• الحمدللہ محدث فورم کو نئےسافٹ ویئر زین فورو 2.1.7 پر کامیابی سے منتقل کر لیا گیا ہے۔ شکایات و مسائل درج کروانے کے لئے یہاں کلک کریں۔
  • آئیے! مجلس التحقیق الاسلامی کے زیر اہتمام جاری عظیم الشان دعوتی واصلاحی ویب سائٹس کے ساتھ ماہانہ تعاون کریں اور انٹر نیٹ کے میدان میں اسلام کے عالمگیر پیغام کو عام کرنے میں محدث ٹیم کے دست وبازو بنیں ۔تفصیلات جاننے کے لئے یہاں کلک کریں۔

گمراہ فرقوں کا مختصر تعارف: خوارج

شمولیت
نومبر 23، 2011
پیغامات
493
ری ایکشن اسکور
2,479
پوائنٹ
26
فضیلۃ الشیخ صالح فوزان الفوزان حفظہ اللہ

بسم اللہ الرحمن الرحیم​
حمد و ثناء کے بعد!
یہ وہ لوگ ہیں کہ جو حکمران وقت کے خلاف خروج کرتے ہیں، جو سیدنا عثمان بن عفان ؓ کے آخری دور میں ظاہر ہوئے،اور جن کے خروج کے نتیجے میں سیدنا عثمان ؓ شہید ہوئے۔
پھر ان لوگوں کا شر وفسادسیدناعلی ؓ کی خلافت میں مزید بڑھ گیا اور انہوں نے ان کے خلاف بغاوت کی، ان کی اور دیگر صحابہ کرام ؓ کی تکفیر کی، کیونکہ انہوں نے ان کے باطل مذہب میں ان کی موافقت نہیں کی۔ اور وہ ہر اس شخص کو جو ان کے مذہب کی موافقت نہ کرے کافر کہتے ہیں، لہذا انہوں نے انسانوں میں سب سے افضل صحابہ کرام ؓ کی تکفیر کی، کیوں؟ کیونکہ انہوں نے ان کے کفر وگمراہی میں ان کی موافقت نہ کی۔
ان کا مذہب کیا ہے:
یہ لوگ سنت وجماعت سے کوئی التزام نہیں کرتے، اور نہ ہی حکمران وقت کی اطاعت کرتے ہیں۔ بلکہ اس کے خلاف خروج کو اپنی دین داری تصور کرتے ہیں۔ اور یہ کہ حکومت کے خلاف بغاوت کرنا ،تختہ الٹنا ہی اقامت دین ہے۔ رسول کریم ﷺ کی تعلیمات کے بالکل برعکس کہ آپ ﷺ نے حکمرانوں کی اطاعت کی وصیت فرمائی ہے۔ اور اللہ تعالی کے اس فرمان کے بھی برعکس:
﴿يَا أَيُّهَا الَّذِينَ آمَنُوا أَطِيعُوا اللَّهَ وَأَطِيعُوا الرَّسُولَ وَأُولِي الْأَمْرِ مِنْكُمْ﴾
النساء: 59

اے ایمان والو! اطاعت کرو اللہ تعالی کی اور اطاعت کرو رسول اللہ ﷺ کی، اور جو تمہارے حکمران ہیں ان کی بھی
اللہ تعالی نے حکمرانوں کی اطاعت کو دین میں سے قرار دیا ہے اسی طرح سے نبی کریم ﷺ نے حکمرانوں کی اطاعت کو دین میں سے قرار دیا ہے، فرمایا:
)وصِيكُمْ بِتَقْوَى اللَّهِ وَالسَّمْعِ وَالطَّاعَةِ وَإِنْ تَأَمَّرَ عَلَيْكُمْ عَبْدٌ، وَإِنَّهُ مَنْ يَعِشْ مِنْكُمْ فَسَيَرَى اخْتِلافًا كَثِيرًا (
میں تمہیں اللہ تعالی کا تقوی اختیار کرنے اور حکمرانوں کی سننے اور اطاعت کرنے کی وصیت کرتا ہوں، اگرچہ تم پر کسی غلام ہی کو حاکم کیوں نہ بنادیا جائے، کیونکہ تم میں سے جو میرے بعد زیادہ عرصہ زندہ رہا تو وہ بہت اختلاف دیکھے گا
پس حکمرانوں کی اطاعت دین میں سے ہے۔۔۔ اور خوارج کہتے ہیں کہ: نہیں جی، ہم تو آزاد ہیں۔ یہی طریقہ ہے آجکل ہونے والے حکومت مخالف انقلابات کا۔
الغرض خوارج اپنی ان حرکتوں سے مسلمانوں میں تفریق، حکومت کے خلاف بغاوت، اللہ اور اس کے رسول ﷺ کی نافرمانی چاہتے ہیں۔ اور یہ عقیدہ رکھتے ہیں کہ کبیرہ گناہ کا ارتکاب کرنے والا کافر ہے۔
کبیرہ گناہ کا مرتکب جیسے زانی، چور، شرابی وغیرہ ان کے نزدیک کافر ہیں۔ جبکہ اہل سنت والجماعت کا اعتدال پر مبنی عقیدہ ہے کہ ایسا شخص “مسلم ناقص الایمان” (ناقص یا کمزور ایمان والا مسلمان)[2] ہے۔یا اسے “الفاسق الملی” (ملت اسلامیہ میں باقی رہنے والا فاسق شخص) یا پھر “مؤمن بایمانہ فاسق بکبیرتہ” (وہ اپنے ایمان کی وجہ سے مومن ہے اور اپنے کبیرہ گناہ کی وجہ سے فاسق ہے) کہتے ہیں۔ کیونکہ دائرہ اسلام سے صرف شرک یا معروف ومشہور نواقض اسلام میں سے کسی کے ارتکاب کے ذریعہ سے ہی نکلا جاسکتا ہے۔ لیکن شرک کے علاوہ دیگر معاصی وگناہ انسان کو اصل ایمان سے خارج نہیں کرتے اگرچہ کبیرہ گناہ ہی کیوں نہ ہوں، اللہ تعالی کا فرمان ہے:
﴿إِنَّ اللَّهَ لَا يَغْفِرُ أَنْ يُشْرَكَ بِهِ وَيَغْفِرُ مَا دُونَ ذَلِكَ لِمَنْ يَشَاءُ﴾
النساء: 48
بے شک اللہ تعالی اس کے ساتھ شرک کیے جانے کو ہرگز بھی معاف نہیں فرماتے، اس کے علاوہ جو گناہ جس کے لیے چاہیں معاف فرمادیتے ہیں
خوارج کہتے ہیں کبیرہ گناہ کا مرتکب کافر ہے، اللہ تعالی اسے ہرگز بھی معاف نہیں فرمائیں گے اور وہ ہمیشہ ہمیش جہنم میں رہے گا۔ اور یہ جو کچھ کتاب اللہ میں آیا ہے اس کے خلاف ہے، سبب یہی ہے کہ ان کے پاس فقہ (دینی سمجھ بوجھ وعلم) نہیں ۔ اس بات پر ذرا غور کریں کہ ان کا اتنی بڑی گمراہی میں مبتلا ہونے کا سبب یہی ہے کہ ان کے پاس فقہ نہیں۔ حالانکہ وہ ایسی جماعت ہیں کہ جو عبادت، نماز، روزہ اور تلاوت قرآن پاک وغیرہ میں انتہائی شدت ومحنت کرتے ہیں، اور ان کے یہاں شدید غیرت بھی پائی جاتی ہے لیکن دینی فقہ وصحیح سمجھ نہیں، اور واقعی یہ بہت بڑی آفت ہے۔
کیونکہ لازم ہے کہ عبادت، زہد ، تقوی وورع میں اجتہاد وکوشش، فقہ فی الدین وعلم کے ساتھ ہو۔
یہی وجہ ہے کہ نبی کریم ﷺ نے ان کے اوصاف اپنے صحابہ کے سامنے بیان فرمائے کہ تم اپنی نمازوں کو ان کی نمازوں کے سامنے حقیر سمجھو گے اور ان کی عبادت کے سامنے اپنی عبادت کو ہیچ تصور کرو گے، پھر فرمایا:
يَمْرُقُونَ مِنَ الدِّينِ كَمَا يَمْرُقُ السَّهْمُ مِنَ الرَّمِيَّةِ
وہ دین سے ایسے نکل جائیں گے جیسے تیرکمان سے نکل جاتا ہے) اپنی عبادتوں کے باوجود، اپنی خیر وصلاح کے باوجود، اپنے قیام اللیل وتہجد کے باوجود۔ چونکہ ان کا عبادات میں محنت واجتہاد کرنا صحیح بنیادوں اور صحیح علم پر استوار نہیں تو وہ خود ان کے لیے اور امت کے لیے گمراہی، وبال وشر کا سبب بن گیا۔
کبھی بھی خوارج کے بارے میں یہ نہیں سنا گیا کہ وہ کافروں سے جہاد وقتال کررہے ہیں بلکہ ان کا تو کام ہی مسلمانوں کے خلاف جہاد وقتال کرنا ہے، جیسا کہ رسول اللہﷺ نے فرمایا:
يَقْتُلُونَ أَهْلَ الْإِسْلَامِ وَيَدَعُونَ أَهْلَ الْأَوْثَانِ’’ (
اہل اسلام کو قتل کرتے ہیں اور اہل اوثان (بت پرستوں/کافروں) کو چھوڑ دیتے ہیں

ہم خوارج کی پوری تاریخ میں نہیں جانتے کہ انہوں نے کبھی کفار ومشرکین کے خلاف قتال کیا ہو، بلکہ یہ تو ہمیشہ مسلمانوں ہی سے قتال کرتے ہیں: سیدنا عثمان، علی بن ابی طالب، زبیر بن عوام اور جلیل القدر صحابہ کرام ؓ کو قتل کیا، اور آج تک مسلمانوں ہی کو قتل کرتے چلے آرہے ہیں۔
اس کا سبب یہی ہے کہ اپنے تقوی وورع، عبادت ودین میں محنت کے باوجود دین سے جہالت اور ان تمام عبادات ومحنتوں کا علمِ صحیح کی اساس پر نہ ہونا، خود ان پر وبال بن گیا۔
اسی لیے علامہ ابن القیمؒ نے ان کی صفات بیان کرتے ہوئے فرمایا:
ولھم نصوص قصروا فی فھمھا
فاتو من التقصیر فی العرفان​

ان کے پاس کچھ نصوص (دلائل) ہیں جن کے صحیح فہم سے وہ قاصر ہیں پس وہ حقیقی علم وعرفان کو پانے میں تقصیر کا شکار ہیں
وہ نصوص ودلائل سے استدلال تو کرتے ہیں لیکن انہیں اس کا صحیح فہم حاصل نہیں ہوتا۔ وہ کتاب وسنت میں گناہوں پر وعید وسزا کے دلائل سے استدلال کرتے ہیں مگر اس کا صحیح معنی نہیں سمجھتے۔ وہ دوسرے دلائل کی طرف رجوع نہیں کرتےکہ جن میں گناہ ہونے کے باوجود مغفرت کا وعدہ ہے اور شرک کے علاوہ گناہوں کی توبہ کا ذکر ہے۔پس انہوں نے ایک طرف لے کر دوسری طرف کو بالکل چھوڑ دیا۔ یہی ان کی جہالت ہے۔
صرف دینی غیرت اور جذبہ کافی نہیں بلکہ لازم ہے کہ یہ صحیح علم اور فقہ فی الدین پر قائم ہوں۔ ضروری ہے کہ یہ غیرت وجذبہ علم ِصحیح کے نتیجے میں صادر ہوا ہو اور صحیح موقع محل پر ہواہو۔
دین کے بارے میں غیرت کرنا اور گرمجوشی دکھانا اچھی بات ہے لیکن لازم ہے کہ اسے اتباع کتاب وسنت کے ذریعہ کنٹرول وقابو کیا جائے۔
تم دین کی غیرت میں اور مسلمانوں کی خیرخواہی چاہنے میں صحابہ کرام ؓسے بڑھ کر تو نہیں ہوسکتے مگر اس کے باوجود انہوں نے خوارج کو قتل کیا ان کے عظیم خطرے اورشر کے باعث۔
ان سے سیدنا علی بن ابی طالب ؓ نے واقعۂ نہروان میں بہت ہی زبردست قتال فرمایا ۔ اور وہ رسول اللہ ﷺ کی اس بشارت کے مصداق بنے کہ نبی کریم ﷺ نے ان خوارج کو قتل کرنے والوں کو خیر اور جنت کی بشارت سنائی تھی۔ پس سیدنا علی بن ابی طالب ؓ نے انہیں قتل کیا اور اس نبوی بشارت کے مستحق قرار پائے۔
سیدنا علی ؓ سے روایت ہے کہ میں نے رسول اللہ ﷺ کو فرماتے ہوئے سنا کہ:
سَيَخْرُجُ فِي آخِرِ الزَّمَانِ قَوْمٌ أَحْدَاثُ الْأَسْنَانِ، سُفَهَاءُ الْأَحْلَامِ، يَقُولُونَ مِنْ خَيْرِ قَوْلِ الْبَرِيَّةِ،لا َ يُجَاوِزُ إِيمَانُهُمْ حَنَاجِرَهُمْ، يَمْرُقُونَ مِنَ الدِّينِ كَمَا يَمْرُقُ السَّهْمُ مِنَ الرَّمِيَّةِ، فَإِذَا لَقِيتُمُوهُمْ فَاقْتُلُوهُمْ، فَإِنَّ فِي قَتْلِهِمْ أَجْرًا لِمَنْ قَتَلَهُمْ يَوْمَ الْقِيَامَةِ (
آخری زمانے میں ایسی قوم نکلے گی جو کم سن وکم عقل ہوگی، بظاہر تو سب سے اچھی بات کریں گے ، لیکن ان کا ایمان ان کے حلق سے نیچے نہیں اترے گا ، دین سے ایسے نکل جائیں گے جیسے تیر کمان سے نکل جاتا ہے، تم جہاں کہیں بھی ان کو پاؤ قتل کردو، کیونکہ جو بھی انہیں قتل کرے گا بروزقیامت اسے اس قتل کرنے پر اجر ملے گا)
ابو سعید الخدری ؓ خوارج اور ان کی علامات سے متعلق حدیث روایت کرنے کے بعد فرماتے ہیں:
قتلھم لیدفع شرھم عن المسلمین
(مسلمانوں سے ان کے شر کو دور کرنے کے لیے قتل کیا گیا)۔
ہر دور کے مسلمانوں پر یہ واجب ہے کہ اگر اس خبیث وگندے مذہب کا وجود موجود ہو تو اس کا سب سے پہلے دعوت کے ذریعہ علاج کیا جائے اور لوگوں کو اس سے متعلق علم وآگاہی دی جائے۔ لیکن اگر وہ پھر بھی نا مانیں تو ان کے شرکو دور کرنے کے لیے ان سے قتال کیا جائے۔
سیدنا علی بن ابی طالب ؓ نے اپنے چچا زاد بھائی سیدنا عبداللہ بن عباس ؓ جو حبر الامۃ(امت کے بڑے عالم) وترجمان القرآن ہیں کو ان خوارج کے پاس بھیجا۔پس انہوں نے ان سے مناظرہ فرمایا جس کے نتیجے میں ان میں سے چھ ہزار تائب ہوکر واپس آگئے لیکن ایک بڑی تعداد نے ان میں سے رجوع نہیں کیا۔ پھر اس اتمام حجت کے بعد امیر المومنین علی بن ابی طالب ؓ نے صحابہ کرام ؓ کے ساتھ مل کر ان کے خلاف قتال فرمایا۔تاکہ ان کے شر وایذارسانی کو مسلمانوں سے دور کیا جائے۔
یہ تھا فرقۂ خوارج اور ان کا مذہب۔
المحاضرات فی العقیدۃ والدعوۃ، محاضرۃ رقم 47

کتابچے کا لنک یونی کوڈ اور پی ڈی ایف
 

باربروسا

مشہور رکن
شمولیت
اکتوبر 15، 2011
پیغامات
311
ری ایکشن اسکور
1,078
پوائنٹ
106
دو دن پہلے جب اس تحریر کو پڑھا تو اتفاقا شیخ صالح کی یہ کتاب میرے سرہانے ہی پڑی ہوئی تھی، کچھ قرائن کی بنا پر شک تو مجھے پہلے ہی ہو گیاتھا کہ مترجم جناب صاحب نے ڈنڈی ماری ہے لیکن اصل عبارت سے موازنہ فرمایا تو یہ بات بالکل واضح ہو گئی. . .
پہلی سطر میں شیخ فرماتے ہیں::

وھم الذین خرجو علی....ولی الامر ...... فی آخر عھد عثمان.
ترجمہ؛؛ یہ وہ لوگ ہیں کہ جو حکمران وقت کے خلاف خروج کرتے ہیں، جو سیدنا عثمان بن عفان ؓ کے آخری دور میں ظاہر ہوئے،


مزید دیکھیں؛؛
فطاعۃ ولی الامر المسلم من الدین...

ترجمہ::پس حکمرانوں کی اطاعت دین میں سے ہے۔۔۔


ترجمہ ماشاء اللہ خوب ہے لیکن قابل غور بات یہ ہے کہ اتنے سلیس مترجم نے یہیں پر ہینگ مینگ کیوں کی؟؟

مجھے شک اسی لیے ہوا تھا کہ شیخ الفوزان اتنی مہمل بات کر ہی نہیں سکتے کہ؛؛حکمران؛؛ کے خلاف. .. . اور سب جانتے ہیں کہ ولی الامر ایک باقاعدہ اصطلاح ہے جو شرعی حکمران کے لیے استعمال ہوتی ہے، شیخ نے تو بات واضح فرمائی لیکن مترجم نے اللہ ہی جانے کس دینی جذبے کا شکار ہو کر یہ عظیم خدمت انجام دی یا سہو کا شکار ہو کر.

اگر ترجمے میں ان باتوں کو ملحوظ خاطر رکھا جائے تو شیخ کا مدعا واضح ہوتا ہے ورنہ نہیں.... یوں کہ اج کل کے حکمران شرعی حکمران نہیں ہیں،چند ایک غالی طبقوں کو چھوڑ پر اس پر تقریبا اتفاق ہے، اور محض لفظ حکمران لکھنے سے زرداری سے لیکے حسنی مبارک تک کو اور بشار الاسد کو اسلام کی جو قانونی چھتری وہ مہیا فرما دیتے ہیں، اس کا شاید انہیں اندازہ ہے. . . یا نہیں؟؟؟
 

باربروسا

مشہور رکن
شمولیت
اکتوبر 15، 2011
پیغامات
311
ری ایکشن اسکور
1,078
پوائنٹ
106
""مترجم بالا"" کی عنایات سامنے آنے پر مجھے ایک اور سنی ہوئی بات یاد آئی کہ دارالاندلس لاہور سے چھپنے والی شیخ الفوزان ہی کی کتاب التوحید کے اردو ترجمے میں مترجم نے بڑی صفائی سے "سلفی منہج" کے خلاف عبارتیں ہضم فرما لی ہیں.

آج کتاب التوحید کے عربی نسخے )مطبوعہ دار ابن رجب( سے موازنہ کیا تو یہ بات بھی درست نکلی، اور یہ وہی مقام ہے جہاں شیخ نے شیخ محمد بن ابراہیم آل شیخ کی عبارت نقل فرما کر اس سے وضعی قوانین کو عام قانون بنا کر لاگو کر دینے کو کفر اکبر شمار کیا ہے اور خود کے بھی اسی موقف پر ہونے کا اظہار کیا ہے.....!
اور مترجم "گھٹ" مار گیا ہے.... حافظ یوسف سراج ہیں کوئی صاحب. . .

اللہ کے بندو ! کچھ تو خیال کرو. . . . . یہ سب کچھ سلفی منہج تو کیا بنیادی "انسانی اخلاقیات" کے بھی خلاف ہے.
 
شمولیت
نومبر 23، 2011
پیغامات
493
ری ایکشن اسکور
2,479
پوائنٹ
26
دو دن پہلے جب اس تحریر کو پڑھا تو اتفاقا شیخ صالح کی یہ کتاب میرے سرہانے ہی پڑی ہوئی تھی، کچھ قرائن کی بنا پر شک تو مجھے پہلے ہی ہو گیاتھا کہ مترجم جناب صاحب نے ڈنڈی ماری ہے لیکن اصل عبارت سے موازنہ فرمایا تو یہ بات بالکل واضح ہو گئی. . .
پہلی سطر میں شیخ فرماتے ہیں::

وھم الذین خرجو علی....ولی الامر ...... فی آخر عھد عثمان.
ترجمہ؛؛ یہ وہ لوگ ہیں کہ جو حکمران وقت کے خلاف خروج کرتے ہیں، جو سیدنا عثمان بن عفان ؓ کے آخری دور میں ظاہر ہوئے،


مزید دیکھیں؛؛
فطاعۃ ولی الامر المسلم من الدین...
ترجمہ::پس حکمرانوں کی اطاعت دین میں سے ہے۔۔۔

ترجمہ ماشاء اللہ خوب ہے لیکن قابل غور بات یہ ہے کہ اتنے سلیس مترجم نے یہیں پر ہینگ مینگ کیوں کی؟؟

مجھے شک اسی لیے ہوا تھا کہ شیخ الفوزان اتنی مہمل بات کر ہی نہیں سکتے کہ؛؛حکمران؛؛ کے خلاف. .. . اور سب جانتے ہیں کہ ولی الامر ایک باقاعدہ اصطلاح ہے جو شرعی حکمران کے لیے استعمال ہوتی ہے، شیخ نے تو بات واضح فرمائی لیکن مترجم نے اللہ ہی جانے کس دینی جذبے کا شکار ہو کر یہ عظیم خدمت انجام دی یا سہو کا شکار ہو کر.
میں نے درخواست کی تھی بار بروساہ صاحب سے کہ وہ آداب گفتگو اور اخلاقیات کا خیال رکھیں گے تو مفید ہوگا مگر مجھے انکی خصلت کا خوب علم تھا.!

میں بروسا صاحب التماس کرتا ہوں کہ اگر آپکو اس مضمون کا عربی نسخہ دستیاب ہو گیا ہے تو اپنا شرعی ترجمہ پیش فرما دیں،،،،اور مزید اس بات کی وضاحت بھی فرما دیں کہ شرعی حکمران سے کیا مراد ہے اور غیر شرعی حکمران سے کیا مراد ہے اور انکے ساتھ معاملے کا شرعی حکم کیاہے، تاکہ گفتگو آگے بڑھ سکے!
 
شمولیت
نومبر 23، 2011
پیغامات
493
ری ایکشن اسکور
2,479
پوائنٹ
26
""مترجم بالا"" کی عنایات سامنے آنے پر مجھے ایک اور سنی ہوئی بات یاد آئی کہ دارالاندلس لاہور سے چھپنے والی شیخ الفوزان ہی کی کتاب التوحید کے اردو ترجمے میں مترجم نے بڑی صفائی سے "سلفی منہج" کے خلاف عبارتیں ہضم فرما لی ہیں.

آج کتاب التوحید کے عربی نسخے )مطبوعہ دار ابن رجب( سے موازنہ کیا تو یہ بات بھی درست نکلی، اور یہ وہی مقام ہے جہاں شیخ نے شیخ محمد بن ابراہیم آل شیخ کی عبارت نقل فرما کر اس سے وضعی قوانین کو عام قانون بنا کر لاگو کر دینے کو کفر اکبر شمار کیا ہے اور خود کے بھی اسی موقف پر ہونے کا اظہار کیا ہے.....!
اور مترجم "گھٹ" مار گیا ہے.... حافظ یوسف سراج ہیں کوئی صاحب. . .

اللہ کے بندو ! کچھ تو خیال کرو. . . . . یہ سب کچھ سلفی منہج تو کیا بنیادی "انسانی اخلاقیات" کے بھی خلاف ہے.
ان گالیوں کا جواب وہی آپ کو دے سکتے ہیں، جنکو نکالی گئی!

اگر الشیخ ابراہیم رح کے فتوے پر بات کرنی ہے تو میں حاضر ہوں!
اور ہاں اگر کوئی بات سلف صالحین کے منہج سے متصادم ہو تو اسکی اصلاح کرنا کوئی عیب نہیں!!!!
 

باربروسا

مشہور رکن
شمولیت
اکتوبر 15، 2011
پیغامات
311
ری ایکشن اسکور
1,078
پوائنٹ
106
بھائی جی !

شرعی حکمران وہ ہے جو مسلمانوں کا دین قائم کرنے والا ہو کیونکہ "امر" دراصل انکا دین ہے.

اور جو کوئی اسلام کے علاوہ کسی بھی "دین" کا قائم کرنے والا ہے، وہ مسلمانوں کا "ولی الامر "نہیں ہے. بلکہ غیر شرعی حکمران ہے.
خواہ وہ دین جمہوریت ہو، اشتراکیت ہو یا صیہونیت اور ہندو ازم.

اور ترجمے میں بھی شرعی حکمران درج کرنا چاہیے تاکہ لوگ باگ اج کے غیر شرعی حکمرانوں کو شرعی حکمران نہ سمجھتے پھریں !

اور خرجوا کا ترجمہ شاید ""خروج کیا"" ہوتا ہے.... ""خروج کرتے ہیں"" نہیں !!


معاملہ بھی اسی حساب سے کیا جائے گا کہ شرعی حکمران کی اطاعت تو واجب ہے جب تک وہ کفر بواح نہ کرے اور غیر شرعی حکمران ہی کیا اس کے قائم کردہ دین کو بھی گرا کر اللہ کے دین کو قائم کرنا واجب ہے.

باقی جو آپ کو گالیاں لگ رہی ہیں وہ دستاویزی حقیقت ہے. . . .کوئی جذباتی بات نہیں .

والسلام
 
شمولیت
نومبر 23، 2011
پیغامات
493
ری ایکشن اسکور
2,479
پوائنٹ
26
السلام علیکم و رحمۃ اللہ۔
الحمد اللہ علی ذالک۔
لیں جی ، بحث اب اپنے اصل کی طرف آگئی۔ اب مجھے چند باتوں کا واضح اور با دلائل جواب پیش فرمائیں (ویسے آپکی طبیعت میں لگتا ہے جواب دینے کا مادہ کم ہے ورنہ میرا ایک سوال ایک دوسری پوسٹ پر آپ کا منتظر ہے، یاد دہانی کے لئے لنک دیئئے دیتا ہوں::
http://www.kitabosunnat.com/forum/توحید-حاکمیت-322/حکم-بغیر-ما-اَنزل-اللہ-اگر-’کفر‘-ہی-نہیں-تو-یہ-نظام-4694/index2.html#post27552)

محترم میں نے پہلے بھی درخواست کی ہے دوبارہ پھر یاد کروا دیتا ہوں کہ اگر آپ ترجمے سے مطمئن نہیں اور عربی متن پاتے ہیں(جو کہ آپ کے اعتراض سے لگتا ہے آپ کے پاس ہے) تو "شرعی ترجمہ" فرما کر عنداللہ ماجور ہوں۔

اب اصل موضوع کی طرف آتے ہیں ۔۔
آپکی پوسٹ سے مجھے جو باتیں مجھے سمجھ آئی ہیں وہ یہ کہ ،
١.شرعی حاکم کے خلاف خروج حرام ہے۔
2.غیر شرعی حاکم اگر کفر بواح کا مرتکب نہ ہو تو خروج حرام۔
٣.اور اگر غیر شرعی حاکم کفر کا مرتکب ہو تو خروج جائز ہے۔


الحمد اللہ میں آپ سے متفق ہوں۔ اور آخری پوائنٹ پر اتنا ضرور کہوں گا کہ مرتد حکمران کے خلاف بھی خروج چند لازم شرائط کے ساتھ جائز ہے وگر نہ ناجائز!
اور اس بارے ابو الحسن علوی بھائی کا تحقیقی مضمون ایک قیمتی و نادر تحفہ ہے۔


اور اگر تھوڑی سا زہن پر زور ڈالیں تو آپ نے محض اس کتابچے پر اعتراض "حب علی میں نہیں بغض معاویہ " میں کیا۔
یہ رسالہ مطلق ہے!
ہر اس گروہ کے بارے جو حکمران کی بغیر واضح دلائل، محض گمان کی بنیاد پر غیر منصفانہ اور انتقامی تکفیر کرتے اور اس کی مد میں مسلمانوں کے معاشروں کو خون میں نہلاتے ہیں۔!
اگر ترجمے میں غلطی محسوس کی تو آپ اس کی نشاندہی فرما دیتے مگر ہائے رے آپکی عادت!!!

باقی جو آپ کو گالیاں لگ رہی ہیں وہ دستاویزی حقیقت ہے. . . .کوئی جذباتی بات نہیں .
الحمد اللہ ، یہ دستاویز آج بھی موجود اور منہج سلف سے متصادم جملوں اور فتوؤں کی کو حذف کر دیا گیا ہے. کوئی اعتراض ہو تو پیش کیجئے؟
 

باربروسا

مشہور رکن
شمولیت
اکتوبر 15، 2011
پیغامات
311
ری ایکشن اسکور
1,078
پوائنٹ
106
شرعی حکمران کی اطاعت تو واجب ہے جب تک وہ کفر بواح نہ کرے
اور
غیر شرعی حکمران ہی کیا اس کے قائم کردہ دین کو بھی گرا کر اللہ کے دین کو قائم کرنا واجب ہے.
یہاں سے آپ نے یہ کشید کیا::

2.غیر شرعی حاکم اگر کفر بواح کا مرتکب نہ ہو تو خروج حرام۔
٣.اور اگر غیر شرعی حاکم کفر کا مرتکب ہو تو خروج جائز ہے۔
[/HL]
خود دیکھ لیں...... کہ میں نے کس کے لیے کفر بواح کا ذکر کیا اور آپ نے......

اور اتنا تو آپ جانتے ہی ہوں گے کہ کسی کی کتاب کے ترجمے میں من مرضی سے عبارات کی قطع و برید کرنا کیا کہلاتا ہے؟؟ کہ اقرار تو آپ نے کر ہی لیا ہے.

حب علی اور بغض معاویہ کا فیصلہ پڑھنے والا خود کر لے گا اور اس کا بھی کہ ترجمے میں چکمہ دینے کی کوشش کس اعلٰی پائے کی تھی. . . کم از کم میں اس کا معترف ہوں.!!

والسلام
 
شمولیت
نومبر 23، 2011
پیغامات
493
ری ایکشن اسکور
2,479
پوائنٹ
26
لا حولا والا قوۃبااللہ

آپ نے کہا:

اصل پیغام ارسال کردہ از: عبداللہ عبدل
2.غیر شرعی حاکم اگر کفر بواح کا مرتکب نہ ہو تو خروج حرام۔
٣.اور اگر غیر شرعی حاکم کفر کا مرتکب ہو تو خروج جائز ہے۔[/HL]
خود دیکھ لیں...... کہ میں نے کس کے لیے کفر بواح کا ذکر کیا اور آپ نے......
جناب ، میں نے لکھا ہے کہ جو مجھے سمجھ آئی وہ یہ لگتی ہے، باقی آپ اپنی وضاحت فرما دیں اگر میں غلط سمجھا، اس میں واویلا کرنا کیسا؟؟؟
اور اتنا تو آپ جانتے ہی ہوں گے کہ کسی کی کتاب کے ترجمے میں من مرضی سے عبارات کی قطع و برید کرنا کیا کہلاتا ہے؟؟ کہ اقرار تو آپ نے کر ہی لیا ہے.

حب علی اور بغض معاویہ کا فیصلہ پڑھنے والا خود کر لے گا اور اس کا بھی کہ ترجمے میں چکمہ دینے کی کوشش کس اعلٰی پائے کی تھی. . . کم از کم میں اس کا معترف ہوں.!!
میں پہلے بھی کہہ چکا ہوں کہ اس کا جواب آپ کو مترجم سے طلب کرنا چاہیئے، ہاں ایک بات میں واضح کہتا ہوں کہ کوئی بھی چیز منہج سلف کے مخالف اگر ہو تو اسکے حذف کرنے میں کوئی حرج نہیں.... اور اگر یہ کاپی راءٹس کا مسئلہ ہے تو اس کتاب کے عربی نسخہ والے جانیں یا مترجم حضرت..... مجھے اس سے کوئی لینا دینا نہیں.
آپ اصل موضوع پر رہئیے، مفید ہوگا. شکریہ
ہاں الشیخ ابراہیم آل الشیخ رح کے فتوے بارے بات کرنی ہے تو میں حاضر ہوں، پہلے بھی کہہ چکا ہوں!@

مجھے علم ہے اب گفگتگو کو مسئلہ نفس کی بجائے زاتیات اور جماعتیات میں لیجا کر الجھانے کا وقت آگیا ہے آپکا ١
 
Top