• الحمدللہ محدث فورم کو نئےسافٹ ویئر زین فورو 2.1.7 پر کامیابی سے منتقل کر لیا گیا ہے۔ شکایات و مسائل درج کروانے کے لئے یہاں کلک کریں۔
  • آئیے! مجلس التحقیق الاسلامی کے زیر اہتمام جاری عظیم الشان دعوتی واصلاحی ویب سائٹس کے ساتھ ماہانہ تعاون کریں اور انٹر نیٹ کے میدان میں اسلام کے عالمگیر پیغام کو عام کرنے میں محدث ٹیم کے دست وبازو بنیں ۔تفصیلات جاننے کے لئے یہاں کلک کریں۔

کیوں حضرت علی ہی پیغمبرۖ کے وصی اور جانشین ہیں ؟

شمولیت
اگست 19، 2011
پیغامات
18
ری ایکشن اسکور
16
پوائنٹ
0
شیعوں کا راسخ عقیدہ یہ ہے کہ منصب خلافت ، خدا عطا فرماتا ہے اسی طرح ان کا یہ بھی عقیدہ ہے کہ پیغمبراکرمۖ کے بعد شروع ہونے والی امامت چند اعتبار سے نبوت کی طرح ہے جس طرح یہ ضروری ہے کہ پیغمبر ۖکو خدا معین فرمائے اسی طرح یہ بھی ضروری ہے کہ پیغمبرۖ کے وصی کو بھی خدا ہی معین کرے اس حقیقت کے سلسلے میں حیات پیغمبر اکرم ۖکی تاریخ بہترین گواہ ہے کیونکہ پیغمبراکرمۖ نے چند موقعوں پر اپنا خلیفہ معین فرمایا ہے ہم یہاں ان میں سے تین موقعوں کا ذکر کرتے ہیں:

١۔ آغاز بعثت میں:
جب پیغمبر اسلام ۖکو خدا کی طرف سے حکم ہوا کہ اپنے قریبی رشتہ داروں کو اس آیہ کریمہ(وََنذِرْ عَشِیرَتَکَ الَْقْرَبِینَ )(١) کے مطابق آئین توحید کی طرف
.............
(١) سورہ شعراء آیت ٢١٤
دعوت دیں، تو آنحضرتۖ نے ان سب کو خطاب کرتے ہوئے یوں فرمایا ''جو بھی اس راستے میں میری مدد کرے گا ، وہی میرا وصی ، وزیر، اور جانشین ہوگا'' پیغمبراکرمۖ کے الفاظ یہ تھے:
'' فأیکم یؤازرن ف ھذاالأمر علی أن یکون أخ و وزیر و خلیفت و وصی فیکم''
تم میں سے کون ہے جو اس کام میں میری مدد کرے تاکہ وہی تمہارے درمیان میرا بھائی، وزیر، وصی اور جانشین قرار پائے؟
اس ملکوتی آواز پر صرف اور صرف علی ابن ابی طالب ـ نے لبیک کہا اس وقت پیغمبر اکرم ۖ نے اپنے رشتہ داروں کی طرف رخ کرتے ہوئے ارشاد فرمایا:
''اِن ھذا أخ و وصی و خلیفت فیکم فاسمعوا لہ و أطیعوہ''(١)
بہ تحقیق یہ (علی ) تمہارے درمیان میرا بھائی ، وصی اور جانشین ہے. اس کی باتوں کو سنو اور اس کی پیروی کرو.

٢۔ غزوۂ تبوک میں
پیغمبر خدا ۖ نے حضرت علی ـ سے فرمایا :
.............
(١) تاریخ طبری ؛ جلد ٢ ص ٦٣. ٦٢ اور تاریخ کامل جلد ٢ ص ٤١ ۔٤٠اور مسند احمد جلد١ ص ١١١ ،
اور شرح نہج البلاغہ (ابن ابی الحدید ) جلد١٣ ص ٢١٢. ٢١٠
''أما ترضی أن تکون من بمنزلة ہارون من موسیٰ اِلا أنّہ لانب بعد''(١)
کیا تم اس بات سے خوش نہیں ہو کہ تمہاری نسبت مجھ سے ویسی ہی ہے جیسی ہارون کو موسیٰ سے تھی بجز اس کے کہ میرے بعد کوئی پیغمبر نہیں آئے گا.
یعنی جس طرح ہارون ـ حضرت موسیٰ ـ کے بلا فصل وصی اور جانشین تھے ، اسی طرح تم بھی میرے خلیفہ اور جانشین ہو۔

٣۔ دسویں ہجری میں
رسول خدا ۖ نے حجة الوداع سے و اپس لوٹتے وقت غدیر خم کے میدان میں مسلمانوں کی بہت بڑی تعداد کے درمیان حضرت علی ـ کو مسلمانوں اور مومنوں کا ولی معین کیا اور فرمایا:
''مَن کنت مولاہ فھذا علّ مولاہ''
''جس کا میں سرپرست اور صاحب اختیار تھا اب یہ علی اس کے مولا اور سرپرست ہیں.''
یہاں پر جو اہم اور قابل توجہ نکتہ ہے وہ یہ کہ پیغمبر اسلامۖ نے اپنے خطبے کے آغاز
.............
(٢)سیرۂ ابن ہشام جلد٢ ص ٥٢٠ اور الصواعق المحرقہ طبع دوم مصر باب ٩ فصل ٢ ص ١٢١.
میں ارشاد فرمایا:
''ألستُ أولیٰ بکم مِن أنفسکم؟''
''کیا میں تمہارے نفسوں پر تم سے بڑھ کر حق نہیں رکھتا ؟''
اس وقت تمام مسلمانوں نے یک زبان ہوکر پیغمبراکرمۖ کی تصدیق کی تھی لہذا یہاں پر یہ کہنا ضروری ہے کہ آنحضرتۖ کی اس حدیث کی رو سے جو برتری اور اختیار تام رسول ۖ کو حاصل تھا وہی برتری و اختیار کامل علی کو حاصل ہے۔
اس اعتبار سے یہاں پر یہ نتیجہ نکلتا ہے کہ جس طرح آنحضرتۖ مومنین پر برتری اور فوقیت رکھتے تھے اسی طرح حضرت علی ـ بھی مومنین کے نفسوں پر برتری اور فوقیت رکھتے ہیں اس دن حسان بن ثابت نامی شاعر نے غدیر خم کے اس تاریخی واقعے کو اپنے اشعار میںاس طرح نظم کیا ہے :

ینادیھم یوم الغدیر نبیُّھم
بخم واسمع بالرسول منادیا
فقال فمن مولاکم و نبیُّکم ؟
فقالوا ولم یبدوا ھناک التعامیا
الھک مولانا و أنت نبیُّنا
و لم تلق منا فِ الولایة عاصیا
فقال لہ قم یا عل فنن
رضیتک من بعد اِماما وھادیا
فمن کنت مولاہ فھذا ولیہ
فکونوا لہ أتباع صدق موالیا
ھناک دعا: اللّھم وال ولیہ
وکن للذ عادیٰ علیاً معادیا(١)
.............
(١) المناقب (خوارزمی مالکی)ص ٨٠ اور تذکرة خواص الامہ (سبط ابن جوزی حنفی) ص ٢٠ اور کفایة الطالب ص ١٧ (مصنف گنجی شافعی) وغیرہ...
حدیث غدیر ، اسلام کی ایسی متواتر (١) احادیث میں سے ایک ہے جس کو شیعہ علماء کے علاوہ تقریبا تین سو ساٹھ سنی علماء نے بھی نقل کیا ہے (٢) یہاں تک کہ اس حدیث کا سلسلہ سند ایک سو دس اصحاب پیغمبرۖ تک پہنچتا ہے اور عالم اسلام کے چھبیس بزرگ علماء نے اس حدیث کے سلسلۂ سند کے بارے میں مستقل طور پر کتابیں لکھی ہیں.
مشہور مسلمان مورخ ابوجعفر طبری نے اس حدیث شریف کے سلسلۂ اسناد کو دو بڑی جلدوں میں جمع کیا ہے اس سلسلے میں مزید معلومات کے لئے کتاب ''الغدیر'' کا مطالعہ کریں.
.............
(١) حدیث متواتر: وہ روایت ہے جو ایسے متعدد اور مختلف راویوں سے نقل ہوئی ہو جس میں ذرا بھی جھوٹ کا شائبہ نہ رہ جائے.(مترجم)
(٢) بطور نمونہ کتاب ''الصواعق المحرقہ'' (ابن حجر) طبع دوم مصر باب ٩ اور فصل ٢ ص ١٢٢ کا مطالعہ کریں.
 

ابو تراب

مبتدی
شمولیت
مارچ 29، 2011
پیغامات
102
ری ایکشن اسکور
537
پوائنٹ
0
شیعوں کا راسخ عقیدہ یہ ہے کہ منصب خلافت ، خدا عطا فرماتا ہے اسی طرح ان کا یہ بھی عقیدہ ہے کہ پیغمبراکرمۖ کے بعد شروع ہونے والی امامت چند اعتبار سے نبوت کی طرح ہے جس طرح یہ ضروری ہے کہ پیغمبر ۖکو خدا معین فرمائے اسی طرح یہ بھی ضروری ہے کہ پیغمبرۖ کے وصی کو بھی خدا ہی معین کرے اس حقیقت کے سلسلے میں حیات پیغمبر اکرم ۖکی تاریخ بہترین گواہ ہے کیونکہ پیغمبراکرمۖ نے چند موقعوں پر اپنا خلیفہ معین فرمایا ہے ہم یہاں ان میں سے تین موقعوں کا ذکر کرتے ہیں:

١۔ آغاز بعثت میں:
جب پیغمبر اسلام ۖکو خدا کی طرف سے حکم ہوا کہ اپنے قریبی رشتہ داروں کو اس آیہ کریمہ(وََنذِرْ عَشِیرَتَکَ الَْقْرَبِینَ )(١) کے مطابق آئین توحید کی طرف
.............
(١) سورہ شعراء آیت ٢١٤
دعوت دیں، تو آنحضرتۖ نے ان سب کو خطاب کرتے ہوئے یوں فرمایا ''جو بھی اس راستے میں میری مدد کرے گا ، وہی میرا وصی ، وزیر، اور جانشین ہوگا'' پیغمبراکرمۖ کے الفاظ یہ تھے:
'' فأیکم یؤازرن ف ھذاالأمر علی أن یکون أخ و وزیر و خلیفت و وصی فیکم''
تم میں سے کون ہے جو اس کام میں میری مدد کرے تاکہ وہی تمہارے درمیان میرا بھائی، وزیر، وصی اور جانشین قرار پائے؟
اس ملکوتی آواز پر صرف اور صرف علی ابن ابی طالب ـ نے لبیک کہا اس وقت پیغمبر اکرم ۖ نے اپنے رشتہ داروں کی طرف رخ کرتے ہوئے ارشاد فرمایا:
''اِن ھذا أخ و وصی و خلیفت فیکم فاسمعوا لہ و أطیعوہ''(١)
بہ تحقیق یہ (علی ) تمہارے درمیان میرا بھائی ، وصی اور جانشین ہے. اس کی باتوں کو سنو اور اس کی پیروی کرو.

٢۔ غزوۂ تبوک میں
پیغمبر خدا ۖ نے حضرت علی ـ سے فرمایا :
.............
(١) تاریخ طبری ؛ جلد ٢ ص ٦٣. ٦٢ اور تاریخ کامل جلد ٢ ص ٤١ ۔٤٠اور مسند احمد جلد١ ص ١١١ ،
اور شرح نہج البلاغہ (ابن ابی الحدید ) جلد١٣ ص ٢١٢. ٢١٠
''أما ترضی أن تکون من بمنزلة ہارون من موسیٰ اِلا أنّہ لانب بعد''(١)
کیا تم اس بات سے خوش نہیں ہو کہ تمہاری نسبت مجھ سے ویسی ہی ہے جیسی ہارون کو موسیٰ سے تھی بجز اس کے کہ میرے بعد کوئی پیغمبر نہیں آئے گا.
یعنی جس طرح ہارون ـ حضرت موسیٰ ـ کے بلا فصل وصی اور جانشین تھے ، اسی طرح تم بھی میرے خلیفہ اور جانشین ہو۔

٣۔ دسویں ہجری میں
رسول خدا ۖ نے حجة الوداع سے و اپس لوٹتے وقت غدیر خم کے میدان میں مسلمانوں کی بہت بڑی تعداد کے درمیان حضرت علی ـ کو مسلمانوں اور مومنوں کا ولی معین کیا اور فرمایا:
''مَن کنت مولاہ فھذا علّ مولاہ''
''جس کا میں سرپرست اور صاحب اختیار تھا اب یہ علی اس کے مولا اور سرپرست ہیں.''
یہاں پر جو اہم اور قابل توجہ نکتہ ہے وہ یہ کہ پیغمبر اسلامۖ نے اپنے خطبے کے آغاز
.............
(٢)سیرۂ ابن ہشام جلد٢ ص ٥٢٠ اور الصواعق المحرقہ طبع دوم مصر باب ٩ فصل ٢ ص ١٢١.
میں ارشاد فرمایا:
''ألستُ أولیٰ بکم مِن أنفسکم؟''
''کیا میں تمہارے نفسوں پر تم سے بڑھ کر حق نہیں رکھتا ؟''
اس وقت تمام مسلمانوں نے یک زبان ہوکر پیغمبراکرمۖ کی تصدیق کی تھی لہذا یہاں پر یہ کہنا ضروری ہے کہ آنحضرتۖ کی اس حدیث کی رو سے جو برتری اور اختیار تام رسول ۖ کو حاصل تھا وہی برتری و اختیار کامل علی کو حاصل ہے۔
اس اعتبار سے یہاں پر یہ نتیجہ نکلتا ہے کہ جس طرح آنحضرتۖ مومنین پر برتری اور فوقیت رکھتے تھے اسی طرح حضرت علی ـ بھی مومنین کے نفسوں پر برتری اور فوقیت رکھتے ہیں اس دن حسان بن ثابت نامی شاعر نے غدیر خم کے اس تاریخی واقعے کو اپنے اشعار میںاس طرح نظم کیا ہے :

ینادیھم یوم الغدیر نبیُّھم
بخم واسمع بالرسول منادیا
فقال فمن مولاکم و نبیُّکم ؟
فقالوا ولم یبدوا ھناک التعامیا
الھک مولانا و أنت نبیُّنا
و لم تلق منا فِ الولایة عاصیا
فقال لہ قم یا عل فنن
رضیتک من بعد اِماما وھادیا
فمن کنت مولاہ فھذا ولیہ
فکونوا لہ أتباع صدق موالیا
ھناک دعا: اللّھم وال ولیہ
وکن للذ عادیٰ علیاً معادیا(١)
.............
(١) المناقب (خوارزمی مالکی)ص ٨٠ اور تذکرة خواص الامہ (سبط ابن جوزی حنفی) ص ٢٠ اور کفایة الطالب ص ١٧ (مصنف گنجی شافعی) وغیرہ...
حدیث غدیر ، اسلام کی ایسی متواتر (١) احادیث میں سے ایک ہے جس کو شیعہ علماء کے علاوہ تقریبا تین سو ساٹھ سنی علماء نے بھی نقل کیا ہے (٢) یہاں تک کہ اس حدیث کا سلسلہ سند ایک سو دس اصحاب پیغمبرۖ تک پہنچتا ہے اور عالم اسلام کے چھبیس بزرگ علماء نے اس حدیث کے سلسلۂ سند کے بارے میں مستقل طور پر کتابیں لکھی ہیں.
مشہور مسلمان مورخ ابوجعفر طبری نے اس حدیث شریف کے سلسلۂ اسناد کو دو بڑی جلدوں میں جمع کیا ہے اس سلسلے میں مزید معلومات کے لئے کتاب ''الغدیر'' کا مطالعہ کریں.
.............
(١) حدیث متواتر: وہ روایت ہے جو ایسے متعدد اور مختلف راویوں سے نقل ہوئی ہو جس میں ذرا بھی جھوٹ کا شائبہ نہ رہ جائے.(مترجم)
(٢) بطور نمونہ کتاب ''الصواعق المحرقہ'' (ابن حجر) طبع دوم مصر باب ٩ اور فصل ٢ ص ١٢٢ کا مطالعہ کریں.
بھائی جب آپ کوئی حوالہ دیتے ہیں تو تاریخ سے نہ دیا کریں کیونکہ تاریخ مستند نہیں،، بلکہ صحہح حدیث سے سند کے ساتھ دیں۔
آپ نے بیچ میں سبط ابن الجوزی کا حوالہ دیا جو کٹر رافضی تھا نہ کہ حنفی۔ ابن حجر مکی بدعتی تھا۔اس کی کتابیں جھوٹی,من گھڑت روایات سے بھری پڑی ہیں۔اس کا حوالہ بریلویوں کو دیا کریں۔

جزاک اللہ
 
Top