• الحمدللہ محدث فورم کو نئےسافٹ ویئر زین فورو 2.1.7 پر کامیابی سے منتقل کر لیا گیا ہے۔ شکایات و مسائل درج کروانے کے لئے یہاں کلک کریں۔
  • آئیے! مجلس التحقیق الاسلامی کے زیر اہتمام جاری عظیم الشان دعوتی واصلاحی ویب سائٹس کے ساتھ ماہانہ تعاون کریں اور انٹر نیٹ کے میدان میں اسلام کے عالمگیر پیغام کو عام کرنے میں محدث ٹیم کے دست وبازو بنیں ۔تفصیلات جاننے کے لئے یہاں کلک کریں۔

گناہ اور نیکی کی پہچان

ماریہ انعام

مشہور رکن
شمولیت
نومبر 12، 2013
پیغامات
498
ری ایکشن اسکور
377
پوائنٹ
164
سلسلہ آدابِ اسلامی

حدیث نمبر 3


وَعَنِ النَوَّاسِ بْنِ سَمْعَانَ - رضي الله عنه - قَالَ: سَأَلْتُ رَسُولَ اللَّهِ - صلى الله عليه وسلم - عَنِ الْبِرِّ وَالْإِثْمِ? فَقَالَ: «الْبِرُّ: حُسْنُ الْخُلُقِ, وَالْإِثْمُ: مَا حَاكَ فِي صَدْرِكَ, وَكَرِهْتَ أَنْ يَطَّلِعَ عَلَيْهِ النَّاسُ». أَخْرَجَهُ مُسْلِمٌ. (1)

ترجمہ:نواس بن سمعان کہتے ہیں میں نے رسول اللہ ﷺ سے نیکی اور گناہ کے متعلق سوال کیا تو آپﷺ نے فرمایا:
نیکی عادت کا اچھا ہونا ہے اور گناہ وہ ہے جو تیرے سینے میں کھٹکے اور تو اس بات کو نا پسند کرے کہ لوگ اس پر اطلاع پائیں( مسلم)
 

ماریہ انعام

مشہور رکن
شمولیت
نومبر 12، 2013
پیغامات
498
ری ایکشن اسکور
377
پوائنٹ
164
نیکی کے متعلق دریافت کرنے پر آپﷺ نے فرمایا نیکی حسنِ خلق ہے
ہمارے ہاں عموماً حسنِ خلق سے یہ مراد لیا جاتا ہے کہ لوگوں سے اچھا برتاؤ کیا جائے۔۔۔کھلے چہرے اور میٹھی مسکراہٹ کے ساتھ ملاقات کی جائے۔۔سختی اور درشتی سے پرہیز کیا جائے۔۔بالفاظِ دیگر اسے اخلاقیات ‘ ایٹی کیٹس اور ادب آداب کا نام دیا جاتا ہے۔۔اور یہ بھی باور کرایا جاتا ہے کہ اللہ تعالی حقوق اپنے حقوق تو معاف کر سکتے ہیں لیکن حقوق العبادکی معافی نہیں۔۔لہذا حقوق اللہ سے جیسے چاہو کھیلو لیکن لوگوں سے مصنوعی تکلفات سے ملنا ہی اصل دین ہے۔۔۔
حقیقت یہ ہے کہ یہ حسنِ خلق کا ایک نہایت محدود تصور ہے جو مغربی عیسائی معاشرے سے مرغوب ہو کر ہمارے ہاں اختیار کر لیا گیا ہے۔۔۔دراصل حسنِ خلق اللہ تعالی کے تمام احکام کو اس طرح اوڑھنا بچھونا بنا لینے کا نام ہے کہ وہ انسان کی فطرتِ ثانیہ بن جائیں اور کسی مشقت کے بغیر خو دبخود ادا ہوتے چلے جائیں۔


اللہ تعالی نے آپﷺ کے بارے میں فرمایا

وَإِنَّكَ لَعَلَىٰ خُلُقٍ عَظِيمٍ ﴿٤﴾
اور بیشک تو بہت بڑے (عمده) اخلاق پر ہے (4)

سعد بن ہشام بن عامر نے حضرت عائشہ سے آپﷺ کے اخلاق کے بارے میں سوال کیا تو آپ نے جواب دیا
کیا تم قرآن نہیں پڑھتے عرض کیا کیوں نہیں فرمایا
فان خلق نبی اللہ کان القرآن
آپﷺ کا خلق قرآن ہی تھا

یعنی آپﷺ نے قرآن کے آداب اس طرح اختیار کر لیے تھے اس کے احکام پر عمل اور اس کے نواہی سے اجتناب اس طرح تھا کہ قرآن کی ہر بات آپﷺ کی طبعی عادت بن گئی تھی
گویا حسنِ خلق کے مفہوم میں آپﷺ کی نماز‘ روزہ ‘ حج‘ زکاۃ‘ حقوق اللہ ‘ حقوق العباد ‘ صبر‘شکر‘وفائے عہد‘ آپﷺ کا صدق ‘ امانت ‘عدل ‘ احسان اور حتّی کہ جہاد بھی شامل ہے۔۔
اس کی جامع آیات یہ ہیں

لَّيْسَ الْبِرَّ أَن تُوَلُّوا وُجُوهَكُمْ قِبَلَ الْمَشْرِقِ وَالْمَغْرِبِ وَلَـٰكِنَّ الْبِرَّ مَنْ آمَنَ بِاللَّـهِ وَالْيَوْمِ الْآخِرِ وَالْمَلَائِكَةِ وَالْكِتَابِ وَالنَّبِيِّينَ وَآتَى الْمَالَ عَلَىٰ حُبِّهِ ذَوِي الْقُرْبَىٰ وَالْيَتَامَىٰ وَالْمَسَاكِينَ وَابْنَ السَّبِيلِ وَالسَّائِلِينَ وَفِي الرِّقَابِ وَأَقَامَ الصَّلَاةَ وَآتَى الزَّكَاةَ وَالْمُوفُونَ بِعَهْدِهِمْ إِذَا عَاهَدُوا ۖ وَالصَّابِرِينَ فِي الْبَأْسَاءِ وَالضَّرَّاءِ وَحِينَ الْبَأْسِ ۗ أُولَـٰئِكَ الَّذِينَ صَدَقُوا ۖ وَأُولَـٰئِكَ هُمُ الْمُتَّقُونَ ﴿١٧٧﴾
ترجمہ:ساری اچھائی مشرق ومغرب کی طرف منھ کرنے میں ہی نہیں بلکہ حقیقتاً اچھا وه شخص ہے جو اللہ تعالی پر، قیامت کے دن پر، فرشتوں پر، کتاب اللہ پر اور نبیوں پر ایمان رکھنے واﻻ ہو، جو مال سے محبت کرنے کے باوجود قرابت داروں، یتیموں، مسکینوں، مسافروں اور سوال کرنے والے کو دے، غلاموں کو آزاد کرے، نماز کی پابندی اور زکوٰة کی ادائیگی کرے، جب وعده کرے تب اسے پورا کرے، تنگدستی، دکھ درد اور لڑائی کے وقت صبر کرے، یہی سچے لوگ ہیں اور یہی پرہیزگار ہیں (177)

وَعِبَادُ الرَّحْمَـٰنِ الَّذِينَ يَمْشُونَ عَلَى الْأَرْضِ هَوْنًا وَإِذَا خَاطَبَهُمُ الْجَاهِلُونَ قَالُوا سَلَامًا ﴿٦٣﴾ وَالَّذِينَ يَبِيتُونَ لِرَبِّهِمْ سُجَّدًا وَقِيَامًا ﴿٦٤﴾ وَالَّذِينَ يَقُولُونَ رَبَّنَا اصْرِفْ عَنَّا عَذَابَ جَهَنَّمَ ۖ إِنَّ عَذَابَهَا كَانَ غَرَامًا ﴿٦٥﴾ إِنَّهَا سَاءَتْ مُسْتَقَرًّا وَمُقَامًا ﴿٦٦﴾ وَالَّذِينَ إِذَا أَنفَقُوا لَمْ يُسْرِفُوا وَلَمْ يَقْتُرُوا وَكَانَ بَيْنَ ذَٰلِكَ قَوَامًا ﴿٦٧﴾وَالَّذِينَ لَا يَدْعُونَ مَعَ اللَّـهِ إِلَـٰهًا آخَرَ وَلَا يَقْتُلُونَ النَّفْسَ الَّتِي حَرَّمَ اللَّـهُ إِلَّا بِالْحَقِّ وَلَا يَزْنُونَ ۚ وَمَن يَفْعَلْ ذَٰلِكَ يَلْقَ أَثَامًا ﴿٦٨﴾ يُضَاعَفْ لَهُ الْعَذَابُ يَوْمَ الْقِيَامَةِ وَيَخْلُدْ فِيهِ مُهَانًا ﴿٦٩﴾ إِلَّا مَن تَابَ وَآمَنَ وَعَمِلَ عَمَلًا صَالِحًا فَأُولَـٰئِكَ يُبَدِّلُ اللَّـهُ سَيِّئَاتِهِمْ حَسَنَاتٍ ۗ وَكَانَ اللَّـهُ غَفُورًا رَّحِيمًا ﴿٧٠﴾ وَمَن تَابَ وَعَمِلَ صَالِحًا فَإِنَّهُ يَتُوبُ إِلَى اللَّـهِ مَتَابًا ﴿٧١﴾ وَالَّذِينَ لَا يَشْهَدُونَ الزُّورَ وَإِذَا مَرُّوا بِاللَّغْوِ مَرُّوا كِرَامًا ﴿٧٢﴾ وَالَّذِينَ إِذَا ذُكِّرُوا بِآيَاتِ رَبِّهِمْ لَمْ يَخِرُّوا عَلَيْهَا صُمًّا وَعُمْيَانًا ﴿٧٣﴾ وَالَّذِينَ يَقُولُونَ رَبَّنَا هَبْ لَنَا مِنْ أَزْوَاجِنَا وَذُرِّيَّاتِنَا قُرَّةَ أَعْيُنٍ وَاجْعَلْنَا لِلْمُتَّقِينَ إِمَامًا ﴿٧٤﴾
ترجمہ:رحمٰن کے (سچے) بندے وه ہیں جو زمین پر فروتنی کے ساتھ چلتے ہیں اور جب بے علم لوگ ان سے باتیں کرنے لگتے ہیں تو وه کہہ دیتے ہیں کہ سلام ہے (63) اور جو اپنے رب کے سامنے سجدے اور قیام کرتے ہوئے راتیں گزار دیتے ہیں (64) اور جو یہ دعا کرتے ہیں کہ اے ہمارے پروردگار! ہم سے دوزخ کا عذاب پرے ہی پرے رکھ، کیونکہ اس کا عذاب چمٹ جانے واﻻ ہے (65) بے شک وه ٹھہرنے اور رہنے کے لحاظ سے بدترین جگہ ہے (66) اور جو خرچ کرتے وقت بھی نہ تو اسراف کرتے ہیں نہ بخیلی، بلکہ ان دونوں کے درمیان معتدل طریقے پر خرچ کرتے ہیں (67)اور اللہ کے ساتھ کسی دوسرے معبود کو نہیں پکارتے اور کسی ایسے شخص کو جسے قتل کرنا اللہ تعالیٰ نے منع کردیا ہو وه بجز حق کے قتل نہیں کرتے، نہ وه زنا کے مرتکب ہوتے ہیں اور جو کوئی یہ کام کرے وه اپنے اوپر سخت وبال ﻻئے گا (68) اسے قیامت کے دن دوہرا عذاب کیا جائے گا اور وه ذلت و خواری کے ساتھ ہمیشہ اسی میں رہے گا (69) سوائے ان لوگوں کے جو توبہ کریں اور ایمان ﻻئیں اور نیک کام کریں، ایسے لوگوں کے گناہوں کو اللہ تعالیٰ نیکیوں سے بدل دیتا ہے، اللہ بخشنے واﻻ مہربانی کرنے واﻻ ہے (70) اور جو شخص توبہ کرے اور نیک عمل کرے وه تو (حقیقتاً) اللہ تعالیٰ کی طرف سچا رجوع کرتا ہے (71) اور جو لوگ جھوٹی گواہی نہیں دیتے اور جب کسی لغو چیز پر ان کا گزر ہوتا ہے تو شرافت سے گزر جاتے ہیں (72) اور جب انہیں ان کے رب کے کلام کی آیتیں سنائی جاتی ہیں تو وه اندھے بہرے ہو کر ان پر نہیں گرتے۔ (73) اور یہ دعا کرتے ہیں کہ اے ہمارے پروردگار! تو ہمیں ہماری بیویوں اور اوﻻد سے آنکھوں کی ٹھنڈک عطا فرما اور ہمیں پرہیزگاروں کا پیشوا بنا (74)
 

ماریہ انعام

مشہور رکن
شمولیت
نومبر 12، 2013
پیغامات
498
ری ایکشن اسکور
377
پوائنٹ
164
السلام علیکم ورحمۃ اللہ وبرکاتہ
آپﷺ نے گناہ کی دو علامتیں بیان فرمائی ہیں
وہ سینے میں کھٹکتا ہے ۔۔آدمی کو اس پر تسلی نہیں ہوتی۔۔ایک خیال آتا ہے کہ یہ کام کر لوں اس کی صاف ممانعت کہیں نہیں ملتی ۔۔دوسرا خیال آتا ہےکہ نہیں یہ کام اچھا نہیں ۔۔۔یہ کیفیت انسان کو بے چین رکھتی ہے ۔۔اسی کا نا م گناہ ہے۔۔حسن بن علی فرماتے ہیں میں نے آپﷺ سے یہ حدیث حفظ کی

دَع ما يريبُكَ إلى ما لا يريبُكَ فإنَّ الصِّدقَ طمأنينةٌ وإنَّ الكذبَ رِيبةٌ
الراوي: الحسن بن علي بن أبي طالب المحدث: الوادعي - المصدر: الصحيح المسند - الصفحة أو الرقم: 320
خلاصة حكم المحدث: صحيح ، رجاله ثقات

جو چیز تمہیں شک میں ڈالے اسے چھوڑ کر وہ چیز اختیار کرو جو تمہیں شک میں نہ ڈالے ۔۔کیونکہ سچ اطمینان کا باہث ہے اور جھوٹ بے چینی کا سبب ہے

گناہ کی دوسری علامت یہ بیان فرمائی
تمہیں یہ بات ناپسند ہو کہ لوگوں کو اس کام کا علم ہو۔۔حقیقت یہ ہے کہ سبھی لوگوں کا اس بات کو برا جاننا اس بات کی علامت ہے کہ یہ کام گناہ ہے

یہ بات واضح رہے کہ ہر قسم کے گناہ کے لیے دل سے رائے نہیں لی جائے گی۔۔حدیث ملاحظہ کیجیے

آپﷺ نے فرمایا

الحلالُ بيِّنٌ، والحرامُ بيِّنٌ، وبينهما مُشَبَّهاتٌ لا يعلمُها كثيرٌ من الناسِ، فمَنِ اتقى المُشَبَّهاتِ استبرَأ لدينِه وعِرضِه، ومَن وقَع في الشُّبُهاتِ : كَراعٍ يرعى حولَ الحِمى يوشِكُ أن يواقِعَه، ألا وإن لكلِّ ملكٍ حِمى، ألا وإن حِمى اللهِ في أرضِه مَحارِمُه، ألا وإن في الجسدِ مُضغَةً : إذا صلَحَتْ صلَح الجسدُ كلُّه، وإذا فسَدَتْ فسَد الجسدُ كلُّه، ألا وهي القلبُ .
الراوي: النعمان بن بشير المحدث: البخاري - المصدر: صحيح البخاري - الصفحة أو الرقم: 52
خلاصة حكم المحدث: [صحيح]

حلال بھی واضح ہے اور حرام بھی ۔۔اور ان دونوں کے درمیان کچھ مشتبہ امور ہیں جنہیں لوگوں کی اکثریت نہیں جانتی

زیرِ نظر حدیث میں سائل نے آپﷺ سے انہی مشتبہات کے بارے میں سوال کیا ہے ۔۔کیونکہ جو امور واضح طور پر حرام ہیں ان میں دل سے رائے لینے کی بجائے شریعت کا فتوی دیکھاجائے گا ۔۔۔ہاں جو مشتبہ امور ہیں جن کے بارے میں شریعت نے کوئی واضح حکم نہیں دیا بلکہ انھیں انسان کی صوابدید پر چھوڑ دیا ہے ان کے معاملے میں دل سے مشورہ لیا جائے گا۔۔
دراصل ہمارے ہاں اس حدیث کو بہت غلط معنوں میں استعمال کیا جاتا ہے ۔۔۔دل ہی اصل مفتی ہے ۔۔پردہ دل کا ہوتا ہے۔۔اس قسم کی باتیں کر کے بہت سے ایسے کام جو واضح طور پر شریعت میں حرام ہیں ان کو اپنے لیے حلال بنا لیا جاتا ہے۔
 

ماریہ انعام

مشہور رکن
شمولیت
نومبر 12، 2013
پیغامات
498
ری ایکشن اسکور
377
پوائنٹ
164
السللام علیکم ورحمۃ اللہ وبرکاتہ

ضمناً اس حدیث سے ایک اور بات کا اثبات بھی ہو رہا ہے ۔۔۔اور وہ یہ کہ اللہ تعالی نے نیکی اور برائی کی پہچان انسان کی فطرت میں رکھ دی ہے۔۔فطری طور پر انسان نیکی پسند ہوتا ہے جبکہ برائی سے نفرت اللہ نے انسان کے خمیر میں شامل کر دی ہے ۔۔۔اگر برے ماحول میں رہ رہ کر انسان کی فطرت مسخ نہ ہو چکی ہو تو---!
اللہ تعالی فرماتے ہیں

فَأَقِم وَجهَكَ لِلدّينِ حَنيفًا ۚ فِطرَتَ اللَّـهِ الَّتى فَطَرَ النّاسَ عَلَيها ۚ لا تَبديلَ لِخَلقِ اللَّـهِ ۚ ذٰلِكَ الدّينُ القَيِّمُ وَلـٰكِنَّ أَكثَرَ النّاسِ لا يَعلَمونَ ﴿٣٠﴾
ترجمہ:پس آپ یک سو ہو کر اپنا منھ دین کی طرف متوجہ کر دیں۔ اللہ تعالیٰ کی وه فطرت جس پر اس نے لوگوں کو پیدا کیا ہے، اللہ تعالیٰ کے بنائے کو بدلنا نہیں، یہی سیدھا دین ہے لیکن اکثر لوگ نہیں سمجھتے (30)

آپﷺ کا ارشادِ پاک ہے

كلُّ مولودٍ يُولَدُ على الفطرةِ ، فأبواه يُهَوِّدانِه ، أو يُنَصِّرانِه ، أو يُمَجِّسانِه ، كمثلِ البَهِيمَةِ تُنْتِجُ البَهِيمَةَ ، هل ترى فيها جَدْعَاءَ .
الراوي: أبو هريرة المحدث: البخاري - المصدر: صحيح البخاري - الصفحة أو الرقم: 1385
خلاصة حكم المحدث: [صحيح]

ترجمہ: ہر مولود کی پیدائش فطرت پر ہوتی ہے پھر اس کے والدین اسے یہودی یا عیسائی یا مجوسی بنا دیتے ہیں۔۔۔بالکل اس طرح جیسے جانور کے بچے صحیح سالم ہوتے ہیں ۔ کیا تم نے ( پیدائشی طور پر ) کوئی ان کے جسم کا حصہ کٹا ہوا دیکھا ہے ۔

یہی وجہ ہے کہ عربی میں نیکی کو معروف (پہچانی ہوئی چیز)اور برائی کو منکر (نہ پہچانی ہوئی چیز) کہا جاتا ہے ۔۔

ہاں! اگر ایسا ہو کہ کسی کام کا حکم اللہ اور اس کے رسول ﷺ نے دیا ہو اور لوگ اس کو جہالت کی وجہ سے ناپسند کریں تو لوگوں کی پرواہ نہ کی جائے گی
مسلمان کی شان یہ ہے

وَلا يَخافونَ لَومَةَ لائِمٍ ۚ
کسی ملامت کرنے والے کی ملامت کی پرواه بھی نہ کریں گے
 
Top