• الحمدللہ محدث فورم کو نئےسافٹ ویئر زین فورو 2.1.7 پر کامیابی سے منتقل کر لیا گیا ہے۔ شکایات و مسائل درج کروانے کے لئے یہاں کلک کریں۔
  • آئیے! مجلس التحقیق الاسلامی کے زیر اہتمام جاری عظیم الشان دعوتی واصلاحی ویب سائٹس کے ساتھ ماہانہ تعاون کریں اور انٹر نیٹ کے میدان میں اسلام کے عالمگیر پیغام کو عام کرنے میں محدث ٹیم کے دست وبازو بنیں ۔تفصیلات جاننے کے لئے یہاں کلک کریں۔

گھر میں باجماعت نماز کی ادائیگی

اسحاق سلفی

فعال رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
اگست 25، 2014
پیغامات
6,372
ری ایکشن اسکور
2,562
پوائنٹ
791
ایک بھائی نے پروفائل پیغام میں سوال کیا ہے کہ :
’’ کیا آدمی اپنے گھر میں اپنے بیوی ، بچوں کے ساتھ نماز ادا کرسکتا ہے ،اور انکی اماامت کرواسکتا ہے ؟
ــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــ

گھر میں جماعت کروانے کا مسئلہ
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

السلام عليكم ورحمة الله وبركاته

کچھ لوگ ایک مکان میں رہتے ہیں، کیا ان کے لیے یہ جائز ہے کہ وہ اسی مکان میں نماز باجماعت اد اکرلیں یا ان کے لیے مسجد میں نماز ادا کرنا لازم ہے؟

الجواب بعون الوهاب بشرط صحة السؤال


وعلیکم السلام ورحمة اللہ وبرکاته!

الحمد لله، والصلاة والسلام علىٰ رسول الله، أما بعد!
ان لوگوں کے لیے جو ایک مکان میں رہتے ہیں، واجب ہے کہ وہ مسجد میں نمازباجماعت ادا کریں۔ ہر وہ شخص جس کے قرب و جوار میں مسجد موجود ہو، اس کے لیے واجب ہے کہ وہ مسجد میں ہی نماز ادا کرے۔
جب مسجد قریب ہو تو پھر کسی کے لیے، خواہ وہ ایک ہو زیادہ لوگ ہوں گھر میں نماز ادا کرنا جائز نہیں اور اگر مسجد دور ہو اور وہ لوگ اذان کی آواز نہ سنتے ہوں تو پھر گھر میں باجماعت نماز ادا کرنے میں کوئی حرج نہیں۔ اس مسئلہ میں بعض لوگوں کی سستی بعض علماء کے اس قول پر مبنی ہے کہ نماز باجماعت سے مقصود یہ ہے کہ لوگ اجتماعی طور پر نماز ادا کریں، خواہ وہ مسجد کے علاوہ کسی اور جگہ پر ہی کیوں نہ ہوں، اس لئے اگر لوگ گھروں میں باجماعت نماز ادا کرلیں تو انہوں نے گویاکہ اپنے واجب کو ادا کر لیا۔ لیکن صحیح بات یہ ہے کہ نماز باجماعت کا اہتمام مسجدوں میں ہو اور یہ ضروری بھی ہے کیونکہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا ہے:

«وَلَقَدْ هَمَمْتُ أَنْ آمُرَ بِالصَّلٰوةِ فَتُقَامَ ثُمَّ آمُرَ رَجُلًا فَيُصَلِّی بِالنَّاسِ ثُمَّ أَنْطَلِقَ بِرِجَالٍ مَعَهُمْ حُزَمٌ مِنْ حَطَبٍ اِلٰی قَوْمٍ لَّا يَشْهَدُونَ الصَّلٰوةَ فَاُحَرِّقُ عَلَيْهِمْ بُيُوتَهُمْ بِالنَّارِ» صحيح البخاری، الاذان، باب وجوب صلاة الجماعة، ح: ۶۴۴ وصحيح مسلم، المساجد، باب فضل صلاة الجماعة… ح: ۶۵۱ (۲۵۲) واللفظ له۔


’’میرا ارادہ ہے کہ میں نماز کا حکم دوں اور اقامت کہہ دی جائے، پھر میں کسی شخص کو حکم دے دوں کہ وہ لوگوں کو نماز پڑھائے اور پھر میں کچھ چندآدمیوں کو لے کر جن کے پاس ایندھن کا گٹھا ہو، ایسے لوگوں کے پاس جاؤں، جو نماز میں حاضر نہیں ہوتے اور ان کے گھروں کو آگ لگاکر جلا ڈالوں۔‘‘
حالانکہ ممکن ہے ان لوگوں نے اپنی اپنی جگہ نماز ادا کر لی ہو، اس بنیادپر سوال مذکوران لوگوں کے لیے واجب ہے کہ وہ مسجد میں نماز باجماعت ادا کریں الا یہ کہ مسجد بہت دور ہو اور وہاں جانا مشکل ہو۔
وباللہ التوفیق

فتاویٰ ارکان اسلام


نماز کے مسائل
 
Last edited:

اسحاق سلفی

فعال رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
اگست 25، 2014
پیغامات
6,372
ری ایکشن اسکور
2,562
پوائنٹ
791
مسجد قریب ہونے کے باوجود گھر میں نماز
شروع از بتاریخ : 28 May 2013 03:23 PM
السلام عليكم ورحمة الله وبركاته
محلے میں مسجد موجود ہونے کے باوجود گھر کے کسی کمرے کو مسجد بناکر نماز پڑھنے کا کیا حکم ہے۔؟
الجواب بعون الوهاب بشرط صحة السؤال

وعلیکم السلام ورحمة اللہ وبرکاته
الحمد لله، والصلاة والسلام علىٰ رسول الله، أما بعد!

مسجد قریب ہونے کی صورت میں بلا عذر شرعی گھر میں نماز ادا کرنا درست نہیں ہے۔بلکہ مسجد میں جا کر ادا کرنا ضروری ہے۔اس کی دلیل سیدنا ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ کہ وہ حدیث ہے،جس میں نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:
’’ قسم ہے اس ذات کی جس کے ہاتھ میں میری جان ہے،میں نے ارادہ کر لیا تھا کہ لکڑیاں اکٹھی کرنے کا حکم دوں ،پھر نماز کی تکبیر کا حکم دوں،پھر کسی شخص کو نماز پڑھانے کا حکم دے کر ان لوگوں کے گھروں کو جا کر آگ لگا دوں جو نماز کے لئے حاضر نہیں ہوئے۔ (أخرجه البخاري برقم:618)، ومسلم:651)​
سیدنا عبد اللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ ہم نے اپنے آپ کو دیکھا کہ منافق اور مریض کے علاوہ کوئی نماز سے پیچھے نہ رہتا تھا۔(أخرجه مسلم برقم (654)
رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے نابینا صحابی سیدنا عبد اللہ بن ام مکتوم رضی اللہ عنہ کو معذور ہونے کے باجود گھر میں نماز پڑھنے کی اجازت نہیں دی تھی۔
مذکورہ بالا دلائل سے ثابت ہوتا ہے کہ مسجد قریب ہونے کی صورت میں گھر میں یا گھر کے کسی مخصوص کمرے میں نماز کی ادائیگی درست نہیں ہے،بلکہ مسجد میں نماز باجماعت ادا کرنا ضروری ہے۔
ھذا ما عندی واللہ اعلم بالصواب
فتویٰ کمیٹی

محدث فتویٰ
 

اسحاق سلفی

فعال رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
اگست 25، 2014
پیغامات
6,372
ری ایکشن اسکور
2,562
پوائنٹ
791
مسجد ميں نماز باجماعت كا حكم
مسجد ميں نماز باجماعت ادا كرنے كا حكم كيا ہے، اور اس كى دليل كيا ہے ؟
"""""""""""""""""""""""""""""""""
جواب

الحمد للہ :

نماز باجماعت كے دلائل:
پہلى دليل:
اللہ سبحانہ وتعالى كا فرمان ہے:
﴿اور جب آپ ان ميں ہوں اور ان كے ليے نماز كھڑى كرو تو آپ كے ساتھ ايك گروہ نماز ادا كرے، اور چاہيے كہ وہ اپنا اسلحہ ساتھ ركھيں، اور جب وہ سجدہ كر ليں تو وہ ہٹ كر تمہارے پيچھے آ جائيں، اور پھر وہ گروہ آئے جس نے نماز ادا نہيں كى تو وہ آپ كے ساتھ نماز ادا كرے ﴾النساء ( 102 ).

وجہ استدلال:
پہلى وجہ:
اللہ سبحانہ وتعالى نے انہيں نماز باجماعت ادا كرنے كا حكم ديا، اور پھر دوسرے گروہ كو يہى حكم ديتے ہوئے فرمايا:
﴿ اور پھر وہ گروہ آئے جس نے نماز ادا نہيں كى تو وہ آپ كے ساتھ نماز ادا كرے ﴾

اس ميں نماز باجماعت فرض عين ہونے كى دليل ہے، كيونكہ اللہ سبحانہ وتعالى نے پہلے گروہ كى نماز باجماعت كى ادائيگى سے دوسرے گروہ كى نماز باجماعت ادا كرنا ساقط نہيں كى.
اور اگر نماز باجماعت سنت ہوتى تو اس كے ساقط ہونے والے عذروں ميں خوف كا عذر سب سے زيادہ اولى تھا، اور اگر يہ فرض كفايہ ہوتى تو پہلے گروہ كى ادائيگى سے دوسرے گروہ سے ساقط ہو جاتى.
لہذا اس آيت ميں نماز باجماعت فرض عين ہونے كى دليل پائى جاتى ہے.

اس كى تين وجوہات ہيں:
ـ اللہ سبحانہ وتعالى نے پہلے اس كا حكم ديا.
ـ پھر يہى حكم دوبارہ ديا.
ـ خوف اور جنگ كى حالت ميں بھى اسے ترك كرنے كى رخصت نہيں دى.

چوتھى دليل:
1 - صحيحين ميں ـ اور يہ الفاظ بخارى كے ہيں ـ ابو ہريرہ رضى اللہ تعالى عنہ سے مروى ہے كہ رسول كريم صلى اللہ عليہ وسلم نے فرمايا:
" اس ذات كى قسم جس كے ہاتھ ميں ميرى جان ہے، ميں نے ارادہ كيا كہ ايندھن جمع كرنے كا حكم دوں اور وہ جمع ہو جائے تو پھر ميں نماز كے ليے اذان كا حكم دوں اور پھر كسى شخص كو لوگوں كى امامت كرانے كا حكم دوں اور پھر ميں ان مردوں كے پيچھے جاؤں اور انہيں گھروں سميت جلا ڈالوں، اس ذات كى قسم جس كے ہاتھ ميں ميرى جان ہے، اگر كسى كو معلوم ہو جائے كہ اسے موٹى سے گوشت والى ہڈى حاصل ہو گى، يا پھر اسے اچھے سے دو پائے كے كھر حاصل ہونگے تو وہ عشاء كى نماز ميں حاضر ہوں "
صحيح بخارى حديث نمبر ( 7224 ) صحيح مسلم حديث نمبر ( 651 ).
2 - ابو ہريرہ رضى اللہ تعالى عنہ بيان كرتے ہيں كہ رسول كريم صلى اللہ عليہ وسلم نے فرمايا:
" منافقين كے ليے سب سے بھارى عشاء اور فجر كى نماز ہے، اگر انہيں علم ہو كہ اس ميں كيا ( اجروثواب ) ہے تو وہ اس كے ليے ضرور آئيں چاہے گھسٹ كر آئيں، اور ميں نے ارادہ كيا ہے كہ نماز كى اقامت كا حكم دوں پھر ايك شخص كو نماز پڑھانے كا حكم دوں، اور پھر اپنے ساتھ كچھ آدمى ليكر جاؤں جن كے ساتھ لكڑيوں كا ايندھن ہو اور جو لوگ نماز كے ليے نہيں آئے انہيں گھروں سميت جلا كر راكھ كر دوں " متفق عليہ.

3 - امام احمد رحمہ اللہ تعالى نے ابو ہريرہ رضى اللہ تعالى عنہ ہى سے روايت كى ہے كہ نبى كريم صلى اللہ عليہ وسلم نے فرمايا:

" اگر گھروں ميں عورتيں اور اولاد نہ ہوتى تو ميں عشاء كى نماز كھڑى كرتا، اور اپنے نوجوانوں كو حكم ديتا كہ جو گھروں ميں ہيں انہيں جلا كر راكھ كر دو "

4 - نبى كريم صلى اللہ عليہ وسلم نے اپنے ارادہ كو عملى جامہ اس ليے نہيں پہنايا كہ اس ميں وہ مانع موجو تھا جس كى انہوں نے خبر بھى دى، وہ يہ كہ گھروں ميں وہ افراد بھى ہيں يعنى عورتيں اور بچے جن پر نماز باجماعت فرض نہيں، اور اگر وہ ان گھروں كو جلا كر راكھ كر ديتے تو سزا ايسے افراد كو بھى مل جاتى جن پر نماز باجماعت واجب نہ تھى.

پانچويں دليل:

اور امام مسلم رحمہ اللہ تعالى نے ابو ہريرہ رضى اللہ تعالى عنہ سے بيان كيا ہے كہ:

" ايك نابينا شخص نبى كريم صلى اللہ عليہ وسلم كے پاس آيا اور عرض كى: اے اللہ تعالى كے رسول صلى اللہ عليہ وسلم مجھے مسجد تك لانے كے ليے كوئى شخص نہيں، چنانچہ رسول كريم صلى اللہ عليہ وسلم نے اسے اپنے گھر ميں نماز ادا كرنے كى رخصت دے دى، اور جب وہ جانے كے ليے پلٹا تو رسول كريم صلى اللہ عليہ وسلم نے اسے بلايا اور فرمانے لگے:

كيا تم نماز كے ليے اذان سنتے ہو ؟ تو اس نے جواب ديا: جى ہاں تو رسول كريم صلى اللہ عليہ وسلم نے فرمايا: پھر آيا كرو "

يہ نابينا صحابى ابن ام مكتوم رضى اللہ تعالى عنہ تھے.

اور مسند احمد اور سنن ابو داود ميں عمرو بن ابن ام مكتوم رضى اللہ تعالى عنہ سے مروى ہے وہ بيان كرتے ہيں ميں نے عرض كيا:

" اے اللہ تعالى كے رسول صلى اللہ عليہ وسلم ميں نابينا ہوں، ميرا گھر دور ہے، اور مجھے لانے والا ميرى موافقت نہيں كرتا، كيا آپ مجھے گھر ميں نماز ادا كرنے كى رخصت ديتے ہيں ؟

تو رسول كريم صلى اللہ عليہ وسلم نے فرمايا:

" كيا تم اذان سنتے ہو؟ تو اس نے جواب ديا: جى ہاں، چنانچہ رسول كريم صلى اللہ عليہ وسلم نے فرمايا:

" ميں تيرے ليے رخصت نہيں پاتا "

مطلق امر وجوب كے ليے ہے، تو پھر جب شارع اس كى صراحت كرتے ہوئے يہ كہہ ديں كہ نابينا اور دور گھر والا شخص جسے لانے والا بھى اس كے موافق نہ ہو كو بھى رخصت نہيں ہے، تو كيا حكم ہو گا.

اگر بندے كو اكيلے يا نماز باجماعت ادا كرنے كا اختيار ہوتا تو پھر اس طرح كا نابينا شخص اختيار كا زيادہ حقدار تھا.

چھٹى دليل:

ابو داود، ابو حاتم، اور ابن حبان نے صحيح ابن حبان ميں ابن عباس رضى اللہ تعالى عنہما سے روايت كيا ہے كہ رسول كريم صلى اللہ عليہ وسلم نے فرمايا:

" جس نے اذان سنى اور اس قبول كرنے ميں كسى عذر نہ روكا، ان سے عرض كيا گيا عذر كيا ہے ؟ تو انہوں نے جواب ديا: خوف يا بيمارى ، تو اس كى ادا كردہ نماز قبول نہيں ہو گى "

ساتويں دليل:

ابن مسعود رضى اللہ تعالى كہتے ہيں:

( جسے يہ بات اچھى لگتى ہے كہ وہ كل اللہ تعالى كو مسلمان ہو كر ملے تو اسے يہ نمازيں وہاں ادا كرنے كا التزام كرنا چاہيے جہاں اذان ہوتى ہے، كيونكہ اللہ سبحانہ وتعالى نے تمہارى نبى كريم صلى اللہ عليہ وسلم كے ليے سنن الھدى مشروع كيں، اور يہ سنن الھدى ميں سے ہيں، اگر اپنے گھر ميں پيچھے رہنے والے شخص كى طرح تم بھى اپنے گھروں ميں نماز ادا كرو تو تم نے اپنے نبى كى سنت كو ترك كر ديا، اور اگر تم اپنے نبى كى سنت ترك كرو گے تو تم گمراہ ہو جاؤ گے، جو شخص بھى اچھى طرح وضوء كر كے ان مساجد ميں سے كسى ايك مسجد جائے تو ہر قدم كے بدلے اللہ تعالى ايك نيكى لكھتا اور ايك درجہ بلند كرتا، اور اس كى بنا پر ايك برائى كو مٹاتا ہے، ہم نے ديكھا كہ منافق جس كا نفاق معلوم ہوتا وہى اس سے پيچھے رہتا، ايك شخص كو لايا جاتا اور وہ دو آدميوں كے درميان سہارا لے كر آتا اور اسے صف ميں كھڑا كر ديا جاتا )

اور ايك روايت كے الفاظ ہيں:

اور انہوں نے عرض كيا:

" اے اللہ تعالى كے رسول صلى اللہ عليہ وسلم ہميں سنن الھدى سكھائيں اور سنن ہدى ميں سے يہ ہے كہ جس مسجد ميں اذان ہو وہاں نماز باجماعت ادا كى جائے "

وجہ دلالت:

انہوں نے نماز باجماعت سے پيچھے رہنا ان مفافقين كى علامت بتائى جن كا نفاق معلوم ہو.

اللہ تعالى سے دعاء ہے كہ وہ اپنے ذكر و شكر اور اپنى حسن عبادت ميں ہمارى مدد و تعاون فرمائے.

واللہ اعلم .

الشيخ محمد صالح المنجد
 
شمولیت
اگست 11، 2013
پیغامات
17,117
ری ایکشن اسکور
6,783
پوائنٹ
1,069
السلام علیکم ورحمتہ اللہ وبرکاتہ !

شیخ اگر قریب میں صحیح منہج والوں کو مسجد قریب میں موجود نہ ہو اور جو مساجد قریب ہے وہ اہل بدعت والوں کی ہے جہاں مسجد کے اندر یا رسول اللہ کے پوسٹر لگے ہو - اس کے علاوہ ایسی مسجد جہاں نماز کے بعد بدعت کا اہتمام ہوتا ہے جیسے مسجد میں اجتماعی ذکر وہ بھی گھٹلیوں کی شکل میں ہوتا ہو تو کیا ایسی صورت میں گھر میں نماز پڑھیں یا پھر مسجد میں اکیلے نماز پڑھے -
 

عمر اثری

سینئر رکن
شمولیت
اکتوبر 29، 2015
پیغامات
4,404
ری ایکشن اسکور
1,128
پوائنٹ
412
جزاکم اللہ خیرا واحسن الجزاء.
اللہ آپ کے علم وعمل میں برکت عطا فرماۓ.
 

abulwafa

مبتدی
شمولیت
اکتوبر 22، 2015
پیغامات
32
ری ایکشن اسکور
3
پوائنٹ
13
بهت بهت شکریہ۔۔


جزاکم اللہ خیرا
 

abulwafa

مبتدی
شمولیت
اکتوبر 22، 2015
پیغامات
32
ری ایکشن اسکور
3
پوائنٹ
13
وضو کن کن چیزو سے ٹوٹتا هے۔۔


کیا نشا والی چیزیں کهانے پینے سے وضو ٹوٹ جاتا هے۔۔
جبکی سگریٹ وغیرہ حرام ہے کیا وضو کے بعد ایسی نشا والی چیزیں کها کر نماز پڑہ سکتے هے ۔۔۔۔۔۔۔۔۔؟
 
Top