• الحمدللہ محدث فورم کو نئےسافٹ ویئر زین فورو 2.1.7 پر کامیابی سے منتقل کر لیا گیا ہے۔ شکایات و مسائل درج کروانے کے لئے یہاں کلک کریں۔
  • آئیے! مجلس التحقیق الاسلامی کے زیر اہتمام جاری عظیم الشان دعوتی واصلاحی ویب سائٹس کے ساتھ ماہانہ تعاون کریں اور انٹر نیٹ کے میدان میں اسلام کے عالمگیر پیغام کو عام کرنے میں محدث ٹیم کے دست وبازو بنیں ۔تفصیلات جاننے کے لئے یہاں کلک کریں۔

کیا یہ واقعہ ثابت ہے ؟؟

شمولیت
مارچ 01، 2016
پیغامات
47
ری ایکشن اسکور
4
پوائنٹ
52
السلام علیکم وحمتہ اللہ وبرکاتہ!
معزز علماء کرام سے گزارش ہے اس واقعے کی حقیقت بتا دیں؟؟
حضرت جابرؓنے اپنے بیٹوں کی موجودگی میں بکری ذبح کی تھی۔ جب جابرؓتشریف لے گئے تو انکے بیٹے چھری لیکر چھت پر جاپہنچے بڑے نے چھوٹے بھائی سے کہا آؤ میں بھی تمہارے ساتھ ایسا ہی کروں جیسا ہمارے والد نے بکری کے ساتھ کیا ۔ بڑے نے چھوٹے کو باندھا اور حلق پر چھری چلا دی اور سر تن سے جدا کرکے ہاتھوں میں اٹھا لیا ! جونہی ماں نے یہ منظر دیکھا تو دوسرے بیٹے کے پیچھے دوڑی وہ ڈر کر بھاگا، چھت سے گر ااو رفوت ہوگیا۔ اس صابرہ خاتون نے کسی قسم کا وا ویلا نہیں کیا کہ کہیں عظیم الشان مہمان نبی کریمؐ پریشان نہ ہوجائیں، نہایت صبرو استقلال سے دونوں کی ننھی لاشوں کو اندر لاکر ا ن پر کپڑا ڈال دیا اور کسی کو خبر نہ دی یہاں تک کہ حضرت جابرؓ کو بھی نہ بتایا۔ دل اگرچہ خون کے آنسو رورہا تھا مگر چہرے کو شگفتہ رکھااور کھانا پکایا۔ سرکار نامدارؐتشریف لائے اور کھانا آپؐ کی خدمت میں پیش کیا گیا۔ اسی وقت جبرائیل امینؑ نے حاضر ہوکرعرض کی ، یارسولؐ اللہ ! اللہ فرماتا ہے کہ جابر سے کہئے، اپنے فرزندوں کو لائے تاکہ وہ آپؐ کے ساتھ کھانے کا شرف حاصل کرلیں۔ آپؐ نے جابرؓ سے فرمایا ’’اپنے بیٹوں کو لاؤ‘‘ وہ فوراًباہر آئے اور زوجہ سے پوچھا ، فرزند کہاں ہیں؟اس نے کہا کہ حضور ؐسے عرض کیجئے کہ وہ موجود نہیں ہیں۔سرکار ؐنے فرمایا’’ اللہ کافرمان آیا ہے ان کو جلدی لاؤ‘‘غم کی ماری زوجہ رو پڑی اور بولی ، اے جابر! اب میں ان کو نہیں لاسکتی۔ حضرت جابرؓنے پوچھاکہ آخر بات کیا ہے؟ روتی کیوں ہو؟زوجہ نے سار ا ماجرا سنایا اور کپڑا اٹھا کر بیٹوںکو دکھایا، تووہ بھی رونے لگے کیونکہ وہ ان کے حال سے بے خبر تھے۔ پس حضرت جابرؓ نے ننھی ننھی لاشوں کو لاکر حضور انورؐ کے قدموں میں رکھ دیا۔ اُس وقت گھر سے رونے کی آوازیں آنے لگیں۔ اللہ نے جبرائیل ؑکو بھیجا اور فرمایا’’ اے پیارے حبیب! تم دعا کر وہم انہیں زندہ کردیں گے‘‘۔حضورؐ نے دعا فرمائی اور اللہ کے حکم سے دونوں بچے اسی وقت زندہ ہوگئے۔
(شواہد النبوۃ ص ۱۰۵، مدارج النبوت حصہ ۱ ص ۱۹۹)

@اسحاق سلفی
@خضر حیات
@مقبول احمد سلفی
@کفایت اللہ
 

خضر حیات

علمی نگران
رکن انتظامیہ
شمولیت
اپریل 14، 2011
پیغامات
8,773
ری ایکشن اسکور
8,473
پوائنٹ
964
وعلیکم السلام ورحمۃ اللہ وبرکاتہ
شواہد النبوۃ دیکھی، فارسی میں ہے۔ مدارج النبوۃ اردو میں محولہ صفحہ پر ایسا کوئی واقعہ نہیں۔
بعض کتابوں میں شواہد النبوۃ کے حوالے سے ہی یہ واقعہ ذکر ہے۔ سند وغیرہ کچھ بھی نہیں۔
گپ ہی محسوس ہوتی ہے۔ اتنا بڑا واقعہ حضور صلی اللہ علیہ وسلم کے دور میں ہوا ہو تو اس کی شہرت ہونی چاہیے تھی، حالانکہ معاملہ اس کے برعکس ہے۔
 

اسحاق سلفی

فعال رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
اگست 25، 2014
پیغامات
6,372
ری ایکشن اسکور
2,565
پوائنٹ
791
حضرت جابرؓنے اپنے بیٹوں کی موجودگی میں بکری ذبح کی تھی۔ جب جابرؓتشریف لے گئے تو انکے بیٹے چھری لیکر چھت پر جاپہنچے بڑے نے چھوٹے بھائی سے کہا آؤ میں بھی تمہارے ساتھ ایسا ہی کروں جیسا ہمارے والد نے بکری کے ساتھ کیا ۔
وعلیکم السلام ورحمۃ اللہ وبرکاتہ
یہ قصہ مولوی حسین بن محمد الدیار بکری (المتوفی 966 ھ) نے اپنی کتاب :
" تاريخ الخميس في أحوال أنفس النفيس " میں نقل کیا ہے ،
http://shamela.ws/browse.php/book-9784#page-499
ــــــــــــــــــــــــــــ
اور اس کتاب کی حالت و حیثیت سمجھنے کیلئے کتاب کے ابتدائی کلمات کافی ہیں ،لکھتے ہیں :
الحمد لله الذى خلق نور نبيه قبل كل أوائل* ثم خلق منه كل شئ من الاعالى والاسافل*
یعنی سب تعریفیں اس اللہ کیلئے جس نے اپنے نبی کا نور تمام مخلوق سے پہلے پیدا کیا ، پھر اسی نور سے اوپر ،نیچے کی تمام اشیاء کو تخلیق فرمایا "
اور چند صفحات آگے "سیدنا آدم کے نکاح " کے عنوان سے لکھا ہے کہ :
اللہ تعالی نے آدم و حواء کا نکاح خود ہی خطبہ دے کرپڑھایا ،
خطبة نكاح آدم وحوّاء التي خطبها الله عز وجل
وهذه خطبة نكاح آدم وحوّاء خطبها الله تعالى* الحمد ثنائى والعظمة ازارى والكبرياء ردائى والخلق كلهم عبيدى وامائى اشهدوا يا ملائكتى وحملة عرشى وسكان سمواتى انى زوّجت حوّاء أمتى عبدى آدم بديع فطرتى وصنع يدى على صداق تقديسى وتسبيحى وتهليلى يا آدم اسكن أنت وزوجك الجنة وكلا منها الآية*

تاریخ الخمیس ،جلد اول ،صفحہ 47
http://shamela.ws/browse.php/book-9784#page-46

جس مصنف کا عقیدہ ایسا ہو اس کی کتاب میں موجود روایات کی حالت کیا ہوگی ،یہ سمجھنا مشکل نہیں ،
اور تاریخ الخمیس میں سیدنا جابر رضی اللہ عنہ کے بیٹوں کا قصہ "شواہد النبوۃ " کے حوالہ سےنقل کیا ہے ، اور "شواہد النبوۃ "سے مراد اگر عبدالرحمن جامی کی کتاب شواہد النبوۃ ہے تو جامی صاحب مشہور صوفی وحدت الوجود کے قائلفارسی شاعر ہیں ،(محرم ۸۹۸؁ھ میں فوت ہوئے اور افغانستان کے شہر ہرات میں پختہ مزار ہے )

صوفی عبدالرحمن جامی نحو کی مشہور درسی کتاب "کافیہ " کے شارح بھی ہیں ان کی شرح کا نام "
فوائد ضیائیہ شرح کافیہ " ہے اور پاک و ہند میں عربی علوم کے اکثر مدارس میں یہ شرح پڑھائی جاتی ہے ،
یہ مولوی جامی صاحب صوفیانہ اور بریلویانہ عقائد کے حامل صوفی تھے ،
ان کے کلام کا نمونہ ملاحظہ فرمائیں :

تنم فرسودہ جاں پارہ ز ہجراں، یا رسول اللہ ۖ صلی اللہ علیہ وسلم
دلم پژمردہ آوارہ ز عصیاں، یا رسول اللہ ۖ صلی اللہ علیہ وسلم

ترجمہ :
یا رسول اللہ، آپ کے ہجر وفراق میں میرا تن فرسودہ اور جان پارہ پارہ ہو چکی ہے اور میرا دل گناہوں کی وجہ سے مرجھایا ہوا اور آوارہ ہے (بھٹک رہا ہے)۔

چوں سوئے من گذر آری، منِ مسکیں ز ناداری
فدائے نقشِ نعلینت کنم جاں، یا رسول اللہ ۖ


اگر آپ (صل اللہ علیہ وسلم) کبھی میری طرف تشریف لائیں تو میں مسکین ناداری اور عاجزی سے آپ کے نعلینِ مبارک کے نقش پر اپنی جان قربان کر دوں۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
اور عشقیہ کلام کا نمونہ بھی پیش ہے ،فرماتے ہیں :

ماہِ من در نیم شب چوں بے نقاب آید بروں
زاہدِ صد سالہ از مسجد خراب آید بروں


میرا چاند آدھی رات کو اگر بے نقاب باہر نکلے تو سو سالہ زاہد بھی مسجد سے خراب اور اسکا دیوانہ ہو کر باہر نکل آئے۔

صُبح دم چوں رُخ نمودی شُد نمازِ من قضا
سجدہ کے باشد روا چوں آفتاب آید بروں


صبح کے وقت جب تیرا چہرا دیکھا تو میری نماز قضا ہو گئی کیونکہ سجدہ کیسے روا ہو سکتا ہے جب کہ سوج نکل آئے۔
ـــــــــــــــــــــــــــــ
لہذا ایسے مصنفین و مؤلفین کی کتب میں موجود روایات کا کوئی اعتبار نہیں ؛
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔​
 
Last edited:
Top