• الحمدللہ محدث فورم کو نئےسافٹ ویئر زین فورو 2.1.7 پر کامیابی سے منتقل کر لیا گیا ہے۔ شکایات و مسائل درج کروانے کے لئے یہاں کلک کریں۔
  • آئیے! مجلس التحقیق الاسلامی کے زیر اہتمام جاری عظیم الشان دعوتی واصلاحی ویب سائٹس کے ساتھ ماہانہ تعاون کریں اور انٹر نیٹ کے میدان میں اسلام کے عالمگیر پیغام کو عام کرنے میں محدث ٹیم کے دست وبازو بنیں ۔تفصیلات جاننے کے لئے یہاں کلک کریں۔

کیا یہ روایت واقعی ضعیف ہے

difa-e- hadis

رکن
شمولیت
جنوری 20، 2017
پیغامات
294
ری ایکشن اسکور
30
پوائنٹ
71
حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ الْعَلَاءِ، عَنِ ابْنِ إِدْرِيسَ، أَخْبَرَنَا حُصَيْنٌ، عَنْ هِلَالِ بْنِ يَسَافٍ، عَنْ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ ظَالِمٍ، وَسُفْيَانُ، عَنْ مَنْصُورٍ، عَنْ هِلَالِ بْنِ يَسَافٍ، عَنْ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ ظَالِمٍ الْمَازِنِيِّ، ذَكَرَ سُفْيَانُ رَجُلًا فِيمَا بَيْنَهُ وَبَيْنَ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ ظَالِمٍ الْمَازِنِيِّ قَالَ: سَمِعْتُ سَعِيدَ بْنَ زَيْدِ بْنِ عَمْرِو بْنِ نُفَيْلٍ قَالَ: لَمَّا قَدِمَ فُلَانٌ إِلَى الْكُوفَةِ أَقَامَ فُلَانٌ خَطِيبًا، فَأَخَذَ بِيَدِي سَعِيدُ بْنُ زَيْدٍ فَقَالَ: أَلَا تَرَى إِلَى هَذَا الظَّالِمِ، فَأَشْهَدُ عَلَى التِّسْعَةِ إِنَّهُمْ فِي الْجَنَّةِ، وَلَوْ شَهِدْتُ عَلَى الْعَاشِرِ لَمْ إِيثَمْ، - قَالَ ابْنُ إِدْرِيسَ: وَالْعَرَبُ تَقُولُ آثَمُ -، قُلْتُ: وَمَنِ التِّسْعَةُ؟ قَالَ: قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: وَهُوَ عَلَى حِرَاءٍ «اثْبُتْ حِرَاءُ إِنَّهُ لَيْسَ عَلَيْكَ إِلَّا نَبِيٌّ، أَوْ صِدِّيقٌ، أَوْ شَهِيدٌ» قُلْتُ: وَمَنِ التِّسْعَةُ؟ قَالَ: رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، وَأَبُو بَكْرٍ، وَعُمَرُ، وَعُثْمَانُ، وَعَلِيٌّ، وَطَلْحَةُ، وَالزُّبَيْرُ، وَسَعْدُ بْنُ أَبِي وَقَّاصٍ، وَعَبْدُ الرَّحْمَنِ بْنُ عَوْفٍ "، قُلْتُ: وَمَنِ الْعَاشِرُ؟ فَتَلَكَّأَ هُنَيَّةً ثُمَّ قَالَ: أَنَا، قَالَ أَبُو دَاوُدَ: رَوَاهُ الْأَشْجَعِيُّ، عَنْ سُفْيَانَ، عَنْ مَنْصُورٍ، عَنْ هِلَالِ بْنِ يَسَافٍ، عَنِ ابْنِ حَيَّانَ، عَنْ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ ظَالِمٍ بِإِسْنَادِهِ نَحْوَه
(سنن ابو داود رقم 4648
ترجمہ:سعید بن زید فرماتے ہیں کہ جب فلاں کوفہ میں داخل ہوا اور اس نے فلاں کو ڈطبے میں کھڑا کیا تو(عبداللہ نے کہا) تو سعیب بن زید نے میرا ہاتھ پکڑا اور کہا تم اس ظالم شخص کو نہیں دیکھتے(اس نے علی رضی اللہ عنہ کے بارے میں غلط کہا)میں نو افراد کے بابت گواہی دیتا ہوں کہ وہ جنتی ہیں میں نے کہا وہ نوں کون ہیں؟ انہوں نے کہا کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم ،ابو بکر،عمر،عثمان، علی، طلحہ،زبیر سعد بن ابن وقاص،عبدالرحمن بن عوف رضی اللہ عنہم میں نے کہا اور دسواں کون ہے ایک لمحے کے توقف کے بعد کہا میں۔

محترم بھائیوں السلام علیکم،
اس روایت کو عصر حاضر میں شیخ سنابلی صاحب ضعیف قرار دیتےہیں جبکھ جمہور نے اس پر کوئی حکم نہیں لگایا اور دور حاضر کے دو عظیم اور بڑۓ محدث شیخ البانی اور احمد شاکر رحمہ اس کو صحیح قرار دیتے ہیں اور اس کو ضعیف قرار دینے کی بنیادی دلیل امام نسائی کا قول ہے اور اس کی بنیاد پر وہ اس روایت کو ضعیف قرار دیتے ہیں ذیل میں ہم ان سب دلائل کا جائزہ پیش کر رہے ہیں
پہلی دلیل
سب سے پہلی دلیل کے طور پر یہ بات پیش کی جاتی ہے کہ اس روایت کو ھلال بن یساف سے ان کے دو تلامذہ نے روایت کیا ہے
(1) منصور بن المتمر
(2) حصین بن عبدالرحمن السلمی
چنانچہ منصور نے اس روایت میں ایک مجہول راوی کا اضافہ کیا ہے جو حصین بن عبدالرحمن السلمی نے بیان نہیں کیا ہے اور وہ واسطہ ایک مجہول راوی کا ہے چنانچہ منصور کے بارے میں عبدالرحمن بن مھدی کا قول پیش کیا ہے کہ ان کے مقابلے پر جو بھی روایت بیان کرے گا وہ اس راوی کی خطا ہوگئی اور منصور حصین سے ذیادہ اوثق ہے اس وجہ سے ذیادت ثقات میں منصور کی بات رائج ہو گی
دوسری دلیل
اس روایت کو منصور کے تین شاگردوں نے روایت کیا ہے ۔
(1) سفیان ثوری
(2) ابو الاحوص الحنفی
(3) محمد بن یوسف الفریابی
نوٹ: شیخ سنابلی سے یہاں غلطی ہوئی ہے محمد بن یوسف الفریابی منصور بن المتمر کا نہیں سفیان ثوری کا شاگرد ہے اور شیخ سنابلی نے جس روایت کا حوالہ دیا ہے اس میں محمد بن یوسف نے سفیان سے منصور کے طریق سے روایت کی ہے۔
سفیان سے ان کے چھ شاگردوں نے اس سند کو اس واسطے کے ساتھ ہی نقل کیا ہے جبکہ ابو الاحوص الحنفی اور محمد بن یوسف الفریابی نے منصور سے اس واسطے کا ذکر نہیں کیا چنانچہ ابوالاحوص الحنفی سفیان ثوری سے درجہ میں کم ہے اس لئے سفیان کی روایت رائج ہو گی اور محمد بن یوسف الفریابی والی روایت جس کو طبرانی نے روایت کیا ہے وہ ضعیف ہے اسی طرح سے وکیع نے بھی سفیان ثوری سے روایت کی تو اس واسطے کو ساقط کیا ہے مگر وکع کی سد میں اضطراب ہے اور خاص سفیان ثوری سے ان کی سند پر کلام کیا گیا ہےایک اور راوی ابو حذیفہ نے بھی سفیان سے اس واسطے کو ساقط کیا ہے مگر اس پر کلام ہے اور بعض نے اس کو ضعیف کہا ہے اس لئے سفیان کا چھ شاگردوں کا ہی قول معتبر مان جائے گا
حصین بن عبداالرحمن نے ھلال بن یساف اور عبداللہ بن ظالم کے بیچ کا واسطہ ساقط کیا جس کو اس سے اس کے کئی شاگردوں نے روایت کیا ہے ہے مگر اس واسطے کا ذکر نہیں کیا ہے اور بعض شاگرد تو وہی ہیں جنہوں نے شیخ منصور سے اسی سند کو اس واسطے کے ساتھ بیان کیا ہے اور یہ سفیان اور ابوالاحوص ہیں اور ان کے علاوہ بھی دیگر رواۃ مثلا شعبہ،ھشیم،ادریس،جریر، خالد بن عبدااللہ وغیرہم نے حصین سے بیان کیا ہے
اور آخر میں یہ فیصلہ صادر فرمایا کہ حصین نے اس میں واسطے ساقط کیا ہے اور منصور کے قول کو ترجیح حاصل ہے اور محدثین میں سے امام بخاری ، امام نسائی، امام دارقطی ، حافظ العقیلی، امام ذہبی، کے حوالے سے بھی نقل کیا ہے کہ وہ اس روایت کو ضعیف مانتے ہیں یہ وہ تمام دلائل ہیں جو ہم نے اجمال کے ساتھ نقل کیے ہیں اور ان کا محاسبہ قارئین کی خدمت میں پیش ہے۔
دلائل کا رد
اس حوالے سے منصور کے تین شاگردوں کا ذکر کیا گیاجبکہ صرف دو شاگردوں نے روایت کیا ہے خصوصا سفیان ثوری جنہوں نے اس واسطے کو ذکر کیا ہے اور مگر حصین بن عبدالرحمن سے روایت کرنے والوں کا سرسری تذکرہ کر کے اس سے صرف نظر کرنے کی کوشش کی گئی ہے حصین سے روایت کرنے والی پوری ثقات کی ایک جماعت موجود ہے ذیل میں ہم حصین سے روایت کرنے والوں کا تذکرہ اور ان پر آئمہ فن کے اقوال بھی پیش کرتے ہیں تاکہ اندازہ ہو سکے کہ ثقہ ثبت کی ایک جماعت کے مقابلے پر ایک منفرد قول صرف اس روایت کو ضعیف کرنے کے لئے قبول کیا جا رہا ہے
حَدَّثَنَا أَبُو دَاوُدَ قَالَ: حَدَّثَنَا شُعْبَةُ، قَالَ: حَدَّثَنِي حُصَيْنُ بْنُ عَبْدِ الرَّحْمَنِ، قَالَ: سَمِعْتُ هِلَالَ بْنَ يِسَافٍ، يُحَدِّثُ عَنْ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ ظَالِمٍ الْمَازِنِيِّ، عَنْ سَعِيدِ بْنِ زَيْدٍ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ، أَنَّ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ كَانَ عَلَى حِرَاءَ وَمَعَهُ أَبُو بَكْرٍ وَعُمَرُ وَعُثْمَانُ وَعَلِيٌّ وَطَلْحَةُ وَالزُّبَيْرُ وَسَعْدٌ وَعَبْدُ الرَّحْمَنِ بْنُ عَوْفٍ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُمْ قَالَ: «اثْبُتْ حِرَاءُ فَإِنَّمَا عَلَيْكَ نَبِيٌّ أَوْ صِدِّيقٌ أَوْ شَهِيدٌ» ، وَذَكَرَ سَعِيدٌ أَنَّهُ كَانَ مَعَهُم
مسند ابوداود الطیالسی رقم 232)
حَدَّثَنَا عَبْدُ اللَّهِ قَالَ: حَدَّثَنِي أَبِي، قثنا مُحَمَّدُ بْنُ جَعْفَرٍ قثنا شُعْبَةُ، عَنْ حُصَيْنٍ. ح وَحَدَّثَنِي عُبَيْدُ اللَّهِ بْنُ عُمَرَ الْقَوَارِيرِيُّ قَالَ: حَدَّثَنِي هُشَيْمٌ. وَحَدَّثَنِي سُرَيْجُ بْنُ يُونُسَ، وَزُهَيْرٌ أَبُو خَيْثَمَةَ، قَالَا: نا هُشَيْمٌ. وَحَدَّثَنِي أَبُو بَكْرِ بْنُ أَبِي شَيْبَةَ قثنا أَبُو الْأَحْوَصِ، عَنْ حُصَيْنٍ. وَحَدَّثَنِي عُثْمَانُ بْنُ أَبِي شَيْبَةَ قَالَ: نا ابْنُ إِدْرِيسَ، وَجَرِيرٌ، عَنْ حُصَيْنٍ. وَحَدَّثَنِي وَهْبُ بْنُ بَقِيَّةَ الْوَاسِطِيُّ قَالَ: أنا خَالِدُ بْنُ عَبْدِ اللَّهِ، عَنْ حُصَيْنٍ، قَالَ أَبِي: وَنا عَلِيُّ بْنُ عَاصِمٍ، قَالَ حُصَيْنٌ: أنا عَنْ هِلَالِ بْنِ يَسَافٍ، عَنْ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ ظَالِمٍ، عَنْ سَعِيدِ بْنِ زَيْدِ بْنِ عَمْرِو بْنِ نُفَيْلٍ، وَهَذَا لَفْظُ حَدِيثِ هُشَيْمٍ، أَنَّهُ قَالَ: أَشْهَدُ عَلَى التِّسْعَةِ أَنَّهُمْ فِي الْجَنَّةِ، وَلَوْ شَهِدْتُ عَلَى الْعَاشِرِ لَمْ آثَمْ.(فضائل الصحابہ لاحمد بن حنبل رقم 81)
حَدَّثَنَا عَبْدُ اللَّهِ قَالَ: حَدَّثَنِي أَبِي، نا عَلِيُّ بْنُ عَاصِمٍ، قَالَ حُصَيْنٌ: حَدَّثَنَا ح قَالَ أَبِي: ونا مُعَاوِيَةُ بْنُ عَمْرٍو قثنا زَائِدَةُ قثنا حُصَيْنُ بْنُ عَبْدِ الرَّحْمَنِ، عَنْ هِلَالِ بْنِ يَسَافٍ، عَنْ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ ظَالِمٍ قَالَ: أَقَامَ فُلَانٌ خُطَبَاءَ يَقَعُونَ فِي عَلِيٍّ، وَأَنَا إِلَى جَنْبِ سَعِيدِ بْنِ زَيْدٍ، فَغَضِبَ فَقَالَ: أَلَا تَرَى إِلَى هَذَا الظَّالِمِ لِنَفْسِهِ الَّذِي يَأْمُرُ بِلَعْنِ رَجُلٍ مِنْ أَهْلِ الْجَنَّةِ؟ فَأَشْهَدُ عَلَى التِّسْعَةِ أَنَّهُمْ فِي الْجَنَّةِ، وَلَوْ شَهِدْتُ عَلَى الْعَاشِرِ لَمْ آثَمْ، قَالَ: قُلْتُ: وَمَا ذَاكَ؟ قَالَ: قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: «اثْبُتْ حِرَاءُ، فَإِنَّهُ لَيْسَ عَلَيْكَ إِلَّا نَبِيٌّ، أَوْ صِدِّيقٌ، أَوْ شَهِيدٌ» ، قَالَ: قُلْتُ: مَنْ هُمْ؟ فَقَالَ: رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ وَأَبُو بَكْرٍ، وَعُمَرُ، وَعُثْمَانُ، وَعَلِيٌّ، وَطَلْحَةُ، وَالزُّبَيْرُ، وَعَبْدُ الرَّحْمَنِ بْنُ عَوْفٍ، وَسَعْدُ بْنُ مَالِكٍ، ثُمَّ سَكَتَ، فَقُلْتُ: مَنِ الْعَاشِرُ؟ قَالَ: أَنَا.(فضائل الصحابہ لاحمد بن حنبل رقم 279)

فَحَدَّثَنَا الشَّيْخُ أَبُو بَكْرِ بْنُ إِسْحَاقَ، أَنَا مُوسَى بْنُ إِسْحَاقَ الْأَنْصَارِيُّ الْقَاضِي، ثَنَا أَحْمَدُ بْنُ يُونُسَ، ثَنَا أَبُو بَكْرِ بْنُ عَيَّاشٍ، عَنْ حُصَيْنٍ، عَنْ
هِلَالِ بْنِ يَسَافٍ، عَنْ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ ظَالِمٍ، قَالَ: كَانَ الْمُغِيرَةُ بْنُ شُعْبَةَ يَنَالُ فِي خُطْبَتِهِ مِنْ عَلِيٍّ، وَأَقَامَ خُطَبَاءَ يَنَالُونَ مِنْهُ، فَبَيْنَا هُوَ يَخْطُبُ، وَنَالَ مِنْ عَلِيٍّ، وَإِلَى جَنْبِي سَعِيدِ بْنِ زَيْدِ بْنِ عَمْرِو بْنِ نُفَيْلٍ الْعَدَوِيِّ، قَالَ: فَضَرَبَنِي بِيَدِهِ وَقَالَ: «أَلَا تَرَى مَا يَقُولُ هَذَا؟ - أَوْ قَالَ هَؤُلَاءِ - أَشْهَدُ عَلَى التِّسْعَةِ أَنَّهُمْ فِي الْجَنَّةِ، وَلَوْ حَلَفْتُ عَلَى الْعَاشِرِ لَصَدَقْتُ كُنَّا مَعَ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ بِحِرَاءٍ أَنَا وَأَبُو بَكْرٍ وَعُمَرُ وَعُثْمَانُ وَعَلِيٌّ وَطَلْحَةُ وَالزُّبَيْرُ وَسَعْدٌ وَعَبْدُ الرَّحْمَنِ بْنُ عَوْفٍ، فَتَزَلْزَلَ الْجَبَلُ» ، فَقَالَ النَّبِيُّ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: «اثْبُتْ حِرَاءُ فَلَيْسَ عَلَيْكَ إِلَّا نَبِيٌّ، أَوْ صِدِّيقٌ، أَوْ شَهِيدٌ»

(مستدرک الحاکم رقم 5898)
ان روایت میں درج ذیل رواۃ نے حصین بن عبدالرحمن روایت کی ہے مگر اس ھلال بن یساف اور عبداللہ بن ظالم کے درمیان اس واسطے کا کوئی ذکر نہیں کیا ہے
(1)شعبۃ بن الحجاج
(2)ھشیم بن بشیر
(3) خالد بن عبداللہ
(4) علی بن عاصم
(5) عبداللہ بن ادریس
(6) جریر بن عبدالحمید
(7) ابو بکر بن عیاش
(8) ابو الاحوص الحنفی
(9) زائدۃ بن قدامہ
منصور بن المعتمر کا طریق اور شیخ سنابلی کی خطا
ذیل میں ہم منصور بن المعتمر کے طریق کو پیش کریں گے

حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ الْعَلَاءِ، عَنِ ابْنِ إِدْرِيسَ، أَخْبَرَنَا حُصَيْنٌ، عَنْ هِلَالِ بْنِ يَسَافٍ، عَنْ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ ظَالِمٍ، وَسُفْيَانُ، عَنْ مَنْصُورٍ، عَنْ هِلَالِ بْنِ يَسَافٍ، عَنْ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ ظَالِمٍ الْمَازِنِيِّ، ذَكَرَ سُفْيَانُ رَجُلًا فِيمَا بَيْنَهُ وَبَيْنَ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ ظَالِمٍ الْمَازِنِيِّ قَالَ: سَمِعْتُ سَعِيدَ بْنَ زَيْدِ بْنِ عَمْرِو بْنِ نُفَيْلٍ قَالَ: لَمَّا قَدِمَ فُلَانٌ إِلَى الْكُوفَةِ أَقَامَ فُلَانٌ خَطِيبًا، فَأَخَذَ بِيَدِي سَعِيدُ بْنُ زَيْدٍ فَقَالَ: أَلَا تَرَى إِلَى هَذَا الظَّالِمِ، فَأَشْهَدُ عَلَى التِّسْعَةِ إِنَّهُمْ فِي الْجَنَّةِ، وَلَوْ شَهِدْتُ عَلَى الْعَاشِرِ لَمْ إِيثَمْ، - قَالَ ابْنُ إِدْرِيسَ: وَالْعَرَبُ تَقُولُ آثَمُ -، قُلْتُ: وَمَنِ التِّسْعَةُ؟ قَالَ: قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: وَهُوَ عَلَى حِرَاءٍ «اثْبُتْ حِرَاءُ إِنَّهُ لَيْسَ عَلَيْكَ إِلَّا نَبِيٌّ، أَوْ صِدِّيقٌ، أَوْ شَهِيدٌ» قُلْتُ: وَمَنِ التِّسْعَةُ؟ قَالَ: رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، وَأَبُو بَكْرٍ، وَعُمَرُ، وَعُثْمَانُ، وَعَلِيٌّ، وَطَلْحَةُ، وَالزُّبَيْرُ، وَسَعْدُ بْنُ أَبِي وَقَّاصٍ، وَعَبْدُ الرَّحْمَنِ بْنُ عَوْفٍ "، قُلْتُ: وَمَنِ الْعَاشِرُ؟ فَتَلَكَّأَ هُنَيَّةً ثُمَّ قَالَ: أَنَا، قَالَ أَبُو دَاوُدَ: رَوَاهُ الْأَشْجَعِيُّ، عَنْ سُفْيَانَ، عَنْ مَنْصُورٍ، عَنْ هِلَالِ بْنِ يَسَافٍ، عَنِ ابْنِ حَيَّانَ، عَنْ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ ظَالِمٍ بِإِسْنَادِهِ نَحْوَه(سنن ابو داود رقم 4846)
ثنا أَبُو بَكْرٍ، ثنا أَبُو الْأَحْوَصِ، عَنْ مَنْصُورٍ، عَنْ
هِلَالِ بْنِ يَسَافٍ، عَنْ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ ظَالِمٍ، عَنْ سَعِيدِ بْنِ زَيْدٍ قَالَ: أَشْهَدُ عَلَى تِسْعَةٍ أَنَّهُمْ فِي الْجَنَّةِ وَلَوْ شَهِدْتُ عَلَى الْعَاشِرِ لَصَدَقْتُ. قَالَ: قُلْتُ: وَمَا ذَاكَ؟ قَالَ: كَانَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ عَلَى حِرَاءٍ، وَأَبُو بَكْرٍ، وَعُمَرُ، وَعُثْمَانُ، وَعَلِيٌّ، وَطَلْحَةُ، وَالزُّبَيْرُ، وَسَعْدٌ، وَعَبْدُ الرَّحْمَنِ بْنُ عَوْفٍ، فَقَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: «اثْبُتْ حِرَاءُ فَإِنَّهُ لَيْسَ عَلَيْكَ إِلَّا نَبِيٌّ، أَوْ صِدِّيقٌ، أَوْ شَهِيدٌ» . قُلْتُ: فَمَنِ الْعَاشِرُ؟ قَالَ: أَنَا.(السنۃ لابن ابی عاصم رقم 1426)

مصور سے درج ذیل دو رواۃ نے یہ روایت نقل کی ہے۔
(1) سفیان ثوری
(2) ابو الاحوص الحنفی

سنابلی صاحب نے اس حوالے سے یہ نقل کیا ہے کہ منصور سے اس کے تین شاگردوں اس روایت کو منصور سے نقل کیا ہے جن کے نام اوپر سنابلی صاحب کے دلائل کے تحت نقل ہیں جو ان کی غلطی ہے کیونکہ ہماری معلومات کی حد تک یہ روایت منصور سے صرف دو اشخاص نے کی ہے ایک ابو الاحوص الحنفی اور دوئم سفیان ثوری اور ابو الاحوص نے منصور سے بھی اس روایت میں اس واسطے کا ذکر نہیں کیا ہے تو اس سے معلوم ہوتا ہے کہ صرف سفیان ثوری نے منصور سے اس واسطے کا ذکر کیا ہےاور اس کے علاوہ کسی نے بھی اس واسطے کا ذکر نہیں کیا چاہے اس نے منصور سے روایت کی ہو یا حصین بن عبدالرحمن سے روایت کی ہو ماسوائے سفیان ثوری کے اس واسطے کو کسی نے نقل نہیں کیا ہے شیخ سنابلی نے جومحمد بن یوسف الفریابی کو منصور بن المتمر کا شاگرد ثابت کرنے کی کوشش کی ہے اور اس کے ثبوت کے لئےطبرانی الکبیر سے روایت پیش کی ہے اس کو ہم قارئین کے سامنے رکھتے ہیں
حَدَّثَنَا عَبْدُ اللهِ بْنُ مُحَمَّدِ بْنِ سَعِيدِ بْنِ أَبِي مَرْيَمَ، ثنا مُحَمَّدُ بْنُ يُوسُفَ الْفِرْيَابِيُّ، ثنا سُفْيَانُ، عَنْ مَنْصُورٍ، عَنْ هِلَالِ بْنِ يَسَافٍ، عَنْ عَبْدِ اللهِ بْنِ ظَالِمٍ، عَنْ سَعِيدِ بْنِ زَيْدٍ، أَنَّ رَسُولَ اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ قَالَ: «سَيَكُونُ بَعْدِي فِتَنٌ يَكُونُ فِيهَا وَيَكُونُ» فَقُلْنَا: إِنْ أَدْرَكْنَا ذَلِكَ هَلَكْنَا؟ قَالَ: «بِحَسْبِ أَصْحَابِي الْقَتْل(طبرانی الکبیر رقم 346 1/150)
اس روایت میں صاف موجود ہے کہ محمد بن یوسف الفریابی ثنا سفیان ہے اور یہ اس بات کی دلیل ہے کہ اس روایت میں محمد بن یوسف الفریابی سفیان سے روایت کر رہے نہ کہ منصور سے تو اس تمام روایات کی اسناد کو پیش کرنے کا ما حصل یہ ہے سفیان ثوری ہی وہ راوی ہیں جنہوں نے اس روایت میں اس ایک واسطے کو نقل کیا ہے اور باقی پوری جماعت میںکسی نے بھی نہ منصور کے طریق سے اور نہ حصین کے طریق سے اس واسطے کو نقل نہیں کیا۔

حصین بن عبدالرحمن کی تائید
سنابلی صاحب کی پیش کی ہوئی طبرانی الکیر کی روایت کا متن دوسرا ہے اور اس سند سےیہ ضعیف ہے مگر یہ روایت اس بنا پر اہمیت کی حامل ہے کہ اس کی جو سند ہے وہ وہی ہے یعنی "ھلال بن یساف عن عبداللہ بن ظالم اور اس روایت سے حصین بن عبدالرحمن کے طریق کی تائید ہوتی کہ اس کو جب حصین بن عبدالرحمن نے روایت کیا تو اس میں اس واسطے کا ذکر نہیں ہے اور اسی طرح دیگر رواۃ نے ھلال بن یساف سے عبداللہ بن ظالم سے نقل کیا ہے تو انہوں نے بھی اس نامعلوم واسطے کا ذکر نہیں کیا ہےمگر جب یہی روایت سفیان ثوری نے روایت کی ہے تو انہوں نے اس میں اس واسطے کا ذکر کیا ہے ذیل میں ہم اس کے طریق اپ کے سامنے پیش کرتے ہیں جس سے اندازہ ہوتا ہے کہ سفیان ثوری اس نامعلوم واسطے کو روایت کرنے میں متفرد ہیں

حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ الْمُثَنَّى، قَالَ: نَا أَبُو دَاوُدَ، قَالَ: نَا زَائِدَةُ، عَنْ حُصَيْنِ بْنِ عَبْدِ الرَّحْمَنِ، عَنْ هِلَالِ بْنِ يَسَافٍ، عَنْ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ ظَالِمٍ، عَنْ سَعِيدِ بْنِ زَيْدٍ، عَنِ النَّبِيِّ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ أَنَّهُ، قَالَ: «بِحَسْبِ أَصْحَابِي الْقَتْلُ»(مسند البزار رقم1261)
حَدَّثَنَا إِبْرَاهِيمُ بْنُ سَعِيدٍ الْجَوْهَرِيُّ، قَالَ: نَا أَبُو أُسَامَةَ، قَالَ: نَا مِسْعَرٌ، عَنْ عَبْدِ الْمَلِكِ بْنِ مَيْسَرَةَ، عَنْ هِلَالِ بْنِ يَسَافٍ، عَنْ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ ظَالِمٍ، عَنْ سَعِيدِ بْنِ زَيْدٍ، عَنِ النَّبِيِّ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: «بِحَسْبِ أَصْحَابِي الْقَتْلُ» وَحَدِيثُ عَبْدِ الْمَلِكِ بْنِ مَيْسَرَةَ لَا نَعْلَمُ رَوَاهُ عَنْ عَبْدِ الْمَلِكِ بِهَذَا الْإِسْنَادِ إِلَّا مِسْعَرٌ، وَلَا نَحْفَظُهُ إِلَّا مِنْ حَدِيثِ أَبِي أُسَامَةَ، عَنْ مِسْعَر(مسند البزار رقم 1262)
ثنا أَبُو يَعْقُوبَ بْنُ يَعْقُوبَ الصَّفَارُ، ثنا عُبَيْدُ بْنُ سَعِيدٍ الْقُرَشِيُّ، ثنا سُفْيَانُ، عَنْ مَنْصُورٍ، عَنْ هِلَالِ بْنِ يَسَافٍ، عَنْ هِلَالِ بْنِ حَيَّانَ، عَنْ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ ظَالِمٍ، عَنْ سَعِيدِ بْنِ زَيْدِ بْنِ عَمْرِو بْنِ نُفَيْلٍ، قَالَ: خَرَجَ عَلَيْنَا رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فِي الْمَسْجِدِ فَقَالَ: «
إِنَّهُ سَيَكُونُ فِتَنٌ، فَيَكُونُ فِيهَا وَيَكُونُ» . قَالُوا: يَا رَسُولَ اللَّهِ لَئِنْ أَدْرَكَنَا ذَلِكَ [ص:632] لَنَهْلَكَنَّ. قَالَ: «بِحَسْبِهِمُ الْقَتْل(السنۃ لابن ابی عاصم رقم 1491)
ان طریق میں بھی صرف سفیان ثوری نے منصور کے طریق سے اس واسطے کا ذکر کیا ہے جبکہ حصین بن عبدالرحمن سے روایت کرنے والے مسعر جو کہ "مسعر بن کدام بن ظھیر" ہیں اور زئداۃ جو کے"زئداۃ بن قدامۃ الثقفی" انہوں نے اس روایت میں کسی ایسے واسطے کا ذکر نہیں کیا ہے۔
آئمہ فن کی توثیق
ان تمام روایات کے رواۃ ثقہ و صدوق ہیں اس میں کوئی بھی طریق ضعیف نہیں ہے سب کی سند صحیح یا حسن ہے اس پوری جماعت کے روایت کے مقابلے پر سفیان ثوری کا تفرد ویسے ہی قابل قبول نہیں ہے مگر ہم چند رواۃ کے حوالے سے آئمہ فن کے اقوال نقل کیے دیتے ہیں جس سے یہ بات قطعی طور پر ثابت ہو جائے گی کہ یہاں سفیان ثوری سےھلال بن یساف اور عبداللہ بن ظالم کے درمیان جس واسطے کا ذکر کیا ہے وہ ان کی غلطی ہے اور ھلال بن یساف اور عبداللہ بن ظالم کے درمیان کوئی واسطہ نہیں ہے
سفیان ثوری:
شیخ سنابلی صاحب نے سفیان ثوری کے بارے میں نقل کیا کہ وہ شعبہ بن الحجاج سے بھی ثقہ ہےاور اگر ان دونوں میں اختلاف ہو تو سفیان کی بات قبول کی جائے مگریہ صرف شعبہ بن الحجاج کے اور سفیان ثوری کے مابین اختلاف کے بارے میں ہےکیا شیخ صاحب ایسا کوئی قول پیش کر سکتے ہیں کہ شعبہ بن الحجاج سمیت ثقات کی پوری جماعت کے خلاف بھی سفیان ثوری کا قول لیا جائے گا یقینا ہو ہی نہیں سکتا ہے جبکہ اس جماعت ثقات میں ایسے بھی ہیں جو سفیان ثوری سے بھی ذیادہ حافظ ہیں چند تصریحات پیش ہیں
ھشیم بن بشیر القاسم بن دینار السلمی:
انہوں نے حصین بن عبدالرحمن سے روایت کی ہے اور کسی واسطے کا ذکر نہیں کیا ہے۔

قال عبد الرحمن بن مهدي
كان هشيم أحفظ للحديث من سفيان الثوري (تاریخ بغداد 16/130
عبدالرحمن بن مھدی فرماتے ہیں :ھشیم سفیان ثوری سے بھی ذیادہ حدیث کا حافط ہے

قَالَ أَحْمد لَيْسَ أحد أصح حَدِيثا عَن حُصَيْن من هشيم(سوالات ابوداودللاحمد بن حنبل رقم443 1/323)
امام احمد بن حنبل فرماتے ہیں: حصین سے حدیث بیان کرنے میں ھشہم سے زیادہ صحیح کوئی بھی نہیں
یہاں تمام سے مراد حصین کے کے شاگرد ہیں
ان تصریحات میں واضح موجود ہے کہ ھشیم بن بشیر سفیان ثوری سے ذیادہ حدیث کے حافظ ہیں اور خاص طور پر حصین بن عبدالرحمن سے روایت کرنے میں ان جیسا کوئی بھی نہیں ہے ا ب اس کے بعد بھی کوئی کہے کہ شعبہ بن الحجاج غلطی پر ہیں تو ان کی تائید کے لئے ھشیم موجود ہے جو سفیان ثوری سے ذیادہ حافظ ہے۔
مسعر بن کدام بن ظھیر:
انہوں نے بھی اس روایت "بحسب الصحابی القتل" میں ھلال بن یساف اور عبداللہ بن ظالم کے مابین کسی واسطے کا ذکر نہیں کیا ہے۔

نا عبد الرحمن قال سئل ابى عن مسعر وسفيان الثوري، فقال: مسعر اتقن، واجود حديثا، واعلى اسنادا من الثوري ومسعر اتقن من حماد بن زيد.
(الجرح التعدیل لابن ابن حاتم رقم 1685 8/369)

ابن ابی حاتم نے اپنے والد سےمسعر اور سفیا ن ثوری کے بابت پوچھا انہوں نے کہا مسعر سفیان سے زیادہ متقن اور حدیث میں جید اور اسناد کا اعلی (حافظ)ہے بلکہ مسعر حماد بن زید سے بھی ذیادہ متقن ہے۔

قال أبو زرعة: "سمعت أبا نعيم يقول:
مسعر أثبت، ثم سفيان، ثم شعبة(سیر الاعلام النبلاء 6/583)
ابو رزعہ فرماتے ہیں: میں نے ابو نعیم کو فرماتے سنا مسعر ذیادہ ثبت ہے اس کے بعد سفیان پھر شعبۃ۔


ان تمام تصریحات سے یہ بات اظھر من الشمس ہے کہ سفیان ثوری اس واسطے کو بیان کرنے میں متفرد ہیں اور وہ اس تفرد میں پوری ثقات کی جماعت کے خلاف ہےجن میں ایسے اوثق رواۃ بھی ہے جو سفیان ثوری سے ذیادہ حافظ و ثبت ہیں اور ان یہ ان کی خطا ہے جس کی وجہ سے اس روایت میں ھلال بن یساف اور عبداللہ بن ظالم کے درمیان ایک مجہول واسطہ شامل ہو گیا ہے جو اسی ذیادتی ثقات کے اصول پر قابل رد ہے۔
ایک شبہ کا ازالہ:
اس حوالے سے یہ اشکال بھی اٹھایا جا سکتا ہے کہ یہاں حصین بن عبدالرحمن کی خطا ہے جب انہوں نے اس راوی کو ساقط کر کے روایت بیان کی ہے تو ظاہر سی بات ہے کہ پوری جماعت ویسے ہی روایت بیان کرے گی جیسا ان سے حصین بن عبدالرحمن نے بیان کیا ہے یہ اشکال باطل ہے کیونکہ منصور سے ہی ان کے دوسرے شاگرد ابو الاحوص الحنفی نے اس واسطے کے بغیر روایت کیا ہے اور یہ ابو الاحوص اگرچہ سفیان ثوری کے برابر کے نہیں ہے مگر حصین بن عبدالرحمن اور ان کے شاگردوں کی پوری جماعت اس کی تائید کرتی ہے اور عبدالملک بن میسرۃ جنہوں نے ھلال بن یساف سے"بحسب اصحابی القتل" والی روایت کی ہے انہوں نے بھی اس واسطے کو ذکر نہیں کیا تو ابو الاحوص کی تائید میں خود منصور عبدالملک بن میسرۃ اور حصین بن عبدالرحمن موجود ہیں اور پوری جماعت تو ویسے اس بات پر دل ہے کہ اس روایت میں سفیان ثوری سے ہی غلطی ہوئی ہے
امام نسائی کا قول


اب امام نسائی کے اس قول کی جانب توجہ مذول کرتے ہیں جس میںامام نسائی نے اس روایت میں ھلال بن یساف اور عبداللہ بن ظالم المازنی کے درمیان انقطاع بتایا ہے اور ایک مجہول روای کے واسطے کا ذکر کیا ہے

- أَخْبَرَنَا إِسْحَاقُ بْنُ إِبْرَاهِيمَ قَالَ: أَخْبَرَنَا ابْنُ إِدْرِيسَ قَالَ: سَمِعْتُ حُصَيْنًا، يُحَدِّثُ بِهَذَا الْإِسْنَادِ مِثْلَهُ. هِلَالُ بْنُ يَسَافٍ لَمْ يَسْمَعْهُ مِنْ عَبْدِ اللهِ بْنِ ظَالِمٍ(سنن الکبری للنسائی رقم8135)
ترجمہ:ھلال بن یساف نے عبداللہ بن ظالم سے کچھ نہیں سنا۔
امام نسائی کے اس قول بنیاد سفیان ثوری کے قول پر اعتماد کے نتیجے میں وقوع پذیر ہوا ہے جب سفیان ثوری کا قول ہی خطا پر مبنی ہے تو امام نسائی کی دلیل از خود منہدم ہو جاتی ہے اس لئے اب کوئی اس پر اس روایت کو ضعیف کہنے کی بنیاد کھڑی کرے گا تو یہ صریح دلائل ہونے کے بعد فقط تقلیدی عمل کے سوائے اور کچھ نہ ہو گا

امام دارقطنی کا قول
شیخ سنابلی نے امام نسائی کے قول کی تائید کے لئے امام دارقطنی کا قول نقل کیا کہ وہ بھی اس روایت میں اس واسطے کے قائل ہیں مگر ہم یہ عرض کرنا چاہتے ہیں کہ اگر کسی امام کے دو متضاد قول ہوں تو کس کی طرف رجوع کیا جائے گا سنابلی صاحب کے اپنے اصول کے مطابق تو دونوں قول ساقط ہو جائیں گے چنانچہ خود اپنی کتاب یزید بن معاویہ پر اعتراضات کا جائزہ میں کہتے ہیں " امام ذہبی کی طرف سے سکوت والے موقف اور ان کی جرح میں تعارض ہے کیوں کہ جرح کی بنیاد پر یزید کو برا بھلا کہنے والی باتیں ہیں لہذا خود امام ذہبی کے اصول سے ان کی جرح منسوخ ہے یا پھر سکوت ولی بات سے ٹکرا کر ان کے دونوں قول ساقط ہو گئے"(یزید پر الزامات کا جائزہ ص 767)
امام دار قطنی نےجہاں یہ نقل کیا ہے کہ ھلال بن یساف اور عبداللہ بن ظالم کے درمیان ایک واسطہ موجود ہے اس سے اگلی روایت جس میں بھی ھلال بن یساف اور عبداللہ بن ظالم موجود ہے اس کو صحیح ترین روایت قرار دیا ہے اور اس کے درمیان کسی واسطے کا ذکر نہیں کیا ہےدونوں اقوال پیش ہیں

وَالَّذِي عِنْدَنَا أَنَّ الصَّوَابَ قَوْلُ مَنْ رَوَاهُ، عن الثوري، عن منصور، عن هلال، عن فُلَانِ بْنِ حَيَّانَ، أَوْ حَيَّانَ بْنِ فُلَانٍ، عن عبد الله بن ظالم، لأن منصور أَحَدُ الْإِثْبَاتِ، وَقَدْ بَيَّنَ فِي رِوَايَتِهِ عَنْ هِلَالٍ أَنَّهُ لَمْ يَسْمَعْهُ مِنَ ابْنِ ظَالِمٍ، وَأَنَّ بَيْنَهُمَا رَجُلًا، وَقَوْلُ طَلْحَةَ بْنِ مُصَرِّفٍ، وَالْعَوَّامِ بْنِ حَوْشَبٍ، وَمَنْ تَابَعَهُمَا عَنْ هِلَالٍ مُرْسَلٌ.(علل دارقطنی رقم 663)
ہمارے نزدیک یہی بات صواب ہے کہ فلان بن حیان نے عبداللہ بن ظالم سے روایت کیا ہےجس کا منصور نے اثبات کیا ہے اور اس کو اپنی روایت میں بیان کیا ہے کہ ھلال نے عبداللہ بن ظالم سے نہیں سنا اور اس کے درمیان واسطہ موجود ہے۔
دوسرا قول بھی پیش ہے

وَسُئِلَ عَنْ حَدِيثِ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ ظَالِمٍ، عَنْ سَعِيدِ بْنِ زَيْدٍ، قَالَ ذَكَرَ النَّبِيُّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فِتْنَةً كَقِطَعِ اللَّيْلِ الْمُظْلِمَةِ بِحَسْبِ أَصْحَابِي الْقَتْلُ.
فَقَالَ: رَوَاهُ هِلَالُ بْنُ يَسَافٍ، وَاخْتُلِفَ عَنْهُ؛
فَرَوَاهُ عَبْدُ الْمَلِكِ بْنُ مَيْسَرَةَ، عَنْ هِلَالِ بْنِ يَسَافٍ، عَنِ ابْنِ ظَالِمٍ، عَنْ سَعِيدِ بْنِ زَيْدٍ.
تَفَرَّدَ بِهِ أَبُو أُسَامَةَ، عَنْ مِسْعَرٍ، عَنْ عَبْدِ الْمَلِكِ بْنِ مَيْسَرَةَ، عَنْ هِلَالٍ، عَنِ ابْنِ ظَالِمٍ
قَالَ ذَلِكَ أَبُو الْأَحْوَصِ، عَنْ مَنْصُورٍ.
وَاخْتُلِفَ عَنِ الثَّوْرِيِّ، فَرَوَاهُ أَبُو نُعَيْمٍ، عَنِ الثَّوْرِيِّ، عَنْ مَنْصُورٍ، عَنْ هِلَالٍ، عَنِ ابْنِ ظَالِمٍ مُرْسَلًا.
وَقَالَ الْفِرْيَابِيُّ عَنِ الثَّوْرِيِّ، عَنْ مَنْصُورٍ، عَنْ هِلَالٍ، عَنِ ابْنِ ظَالِمٍ، عَنْ سَعِيدِ بْنِ زَيْدٍ.
وَحَدِيثُ مِسْعَرٍ هُوَ الصَّحِيحُ.
(حوالہ ایضا رقم 664)

اس کو ھلال بن یساف سے اختلاف کے ساتھ روایت کیا گیا ہے عبدالملک بن میسرۃ نے ھلال بن یساف سے عبداللہ بن ظالم سے سعید بن زید کے طریق سے نقل کیا ہے اور ابو اسامہ نے مسعرۃ سے عبداللملک بن میسرۃ سے ھلال سے عبداللہ بن ظالم سے روایت کرنے میں منفرد ہیں اور ابوالاحوص نے منصور سے اسی طرح روایت کیا ہے اور ثوری کی روایت میں اختلاف ہے اور ابو نعیم نے ثوری سے منصور سے ھلال سے ابن ظالم سے مرسلا روایت کیا ہے اور الفریابی نے ثوری سے منصور سے ھلال سے ابن ظالم سے سعید بن زید سے روایت کیا ہے اورمسعر کی حدیث سب سے صحیح ہے،
امام دارقطنی کے اس قول کو غور سے پڑھیں اس میں انہوں نے "بحسب اصحابی القتل" والی مسعر کی حدیث کو صحیح قرار دیا ہے اور مسعر نے یہ روایت بغیر کسی واسطے کے ھلال بن یساف عن عبداللہ بن ظالم سے روایت کی ہے اور اس کو امام دارقطنی صحیح بھی فرما رہے ہیں اور بلکہ یہاں سفیان ثوری کے طریق پر مسعر کی اس روایت کو ترجیح دے رہے ہیں اور سفیان ثوری کے سند میں اس واسطے کے ہونے کے باوجود اس میں وہ نہ اس اضافے کو مان رہے ہیں اور نہ خود اس میں انقطاع مان رہے ہیں بلکہ مسعر کی حدیث کو صحیح ترین مان رہے ہو جو بغیر اس واسطے کے روایت کی گئی ہے اس سے یہی معلوم ہوتا ہے کہ امام دارقطنی اگر اس واسطے کے قائل تھے تو انہوں نے اپنی بات سے رجوع کر لیا یا پھر ان کے دو متضاد قول ہیں اب سنابلی صاحب جو بھی سمجھیں امام دارقطنی کا وہ قول جو انہوں نے اپنی دلیل کے طور پر پیش کیا تھا وہ اس قول کے متضاد ہے جس کی وجہ سے یہ دونوں قول ساقط ہو گئے ہیں اب آئیں ہم آپ کو امام علل امام بخاری کا فیصلہ سناتے ہیں جو اس واسطے کے قائلین کو نفی کرتے ہیں۔
امام بخاری کا قول
امام علل امام بخاری اس واسطے کا ہی انکار کرتے ہیں اور یہ فیصلہ صادر فرماتے ہیں کہ ھلال بن یساف اور عبداللہ بن طالم کے درمیان جو کوئی یہ واسطہ مانتا ہے وہ صحیح نہیں ہے چنانچہ اپنی معرکہ آراء کتاب تاریخ الکبیر میں عبداللہ بن ظالم کے ترجمہ کے تحت فرماتے ہیں

عَبْدُ اللَّهِ بْنُ ظَالِمٍ عَنْ سَعِيدِ بْنِ زَيْدٍ عَنِ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: عَشَرَةٌ في الْجَنَّةِ، قَاله عُبَيْدُ بْنُ سعيد عن سفيان: عن منصور عَنْ هِلالِ بْنِ يَسَافٍ عَنْ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ ظَالِمٍ التَّمِيمِيِّ، سَمِعَ سَعِيدِ بْنِ زَيْدٍ عَنِ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، وَقَالَ مُسَدَّدٌ عَنْ خَالِدٍ عَنْ حُصَيْنٍ مِثْله وَلَمْ يَقُلِ التَّمِيمِيُّ، وَقَالَ أَبُو الأَحْوَصِ: عَنْ مَنْصُورٍ عَنْ هِلالٍ عَنْ سَعِيد عَنِ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ وَزَادَ بَعْضُهُمُ ابْنَ حَيَّانَ فيهِ وَلَمْ يَصِحَّ، وَلَيْسَ لَهُ حَدِيثٌ إِلا هَذَا وَبِحَسْبِ أَصْحَابِي الْقَتْلُ، رَوَى عَنْهُ عَبْدُ الملك ابن مَيْسَرَةَ.(تاریخ الکبیر ترجمہ367 5/125)
عبداللہ بن ظالم نے سعید بن زید رضی اللہ عنہ کے طریق سے نبی صلی اللہ علیہ وسلم سے دس جنتی والی روایت نقل کی ہے اور اس(روایت)کو عبید بن سعید نے سفیان سے منصور سے ھلال بن یساف سے عبداللہ بن ظالم التمیمی سے سعید بن زید سے نبی صلی اللہ علیہ وسلم سے سنا ہے اور مسدد نے خالد سے حصین سے اسی طرح روایت کیا ہے مگر اس میں اس(عبداللہ بن ظالم) کو التمیمی نہیں کہا ہے اور ابو الاحوص نے منصور سے ھلال بن یساف سے سعید سے نبی صلی اللہ علیہ وسلم سے نقل کیا اور بعض اس میں ابن حیان کا اضافہ کرتے ہیں جو صحیح نہیں ہے مگر اس سے صرف یہی "بحسب اصحابی القتل" (ثابت) ہےجس کو اس سے عبدالملک بن میسرۃ نے روایت کیا ہے۔


امام بخاری کےاس قول سے درج ذیل نقاط سامنے آتے ہیں


(1) امام بخاری بھی اس واسطے کے قائل نہیں ہیں اورجو اس کے قائل ہیں اس کا انہوں نے یہ فرما کر رد کیا ہے "
وَزَادَ بَعْضُهُمُ ابْنَ حَيَّانَ فيهِ وَلَمْ يَصِحَّ" بعض اس میں ابن حیان کا اضافہ کرتے ہیں جو صحیح نہیں " امام علل کا یہ فیصلہ ثقات کی اس جماعت سے مطابقت رکھتا ہے اور امام کی تائید ثقات کی جماعت کرتی ہے کہ سفیان ثوری نے جس واسطے کا ذکر کیا ہے وہ غلطی پر مبنی ہے
(2) امام بخاری اس حدیث "عشرۃ فی الجنۃ" کو ضعیف مانتے ہیں مگر اس کی وجہ اس میں انقطاع نہیں ہے بلکہ امام بخاری عبداللہ بن ظالم میں کچھ ضعف مانتے ہیں چنانچہ اب اشکال یہ پیدا ہوتا ہے کہ پھر امام بخاری عبداللہ بن ظالم کی دوسری حدیث"بحسب اصحابی القتل" کو صحیح کیوں فرمارہے ہیں اس کی وجہ یہ ہے کہ "بحسب اصحابی القتل" والی حدیث سعید بن زید رضی اللہ عنہ سے دوسری سند سے ثابت ہے جس کو ھلال بن یساف نے عبداللہ بن ظالم کے واسطے کے بغیر امام ابو داود نے اپنی سنن میں روایت کیا ہے چنانچہ وہ سند پیش ہے

حَدَّثَنَا مُسَدَّدٌ، حَدَّثَنَا أَبُو الْأَحْوَصِ سَلَّامُ بْنُ سُلَيْمٍ، عَنْ مَنْصُورٍ، عَنْ هِلَالِ بْنِ يَسَافٍ، عَنْ سَعِيدِ بْنِ زَيْدٍ، قَالَ: كُنَّا عِنْدَ النَّبِيِّ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، فَذَكَرَ فِتْنَةً، فَعَظَّمَ أَمْرَهَا، فَقُلْنَا: - أَوْ قَالُوا: - يَا رَسُولَ اللَّهِ، لَئِنْ أَدْرَكَتْنَا هَذِهِ لَتُهْلِكَنَّا، فَقَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: «كَلَّا، إِنَّ
بِحَسْبِكُمُ الْقَتْل(سنن ابوداود رقم4277)
اس سے واضح ہو گیا کہ امام بخاری نے عبداللہ بن ظالم کی اس حدیث کو ضعیف کیوں فرمایا ہے اور دیگرمحدثین جن کو دلیل کے طور پر شیخ سنابلی صاحب نے پیش کیا ہے ان محدثین نے بھی اس حدیث کو جو ضعیف کہا ہے وہ فقط امام بخاری کے اس قول کی بنا پر کہا ہے اور کسی نے بھی اس کے انقطاع کی وجہ سے اس کو ضعیف نہیں کہا ہے چنانچہ اس کا بیان ہم اپنے مقام پر کریں گےامام بخاری کے اس قول سے اس بات کا قطعی رد ہوتا ہےکہ اس روایت میں کسی واسطے کو ساقط کیا گیا ہے۔

ایک شبہ کا ازالہ
اسی فورم پر سنابلی صاحب نے اس قول کی رد میں یہ فرمایا کہ محدثین نے امام بخاری کے قول "لم یصح" سے یہ اخذ کیا ہے کہ یہ حدیث ضعیف ہے اس لئے آج کسی کا امام بخاری کے قول(ولم یصح)کا کوئی اور مطلب بنانا کوئی معنی نہیں رکھتا ۔
شیخ صاحب کا یہ استدلال درج ذیل وجوہ کی بنا پر غلط ہے
(1) شیخ سنابلی صاحب نے مومل بن اسماعیل کی توثیق پر کتاب لکھی ہے چنانچہ اس میں امام بخاری کی مومل بن اسماعیل کی جرح "منکر الحدیث" پر یہ تبصرہ کیا ہے کہ امام بخاری کا قول ثابت ہی نہیں ہے بلکہ امام مزی سے اس قول کو نقل کرنے میں غلطی لگی ہے(توثیق مومل بن اسماعیل ص 7)
اس قول کو درج ذیل محدثین نے اسی طرح سمجھا ہے
(1) حافظ ابن حجر(تھذیب التھذیب رقم 682)
(2)امام ذہبی (میزان اعتدال رقم 8949)
(3) امام خزرجی(خلاصۃ تذھیب تھذیب الکمال 1/393)
(4) شیخ البانی (سلسلہ احادیث الضعیفہ رقم 3995)
شیخ صاحب کس طرح ان محدثین کے خلاف آج امام بخاری کے اس قول کو سمجھ گئے کہ یہ انہوں نے "مومل بن اسماعیل" کے لئے نہیں فرمایا تو ہم بھی یہی کہتے ہیں آج کسی کا امام بخاری کے قول(منکر الحدیث)کا کوئی اور مطلب بنانا کوئی معنی نہیں رکھتا

(2) سنابلی صاحب اس قول کے جواب میں یہی فرمائیں گے کہ میں نے دلیل سے ثابت کیا ہے کہ امام مزی سے غلطی لگی ہے چنانچہ ہم بھی یہی کہتے ہیں کہ ہم بھی دلیل سے ثابت کرتے ہیں کہ امام بخاری کا تاریخ الکبیر کا یہ قول"
وَزَادَ بَعْضُهُمُ ابْنَ حَيَّانَ فيهِ وَلَمْ يَصِح" سے مراد اس میں ابن حیان کے اس واسطے کا انکار ہی ہے چنانچہ اس کی دلیل یہ ہے
امام بخاری کے اس حوالے سے دو اقوال ہیں پہلا قول وہی ہے جس میں انہوں نے عبداللہ بن ظالم کی حدیث "عشرۃ فی الجنۃ" کو "لم یصح" فرمایا ہے اس قول کو امام ابن عدی اور امام عقیلی نے اپنی اپنی اسناد سے نقل کیا ہے اور وہ اسناد ہم پیش کیے دیتے ہیں

حَدَّثَنِي آدَمُ بْنُ مُوسَى قَالَ: سَمِعْتُ الْبُخَارِيَّ قَالَ: عَبْدُ اللَّهِ بْنُ ظَالِمٍ، عَنْ سَعِيدِ بْنِ زَيْدٍ، عَنِ النَّبِيِّ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، وَلَا يَصِحّ(الضعفاء الکبیر للعقیلی رقم827 2/267)
دوسری سند سے یہی قول ابن عدی نے نقل کیا ہے

سمعتُ ابن حماد يقول: قال البُخارِيّ عَبد الله بن ظالم عن سَعِيد بن زيد عَنِ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيهِ وَسلَّمَ ولم يصح.(کامل الضعفاء ابن عدی رقم 1035 5/370)
ان اسناد کو شیخ سنابلی صاحب نے بھی دلیل کے طور پر نقل کیا ہے اور دوسرا قول امام بخاری کی کتاب التاریخ الکبیر میں نقل ہوا ہے جس میں انہوں نے اس واسطے کا ذکر کرنے والوں کا رد کیا ہے وہ قول پیش ہے

وَزَادَ بَعْضُهُمُ ابْنَ حَيَّانَ فيهِ وَلَمْ يَصِحَّ
اور بعض اس میں ابن حیان کا اضافہ کرتے ہیں جو صحیح نہیں۔
امام کا یہ قول تاریخ الکبیر میں ہے اور تاریخ الکیبر امام بخاری کے ان تلامذہ نے نقل کی ہے

رواية ابى الحسن محمد بن سهل بن كردى البصري المقرى الفسوى عنه.
رواية ابى بكر احمد بن عبدان بن محمد بن الفرج الشيرازي الحافظ عنه.
رواية ابى احمد عبد الوهاب بن محمد بن موسى الغند جانى عنه رواية ابى الغنائم محمد بن على بن ميمون النرسى الحافظ
الكوفى عنه.
رواية الشيخ الجليل ابى الحسين عبد الحق بن عبد الخالق ابن احمد بن عبد القادر بن محمد بن يوسف عنه.

اور سب سے معروف نسخہ ان کے اس شاگرد سے ہے

أبو أحمد محمد بن سليمان بن فارس
یہ امام بخاری کی کتاب کا قول ہے اور جس کتاب کو روایت کرنے والوں کے نام درج بالا ہیں جبکہ وہ قول جس کو شیخ سنابلی صاحب اس قول سے خلط ملط کر رہے ہیں وہ اس طرح ہے

سمعتُ ابن حماد يقول: قال البُخارِيّ عَبد الله بن ظالم عن سَعِيد بن زيد عَنِ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيهِ وَسلَّمَ ولم يصح.
ابن عدی فرماتے ہیں میں نے ابن حماد سے سنا وہ کہتے ہیں کہ امام بخاری کہتے ہیں عبداللہ بن ظالم کا سعید بن زید سے نبی صلی اللہ علیہ وسلم سے (روایت) صحیح نہیں
اور حافظ العقیلی نے بھی یہی نقل کیا ہے

حَدَّثَنِي آدَمُ بْنُ مُوسَى قَالَ: سَمِعْتُ الْبُخَارِيَّ قَالَ: عَبْدُ اللَّهِ بْنُ ظَالِمٍ، عَنْ سَعِيدِ بْنِ زَيْدٍ، عَنِ النَّبِيِّ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، وَلَا يَصِحّ(الضعفاء الکبیر للعقیلی رقم827 2/267)
امام العقیلی فرماتے ہیں مجھ سے ادم بن موسی نے بیان کیا کہ انہوں نے امام بخاری سے سنا امام بخاری کہتے ہیں عبداللہ بن ظالم کی سعید بن زید سے نبی صلی اللہ علیہ وسلم سے (روایت ) صحیح نہیں۔
اس میں امام بخاری کے ایک شاگرد ابن حماد نے امام بخاری سے یہ سنا ہے جس کو امام ابن عدی سن کر اپنی کتاب میں نقل کیا ہے دوسرا قول امام العقیلی نے اپنی کتاب میں آدم بن موسی سے نقل کیا ہے جبکہ التاریخ الکبیر کو نہ اس ابن حماد نے روایت کیا ہے اور نہ آدم بن موسی نے روایت کیا ہے اور یہ قول کس طرح ہے یہ قارئین کی نظر ہے
َزَادَ بَعْضُهُمُ ابْنَ حَيَّانَ فيهِ وَلَمْ يَصِحَّ
اور بعض اس میں ابن حیان کا اضافہ کرتے ہیں جو صحیح نہیں۔
ان دونوں اقوال کو غور سے پڑھیں تو یہ بات واضح ہو جائی گی کہ یہ دونوں الگ الگ قول ہیں اور ان کو روایت کرنے والے بھی الگ الگ رواۃ ہیں ایک میں عبداللہ بن ظالم اور سعید بن زید رضی اللہ عنہ کا ذکر کر کے یہ کہا گیا کہ روایت صحیح نہیں ہے جبکہ دوسرے قول میں ابن حیان کا باقاعدہ نام لے کر یہ کہا جارہا ہے اس کا اضافہ ہونا صحیح نہیں ہے اب دونوں قول ایک ساتھ رکھ کر پیش ہیں

امام بخاری کہتے ہیں عبداللہ بن ظالم کی سعید بن زید سے نبی صلی اللہ علیہ وسلم سے (روایت ) صحیح نہیں۔

اور بعض اس میں ابن حیان کا اضافہ کرتے ہیں جو صحیح نہیں۔

انصاف سے فیصلہ کریں کیا دونوں قول ایک ہیں ان کے راوی الگ ان میں جو الفاظ استعمال ہوئے وہ الگ ان میں جو نام (ایک میں اب حیان اور دوسرے میں عبداللہ بن ظالم) پیش ہوئے وہ الگ ان کی اسناد الگ اپنی سند سے کتابوں میں درج کرنے والے الگ اس کے باوجود بھی کوئی یہ کہے اور وہ بھی ایک علمی شخصیت صرف اس روایت کو ضعیف کرنے کی خاطر تو یہ کوئی علمی انداز تو نہیں ہے۔
ان واضح دلائل سے یہ ثابت ہوتا ہے کہ امام بخاری امام علل نے بھی اس واسطے کا انکار کیا ہے اور ان کے اس قول کا غلط معنی بنانا صرف اس ایک روایت کو ضعیف کرنے کے لئے یہ کوئی علمی انداز نہیں ہے۔


بعض محدثٰن کا اس روایت کو ضعیف کہنا
اس حوالے سے سنابلی صاحب نے چند نام پیش کیے ہیں اس روایت کو درج ذیل نے ضییف کہا ہے
(1) امام بخاری(2) امام نسائی(3) امام عقیلی(4)امام دارقطنی ابن عدی(6) امام ذہبی
ان تمام کے حوالے سے نقل کیا کہ انہوں نے اس کی تضیعف کی ہے جبکہ ان میں سے اکثر نے صرف امام بخاری کے اس قول پر اعتماد کرکے پوری حدیث "عشرۃ فی الجنۃ" ہی کو ضعیف کہا ہے صرف اس ایک سند کو نہیں اگر شیخ سنابلی صاحب ان محدثین پر اعتماد کرتے ہیں تو پھراس پوری حدیث" عشرۃ فی الجنۃ" کو ہی ضعیف فرما دیں مگر وہ صرف اس سند ہی کو ضعیف کہتے ہیں اس حدیث کو صحیح مانتے ہیں کہ یہ دوسری سند سے ثابت ہے تو اس کا معنی یہ ہوا کہ اس سے قبل صرف امام نسائی نے اس روایت میں انقطاع کا ذکر کیا تھا اور باقی محدثٰین تو امام بخاری کے قول پر اعتماد کر کے پوری حدیث کوضعیف مانتے ہیں
اب ہم ان محدثین کے وہ اقوال بھی پیش کر دیتے ہیں جس سے قارئین پر واضح ہو جائے گا درج ذیل محدثین نے امام بخاری کے قول پر ہی اعتماد کیا ہے اور انہی کا قول نقل کرکے اس پوری حدیث عشرہ مبشرہ کی تضعیف کی ہے نہ کہ صرف اس سند کو ضعیف کہا ہے

امام ابن عدی:

سمعتُ ابن حماد يقول: قال البُخارِيّ عَبد الله بن ظالم عن سَعِيد بن زيد عَنِ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيهِ وَسلَّمَ ولم يصح.
شیخ سنابلی نے اس قول کے علاوہ ابن عدی سے اس کی تضعیف میں اور کوئی دلیل نقل نہیں کی ہے جس سے معلوم ہوتا ہے کہ ہماری بات صواب ہے کہ ابن عدی نے بھی اس حدیث کے ضعیف ہونے میں امام بخاری کے قول پر اعتماد کیا ہے
امام ذہبی:
امام ذہبی سے بھی شیخ سنابلی صاحب نے امام بخاری کا ہی قول نقل کیا ہے جس سے معلوم ہوتا ہے کہ امام ذہبی نے بھی اس میں امام بخاری پر ہی اعتماد کیا ہے قول پیش ہے

عن سعيد بن زيد بحديث العشرة في الجنة، قال البخاري: لم يصح.(میزان اعتدال رقم 3493 2/448)
امام عقیلی:
امام عقیلی نے بھی پہلے امام بخاری کا یہ قول نقل کیا ہے اس کے بعد اس پر بحث کی ہےاور جس کا ما حصل یہ ہے کہ اس عشرۃ مبشرۃ والی روایات کو بعض نے ا نبی صلی اللہ علیہ وسلم سے حراء پہاڑ والے واقعے کے ساتھ بیان کیا ہے اوربعض نے حراء پہاڑ کا ذکر نہیں کیا ہے مگر امام عقیلی کے قول کی بنیاد بھی امام بخاری کے قول "لم یصح" پر ہی ہے
اس سے میری اس بات کی تائید ہوتی ہے کہ امام عقیلی نے اس حدیث کی اسناد پر بحث کر کے اس"عشرۃ فی
الجنۃ" کی حدیث کی ہی تضعیف کی ہے نہ کہ صرف اس سند کی تضعیف کی ہے

امام بخاری:
امام بخاری نے اس کو اس وجہ سے ضعیف مانتے ہیں کہ انہوں نے عبداللہ بن ظالم میں کمزوری پائی جس کو ابن حجر نے "تلین" سے تعبیر کیا ہے چنانچہ تقریب التھذیب میں نقل کیا ہے "لینہ فی بخاری"مگر حافظ ابن حجر اس کو خود صدوق مانتے ہیں اور دیگر محدثین نے اس کو ثقہ کہا ہے مثلا

امام ابن حبان نے ان کو ثقات میں ذکر کیا ہے(الثقات لابن حبان رقم3622 5/18)
امام العجلی نے ان کو ثقہ کہا ہے(الثقات العجلی رقم913 2/38)
حافظ ابن حجر نے صدوق کہا ہے"
صدوق لينه البخارى"(تقریب التھذیب رقم3400 1/308)
تو عبداللہ بن ظالم صدوق راوی ہے اس لئے اس کی روایت حسن سے کم نہیں ہے

امام نسائی و امام دارقطنی:
ان دونوں کے حوالے سے اوپر تفصیل سے نقل کردیا گیا ہے اس لئے یہاں اس کو دوہرانے کی حاجت نہیں ہے

الحمدللہ ہم نے اس روایت سے متعلق تمام اشکالات اور شبہات کا ازالہ کرنے کی پوری کوشش کی ہے اور یہ روایت حسن سے کسی طرح بھی کم نہیں ہے۔

[FONT=Arial, sans-serif]نوٹ: اس روایت کے حوالے سے صرف سند اور رواۃ اور روایت کے ضعف اور صحیح ہونے کے بارے میں اشکالات یا مباحث کا جواب دوں گا برائے مہربانی دیگر قسم کے تبصروں سے گریز کریں کیونکہ اس کے علاوہ کسی بھی قسم کے تبصرے میں شامل نہیں ہوں گا[/FONT]
 

ابن داود

فعال رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
نومبر 08، 2011
پیغامات
3,417
ری ایکشن اسکور
2,730
پوائنٹ
556
السلام علیکم علیکم ورحمۃ اللہ وبرکاتہ!
سب سے پہلے تو آپ اس تھریڈ کا مطالعہ کیجیئے!
علم حدیث کو کھلواڑ اور بازیچہ اطفال بنانے کی ایک مذموم کاوش

اور یہاں سے کچھ سبق حاصل ہو، تو پھر کسی اہل الحدیث شیخ الحدیث سے اصول حدیث کی بنیادی تعلیم حاصل کیجیئے!
کم از کم اتنا سمجھ لیجئے، کہ کسی محدث کا کسی حدیث کو صحیح کہنا کن کن معنی میں مستعمل ہوتا ہے، کہ کی ااس سے اس سند کو صحیح کہنا بھی لازم آتا ہے یا نہیں!
اور کیا اس سے ہمیشہ مکمل متن مراد ہوتا ہے، یا کہ اس کے مرفوع حصہ کے متعلق ہوتا ہے!
اور صحیح کہنے کے باوجود ادراج کا کیا معاملہ ہے؟
بہر حال آپ اپنے صارفی نام کا خیال رکھتے ہوئے، حدیث کا دفاع علم الحدیث کی روشنی میں کیجئے! نہ کہ اپنے اٹکل پچو کی بنا پر!
اس حوالے سے سنابلی صاحب نے چند نام پیش کیے ہیں اس روایت کو درج ذیل نے ضییف کہا ہے
(1) امام بخاری(2) امام نسائی(3) امام عقیلی(4)امام دارقطنی ابن عدی(6) امام ذہبی
ان تمام کے حوالے سے نقل کیا کہ انہوں نے اس کی تضیعف کی ہے جبکہ ان میں سے اکثر نے صرف امام بخاری کے اس قول پر اعتماد کرکے پوری حدیث "عشرۃ فی الجنۃ" ہی کو ضعیف کہا ہے صرف اس ایک سند کو نہیں اگر شیخ سنابلی صاحب ان محدثین پر اعتماد کرتے ہیں تو پھراس پوری حدیث" عشرۃ فی الجنۃ" کو ہی ضعیف فرما دیں مگر وہ صرف اس سند ہی کو ضعیف کہتے ہیں اس حدیث کو صحیح مانتے ہیں کہ یہ دوسری سند سے ثابت ہے تو اس کا معنی یہ ہوا کہ اس سے قبل صرف امام نسائی نے اس روایت میں انقطاع کا ذکر کیا تھا اور باقی محدثٰین تو امام بخاری کے قول پر اعتماد کر کے پوری حدیث کوضعیف مانتے ہیں
اب جو سند کی تضعیف اور حدیث کی تضعیف کے فرق کو نہ سمجھ سکتا ہو ، وہ اپنے اٹکل پچھو جھاڑے چلا جا رہا ہے!
 

difa-e- hadis

رکن
شمولیت
جنوری 20، 2017
پیغامات
294
ری ایکشن اسکور
30
پوائنٹ
71
ور یہاں سے کچھ سبق حاصل ہو، تو پھر کسی اہل الحدیث شیخ الحدیث سے اصول حدیث کی بنیادی تعلیم حاصل کیجیئے!
کم از کم اتنا سمجھ لیجئے، کہ کسی محدث کا کسی حدیث کو صحیح کہنا کن کن معنی میں مستعمل ہوتا ہے، کہ کی ااس سے اس سند کو صحیح کہنا بھی لازم آتا ہے یا نہیں!
اور کیا اس سے ہمیشہ مکمل متن مراد ہوتا ہے، یا کہ اس کے مرفوع حصہ کے متعلق ہوتا ہے!
اور صحیح کہنے کے باوجود ادراج کا کیا معاملہ ہے؟
بہر حال آپ اپنے صارفی نام کا خیال رکھتے ہوئے، حدیث کا دفاع علم الحدیث کی روشنی میں کیجئے! نہ کہ اپنے اٹکل پچو کی بنا پر!
والسلام ورحمۃ اللہ و برکاتہ
محترم بھائی
آپ کے مشورے کا شکریہ میں نے آپ کے مشورے پر آپ کے دییے گئے لنک کو پڑھا میں نے یہ گمان کیا تھا کہ میری اس پوسٹ کے جواب میں جو تبصرہ ہو گا وہ میری غلطی کو واضح کیا جائے کا یا اصول حدیث سے اس پوسٹ میں میرے موقوف کو رد کیا جائےگا مگر یہاں مجھ پر تنقید کا عمل شروع ہو گیا ہےآپ نے جو لنک مجھے دیا ہے اس میں بھی علمی انداز سے اس اٹکل پچو کا رد ہی کیا گیا ہے تو اگر بقول آپ کے یہ میری اٹکل پچو ہے تو اس کا رد اپ علمی انداز سے کر کے میری غلطی واضح کرتے مگر شاید ایسا نہیں ہوا۔

آپ نے کہا

کیا اس سے ہمیشہ مکمل متن مراد ہوتا ہے، یا کہ اس کے مرفوع حصہ کے متعلق ہوتا ہے!

آپ کے اس کہنے سے میں یہ سمجھا ہوں کہ اس سے آپ کا مقصد یہ ہے کہ میں نے جو شیخ البانی اور احمد شاکر کے حوالے سے اس کی تصیح کی ہے تو ان کی مراد اس سے اس حدیث کے مرفوع حصہ کی تصحیح ہے اگر ایسا ہی ہے تو پھر شیخ سنابلی صاحب کو احمد شاکر کا تساہل کا راز کے نام سے عنوان قائم کر کے اس کو رد کرنے کی ضرورت نہ پڑتی اس سے معلوم ہوتا ہے کہ شیخ سنابلی صاحب نے بھی یہی سمجھا ہے کہ احمد شاکر رحمہ اللہ نے اس پورے متن کو صحیح کہا ہے نہ کہ صرف مرفوع حصہ کو صحیح قرار دیا ہے
اور شیخ البانی کا موقف اس بارے میں بالکل واضح ہے اگر ان کے نذدیک کسی حدیث کا کوئی حصہ ضعیف ہوتا ہے یا کوئی موقوف قول صحیح نہیں ہوتا تو وہ اس کو واضح کر دیتے ہیں آپ کے لئے چند امثال پیش ہیں

ibn maja.jpg


ضعیف سنن ابن ماجہ

qool shaz.jpg

ضعیف ابوداود
 

difa-e- hadis

رکن
شمولیت
جنوری 20، 2017
پیغامات
294
ری ایکشن اسکور
30
پوائنٹ
71
اب جو سند کی تضعیف اور حدیث کی تضعیف کے فرق کو نہ سمجھ سکتا ہو ، وہ اپنے اٹکل پچھو جھاڑے چلا جا رہا ہے!
اس حوالے سے اپ امام العقیلی کا اس حدیث پر پورا تبصرہ پڑھ لیں جس سے اپ کو اندازہ ہو جائے گا کہ انہوں نے اس حدیث کے مرفوع حصہ پر ہی تبصرہ کیا ہے اور تمام اسناد کو جمع کر کے یہ نقل کیا ہے کہ "اس میں بعض نے اس حدیث میں حراء کا ذکر کیا اور بعض نے صرف دس جنتی کا ذکر کیا اوراس باب میں میں عثمان بن عفان، ابو ھریرہ ،انس، سھل بن سعد، ابن عباس رضی اللہ عنھم سے بھی روایت ہے" یہی وجہ ہے کہ شیخ سنابلی صاحب کو بھی اس حدیث کے مرفوع حصہ کو ایک اورصحیح سند سے پیش کرنا پڑا



آخر میں اس پوسٹ کا لنک بھِی لگا رہا ہوں

http://forum.mohaddis.com/threads/کیا-معاویہ-اور-مغیرہ-رضی-اللہ-عنہما-علی-رضی-اللہ-عنہ-پرلعن-وطعن-کرتے-تھے-؟.27742/
 
Top