• الحمدللہ محدث فورم کو نئےسافٹ ویئر زین فورو 2.1.7 پر کامیابی سے منتقل کر لیا گیا ہے۔ شکایات و مسائل درج کروانے کے لئے یہاں کلک کریں۔
  • آئیے! مجلس التحقیق الاسلامی کے زیر اہتمام جاری عظیم الشان دعوتی واصلاحی ویب سائٹس کے ساتھ ماہانہ تعاون کریں اور انٹر نیٹ کے میدان میں اسلام کے عالمگیر پیغام کو عام کرنے میں محدث ٹیم کے دست وبازو بنیں ۔تفصیلات جاننے کے لئے یہاں کلک کریں۔

کیا یہ ویڈیو اماں عائشہ رضی اللہ عنہا کی گستاخی کے ذمرے میں آتی ہے؟ اہل علم روشنی ڈالیں!

محمد علی جواد

سینئر رکن
شمولیت
جولائی 18، 2012
پیغامات
1,986
ری ایکشن اسکور
1,551
پوائنٹ
304
مجھے در اصل پہلی پوسٹ میں دئیے لنک میں موجود ویڈیو پر شدید اعتراض ہے:


جس کا انداز بہت جذباتی، فرقہ وارانہ اور عوام کو ورغلانے والا ہے کہ لوگ معاملے کی گہرائی میں جائے بغیر، غور کیے بغیر آؤ دیکھا نہ تاؤ اگلے شخص کو گستاخ سمجھ کر اس کی تکا بوٹی کر ڈالیں ۔۔۔ ایسے معاملات کو جذباتی انداز سے تحقیق وتجزیہ کیے بغیر حل کرنا نقصان کا باعث ہوتا ہے۔ فرمانِ باری ہے:

﴿ وَإِذا جاءَهُم أَمرٌ مِنَ الأَمنِ أَوِ الخَوفِ أَذاعوا بِهِ ۖ وَلَو رَدّوهُ إِلَى الرَّسولِ وَإِلىٰ أُولِى الأَمرِ مِنهُم لَعَلِمَهُ الَّذينَ يَستَنبِطونَهُ مِنهُم ۗوَلَولا فَضلُ اللَّـهِ عَلَيكُم وَرَحمَتُهُ لَاتَّبَعتُمُ الشَّيطـٰنَ إِلّا قَليلًا ٨٣
جہاں انہیں کوئی خبر امن کی یا خوف کی ملی انہوں نے اسے مشہور کرنا شروع کر دیا، حالانکہ اگر یہ لوگ اسے رسول (صلی اللہ علیہ وسلم) کے اور اپنے میں سے ایسی باتوں کی تہہ تک پہنچنے والوں کے حوالے کر دیتے، تو اس کی حقیقت وه لوگ معلوم کر لیتے جو نتیجہ اخذ کرتے ہیں اور اگر اللہ تعالیٰ کا فضل اور اس کی رحمت تم پر نہ ہوتی تو معدودے چند کے علاوه تم سب شیطان کے پیروکار بن جاتے (83)

﴿ يـٰأَيُّهَا الَّذينَ ءامَنوا إِن جاءَكُم فاسِقٌ بِنَبَإٍ فَتَبَيَّنوا أَن تُصيبوا قَومًا بِجَهـٰلَةٍ فَتُصبِحوا عَلىٰ ما فَعَلتُم نـٰدِمينَ ٦
اے مسلمانو! اگر تمہیں کوئی فاسق خبر دے تو تم اس کی اچھی طرح تحقیق کر لیا کرو ایسا نہ ہو کہ نادانی میں کسی قوم کو ایذا پہنچا دو پھر اپنے کیے پر پشیمانی اٹھاؤ (6)

جس حدیث مبارکہ کو بیان کرتے ہوئے جنید جمشید صاحب کا انداز غیر محتاط ہوا اور ان پر گستاخی کا الزام لگایا جا رہا ہے اور غور کیا جائے تو اسی حدیث مبارکہ، اسی فرمانِ نبوی ﷺ کو یہی گستاخی کا الزام لگانے والے لوگ نہیں مانتے۔ حدیث مبارکہ کے الفاظ یہ ہیں:

عن عائشةَ رَضِيَ اللهُ عنها، قالت : رجع إليَّ رسولُ اللهِ - صلَّى اللهُ عليهِ وسلَّم - ذاتَ يومٍ من جَنازةٍ من البَقِيعِ، فوجدني وأنا أَجِدُ صُدَاعًا، وأن أقولَ : وارَأْساهُ ! قال : بل أنا يا عائشةُ ! وارَأْساهُ، قال : وما ضَرَّكِ لو مِتِّ قَبْلِي، فغَسَّلْتُكِ وكَفَّنْتُكِ، وصَلَّيْتُ عليكِ ودَفَنْتُكِ ؟ !، قلتُ : لكأني بكَ - واللهِ - لو فَعَلْتَ ذلك ؛ لَرَجَعْتَ إلى بيتي فعَرَّسْتَ فيه ببعضِ نسائِك ! فتبسم رسولُ اللهِ - صلَّى اللهُ عليهِ وسلَّم -، ثم بُدِئَ في وجَعِهِ الذي مات فيه .
الراوي: عائشة أم المؤمنين المحدث: الألباني - المصدر: تخريج مشكاة المصابيح - الصفحة أو الرقم: 5917
خلاصة حكم المحدث: حسن

سیدنا عائشہ رضی اللہ عنہا سے مروی ہے کہ نبی کریمﷺ ایک دن بقیع سے جنازہ سے واپس آئے تو مجھے اس حال میں پایا کہ میرے سر میں درد ہو رہا تھا اور میں کہہ رہی تھی: ہائے میرا سر! نبی کریمﷺ نے فرمایا: بلکہ اے عائشہ میں! (مجھے بھی درد ہو رہی ہے) ہائے میرا سر! پھر فرمایا: (اے عائشہ!) تمہیں کیا نقصان ہے؟ اگر تم مجھ سے پہلے مر گئی تو میں خود تمہیں غسل دوں گا، کفن پہناؤں گا اور تمہاری نماز (جنازہ) پڑھوں گا (جس کی برکت سے تمہاری بخشش ہو جائے گی) ۔۔۔ الحدیث

اس صحیح حدیث مبارکہ سے صراحت سے ثابت ہوتا ہے کہ شوہر بیوی کو غسل دے سکتا ہے، کفن پہنا سکتا ہے۔ مرنے کے ساتھ ہی میاں بیوی ایک دوسرے کیلئے اجنبی نہیں ہو جاتے۔

لیکن ان اعتراض کرنے والوں، گستاخی کا الزام لگانے والوں کے نزدیک شوہر بیوی کو غسل نہیں دے سکتا، کفن نہیں پہنا سکتا۔ کیا اس بات کو بنیاد بنا کر ان لوگوں پر بھی گستاخی کا الزام لگا دیا جائے اور کیس کر دیا جائے۔ نہیں! بلکہ ہم یہی کہیں گے کہ یہ تاویل کا اجتہادی اختلاف ہے جس کا فیصلہ قیامت کے دن اللہ تعالیٰ فرمائیں گے۔

کتنی عجیب بات ہے کہ کسی کے انداز وگفتگو میں ذرا سی بے احتیاطی تو گستاخی بن جائے لیکن اگر خود پوری حدیث مبارکہ کو ہی نہ مانیں پھر بھی سب سے بڑے ’عاشق رسول‘ یہی ہیں!!!

سیدنا عیسیٰ علیہ السلام کی طرف منسوب ہے کہ انہوں نے بنی اسرائیل کے متعلق فرمایا تھا: تم اونٹ سموچا نگل جاتے ہو مگرمچھر پر دلیلیں تلاش کرتے ہو۔

اللہ تعالیٰ ہماری اصلاح فرمائیں!
جزاک الله -
 

محمد علی جواد

سینئر رکن
شمولیت
جولائی 18، 2012
پیغامات
1,986
ری ایکشن اسکور
1,551
پوائنٹ
304
اس بات میں کوئی شک نہیں کہ صحابہ کرام کی توہین کرنا یا ان کے حق میں گستاخی کرنا ، بہت بڑا گناہ ہے ۔ لیکن اگر ایسا کرنے والا صدق دل سے توبہ کرتا ہے ، اور اپنی غلطی کا اعلانیہ اعتراف کرتا ،اور اپنے کیے پر شرمندہ اور نادم ہوتا ہے تو اس کی بات کا اعتماد کیا جائے گا ۔
مقدمہ دائر کرنے والے نے مبہم سی بات کی ہے ، پتہ نہیں شرعی احکامات سے ان کی مراد کیا ہے ؟ جو جنید جمشید کے ذمہ توبہ کے بعد بھی باقی ہیں ۔ واللہ اعلم ۔
باقی جنید جمشید نے جو کہا وہ گستاخی بنتی ہے بھی کہ نہیں ۔؟ اس کی وضاحت اوپر گزر چکی ہے ۔ خلاصہ یہ ہے کہ علماء کے نزدیک صحابہ کرام کو گالی دینے والا بھی اگر توبہ کرلے تو اس کی جان مال عزت و آبرو کو محفوظ ہوجاتی ہے ۔ واللہ اعلم ۔
اسی سے ملتا جلتا ایک واقعہ ، اور اس کے متعلق عربی زبان میں فتوی یہاں موجود ہے :
http://fatwa.islamweb.net/fatwa/index.php?page=showfatwa&Option=FatwaId&Id=96197
شیخ کے جواب خلاصہ وہی ہے جو اوپر ذکر کر دیا گیا ہے ۔
السلام و علیکم و رحمت الله -

میرے خیال میں مقدمہ دائر کرنے والوں کا موقف یہ کہ جنید صاحب کو شرعی احکامات کی بنیاد پر کوئی تعزیری سزا دی جائے - اس میں تو کوئی شک نہیں کہ سچے دل سے توبہ کر لینے سے الله اںسان کے صغیرہ تو کیا کبیرہ گناہ بھی معاف کردیتا ہے - جنید صاحب کے عمل سے ظاہر ہو رہا ہے کہ جناب حقیقی طور پر اپنے فعل پر نادام ہیں اور الاعلان توبہ کرچکے ہیں-اور الله سے امید ہے کہ الله نے ان کا یہ گناہ (اگر وقعیتاً ان سے سرزد ہوا ہے) معاف کردیا ہو گا- لیکن جن گناہوں پر الله نے تعزیری سزا مقرر کی ہے - وہ بہرحال صرف زبانی توبہ سے معاف نہیں ہوتے- جب تک کہ دنیا میں اس کی تعزیری یا حدودی سزا نہ دی جائے-

ایک حدیث میں ہے کہ ایک بدو نے ایک صحابی کی چادر چرا لی لیکن بعد میں وہ پکڑا گیا اور ان صحابی نے اس بدو کو نبی کریم صل الله علیہ و آ له وسلم کے سامنے حاضر کردیا کہ اس نے میری قیمتی چادر چرائی ہے -نبی کریم نے حدودو الله کے قانون کے تحت اس بدو کے ہاتھ کاٹنے کا حکم صادر کیا تو ان صحابی کو رحم آگیا اور انہوں نے نبی کریم سے فرمایا کہ "اے الله کے نبی میں اس کی طرف سے آپ سے معافی مانگتا ہوں - اس کو معاف کردیں" - تو آپ صل الله علیہ وی آ له وسلم نے اس پر صحابی سے فرمایا کہ یہ کام تم نے میرے پاس آنے سے پہلے کیوں نہ کیا ؟؟؟ اب حدود کی سزا تو معاف نہیں ہو گی - ہاں البتہ الله اس کے گناہ معاف کرکے آخرت میں اس کو بخش دے گا (واللہ اعلم) -

یہ بات ذہن میں رہنی چاہیے کہ بہرحال یہ جاننا ضروری ہے کہ کیا واقعی جنید صاحب کے الفاظ گستاخی کے زمرے میں آتے بھی ہیں یا نہیں - تب ہی ان پر سزا کااطلاق کیا جاسکتا ہے - دوسرے یہ کہ اس نام نہاد اسلامی ملک میں ٦٧ سال گزرنے کے بعد ابھی تک شرعی قوانین کا نفاذ ہوا ہی نہیں- تو مقدمہ دائر کرنے والے کس بنیاد پر سزا کا مطالبہ کر رہے ہیں-
 

اسحاق سلفی

فعال رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
اگست 25، 2014
پیغامات
6,372
ری ایکشن اسکور
2,564
پوائنٹ
791
ﺍٓﺝ ﺑﺎﺭ ﺑﺎﺭ ﺧﯿﺎﻝ ﺍٓ ﺭﮨﺎ ﮨﮯ ﮐﮧ ﯾﮧ ﺑﮯ ﭼﺎﺭﮦ ﺟﻨﯿﺪ ﺟﻤﺸﯿﺪ ﺑﮭﯽ
ﺳﻮﭼﺘﺎ ﮨﻮ ﮔﺎ ﻧﺎﮞ ﮐﮧ ﻣﯿﮟ ﮐﮩﺎﮞ ﭘﮭﻨﺲ ﮔﯿﺎ؟۔۔۔ ﭼﻠﯿﮟ ﺧﻮﺩ
ﻧﮩﯿﮟ ﺳﻮﭼﺘﺎ ﮨﻮ ﮔﺎ ﺗﻮ ﺷﯿﻄﺎﻥ ﮐﺎ ﻭﺳﻮﺳﮧ ﺗﻮ ﺍٓﺗﺎ ﮨﻮ ﮔﺎ۔۔۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
۔۔۔ ﻟﻮﮒﻧﮩﯿﮟ ﻣﺎﻧﺘﮯ۔۔۔ﮐﯿﻮﮞ ﮐﮧ ﻣﯿﺮﯼ ﺷﻨﺎﺧﺖ ﺍﯾﮏ ﺩﯾﻮﺑﻨﺪﯼ ﮐﯽ ﮨﮯ !۔۔۔۔
ﺍﺭﮮ ﻣﯿﮟ ﻧﮯ ﺗﻮ ﮐﺒﮭﯽ ﻧﮩﯿﮟ ﮐﮩﺎ ﮐﮧ ﻣﯿﮟ ﺩﯾﻮﺑﻨﺪﯼ ﮨﻮﮞ۔۔۔ ﻣﯿﮟ
ﺗﻮ ﺍﻥ ﻟﻮﮔﻮﮞ ﮐﮯ ﺳﺎﺗﮫ ﮨﻮﮞ ﺟﻮ ﺳﺎﺭﯼ ﺍﻣﺖ ﮐﻮ ﺟﻮﮌﻧﮯ ﮐﯽ
ﻓﮑﺮ ﻣﯿﮟ ﮨﯿﮟ۔۔۔۔ ﻣﮕﺮ ﻣﺠﮭﮯ ﮔﺴﺘﺎﺥ ﮐﮩﮧ ﮐﺮ ﺳﺮ ﺗﻦ ﺳﮯ ﺟﺪﺍ
ﮐﺮﻧﮯ ﮐﮯ ﻓﺘﻮﮮ ﺩﯾﮯ ﺟﺎ ﺭﮨﮯ ﮨﯿﮟ۔۔۔ ﮨﺎﮞ ﮨﺎﮞ ﻣﺠﮭﮯ ﻣﺎﺭ ﺩﻭ ﻣﮕﺮ
ﮔﺴﺘﺎﺥ ﺗﻮ ﻧﮧ ﮐﮩﻮ۔۔۔ ﯾﮧ ﺍﻟﺰﺍﻡ ﺍﯾﮏ ﻋﺎﺷﻖ ﺭﺳﻮﻝ ﮐﮯ ﻟﯿﮯ ﮐﺎﺋﻨﺎﺕ
ﮐﺎ ﺑﺪﺗﺮﯾﻦ ﺍﻟﺰﺍﻡ ﮨﮯ۔۔۔ ﯾﮧ ﻇﻠﻢ ﺗﻮ ﻧﮧ ﮐﺮﻭ۔۔۔ ﻣﺠﮭﮯ ﺳﻮﭼﻨﮯ ﭘﺮ
ﻣﺠﺒﻮﺭ ﻧﮧ ﮐﺮﻭ ﮐﮧ ﮐﯿﺎ ﻣﯿﮟ ﭘﮩﻠﮯ ﮨﯽ ﭨﮭﯿﮏ ﺗﮭﺎ؟؟۔۔۔ ﺳﺐ ﮐﺎ
ﻻﮈﻻ، ﺳﺐ ﮐﺎ ﭼﮩﯿﺘﺎ۔۔۔!!!
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

محمد عبد الله تارڑ​
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
اس پوسٹ میں سوائے فریب اور دھوکے کے کچھ نہیں ۔یہ تبلیغی لوگ ۔۔امت کو صرف اور صرف حنفی فقہ کے دیوبندی ایڈیشن سے جوڑتے ہیں۔اللہ جانتا ہے ۔ان کے عشق رسول ﷺ کا دعوی سراسر انکی تلبیس کا ایک آئیٹم ہے ،سادہ لوح مسلمانوں کیلئے ۔
ہیں کواکب کچھ نظر آتے ہیں کچھ
دھوکہ دیتے ہیں یہ بازی گر کھلا
تبلیغی دیوبندیوں کا یہی رخ سب سے زیادہ خطرناک ہے ۔کہ وہ ہمیشہ اپنے کمزور پوائنٹ پر صلح کل کا راگ الاپنے لگتے ہیں ۔
آپ لوگ اپنے اپنے مقام پر بلا خوف و خطر اپنے نظریہ وعقیدہ کی بات کرتے ہیں ۔ذرا ہمارے علاقے میں قرآن وسنت کی تبلیغ کا کوئی طریقہ اپنا کر دیکھیئے ،لگ پتہ جائے ۔کہ یہ میواتی پارٹی کتنی ظالم ہے ۔
یہ میٹھے ظالم اہل بریلی سے بڑھ کر اہل حدیث سے دشمنی کا حق ادا کرتے ہیں ۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
ایک بھانڈ اور گویا ۔۔اپنے کام سمیت ۔۔سب پر عیاں ہوتا ہے ۔کوئی اس کے کام سے نظریئے اور عقیدے نہیں بناتا ؛
عام و خاص سب جانتے ہیں ۔کہ یہ سر ،تال ۔۔نفس پرستی اور گھٹیا کام ہے ۔
لیکن مسند ارشاد پر متمکن ایک جاہل وبے راہ رو ۔۔بڑا ہی خطرناک ہے ؛
لہذا عوام کو ایسے لوگوں سے آگاہ کرنا بہت ضروری ہے ۔
 
Last edited:
شمولیت
اگست 11، 2013
پیغامات
17,117
ری ایکشن اسکور
6,783
پوائنٹ
1,069
@اسحاق سلفی نے کہا ہے
لہذا عوام کو ایسے لوگوں سے آگاہ کرنا بہت ضروری ہے ۔

گمراہ علماء دجال سے بھی زیادہ خطرناک ہیں !!!

، قَالَ:


كُنْتُ أَمْشِي مَعَ رَسُولِ اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فَقَالَ: "لَغَيْرُ الدَّجَّالِ أَخْوَفُنِي عَلَى أُمَّتِي " قَالَهَا ثَلَاثًا. قَالَ: قُلْتُ: يَا رَسُولَ اللهِ، مَا هَذَا الَّذِي غَيْرُ الدَّجَّالِ أَخْوَفُكَ عَلَى أُمَّتِكَ؟ قَالَ: "أَئِمَّةً مُضِلِّينَ "

"ابوذر رضی اللہ عنہ نے فرمایا :

میں ایک دن اللہ کے رسول ﷺ کے ساتھ تھا اور میں نے آپ ﷺ کو فرماتے ہوئے سنا :
"مجھے میری امت کے لئے دجال سے بھی زیادہ خدشہ (ایک اور چیز کا) ہے"
آپ نے اس بات کو تین مرتبہ دہرایا ۔ میں نے کہا ! اے اللہ کے رسول ﷺ ، وہ کیا چیز ہے جس کا آپ دجال کے علاوہ اپنی امت پر خوف کر تے ہیں ؟ تو فرمایا "گمراہ ائمہ"


( مسند امام احمد 20335، 21334 اور 21335] ۔ شیخ شعيب ارناوط اسے صحیح لغیرہ کہا (مستند شواہد کی وجہ سے) اپنےتحقیق مسند (1999 ء 35:21, 296-97 ) میں) -

کیا آپنے کبھی سوچا ہے کہ وہ رسول ﷺ جو دن رات اپنی امّت کو دجال کے فتنے سے خبردار کرتا رہے ، وہ گمراہ علماء کے فتنے کے بارے میں زیادہ فکر مند کیوں تھے؟


تو وضاحت کے لیے ایک مثال ملاحظہ ہوں:

تصور کریں کہ آپ اپنے بیٹے کو پہلی منزل سے نہ کودنے کو مسلسل خبردار کر رہیں ہیں ، لیکن ایک دن آپ اسکو بتاتے ہو کہ بیٹا مجھے پہلی منزل سے زیادہ تمہارے دوسرے منزل سے کودنے کا ڈر ہے- اصل میں اس بات اس کا مطلب یہ ہوگا کہ دوسری منزل سے کودنے کا خطرہ پہلی منزل سے بھی زیادہ ہے ۔ اس طرح گمراہ علماء دجال کے برابر خطرناک یا اس سے بھی بڑھکر ہیں۔

ابن مسعود رضی الله عنہ سے روایت ہے کہ رسول الله ﷺ نے فرمایا:


"كيف أنتم إذا لبستكم فتنة يهرم فيها الكبير, ويربو فيها الصغير, ويتخذها الناس سنة, إذا ترك منها شيء" قيل: تركت السنة؟ قالوا: ومتى ذاك؟ قال: "إذا ذهبت علماؤكم, وكثرت قُراؤكم, وقَلَّت فقهاؤكم, وكَثُرت أمراؤكم, وقلَّتْ أمناؤكم, والتُمِسَتِ الدنيا بعمل الآخرة, وتُفُقهَ لغير الدين

" کیا حال ہوگا تمہارا جب تم کو فتنہ (آفت یعنی بدعت) اسطرح گھیر لے گی کہ ایک جوان اسکے ساتھ (یعنی اس کو کرتے کرتے) بوڑھا ہوجائےگا، اور بچوں کی تربیت اسی پر ہوگی، اور لوگ اس بطور سنّت لیں گے- توجب کبھی بھی اس (بدعت) کا کچھ حصہ لوگ چھوڑ دینگے، تو کہا جائے گا: " کیا تم نے سنّت کو چھوڑ دیا؟ انہوں (صحابہ) نے پوچھا: " ایسا کب ہوگا؟" آپﷺ نے فرمایا: جب تمہارے علماء فوت ہو گئے ہونگے ، قرآت کرنے والے کثرت میں ہونگے ، تمہارے فقہاء چند ایک ہونگے، تمہارے سردار کثرت میں ہونگے، ایسے لوگ کم ہونگے جن پر اعتبار کیا جا سکے، آخرت کے کام صرف لوگ دنیوی زندگی کے حصول کے لئے کرینگے، اور حصول علم کی وجہ دین کی بجاۓ کچھ اور ہوگا-"


[ دارمی (٦٤/١) نے اسے دو اسناد کے ساتھ روایت کیا ہے ، پہلی سند صحیح جبکہ دوسری حسن ہے- اسے حاکم ( ٥١٤/4) اور دوسروں نی بھی روایت کیا ہے]

اس حدیث کے بارے میں شیخ البانی رحم الله کہتے ہیں:

قلت:

وهذا الحديث من أعلام نبوته صلى الله عليه وسلم وصدق رسالته, فإن كلفقرةمن فقراته, قد تحقق في العصر الحاضر, ومن ذلك كثرة البدع وافتتانالناس بهاحتى اتخذوها سنة, وجعلوها ديناً
?يُتَّبع, فإذا أعرض عنها أهل السنة حقيقة, إلى السنة الثابتة عنه صلى الله عليه وسلم قيل: تُركت السنة

" میں کہتا ہوں : یہ حدیث رسول الله ﷺ کی نبوت و رسالت کی ایک نشانی ہے، کیوں کہ اسکا ایک ایک جز موجودہ دور میں وقوع پذیر ہو چکا ہے- اہل بدعت سے بدعات کے پھیلاؤ جاری ہیں ، اور لوگوں کے لئے یہ ایک امتحان ہے جس سے انکوں آزمایا جا رہا ہے- ان بدعات کو لوگوں نے بطور سنّت اپنا لیا اور دین کا حصہ بنا دیا ہے- پس جب اہل سنہ ان بدعات سے اس سنّت جو رسول الله ﷺ سے ثابت ہے ، کی طرف متوجہ ہو جاتے ہیں، تو کہا جائے گا: کیا سنّت کو رد کر دیا گیا ہے؟

[ قیام الرمضان :ص5-4، شیخ البانی رحم الله ]

رسول الله ﷺ کے ہر قول میں لازماً کچھ سیکھنے کےلئے اور غور و فکر کرنے کے لئے ہو گا- اسکی مزید وضاحت اگے اس مکالے میں ہوگی-

نقصان،جو جاہل اور عام لوگ اسلام اور مسلمانوں کو پہنچاتے ہیں۔

اس حدیث سے اور ایک فائدہ، حصول علم کی اہمیت معلوم ہوتا ہے، کہ کوئی شخص بُرائی کے چنگل سے نہیں بچ سکتا جب تک وہ اچھے بُرے کے درمیان فرق نہ جان لے ۔ اگر آپ نہیں جانتے تاریکی کیا ہے تو آپکو ہر طرف روشنی ہی روشنی لگے گی – یہ تا ہم آپکو ایک بےقوف یا دوسرے الفظ میں جاہل بنا دیگا۔ اس طرح ہم (مسلمانوں) کو علم حاصل کرنا چاہیے اور عمررضی اللہ عنہ نے اس بارے میں پہلے سے ہم کو خبردار کردیا۔

أَخْبَرَنَا أَبُو عَبْدِ اللَّهِ مُحَمَّدُ بْنُ إِبْرَاهِيمَ الْأَصْبَهَانِيُّ، ثَنَا الْحُسَيْنُ بْنُ حَفْصٍ، عَنْ سُفْيَانَ، عَنْ شَبِيبٍ، عَنْ غَرْقَدَةَ، عَنِ الْمُسْتَظِلِّ بْنِ الْحُصَيْنِ، قَالَ: سَمِعْتُ عُمَرَ بْنَ الْخَطَّابِ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ، يَقُولُ:" قَدْ عَلِمْتُ وَرَبِّ الْكَعْبَةِ مَتَى تَهْلِكُ الْعَرَبُ: إِذَا وَلِي أَمْرَهُمْ مَنْ لَمْ يَصْحَبِ الرَّسُولَ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، وَلَمْ يُعَالِجْ أَمْرَ الْجَاهِلِيَّةِ۔

المُصتضل بن حُسین سے روائیت ہے میں نے عمر رضی اللہ عنہ کو یہ کہتے ہوئے سنا :

میں جانتا ہوں اور کعبہ کی رب کی قسم، کہ کب عرب (مطلب کے اسلام) ناش ہو جائے گا : جب صحابہ کرام اُنکےامورکے والی نہیں ہونگے وہ لوگ جنہیں علم نہیں کہ جہالت کیا چیز ہے "۔


[مصنف ابن أبي شيبا 6/410،طبقات ابن سعد6/129، مستدرك الحاكم، 4/475، الشعب-الإيمان 6/69، أبو نعيم ھلیه7/243، الحارس بن مسكين بدايہو نہایا]11/650


قال ابن تيمية قَالَ عُمَرُ بْنُ الْخَطَّابِ إنَّمَا تُنْقَضُ عُرَى الْإِسْلَامِ عُرْوَةً عُرْوَةً إذَا نَشَأَ فِي الْإِسْلَامِ مَنْ لَمْ يَعْرِفْ الْجَاهِلِيَّةَ


ابن تیمیہ سے روایت ہے :

عمر رضی اللہ عنہ نے کہا : بے شک اسلام کی بنیادیں ایک کے بعد ایک تباہ و برباد ہو جائےگیں۔ اگر اس میں ایسے لوگ پیدا ہو جائےجو نا واقف ہوں گے کہ جہالت کیا ہے ۔


(مجمو'الالفتاوى 10/301، القیم اپنی فوائد میں بھی اسے لائے ہیں)

زبیر بن عدی رحم الله سے روایت ہے:

ہمانس بن ملک رضی الله عنہ کے پاس حاضر ہوئے اور حجاج کے مظالم کی شکایت کی- پس انس رضی الله عنہ نے فرمایا:

" ہر آنے والا سال پچھلے سال سے بعد تر ہوگا یہاں تک تم آپنے رب سے جا ملو – یہ میں نے تمہارے رسول صلى الله عليه وسلم سے سنا ہے-


ابن مسعود رضی الله عنہ اسکی تشریح کچھ کرتے ہیں :

" قیامت کے دن تک ہر آنے والا دن گزرنے والے دن سے بد تر ہوگا – اس سے میری مراد دولت میں اضافہ یا بے کر معاملات نہیں ہیں- بلکہ میرا مطلب علم کی کمی ہے- جب علماء فوت ہو جاینگے اور لوگ برابر ہوجاینگے ، وہ نا برائی سے روکینگے اور نہ نیکی کی طرف بلائینگے اور یہی انکو تباہی کی طرف لے جاییگی –


[ سنن دارمی (١٩٤)؛ یعقوب بن سفیان نے المعرفه میں اسے روایت کیا ہے ؛ نسائی (٣٩٣/3)، الخطیب اسے فقیه ولمتفقیہ (٤٥٦/١) میںلایے ہیں؛ دیکھئے ؛ فتح الباری (٢٦/١٣)]

عمر بن الخطاب نے زیاد رضی اللہ عنہ سے کہا :

أَخْبَرَنَا مُحَمَّدُ بْنُ عُيَيْنَةَ، أَنبَأَنَا عَلِيٌّ هُوَ ابْنُ مُسْهِرٍ، عَنْ أَبِي إِسْحَاقَ، عَنِ الشَّعْبِيِّ، عَنْ زِيَادِ بْنِ حُدَيْرٍ، قَالَ: قَالَ لِي عُمَرُ: «هَلْ تَعْرِفُ مَا يَهْدِمُ الْإِسْلَامَ؟» قَالَ: قُلْتُ: لَا، قَالَ: «يَهْدِمُهُ زَلَّةُ الْعَالِمِ، وَجِدَالُ الْمُنَافِقِ بِالْكِتَابِ وَحُكْمُ الْأَئِمَّةِ الْمُضِلِّينَ»

کیا آپ جانتے ہے اسلام کن چیزوں سے تباہ ہوگا؟ میں (زیاد) نے کہا نہیں- انہوں (عمر) نے کہا: اسلام تباہ ہوگا ،علماء کے غلطیوں سے ، الله کی کتاب کے بارے میں منافقین کے بحث و دلائل سے، اور گمراہ ائمہ کے رائے سے ۔


] مشكوةألمصابیح89/1حدیث:269، محض الثواب 2/717، الدارمی1/295، مسند الفاروق 2/536، تلبيس الجاهمييا [4/191

الفضیل بن عیاض نے فرمایا :

کیا ہو گا جب آپ پر ایسا زمانہ آئے کہ جب لوگ حق اور باطل ، مومن اور کافر، امین اور غدار ، جاہل اور عالم اور نہ ہی صیح اور غلط میں تمیز کر سکینگے؟


ابنبطاحالإبانة الکبرہ 1:188

اس روایت کے بعد ابنبطاح نے کہا :

بہ شک ہم اللہ کی طرف لوٹاۓ جائینگے ! آج ہم اس وقت میں پہنچ چکے ہیں، جو ہم نے اسکے بارے میں سنا اور جانا ہے، اسکا بیشتر وقوع پذیر ہو چکا ہے-۔ ایک فرد واحد جسے الله نے سمجھ بوجھ عطا کی ہے، اور اگر جو اسلامی احکامات پر غور و فکر کرتا ہو اور جو صحیح راستے پر مستحکم ہو- تو اس پر یہ بات بلکل واضخ ہو جاییگی کے اکثر لوگوں نے صراط مستقیم اور محکم دلائل سے منه موڑ لیا ہے- اکثر لوگوں نے ان چیزوں کو پسند کرنا شروع کر دیا ہے جن سے وہ کبھی نفرت کرتے تھے، ان امور کو جائز قرار دے دیا جنہیں وہ کبھی حرام کہتے تھے، اور ام امور کو اپنانا شروع کر دیا جنہیں وہ کبھی رد کرتے تھے۔ اللہ تم پر رحم کرے- یہ مسلمانوں کا صیح منشاء نہیں ہے اور نہ اُن لوگوں کا رویہ ہے جو دین جو دین کے سمجھ رکھتے ہیں-


طلق ابن حبيب :

علم اور اہل علم کے لئے ان لوگوں سے زیادہ کوئی خطرناک نہیں جو ان کہ گروہ میں تو شامل ہو جاتے ہیں پر ان سے نہیں ہوتے- یہ جاہل ہوتے ہیں لیکن آپنے آپ کو اہل علم میں سے سمجھتے ہیں- یہ لوگ صرف خرابی کرتے ہیں اور سمجھتے ہیں کہ اصلاح کر رہے ہیں-

( ابن ابی الدنیا، التوبہ مضمون 62 )

شیخ صالح الفوذان حفظہ اللہ نے کہا :

موجودہ وقت میں اس اُمت کو درپیش سب سے زیادہ خطرناک معاملا ان جاہل مبلغین کا ہے جو آپنے آپ کو اہل علم میں سے سمجھتے ہیں، اور لوگوں کو ( اپنےدین کی طرف) جہالت اور گمراہی کے ساتھ بلاتے ہیں-


إيعناتول-المستفيد، 887/1
 
شمولیت
ستمبر 13، 2014
پیغامات
393
ری ایکشن اسکور
276
پوائنٹ
71
بھائیو بات تو یہ بجا ہے کہ دیوبندی دیونبدی ہی ہوتا ہے ان کی آج تک کی تاریخ بھری پڑی ہے اس کی خصلت کم ہی بدلتی ہے وہ بدعتی اس کے عقائد میں کفر بھرا پڑا اور ،،،،،،،،،،،،،
لیکن سوال صرف یہ تھا جنید جمشید نے جو کہا کیا وہ گستاخی ہے ؟؟؟ اگر ہے تو کس کی ہے اللہ کے نبی کی یا ام المومنین عائشہ سلام اللہ علیھا کی ؟؟؟اس نے توبہ کی اپنی جھالت کا اقرار کیا کیا اس توبہ کا اسے کوئی فائدہ ہوا شرعا یا کچھ نہیں ہوا؟؟؟
انس بھائی اپنی آخری پوسٹ میں وہ حدیث بھی لگا چکے ہیں جو جنید جمشید نے پیش کی ہے اور اصل مسئلہ تو یہ ہے کہ وہ جو شیعہ کے یار غار تھے آج سے پہلے مرے ہوئے تھے انہیں کس بات کا غصہ ہے ؟؟؟ کیا آج سے پہلے کسی نے گستاخی نہینم کی صحابہ کی ؟؟؟ ایک بھائی نے ایک شیعہ کی گستاخی کا کلپ کا لنک دیا اس خبیہث نے ان دنوں فیس بک پر باقاعدہ اس خباثت کا دفاع کیا کہ کر لو جو کرنا ہے تب تو کچھ نہ ہوا جو گستاخی جیو نے کہ جس پر اتنا واویلا ہوا اسی سے ملتی جلتی سماء نے کی کچھ نہیں ہوا کیوں؟؟؟؟؟حق تو یہ تھا کہ جب وہ جنید جمشید کی ایک لغزش کو پکڑے کے کھڑے ہیں مد مقابل سنی جمع ہو کے شیعہ کے خلاف کیس کرتے ان کی گستاخیاں پیش کرتے لیکن
لقد اسمعت لو نادیت حیا و لکن لا حیاۃ لمن تنادی
و لو نار نفخت بھا اضات لکن انت تنفخ فی الرماد
 
شمولیت
اگست 11، 2013
پیغامات
17,117
ری ایکشن اسکور
6,783
پوائنٹ
1,069
صلاۃ توبہ
الحمد للہ:

اللہ سبحانہ و تعالى كى اس امت پر رحمت ہے كہ اس نے توبہ كا دروازہ كھلا ركھا ہے، اور يہ توبہ كا دروازہ اس وقت تك بند نہيں ہوگا جب تك روح نرخرے تك نہ پہنچ جائے، يا پھر سورج مغرب كى جانب سے طلوع نہ ہو جائے.

اسى طرح اس امت پر اللہ تعالى كى يہ بھى رحمت ہے كہ اس نے ان كے ليے سب افضل ترين عبادات مشروع كى ہيں، جنہيں اللہ تعالى اپنے اللہ كے ليے وسيلہ بناتا ہے، اور اپنى توبہ كى قبوليت كى اميد ركھتا ہے جو كہ نماز توبہ ہے، اور ذيل ميں اس كے متعلقہ چند ايك مسائل پيش كيے جاتے ہيں:

1 - نماز توبہ كى مشروعيت:

نماز توبہ كى مشروعيت پر اہل علم كا اجماع ہے.

ابو داود رحمہ اللہ نے سنن ابو داود ميں ابو بكر صديق رضى اللہ تعالى عنہ سے روايت كيا ہے، وہ بيان كرتے ہيں كہ ميں نے رسول كريم صلى اللہ عليہ وسلم كو يہ فرماتے ہوئے سنا:

" جو كوئى بندہ بھى كوئى گناہ كرے اور پھر اچھى طرح وضوء كر كے دو ركعت نماز ادا كرے، اور پھر اللہ تعالى سے بخشش طلب كرے تو اللہ تعالى اسے بخش ديتا ہے، پھر نبى كريم صلى اللہ عليہ وسلم نے يہ آيت تلاوت فرمائى:

{ اور جب ان سے كوئى فحش كام ہو جائےن يا كوئى گناہ كر بيٹھيں تو فورا اللہ كا ذكر،اور اپنے گناہوں كے ليے استغفار كرتے ہيں، يقينا اللہ تعالى كے سوا كون گناہوں كو بخش سكتا ہے ؟ اور وہ لوگ باوجود علم كے كسى برے كام پر اصرار نہيں كرتے }.

سنن ابو داود حديث نمبر ( 1521 ) علامہ البانى رحمہ اللہ نے اس حديث كو صحيح ابو داود ميں صحيح كہا ہے.


اور مسند احمد ميں ابو درداء رضى اللہ تعالى عنہ سے مروى ہے وہ بيان كرتے ہيں ميں نے رسول كريم صلى اللہ عليہ وسلم كو فرماتے ہوئے سنا:

" جو شخص اچھى طرح پورا وضوء كر كے پھر دو يا چار ركعت ( راوى كو شك ہے ) اچھى طرح خشوع و خضوع اور اللہ كے ذكر سے ادا كرتا اور پھر اللہ تعالى سے بخشش طلب كرتا ہے تو اللہ تعالى اسے بخش ديتا ہے "

مسند احمد كے محققين كہتے ہيں: اس كى سند حسن ہے، اور علامہ البانى رحمہ اللہ نے سلسلۃ الاحاديث الصحيحۃ حديث نمبر ( 3398 ) ميں اسے صحيح قرار ديا ہے.

2 - نماز توبہ كا سبب:

نماز توبہ كا سبب مسلمان شخص كا معصيت و نافرمانى كا مرتكب ہونا ہے، چاہے گناہ كبيرہ ہو يا صغيرہ، تو اس سے اسے فورا توبہ كرنى چاہيے، اور اس كے ليے يہ دو ركعت ادا كرنى مندوب ہيں، اور پھر اسے توبہ كے وقت اللہ كا قرب حاصل كرنے كے ليے كوئى اچھا اور نيك عمل كرنا چاہيے، اور ان اعمال صالحہ ميں سب سے زيادہ افضل نماز ہے، تو اس نماز كو اللہ تعالى كے ہاں اپنا وسيلہ بنا كر يہ اميد ركھنى چاہيے كہ اللہ تعالى اس كى توبہ قبول فرمائيگا، اور اس كے گناہ بخش دےگا.

3 - نماز توبہ كا وقت:

مسلمان شخص جب كسى گناہ سے توبہ كرنے كا عزم كر چكے تو اسے اس وقت نماز توبہ ادا كر كے توبہ كرنى چاہيے، اور يہ اس گناہ كے فورا بعد ہو يا دير كے ساتھ اس ميں كوئى فرق نہيں، گنہگار شخص پر واجب ہوتا ہے كہ وہ توبہ كرنے ميں جلدى كرے، ليكن اگر وہ توبہ ميں تاخيركرتا ہے، يا پھر يہ كہے كہ توبہ كر لونگا، اور بعد ميں توبہ كر لى تو اس كى توبہ قبول ہو جاتى ہے، كيونكہ توبہ اس وقت تك قبول ہوتى ہے جب تك درج ذيل امور ميں سے كوئى ايك چيز نہ ہو جائے:

1 - جب روح نرخرہ تك پہنچ جائے يعنى نرخرہ بجنے لگے تو توبہ قبول نہيں ہوتى.

نبى كريم صلى اللہ عليہ وسلم كا فرمان ہے:

" يقينا اللہ تعالى بندے كى توبہ اس وقت تك قبول كرتا ہے جب تك ا سكا نرخرہ بجنا نہ شروع ہو "

علامہ البانى نے صحيح ترمذى حديث نمبر ( 3537 ) ميں اسے حسن قرار ديا ہے.


2 - جب سورج مغرب سے طلوع ہو جائے تو توبہ قبول نہيں ہو گى.

نبى كريم صلى اللہ عليہ وسلم كا فرمان ہے:

" جس نے بھى سورج مغرب كى جانب سے طلوع ہونے سے قبل توبہ كر لى اللہ تعالى اس كى توبہ قبول كرتا ہے "

صحيح مسلم حديث نمبر ( 2703 ).


اور يہ نماز ہر وقت ادا كرنى مشروع ہے، اس ميں ممنوعہ اوقات ( مثلا نماز عصر كے بعد ) بھى شامل ہيں، كيونكہ يہ نماز ان نمازوں ميں شامل ہوتى ہے جو كسى سبب كى بنا پرادا كى جاتى ہے، تو اس كے سبب كے وجود كى بنا پر نماز ادا كرنى مشروع ہو گى.

شيخ الاسلام ابن تيميہ رحمہ اللہ كہتے ہيں:

" اسباب والى نمازوں كو اگر ممنوعہ وقت سے مؤخر كيا گيا تو وہ فوت ہو جائينگى، يعنى رہ جائينگى، مثلا: سجدہ تلاوت، اور تحيۃ المسجد سورج گرہن كى نماز، اور تحيۃ الوضوء كى دو ركعتيں، جيسا كہ بلال رضى اللہ عنہ كى حديث ميں ہے، اور اسى طرح نماز استخارہ اگر كسى شخص كو استخارہ كى ضرورت ہو اور اسے مؤخر كيا جائے تو وہ رہ جائيگا، اور اسى طرح نماز توبہ، تو جب گناہ كرے تو اس پر فورا توبہ كرنا واجب ہے، اور اس كے ليے مندوب ہے كہ وہ دو ركعت ادا كر كے توبہ كرے، جيسا كہ ابو بكر رضى اللہ تعالى عنہ كى حديث ميں آيا ہے " انتہى.

ديكھيں: مجموع فتاوى ابن تيميہ ( 23 / 215 ).

4 - نماز توبہ دو ركعت ہيں، جيسا كہ ابو بكر صديق رضى اللہ تعالى عنہ كى حديث ميں آيا ہے.

اور توبہ كرنے والے كے ليے اكيلے اور خلوت ميں نماز توبہ ادا كرنا مشروع ہے، كيونكہ يہ ان نوافل ميں سے ہے جن كى جماعت مشروع نہيں، اور اس كے بعد اس كے ليے استغفار كرنا مندوب ہے، اس ليے كہ ابو بكر رضى اللہ كى حديث سے ثابت ہے.

اور نبى كريم صلى اللہ عليہ وسلم سے ان ركعتوں ميں كوئى مخصوص سورتيں پڑھنا اور مخصوص اذكار ثابت نہيں، اس ليے وہ جو چاہے قرآت كر سكتا ہے.

اور نماز توبہ كے ساتھ توبہ كرنے والے كے ليے مستحب ہے كہ وہ نيك اور صالحہ اعمال كرے، كيونكہ اللہ سبحانہ و تعالى كا فرمان ہے:

{ اور ہاں يقينا ميں انہيں بخش دينے والا ہوں جو توبہ كريں اورايمان لائيں اور نيك عمل كريں، اور راہ راست پر بھى رہيں }طہ ( 82 ).

اور توبہ كرنے والے كے ليے نيك اور صالحہ اعمال ميں سب سے افضل عمل صدقہ ہے، كيونكہ صدقہ گناہوں كو مٹانے والے اسباب ميں سب سے بڑا اور عظيم عمل ہے.

اللہ سبحانہ وتعالى كا فرمان ہے:

{ اگر تم صدقہ و خيرات ظاہر كرو تو وہ بھى اچھا ہے، اور اگر تم اسے پوشيدہ پوشيدہ مسكينوں كو دے دو تو يہ تمہارے حق ميں بہتر ہے، اللہ تعالى تمہارے گناہوں كو بخش دےگا }البقرۃ ( 271 ).

اور كعب بن مالك رضى اللہ تعالى عنہ سے ثابت ہے كہ جب اللہ تعالى نے ان كى توبہ قبول كى تو وہ كہنے لگے:

اے اللہ تعالى كے رسول صلى اللہ عليہ وسلم ميرى توبہ ميں شامل ہے كہ ميں اپنا سارا مال اللہ اور اس كے رسول كے ليے صدقہ كردوں، تو رسول كريم صلى اللہ عليہ وسلم نے فرمايا:

" اپنا كچھ مال ركھ لو، يہ تمہارے ليے بہتر ہے "

تو وہ كہنے لگے: ميں اپنا خيبر والا حصہ روك ليتا ہوں "

متفق عليہ.

تو خلاصہ يہ ہوا كہ:

1 - نبى كريم صلى اللہ عليہ وسلم سے نماز توبہ ثابت ہے.

2 - يہ نماز مسلمان كے ليے مشروع ہے جب بھى وہ كوئى گناہ كرے اور اس سے توبہ كرنے ليے نماز توبہ ادا كرے، چاہے گناہ كبيرہ ہو يا صغيرہ اور چاہے گناہ كے فورا بعد توبہ ہو يا كچھ مدت گزرنے كے بعد.

3 - نماز توبہ ہر وقت ادا كى جا سكتى ہے، اس ميں ممنوعہ اوقات بھى شامل ہيں.

4 - توبہ كرنے والے كے ليے نماز توبہ كے ساتھ ساتھ اللہ كے قرب والے دوسرے اعمال بھى كرنے مستحب ہيں، مثلا صدقہ وغيرہ.

اللہ تعالى ہمارے نبى محمد صلى اللہ عليہ وسلم اور ا نكى آل اور ان كے صحابہ كرام پر اپنى رحمتيں نازل فرمائے.

واللہ اعلم .

http://islamqa.info/ur/98030
 

اسحاق سلفی

فعال رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
اگست 25، 2014
پیغامات
6,372
ری ایکشن اسکور
2,564
پوائنٹ
791
جہلاء کا علماء کے مقام پر آنا قیامت کی نشانی

صحیح البخاری
کتاب علم کے بیان میں
حدیث نمبر ۱۰۰​
حدثنا إسماعيل بن ابي اويس قال:‏‏‏‏ حدثني مالك عن هشام بن عروة عن ابيه عن عبد الله بن عمرو بن العاص قال:‏‏‏‏ سمعت رسول الله صلى الله عليه وسلم يقول:‏‏‏‏"إن الله لا يقبض العلم انتزاعا ينتزعه من العباد ولكن يقبض العلم بقبض العلماء حتى إذا لم يبق عالما اتخذ الناس رءوسا جهالا فسئلوا فافتوا بغير علم فضلوا واضلوا"
عبداللہ بن عمرو بن العاص رضی اللہ عنہما سےفرماتے ہیں کہ میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے سنا،
آپ صلی اللہ علیہ وسلم فرماتے تھے کہ اللہ علم کو اس طرح نہیں اٹھا لے گا کہ اس کو بندوں سے چھین لے۔
بلکہ وہ (پختہ کار) علماء کو موت دے کر علم کو اٹھائے گا۔ حتیٰ کہ جب کوئی عالم باقی نہیں رہے گا تو لوگ جاہلوں کو سرکردہ بنا لیں گے،
ان سے سوالات کیے جائیں گے اور وہ بغیر علم کے جواب دیں گے۔ اس لیے خود بھی گمراہ ہوں گے اور لوگوں کو بھی گمراہ کریں گے۔

لا يقبض الله العلم.jpg
 
Last edited:

ضرب توحید

مبتدی
شمولیت
دسمبر 01، 2014
پیغامات
24
ری ایکشن اسکور
23
پوائنٹ
13
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
اس پوسٹ میں سوائے فریب اور دھوکے کے کچھ نہیں ۔یہ تبلیغی لوگ ۔۔امت کو صرف اور صرف حنفی فقہ کے دیوبندی ایڈیشن سے جوڑتے ہیں۔اللہ جانتا ہے ۔ان کے عشق رسول ﷺ کا دعوی سراسر انکی تلبیس کا ایک آئیٹم ہے ،سادہ لوح مسلمانوں کیلئے ۔
ہیں کواکب کچھ نظر آتے ہیں کچھ
دھوکہ دیتے ہیں یہ بازی گر کھلا
تبلیغی دیوبندیوں کا یہی رخ سب سے زیادہ خطرناک ہے ۔کہ وہ ہمیشہ اپنے کمزور پوائنٹ پر صلح کل کا راگ الاپنے لگتے ہیں ۔
آپ لوگ اپنے اپنے مقام پر بلا خوف و خطر اپنے نظریہ وعقیدہ کی بات کرتے ہیں ۔ذرا ہمارے علاقے میں قرآن وسنت کی تبلیغ کا کوئی طریقہ اپنا کر دیکھیئے ،لگ پتہ جائے ۔کہ یہ میواتی پارٹی کتنی ظالم ہے ۔
یہ میٹھے ظالم اہل بریلی سے بڑھ کر اہل حدیث سے دشمنی کا حق ادا کرتے ہیں ۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
ایک بھانڈ اور گویا ۔۔اپنے کام سمیت ۔۔سب پر عیاں ہوتا ہے ۔کوئی اس کے کام سے نظریئے اور عقیدے نہیں بناتا ؛
عام و خاص سب جانتے ہیں ۔کہ یہ سر ،تال ۔۔نفس پرستی اور گھٹیا کام ہے ۔
لیکن مسند ارشاد پر متمکن ایک جاہل وبے راہ رو ۔۔بڑا ہی خطرناک ہے ؛
لہذا عوام کو ایسے لوگوں سے آگاہ کرنا بہت ضروری ہے ۔
محترم اسحاق صاحب میرا آپ سے ابھی تعارف نہیں ہے لیکن ایک بات ہے آپ جو جنید جمشید کی گستاخی کے حوالے سے ان کے عقائد کی جو بحث کر رہےہیں تو عرض ہے ہم آپ سے بھی زیادہ اس معاملے میں سخت ہیں میں دیوبندیوں کے عقائد کو شرکیہ سمجھتا ہوں اور میرا خیال ہے ہماری مجلس کے اکثر ساتھی ایسا ہی سمجھتے ہیں لیکن زیر نظر جو مسلہ ہے وہ یہ ہے کہ آیا واقعی جنید جمشید نے گستاخی کی ہے تو میرے خیال میں اس کی بات غلط نہیں ہے کہ عورت بدل نہیں سکتی اس سے مراد اس کی عورت کی فطرت ہے
 
Top