• الحمدللہ محدث فورم کو نئےسافٹ ویئر زین فورو 2.1.7 پر کامیابی سے منتقل کر لیا گیا ہے۔ شکایات و مسائل درج کروانے کے لئے یہاں کلک کریں۔
  • آئیے! مجلس التحقیق الاسلامی کے زیر اہتمام جاری عظیم الشان دعوتی واصلاحی ویب سائٹس کے ساتھ ماہانہ تعاون کریں اور انٹر نیٹ کے میدان میں اسلام کے عالمگیر پیغام کو عام کرنے میں محدث ٹیم کے دست وبازو بنیں ۔تفصیلات جاننے کے لئے یہاں کلک کریں۔

گنبد خضراء پر ایک کھڑکی نما ، اور ایک روایت کی تحقیق

خضر حیات

علمی نگران
رکن انتظامیہ
شمولیت
اپریل 14، 2011
پیغامات
8,773
ری ایکشن اسکور
8,473
پوائنٹ
964
اس تھریڈ میں موضوع سے متعلق کافی علمی و مفید باتیں ہوچکی ہیں۔ موقعہ ملا تو سب کا خلاصہ بیان کرنے کی کوشش کروں گا۔إن شاءاللہ
جن جن بھائیوں نے اس بحث میں حصہ لیا، ان کے شکر گزار ہیں۔
 
Last edited:

خضر حیات

علمی نگران
رکن انتظامیہ
شمولیت
اپریل 14، 2011
پیغامات
8,773
ری ایکشن اسکور
8,473
پوائنٹ
964
اس حدیث پر سند ومتن ہر دو اعتبار سے کلام کیا گیا، اور فریقین نے اپنا اپنا موقف ثابت کرنے کی کوشش کی۔
سند سے متعلق گفتگو

اس حدیث کی سند سے متعلق درج ذیل نکات ہیں:
1۔ سعید بن زید پر کلام
اعتراض:
حدیث کو ضعیف قرار دینے والوں نے کہا،سعید بن زید کے بارے میں علما کی آراء یوں ہیں:
1- حافظ ابن حجر: زبان کا سچا تھا لیکن وہم میں مبتلا ہوجاتا تھا ۔
2- امام ذہبی نے ''میزان الاعتدال'' میں اس کے بارے میں یحیی بن سعید کا قول نقل کیا ہے کہ: یہ ضعیف ہے۔
3- علامہ سعدی: یہ بندہ قابل حجت نہیں علما اس کی حدیثوں کو ضعیف گردانتے ہیں۔
4- امام نسائی کا کہنا ہے کہ یہ قوی نہیں۔
اسی لئے علامہ البانی نے بھی اس حدیث کو ضعیف کہا ہے۔
جواب:
امام ذہبی ،الکاشف میں لکھتے ہیں کہ سعید بن زید پر ضعف کا الزام لگانا صحیح نہیں کیونکہ امام مسلم نے اس سے روایات لی ہیں اور ابن معین نے اسے ثقہ کہا ہے(ج1 ص286)
حافظ ابن حجر عسقلانی نے مفصل بیان کیا ہے۔
امام بخاری نے کہا کہ مسلم بن ابراہیم نے ہم سے بیان کیا کہ سعید بن زید ابو الحسن صدوق اور حافظ ہے(التاریخ الکبیر ج 3 ص 472)
ابن سعد نے اسے ثقہ کہا ہے(الطبقات الکبری ج 7 ص 287(
امام احمد بن حنبل نے اس کو لیس بہ باس کہا ہے جس کا معنی ہے ہ اس پر کوئی اعتراض نہیں یعنی وہ بالکل صحیح ہے (میزان اعتدال ج 2 ص 138)ابن معین لیس بہ باس سے ثقہ راوی مراد لیتے ہیں (لسان المیزان (ج 1 ص 13)
ابن عدی نے بھی اس کو صدوق و حافظ کہا (3۔1212)اس کے علاوہ محدث ابن الصلاح نے المقدمۃ مں ،امام سخاوی نے فتح المغیث میں ابن حجر نے ھدی الساری میں اور امام نووی کی التقریب و التیسیر نے لیس بہ باس اور ثقہ کی اصطلاحوں کو یکساں قرار دیا ہے اور تیسری صڈی ہجری کے بھی بہت سے محدثین کا یہی موقف ہے مثلا ابن معین ،ابن المدینی وغیرہ
2۔ ابو نعمان محمد بن فضل عارم پر کلام
اعتراض:
اگرچہ ثقہ راوی ہے مگر آخری عمر میں اختلاط کا شکار ہوا تھا یعنی ضعف حافظہ کے سبب آخری عمر میں صحیح و ضعیف کو مکس کر کے بیان کیا کرتا تھا، علم حدیث میں ایسے مختلط راوی کا حکم یہ ہے کہ جو روایات اختلاط سے قبل کی ہوں وہ مقبول ہوتی ہیں جو اختلاط کے بعد ہوں وہ ناقابل قبول جبکہ جن روایات کے بارے میں علم نہ ہو کہ اختلاط سے قبل کی ہیں یا بعد کی وہ بھی مشکوک ہونے کی بنا پر مقبول نہیں ہوتی، اور مذکورہ روایت بھی انہی میں سے ہے اس کے بارے میں واضح نہیں کہ یہ اختلاط سے پہلے کی ہے یا بعد کی۔
جواب:
جہاں تک بات ابو نعمان کی تو تغیر موت سے پہلے واقع ہوا مگر اس کے بعد انہوں نے روایت نہیں کی(الکاشف ج 3 ص 79)
امام ذھبی میزان الاعتدال برقم 8057 پر لکھتے ہیں:
8057 - محمد بن الفضل [ع] السدوسي، أبو النعمان عارم، شيخ البخاري.حافظ، صدوق، مكثر.قال ابن وارة: حدثنا عارم الصدوق الامين.وقال الدارقطني: تغير بأخرة، وما ظهر له بعد اختلاطه حديث منكر.وهو ثقة.
محمد بن فضل بخاری کا شیخ حافظ ، صدوق ہے ۔
ابن وارہ نے کہا مجھے بیان کیا عارم صدوق امین نے۔دارقطنی نے کہا کہ اسکی عمر کے آخری وقت میں تغیر آگیا تھا ۔ لیکن اس کے اختلاط کے بعد اس سے کوئی منکر روایت ظاہر نہیں ہوئی۔ اور وہ ثقہ ہیں۔
3۔عمرو بن مالک النکری پرکلام
اعتراض:
اس روایت کی سند ضعیف ہے ، اور اس کے راوی (عمرو بن بن مالک نکری) کی حدیث (ابوالجوزاء) سے غیر محفوظ ہوتی ہے، یہ روایت بھی ایسی ہی ہے، حافظ ابن حجرؒ کہتے ہیں : وقال ابن عدي: "حدث عنه عمرو بن مالك قدر عشرة أحاديث غير محفوظة امام ابن عدیؒ نے فرمایا ہے کہ ابن الجوزاء سے عمرو بن مالک نے تقریبا دس غیر محفوظ احادیث بیان کی ہیں۔[تهذيب التهذيب ۱۔۳۸۴]
یہ جرح مفسر ہے، یہ اثر بھی عمرو بن مالک النکری نے اپنے استاذ ابوالجوزاء سے روایت کیا ہے، لہذا غیر محفوظ ہے۔
اب ذرا اپ کے عمرو بن مالک النکری کی بات کر لیں سوال یہ نہیں کہ وہ ثقہ یا صدوق ہے سوال یہ ہے کہ اس کی بعض روایات منکر اور غریب ہوتی ہے تو منکر روایت کیسے قبول کی جائے گی تو عمرو بن مالک النکری کی توثیق کے بجائے اس روایت میں اس کی نکارت کی دوری کو ثابت کریں جبکہ جن امام ذہبی کا اپ حوالہ دے رہے ہیں انہوں نے الکاشف میں اس کو "وثق" کہا ہے اور یہ امام ذہبی کی خاص اصطاح ہے جس سے وہ راوی کی تضیف کی جانب اشارہ کرتے ہیں
عمرو بن مالك النكري عن أبي الجوزاء وغيره وعنه ابنه يحيى وعباد بن عباد وجماعة وثق ترجمہ 4223
اور شیخ البانی نے بھی اس کی منفرد روایات کو قبول نہیں کیا ہے جب یہ اپنی روایت میں منفرد ہوگا تو وہ ضعیف ہوگی پڑھ لیں
قلت: وفيما قالاه نظر، فإن عمرا هذا لم يوثقه غير ابن حبان (7 / 228، 8 /487) ، وهو متساهل في التوثيق حتى أنه ليوثق المجهولين عند الأئمة النقاد كما سبق التنبيه على ذلك مرارا، فالقلب لا يطمئن لما تفرد بتوثيقه، ولا سيما أنه قد قال هو نفسه في مالك هذا: يعتبر حديثه من غير رواية ابنه يحيى عنه، يخطيء ويغرب، فإذا كان من شأنه أن يخطيء ويأتي بالغرائب، فالأحرى به أن لا يحتج بحديثه إلا إذا توبع عليه لكي نأمن خطأه، فأما إذا تفرد بالحديث كما هنا - فاللائق به الضعف.سلسلہ الاحادیث الضعیفہ رقم 94
اور امام المناوی کے حوالے سے امام ذہبی کا قول نقل کیا ہے کہ جب یہ اپنی روایت میں منفرد ہو تو اس کی روایت قبول نہیں ہے
قلت: وفيه عندي نظر لأنه من رواية عمرو بن مالك النكري ولم يذكروا توثيقه إلا عن ابن حبان ومع ذلك فقد وصفه ابن حبان بقوله:
"يخطئ ويغرب" وقال أيضا:
"يعتبر حديثه من غير رواية ابنه عنه".
وكل هذا يفيد أنه لا يحتج بما انفرد به ومنه تعلم قول الذهبي فيما نقله المناوي عن كتابه "الكبائر":
تو اس کی منفرد روایت قبول نہیں ہے اور حافظ ابن حجر نے بھی یہی نقل کیا ہے کہ یہ اپنی روایات میں خطا کرنے والا تھا اور غریب روایات بیان کرنے والا بتایا ہے
يخطىء ويغرب
اور اسی طرح ابن عدی نے اس کی منفرد ہونے پر سخت جرح کی ہے
منكر الْحَدِيث عَن الثقات، وَيَسْرِقُ الحديث.
سمعت أبا يَعْلَى يَقُولُ عَمْرو بْن مالك النكري كَانَ ضعيفا.
ابن جوزی نے بھی اپنی الضعفاء والمتروکین میں اس کو نقل کرکے اس پر جرح کی ہے
عَمْرو بن مَالك النكري الْبَصْرِيّ قَالَ ابْن عدي مُنكر الحَدِيث عَن الثِّقَات وَيسْرق الحَدِيث ضعفه أَبُو يعلى الْموصِلِي
اب اس کے بعد اس کی روایت چند کتب میں اگر آئی ہے اور اس پر ثقہ یا صدوق کہا ہے تو وہ اس کی ان روایات متابعت کے وجہ سے اور یہ بات مسلمہ ہے کہ اس کی منفرد روایت منکر ہوتی ہے اور یہ اس کی منفرد روایت ہے۔
محترم،میں پہلے بھی لکھ چکا کہ البانی صاحب نے اس کی روایت کو متابعت میں قبول کرنے کا کہا ہے اور اس کی انفرادی روایت کو قبول نہیں کیا آپ نے سلسلہ احادیث الصحیحہ سے شیخ البانی کی توثیق کا حوالہ دیا ہے اور میں نے ارواء الغلیل کے حوالے سے بتایا تھا کہ شیخ البانی نے عمرو کی متفرد روایت کو قبول نہیں کیا ہے اورشیخ البانی نے ارواء الغلیل سلسلہ احادیث الصحیحہ کے بعد لکھی ہے اور انہوں نے ارواء الغلیل میں متعدد جگہ سلسلہ احادیث الصحیحہ کی طرف رجوع کا حوالہ دیا ہے اپ بھی با غور پڑھ لیں
وأخرجه غيره أيضا وقد تكلمت على إسناده وفصلت القول على طرق الذى قبله فى " الأحاديث الصحيحة " (رقم 38
اس میں شیخ البانی نے واضح طور پر سلسلہ احادیث الصحیحہ کا حوالہ دیا ہے کہ میں نے اس روایت پر مفصل بحث سلسلہ احادیث الصحیحہ میں کی ہے تو اس سے واضح ہے کہ شیخ البانی نے ارواء الغلیل سلسلہ احادیث الصحیحہ کے بعد رقم کی ہے تو اگر سلسلہ احادیث الصحیحہ میں اس کو ثقہ کہا بھی ہے تو اس کے بعد ارواء الغلیل میں اپنے پرانے موقف سے رجوع کرکے عمرو بن مالک النکری کی منفرد روایت پر جرح کی ہے اور یہ کہا ہے کہ اس کی منفرد روایت ضعیف اور ناقبل حجت ہے اب با غور پڑھ لیں
قلت: وهذا سند ضعيف , عمرو بن مالك هذا هو أبو مالك النكرى أورده ابن أبى حاتم (3/1/259) ولم يذكر فيه جرحا ولا تعديلا , وأما ابن حبان , فذكره فى " الثقات " (2/212) ولكنه قال: " يعتبر بحديثه ".
قلت: والاعتبار والاستشهاد بمعنى واحد تقريبا , ففيه إشارة إلى أنه لا يحتج به إذا تفرد , وذلك لسوء حفظه
اور شیخ شعیب نے بھی اس کی منفرد روایت کو ضعیف ہی قرار دیا ہے چنانچہ مسند احمد کی تخریج میں لکھتے ہیں،
إسناده ضعيف ومتنه منكر، عمرو بن مالك النُّكري لا يؤثر توثيقه عن غير ابن حبان فقد ذكره فىِ "الثقات" وقال: يخطىء ويغرب، وقال الحافظ في "التقريب": صدوق له أوهام، وأخطأ الذهبي في "الميزان" و"الضعفاء" فوثق عمرو بن مالك النكري مع إنه ذكره في "الكاشف" ولم يوثقه، وإنما اقتصر على قوله: وُثِّق، وهو يُطلِق هذه اللفظة على من انفرد ابن حبان بتوثيقه"مسند احمد تحت رقم 2783"
اس میں شیخ شعیب نے امام ذہبی کی توثیق کا بھی رد کیا ہے کہ انہوں نے میزان میں اس کی توثیق کی ہے اور ضعفاء میں بھی نقل کیا ہے اور الکاشف میں وثق کہا ہے جو یہ اشارہ کرتا ہے کہ اس کی توثیق صرف ابن حبان نے کی ہے چنانچہ اس کی توثیق صرف ابن حبان سے ہی منقول ہے اور امام ابن حبان بھی اس کی مطلق توثیق کے قائل نہیں ہے بلکہ انہوں نے اپنی ثقات میں یہ لکھا ہے کہ " يعتبر حديثه من غير رواية ابنه عنه ، يخطىء و يغرب" یعنی اس کے بیٹے سے اس کی روایت منکر ہوتی ہے مگر عمومی طور پر بھی اس کی روایت "یعتبر" یعنی متابعت اور شواہد میں قبول ہوں گی اور یہی شیخ البانی نے بھی ارواء الغلیل میں نقل کیا ہے چنانچہ عمرو بن مالک کی مطلق توثیق نہ ابن حبان نے کی ہے اور نہ امام ذہبی نے کی ہے امام ذہبی نے اس کو میزان میں ثقہ کہا ہے مگر الکاشف میں وثق کہا ہے جس کا ذکر شیخ شعیب نے بھی کیا ہے اور امام ذہبی نے تلخیص موضوعات ابن جوزی میں اس کی تلیین کی ہے چنانچہ لکھتے ہیں
وَرَوَاهُ عَمْرو بن مَالك، عَن أبي الجوزاء، عَن ابْن عَبَّاس من قَوْله. وَعَمْرو لين (تلخیص الموضوعات ابن جوزی)
تو اگر امام ذہبی نے اس کی مطلق توثیق کی ہوتی تو اس میں کمزوری نہ بتاتے اور دوئم یہ کہ امام ذہبی نے الکاشف میں بھی اس کی تضیعف کی ہے تو امام ذہبی کے قول اس خود متضاد ہیں
اس کے علاوہ کسی نے بھی اس کی توثیق نہیں کی ہے بلکہ امام بخاری اور امام احمد بن حنبل نے اس کو ضعیف کہا ہے قول پیش ہیں
وقول البخاري في إسناده نظر ويختلفون فيه إنما قاله عقب حديث رواه له في التاريخ من رواية عمرو بن مالك البكري, والبكري "ضعيف عنده"تھذیب التھذیب 1/384
اور امام احمد بن حنبل نے بھی ضعیف کہا ہے
لم تثبت عندي صلاة التسبيح، وقد اختلفوا في إسناده، لم يثبت عندي، وكأنه ضعف عمراً بن مالك النكري "مسائل امام احمد روایۃ ابنہ ص 89
جواب:
امام ذھبیؒ انکے متعلق لکھتے ہیں تاریخ الاسلام ج ۸ ص ۱۹۴:
: عَمْرُو بْنُ مَالِكٍ النُّكْرِيُّ، أَبُو يَحْيَى وَقِيلَ أَبُو مَالِكٍ. بَصْرِيٌّ صَدُوقٌ.رَوَى عَنْ أَبِي الْجَوْزَاءِ أَوْسِ الرَّبَعِيِّ.عمرو بن مالک النکری صدوق ہیں۔
ابن حجر نے عمروبن مالک الراسبی کے ترجمہ میں النکری والی بات لکھ کر ابن عدی کی غلطی ثابت کی۔
تہذیب التہذیب جلد آٹھ صفحہ ۹۰ پر پڑھئے۔
ابن حبان نے انہیں ثقات میں ذکر کیا ہے اور کہا: وہ خطا کرتے ہیں۔ ۲۴۰ ھ کے بعد انکی موت ہوئی میں نے کہا : ابن عدی نے کہا: وہ ثقات سے منکر حدیث بیان کرتے تھے، (حدیث چراتے تھے) ابو یعلی سے سنا تھا وہ فرماتے تھے کہ وہ ضعیف ہے، پھر انکی دو حدیثیں بیان کرکے فرمایا ان کے علاوہ بھی انکی اور منکر روایتیں ہیں اس کے ترجمے کے شروع میں انہوں نے عمرو بن مالک النکری کہا تھا یہ ان سے غلطی (وہم) ہوا تھا۔ کیونکہ عمرو بن مالک النکری اس پر مقدم ہے۔
بس یہی وجہ تھی کہ ابو یعلی نے اسکو منکر الحدیث کہا اور ابن عدی نے اسکو منکر الحدیث کہا۔ اور اسی جرح کو ابن حبان نے اس غلطی کی وجہ سے لکھی۔ حقیقت واضع ہو گئی کہ یہ عمرو بن مالک الراسبی تھا تاکہ النکری۔
پھر امام ذھبی نے بھی عمروبن مالک الراسبی کے ترجمے میں تصریح کی ہے کہ یہ الراسبی ہے نہ کہ النکری۔ وہ شیخ ہیں۔
اور الراسبی کو ابو یعلی نے ضعیف کہا اور ابن عدی نے یسرق الحدیث کہا ہے۔
معلوم ہوا یہ جرح عمرو بن مالک الراسبی پر ہے نہ کہ النکری پر۔
دیکھئے میزان الاعتدال فی نقد الرجال۔ الجلد الثاث صفحہ ۲۸۷۔
عمرو بن مالک النکری پر جرح بہت کم اور توثیق راجع ہے اور میں نے کہا تھا جرح و تعدیل پر مقدم جرح مفسر ہوتی ہے وگرنہ تعدیل ہوتی ہے تو آپ نے کہا کہ میں نے اسکاجواب نہیں دیا پتہ نہیں کب میں نے یہ بات نہیں کہی۔۔۔۔۔ تو آپ نے آ جا کر وہی یسرق الحدیث والی جرح پیش کی ابن عدی کی طرف سے جو کہ ابن عدی نے عمرو بن مالک الراسبی پر کی تھی لیکن وہم کی وجہ سے اس میں النکری کا نام لے لیا جس کی تصریح و تمیر امام ذھبی و ابن حجر عسقلانی نے کی ہے۔
4۔ ابو الجوزاء کے حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا سے سماع میں کلام
اعتراض:
ابو الجوزاء کا حضرت عائشہ سے سماع ثابت نہیں، ابن عبد البر
جواب:
ابو الجوزاء عن عائشہ کی سند کو صحیح مسلم میں ذکر کیا گیاہے، جو اس بات کی دلیل ہے کہ امام مسلم کے ابو الجوزاء عن عائشہ روایت درست ہے۔
امام ابن عبدالبر کی بات کو جمہور نے تسلیم ہی نہیں کیا ۔اور امام ابن عبدالبر کا رد امام ابن حجر عسقلانی نے کر دیا ہے ۔تہذٰب میں اور امام مسلم کے مذہب پر امام ابن حجر عسقلانی ابو الجوزاء کے سماع کے قائل ہیں اماں عائشہؓ سے۔
میں نے ان کتب سے حوالاجات دیے جن کتب میں مصنفین نے صحیح احادیث کا التزام کیا ہے ۔ تو ابو الجوزاء کا سماع حضرت عائشہ سے ماننے والے امام یہ ہیں:
امام ابن حجر عسقلانی
امام ذھبی
امام حاکم
امام ابو عوانہ
امام ابن حبان
امام ابن خزیمہ
امام النووی
امام طحاوی
امام ابن اثیر
امام بدر الدین عینی
امام المحدث زیلعی
اامام ملا علی قاری ان اماموں نے تصریح کی ہے سماع کی اور امام مسلم کی تائید کی ہے
اور دوسری طرف محققین میں سے
علامہ شعیب الارنووط
احمد شاکر بھی ہیں
آپکے عبید اللہ مبارکپوری (سماع کی تائید کی ہیے )
ارشاد الحق الاثری
وغیرہ
جواب پر اعتراض:
اس کے مطابق ایک مجہول شخص کے واسطے سے ابو الجوزاء اماں عائشہ رضی اللہ عنھا سے سوال کرتا تھا اور مجہول کی روایت ضعیف ہوتی ہے دوئم اس سے ابو الجوزاء اماں عائشہ رضی اللہ عنھا کے درمیان انقطاع ثابت ہوتا ہے اور اس بات کو امام بخاری نے اپنی تاریخ میں "اسنادہ فیہ نظر" سے تعبیر کیا ہے۔
رہی بات امام مسلم کا اس روایت ابو الجوزاء عن اماں عائشہ رضی اللہ عنھا کی سند سے حدیث لینا تو اصول سمجھنا ضروری ہے امام مسلم امکان القاء کے قائل تھے یعنی معصرین میں ملاقات کا امکان ہو سکتا ہے تو اس کو سماع پر محمول کرتے تھے چاہے ملاقات ثابت نہ بھی ہو مگر جمہور اس کے مخالف تھے ان کے نذدیک ایک بار ملاقات ضروری ہے یہی وجہ ہے کہ مسند احمد کی تخریج میں شیخ شیعب نے شرط مسلم پر قرار دیا تھا تو جمہور کے نزدیک ملاقات ایک بار ضروری ہے اب رہی بات پھر مسلم کی یہ حدیث صحیح کیسے ہے تو اس کا جواب یہ ہے کہ اس حدیث کے الفاظ دیگر کتب احادیث میں موجود ہیں اس بنا پر مسلم کی یہ روایت صحیح ہے اگر آپ چاہیں تو ان الفاظ کے مفہوم کی احادیث پیش کر دی جائیں گی۔​
متن سے متعلق گفتگو

اس حدیث کے معنی و مفہوم پر درج ذیل نکات میں گفتگو ہوئی:
1۔ حجرہ عائشہ کی بناوٹ کے متعلق گفتگو
اعتراض:
حدیث میں بیان کردہ مضمون کے خلاف واقعہ ہونے کی ایک دلیل یہ بھی ہے کہ سیدہ عائشہؓ کی حیات مبارکہ میں حجرہ مبارکہ میں کوئی روشن دان نہیں تھا۔ وہ حجرہ تو اسی طرح تھا جس طرح نبی کرمﷺ کے عہد مبارک میں تھا کہ اس کا بعض حصہ چھت والا بعض کھلا تھا۔ دھوپ اس میں داخل ہوتی تھی جیسا کہ صحیح بخاری ومسلم میں ثابت ہے۔ سیدہ عائشہؓ ہی بیان کرتی ہیں کہ آپﷺ جب عصر کی نماز ادا فرماتے تو بھی حجرہ مبارکہ میں دھوپ ہوتی تھی اور سایہ نہ آیا ہوتا تھا۔ مسجد نبوی کے ساتھ یہ حجرہ نبویہ بالکل اسی طرح قائم رہا۔ (پھر جب مسجد میں توسیع ہوئی) تو اس وقت سے حجرہ مسجد میں داخل ہوگیا۔ پھر حجرہ عائشہؓ جس میں نبی اکرمﷺ کی قبر مبارک ہے، اس کے گرد ایک بلند دیوار بنا دی گئی۔ اس کے بعد اس دیوار میں ایک کھڑکی رکھی گئی تاکہ صفائی وغیرہ کی ضرورت کے لیے اس میں داخل ہوا جاسکے۔ جہاں تک سیدہ عائشہؓ کی حیات مبارکہ میں کسی کھڑکی کے ہونے کی، تو یہ واضح طور پر غلط ہے۔
2۔ یہ بات صحابہ کرام کے طریقہ کے خلاف ہے۔
حضرت عمر نے حضرت عباس سے دعا کروائی اور نماز استسقاء ادا کی، نہ کہ قبر میں کھڑکی کھولنے کا مشورہ دیا۔
حضرت عائشہؓ کو جب بارش کا یہ نسخہ معلوم تھا تو قحط پڑنے پر فورا ہی کیوں نہ حضرت عمرؓ سے کہلوادیا اور حضرت عمرؓ نے بھی قحط کی اس سختی و شدت میں عوام کو خوامخواہ مبتلا رکھا؟ قحط پڑتے ہی کیوں نہ قبر سے جسم اطہر کو جھروکے کے ذریعہ کھلی فضا کے سامنے کردیا؟ آخر کیا وجہ تھی کہ انہوں نے اس نسخہ کو استعمال نہیں کیا اور رسولﷺ کی طرح خود بھی لوگوں کو لے کر میدان میں پہنچے اور حضرت عباسؓ سے دعا کرائی، تب جا کر بارش ہوئی۔
3۔مدینہ منورہ کی تاریخ میں کہیں ایسا کوئی قحط نہیں ملتا کہ جس سے نجات پانے کے لیے نمازء استسقاء پڑھنے کے علاوہ کچھ اور کیا گیا ہو، اور پھر کسی قحط کے بعد ایسی کسی سبز حالی کی بھی کوئی خبر نہیں ملتی کہ جس میں جڑی بُوٹیاں تو ہری ہو ئیں سو سوئیں، اُونٹ بھی اتنے موٹے ہو گئے کہ چربی کی کثرت کی وجہ سے اُن کے زیریں حصے پھٹنے کے قریب ہو گئے، اگر ایسا عجیب واقعہ ہوا ہوتا ، اور اس طرح کثرت سے ہوا ہوتا تو یقیناً ہمیں تاریخ میں اس کے کئی جگہ ذِکر ملتا، لیکن ایسا نہیں ہے۔
4۔ کیا یہ روایت توسل کی دلیل بن سکتی ہے؟
اگر اس روایت کو صحیح مان بھی لیا جائے تو اس توسل کی وہ صورت ثابت نہیں ہوتی جس کا اثبات بعض لوگ اس سے کرتے ہیں۔ بلکہ اس سے تو ثابت ہوتا ہے کہ صحابہ کرامؓ، نبی اکرمﷺ کی ذات سے توسل نہیں کرتے تھے۔
شیخ الاسلام ابن تیمیہؒ ہی فرماتے ہیں:
ولو صح ذلك لكان حجة و دليلا على أن القوم لم يكونوا يقسمون على الله بمخلوق ولا يتوسلون في دعائهم بميت ولا يسألون الله به وإنما فتحوا على القبر لتنزل الرحمة عليه ولم يكن هناك دعاء يقسمون به عليه فأين هذا من هذا
اگر یہ روایت صحیح ہو تو بھی اس اس بات کی پر دلیل بنے گی کہ صحابہ کرامؓ نہ تو اللہ تعالی کی مخلوق کی قسم دیتے تھے، نہ اپنی دعا میں فوت شدگان کا وسیلہ دیتے تھے، نہ اللہ تعالی سے اس کے وسیلے سے مانگے تھے۔ انہوں نے تو صرف اس قبر مبارک سے روشن دان کھولا کہ اللہ کی رحمت نازل ہو۔ وہاں کوئی دعا تو نہیں مانگی تھی انہوں نے۔ اس کا مسئلہ توسل سے کیا تعلق؟
[الرد على البكري 1/ 164]
5۔صحیح روایات کی مخالفت؟
صحیح روایات کےمطابق جب دیہاتی مسجد نبوی میں داخل ہوا اور رسولﷺ منبر پر کھڑے جمعہ کا خطبہ دے رہے تھے اور دیہاتی نے شدید قحط سالی اور اس کے سبب مال و اسباب کی بربادی کی شکایت کی تو آپﷺ نے فورا دعا کے لیے ہاتھ اٹھا دئیے اور دیکھتے ہی دیکھتے موسلا دھار بارش شروع ہوگئی جو ہفتہ بھر جاری رہی یہاں تک کے دوسرے جمعہ کو پھر وہی دیہاتی ٹھیک اسی وقت جب کہ آپﷺ منبر پر کھڑے خطبہ دے رہے تھے، مسجد میں آیا اور بارش کا کثرت کا رونا رو کر فریاد کی کہ سیلاب سے راستے بند ہوگئے ہیں، آپﷺ نے بارش بند ہونے کی دعا فرمائیں، آپﷺ نے دعا کے لیے ہاتھ اٹھائے بارش تھم گئی اور سورج چمکنے لگا۔
یہ سب کچھ اس حالت میں ہوا جب آپﷺ کا جسم اطہر مسجد کی چھت کے نیچے چھپا ہوا تھا۔ اس کے باوجود اللہ نے محض آپﷺ کی دعا کی برکت سے بارش نازل بھی فرمائی اور روک بھی دی۔ اگر جسم اطہر کے فضا میں کھلتے ہی بارش ہونے لگتی تو آپﷺ منبر پر کھڑے ہوکر یہ دعا نہ فرماتے بلکہ صحن مسجد میں آکر کھڑے ہوجاتے اور بارش ہوگئی ہوتی۔ لیکن آپﷺ نے ایسا نہیں کیا۔
6۔ اس حدیث کے مطابق قبر شریف کھلی کیوں نہیں رکھی گئی؟
پھر جب ایسا ہی تھا تو قبر شریف کو ہمیشہ کھلا رکھنا چاہیے تھا۔ اس گنبد خضراء سے ڈھانکنے اور چھپانے کی کیا ضرورت تھی؟ تاکہ جب کبھی ضرورت پڑتی خود بخود بارش ہوجاتی، اور حجاز کیلئے تو اور بھی اس کی ضرورت تھی، کیونکہ اس کے موسم خشکی غالب ہے اور وہ علاقہ دوسروں کی بہ نسبت پانی کا زیادہ محتاج ہے۔
7۔ سیدہ عائشہ رضی اللہ عنہا کی یہ موقوف روایت قابل حجت ہے؟
اس روایت کا ایک الزامی جواب یہ بھی ہے۔ کہ سیدہ عائشہؓ فرماتی ہیں: ومن حدثك انه يعلم الغيب فقد كذب، ‏‏‏‏‏‏وهو يقول:‏‏‏‏ لا يعلم الغيب إلا الله جو کوئی کہتا ہے کہ نبی کریم ﷺ غیب جانتے تھے تو غلط کہتا ہے کیونکہ اللہ تعالیٰ خود کہتا ہے کہ غیب کا علم اللہ کے سوا اور کسی کو نہیں۔ [صحيح بخاري ٧٣٨٠]
سیدہ عائشہؓ کی کی یہ بات چونکہ قبوری مذہب کے سخت خلاف تھی، اس لیے اس کے جواب میں (بعض الناس) نے لکھا ہے:(آپ کا یہ قول اپنے رائے سے ہے، اس پر کوئی حدیث مرفوع پیش نہیں فرماتی، بلکہ آیات سے استدلال فرماتی ہیں)
[جاء الحق ۱۔۳۳۴]
ہم پوچھتے ہیں کہ سیدہ عائشہؓ کا علم غیب کے متعلق قول قبول نہیں تو ان کا نبی کریمﷺ کی قبر کے متعلق یہ قول قبول کیوں ہے؟ جب کہ وہ اس پر بھی کوئی آیت یا حدیث پیش نہیں فرما رہیں۔ پھر اس پر سہاگہ کہ یہ قول بھی ثابت نہیں ہے۔
اس حدیث سے استدلال کرنے والوں نے معترضین کے جواب میں کچھ نکات بیان کیے، جو درج ذیل ہیں:
حجرہ عائشہ مکمل مسقف نہیں تھا، اس کی کوئی پختہ دلیل نہیں ہے، رہی یہ بات کہ سورج کی روشنی آتی تھی تو وہ کھڑی یا دروازے سے بھی آسکتی ہے۔
یہ اعتراض بھی بالکل جہالت اور اصحاب کے عمل کے خلاف بیان کیا گیا ہے ۔ جبکہ صحابہ کو جب بھی قحط کا سامنہ کرنا پڑتا وہ بالکل نماز استسقاء ادا کرتے ۔ لیکن اللہ کی شان ہے بعض اوقات و ہ دعا بھی قبول نہیں کرتا بیشک وہ ہر چیز پر قادر ہے ۔ اگر نماز استسقاء جسکا حکم نبی پاک سے دیا تھا انکی سنت بھی تھی اور اصحاب بھی اس پر عمل کرتے تھے ۔ لیکن صرف نماز استسقاء سے بارش کا آنا یقینی ہو جاتا تو صحابہ کرام بشمول حضرت عمرؓ حضرت ابن عباس کا توسل کیوں اختیار کرتے ؟ اور حضرت عمر یہ کیوں کہتے پہلے ہم تیرے نبی کا وسیلہ اختیار کرتے تھے اب تیرے نبیؐ کے چچا کا وسیلہ دیتے ہیں ۔ یہاں بھی حضرت عمر ؓ نے حضرت ابن عباس ؓ کا وسیلہ فقط نہیں لیا بلکہ نبی کا توسل بھی ساتھ لیا ۔ کیونکہ انہوں نے صاف الفاظ ادا فرمائے کہ تیرے نبی کے چچا یعنی ابن عباس ؓ کو بھی نبی پاک کے چچا ہونے کی وجہ سے انکا توسل اختیار کیا گیا تو اس میں نبی پاک کے توسل کی نفی کرنا جہالت ہے ۔ بلکہ اس سے یہ سبق ملتا ہے کہ توسل انبیاء اور غیر انبیاء دونوں کا اختیار کیا جا سکتا ہے۔
وسیلہ افضل سے بھی جائز ہے اور مفضول سے بھی۔
اس حدیث کو صحیح کہنے والے علما ومحققین:
الشفاء۔الخصائص الکبری۔مناہل الصفطفی فی تخریج احادیث الشفاء میں اس روایت کو ذکر کرنے کے بعد لکھا کہ ابن ابی اسامہ نے اپنی مسند میں بکر بن عبد اللہ مزنی اور بزار نے اپنی مسند میں عبد اللہ بن مسعود سے صحیح اسناد کے ساتھ یہ روایت بیان کی ہے اور اس بات کی تائید علامہ خفاجی اور ملا علی قاری نے الشفاء کی شرح میں کی ہے۔
اسکے علاوہ مندرجہ ذیل محققین ومحدثین نے اس روایت کو صحیح وحسن قرار دیا ہے
1- حسين سليم أسد الداراني : رجاله ثقات وهو موقوف على عائشة
2- ابن حجر العسقلاني : تخريج مشكاة المصابيح (ج5 / ص362): [حسن كما قال في المقدمة]
3- محمود سعيد ممدوح : رفع المنارة ص203: قلت : هذا إسناد حسن إن شاء الله تعالى
4- تقي الدين علي السبكي : شفاء السقام ص128: استدل بالحديث
5- حسن بن علي السقاف: الإغاثة ص25: وهذا صريح أيضاً بإسناد صحيح
6- ذكر العلامة السمهودي في خلاصة الوفا : إن من الأدلة على صحة التوسل بالنبي صلى الله عليه وسلم بعد وفاته ما رواه الدارمي في صحيحه عن أبي الجوزاء ثم ذكر الحديث ...
7- المحقق شعيب الأرنؤوط : مسند احمد (ج6 / ص72) ح24478: مرفوعه صحيح لغيره وهذا إسناد حسن
8- الحافظ الهيثمي : مجمع الزوائد (ج7 / ص392) ح13035: رواه أحمد والطبراني في الأوسط ورجاله رجال الصحيح، غير عمرو بن مالك البكري وهو ثقة.
9- المحقق حمزة الزين : مسند احمد (ج17 / ص330): اسناده صحيح،
اس حدیث کو ضعیف کہنے والے علما ومحققین:
امام بخاری
امام ابن عبدالبر
امام ابن عدی
حافظ ابن حجر
امام مغلطائ
ابن الملقن
امام شوکانی
امام مقبل بن ھادی الوادعی
امام البانی
اور یہ بھی عرض کر دوں کے اصول حدیث میں یہ معروف ہے کہ جرح مفسر تعدیل پر مقدم ہوتی،چنانچہ اتنے محدثین نے اس پر جرح مفسر بیان کی ہے کہ ابو الجوزاء کا اماں عائشہ رضی اللہ عنھا سے سماع ثابت نہیں ہے تو یہ جرح مفسر تعدیل پر مقدم ہے اس لئے یہ روایت ضعیف ہے اور رہی گی اور عدیل سلفی بھائی نے بھی جو احناف کی جرح اس کے ایک راوی پر نقل کی ہے وہ بھی اپ کے لئے انتہائی مفید ہے۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
یہ اس حدیث کے متعلق ہونے والےبحث و مباحثہ کا ایک خاکہ سا بیان کرنے کی کوشش کی ہے، جس میں میں نے اپنی رائے شامل نہیں کی، لیکن اس بحث و مباحثہ کو دیکھ کر باحثین بھی مزید نکات پر بحث کرسکیں گے، اور قارئین کے لیے بھی فیصلہ کرنے میں آسانی ملے گی۔
اس پورے مباحثے میں ایک اور بات بھی نوٹ کرنے والی ہے، جس سے اختلافی مسائل پر ہونے والی بعض تحقیقات و تصنیفات کا مزاج سمجھنے میں مدد ملے گی، بات یہ ہے کہ یہاں فریقین کی طرف سے الزامی جوابات پیش کیے جارہے ہیں، اور دو مسئلوں کو اکٹھا کردیا گیاہے، عمرو بن مالک النکری راوی ایک ہی ہے، لیکن یہی ایک راوی جب نماز کے کسی مسئلہ میں آتا ہے، تو فریقین اسے ایک اور انداز سے دیکھتے ہیں، جبکہ یہی راوی جب وسیلہ والی حدیث میں آتا ہے، تو وہی فریقین اس کے بالکل برعکس دیکھنا شروع کردیتے ہیں۔​
 
Top