• الحمدللہ محدث فورم کو نئےسافٹ ویئر زین فورو 2.1.7 پر کامیابی سے منتقل کر لیا گیا ہے۔ شکایات و مسائل درج کروانے کے لئے یہاں کلک کریں۔
  • آئیے! مجلس التحقیق الاسلامی کے زیر اہتمام جاری عظیم الشان دعوتی واصلاحی ویب سائٹس کے ساتھ ماہانہ تعاون کریں اور انٹر نیٹ کے میدان میں اسلام کے عالمگیر پیغام کو عام کرنے میں محدث ٹیم کے دست وبازو بنیں ۔تفصیلات جاننے کے لئے یہاں کلک کریں۔

گناہ عارضی ہے

محمد آصف مغل

سینئر رکن
شمولیت
اپریل 29، 2013
پیغامات
2,677
ری ایکشن اسکور
4,006
پوائنٹ
436
فَاَزَلَّہُمَا الشَّيْطٰنُ عَنْہَا فَاَخْرَجَہُمَا مِـمَّا كَانَا فِيْہِ۝۰۠ وَقُلْنَا اھْبِطُوْا بَعْضُكُمْ لِبَعْضٍ عَدُوٌّ۝۰ۚ وَلَكُمْ فِى الْاَرْضِ مُّسْـتَقَرٌّ وَّمَتَاعٌ اِلٰى حِيْنٍ۝۳۶ فَتَلَـقّٰٓي اٰدَمُ مِنْ رَّبِّہٖ كَلِمٰتٍ فَتَابَ عَلَيْہِ۝۰ۭ اِنَّہٗ ھُوَالتَّوَّابُ الرَّحِيْمُ۝۳۷

پھرشیطان۱؎نے ان دونوں کو اس سے لغزش دی اور ان دونوں کو وہاں سے کہ جس میں وہ تھے نکال دیا اور ہم نے کہا۔ تم سب نیچے اترو ۔ تم ایک دوسرے کے دشمن ہو اور تمھیں ایک خاص وقت تک زمین میں ٹھہرنا اور کام چلانا ہوگا۔(۳۶) پھر آدم (علیہ السلام) نے اپنے رب سے کچھ باتیں سیکھیں۔ تب وہ (خدا) اس پر متوجہ ہوا۔ برحق وہی معاف کرنے والا (پھر آنے والا) مہربان ہے۔(۳۷)


۱؎ آدم علیہ السلام اجتہادی لغزش کی بناپر جنت سے الگ کردیے گیے اور انھیں کہہ دیا گیا کہ تم میں اور شیطان میں باہمی عداوت ہے۔ اس لیے کچھ مدت تک زمین پر رہو، وہاں دونوں کا صحیح طورپر مقابلہ رہے گا۔ پھر اگر تم وہاں اس کی گرفت سے بچ گیے تو اس اصلی وحقیقی مقام میں آجاؤگے ورنہ تمھارا بھی وہی حشر ہوگا جو شیطان کا ہوا ہے۔آدم علیہ السلام کو عارضی طورپر اس لیے بھی زمین پر اتارا گیا تاکہ وہ شیطان کی تمام گھاتوں سے واقف ہوجائے اور پھر کبھی اس کی گرفت میں نہ آئے اور مقابلہ سے اس میں روحانیت کی ایک خاص کیفیت پیدا ہوجائے جو اس کو بارگاہ قدس کے قریب ہونے کے لائق بنادے۔یہ سزا نہ تھی جیسا کہ بعض لوگوں نے سمجھا ہے بلکہ علاج تھا آدم علیہ السلام کی بشری وفطری کمزوریوں کا ۔ چنانچہ اللہ تعالیٰ نے آدم علیہ السلام کی درخواست پر انھیں معاف کردیا لیکن پھر بھی انھیں مقررہ وقت سے پہلے جنت میں جانے کی اجازت نہیں دی۔

توبہ کی قبولیت سے یہ بھی معلوم ہوا کہ گناہ بالکل عارضی اور غیر مستقل کیفیت کا نام ہے۔ رب العزت کے سامنے اپنے گناہوں کا اعتراف بجائے خود بخشش کی ضمانت ہے ۔ اِنَّ اللّٰہَ یَغْفِرُ الذُّنُوْبَ جَمِیْعاً۔قرآن حکیم کا اعلان عام ہے کہ گناہوں سے لدے ہوئے انسان اس کے عتبۂ جلال پر جب بوسہ دیتے ہیں تو وہ ان کے تمام گناہوں پر خط عفو کھینچ دیتا ہے۔الِاَّ مَنْ تَابَ وَٰامَنَ وَعَمِلَ عَمَلاً صَالِحًا کا استثناء قرآن میں بار بار دہرایا گیا ہے ۔جس کا صاف صاف مطلب یہ ہے کہ گناہ انسانی سرشت کا جزولاینفک نہیں بلکہ ایک عارضی کیفیت ہے جو ندامت کے آنسوؤں سے زائل ہوسکتی ہے۔

حل لغات
{عَدُوٌّ} دشمن۔ مخالف۔ {مُسْتَقَرٌّ} ٹھکانا۔ جائے استقرار۔ {تَلَقّیٰ} ماضی مصدر تلقی۔ حاصل کرنا۔ لینا۔ {تَابَ عَلَیْہِ} اس نے معاف کیا۔ بخشا۔ اصل توب ہے ۔یعنی رجوع کرنا۔ لوٹنا۔
 
Top