مسند احمد اور مسند ابو یعلیٰ میں حضرت انس بن مالک رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا
السلام علیکم ورحمۃ اللہ
یہ حدیث مسند احمد میں درج ذیل ہے :
حدثنا أنس بن عياض، حدثني يوسف بن أبي ذرة الأنصاري، عن جعفر بن عمرو بن أمية الضمري، عن أنس بن مالك، أن رسول الله صلى الله عليه وسلم قال: " ما من معمر يعمر في الإسلام أربعين سنة، إلا صرف الله عنه ثلاثة أنواع من البلاء: الجنون، والجذام، والبرص، فإذا بلغ خمسين سنة، لين الله عليه الحساب، فإذا بلغ ستين، رزقه الله الإنابة إليه بما يحب، فإذا بلغ سبعين سنة، أحبه الله، وأحبه أهل السماء، فإذا بلغ الثمانين، قبل الله حسناته، وتجاوز عن سيئاته، فإذا بلغ تسعين، غفر الله له ما تقدم من ذنبه، وما تأخر، وسمي أسير الله في أرضه، وشفع لأهل بيته "
ترجمہ :
سیدنا انس (رضی اللہ عنہ) سے مروی ہے کہ نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا جس شخص کو اسلام کی حالت میں چالیس برس کی عمر مل جائے، اللہ اس سے تین قسم کی بیماریاں جنون، کوڑھ، چیچک کو دور فرما دیتے ہیں، جب وہ پچاس سال کی عمر کو پہنچ جائے تو اللہ اس پر حساب کتاب میں آسانی فرما دیتے ہیں، جب ساٹھ سال کی عمر کو پہنچ جائے تو اللہ اسے اپنی طرف رجوع کی توفیق عطاء فرماتا ہے جو اسے محبوب ہے،
جب وہ ستر سال کی عمر کو پہنچ جائے تو اللہ تعالیٰ اور سارے آسمانوں والے اس سے محبت کرنے لگتے ہیں اور جب وہ اسی سال کی عمر کو پہنچ جائے تو اللہ تعالیٰ اس کی نیکیاں قبول فرما لیتا ہے اور اس کے گناہوں سے درگذر فرماتا ہے اور جب نوے سال کی عمر کو پہنچ جائے تو اللہ اس کے اگلے پچھلے سارے گناہ معاف فرما دیتا ہے اور اسے زمین میں " اسیر اللہ " کا نام دیا جاتا ہے اور اس کے اہل خانہ کے حق میں اس کی سفارش قبول ہوتی ہے۔
مسند احمد ، (حدیث نمبر 13279 )
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
محدثین نے اس حدیث کو " موضوع " قرار دیا ہے۔
علامہ شعیب الارنؤط مسند کی تحقیق میں لکھتے ہیں :
إسناده ضعيف جداَ، يوسف بن أبي ذرة، قال ابن معين: لا شيء، وقال ابن حبان في المجروحين " 3/131-132: منكر الحديث جداَ، ممن يروي المناكير التي لا أصل لها من حديث رسول الله صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ على قلة روايته، لا يجوز الاحتجاج به بحال.
یعنی اس کی اسناد انتہائی ضعیف ہے ،
اس کے راوی یوسف بن ابی ذرۃ کے متعلق امام ابن معین فرماتے ہیں : یہ کوئی شیء نہیں ، امام ابن حبان المجروحین میں فرماتے ہیں : یہ انتہائی منکر الحدیث ہے ،قلیل الروایۃ ہونے کے ساتھ اس کی منکر روایات کی کوئی اصل نہیں پائی جاتی، لہذا اس کی مرویات سے کسی حال میں احتجاج نہیں کیا جاسکتا،
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
یہ روایت سیدنا انس رضی اللہ عنہ سے موقوفاً بھی مروی ہے :
مسند احمد میں ہے :
حدثنا أبو النضر، حدثنا الفرج، حدثنا محمد بن عامر، عن محمد بن عبد الله، عن جعفر بن عمرو، عن أنس بن مالك قال: " إذا بلغ الرجل المسلم أربعين سنة، آمنه الله من أنواع البلايا: من الجنون، والبرص، والجذام. وإذا بلغ الخمسين لين الله عز وجل عليه حسابه، وإذا بلغ الستين، رزقه الله إنابة يحبه عليها، وإذا بلغ السبعين، أحبه الله وأحبه أهل السماء، وإذا بلغ الثمانين، تقبل الله منه حسناته ومحا عنه سيئاته، وإذا بلغ التسعين، غفر الله له ما تقدم من ذنبه وما تأخر وسمي أسير الله في الأرض وشفع في أهله "
سیدنا انس (رضی اللہ عنہ) سے موقوفاً مروی ہے وہ فرماتے ہیں :
کہ جب کوئی مسلمان چالیس سال کی عمر کو پہنچتا ہے تو اللہ تعالیٰ اسے مختلف قسم کی بیماریوں مثلاً جنون، برص اور جذام سے محفوظ کردیتا ہے، جب پچاس سال کی عمر کا ہوجائے تو اللہ اس کے حساب میں نرمی کردیتا ہے جب ساٹھ سال کی عمر کو پہنچ جائے تو اللہ اسے اپنی طرف رجوع کرنے کی توفیق دے دیتا ہے اور اس کی بناء پر اس سے محبت کرنے لگتا ہے جب ستر سال کی عمر ہوجائے تو اللہ اور آسمان والے اس سے محبت کرنے لگتے ہیں جب اسی سال کی عمر ہوجائے تو اللہ اس کے اگلے پچھلے سارے گناہ معاف کردیتا ہے اور اسے " اسیر اللہ فی الارض " کا خطاب دیا جاتا ہے اور اس کے اہل خانہ کے بارے میں اس کی سفارش قبول کی جائے گی ‘‘
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
لیکن یہ بھی بے حد ضعیف اور ناکارہ اسناد سے ہے ، کیونکہ اس کا راوی فرج بن فضالۃ پرلے درجہ کا ضعیف راوی ہے ، اس کی روایات محدثین کے ہاں منکر روایات کا درجہ رکھتی ہیں ،
علامہ شعیب الارناؤط مسند کی تعلیق میں لکھتے ہیں :
إسناده ضعيف جداً لضعف فرج - وهو ابن فضالة -، ومحمد بن عامر لم نعرف من هو، واستظهر ابن الجوزي في "الموضوعات" أنه الرملي، لأنه ذكر قول ابن حبان فيه في "المجروحين"2/304: يقلب الأخبار، ويروي عن الثقات ما ليس من أحاديثهم، وقول ابن حبان هذا إنما هو في آخر من طبقة الِإمام أحمد لأنه يروي عن سفيان بن عيينة فيما ذكر ابن حبان، وقد سماه فرج في الِإسناد التالي محمد بن عبد الله العامري، ولم نعرفه كذلك. ومحمد بن عبد الله: هو ابن عمرو بن عثمان
الملقب بالديباج وهو ضعيف ذكره الِإمام البخاري في "الضعفاء" ص 102، وفي "التاريخ الكبير"1/139، وقال: عنده عجائب، وقال في "التاريخ الأوسط" المطبوع خطأ باسم"التاريخ الصغير": لا يكاد يتابع في حديثه، وكذا قال ابن الجارود، وقال مسلم في " الكنى " (1884) : منكر الحديث، واضطرب فيه قول النسائي، فقال مرة: ثقة، وقال في أخرى: ليس بالقوي. وظنه ابنُ الجوزي محمد بن عبيد الله العرزمي، ووافقه عليه الحافظ العراقي. وعمرو بن جعفر: قلب فرج اسمَه، وإنما هو جعفر بن عمرو بن أمية الضمري.