب ایک اور دلیل آپ کی خدمت میں پش کرتا ہوں انکار حدیث کی یہاں صرف انکار ہی نہیں ہورہا بلکہ عمل نبی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم پر غصہ بھی کیا جارہا ہے ،

ابووائل رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ صلح حدیبیہ کے موقعہ پرنبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم اور مشرکین کے درمیان جب معاہدہ طے پاگیا تو حضرت عمر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے پاس آئے اور کہا کیا ہم حق پر نہیں ہیں؟ اور کیا کفار باطل پر نہیں ہیں؟ کیا ہمارے مقتولین جنت میں نہیں جائیں گے اور کیا ان کے مقتولین دوزخ میں نہیں جائیں گے؟ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ کیوں نہیں! عمر رضی اللہ عنہ نے کہا پھر ہم اپنے دین کے بارے میں ذلت کا مظاہرہ کیوں کریں (یعنی دب کر صلح کیوں کریں) اور کیوں واپس جائیں، جبکہ اللہ تعالیٰ نے ہمیں اس کا حکم فرمایا ہے۔ حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا اے ابن خطاب! میں اللہ کا رسول ہوں اور اللہ تعالیٰ مجھے کبھی ضائع نہیں کرے گا۔ عمر رضی اللہ عنہ آنحضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے پاس سے واپس آ گئے ان کو غصہ آ رہا تھا۔

صحیح بخاری ،کتاب التفسیر ،حدیث نمبر : 4844

پھر سورۃ ”الفتح“ نازل ہوئی اس کے بعد یہ غصہ ختم ہوا اس حدیث سے تو یہی ثابت ہورہا ہے فہم رسالت پرشک اورعمل نبوی کا انکار کیا جارہا ( یعنی انکار حدیث) اور صرف انکار ہی نہیں بلکہ غصہ بھی کیا جارہا ہے اور یہ عمل قرآن کی سورۃ الفتح نازل ہونے تک برقرار رہتا ہے اور یہاں بھی کسی کو وارنگ نہیں دیتے اللہ کے نبی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم ۔
 

بہرام

مشہور رکن
شمولیت
اگست 09، 2011
پیغامات
1,173
ری ایکشن اسکور
439
پوائنٹ
132
یہ بات آپ نے بھی مانی کہ محترم شخصیات کے بارے میں ترجمہ کرتے ہوئے ان الفاظ کا چناؤ کرنا چاہئیے جو اقرب الی الادب ہیں ۔ اس بات پر بھی ہمارا اتفاق ہوگيا ۔ جہاں تک علماء دیوبند کے الفاظ کے متعلق آپ کی تحریر کا تعلق ہے ان کے متعلق میں فی الحال کچھ عرض نہیں کروں گا کیوں ایک تو موضوع تھریڈ کے دائرے سے باہر ہے اور دوم اگر میں دفاع علماء دیوبند اس تھریڈ میں شروع کردوں تو دفاع عمر رضی اللہ عنہ کا موضوع اپنی افادیت کھو دے گا جو میں فی الحال نہیں چاہتا کبھی ٹائم میسر ہوا تو الگ تھریڈ میں اس پر بھی ان شاء اللہ بات کرلیں گے
اس بات کا جواب دینے پر میری پوسٹ ڈیلیٹ کردی جائے گی اس لئے آپ ہی دوسرا تھریڈ بنالیں تا کہ اس پر بات ہوسکے
والسلام
 

تلمیذ

مشہور رکن
شمولیت
ستمبر 12، 2011
پیغامات
765
ری ایکشن اسکور
1,506
پوائنٹ
191
یہ اطلاع تھی کہ فلاں فلاں میں جھگڑا ہوا اس لیے اس مفید امر کا علم اٹھا لیا گیا نہ کہ وارنگ
چلیں اب ایک اور دلیل آپ کی خدمت میں پش کرتا ہوں انکار حدیث کی یہاں صرف انکار ہی نہیں ہورہا بلکہ عمل نبی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم پر غصہ بھی کیا جارہا ہے ،

ابووائل رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ صلح حدیبیہ کے موقعہ پرنبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم اور مشرکین کے درمیان جب معاہدہ طے پاگیا تو حضرت عمر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے پاس آئے اور کہا کیا ہم حق پر نہیں ہیں؟ اور کیا کفار باطل پر نہیں ہیں؟ کیا ہمارے مقتولین جنت میں نہیں جائیں گے اور کیا ان کے مقتولین دوزخ میں نہیں جائیں گے؟ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ کیوں نہیں! عمر رضی اللہ عنہ نے کہا پھر ہم اپنے دین کے بارے میں ذلت کا مظاہرہ کیوں کریں (یعنی دب کر صلح کیوں کریں) اور کیوں واپس جائیں، جبکہ اللہ تعالیٰ نے ہمیں اس کا حکم فرمایا ہے۔ حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا اے ابن خطاب! میں اللہ کا رسول ہوں اور اللہ تعالیٰ مجھے کبھی ضائع نہیں کرے گا۔ عمر رضی اللہ عنہ آنحضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے پاس سے واپس آ گئے ان کو غصہ آ رہا تھا۔

صحیح بخاری ،کتاب التفسیر ،حدیث نمبر : 4844

پھر سورۃ ”الفتح“ نازل ہوئی اس کے بعد یہ غصہ ختم ہوا اس حدیث سے تو یہی ثابت ہورہا ہے فہم رسالت پرشک اورعمل نبوی کا انکار کیا جارہا ( یعنی انکار حدیث) اور صرف انکار ہی نہیں بلکہ غصہ بھی کیا جارہا ہے اور یہ عمل قرآن کی سورۃ الفتح نازل ہونے تک برقرار رہتا ہے اور یہاں بھی کسی کو وارنگ نہیں دیتے اللہ کے نبی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم ۔
ابھی تک یہ ہو رہا ہے کہ آپ نے ایک حدیث پیش کی اور میں آپ کے سوالات کا جوابات دیتا رہا ۔ اب آپ نے دوسری حدیث پیش کردی ۔ اس طرح تو یہ ایک لا متناہی سلسلہ شروع ہو جائے گا
پہلے انکار حدیث کے معنی پر اتفاق کرلیتے ہیں پھر دیکھ لیتے ہیں کہ آپ نے جو احادیث پیش کیں وہ اس زمرہ میں آتی ہیں یا نہیں
آپ ذرا تبادیجئیے گا کہ "انکار حدیث " کا کیا حدود اربعہ ہے ؟
آپ جس طرح کی پوسٹ کر رہے ہیں اس سے تاثر ابھر رہا ہے کہ معاذ اللہ انکار حدیث کی طرح یہ انکار حکم ربانی ہوگا
وَإِذْ تَقُولُ لِلَّذِي أَنْعَمَ اللَّهُ عَلَيْهِ وَأَنْعَمْتَ عَلَيْهِ أَمْسِكْ عَلَيْكَ زَوْجَكَ وَاتَّقِ اللَّهَ وَتُخْفِي فِي نَفْسِكَ مَا اللَّهُ مُبْدِيهِ وَتَخْشَى النَّاسَ وَاللَّهُ أَحَقُّ أَنْ تَخْشَاهُ فَلَمَّا قَضَى زَيْدٌ مِنْهَا وَطَرًا زَوَّجْنَاكَهَا لِكَيْ لَا يَكُونَ عَلَى الْمُؤْمِنِينَ حَرَجٌ فِي أَزْوَاجِ أَدْعِيَائِهِمْ إِذَا قَضَوْا مِنْهُنَّ وَطَرًا وَكَانَ أَمْرُ اللَّهِ مَفْعُولًا
آپ کی پوسٹ کی طرح سوچا جائے تو خاکم بدھن یہ مطلب نکلے گا یعنی آپ صلی اللہ علیہ و سلم اس چیز کو چھپا رہے ہیں جس کو اللہ تبارک و تعالی ظاہر کرنا چاہتے ہیں ۔
اس لئیے پہلے آپ انکار حدیث کا مفہوم اور اس کا حدود اربعہ بتادیں تاکہ بات کو آگے بڑھایا جاسکے

اس بات کا جواب دینے پر میری پوسٹ ڈیلیٹ کردی جائے گی اس لئے آپ ہی دوسرا تھریڈ بنالیں تا کہ اس پر بات ہوسکے
والسلام
پوسٹ نہیں ڈیلیٹ ہوگي ۔علماء دیوبند کیا آپ امام ابو حنیفہ رحمہ اللہ کے متعلق بھی پوسٹ لکھ لیں ، کچھ نہیں ہوگا۔ لیکن میں ابھی کچھ مصروفیات کی بنا پر اس فورم پر ذیادہ نہیں رہ سکتا ۔ ہو سکتا ہے کوئی اور بھائی جواب دے دے۔
 

بہرام

مشہور رکن
شمولیت
اگست 09، 2011
پیغامات
1,173
ری ایکشن اسکور
439
پوائنٹ
132
ابھی تک یہ ہو رہا ہے کہ آپ نے ایک حدیث پیش کی اور میں آپ کے سوالات کا جوابات دیتا رہا ۔ اب آپ نے دوسری حدیث پیش کردی ۔ اس طرح تو یہ ایک لا متناہی سلسلہ شروع ہو جائے گا
پہلے انکار حدیث کے معنی پر اتفاق کرلیتے ہیں پھر دیکھ لیتے ہیں کہ آپ نے جو احادیث پیش کیں وہ اس زمرہ میں آتی ہیں یا نہیں
آپ ذرا تبادیجئیے گا کہ "انکار حدیث " کا کیا حدود اربعہ ہے ؟
انکار حدیث کا مختصر حدود اربعہ
١۔ شریعت میں احادیث کی حجت کا انکار کرنا اور یہ نعرہ لگانہ کہ ہمارے لیے قرآن کافی ہے حسبنا كتاب الله

٢۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی سنت اور احادیث مبارکہ دین میں حجت نہیں ۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے اقوال کو رواج دیکر جو دین میں حجّت ٹہرایا گیا ہے یہ دراصل قرآن مجید کی خلاف عجمی سازش ہے ۔

٣۔ تمام ذخیرہ حدیث کی حثیت تاریخی واقعات سے ذیادہ نہیں ۔

یہ مختصر حدود اربعہ ہے انکار حدیث کا

ذاتی مشاہدہ

رد شیعہ یا بغض اہل بیت کی انتہا ناصبیت اور ناصبیت کی انتہا انکار حدیث ۔
 

بہرام

مشہور رکن
شمولیت
اگست 09، 2011
پیغامات
1,173
ری ایکشن اسکور
439
پوائنٹ
132
وَإِذْ تَقُولُ لِلَّذِي أَنْعَمَ اللَّهُ عَلَيْهِ وَأَنْعَمْتَ عَلَيْهِ أَمْسِكْ عَلَيْكَ زَوْجَكَ وَاتَّقِ اللَّهَ وَتُخْفِي فِي نَفْسِكَ مَا اللَّهُ مُبْدِيهِ وَتَخْشَى النَّاسَ وَاللَّهُ أَحَقُّ أَنْ تَخْشَاهُ فَلَمَّا قَضَى زَيْدٌ مِنْهَا وَطَرًا زَوَّجْنَاكَهَا لِكَيْ لَا يَكُونَ عَلَى الْمُؤْمِنِينَ حَرَجٌ فِي أَزْوَاجِ أَدْعِيَائِهِمْ إِذَا قَضَوْا مِنْهُنَّ وَطَرًا وَكَانَ أَمْرُ اللَّهِ مَفْعُولًا
وَتُخْفِي فِي نَفْسِكَ
یہ بات کہ حضرت زینب اور حضرت زید کی مصالحت نہ ہو سکے گی اور منشاء ایزدی کے تحت وہ طلاق کے بعد اَزواجِ مطہرات میں داخل ہوں گی۔ آیت کے نزول سے پہلے ہی اللہ نے بتادی تھی ۔

سورۃ الاحزاب
وَمَا كَانَ لِمُؤْمِنٍ وَلَا مُؤْمِنَةٍ إِذَا قَضَى اللَّهُ وَرَسُولُهُ أَمْرًا أَن يَكُونَ لَهُمُ الْخِيَرَةُ مِنْ أَمْرِهِمْ وَمَن يَعْصِ اللَّهَ وَرَسُولَهُ فَقَدْ ضَلَّ ضَلَالًا مُّبِينًاO


حضرت عمر کے دفاع میں آپ یہ اعترف فرماچکے ہیں کہ (دیکھئے پوسٹ نمبر ٣١)
اگر یہ لکھنا کسی دینی امر میں سے ہوتا تو یہ آیت نہ اترتی
اليوم أكملت لكم دينكم وأتممت عليكم نعمتي
یہ کیسے ممکن ہے ایک تحریر لکھنے سے رہ گئی ہو پھر بھی دین کی تکمیل کا اعلان ہورہا ہے
یعنی جزوی طور پر آپ بھی انکار حدیث کی زد میں آچکے کہ یہ کہہ کر کہ قرآن کی آیت
اليوم أكملت لكم دينكم وأتممت عليكم نعمتي
نازل ہونے کے بعد کوئی بھی دینی امر باقی نہ رہا اس لئے اس آیت کے نزول کے بعد کی تمام احادیث کا تعلق دینی امر سے نہیں اس لئے حجت نہیں
 

تلمیذ

مشہور رکن
شمولیت
ستمبر 12، 2011
پیغامات
765
ری ایکشن اسکور
1,506
پوائنٹ
191
انکار حدیث کا مختصر حدود اربعہ
آپ نے اانکار حدیث کے متعلق عرض کیا ہے کہ یہ تین نکات پر محیط ہے

١۔ شریعت میں احادیث کی حجت کا انکار کرنا اور یہ نعرہ لگانہ کہ ہمارے لیے قرآن کافی ہے حسبنا كتاب الله
پلی پوسٹ میں جو حدیث پیش کی اس میں حضرت عمر رضی اللہ عنہ نے کوئی حجیت حدیث کا انکار نہیں کیا بلکہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی بیماری کو مد نظر رکھتے ہوئے خلوص کے ساتھ ان کو کچھ لکھنے سے منع کیا تھا جیسے صلح حدیبیہ کے موقع پر حضرت علی کرم اللہ وجھہ نے ادب کی وجہ سے نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کا نام مٹانے سے انکار کیا تھا
حضرت عمر رضی اللہ عنہ کا حسبنا کتاب اللہ کہنا بھی انکار حدیث نہیں ہے ۔ میں پہلے کہ چکا ہوں جو قرآن کو حجت مانے گا وہ حدیث کو ضرور حجت مانے گا اور حجیت حدیث قرآن سے ثابت ہے ۔ اگر حضرت عمر رضی اللہ عنہ کے ہاں حدیث حجت نہ ہوتی تو وہ احادیث کی روایات کیوں کرتے
اگر جس نے بھی حسبنا کتاب اللہ کہا اور وہ آپ کے نذدیک انکار حدیث میں آتا ہے تو یہ عبارت دیکھیئے
اللہ تبارک و تعالی کی کتاب میں اللہ نے ہر چیز کو کھول دیا ہے ۔ کوئی چیز ایسی نہیں جس کی طرف کوئی محتاج ہو مگر اس کو اللہ نے قرآن میں اتارا نہ ہو
اس عبارت کا بھی وہی مطلب ہے جو حسبنا کتاب اللہ کا مطلب ہے ۔ یعنی ہماری ہر حاجت قرآن میں ہے ۔
جس طرح آپ حسبنا کتاب اللہ کا مطلب یہ لے رہیں ہیں کہ اس سے مراد یہ ہے کہ ہمیں حدیث کی ضرورت نہیں تو اوپر بیان کردہ اقتباس سے بھی یہ مطلب نکلے گا ہماری ہر ضرورت قرآن میں ہے اور ہمیں قرآن کے علاوہ کسی چیز کی ضرورت نہیں اور حدیث کی بھی ضرورت نہیں
اگر آپ کی سوچ کے مطابق چلا جائے تو دونوں باتوں کا ایک مطلب نکلتا ہے ۔ حسبنا کتاب اللہ حضرت عمر رضی اللہ عنہ کا قول ہے اور جو عبارت پیش کی وہ ایک ہستی کا قول ہے اس کا نام بعد میں بتائوں گا
کیا آپ یہ سمجھتے ہیں کہ حسبنا کتاب اللہ کا مطلب وہی ہے اوپر پیش ہوا اور اگر اختلاف ہے تو وجہ اختلاف بھی بتائیے گا

٢۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی سنت اور احادیث مبارکہ دین میں حجت نہیں ۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے اقوال کو رواج دیکر جو دین میں حجّت ٹہرایا گیا ہے یہ دراصل قرآن مجید کی خلاف عجمی سازش ہے ۔
حضرت عمر رضی اللہ عنہ نے احادیث رسول صلی اللہ علیہ وسلم کو رواج نہیں کہا ۔ اس لئیے نکتہ ہماری بحث سے خارج ہے
٣۔ تمام ذخیرہ حدیث کی حثیت تاریخی واقعات سے ذیادہ نہیں ۔
حضرت عمر رضی اللہ عنہ نے احادیث رسول صلی اللہ علیہ وسلم کو تاریخی واقعات بھی نہیں کہا اس لغيے یہ نکتہ بھی ہماری بحث سے خارج ہے


حضرت عمر کے دفاع میں آپ یہ اعترف فرماچکے ہیں کہ (دیکھئے پوسٹ نمبر ٣١)


یعنی جزوی طور پر آپ بھی انکار حدیث کی زد میں آچکے کہ یہ کہہ کر کہ قرآن کی آیت
اليوم أكملت لكم دينكم وأتممت عليكم نعمتي
نازل ہونے کے بعد کوئی بھی دینی امر باقی نہ رہا اس لئے اس آیت کے نزول کے بعد کی تمام احادیث کا تعلق دینی امر سے نہیں اس لئے حجت نہیں
اليوم أكملت لكم دينكم وأتممت عليكم نعمتي
جب یہ آيت اتری تو اس پہلے یہ حکم نازل ہوچکا تھا
وما آتاكم الرسول فخذوه وما نهاكم عنه فانتهوا

اس کا مطلب ہے اپنی حیات مبارکہ کے آخری لمحہ تک نبی اکرم صلی اللہ عیلہ وسلم نے جو ارشادات فرمائے وہ ہمارے لئیے حجت ہیں
میں نے پہلے کہا تھا کہ کیسے ممکن ہو ایک تحریر جس کا دین سے تعلق ہے وہ تحریر بھی لکھنے سے رہ گئی اور دین کی تکمیل کا اعلان بھی ہوگيا ۔ اگر وہ تحریر دین کا حصہ تھی تو نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے کیوں نہ وہ تحریر لکھوائی ۔ آپ کے نظریہ کے مطابق نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے معاذ اللہ دین کے پہنچانے میں کوتاہی کی جو نا ممکن ہے
 

بہرام

مشہور رکن
شمولیت
اگست 09، 2011
پیغامات
1,173
ری ایکشن اسکور
439
پوائنٹ
132
آپ نے اانکار حدیث کے متعلق عرض کیا ہے کہ یہ تین نکات پر محیط ہے


پلی پوسٹ میں جو حدیث پیش کی اس میں حضرت عمر رضی اللہ عنہ نے کوئی حجیت حدیث کا انکار نہیں کیا بلکہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی بیماری کو مد نظر رکھتے ہوئے خلوص کے ساتھ ان کو کچھ لکھنے سے منع کیا تھا جیسے صلح حدیبیہ کے موقع پر حضرت علی کرم اللہ وجھہ نے ادب کی وجہ سے نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کا نام مٹانے سے انکار کیا تھا
حضرت عمر رضی اللہ عنہ کا حسبنا کتاب اللہ کہنا بھی انکار حدیث نہیں ہے ۔ میں پہلے کہ چکا ہوں جو قرآن کو حجت مانے گا وہ حدیث کو ضرور حجت مانے گا اور حجیت حدیث قرآن سے ثابت ہے ۔ اگر حضرت عمر رضی اللہ عنہ کے ہاں حدیث حجت نہ ہوتی تو وہ احادیث کی روایات کیوں کرتے
پہلی پوسٹ کی احادیث


عن ابن عباس،‏‏‏‏ ‏‏‏‏ قال لما حضر النبي صلى الله عليه وسلم ـ قال وفي البيت رجال فيهم عمر بن الخطاب ـ قال ‏"‏ هلم أكتب لكم كتابا لن تضلوا بعده ‏"‏‏.‏ قال عمر إن النبي صلى الله عليه وسلم غلبه الوجع وعندكم القرآن،‏‏‏‏ ‏‏‏‏ فحسبنا كتاب الله‏.‏ واختلف أهل البيت واختصموا،‏‏‏‏
صحیح بخاری ، حدیث نمبر : 7366

قال ابن عباس يوم الخميس وما يوم الخميس اشتد برسول الله صلى الله عليه وسلم وجعه فقال ‏"‏ ائتوني أكتب لكم كتابا لن تضلوا بعده أبدا ‏"‏‏.‏ فتنازعوا،‏‏‏‏ ‏‏‏‏ ولا ينبغي عند نبي تنازع،‏‏‏‏ ‏‏‏‏ فقالوا ما شأنه أهجر
صحیح بخاری، حدیث نمبر: 4431

آپ کا صحابہ کے احترام کا عقیدہ
اسی طرح جب صحابہ کرام رضی اللہ عنہم اجمعین کے متلق بات ہو گي اور گرائمر یا قاموس کے لے لحاظ سے ایک سے ذیادہ تشریح ممکن ہو تو وہ ترجمہ اور تشریح لی جائے گي جب ادب سے زیادہ قریب ہو گي
بیان کی گئی دونوں احادیث ایک ہی موقع کی ہے رسول اللہ نے فرمایا " آؤ میں تمہارے لیے ایک ایسا مکتوب لکھ دوں کہ اس کے بعد تم کبھی گمراہ نہ ہو" اس کے جواب میں حدیث اول میں حضرت عمر کے الفاظ ہیں " آنحضرت صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم تکلیف میں مبتلا ہیں‘ تمہارے پاس اللہ کی کتاب ہے اور یہی ہمارے لیے کافی ہے اور دوسری حدیث میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم فرمان کے جواب میں لوگوں نے کہا " بعض لوگو ں نے کہا کہ کیا آپ صلی اللہ علیہ وسلم شدت مرض کی وجہ سے بے معنی کلام فرما رہے ہیں؟ " یہاں حضرت عمر کا ذکر نہیں جبکہ حدیث اول میں صراحت کے ساتھ بیان ہوا کہ رسول اللہ کے فرمان کے جواب میں صرف حضرت عمر نے ہی اپنی رائے تھوپنے کی کوشش کی اور رسول اللہ کی بیماری کا بھی عذر کیا لیکن دوسری حدیث میں جب ایک ایسا جملہ کہا گیا جو کہ خلاف ادب رسول تھا تو اس کی نسبت حضرت عمر کی بجائے لوگوں کی طرف موڑ دی گئی اور جملے کو سوالیہ انکاریہ بنادیا گیا آپ کے اس عقیدہ کے مطابق کہ" جب صحابہ( یعنی صرف صحابہ اللہ اور اس کے رسول نہیں ) کے متلق بات ہو گي اور گرائمر یا قاموس کے لے لحاظ سے ایک سے ذیادہ تشریح ممکن ہو تو وہ ترجمہ اور تشریح لی جائے گي جو ادب سے زیادہ قریب ہو گي"
انا للہ وانا الیہ راجعون

ابووائل رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ صلح حدیبیہ کے موقعہ پرنبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم اور مشرکین کے درمیان جب معاہدہ طے پاگیا تو حضرت عمر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے پاس آئے اور کہا کیا ہم حق پر نہیں ہیں؟ اور کیا کفار باطل پر نہیں ہیں؟ کیا ہمارے مقتولین جنت میں نہیں جائیں گے اور کیا ان کے مقتولین دوزخ میں نہیں جائیں گے؟ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ کیوں نہیں! عمر رضی اللہ عنہ نے کہا پھر ہم اپنے دین کے بارے میں ذلت کا مظاہرہ کیوں کریں (یعنی دب کر صلح کیوں کریں) اور کیوں واپس جائیں، جبکہ اللہ تعالیٰ نے ہمیں اس کا حکم فرمایا ہے۔ حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا اے ابن خطاب! میں اللہ کا رسول ہوں اور اللہ تعالیٰ مجھے کبھی ضائع نہیں کرے گا۔ عمر رضی اللہ عنہ آنحضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے پاس سے واپس آ گئے ان کو غصہ آ رہا تھا۔
صحیح بخاری ،کتاب التفسیر ،حدیث نمبر : 4844
اس حدیث میں حضرت عمر حدیث رسول کے جواب میں اللہ کے قرآن کی بات کررہےہیں یعنی وَقَاتِلُوهُمْ حَتَّى لاَ تَكُونَ فِتْنَةٌ کیا اب بھی کسی مزید دلیل کی ضرورت ہے
 

بہرام

مشہور رکن
شمولیت
اگست 09، 2011
پیغامات
1,173
ری ایکشن اسکور
439
پوائنٹ
132
اگر جس نے بھی حسبنا کتاب اللہ کہا اور وہ آپ کے نذدیک انکار حدیث میں آتا ہے تو یہ عبارت دیکھیئے

اس عبارت کا بھی وہی مطلب ہے جو حسبنا کتاب اللہ کا مطلب ہے ۔ یعنی ہماری ہر حاجت قرآن میں ہے ۔
جس طرح آپ حسبنا کتاب اللہ کا مطلب یہ لے رہیں ہیں کہ اس سے مراد یہ ہے کہ ہمیں حدیث کی ضرورت نہیں تو اوپر بیان کردہ اقتباس سے بھی یہ مطلب نکلے گا ہماری ہر ضرورت قرآن میں ہے اور ہمیں قرآن کے علاوہ کسی چیز کی ضرورت نہیں اور حدیث کی بھی ضرورت نہیں
اگر آپ کی سوچ کے مطابق چلا جائے تو دونوں باتوں کا ایک مطلب نکلتا ہے ۔ حسبنا کتاب اللہ حضرت عمر رضی اللہ عنہ کا قول ہے اور جو عبارت پیش کی وہ ایک ہستی کا قول ہے اس کا نام بعد میں بتائوں گا
کیا آپ یہ سمجھتے ہیں کہ حسبنا کتاب اللہ کا مطلب وہی ہے اوپر پیش ہوا اور اگر اختلاف ہے تو وجہ اختلاف بھی بتائیے گا
مَا فَرَّطْنَا فِی الْکِتٰبِ مِنْ شَیْئٍ.(الانعام)
وَتَفْصِیْلَ کُلِّ شَیْءٍ (یوسف)
وَنَزَّلْنَا عَلَیْکَ الْکِتٰبَ تِبْیَانًا لِّکُلِّ شَیْءٍ وَّہُدًی وَّرَحْمَۃً وَّبُشْرٰی لِلْمُسْلِمِیْنَ.(النحل)
وَکُلَّ شَیْءٍ فَصَّلْنٰہُ تَفْصِیْلًا.(بنی اسرائیل)
وَالَّذِينَ يَرْمُونَ الْمُحْصَنَاتِ ثُمَّ لَمْ يَأْتُوا بِأَرْبَعَةِ شُهَدَاءَ فَاجْلِدُوهُمْ ثَمَانِينَ جَلْدَةً وَلَا تَقْبَلُوا لَهُمْ شَهَادَةً أَبَدًا وَأُولَٰئِكَ هُمُ الْفَاسِقُونَ ( نور)
یہاں یہ بات یاد رکھنے کی ہے کہ ہر چیز کی تفصیل قرآن میں موجود ہے لیکن اس کو سمجھنے کے لئے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم اور ان کے وارث حقیقی مولا علی علیہ اسلام جیسی بصیرت چاہئے دیگر لوگوں کی طرح نہیں کہ انہیں قرآن کے واضع احکامات بھی معلوم نہ ہو حاملہ اور مجنوں عورت پر حد جاری کرنےکے اوریہ بھی معلوم نہ ہو کہ عورت اگر شادی کے ٦ ماہ کے بعد بچے کو جنم دے تو اس پر حد جاری نہیں کی جاسکتی اور مجبور ہوکر انہیں یہ اعلان کرنا پڑے کہ لولاعلی لھلک عمر
قرآن کی اتنی سمجھ کے باوجود مولا علی علیہ السلام نے یہ کبھی نہیں کہا قرآن ہمارے لئے کافی ہے یہ تو انہی لوگوں کا دعویٰ ہے جو قرآن کے واضع احکامات کا بھی علم نہیں رکھتے

اللہ اعلم و رسولہ اعلم
 

بہرام

مشہور رکن
شمولیت
اگست 09، 2011
پیغامات
1,173
ری ایکشن اسکور
439
پوائنٹ
132
رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی سنت اور احادیث مبارکہ دین میں حجت نہیں ۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے اقوال کو رواج دیکر جو دین میں حجّت ٹہرایا گیا ہے یہ دراصل قرآن مجید کی خلاف عجمی سازش ہے ۔
حضرت عمر رضی اللہ عنہ نے احادیث رسول صلی اللہ علیہ وسلم کو رواج نہیں کہا ۔ اس لئیے نکتہ ہماری بحث سے خارج ہے
لیکن روایت تو کچہ اور کہتی ہے

أن رجلا أتى عمر فقال : إني أجنبت فلم أجد ماء . فقال : لا تصل . فقال عمار : أما تذكر ، يا أمير المؤمنين ! إذ أنا وأنت في سرية فأجنبنا . فلم نجد ماء . فأما أنت فلم تصل . وأما أنا فتمعكت في التراب وصليت . فقال النبي صلى الله عليه وسلم " إنما كان يكفيك أن تضرب بيديك الأرض . ثم تنفخ . ثم تمسح بهما وجهك وكفيك " فقال عمر : اتق الله . يا عمار ! قال : إن شئت لم أحدث به . قال الحكم : وحدثنيه ابن عبدالرحمن بن أبزي عن أبيه ، مثل حديث ذر . قال : وحدثني سلمة عن ذر ، في هذا الإسناد الذي ذكر الحكم . فقال عمر : نوليك ما توليت . وفي رواية : أن رجلا أتى عمر فقال : إني أجنبت فلم أجد ماء . وساق الحديث . وزاد فيه : قال عمار : يا أمير المؤمنين ! إن شئت ، لما جعل الله علي من حقك ، لا أحدث به أحدا .
الراوي: عبدالرحمن بن أبزى المحدث: مسلم - المصدر: صحيح مسلم - الصفحة أو الرقم: 368
خلاصة حكم المحدث: صحيح
 

اعتصام

مشہور رکن
شمولیت
فروری 09، 2012
پیغامات
483
ری ایکشن اسکور
725
پوائنٹ
130
اس سے پہلے بہرام صاحب سے کچھ گفتگو ہو رہی تھی ، جس میں ا ھجر کے لفظ اور اختلاف صحابہ رضی اللہ عنہم اجمیعن کے حوالہ سے بات کی۔ اس سلسلے میں بہرام صاحب سے بات چلے گي ان شاء اللہ

فی الحال اعتصام صاحب نے موضوع سے متعلق کچھ نکات اٹھائے ہیں ، اہل علم جو مجلس میں موجود ہیں اس حوالہ سے کچھ عرض کریں گے لیکن میں اپنی تحقیق کے مطابق کچھ عرض کرنا چاہتا ہوں اگر حق ہے تو اللہ تبارک و تعالی کی طرف سے ہے اور اگر کچھ غلطی پر ہوں تو اللہ تبارک و تعالی سے معافی کا طلبگار ہوں

اللہ تبارک و تعالی قرآن مجید میں فرماتے ہیں

يَا أَيُّهَا الرَّسُولُ بَلِّغْ مَا أُنزِلَ إِلَيْكَ مِن رَّبِّكَ وَإِن لَّمْ تَفْعَلْ فَمَا بَلَّغْتَ رِسَالَتَهُ وَاللّهُ يَعْصِمُكَ مِنَ النَّاسِ إِنَّ اللّهَ لاَ يَهْدِي الْقَوْمَ الْكَافِرِينَ

یہ بات ناممکنات میں سے ہے کہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ و سلم حضرت عمر رضی اللہ عنہ کے منع کرنے سے حق بیان کرنے سے رک جائین ، کیوں کہ ارشاد ہو چکا ہے

يَا أَيُّهَا الرَّسُولُ بَلِّغْ مَا أُنزِلَ إِلَيْكَ مِن رَّبِّكَ وَإِن لَّمْ تَفْعَلْ فَمَا بَلَّغْتَ رِسَالَتَه

اس لئیےخاکم بدہن اگر بالفرض نبی اکرم صلی اللہ علیہ و سلم حضرت عمر رضی اللہ عنہ کے منع کرنے سے رک گئے تھے تو انہوں نبوت کا حق ادا نہیں کیا اور یہ بات نا ممکن ہے ویسے بھی اللہ تبارک و تعالی کہ چکا ہے (

وَاللّهُ يَعْصِمُكَ مِنَ النَّاسِ
اس لئیے یہ بھی نا ممکن ہے کسی حق بات کو کسی کے بھی ڈر سے نبی اکرم صلی اللہ علیہ و سلم حق بات بیان کرنے سے رہ جائیں کیوں نبی اکرم صلی اللہ علیہ و سلم کی حفاظت کا ذمہ اللہ تبارک و تعالی نے لیا ہے(1)

سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ نبی اکرم صلی اللہ و علیہ وسلم نے حضرت عمر رضی اللہ عنہ کے منع کرنے کے بعد وہ مکتوب کیوں نہ لکھا(2) اور نبی اکرم صلی اللہ علیہ و سلم نے صرف حضرت عمر رضی اللہ عنہ کو باہر جانے کا کیوں نہ کہا اور قوموا عنی کیوں کہا(3)
اس سے کچھ امور ثابت ہوتے ہیں
اول نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کا حضرت عمر رضی اللہ عنہ کے منع کرنے سے کچھ لکھنے سے رک جانا اس بات کی علامت ہے نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم حضرت عمر کی رائے سے متفق ہوچکے تھے (4) ورنہ وَإِن لَّمْ تَفْعَلْ فَمَا بَلَّغْتَ رِسَالَتَه کہلائے گا (5)اور یہ ناممکنات میں سے ہے۔
دوم اگر یہ انکار حدیث ہوتا تو کیسے ممکن ہے کہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے سامنے کوئی منکر امر اور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم سکوت فرمائيں ۔(6) نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کا حضرت عمر رضی اللہ عنہ کو کوئی تنبیہ نہ کرنا اس بات کی دلیل ہے یہاں کوئی انکار حدیث نہیں(7)
سوم اگر یہ لکھنا کسی دینی امر میں سے ہوتا تو یہ آیت نہ اترتی(8)
اليوم أكملت لكم دينكم وأتممت عليكم نعمتي
یہ کیسے ممکن ہے ایک تحریر لکھنے سے رہ گئی ہو پھر بھی دین کی تکمیل کا اعلان ہورہا ہے


جہاں تک حضرت عمر رضی اللہ عنہ کا رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم کو لکھنے سے منع کرنے کا تعلق ہے تو ایک اور حدیث ملاحظہ فرمائیں
حَدَّثَنَا أَبُو مُحَمَّدٍ ، ثَنَا أَبُو يَعْلَى ، ثَنَا أَبُو خَيْثَمَةَ ، ثَنَا عُمَرُ بْنُ يُونُسَ الْحَنَفِيُّ ، حَدَّثَنِي عِكْرِمَةُ بْنُ عَمَّارٍ ، حَدَّثَنِي أَبُو كَثِيرٍ وَاسْمُهُ يَزِيدُ بْنُ عَبْدِ الرَّحْمَنِ ، حَدَّثَنِي أَبُو هُرَيْرَةَ ، قَالَ : كُنَّا قُعُودًا حَوْلَ رَسُولِ اللَّهِ مَعَنَا أَبُو بَكْرٍ ، وَعُمَرُ فِي نَفَرٍ ، فَقَامَ نَبِيُّ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ مِنْ بَيْنَ أَظْهُرِنَا فَأَبْطَأَ عَلَيْنَا ، وَخَشِينَا أَنْ يُقْتَطَعَ دُونَنَا ، وَفَزِعْنَا وَقُمْنَا ، وَكُنْتُ أَوَّلَ مَنْ فَزِعَ ، فَخَرَجْتُ أَتْبَعُ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ حَتَّى أَتَيْتُ حَائِطًا لِلأَنْصَارِ لِبَنِي النَّجَّارِ فَدُرْتُ بِهِ هَلْ أَجِدُ لَهُ بَابًا فَلَمْ أَجِدْ ، وَإِذَا رَبِيعٌ يَدْخُلُ فِي جَوْفِ الْحَائِطِ مِنْ بِئْرِ خَارِجَةَ وَالرَّبِيعُ الْجَدْوَلُ فَاحْتَرَفْتُ فَدَخَلْتُ عَلَى رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ ، فَقَالَ : " أَبُو هُرَيْرَةَ ؟ " ، قُلْتُ : نَعَمْ يَا رَسُولَ اللَّهِ ، " مَا شَأْنُكَ ؟ " ، قُلْتُ : كُنْتَ بَيْنَ ظَهْرَيْنَا فَقُمْتَ فَأَبْطَأْتَ عَلَيْنَا فَخَشِينَا أَنْ تُقْتَطَعَ دُونَنَا فَفَزِعْنَا ، فَكُنْتُ أَوَّلَ مَنْ فَزِعَ فَأَتَيْتُ هَذَا الْحَائِطَ فَاحْتَفَرْتُ كَمَا يَحْتَفِرُ الثَّعْلَبُ وَهَؤُلاءِ النَّاسُ وَرَائِي ، قَالَ : " يَا أَبَا هُرَيْرَةَ " ، وَأَعْطَانِي نَعْلَيْهِ ، وَقَالَ : " اذْهَبْ بِنَعْلَيَّ هَاتَيْنِ فَمَنْ لَقِيتَ مِنْ وَرَاءِ هَذَا الْحَائِطِ يَشْهَدُ أَنْ لا إِلَهَ إِلا اللَّهُ مُسْتَيْقِنًا بِهَا مِنْ قَلْبِهِ فَبَشِّرْهُ بِالْجَنَّةِ " ، فَكَانَ أَوَّلَ مَنْ لَقِيتُ عُمَرَ ، فَقَالَ : مَا هَاتَانِ النَّعْلانِ يَا أَبَا هُرَيْرَةَ ؟ ، فَقُلْتُ : هَاتَيْنِ نَعْلَيْ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ بَعَثَنِي بِهِمَا فَمَنْ لَقِيتُ مِنْ وَرَاءِ هَذَا الْحَائِطِ يَشْهَدُ أَنْ لا إِلَهَ إِلا اللَّهُ مُسْتَيْقِنًا بِهِ قَلْبُهُ بَشَّرْتُهُ بِالْجَنَّةَ ، قَالَ : فَضَرَبَ عُمَرُ بِيَدِهِ بَيْنَ ثَدْيَيَّ فَخَرَرْتُ لاسْتِي (9)، وَقَالَ : ارْجَعْ يَا أَبَا هُرَيْرَةَ ، فَرَجَعْتُ إِلَى النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ ، فَأَجْهَشْتُ بِالْبُكَاءِ ، وَرَكِبَنِي عُمَرُ ، وَإِذَا هُوَ عَلَى أَثَرِي ، فَقَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ : " مَا لَكَ يَا أَبَا هُرَيْرَةَ ؟ " ، فَقُلْتُ : لَقِيتُ عُمَرَ ، فَأَخْبَرْتُهُ بِالَّذِي بَعَثْتَنِي بِهِ فَضَرَبَ بَيْنَ ثَدْيَيَّ ضَرْبَةً خَرَرْتُ لاسْتِي ، فَقَالَ : ارْجَعْ ، فَقَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ (لعمر): " مَا حَمَلَكَ عَلَى مَا فَعَلْتَ ؟ " ، قَالَ : يَا رَسُولَ اللَّهِ ، بِأَبِي أَنْتَ وَأُمِّي بَعَثْتَ أَبَا هُرَيْرَةَ بِنَعْلَيْكَ مَنْ لَقِيَ يَشْهَدُ أَنْ لا إِلَهَ إِلا اللَّهُ مُسْتَيْقِنًا بِهَا قَلْبُهُ تُبَشِّرُهُ بِالْجَنَّةِ ، قَالَ : " نَعَمْ " ، قَالَ : فَلا تَفْعَلْ ، فَأَنِّي أَخْشَى أَنْ يَتَّكِلَ النَّاسُ عَلَيْهَا فَخَلِّهِمْ يَعْمَلُونَ ، فَقَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ : " خَلِّهِمْ " ، رَوَاهُ مُسْلِمُ ، عَنْ أَبِي خَيْثَمَةَ .
یہاں بھی نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے ابو ھریرہ رضی اللہ عنہ کو بات بتائی لوگوں کوبتائیں جس کا مفہوم ہے کہ میری یہ جوتیاں لے کرجائو اور جو بھی اس باغ سے باہر تمہیں ملے اور وہ اللہ تبارک و تعالی کی وحدانیت کی گواہی دے اور اس کا دل سے بھی اس پر یقین ہو تو اس کو جنت کی بشارت دو لیکن حضرت عمر رضي اللہ عنہ نے بتانے سے منع کیااور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے بھی حضرت عمر رضی اللہ عنہ کی بات کو قبول کیا
نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کو ایک کام سے حضرت عمر رضی اللہ عنہ نے منع فرمایا (10)تو نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم ان رائے سے متفق ہو گئے ۔
تو جو حدیث زیر بحث ہے اس میں بھی نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کہ سکتے تھے کہ حضرت عمر رضی اللہ عنہ کو کمرے سے نکال دو ور پھر وہ تحریر لکھوا لیتے۔ لیکن ایسا کچھ نہ ہوا تو مجھے تو یہ معلوم ہوتا کہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم حضرت عمر کی رائے سے یہاں بھی متفق ہوچکے تھے
و اللہ اعلم بالصواب
حضرت عمر رضی اللہ عنہ کا حسبنا کتاب اللہ کہنا کچھ غلط نہیں ۔ اصل میں منکریں حدیث کی طرف اس نعرے نے کچھ افراد کو اس حوالہ سے شک میں ڈال دیا ہے ورنہ یہ جملہ بالکل صحیح ہے جو قران کو مانے وہ حدیث کو ضرور مانے گا کیوں کہ حجیت حدیث قرآن سے ثابت ہے(11)
سب سے پہلے عرض یہ ہے کہ آپ نے میری سرخ کردہ عبارات غور سے نہیں پڑھی۔۔۔
دوسری بات یہ کہ آپ بھر بھی اپنی ہی عبارتیں جن کو میں نے سرخ کیا ہے غور پڑہیں پہر میرے جوابات پڑہیں۔۔۔۔

جوابات:
(1) 1ـ یہ آیت کسی عام حکم کے لیے نہیں بلکہ خاص حکم کے لیے ہی ہو سکتی ہے (إِن لَّمْ تَفْعَلْ فَمَا بَلَّغْتَ رِسَالَتَه
اور وَاللّهُ يَعْصِمُكَ مِنَ النَّاسِ اسی بات کی طرف ہی اشارہ ہے۔۔۔۔
2ـ تو پھر آپ کی بات تب درست ہوتی جب حدیث میں یہ الفاظ نا ہوتے(لن تضلوا بعده) (ن الرزية كل الرزية ما حال بين رسول الله صلى الله عليه وسلم وبين أن يكتب۔)
3ـ کتاب کے باب کا عنوان ہے(احکام شرع میں جھگڑا کرنے کی کراہت کا بیان) اس سے معلوم ہوتا ہے کہ یہ حدیث احکام کے لیے لکھی جا رہی تھی۔۔۔
تو اب آپکا اعتراض بخاری یا حضرت ابن عباس رضی اللہ عنہ پر ہوتا ہر ہم پر نہیں۔۔۔

(2)
1ـاس لیے کہ ھذیان کی فتوی آ چکی تھی تو بہانہ جو لوگ بعد میں ھر حدیث کے لیے یہی کہہ دیتے کہ یہ حدیث معاذاللہ ھذیان کے وقت کی ہے!!!!
2ـ ہمارا مدعی انکار حدیث ہے تو وہ سرزد ہوا ہے عمر سے۔۔۔۔ اگر ضروری نہیں تھی تو آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے یہ کیوں فرمایا کہ لن تضلوا بعده؟
3ـ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم اولا مکے کے لیے آئے تھے پر پھر ھجرت پر مجبور کیوں ہوئے؟ کیا مکہ والوں کو تبلیغ کرنا ضروری نہیں تھی؟ فافھم جیدا

(3)
کیونکہ حضرت عمر ایک نہیں بلکہ ایک گروپ تھا۔۔۔کہتے ہیں مان بیٹی کو مار کر بہو کو سمجھاتی ہے بر حال یہ بھی اعتراض بخاری پر ہی ہے۔۔۔

(4)
1ـ یاد رہے کہ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم لن تضلوا فرما چکے ہیں تو کیا اتنی بڑی بات ایسے ہی کہہ ڈالی ؟!!! پھر اسکے بعد حضرت عمر سے متفق ہونا ایک سید الانبیاء نبی کے لیے بہت ہی عجیب ہے۔۔۔
2ـ کیا احکام شرع میں بھی آپ غلط بیانی کردیتے تھے پھر ھضرت عمر نے جو کہہ دیا اسی پر چل پڑے؟! نبی ایسے ہوتے ہیں؟!

(5)
اس کا جواب لن تضلوا ہے۔۔۔۔

(6)
1ـ یہی تو تقیہ ہے۔
2ـیہ نئی بات نہیں ایسا پہلے بھی ہوتا رہا ہے۔۔۔۔( انْظُرُوا مَا آمُرُكُمْ بِهِ فَافْعَلُوا " . فَرَدُّوا عَلَيْهِ الْقَوْلَ ، فَغَضِبَ ، ثُمَّ انْطَلَقَ حَتَّى دَخَلَ عَلَى عَائِشَةَ غَضْبَانَ ، فَرَأَتْ الْغَضَبَ فِي وَجْهِهِ ، فَقَالَتْ : مَنْ أَغْضَبَكَ أَغْضَبَهُ اللَّهُ ؟ قَالَ : " وَمَا لِي لَا أَغْضَبُ وَأَنَا آمُرُ بِالْأَمْرِ فَلَا أُتَّبَعُ " .)

(7)
لشدۃ عمر

(8)
1ـ آپ تو خود بخاری کو جھٹلا رہیں ہیں جس نے باب کا عنوان ہی احکام شرع رکھا ہے۔۔۔!
وفات سے قبل نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی ایک اہم وصیت
اپنی وفات سے پانج دن قبل:
سَمِعْتُ النَّبِىَّ -صلى الله عليه وسلم- قَبْلَ أَنْ يَمُوتَ بِخَمْسٍ وَهُوَ يَقُولُ « 0000 أَلاَ وَإِنَّ مَنْ كَانَ قَبْلَكُمْ كَانُوا يَتَّخِذُونَ قُبُورَ أَنْبِيَائِهِمْ وَصَالِحِيهِمْ مَسَاجِدَ أَلاَ فَلاَ تَتَّخِذُوا الْقُبُورَ مَسَاجِدَ إِنِّى أَنْهَاكُمْ عَنْ ذَلِكَ . مسلم:532 المساجد، الطبراني الكبير:1686، بروايت جندب بن عبدالله البجلي.
حضرت جندب بن عبداللہ البجلی رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ نبی صلی اللہ علیہ و سلم کی وفات سے پانچ دن قبل میں نے سنا آپ فرما رہے تھے۰۰۰۰۰
بیماری کے بالکل آخری ایام اور آخری لحظات میں:
لَمَّا نَزَلَ بِرَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ طَفِقَ يَطْرَحُ خَمِيصَةً لَهُ عَلَى وَجْهِهِ فَإِذَا اغْتَمَّ بِهَا كَشَفَهَا عَنْ وَجْهِهِ فَقَالَ وَهُوَ كَذَلِكَ لَعْنَةُ اللَّهِ عَلَى الْيَهُودِ وَالنَّصَارَى اتَّخَذُوا قُبُورَ أَنْبِيَائِهِمْ مَسَاجِدَ يُحَذِّرُ مَا صَنَعُوا. صحيح البخاري :435 الصلاة، صحيح مسلم: 531 المساجد، مسند احمد1/218و6/275، سنن النسائي 2/40.
حضرت عاٗشہ ؓ بیان کرتی ہیں کہ جب نبی صلی اللہ علیہ و سلم پر مرض موت کی کیفیت طاری تھی تو۔۔۔۔۔۔

اس حدیث کو تو آیہ اکمال کے ذریعے جھٹلاو۔۔۔!


(9) اس روایت میں سرخ عبارت کا بھ ترجمہ کریں ذرا۔۔۔۔۔۔۔البتہ مسلم بن کر ترجمہ کرنا ہے۔۔۔
جہاں تک حضرت عمر رضی اللہ عنہ کا رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم کو لکھنے سے منع کرنے کا تعلق ہے تو ایک اور حدیث ملاحظہ فرمائیں
حَدَّثَنَا أَبُو مُحَمَّدٍ ، ثَنَا أَبُو يَعْلَى ، ثَنَا أَبُو خَيْثَمَةَ ، ثَنَا عُمَرُ بْنُ يُونُسَ الْحَنَفِيُّ ، حَدَّثَنِي عِكْرِمَةُ بْنُ عَمَّارٍ ، حَدَّثَنِي أَبُو كَثِيرٍ وَاسْمُهُ يَزِيدُ بْنُ عَبْدِ الرَّحْمَنِ ، حَدَّثَنِي أَبُو هُرَيْرَةَ ، قَالَ : كُنَّا قُعُودًا حَوْلَ رَسُولِ اللَّهِ مَعَنَا أَبُو بَكْرٍ ، وَعُمَرُ فِي نَفَرٍ ، فَقَامَ نَبِيُّ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ مِنْ بَيْنَ أَظْهُرِنَا فَأَبْطَأَ عَلَيْنَا ، وَخَشِينَا أَنْ يُقْتَطَعَ دُونَنَا ، وَفَزِعْنَا وَقُمْنَا ، وَكُنْتُ أَوَّلَ مَنْ فَزِعَ ، فَخَرَجْتُ أَتْبَعُ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ حَتَّى أَتَيْتُ حَائِطًا لِلأَنْصَارِ لِبَنِي النَّجَّارِ فَدُرْتُ بِهِ هَلْ أَجِدُ لَهُ بَابًا فَلَمْ أَجِدْ ، وَإِذَا رَبِيعٌ يَدْخُلُ فِي جَوْفِ الْحَائِطِ مِنْ بِئْرِ خَارِجَةَ وَالرَّبِيعُ الْجَدْوَلُ فَاحْتَرَفْتُ فَدَخَلْتُ عَلَى رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ ، فَقَالَ : " أَبُو هُرَيْرَةَ ؟ " ، قُلْتُ : نَعَمْ يَا رَسُولَ اللَّهِ ، " مَا شَأْنُكَ ؟ " ، قُلْتُ : كُنْتَ بَيْنَ ظَهْرَيْنَا فَقُمْتَ فَأَبْطَأْتَ عَلَيْنَا فَخَشِينَا أَنْ تُقْتَطَعَ دُونَنَا فَفَزِعْنَا ، فَكُنْتُ أَوَّلَ مَنْ فَزِعَ فَأَتَيْتُ هَذَا الْحَائِطَ فَاحْتَفَرْتُ كَمَا يَحْتَفِرُ الثَّعْلَبُ وَهَؤُلاءِ النَّاسُ وَرَائِي ، قَالَ : " يَا أَبَا هُرَيْرَةَ " ، وَأَعْطَانِي نَعْلَيْهِ ، وَقَالَ : " اذْهَبْ بِنَعْلَيَّ هَاتَيْنِ فَمَنْ لَقِيتَ مِنْ وَرَاءِ هَذَا الْحَائِطِ يَشْهَدُ أَنْ لا إِلَهَ إِلا اللَّهُ مُسْتَيْقِنًا بِهَا مِنْ قَلْبِهِ فَبَشِّرْهُ بِالْجَنَّةِ " ، فَكَانَ أَوَّلَ مَنْ لَقِيتُ عُمَرَ ، فَقَالَ : مَا هَاتَانِ النَّعْلانِ يَا أَبَا هُرَيْرَةَ ؟ ، فَقُلْتُ : هَاتَيْنِ نَعْلَيْ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ بَعَثَنِي بِهِمَا فَمَنْ لَقِيتُ مِنْ وَرَاءِ هَذَا الْحَائِطِ يَشْهَدُ أَنْ لا إِلَهَ إِلا اللَّهُ مُسْتَيْقِنًا بِهِ قَلْبُهُ بَشَّرْتُهُ بِالْجَنَّةَ ، قَالَ : فَضَرَبَ عُمَرُ بِيَدِهِ بَيْنَ ثَدْيَيَّ فَخَرَرْتُ لاسْتِي ، وَقَالَ : ارْجَعْ يَا أَبَا هُرَيْرَةَ ، فَرَجَعْتُ إِلَى النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ ، فَأَجْهَشْتُ بِالْبُكَاءِ ، وَرَكِبَنِي عُمَرُ ، وَإِذَا هُوَ عَلَى أَثَرِي ، فَقَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ : " مَا لَكَ يَا أَبَا هُرَيْرَةَ ؟ " ، فَقُلْتُ : لَقِيتُ عُمَرَ ، فَأَخْبَرْتُهُ بِالَّذِي بَعَثْتَنِي بِهِ فَضَرَبَ بَيْنَ ثَدْيَيَّ ضَرْبَةً خَرَرْتُ لاسْتِي ، فَقَالَ : ارْجَعْ ، فَقَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ (لعمر): " مَا حَمَلَكَ عَلَى مَا فَعَلْتَ ؟ " ، قَالَ : يَا رَسُولَ اللَّهِ ، بِأَبِي أَنْتَ وَأُمِّي بَعَثْتَ أَبَا هُرَيْرَةَ بِنَعْلَيْكَ مَنْ لَقِيَ يَشْهَدُ أَنْ لا إِلَهَ إِلا اللَّهُ مُسْتَيْقِنًا بِهَا قَلْبُهُ تُبَشِّرُهُ بِالْجَنَّةِ ، قَالَ : " نَعَمْ " ، قَالَ : فَلا تَفْعَلْ ، فَأَنِّي أَخْشَى أَنْ يَتَّكِلَ النَّاسُ عَلَيْهَا فَخَلِّهِمْ يَعْمَلُونَ ، فَقَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ : " خَلِّهِمْ " ، رَوَاهُ مُسْلِمُ ، عَنْ أَبِي خَيْثَمَةَ .


1ـاس میں ابوہریرہ کا قصور کیا تھا؟ کیا حضرت عمر کے پاس کوئی دلیل شرعی تھی ابوہریرہ کو مارنے پر؟!!!
2ـ کم از کم عمر کلمہ تو پڑھ لیتا!!!
3ـ یہ آپ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَآلہ وسَلَّمَ کے سامنے فَلا تَفْعَلْ کا معنی کیا ہے؟
بس کس کس بات پر روئے ہم؟!!!


(10) یہ آپ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَآلہ وسَلَّمَ کے لیے حضرت عمر کا فرمانا فرمانا فرمانا اس سے آپ کے عقیدہ کو پرکھیں یا آپ صلعم کی توہیں سمجھیں؟

(11) یہ استدلال کہاں سے کیا؟ جبکہ حضرت عمر نے ہی آپ کے استدلال کو رد کردیا کہ حسبنا کتاب اللہ اور پھر اھل حدیث کے بجائے اھل کتاب کہلوایا کریں نا۔۔۔
یاد رہے کہ کہ بخاری خود نے ہی کتاب اور سنۃ کر نام سے اس کتاب کو موسوم کیا ہے۔۔۔۔ فقط کتاب اکاعتصام بالکتاب ہی کہہ دیتے۔۔۔۔
جو نماز پڑہے گا وہ روزے بھی رکھے گا لھذا آپ کے مطابق روزے کا حکم عبث ہے و قس علی ھذا۔۔۔۔
 
Top