• الحمدللہ محدث فورم کو نئےسافٹ ویئر زین فورو 2.1.7 پر کامیابی سے منتقل کر لیا گیا ہے۔ شکایات و مسائل درج کروانے کے لئے یہاں کلک کریں۔
  • آئیے! مجلس التحقیق الاسلامی کے زیر اہتمام جاری عظیم الشان دعوتی واصلاحی ویب سائٹس کے ساتھ ماہانہ تعاون کریں اور انٹر نیٹ کے میدان میں اسلام کے عالمگیر پیغام کو عام کرنے میں محدث ٹیم کے دست وبازو بنیں ۔تفصیلات جاننے کے لئے یہاں کلک کریں۔

گنبد خضری کی شرعی حیثیت.

نسیم احمد

مشہور رکن
شمولیت
اکتوبر 27، 2016
پیغامات
747
ری ایکشن اسکور
128
پوائنٹ
108
محترم جواد بھائی
یعنی جس چیز کا اب رواج ہو اس کے کرنے میں کوئ حرج نہیں ۔
 

عمر اثری

سینئر رکن
شمولیت
اکتوبر 29، 2015
پیغامات
4,404
ری ایکشن اسکور
1,132
پوائنٹ
412
محترم جواد صاحب
السلام علیکم

غلاف کعبہ پر بھی سونے کا کام اور آیتوں کا لکھنا نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم اور صحابہ کرام رضی اللہ عنہ سے ثابت نہیں ہے اس کے بارے میں کیا ارشاد فرمائیں گے۔
وعلیکم السلام
غلاف کعبہ پر آیات لکھی جاتی ہیں جس کا قران و حدیث میں کوئی ثبوت نہیں ۔
::::: جواب ::::: اِس کام کے بارے میں عُلماء کا اختلاف ہے جِس میں سے صحیح یہ ہے کہ صرف کعبہ شریفہ کے غِلاف پر آیات مُبارکہ لکھنا ، لیکن سونے چاندی سے نہیں بلکہ عام مواد سے جائز ہے کیونکہ اللہ تبارک و تعالیٰ نے فرمایا ہے (((وَمَن يُعَظِّمْ شَعَائِرَ اللَّهِ فَإِنَّهَا مِن تَقْوَى الْقُلُوبِ::: اور جو کوئی اللہ کی طرف سے مقرر کردہ ادب کرنے والی چیزوں اور مُقامات کی تعظیم کرتا ہے تو ایسا کرنا یقیناً دِلوں کے تقوے کا ثبوت ہے )))سُورت الحج (22)/آیت32،
کعبہ شریفہ، شعائر اللہ میں سے اول و افضل ترین ہے ، پس اُس کی تعظیم کرتے ہوئے اُس کے غِلاف پر اللہ تبارک وتعالیٰ کا ہی کلام ، یعنی قران کریم کی آیات شریفہ لکھی جانا دُرست ہے ، بشرطیکہ اُنہیں لکھنے میں کوئی اسراف ، یعنی فضول خرچی نہ کی جائے ، لہذا ، سونے چاندی اور دیگر قیمتی مواد کا اِستعمال نہیں کیا جانا چاہیے ، عام مواد سے لکھے جانے میں کوئی حرج نہیں۔
حوالہ
 

اشماریہ

سینئر رکن
شمولیت
دسمبر 15، 2013
پیغامات
2,684
ری ایکشن اسکور
751
پوائنٹ
290
وعلیکم السلام
غلاف کعبہ پر آیات لکھی جاتی ہیں جس کا قران و حدیث میں کوئی ثبوت نہیں ۔
::::: جواب ::::: اِس کام کے بارے میں عُلماء کا اختلاف ہے جِس میں سے صحیح یہ ہے کہ صرف کعبہ شریفہ کے غِلاف پر آیات مُبارکہ لکھنا ، لیکن سونے چاندی سے نہیں بلکہ عام مواد سے جائز ہے کیونکہ اللہ تبارک و تعالیٰ نے فرمایا ہے (((وَمَن يُعَظِّمْ شَعَائِرَ اللَّهِ فَإِنَّهَا مِن تَقْوَى الْقُلُوبِ::: اور جو کوئی اللہ کی طرف سے مقرر کردہ ادب کرنے والی چیزوں اور مُقامات کی تعظیم کرتا ہے تو ایسا کرنا یقیناً دِلوں کے تقوے کا ثبوت ہے )))سُورت الحج (22)/آیت32،
کعبہ شریفہ، شعائر اللہ میں سے اول و افضل ترین ہے ، پس اُس کی تعظیم کرتے ہوئے اُس کے غِلاف پر اللہ تبارک وتعالیٰ کا ہی کلام ، یعنی قران کریم کی آیات شریفہ لکھی جانا دُرست ہے ، بشرطیکہ اُنہیں لکھنے میں کوئی اسراف ، یعنی فضول خرچی نہ کی جائے ، لہذا ، سونے چاندی اور دیگر قیمتی مواد کا اِستعمال نہیں کیا جانا چاہیے ، عام مواد سے لکھے جانے میں کوئی حرج نہیں۔
حوالہ
بھائی جان اس پر تو یہ سوال پیدا ہوگا کہ کلام اللہ زیادہ احترام کی چیز ہے یا بیت اللہ جو کلام اللہ کو بیت اللہ کا زیور بنایا جا رہا ہے؟ نیز کیا اسلاف نے کعبہ کی اس طریقے سے تعظیم کی ہے؟ اگر نہیں تو پھر ہمارا عمل کیا ہے؟
صحیح یہ معلوم ہوتا ہے کہ اس کا کوئی ثبوت نہیں ہے لیکن چونکہ اسے کوئی عبادت نہیں سمجھا جاتا اس لیے اس کے لیے ثبوت کی ضرورت بھی نہیں ہے۔ و اللہ اعلم
 

عمر اثری

سینئر رکن
شمولیت
اکتوبر 29، 2015
پیغامات
4,404
ری ایکشن اسکور
1,132
پوائنٹ
412
بھائی جان اس پر تو یہ سوال پیدا ہوگا کہ کلام اللہ زیادہ احترام کی چیز ہے یا بیت اللہ جو کلام اللہ کو بیت اللہ کا زیور بنایا جا رہا ہے؟ نیز کیا اسلاف نے کعبہ کی اس طریقے سے تعظیم کی ہے؟ اگر نہیں تو پھر ہمارا عمل کیا ہے؟
صحیح یہ معلوم ہوتا ہے کہ اس کا کوئی ثبوت نہیں ہے لیکن چونکہ اسے کوئی عبادت نہیں سمجھا جاتا اس لیے اس کے لیے ثبوت کی ضرورت بھی نہیں ہے۔ و اللہ اعلم
جی مذکورہ آیت سے احتجاج ہو سکتا ہے. باقی تو شیوخ حضرات بتا سکیں گے. بندہ اس تعلق سے زیادہ علم نہیں رکھتا. کبھی محترم شیخ @عادل سہیل حفظہ اللہ کے بلاگ پر پڑھا تھا سوچا بطور فائدہ نقل کر دیتا ہوں.
 

محمد علی جواد

سینئر رکن
شمولیت
جولائی 18، 2012
پیغامات
1,986
ری ایکشن اسکور
1,551
پوائنٹ
304
محترم جواد بھائی
یعنی جس چیز کا اب رواج ہو اس کے کرنے میں کوئ حرج نہیں ۔
محترم نسیم صاحب -

میں اس معاملے میں مزید بحث میں نہیں پڑنا چاہتا -اب ایک چیز کے جواز کو سامنے رکھ کر دوسرے کو جائز یا نا جائز قرار دینا میرے خیال میں کوئی مثبت سوپچ نہیں -قرآنی آیات لکھنا ایک فن ہے اس کو ایک فن کی حیثیت سے دیکھنا ٹھیک ہے - نبی کریم صل الله علیہ و آ له وسلم یا صحابہ کرام رضوان الله اجمعین کے دور میں مقابلہ حسن قراءت یا ختم احادیث شریف کی محافل وغیرہ کا رواج نہیں تھا - اب آج کے دور میں ہم اس کو دینی حیثیت دیں یا نہ دیں ؟؟ ان مباحث میں پڑنے کا فائدہ ؟ علماء دین کے بھی اس معاملے میں اپنے اپنے مختلف نظریات ہیں -
 

نسیم احمد

مشہور رکن
شمولیت
اکتوبر 27، 2016
پیغامات
747
ری ایکشن اسکور
128
پوائنٹ
108
محترم نسیم صاحب -

میں اس معاملے میں مزید بحث میں نہیں پڑنا چاہتا -اب ایک چیز کے جواز کو سامنے رکھ کر دوسرے کو جائز یا نا جائز قرار دینا میرے خیال میں کوئی مثبت سوپچ نہیں -قرآنی آیات لکھنا ایک فن ہے اس کو ایک فن کی حیثیت سے دیکھنا ٹھیک ہے - نبی کریم صل الله علیہ و آ له وسلم یا صحابہ کرام رضوان الله اجمعین کے دور میں مقابلہ حسن قراءت یا ختم احادیث شریف کی محافل وغیرہ کا رواج نہیں تھا - اب آج کے دور میں ہم اس کو دینی حیثیت دیں یا نہ دیں ؟؟ ان مباحث میں پڑنے کا فائدہ ؟ علماء دین کے بھی اس معاملے میں اپنے اپنے مختلف نظریات ہیں -
ابتسامہ
 

خضر حیات

علمی نگران
رکن انتظامیہ
شمولیت
اپریل 14، 2011
پیغامات
8,773
ری ایکشن اسکور
8,473
پوائنٹ
964
قبروں کے اوپر تعمیرات سے حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے صراحتا منع فرمایا ہے ، جس نے بھی یہ قبہ بنایا حدیث کی صریح مخالفت کی ہے ، باقی حضور صلی اللہ علیہ وسلم جہاں وفات پائی وہیں دفن ہوئے ، جیساکہ انبیاء کے متعلق یہ قاعدہ ہے ۔
باقی غلاف کعبہ ، یا خانہ کعبہ ، یا مسجد نبوی ، یا عام مساجد میں جو تزیین و آرائش کی جاتی ہے ، تو یہ اس تعلق سے کہ یہ اللہ کا گھر ہے ، اور اسے تعمیر مساجد کے ضمن میں مستحسن نگاہ سے دیکھا جاتا ہے ، اس سے قبروں کو سجانے کا جواز یا ان پر تعمیرات کا جواز قطعا ثابت نہیں ہوسکتا ، کیونکہ وہاں واضح اور صریح نص ہے ۔ واللہ اعلم بالصواب ۔
 

نسیم احمد

مشہور رکن
شمولیت
اکتوبر 27، 2016
پیغامات
747
ری ایکشن اسکور
128
پوائنٹ
108
محترم خضر صاحب
السلام علیکم

آپ کے علم میں یقیناً ہوگا کہ کعبے کی تزئین و آرائش بادشاہت کے دور میں شروع ہوئی۔ اور اس میں بے جا اسراف ہوتا تھا۔ سونے کے تاروں سے کشیدہ کاری بھی اسراف ہے۔نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے ہمیں سادگی کا درس دیا ۔اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی زندگی اس کا آئینہ دار تھی۔نہ ہی صحابہ کرام رضوان اللہ اجمعین نے اس تزئین و آرائش کا سوچا۔
یہ بدعت بادشاہت کے دور میں شروع ہوئی جو تا حال قائم ہے ۔ چونکہ مملکت سعودی عربیہ اب بھی بادشاہی نظام کے تحت چل رہا ہے ۔
 

خضر حیات

علمی نگران
رکن انتظامیہ
شمولیت
اپریل 14، 2011
پیغامات
8,773
ری ایکشن اسکور
8,473
پوائنٹ
964
محترم خضر صاحب
السلام علیکم

آپ کے علم میں یقیناً ہوگا کہ کعبے کی تزئین و آرائش بادشاہت کے دور میں شروع ہوئی۔ اور اس میں بے جا اسراف ہوتا تھا۔ سونے کے تاروں سے کشیدہ کاری بھی اسراف ہے۔نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے ہمیں سادگی کا درس دیا ۔اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی زندگی اس کا آئینہ دار تھی۔نہ ہی صحابہ کرام رضوان اللہ اجمعین نے اس تزئین و آرائش کا سوچا۔
یہ بدعت بادشاہت کے دور میں شروع ہوئی جو تا حال قائم ہے ۔ چونکہ مملکت سعودی عربیہ اب بھی بادشاہی نظام کے تحت چل رہا ہے ۔
و علیکم السلام ورحمۃ اللہ وبرکاتہ
بالکل اسراف اور فضول خرچی نہیں ہونی چاہیے ،زندگی سادہ ہونی چاہیے ۔
 
Top