جب رسول صلی علیہ وسلم مکہ سے مدینہ پہنچے تو اہل مدینہ نے گھروں سے نکل کر آپ ﷺ کا استقبال کیا ،
کیا یہ جلوس کی اصل ہے۔؟
پہلے یہ حدیث مکمل دیکھیں :
عن البراء، قال: اشترى أبو بكر من أبي رحلا بثلاثة عشر درهما، وساق الحديث، بمعنى حديث زهير، عن أبي إسحاق وقال في حديثه من رواية عثمان بن عمر: فلما دنا دعا عليه رسول الله صلى الله عليه وسلم، فساخ فرسه في الأرض إلى بطنه، ووثب عنه، وقال: يا محمد قد علمت أن هذا عملك، فادع الله أن يخلصني مما أنا فيه، ولك علي لأعمين على من ورائي، وهذه كنانتي، فخذ سهما منها، فإنك ستمر على إبلي وغلماني بمكان كذا وكذا، فخذ منها حاجتك، قال: «لا حاجة لي في إبلك» فقدمنا المدينة ليلا، فتنازعوا أيهم ينزل عليه رسول الله صلى الله عليه وسلم، فقال: «أنزل على بني النجار، أخوال عبد المطلب، أكرمهم بذلك» فصعد الرجال والنساء فوق البيوت، وتفرق الغلمان والخدم في الطرق، ينادون: يا محمد يا رسول الله يا محمد يا رسول الله ‘‘
(صحیح مسلم:کتاب الزہد ، حدیث الھجرۃ )
ترجمہ :
سیدنا براء رضی اللہ عنہ (نبی کریم ﷺ کی مکہ سے مدینہ ہجرت کا واقعہ ) روایت کرتے ہوئے فرماتے ہیں :
کہ سیدنا ابوبکر (رضی اللہ عنہ) نے میرے والد سے تیرہ درہم پر ایک کجاوہ خریدا (سفر ہجرت شروع کیا، جس کی تفصیل اس سے پہلے والی حدیث میں مذکور ہے، اس سفر میں سراقہ بن مالک نےآپ کا پیچھا کیا )
جب سراقہ بن مالک قریب آگیا تو رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے اس کے لئے بد دعا فرمائی اور اس کا گھوڑا اپنے پیٹ تک زمین میں دھنس گیا سراقہ اپنے اس گھوڑے سے کو دا اور کہنے لگا اے محمد مجھے معلوم ہے کہ یہ آپ کا کام ہے اس لئے آپ اللہ سے دعا فرمائیں کہ وہ مجھے اس تکلیف سے نجات دے دے اور میں آپ سے وعدہ کرتا ہوں کہ جو میرے پیچھے آرہے ہیں میں ان سے آپ کا حال چھپاؤں گا اور میرے اس ترکش سے ایک تیر لے لیں اور آپ کو فلاں فلاں مقام پر میرے اور میرے اونٹ اور غلام ملیں گے ان میں سے جتنی آپ کو ضرورت ہو آپ لے لیں آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا مجھے تیرے اونٹوں کی کوئی ضرورت نہیں پھر ہم رات کو مدینہ منورہ پہنچ گئے تو لوگ اس بات میں جھگڑنے لگے کہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کس جگہ اتریں آپ نے فرمایا میں قبیلہ بنی نجار کے پاس اتروں گا وہ عبدالمطب کے ننھیال تھے آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے ان کو عزت دی پھر مرد اور عورتیں گھروں کے اوپر چڑھے اور لڑکے اور غلام راستوں میں پھیل گئے اور یہ پکارنے لگے اے محمد اے اللہ کے رسول اے محمد اے اللہ کے رسول (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) ۔ انتہی (صحیح مسلم ، کتاب الزہد )
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
اسلامی تاریخ اور سیرۃ نبویہ کا ایک اہم سنگ میل ، جب نبی مکرم ﷺ مکہ سے ہجرت کرے پانچ سو کلومیٹر دور مدینہ منورہ پہنچے ،
تو اہل مدینہ نے جو پہلے ہی سے آپ ﷺ کی تشریف آوری کے شدید مشتاق تھے ، اور ان میں کتنے ہی ایسے محب تھے جنہوں ابھی آپ کی ایک جھلک بھی نہ دیکھی تھی تاہم بحیثیت نبی و رسول آپ کے جاننے والے تھے ، اور دیدار کی تمنا لئے آپ کے منتظر تھے ،
تو جب آپ کی تشریف آوری کا پتا چلا تو وفور شوق سے باہر نکل آئے ،
اس میں جلسہ ، جلوس کی کیا بات ہے ، وہ تو دیدار مصطفی ﷺ اور ملاقات و استقبال کیلئے گھر سے باہر آئے تھے ،
وہ نہ ربیع الاول کا مہینہ تھا ، نہ پیارے مصطفی کی پیدائش کا دن تھا ، اور نبی کریم ﷺ خود زندہ ، سفر کرکے ان سے ملنے اور انکے ساتھ مل کر رہنے وہاں تشریف لے گئے تھے ، تو ایسی صورت میں اہل مدینہ کا گھروں سے نکلنا محض استقبال ، اور دیدار اور ملاقات کیلئے تھا
اور جناب رسول اکرم ﷺ خود زندہ سلامت ان کے درمیان موجود تھے ،
اور اہم بات یہ کہ اس واقعہ کے بعد آپ ﷺ دس سال مدینہ منورہ موجود رہے لیکن اہل مدینہ دوبارہ ہر سال یہ دن نہیں منایا ، نہ گھروں سے نکلے
یہ ایک واقعہ تھا جو گزر گیا ، اب یہ منظر تاریخ انسانی دوبارہ نہ دیکھ سکے گی ؛
جبکہ آج میلاد کیلئے گھروں سے نکلنے والے کس کے استقبال و دیدار کیلئے سڑکوں پر آتے ہیں ، نبی اکرم ﷺ پاکستان تو کیا اس دنیا میں ہی نہیں ،
ان جلوسوں میں تو صرف جاہل مولوی اور نکمے لوگ ہی نظر آتے ہیں ، عوام مولویوں کا استقبال کرتی ہے ،
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔