• الحمدللہ محدث فورم کو نئےسافٹ ویئر زین فورو 2.1.7 پر کامیابی سے منتقل کر لیا گیا ہے۔ شکایات و مسائل درج کروانے کے لئے یہاں کلک کریں۔
  • آئیے! مجلس التحقیق الاسلامی کے زیر اہتمام جاری عظیم الشان دعوتی واصلاحی ویب سائٹس کے ساتھ ماہانہ تعاون کریں اور انٹر نیٹ کے میدان میں اسلام کے عالمگیر پیغام کو عام کرنے میں محدث ٹیم کے دست وبازو بنیں ۔تفصیلات جاننے کے لئے یہاں کلک کریں۔

کیا یہ حدیث صحیح ہے ؟

شمولیت
مارچ 19، 2012
پیغامات
165
ری ایکشن اسکور
206
پوائنٹ
82
مسند احمد اور مسند ابو یعلیٰ میں حضرت انس بن مالک رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ بچہ جب تک بالغ نہیں ہوتا اس کے نیک عمل اس کے والد یا والدین کے حساب میں لکھے جاتے ہیں اور جو کوئی برا عمل کرے تو وہ نہ اس کے حساب میں لکھا جاتا ہے نہ والدین کے۔ پھر جب وہ بالغ ہو جاتا ہے تو قلم اس کےلئے جاری ہو جاتا ہے اور دو فرشتے جو اس کے ساتھ رہنے والے ہیں ان کو حکم دے دیا جاتا ہے کہ اس کی حفاظت کریں اور قوت بہم پہنچائیں ۔جب حالتِ اسلام میں چالیس سال کی عمر کو پہنچ جاتا ہے تو اللہ تعالیٰ اس کو (تین قسم کی بیماریوں ”جنون‘ جذام اور برص“ سے محفوظ کر دیتے ہیں۔ جب پچاس سال کی عمر کو پہنچتا ہے تو اللہ تعالیٰ اس کا حساب ہلکا کر دیتے ہیں‘ جب ساٹھ سال کو پہنچتا ہے تو اللہ تعالیٰ اس کو اپنی طرف رجوع کی توفیق دے دیتے ہیں۔ جب ستر سال کو پہنچتا ہے تو سب آسمان والے اس سے محبت کرنے لگتے ہیں اور جب اسی 80 سال کو پہنچتا ہے تو اللہ تعالیٰ اس کی حسنات کو لکھتے ہیں اور سیئات کو معاف فرما دیتے ہیں۔ پھر جب نوے سال کی عمر ہو جاتی ہے تو اللہ تعالیٰ اس کے سب اگلے پچھلے گناہ معاف فرما دیتے ہیں اور اس کو اپنے گھر والوں کے معاملے میں شفاعت کرنے کا حق دیتے ہیں اور اس کی شفاعت قبول فرماتے ہیں اور اس کا لقب امین اللہ اور اسیر اللہ فی الارض (یعنی زمین میں اللہ کا قیدی) ہو جاتا ہے۔ کیونکہ اس عمر میں پہنچ کر عموماً انسان کی قوت ختم ہو جاتی ہے ‘ کسی چیز میں لذت نہیں رہتی‘ قیدی کی طرح عمر گذارتاہے اور جب ارذل عمر کو پہنچ جاتا ہے تو اس کے تمام وہ نیک عمل نامہ اعمال میں برابر لکھے جاتے ہیں جو اپنی صحت و قوت کے زمانے میں کیا کرتا تھا اور اگر اس سے کوئی گناہ ہو جاتا ہے تو وہ لکھا نہیں جاتا
 
Last edited by a moderator:

خضر حیات

علمی نگران
رکن انتظامیہ
شمولیت
اپریل 14، 2011
پیغامات
8,773
ری ایکشن اسکور
8,473
پوائنٹ
964
حافظ ابن کثیر نے اس روایت کو ابو یعلی اور امام احمد وغیرہ کے حوالے سے ذکر کیا ہے ، اور فرمایا ہے کہ یہ ’ عجیب و غریب اور شدید نکارت پر مبنی روایت ہے ‘ ۔
ابن الجوزی نے اس کو موضوعات میں ذکر کیا ہے ، لیکن عراقی ، ابن حجر اور سیوطی وغیرہ نے اس کے کئی ایک طرق اور شواہد پیش کرکے اسے ’ موضوع و من گھڑت ‘ کی حالت سے تو نکال لیا ہے ، البتہ تمام طرق مل کر اس قابل نہیں کہ اس کی تحسین یا تصحیح کی جاسکے ۔
مسند احمد کے محققین نے اس کی مفصل تخریج پیش کی ہے ، کئی ایک شواہد و طرق پیش کرکے ان سب کی تضعیف کی ہے ۔ بعض لوگوں نے اس روایت کو موضوع بھی قرار دیا ہے ۔ ( دیکھیے : مسند احمد ط الرسالۃ حدیث نمبر 5626 اور 13279 )
شیخ البانی نے بھی اس کو ضعیف الجامع الصغیر میں ذکر کیا ہے ۔
مسند ابی یعلی کے محقق نے بھی اس کو ضعیف ہی قرار دیا ہے ۔ ( رقم 4246 ۔ 4247 )
 
Top