صحیح بخاری
کتاب المغازی
باب: حجۃ الوداع سے پہلے علی بن ابی طالب اور خالد بن ولید رضی اللہ عنہما کو یمن بھیجنا
حدیث نمبر: 4351
حدثنا قتيبة، حدثنا عبد الواحد، عن عمارة بن القعقاع بن شبرمة، حدثنا عبد الرحمن بن أبي نعم، قال سمعت أبا سعيد الخدري، يقول بعث علي بن أبي طالب ـ رضى الله عنه ـ إلى رسول الله صلى الله عليه وسلم من اليمن بذهيبة في أديم مقروظ لم تحصل من ترابها، قال فقسمها بين أربعة نفر بين عيينة بن بدر، وأقرع بن حابس وزيد الخيل، والرابع إما علقمة وإما عامر بن الطفيل، فقال رجل من أصحابه كنا نحن أحق بهذا من هؤلاء. قال فبلغ ذلك النبي صلى الله عليه وسلم فقال " ألا تأمنوني وأنا أمين من في السماء، يأتيني خبر السماء صباحا ومساء ". قال فقام رجل غائر العينين، مشرف الوجنتين، ناشز الجبهة، كث اللحية، محلوق الرأس، مشمر الإزار، فقال يا رسول الله، اتق الله. قال " ويلك أولست أحق أهل الأرض أن يتقي الله ". قال ثم ولى الرجل، قال خالد بن الوليد يا رسول الله، ألا أضرب عنقه قال " لا، لعله أن يكون يصلي ". فقال خالد وكم من مصل يقول بلسانه ما ليس في قلبه. قال رسول الله صلى الله عليه وسلم " إني لم أومر أن أنقب قلوب الناس، ولا أشق بطونهم " قال ثم نظر إليه وهو مقف فقال " إنه يخرج من ضئضئ هذا قوم يتلون كتاب الله رطبا، لا يجاوز حناجرهم، يمرقون من الدين كما يمرق السهم من الرمية ". وأظنه قال " لئن أدركتهم لأقتلنهم قتل ثمود ".
ہم سے قتیبہ بن سعید نے بیان کیا، کہا ہم سے عبد الواحد بن زیاد نے بیان کیا، ان سے عمار ہ بن قعقاع بن شبر مہ نے بیان کیا، ان سے عبدالرحمٰن بن ابی نعیم نے بیان کیا، کہا کہ میں نے ابو سعید خدری رضی اللہ عنہ سے سنا وہ کہتے تھے کہ یمن سے علی بن ابی طالب رضی اللہ عنہ نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس بیری کے پتوں سے دباغت دئے ہوئے چمڑے کے ایک تھیلے میں سونے کے چند ڈلے بھیجے۔ ان سے (کان کی) مٹی بھی ابھی صاف نہیں کی گئی تھی۔ راوی نے بیان کیا کہ پھر آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے وہ سونا چار آدمیوں میں تقسیم کر دیا۔ عیینہ بن بدر، اقرع بن حابس، زید بن خیل اور چوتھے علقمہ رضی اللہ عنہم تھے یا عامر بن طفیل رضی اللہ عنہ تھے۔ آپ کے اصحاب میں سے ایک صاحب نے اس پر کہا کہ ان لوگوں سے زیا دہ ہم اس سونے کے مستحق تھے۔ راوی نے بیان کیا کہ جب آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کومعلوم ہوا تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ تم مجھ پر اعتبار نہیں کرتے حالانکہ اس اللہ نے مجھ پر اعتبار کیا ہے جو آسمان پر ہے اور اس کی جو آسمان پر ہے وحی میرے پاس صبح و شام آتی ہے۔ راوی نے بیان کیا کہ پھر ایک شخص جس کی آنکھیں دھنسی ہوئی تھیں، دونوں رخسار پھولے ہوئے تھے، پیشانی بھی ابھری ہوئی تھی، گھنی داڑھی اور سر منڈا ہوا، تہبند اٹھائے ہوئے تھا، کھڑا ہوا اور کہنے لگا یا رسول اللہ! اللہ سے ڈرئیے۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا، افسوس تجھ پر کیا میں اس روئے زمین پر اللہ سے ڈرنے کا سب سے زیادہ مستحق نہیں ہوں۔ راوی نے بیان کیا پھر وہ شخص چلا گیا۔ خالد بن ولید رضی اللہ عنہ نے عرض کیا یا رسول اللہ! میں کیوں نہ اس شخص کی گردن مار دوں؟ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا نہیں شاید وہ نماز پڑھتا ہو اس پر خالد رضی اللہ عنہ نے عرض کیا کہ بہت سے نماز پڑھنے والے ایسے ہیں جو زبان سے اسلام کا دعویٰ کرتے ہیں اور ان کے دل میں وہ نہیں ہوتا۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا اس کا حکم نہیں ہوا ہے کہ لوگوں کے دلوں کی کھوج لگاؤں اور نہ اس کا حکم ہوا کہ ان کے پیٹ چاک کروں۔ راوی نے کہا پھر آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے اس (منافق) کی طرف دیکھا تو وہ پیٹھ پھیر کر جا رہا تھا۔ آپ نے فرمایا کہ اس کی نسل سے ایک ایسی قوم نکلے گی جو کتاب اللہ کی تلاوت بڑی خوش الحانی کے ساتھ کرے گی لیکن وہ ان کے حلق سے نیچے نہیں اترے گا۔ دین سے وہ لوگ اس طرح نکل چکے ہوں گے جیسے تیر جانور کے پار نکل جاتا ہے اور میر ا خیال ہے کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے یہ بھی فرمایا، اگر میں ان کے دورمیں ہوا تو ثمود کی قوم کی طرح ان کو با لکل قتل کر ڈالوں گا۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
صحیح بخاری
کتاب استتابہ المرتدین
باب: خارجیوں اور بے دینوں سے ان پر دلیل قائم کر کے لڑنا
وقول الله تعالى { وما كان الله ليضل قوما بعد إذ هداهم حتى يبين لهم ما يتقون}. وكان ابن عمر يراهم شرار خلق الله وقال إنهم انطلقوا إلى آيات نزلت في الكفار فجعلوها على المؤمنين.
اللہ تعالیٰ نے فرمایا اللہ تعالیٰ ایسا نہیں کرتاکہ کسی قوم کو ہدایت کرنے کے بعد (یعنی ایمان کی توفیق دینے کے بعد) ان سے مواخذہ کرے جب تک ان سے بیان نہ کرے کہ فلاں فلاں کاموں سے بچے رہو اور حضرت عبداللہ بن عمر (اس کو طبری نے وصل کیا) خارجی لوگوں کو بدترین خلق اللہ سمجھتے تھے، کہتے تھے انہوں نے کیا کیا جو آیتیں کافروں کے باب میں اتری تھیں ان کو مسلمانوں پر چسپاں کر دیا۔
حدیث نمبر: 6930
حدثنا عمر بن حفص بن غياث، حدثنا أبي، حدثنا الأعمش، حدثنا خيثمة، حدثنا سويد بن غفلة، قال علي ـ رضى الله عنه ـ إذا حدثتكم عن رسول الله صلى الله عليه وسلم حديثا فوالله، لأن أخر من السماء أحب إلى من أن أكذب عليه، وإذا حدثتكم فيما بيني وبينكم فإن الحرب خدعة، وإني سمعت رسول الله صلى الله عليه وسلم يقول " سيخرج قوم في آخر الزمان، حداث الأسنان، سفهاء الأحلام، يقولون من خير قول البرية، لا يجاوز إيمانهم حناجرهم، يمرقون من الدين كما يمرق السهم من الرمية، فأينما لقيتموهم فاقتلوهم، فإن في قتلهم أجرا لمن قتلهم يوم القيامة ".
ہم سے عمر بن حفص بن غیاث نے بیان کیا، کہا ہم ہمارے سے والد نے، کہا ہم سے اعمش نے، کہا ہم سے خیثمہ بن عبدالرحمٰن نے، کہا ہم سے سوید بن غفلہ نے کہ حضرت علی رضی اللہ عنہ نے کہا جب میں تم سے آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی کوئی حدیث بیان کروں تو قسم خدا کی اگر میں آسمان سے نیچے گرپڑوں یہ مجھ کو اس سے اچھا لگتا ہے کہ میں آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم پر جھوٹ باندھوں ہاں جب مجھ میں تم میں آپس میں گفتگو ہو تو اس میں بنا کر بات کہنے میں کوئی قباحت نہیں کیونکہ (آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا ہے) لڑائی تدبیر اور مکر کا نام ہے۔ دیکھو میں نے آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم سے سنا ہے آپ فرماتے تھے اخیر زمانہ قریب ہے جب ایسے لوگ مسلمانوں میں نکلیں گے جو نوعمر بیوقوف ہوں گے (ان کی عقل میں فتور ہو گا) ظاہر میں تو ساری خلق کے کلاموں میں جو بہتر ہے (یعنی حدیث شریف) وہ پڑھیں گے مگر درحقیقت ایمان کا نور ان کے حلق سے نیچے نہیں اترے گا، وہ دین سے اس طرح باہر ہو جائیں گے جیسے تیر شکار کے جانور سے پار نکل جاتا ہے۔ (اس میں کچھ لگا نہیں رہتا) تم ان لوگوں کو جہاں پانا بے تامل قتل کرنا، ان کو جہاں پاؤ قتل کرنے میں قیامت کے دن ثواب ملے گا۔
جاری ہے۔۔۔۔۔
کتاب المغازی
باب: حجۃ الوداع سے پہلے علی بن ابی طالب اور خالد بن ولید رضی اللہ عنہما کو یمن بھیجنا
حدیث نمبر: 4351
حدثنا قتيبة، حدثنا عبد الواحد، عن عمارة بن القعقاع بن شبرمة، حدثنا عبد الرحمن بن أبي نعم، قال سمعت أبا سعيد الخدري، يقول بعث علي بن أبي طالب ـ رضى الله عنه ـ إلى رسول الله صلى الله عليه وسلم من اليمن بذهيبة في أديم مقروظ لم تحصل من ترابها، قال فقسمها بين أربعة نفر بين عيينة بن بدر، وأقرع بن حابس وزيد الخيل، والرابع إما علقمة وإما عامر بن الطفيل، فقال رجل من أصحابه كنا نحن أحق بهذا من هؤلاء. قال فبلغ ذلك النبي صلى الله عليه وسلم فقال " ألا تأمنوني وأنا أمين من في السماء، يأتيني خبر السماء صباحا ومساء ". قال فقام رجل غائر العينين، مشرف الوجنتين، ناشز الجبهة، كث اللحية، محلوق الرأس، مشمر الإزار، فقال يا رسول الله، اتق الله. قال " ويلك أولست أحق أهل الأرض أن يتقي الله ". قال ثم ولى الرجل، قال خالد بن الوليد يا رسول الله، ألا أضرب عنقه قال " لا، لعله أن يكون يصلي ". فقال خالد وكم من مصل يقول بلسانه ما ليس في قلبه. قال رسول الله صلى الله عليه وسلم " إني لم أومر أن أنقب قلوب الناس، ولا أشق بطونهم " قال ثم نظر إليه وهو مقف فقال " إنه يخرج من ضئضئ هذا قوم يتلون كتاب الله رطبا، لا يجاوز حناجرهم، يمرقون من الدين كما يمرق السهم من الرمية ". وأظنه قال " لئن أدركتهم لأقتلنهم قتل ثمود ".
ہم سے قتیبہ بن سعید نے بیان کیا، کہا ہم سے عبد الواحد بن زیاد نے بیان کیا، ان سے عمار ہ بن قعقاع بن شبر مہ نے بیان کیا، ان سے عبدالرحمٰن بن ابی نعیم نے بیان کیا، کہا کہ میں نے ابو سعید خدری رضی اللہ عنہ سے سنا وہ کہتے تھے کہ یمن سے علی بن ابی طالب رضی اللہ عنہ نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس بیری کے پتوں سے دباغت دئے ہوئے چمڑے کے ایک تھیلے میں سونے کے چند ڈلے بھیجے۔ ان سے (کان کی) مٹی بھی ابھی صاف نہیں کی گئی تھی۔ راوی نے بیان کیا کہ پھر آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے وہ سونا چار آدمیوں میں تقسیم کر دیا۔ عیینہ بن بدر، اقرع بن حابس، زید بن خیل اور چوتھے علقمہ رضی اللہ عنہم تھے یا عامر بن طفیل رضی اللہ عنہ تھے۔ آپ کے اصحاب میں سے ایک صاحب نے اس پر کہا کہ ان لوگوں سے زیا دہ ہم اس سونے کے مستحق تھے۔ راوی نے بیان کیا کہ جب آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کومعلوم ہوا تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ تم مجھ پر اعتبار نہیں کرتے حالانکہ اس اللہ نے مجھ پر اعتبار کیا ہے جو آسمان پر ہے اور اس کی جو آسمان پر ہے وحی میرے پاس صبح و شام آتی ہے۔ راوی نے بیان کیا کہ پھر ایک شخص جس کی آنکھیں دھنسی ہوئی تھیں، دونوں رخسار پھولے ہوئے تھے، پیشانی بھی ابھری ہوئی تھی، گھنی داڑھی اور سر منڈا ہوا، تہبند اٹھائے ہوئے تھا، کھڑا ہوا اور کہنے لگا یا رسول اللہ! اللہ سے ڈرئیے۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا، افسوس تجھ پر کیا میں اس روئے زمین پر اللہ سے ڈرنے کا سب سے زیادہ مستحق نہیں ہوں۔ راوی نے بیان کیا پھر وہ شخص چلا گیا۔ خالد بن ولید رضی اللہ عنہ نے عرض کیا یا رسول اللہ! میں کیوں نہ اس شخص کی گردن مار دوں؟ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا نہیں شاید وہ نماز پڑھتا ہو اس پر خالد رضی اللہ عنہ نے عرض کیا کہ بہت سے نماز پڑھنے والے ایسے ہیں جو زبان سے اسلام کا دعویٰ کرتے ہیں اور ان کے دل میں وہ نہیں ہوتا۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا اس کا حکم نہیں ہوا ہے کہ لوگوں کے دلوں کی کھوج لگاؤں اور نہ اس کا حکم ہوا کہ ان کے پیٹ چاک کروں۔ راوی نے کہا پھر آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے اس (منافق) کی طرف دیکھا تو وہ پیٹھ پھیر کر جا رہا تھا۔ آپ نے فرمایا کہ اس کی نسل سے ایک ایسی قوم نکلے گی جو کتاب اللہ کی تلاوت بڑی خوش الحانی کے ساتھ کرے گی لیکن وہ ان کے حلق سے نیچے نہیں اترے گا۔ دین سے وہ لوگ اس طرح نکل چکے ہوں گے جیسے تیر جانور کے پار نکل جاتا ہے اور میر ا خیال ہے کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے یہ بھی فرمایا، اگر میں ان کے دورمیں ہوا تو ثمود کی قوم کی طرح ان کو با لکل قتل کر ڈالوں گا۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
صحیح بخاری
کتاب استتابہ المرتدین
باب: خارجیوں اور بے دینوں سے ان پر دلیل قائم کر کے لڑنا
وقول الله تعالى { وما كان الله ليضل قوما بعد إذ هداهم حتى يبين لهم ما يتقون}. وكان ابن عمر يراهم شرار خلق الله وقال إنهم انطلقوا إلى آيات نزلت في الكفار فجعلوها على المؤمنين.
اللہ تعالیٰ نے فرمایا اللہ تعالیٰ ایسا نہیں کرتاکہ کسی قوم کو ہدایت کرنے کے بعد (یعنی ایمان کی توفیق دینے کے بعد) ان سے مواخذہ کرے جب تک ان سے بیان نہ کرے کہ فلاں فلاں کاموں سے بچے رہو اور حضرت عبداللہ بن عمر (اس کو طبری نے وصل کیا) خارجی لوگوں کو بدترین خلق اللہ سمجھتے تھے، کہتے تھے انہوں نے کیا کیا جو آیتیں کافروں کے باب میں اتری تھیں ان کو مسلمانوں پر چسپاں کر دیا۔
حدیث نمبر: 6930
حدثنا عمر بن حفص بن غياث، حدثنا أبي، حدثنا الأعمش، حدثنا خيثمة، حدثنا سويد بن غفلة، قال علي ـ رضى الله عنه ـ إذا حدثتكم عن رسول الله صلى الله عليه وسلم حديثا فوالله، لأن أخر من السماء أحب إلى من أن أكذب عليه، وإذا حدثتكم فيما بيني وبينكم فإن الحرب خدعة، وإني سمعت رسول الله صلى الله عليه وسلم يقول " سيخرج قوم في آخر الزمان، حداث الأسنان، سفهاء الأحلام، يقولون من خير قول البرية، لا يجاوز إيمانهم حناجرهم، يمرقون من الدين كما يمرق السهم من الرمية، فأينما لقيتموهم فاقتلوهم، فإن في قتلهم أجرا لمن قتلهم يوم القيامة ".
ہم سے عمر بن حفص بن غیاث نے بیان کیا، کہا ہم ہمارے سے والد نے، کہا ہم سے اعمش نے، کہا ہم سے خیثمہ بن عبدالرحمٰن نے، کہا ہم سے سوید بن غفلہ نے کہ حضرت علی رضی اللہ عنہ نے کہا جب میں تم سے آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی کوئی حدیث بیان کروں تو قسم خدا کی اگر میں آسمان سے نیچے گرپڑوں یہ مجھ کو اس سے اچھا لگتا ہے کہ میں آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم پر جھوٹ باندھوں ہاں جب مجھ میں تم میں آپس میں گفتگو ہو تو اس میں بنا کر بات کہنے میں کوئی قباحت نہیں کیونکہ (آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا ہے) لڑائی تدبیر اور مکر کا نام ہے۔ دیکھو میں نے آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم سے سنا ہے آپ فرماتے تھے اخیر زمانہ قریب ہے جب ایسے لوگ مسلمانوں میں نکلیں گے جو نوعمر بیوقوف ہوں گے (ان کی عقل میں فتور ہو گا) ظاہر میں تو ساری خلق کے کلاموں میں جو بہتر ہے (یعنی حدیث شریف) وہ پڑھیں گے مگر درحقیقت ایمان کا نور ان کے حلق سے نیچے نہیں اترے گا، وہ دین سے اس طرح باہر ہو جائیں گے جیسے تیر شکار کے جانور سے پار نکل جاتا ہے۔ (اس میں کچھ لگا نہیں رہتا) تم ان لوگوں کو جہاں پانا بے تامل قتل کرنا، ان کو جہاں پاؤ قتل کرنے میں قیامت کے دن ثواب ملے گا۔
جاری ہے۔۔۔۔۔