• الحمدللہ محدث فورم کو نئےسافٹ ویئر زین فورو 2.1.7 پر کامیابی سے منتقل کر لیا گیا ہے۔ شکایات و مسائل درج کروانے کے لئے یہاں کلک کریں۔
  • آئیے! مجلس التحقیق الاسلامی کے زیر اہتمام جاری عظیم الشان دعوتی واصلاحی ویب سائٹس کے ساتھ ماہانہ تعاون کریں اور انٹر نیٹ کے میدان میں اسلام کے عالمگیر پیغام کو عام کرنے میں محدث ٹیم کے دست وبازو بنیں ۔تفصیلات جاننے کے لئے یہاں کلک کریں۔

گونگی عورت اور گونگا مرد فقہ حنفی شریف کی روشنی میں

اشماریہ

سینئر رکن
شمولیت
دسمبر 15، 2013
پیغامات
2,684
ری ایکشن اسکور
751
پوائنٹ
290
کیا اس سے مراد یہ لی جا سکتی ہے کہ گونگے کو کبھی حد نہیں دی جائے گی؟ کیونکہ یہ شبہ تو ہمیشہ رہے گا کہ "اگر" وہ بولتا تو شاید ایسی بات کا اقرار کرتا جو حد قائم کرنے میں مانع ہوتی۔

جی اس کے بدلے اسے تعزیر لگے گی۔
 

اشماریہ

سینئر رکن
شمولیت
دسمبر 15، 2013
پیغامات
2,684
ری ایکشن اسکور
751
پوائنٹ
290
کیا حلالہ کرنا یا کروانا زنا سے متشابہ نہیں ہے ؟

نہیں لیکن حلالہ شرط لگا کر یا دل میں رکھ کر کرنا جائز نہیں ہے۔ اتفاقا صورت پیدا ہو جائے تو ٹھیک ہے
جیسے ایک عورت کو طلاق ہوئی اور اس نے دوسرے شوہر سے شادی کر لی۔ پھر دوسرا شوہر مر گیا یا اس سے بھی اسے طلاق مل گئی تو پہلے شوہر کے پاس جا سکتی ہے۔

شرط کے ساتھ حلالہ کرنا انتہائی بے غیرتی اور بے حیائی ہے۔ اللہ پاک اس سے بچا کر رکھے۔
 

اشماریہ

سینئر رکن
شمولیت
دسمبر 15، 2013
پیغامات
2,684
ری ایکشن اسکور
751
پوائنٹ
290
وہی احتمال تعزیر میں کیونکر حائل نہیں ہو سکتا؟

اس لیے کہ حدود شبہات سے ساقط ہوتی ہیں تعزیر نہیں۔ ہم اپنی مرضی سے تعزیر کو حدود پر قیاس نہیں کر سکتے۔
 

راجا

سینئر رکن
شمولیت
مارچ 19، 2011
پیغامات
733
ری ایکشن اسکور
2,574
پوائنٹ
211
شرط کے ساتھ حلالہ کرنا انتہائی بے غیرتی اور بے حیائی ہے۔ اللہ پاک اس سے بچا کر رکھے۔
آپ اصل بات کو اگنور کر دیتے ہیں۔ شرط کے ساتھ حلالہ کرنا انتہائی بے غیرتی اور بے حیائی ہے، اس پر اتفاق کے باوجود، احناف یہ فتویٰ دیتے ہیں کہ ایسا حلالہ ہو جاتا ہے اور بیوی دوبارہ پہلے شوہر کے لئے حلال ہو جاتی ہے۔ اصل اختلاف اسی میں ہے۔ کہ وہ فعل جس پر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم لعنت فرمائیں ، کرائے کا سانڈ قرار دیں، اس کی انجام دہی سے بھی نتیجہ وہی برآمد ہو جو حلالہ کے شرعی طریقہ سے حاصل ہوتا ہے۔
 

اشماریہ

سینئر رکن
شمولیت
دسمبر 15، 2013
پیغامات
2,684
ری ایکشن اسکور
751
پوائنٹ
290
آپ اصل بات کو اگنور کر دیتے ہیں۔ شرط کے ساتھ حلالہ کرنا انتہائی بے غیرتی اور بے حیائی ہے، اس پر اتفاق کے باوجود، احناف یہ فتویٰ دیتے ہیں کہ ایسا حلالہ ہو جاتا ہے اور بیوی دوبارہ پہلے شوہر کے لئے حلال ہو جاتی ہے۔ اصل اختلاف اسی میں ہے۔ کہ وہ فعل جس پر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم لعنت فرمائیں ، کرائے کا سانڈ قرار دیں، اس کی انجام دہی سے بھی نتیجہ وہی برآمد ہو جو حلالہ کے شرعی طریقہ سے حاصل ہوتا ہے۔

وجہ یہ ہے کہ صرف لعنت سے اس فعل کی اصل تو ختم نہیں ہو جاتی۔
اس طرح عورت کے حلال ہونے کا ذکر قرآن میں آیا ہے۔ اب شرط کے ساتھ ہو بغیر شرط کے۔ نتیجہ تو برآمد ہوگا۔ البتہ گناہ کب ہوگا یا لعنت کب ہوگی یا کیا کام بے حیائی کا ہے یہ الگ معاملہ ہے۔ اس سے نتیجہ پر تو اثر نہیں پڑ سکتا۔
 

راجا

سینئر رکن
شمولیت
مارچ 19، 2011
پیغامات
733
ری ایکشن اسکور
2,574
پوائنٹ
211
وجہ یہ ہے کہ صرف لعنت سے اس فعل کی اصل تو ختم نہیں ہو جاتی۔
اس طرح عورت کے حلال ہونے کا ذکر قرآن میں آیا ہے۔ اب شرط کے ساتھ ہو بغیر شرط کے۔ نتیجہ تو برآمد ہوگا۔ البتہ گناہ کب ہوگا یا لعنت کب ہوگی یا کیا کام بے حیائی کا ہے یہ الگ معاملہ ہے۔ اس سے نتیجہ پر تو اثر نہیں پڑ سکتا۔
بہت خوب۔ "صرف لعنت" کے الفاظ تو بہت ہی برمحل استعمال کئے ہیں۔
گویا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو کسی فعل کے حرام یا ناجائز یا لعنت وغیرہ کرنے کے ساتھ یہ بھی ہر جگہ بتانا چاہئے تھا کہ اس فعل کے حرام، ناجائز یا لعنتی ہونے کے باوجود آیا یہ فعل واقع ہو جائے گا یا نہیں؟
نماز اگر وقت سے قبل ہی ادا کر لی جائے تو نہیں ہوتی۔ یہاں فعل کی اصل ختم ہو جاتی ہے۔

حلالہ کے معاملے میں تو دل کٹتا ہے، ایسے ایسے فتاویٰ دیوبندی علماء نے دے رکھے ہیں۔ آپ اب تک حلالہ کو کم سے کم لعنتی فعل، بے حیائی اور گناہ کا کام تو تسلیم کرتے آئے ہیں۔ اب یہ فتویٰ ملاحظہ کیجئے اور اس کے دفاع میں اپنے ان الفاظ سے بھی دستبردار ہو جائیے:

حلالہ کا کیا مطلب ہے؟
کیا ایسا کرنا درست ہے؟
May 10,2007
Answer: 420
(فتوى: 184/ل=184/ل)

حلالہ ایک اصطلاحی لفظ ہے، حلالہ کا مطلب یہ ہے کہ اگر عورت کو تین طلاق دی جاتی ہے تو وہ اولاً عدت گذارے پھر دوسرے شوہر سے نکاح کرے اور وہ اس کے ساتھ دخول کرے، اس کے بعد وہ اپنی مرضی سے طلاق دے پھر یہ عورت عدت گذارے، اس کے بعد اس عورت کے لیے پہلے شوہر جس نے طلاق دی تھی اس کے لیے نکاح کرنا جائز ہوگا، ورنہ نہیں۔ چونکہ دوسرا شوہر نکاح اور وطی کے ذریعہ پہلے شوہر کے لیے نکاح کو حلال کرتا ہے اس لیے اس کا یہ فعل حلالہ کہلاتا ہے۔

حلالہ کی شرط پر نکاح کرنا مکروہ تحریمی ہے اگرچہ اس کی وجہ سے وہ شوہر اول کے لیے حلال ہوجائے گی: وکرہ التزوج للثاني تحریما بشرط التحلیل وإن حلت للأول (شامي: 5/47 ط زکریا دیوبند) لیکن اگر حلالہ کی شرط نہ کرے بلکہ اس کو چھپائے رکھے تو یہ مکروہ نہیں: أما إذا أضمر ذلک لا یکرہ وکان الرجل ماجورًا (شامي: 5/48، ط زکریا دیوبند)


لیجئے،پہلے تو بدعی طریقے سے دی جانے والی ایک مجلس کی تین طلاق کو بدعت ماننے کے باوجود ، لاگو کر کے زن و شوہر میں جدائی کرو ادی گئی۔
پھر، ایک لعنتی فعل ، لعنت کے باوجود ، اس قدر قابل اعتماد ٹھہرا کہ اس سے عورت اپنے پہلے شوہر کے لئے حلال ہو گئی۔
لیکن اب بھی ، حلالہ کی شرط عائد کرنا مکروہ تحریمی قرار پایا۔
پھر ، مزید فقاہت کے جوہر بکھرے اور بغیر شرط کے فقط چھپی نیت کے ساتھ حلالہ کرنے سے مکروہ تحریمی کا بھی امکان نہ رہا۔

کہاں اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کا ایک فعل کو لعنت قرار دینا اور کہاں چھپا کر حلالہ کرنا مکروہ بھی نہیں۔ ۔۔!!!

پھر خلیفہ جیسے واقعات پر آپ فرماتے ہیں کہ کوئی شاہ ولی اللہ ہونا چاہئے اس دور میں۔ سب سے بڑی رکاوٹ تو آپ اور آپ جیسے دیگر افراد ہیں جو پڑھے لکھے ہیں، دین کو بھی سمجھتے ہیں اور دنیا کے معاملات سے بھی واقف ہیں۔ میڈیا کی طاقت بھی استعمال کرتے ہیں تو کس لئے، اسی قسم کے واقعات کی ترویج اور اس کو سپورٹ فراہم کرنے کے لئے۔
 

اشماریہ

سینئر رکن
شمولیت
دسمبر 15، 2013
پیغامات
2,684
ری ایکشن اسکور
751
پوائنٹ
290
بہت خوب۔ "صرف لعنت" کے الفاظ تو بہت ہی برمحل استعمال کئے ہیں۔
گویا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو کسی فعل کے حرام یا ناجائز یا لعنت وغیرہ کرنے کے ساتھ یہ بھی ہر جگہ بتانا چاہئے تھا کہ اس فعل کے حرام، ناجائز یا لعنتی ہونے کے باوجود آیا یہ فعل واقع ہو جائے گا یا نہیں؟
نماز اگر وقت سے قبل ہی ادا کر لی جائے تو نہیں ہوتی۔ یہاں فعل کی اصل ختم ہو جاتی ہے۔

حلالہ کے معاملے میں تو دل کٹتا ہے، ایسے ایسے فتاویٰ دیوبندی علماء نے دے رکھے ہیں۔ آپ اب تک حلالہ کو کم سے کم لعنتی فعل، بے حیائی اور گناہ کا کام تو تسلیم کرتے آئے ہیں۔ اب یہ فتویٰ ملاحظہ کیجئے اور اس کے دفاع میں اپنے ان الفاظ سے بھی دستبردار ہو جائیے:

حلالہ کا کیا مطلب ہے؟
کیا ایسا کرنا درست ہے؟
May 10,2007
Answer: 420
(فتوى: 184/ل=184/ل)

حلالہ ایک اصطلاحی لفظ ہے، حلالہ کا مطلب یہ ہے کہ اگر عورت کو تین طلاق دی جاتی ہے تو وہ اولاً عدت گذارے پھر دوسرے شوہر سے نکاح کرے اور وہ اس کے ساتھ دخول کرے، اس کے بعد وہ اپنی مرضی سے طلاق دے پھر یہ عورت عدت گذارے، اس کے بعد اس عورت کے لیے پہلے شوہر جس نے طلاق دی تھی اس کے لیے نکاح کرنا جائز ہوگا، ورنہ نہیں۔ چونکہ دوسرا شوہر نکاح اور وطی کے ذریعہ پہلے شوہر کے لیے نکاح کو حلال کرتا ہے اس لیے اس کا یہ فعل حلالہ کہلاتا ہے۔

حلالہ کی شرط پر نکاح کرنا مکروہ تحریمی ہے اگرچہ اس کی وجہ سے وہ شوہر اول کے لیے حلال ہوجائے گی: وکرہ التزوج للثاني تحریما بشرط التحلیل وإن حلت للأول (شامي: 5/47 ط زکریا دیوبند) لیکن اگر حلالہ کی شرط نہ کرے بلکہ اس کو چھپائے رکھے تو یہ مکروہ نہیں: أما إذا أضمر ذلک لا یکرہ وکان الرجل ماجورًا (شامي: 5/48، ط زکریا دیوبند)


لیجئے،پہلے تو بدعی طریقے سے دی جانے والی ایک مجلس کی تین طلاق کو بدعت ماننے کے باوجود ، لاگو کر کے زن و شوہر میں جدائی کرو ادی گئی۔
پھر، ایک لعنتی فعل ، لعنت کے باوجود ، اس قدر قابل اعتماد ٹھہرا کہ اس سے عورت اپنے پہلے شوہر کے لئے حلال ہو گئی۔
لیکن اب بھی ، حلالہ کی شرط عائد کرنا مکروہ تحریمی قرار پایا۔
پھر ، مزید فقاہت کے جوہر بکھرے اور بغیر شرط کے فقط چھپی نیت کے ساتھ حلالہ کرنے سے مکروہ تحریمی کا بھی امکان نہ رہا۔

کہاں اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کا ایک فعل کو لعنت قرار دینا اور کہاں چھپا کر حلالہ کرنا مکروہ بھی نہیں۔ ۔۔!!!

پھر خلیفہ جیسے واقعات پر آپ فرماتے ہیں کہ کوئی شاہ ولی اللہ ہونا چاہئے اس دور میں۔ سب سے بڑی رکاوٹ تو آپ اور آپ جیسے دیگر افراد ہیں جو پڑھے لکھے ہیں، دین کو بھی سمجھتے ہیں اور دنیا کے معاملات سے بھی واقف ہیں۔ میڈیا کی طاقت بھی استعمال کرتے ہیں تو کس لئے، اسی قسم کے واقعات کی ترویج اور اس کو سپورٹ فراہم کرنے کے لئے۔

دیکھیں میرے محترم بھائی اگر آپ صرف اعتراض کرنا چاہتے ہیں تو الگ بات ہے لیکن اگر آپ میری اصلاح کرنا چاہتے ہیں تو کیا یہ بہتر نہ ہوگا کہ آپ اپنی بات کو دلائل کے ساتھ مبرہن فرما دیں؟

میں عرض کرتا ہوں کہ قرآن نے کہا ہے فلا تحل لہ حتی تنکح زوجا غیرہ
(بعد از تین طلاق کے) وہ اس (ماقبل) شوہر کے لیے حلال نہ ہوگی جب کہ دوسرے شوہر سے نکاح نہ کر آئے۔
یعنی حلال ہونے کی شرط دوسرے شوہر سے نکاح رکھی ہے۔ اور دلالۃ النص سے علم ہوتا ہے کہ اگر دوسرے شوہر سے نکاح کر لیا تو حلال ہو جائے گی۔
یہاں شرط و غیر شرط کی کوئی قید نہیں ہے۔
آپ بتائیے کیا ہونا چاہئیے؟

شق ثانی دل میں چھپی نیت تو اولاً عرض یہ ہے کہ حلالہ کس وجہ سے مکروہ تحریمی ہے؟
ثانیاً اگر ایک شخص کے دل میں یہ نیت ہو کہ میں شادی تو کر رہا ہوں لیکن اتنے ماہ یا اتنے دن یا اتنے وقت کے بعد طلاق دے دوں گا۔ تو کیا کوئی نص اس پر قدغن لگاتی ہے؟ یاد رہے کہ اس نے زبان سے کچھ نہیں کہا۔
 

راجا

سینئر رکن
شمولیت
مارچ 19، 2011
پیغامات
733
ری ایکشن اسکور
2,574
پوائنٹ
211
دیکھیں میرے محترم بھائی اگر آپ صرف اعتراض کرنا چاہتے ہیں تو الگ بات ہے لیکن اگر آپ میری اصلاح کرنا چاہتے ہیں تو کیا یہ بہتر نہ ہوگا کہ آپ اپنی بات کو دلائل کے ساتھ مبرہن فرما دیں؟
آپ برا نہ منائیں تو عرض کرنے کی جسارت کروں گا کہ بعض اوقات دلائل سے زیادہ یا دلائل کے ساتھ تھوڑی سی غیرت بھی درکار ہوتی ہے، بات کو سمجھنے کے لئے۔



میں عرض کرتا ہوں کہ قرآن نے کہا ہے فلا تحل لہ حتی تنکح زوجا غیرہ
(بعد از تین طلاق کے) وہ اس (ماقبل) شوہر کے لیے حلال نہ ہوگی جب کہ دوسرے شوہر سے نکاح نہ کر آئے۔
یعنی حلال ہونے کی شرط دوسرے شوہر سے نکاح رکھی ہے۔ اور دلالۃ النص سے علم ہوتا ہے کہ اگر دوسرے شوہر سے نکاح کر لیا تو حلال ہو جائے گی۔
یہاں شرط و غیر شرط کی کوئی قید نہیں ہے۔
آپ بتائیے کیا ہونا چاہئیے؟
قرآن نے یہ بھی کہا ہے کہ تم جہاں کہیں ہو، اپنا منہ مسجد حرام کی طرف کر لیا کرو۔ یہاں نماز و غیر نماز کی کوئی قید نہیں ہے۔
آپ بتائیے کیا ہونا چاہئے؟

آپ قرآن کی تفسیر احادیث سے کرنے کو درست مانتے ہیں کہ نہیں؟
قرآن نے تو یہ شرط عائد کی ہے کہ خاتون دوسرے شوہر سے نکاح کرے، تو پہلے کے لئے حلال ہو جائے گی۔
لیکن حدیث تو یہ بھی شرط لگاتی ہے کہ جب تک دوسرے شوہر سے مجامعت نہ ہو، پہلے کے لئے حلال نہیں ہوگی۔ یعنی فقط نکاح حلال کرنے کے لئے کافی نہیں، صحبت ہونا ضروری ہے۔ ۔!
آپ بھی درج بالا دونوں شرائط کو مانتے ہیں۔
اب تیسری شرط حدیث نے ہی لگائی، وہ یہ کہ یہ نکاح پہلے شوہر کے لئے حلال کرنے کی نیت سے نہیں ہونا چاہئے۔ (یعنی حلالہ، کیونکہ یہ لعنتی فعل ہے)۔
آپ یہ تیسری شرط کیوں نہیں مانتے؟
بلکہ آپ یہ کیسے مان لیتے ہیں کہ نکاح میں شرط رکھی جائے کہ میں ایک دن کے بعد اس عورت کو طلاق دینے کی شرط پر نکاح کرتا ہوں۔ ایسا نکاح منعقد ہی کیونکر ہوگا؟ اس کی دلیل آپ کے ذمہ ہے۔
جبکہ نکاح مؤقت یا نکاح متعہ کو آپ بھی جائز و درست نہیں مانتے؟
جب حلالہ کی "شرط" کے ساتھ کیا جانے والا نکاح منعقد ہی نہیں ہوگا، کیونکہ اول تو یہ ایک لعنتی فعل ہے، اور دوم اس لئے کہ یہ نکاح متعہ ہے ، جو ممنوع ہے۔تو حلالہ کے بعد عورت پہلے شوہر کے لئے کیونکر حلال ہو جائے گی؟



شق ثانی دل میں چھپی نیت تو اولاً عرض یہ ہے کہ حلالہ کس وجہ سے مکروہ تحریمی ہے؟
ثانیاً اگر ایک شخص کے دل میں یہ نیت ہو کہ میں شادی تو کر رہا ہوں لیکن اتنے ماہ یا اتنے دن یا اتنے وقت کے بعد طلاق دے دوں گا۔ تو کیا کوئی نص اس پر قدغن لگاتی ہے؟ یاد رہے کہ اس نے زبان سے کچھ نہیں کہا۔
یہاں آپ یہ ضرور بتا دیجئے گا کہ اتنے ماہ یا اتنے دن یا اتنے وقت کے بعد طلاق دینے کی نیت اگر دل میں چھپی نہ ہو، بلکہ نکاح نامے پر لکھی شرط ہو ، تو کیا تب بھی نکاح درست ہے یا نہیں؟

آپ ہی فرمائیے کہ حلالہ کس وجہ سے مکروہ تحریمی ہے؟ کیونکہ ابھی اوپر آپ حلالہ کو بے حیائی، برا فعل وغیرہ کہہ آئے ہیں۔ اور میں نے پچھلی پوسٹ میں کہہ دیا تھا کہ آپ یہ فتویٰ پڑھنے کے بعد، اس کے دفاع میں اپنے ان الفاظ سے دستبردار ہوجائیں گے، اور آپ نے وہی کیا۔

کمال ہے کہ فعل وہی ہے۔ بس اگر دل میں چھپا کر کروں تو کسی قسم کی کراہت نہیں۔ اور اگر بطور شرط نکاح نامے پر لکھ دوں تو مکروہ تحریمی اور حرام اور لعنتی فعل۔
آپ نے صحیح کہا تھا کہ امام بخاری رحمہ اللہ ، امام ابو حنیفہ رحمہ اللہ کی مخالفت کرتے ہیں، ورنہ اعمال کا دارومدار نیت پر ہونے والی حدیث سب سے اول لا کر احناف کے مؤقف کی تردید کیوں کرتے۔ بلکہ اس حدیث کو چھپا جاتے تو معتدل مزاج امام بھی کہلاتے بلکہ سیدالفقہاء و المحدثین وغیرہ کہلانے کے لئے بھی احناف کو اعتراض نہ ہوتا۔

آپ کچھ دیر ٹھنڈے دل سے اطمینان سے اس پورے قضیے پر غور کریں۔ کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے اس فعل پر جو لعنت فرمائی تھی اور اس کو جو بے حیائی، برائی کا کام کہا تھا، کیا احناف نے اسے ایک طرح سے جائز نہیں قرار دے دیا۔ یا نرم سے نرم الفاظ میں بھی اس فعل کی قباحت و شناعت کو ختم نہیں کر دیا؟
 
Top