• الحمدللہ محدث فورم کو نئےسافٹ ویئر زین فورو 2.1.7 پر کامیابی سے منتقل کر لیا گیا ہے۔ شکایات و مسائل درج کروانے کے لئے یہاں کلک کریں۔
  • آئیے! مجلس التحقیق الاسلامی کے زیر اہتمام جاری عظیم الشان دعوتی واصلاحی ویب سائٹس کے ساتھ ماہانہ تعاون کریں اور انٹر نیٹ کے میدان میں اسلام کے عالمگیر پیغام کو عام کرنے میں محدث ٹیم کے دست وبازو بنیں ۔تفصیلات جاننے کے لئے یہاں کلک کریں۔

ھائیرایجوکیشن اور شادیاں ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

شمولیت
ستمبر 04، 2017
پیغامات
4
ری ایکشن اسکور
0
پوائنٹ
33
ھائیرایجوکیشن کے فروغ کے ساتھ جڑے ایک معاشرتی مسئلے کی طرف توجہ دلائی گئی ہے جس کا تعلق بچیوں کی شادیوں سے ہے۔ ھائیر ایجوکیشن کا ایک مقصد ہمارے یہاں بچیوں کے اچھے رشتے کا حصول رہا ہے (اسے "میریج ریٹرن آف ایجوکیشن" کہتے ہیں) جس کے تحت لوگ بچیوں کو بالخصوص ڈاکٹربنانے کی کوشش کیا کرتے ہیں۔ وقت کے ساتھ اس میں دیگر ڈگریاں بھی شامل ہوگئی ہیں۔ "تعلیم مکمل کرنے" کے دوران بچیوں کی عمر بائیس تئیس سال تک پہنچ جاتی ہے، اور پھر تعلیمی اعتبار سے "ہم پلہ" (کفو میں) رشتہ دستیاب ہونے میں مشکلات پیش آنا شروع ہوجاتی ہیں۔ پھر بے کار بیٹھے انتظار کرنے کے بجائے "مزید تعلیم" کے لئے ایم فل/ایم ایس یا پی ایچ ڈی میں داخلہ لے لیتی ہیں مگر ایسا کرتے وقت یہ بھول جاتی ہیں کہ اس کے بعد وہ آبادی کے پیرامڈ (pyramid) کے اس مزید چھوٹے حصے میں شامل ہونے والی ہیں جہاں ان کے ھم پلہ مردوں کی تعداد مزید کم ہوجاتی ہے۔ نتیجتا ھم پلہ رشتے کا حصول مزید مشکل تر ہوجاتا ہے۔ اس عمل میں بچیوں کی جوانی ڈھلنے لگتی ہے اور آھستہ آھستہ ان کی فطری کشش میں بھی کمی آنے لگتی ہے۔ تعلیم کے اعتبار سے آبادی کے جس پیرامڈ میں پہنچنے کے لئے یہ قربانی دی جاتی ہے اس پیرامڈ میں شامل لڑکوں کے لئے پھر نسبتا کم عمر بچیوں سے شادی کے بے پناہ مواقع موجود ہوتے ہیں۔ پھر متعدد وجوہات کی بنا پر ان زیادہ پڑھی لکھی لڑکیوں کا ایک حصہ خود کو شادی سے ہی دستبردار کرلیتا ہے۔ یوں سمجھئے کہ یہ ایک vicious circle ہے جس میں ایک مرتبہ داخل ہونے کے بعد نکلنے کے امکانات کم ہوتے چلے جاتے ہیں۔

اس تعلیمی پراسس کا ایک مزید پہلو آبادی کی ڈیموگرافی پر اس کے اثرات بھی ہیں۔ عام طور پر یہ مشاہدہ ہے کہ زیادہ پڑھے لکھے میاں بیوی کم پڑھے لکھے جوڑوں کے مقابلے میں نسبتا کم بچے پیدا کرتے ہیں۔ اس کا نتیجہ یہ ہوگا کہ کم پڑھے لکھے جوڑوں کی آبادی کی شرح معاشرے میں کم ہوتی رہے گی۔

یہ کس قدرعجیب معاملہ ہے کہ "بچیوں کو تعلیم دو تاکہ وہ اچھی ماں بن سکیں" کے نام سے شروع کیا جانے والا تعلیمی پراسس اس امر پر منتج ہوجاتا ہے کہ زیادہ تعلیم کے بعد بچیاں ماں ہی بننے پر راضی نہیں ہوتیں! چنانچہ ہمیں سوچنا پڑے گا کہ یہ کوئی حادثہ ہے یا "تعلیم" کے نام پر دی جانے والی جنس میں ہی کہیں ایسے مسائل تو نہیں کہ اس سے یہ نتیجہ برآمد ہوتا ہے؟ اس صورت میں ہمیں اپنی معاشرتی ترجیحات کو سامنے رکھتے ہوئے تعلیم کے پیمانے درست کرنا ہونگے۔
 

یوسف ثانی

فعال رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
ستمبر 26، 2011
پیغامات
2,767
ری ایکشن اسکور
5,409
پوائنٹ
562
اصل میں ہمیں مغربی اور سیکولر تہذیب نے یہ باور کرادیا ہے کہ جو بچے یا بچیاں اعلیٰ تعلیم حاصل کررہے ہیں یا کرنا چاہتے ہیں، انہیں اس وقت تک شادی نہیں کرنی چاہئے جب تک وہ اپنی تعلیم مکمل نہ کرلیں اور بچے اس اعلیٰ تعلیم کے بعد بھی اچھا خاصا روزگار کماتے ہوئے اپنے پاوں پر نہ کھڑے ہوجائیں۔ چونکہ ان کی تہذیب میں اس دوران شادی کئے بغیر بھی مرد و زن کے باہمی تعلقات میں کسی بھی قسم کی کوئی رکاوٹ موجود نہیں ہے، اس لئے انہیں بعد از تعلیم شادی کے فلسفہ میں کوئی خامی نظر نہیں آتی جبکہ مسلم سماج میں اس دوران جوان بچے اور بچیاں بہت بڑے عذاب سے گذر رہے ہوتے ہیں۔

مسلم والدین اور نوجوان بچے بچیوں دونوں کو شادی سے متعلق اس کفریہ فلسفہ سے نجات پانا ہوگا اور انہیں شادی سے متعلق اسلامی تعلیمات کو اپنانا ہوگا جس میں بلوغت کے فورا بعد، جتنی جلدی ممکن ہوسکے شادی کی طرف راغب ہونا ہوگا۔ دنیا کے دیگر سارے کام بشمول تعلیم، روزگار وغیرہ شادی کے بعد بھی جاری یا شروع کئے جاسکتے ہیں جیسا کہ نام نہاد جدید تہذیب سے قبل دنیا بھر میں جاری و ساری تھے۔ اس کے لئے ہمیں من حیث القوم اپنے ایمان کو مضبوط بنانا ہوگا اور اس بات پر یقین رکھنا ہوگا کہ اللہ نے ہر انسان کے لئے رزق کا وعدہ کیا ہوا ہے۔ اور جو غریب ہیں ان کے لئے شادی کے بعد وسائل میں فراوانی کا بھی وعدہ ہے۔ اس لئے پہلے تعلیم، پھر روزگار، پھر شادی کا کفریہ فلسفہ ترک کرنا ہوگا۔آج بھی اسی سماج میں ایسے ایمان والے بھی موجود ہیں جو شادی کرکے بھی اعلیٰ تعلیم حاصل کررہے ہوتے ہیں۔ اور اس میں طلبہ و طالبات کی کوئی قید نہیں۔ مثال کے طور پر میری بیٹی کے تعلیمی بیچ کے تین ساڑھے تین سو طلبا و طالبات میں سے ایک طالبہ ایسی بھی تھی جس کی شادی دوران تعلیم ہی ہوگئی اورمکمل ڈاکٹر بننے تک وہ دو بچوں کی ماں بن چکی تھی۔ کیا بقیہ طلبہ و طالبات اس مثال پر عمل نہیں کرسکتے؟
 
Top