• الحمدللہ محدث فورم کو نئےسافٹ ویئر زین فورو 2.1.7 پر کامیابی سے منتقل کر لیا گیا ہے۔ شکایات و مسائل درج کروانے کے لئے یہاں کلک کریں۔
  • آئیے! مجلس التحقیق الاسلامی کے زیر اہتمام جاری عظیم الشان دعوتی واصلاحی ویب سائٹس کے ساتھ ماہانہ تعاون کریں اور انٹر نیٹ کے میدان میں اسلام کے عالمگیر پیغام کو عام کرنے میں محدث ٹیم کے دست وبازو بنیں ۔تفصیلات جاننے کے لئے یہاں کلک کریں۔

کینیڈا میں گھر کی خریداری کے لیے بینک سے قرضہ لینا۔

ابو عبدالله

مشہور رکن
شمولیت
نومبر 28، 2011
پیغامات
723
ری ایکشن اسکور
448
پوائنٹ
135
السلام علیکم ورحمۃ اللہ وبرکاتہُ!
محترم اہل علم صاحبان!

کینیڈا میں گھر کی خریداری کیلیے بینک سے قرض لیا جاتا ہے جس کے تحت بینک گھر کے مالک کو گھر کی قیمت ادا کردیتا ہے اور قرض لینے والا بنا کچھ گروی رکھے گھر میں رہنے لگتا ہے اور ماہانہ بنیادوں پر اصل قیمت اور کچھ اضافی رقم (بینک انٹرسٹ + حکومتی ٹیکس) کی اقساط جمع کروانے لگتا ہے، رقم کی واپسی کا شیڈول دونوں کی مرضی اور سہولت سے طے پاتا ہے۔
معینہ عرصے میں اصل قیمت اور اضافی رقم (بینک انٹرسٹ + حکومتی ٹیکس) کی مکمل ادائیگی کے بعد گھر قرضہ لینے والے کے نام ہوجاتا ہے اور اگر ادائیگی کسی وجہ سے مکمل نا ہوسکے اور سودا منسوخ ہوجائے تو بینک اس وقت کے مارکیٹ ریٹ پر اس گھر کو فروخت کردیتا ہے اور سب سے پہلے شروع میں مقرر کردہ ریٹ پر اس وقت تک کا اپنا انٹرسٹ اور ٹیکس کرایہ کی مد میں کاٹے گا اور قرض لینے والے کی باقی ادا شدہ رقم اسے واپس کردے گا (رقم کی یہ واپسی عام طور پر سودی لین دین کے معاملات میں نہیں ہوتی)۔
اسی طرح اگر پہلی قیمت خرید سے کم قیمت میں فروخت ہوا تو پھر بھی بینک سب سے پہلے شروع میں مقرر کردہ ریٹ پر اس وقت تک کا اپنا انٹرسٹ اور ٹیکس کرایہ کی مد میں کاٹے گا اور قرض لینے والے کی باقی ادا شدہ رقم اسے واپس کردے گا چاہے وہ اصل قیمت کی مد میں ادا شدہ رقم سے کم ہو یا زیادہ (رقم کی یہ واپسی عام طور پر سودی لین دین کے معاملات میں نہیں ہوتی)۔
اس کے علاوہ قابلِ غور بات یہ ہے کہ اس طریقے کے علاوہ کسی دوسرے طریقے سے (یعنی یکمشت ادائیگی کرکے یا بینک کو انوالو کیے بغیر) گھر کی خریداری ممکن نہیں ہے چاہے ساری زندگی کرایہ پر رہنا پڑے اور گھروں کا کرایہ بھی عام طور پر بینک کی قسط میں موجود اضافی رقم سے زیادہ ہی ہوتا ہے۔

اس سلسلے میں قرآن و حدیث کی روشنی میں شریعت کی رہنمائی درکار ہے کہ وہاں رہنے والا مسلمان کیا کرے؟
اپنا گھر ہی نا خریدے اور ساری عمر کرایہ پر رہے یا مندرجہ بالاطریقے پر گھر خرید سکتا ہے؟

جزاکم اللہ خیرا
 

کنعان

فعال رکن
شمولیت
جون 29، 2011
پیغامات
3,564
ری ایکشن اسکور
4,423
پوائنٹ
521
السلام علیکم

کیا آپ بتانا پسند کریں گے کہ یہ سوال کس کی طرف ھے۔ آپکی یا کسی عزیز یا کاپی کیا گیا ھے اور نالج کے لئے جاننا چاہتے ہیں۔

والسلام
 

ابو عبدالله

مشہور رکن
شمولیت
نومبر 28، 2011
پیغامات
723
ری ایکشن اسکور
448
پوائنٹ
135
السلام علیکم

کیا آپ بتانا پسند کریں گے کہ یہ سوال کس کی طرف ھے۔ آپکی یا کسی عزیز یا کاپی کیا گیا ھے اور نالج کے لئے جاننا چاہتے ہیں۔

والسلام
وعلیکم السلام!
محترم یہ سوال میرے ایک دوست کیلیے پوچھا گیا ہے۔

والسلام
 
شمولیت
اگست 11، 2013
پیغامات
17,117
ری ایکشن اسکور
6,783
پوائنٹ
1,069
بینک کے ذریعے قسطوں پر مکان کی خریداری

میرے والد فوت ہوگئے ہیں، اور اپنے بھائیوں کیلئے میں ہی سربراہ ہوں، ہم اس وقت کرائے کے مکان میں رہ رہے ہیں، اور مالک مکان نے انہیں نکالنے کا فیصلہ کر لیا ہے، کیونکہ اسے اپنا مکان چاہئے، تو میں نے یہ فیصلہ کیا ہے کہ اپنے بھائیوں کیلئے ایک غیر اسلامی بینک سے قسطوں پر مکان خرید لوں، ہمارے ہاں اسلامی بینک نہیں پائے جاتے، تو کیا مکان کی خریداری سود اور حرام ہوگی؟

الحمد للہ:

پہلی بات:

بینک سے مکان کی خریداری کی دو صورتیں ہیں:

پہلی یہ ہے کہ:

بینک صرف پیسوں کا بندوبست کرے، یعنی کسٹمر کو سامان کی قیمت دے دے یا خود ہی کسٹمر کی طرف سے ادائیگی کردے، جس کے عوض میں ادا شدہ رقم بھی واپس لے اور اس پر منافع بھی وصول کرے، مثال کے طور پرسامان ایک ہزار کا ہو، اور بینک کو ایک ہزار دو سو واپس کرنے پڑیں تو یہ صورت حرام ہے؛ کیونکہ اسکی بنیاد سودی قرضے پر ہے۔

دوسری یہ ہے کہ:

بینک حقیقی طور پر کوئی سامان خریدے، پھر بعد میں اسے کسٹمر کو زیادہ قیمت پر قسطوں میں بیچ دے، تو اس میں کوئی حرج نہیں ہے، اسی کو " خریداری کا حکم کرنے والے کیساتھ بیع مرابحہ " کہا جاتا ہے، اس صورت میں بینک سامان کی خریداری سے قبل کسٹمر سے عقد نہیں کرسکتا، کیونکہ جو چیز ابھی ملکیت میں نہ ہو اسکی خرید و فروخت کرنے سے منع کیا گیا ہے۔

اور بینک کیلئے جائز ہے کہ وہ مستقبل میں سامان کی ملکیت حاصل کرنے پر کسٹمر سے سامان کی خریداری کا وعدہ لے سکتا ہے، لیکن یہ وعدہ لازمی نہیں ہوگا۔

مذکورہ بالا بیان کے بعد؛ اگر بینک مکان خرید کر پھر اسے قسطوں میں فروخت کرتا ہے تو اس میں کوئی حرج نہیں ہے، اور اگر بینک خریداری نہ کرے، بلکہ اسکی قیمت آپکو دے دے، یا آپکی طرف سے قیمت ادا کردے ، اور اس رقم کی واپسی قسط وار زیادہ وصول کرے تو یہ سود ہے، اور سود کے بارے میں بہت سخت وعید آئی ہے۔

دوسری بات:

آپ نے بھائیوں کیلئے رہائش کی ضرورت کا ذکر کیا ہے، اس سے سود لینا جائز نہیں ہو جائے گا، کیونکہ اس ضرورت کو کرائے پر مکان لیکر پورا کیا جاسکتا ہے۔

مزید تفصیل کیلئے آپ سوال نمبر: (94823) اور (85197) کا مطالعہ بھی کریں۔

واللہ اعلم .

اسلام سوال و جواب

http://islamqa.info/ur/110006
 
شمولیت
اگست 11، 2013
پیغامات
17,117
ری ایکشن اسکور
6,783
پوائنٹ
1,069
باپ کے دباؤ میں گھر کی خریداری کے لئے سودی قرضہ لینا
سوال:

میں ہر قسم کے سودی قرضے لینے سے توبہ کر چکا ہوں، لیکن کچھ عرصہ بعد ہی میرے والدین نے دباؤ ڈال کر مطالبہ کیا کہ میں مکان کی خریداری کیلئے سودی قرض لے لوں؛ کیونکہ جس مکان میں ہم رہ رہے ہیں یہ ہماری ملکیت نہیں ہے، اور مالک مکان اپنا مکان واپس لینے پر اصرار کر رہا ہے ، اور مالی طور پر ہماری حالت ایسی نہیں ہے کہ ہم کوئی اور مکان خرید سکیں، تو میں نے ان سےاصرار کیا کہ حرام کا ارتکاب کرنے سے بہتر ہے کہ ہم کوئی اور مکان کرائے پر لے لیں، لیکن وہ مجھ پر سخت برہم ہوئے۔ مجھےبھی غصہ میں آگیا کہ میں مکان کی خریداری کیلئے سودی قرض لینے میں شریک نہیں بننا چاھتا تھا، میں قرض نہیں لینا چا ہتا تھا اور اس سے بری ہوں، لیکن قرض میرے اور ہماری فیملی کے ایک اور فرد کے نام پرہے، تو کیا اس وجہ سے مجھ پر کوئی گناہ ہے؟ حالانکہ میں اس وقت بھی سودی قرض کے خلاف تھا، اور آج بھی خلاف ہوں۔


الحمد للہ:

سودی قرض لینا جائز نہیں ہے، چاہے بینک سے لیا جائے یا کہیں اور سے، اور چاہے یہ مکان کی خریداری کیلئے ہو یا کسی اور کام کیلئے؛ کیونکہ سود کی حرمت کیلئے بہت ہی شدید وعید بتلائی گئی ہے، اللہ تعالی کا فرمان ہے:

( يَا أَيُّهَا الَّذِينَ آمَنُوا اتَّقُوا اللَّهَ وَذَرُوا مَا بَقِيَ مِنَ الرِّبَا إِنْ كُنْتُمْ مُؤْمِنِينَ . فَإِنْ لَمْ تَفْعَلُوا فَأْذَنُوا بِحَرْبٍ مِنَ اللَّهِ وَرَسُولِهِ وَإِنْ تُبْتُمْ فَلَكُمْ رُءُوسُ أَمْوَالِكُمْ لا تَظْلِمُونَ وَلا تُظْلَمُونَ )


ترجمہ: اے ایمان والو! اللہ سے ڈرو، اور اگر تم مؤمن ہو تو باقیماندہ سود چھوڑ دو، اگر نہیں چھوڑو گے تو اللہ اور اسکے رسول سے جنگ کیلئے تیار ہوجاؤ، چنانچہ اگر تم توبہ کر لو تو تمہارے لئے تمہارا رأس المال ہی ہے، نہ تم کسی پر ظلم کرو، پھر تم پر بھی ظلم نہیں کیا جائے گا۔[البقرة: 278- 279]

مسلم : (1598) نے جابر رضی اللہ عنہ سے روایت کیا ہے کہ :

"نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے سود کھانے والے، کھلانے والے، لکھنے والے، اور اسکے گواہان پر لعنت فرمائی ہے، اور فرمایا: (یہ سب [گناہ میں]برابر ہیں)"

ابن قدامہ رحمہ اللہ کہتے ہیں:

"ہر ایسا قرض جس میں زیادتی کی شرط ہو تو وہ بغیر اختلاف کے حرام ہے، ابن منذر رحمہ اللہ کہتے ہیں: سب کا اجماع ہے کہ اگر قرضہ دینے والا قرضہ لینے والے پر اضافی رقم یا تحفہ دینے کی شرط لگائے ، اور وہ اسی شرط پر قرضہ فراہم کرے تو قرضہ پر زیادتی وصول کرنا سود ہے"انتہی
"المغنی" (6/436)

چنانچہ مکان کی خریداری اس عظیم اور سنگین جرم کے ارتکاب کیلئے کوئی قابل قبول عذر نہیں ہے، کیونکہ آپ کرائے پر مکان لینے پر بھی اکتفا کر سکتے ہیں ، جیسے کہ آپ نے بھی یہ چیز بیان کی ہے۔

آپ نے سودی قرض لینے کے معاملے میں شرکت کر کے غلطی کی ہے، آپ کیلئے ضروری یہ تھا کہ آپ اپنے موقف ہر ڈٹے رہتے ، چاہے اسکی وجہ سے آپکے والدین اور آپکی پوری فیملی ناراض ہی کیوں نہ ہو جاتی ؛ کیونکہ مخلوق کی اطاعت کرتے ہوئے خالق کی نافرمانی نہیں کی جاسکتی۔آپ جزوی یا مکمل سودی قرض کیلئے دستخط کرنے کے بعد اختلاف رائے رکھیں !! یہ کافی نہیں ہے۔

اس لئے آپ اور جس نے بھی سودی قرض لیا ہے،اللہ تعالی سے توبہ کریں، اور جو کچھ ہوا ہے اس پر نادم ہوں، اور دوبارہ ایسے سنگین جرم میں ملوّث نہ ہونے کا پختہ عزم کریں، کیونکہ اس کے بارے ایسی وعید آئی ہے جو کسی اور گناہ کے بارے میں نہیں آئی۔ اللہ تعالی ہمیں محفوظ رکھے[آمین]

اور سودی قرض سے لئے ہوئے مکان میں رہنے پر کوئی حرج نہیں ہے، دائمی فتوی کمیٹی سے ایسے شخص کے بارے میں پوچھا گیا جس نے سودی قرضے سے گھر بنایا، تو کیا اس گھر کو گرا دے؟ یا کیا کرے؟

تو فتوی کمیٹی کا جواب تھا:

"اگر ایسی بات ہے تو آپ نے جو قرضہ سودی انداز سے لیا ہے یہ سود کی وجہ سے حرام ہے ، اور آپ اپنے اس عمل سے توبہ اور استغفار کریں، جو کچھ ہوا اس پر ندامت کا اظہار کریں، اور آئندہ ایسا نہ کرنے کا پختہ عزم کریں، جہاں تک گھر کی بات ہے تو مت گرائیں، بلکہ آپ اس سے رہائش یا کسی اور انداز سے فائدہ اٹھائیں، اور اللہ تعالی سے امید ہے کہ اس کوتاہی پر اللہ تعالی آپ کومعاف فرمائے" انتہی
"فتاوى اللجنة الدائمة" ( 13 / 411 )

اللہ تعالی سے دعا گو ہیں کہ ہم سب کو معاف فرمائےاور ہمارے گناہ بخش دے۔

واللہ اعلم.

اسلام سوال وجواب

http://islamqa.info/ur/95005
 

کنعان

فعال رکن
شمولیت
جون 29، 2011
پیغامات
3,564
ری ایکشن اسکور
4,423
پوائنٹ
521
السلام علیکم

دوسری یہ ہے کہ:

بینک حقیقی طور پر کوئی سامان خریدے، پھر بعد میں اسے کسٹمر کو زیادہ قیمت پر قسطوں میں بیچ دے، تو اس میں کوئی حرج نہیں ہے، اسی کو " خریداری کا حکم کرنے والے کیساتھ بیع مرابحہ " کہا جاتا ہے، اس صورت میں بینک سامان کی خریداری سے قبل کسٹمر سے عقد نہیں کرسکتا، کیونکہ جو چیز ابھی ملکیت میں نہ ہو اسکی خرید و فروخت کرنے سے منع کیا گیا ہے۔

اور بینک کیلئے جائز ہے کہ وہ مستقبل میں سامان کی ملکیت حاصل کرنے پر کسٹمر سے سامان کی خریداری کا وعدہ لے سکتا ہے، لیکن یہ وعدہ لازمی نہیں ہوگا۔

مذکورہ بالا بیان کے بعد؛ اگر بینک مکان خرید کر پھر اسے قسطوں میں فروخت کرتا ہے تو اس میں کوئی حرج نہیں ہے، اور اگر بینک خریداری نہ کرے، بلکہ اسکی قیمت آپکو دے دے، یا آپکی طرف سے قیمت ادا کردے ، اور اس رقم کی واپسی قسط وار زیادہ وصول کرے تو یہ سود ہے، اور سود کے بارے میں بہت سخت وعید آئی ہے۔
انگلینڈ میں ہر قسم کی خریداری پر جہاں آپ ایک ساتھ رقم ادا نہیں کر سکتے، ایسا ہی ہوتا ھے جیسا فتویٰ کے مطابق نمبر 2 میں بتایا گیا ھے، اور یقیناً کینیڈا میں بھی ایسا ہی ہوتا ہو گا۔

اگر کوئی گھر خریدانا ھے تو بینک/ فاینانس کمپنی ہی لینڈ لارڈ سے سارے معملات تہہ کر کے اسے ہی رقم کی ادائگی کر کے کاغذات حاصل کرتی ھے، اور کنزیومر کے ساتھ وہ قسطوں پر معاہدہ کرتی ھے، جس پر جب تمام اقساط ادا ہو جائیں تو گھر کے کاغذات اس کے نام پر ٹرنسفر ہوتے ہیں۔

والسلام
 

ابو عبدالله

مشہور رکن
شمولیت
نومبر 28، 2011
پیغامات
723
ری ایکشن اسکور
448
پوائنٹ
135
السلام علیکم



انگلینڈ میں ہر قسم کی خریداری پر جہاں آپ ایک ساتھ رقم ادا نہیں کر سکتے، ایسا ہی ہوتا ھے جیسا فتویٰ کے مطابق نمبر 2 میں بتایا گیا ھے، اور یقیناً کینیڈا میں بھی ایسا ہی ہوتا ہو گا۔

اگر کوئی گھر خریدانا ھے تو بینک/ فاینانس کمپنی ہی لینڈ لارڈ سے سارے معملات تہہ کر کے اسے ہی رقم کی ادائگی کر کے کاغذات حاصل کرتی ھے، اور کنزیومر کے ساتھ وہ قسطوں پر معاہدہ کرتی ھے، جس پر جب تمام اقساط ادا ہو جائیں تو گھر کے کاغذات اس کے نام پر ٹرنسفر ہوتے ہیں۔

والسلام
السلام علیکم ورحمۃ اللہ وبرکاتہُ!
محترم کنعان صاحب، اگر ممکن ہو تو انگلینڈ میں رائج "دوسری صورت" اور اس پر دیے گیے فتاویٰ کی کچھ تفصیلات بیان کردیں. جزاک اللہ خیراً
 

کنعان

فعال رکن
شمولیت
جون 29، 2011
پیغامات
3,564
ری ایکشن اسکور
4,423
پوائنٹ
521
السلام علیکم

فتوی کے ہٹ کے پہلے میں یہاں سے معلومات فراہم کرتا ہوں اور اس کے مطابق کینیڈا میں بھی چیک کریں۔

جیسا کینیڈا سے لکھا گیا ھے اس حوالہ سے یہاں بھی بہت سی باتوں کا لوگوں کو علم نہیں ہوتا اس لئے وہ گھر لینے پر سوچتے نہیں۔

اپنے استعمال کے لئے گھر پہلے کرایہ پر ہی لینا پڑتا ھے اور جب بھی لینا ہو تو لینڈر سے کرایہ پر گھر نہ لیں اور نہ ہی لینڈر سے گھر خریدیں۔

کونسل میں درخواست دیں گھر کرایہ پر لینے کی کیونکہ کونسل کے گھر کا کرایہ لینڈر کے کرایہ سے آدھا یا اس سے بھی کم ہوتا ھے۔

کونسل کی طرف سے پہلے دو سال کا عرصہ تھا گھر خریدنے کا اب کچھ سال زیادہ ہو گئے ہیں۔ مثال سے دو سال سے پہلے آپ کونسل کا گھر خرید نہیں سکتے اور جب دو سال ہو جائیں تو آپ گھر خرید سکتے ہیں جس پر کونسل اس وقت کے مطابق جو ریٹ لگے گا اس سے 30 فیصد ڈسکاؤنٹ دیتی ھے اور جوں جوں سال بڑھتے جائیں اس کے مطابق ڈسکاؤنٹ اور زیادہ ملتا ھے۔

بینک یا جو بھی فاینانس کمپنی اس کا بندوبست کرتی ھے اس میں کچھ کمپنیاں ڈاؤن پیمنٹ آپ کے مانگتی ہیں اس کے بعد وہ گھر خریدتی ہیں اس پر کچھ کمپنیاں بہت کم ڈاؤن پینٹ مانگتی ہیں، ابھی کچھ دن پہلے کونسل ہاؤس میں ایک اشتہار لگا ہوا تھا کہ کوئی ڈاؤن پیمنٹ نہیں اور ساتھ فون نمبر بھی دیا ہوا تھا یعنی ایسی کمپنیاں بھی ہیں۔

آپ نے سیٹ اپ کرنا ھے کہ آپ مہینہ کی کتنی قسط دے سکتے ہیں عموماً جو کرایہ کونسل کو دیا جا رہا ہوتا ھے وہی کرایہ قسط میں سیٹ اپ کیا جاتا ھے۔

بینک یا فاینانس کمپنیاں کونسل یا لینڈر کو تمام پیمنٹس کرتی ہیں اور کاغذات انہی کے پاس رہتے ہیں جب تمام قسطیں پوری ہو جائیں تو گھر آپکے نام پر ٹرانسفر ہوتا ھے۔

اکیلا بندہ گھر نہیں خرید سکتا اس پر میاں بیوی دونوں کا کام کرنا پڑتا ھے ایک کی تنخواہ سے گھر چلتا ھے اور دوسرے کی تنخواہ سے مارٹگیج جاتی ھے۔

کسی بھی وجہ سے اگر جاب چھوٹ جائے تو کوئی مشکل نہیں قسط کی شکل میں کرایہ بیعت المال دیتی ھے۔ اور گھر کا ٹیکس بھی۔ اور اس کے علاوہ جو بھی اور کچھ قسط پر خریدا ہوا ھے اس کی پیمنٹ بھی ہر مہینہ۔ خیال رہے کہ ہاؤس ہولڈ بلنگ نہیں، گھر کی اقساط پر جب ہاؤسنگ اینڈ کونسل ٹیکس بینیفٹس کا کتابچہ فارم بھرا جاتا ھے تو اس میں ایسے بہت سے کالم ہوتے ہیں جن کی ادائگی آپ کے ذمہ نہیں انہیں بھی بھرنا ہوتا ھے، اگر وہ خالی چھوڑ دیں گے تو قسطیں آپکو دینی پڑھیں گی جو کہ ناممکن ھے۔

----------

گھر کی تمام بڑی خریداری جس پر آپ کے پاس بجٹ نہیں اس پر بڑے بڑے سٹورز آفر کرتے ہیں، 3 ماہ، 6 ماہ اور سال میں فیس ویلیو پیمنٹ کر سکتے ہیں۔ مثال سے ایک چیز 500£ کی ھے تو ایک سال میں آپ نے اتنی ہی ادائگی کرنی ھے۔ اس میں دو طرح کی فاینانس کمپنیاں ہیں، ایک جو 25£ پیپر ورک کا لیتی ہیں اور ایک جو کچھ بھی نہیں لیتیں اس پر ہر سٹورز کے جن کے ساتھ کنٹریکٹ ہیں وہی ملیں گی۔
اس پر ایگریمنٹ اسطرح بنتا ھے کہ 1 سال میں 500£ دینے ہیں اگر 1 سال میں اس کی ادائیگی نہ کر پائے تو پھر 2 یا 3 سالوں کی قسطیں سیٹ کی ہونگی اور اس پر سود بھی ہو گا، اسے سائن کرنا ہوتا ھے۔ اگر 1 سال سے 1 دن بھی اوپر ہو گیا تو سود والا سسٹم شروع ہو جائے گا اب چاہیں تو اسی وقت تمام پیمنٹس دے دیں مگر یہ پیمنٹس سود اگریمنٹ کے مطابق دینی پڑے گی نہیں تو اسے جاری رکھیں۔


---------

باقی فتوی آپ کے سامنے ھے۔ یہ میری جاب نہیں اس پر میں کچھ نہیں کہہ سکتا، کوئی صاحب علم ہی اس پر روشنی ڈال سکتا ھے۔

دوسری یہ ہے کہ:

بینک حقیقی طور پر کوئی سامان خریدے، پھر بعد میں اسے کسٹمر کو زیادہ قیمت پر قسطوں میں بیچ دے، تو اس میں کوئی حرج نہیں ہے، اسی کو " خریداری کا حکم کرنے والے کیساتھ بیع مرابحہ " کہا جاتا ہے، اس صورت میں بینک سامان کی خریداری سے قبل کسٹمر سے عقد نہیں کرسکتا، کیونکہ جو چیز ابھی ملکیت میں نہ ہو اسکی خرید و فروخت کرنے سے منع کیا گیا ہے۔

اور بینک کیلئے جائز ہے کہ وہ مستقبل میں سامان کی ملکیت حاصل کرنے پر کسٹمر سے سامان کی خریداری کا وعدہ لے سکتا ہے، لیکن یہ وعدہ لازمی نہیں ہو گا۔

مذکورہ بالا بیان کے بعد؛ اگر بینک مکان خرید کر پھر اسے قسطوں میں فروخت کرتا ہے تو اس میں کوئی حرج نہیں ہے، اور اگر بینک خریداری نہ کرے، بلکہ اسکی قیمت آپکو دے دے، یا آپکی طرف سے قیمت ادا کردے ، اور اس رقم کی واپسی قسط وار زیادہ وصول کرے تو یہ سود ہے، اور سود کے بارے میں بہت سخت وعید آئی ہے۔
 
Top