• الحمدللہ محدث فورم کو نئےسافٹ ویئر زین فورو 2.1.7 پر کامیابی سے منتقل کر لیا گیا ہے۔ شکایات و مسائل درج کروانے کے لئے یہاں کلک کریں۔
  • آئیے! مجلس التحقیق الاسلامی کے زیر اہتمام جاری عظیم الشان دعوتی واصلاحی ویب سائٹس کے ساتھ ماہانہ تعاون کریں اور انٹر نیٹ کے میدان میں اسلام کے عالمگیر پیغام کو عام کرنے میں محدث ٹیم کے دست وبازو بنیں ۔تفصیلات جاننے کے لئے یہاں کلک کریں۔

ھِدایۃ المُستفید اُردُو ترجمہ فتح المجید شرح کتابُ التوحید

محمد نعیم یونس

خاص رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
اپریل 27، 2013
پیغامات
26,582
ری ایکشن اسکور
6,748
پوائنٹ
1,207
شفاعت کی دو قسمیں

شفاعت کی دو قسمیں۔
باب الشفاعۃ

اس باب میں بیان کیا گیا ہے کہ سفارِش کی دو قسمیں ہیں۔ ایک سفارش وہ ہے جو قرآن کریم سے ثابت ہے اور دوسری سفارِش وہ ہے جس کے قائل مشرک ہیں۔
قولہ وَ اَنْذِرْ بِہِ الَّذِیْنَ یَخَافُوْنَ اَنْ یُّحْشَرُوْا اِلٰی رَبِّھِمْ لَیْسَ لَھُمْ مِّنْ دُوْنِہٖ وَلِیٌّ وَّ لَا شَفِیْعٌ لَّعَلَّھُمْ یَتَّقُوْنَ (انعام:۵۱)۔
اور اے محمد ( صلی اللہ علیہ وسلم ) تم اسِ (علم وحی) کے ذریعہ سے اُن لوگوں کو نصیحت کرو جو اِس بات کا خوف رکھتے ہیں کہ اپنے رب کے سامنے کبھی اس حال میں پیش کئے جائیں گے کہ اُس کے سوا وہاں کوئی (ایسا ذی اقتدار) نہ ہو گا جو ان کا حامی اور مددگار ہو یا ان کی سفارش کرے شاید کہ (اس نصیحت سے متنبہ ہو کر) وہ خوفِ الٰہی کی روش اختیار کر لیں‘‘ـ۔
قولہ تعالیٰ قُلْ لِّلَّہِ الشَّفَاعَۃُ جَمِیْعًا (سورئہ زمر:۴۴)
کہو شفاعت ساری کی ساری اللہ کے اختیار میں ہے۔
علامہ بیضاوی رحمہ اللہ اپنی مشہور تفسیر میں فرماتے ہیں:
’’مشرکین جن لوگوں کو اپنا شفاعت کنندہ سمجھتے ہیں اُن کے بارے میں ان کی رائے یہ ہے کہ چونکہ یہ مقرب اور برگزیدہ ہیں اس لئے یہ ہماری شفاعت کریں گے۔ قرآن مجید نے یہ کہہ کر کہ سفارش کا اختیار صرف اللہ ہی کو ہے اس عقیدہ کی تردید کی ہے‘‘۔
مفسر قرآن علامہ ابن جریر الطبری رحمہ اللہ فرماتے ہیں:
’’مشرکین نے یہ کہا کہ ہم کسی وثن اور صنم کی قطعاً پوجا نہیں کرتے ہم تو ان اولیائے کرام کے نام کی نذرونیاز صرف اس لئے دیتے ہیں تاکہ یہ لوگ ہم گنہگاروں کے لئے قربِ الٰہی کا ذریعہ اور وسیلہ بن جائیں۔
اس موقع پر اللہ تعالیٰ نے یہ آیات نازل فرمائیں:
(ترجمہ) ’’زمین و آسمان کی بادشاہت اللہ ہی کے لئے ہے اور پھر اسی کی طرف لوٹنا ہے‘‘۔ (سورئہ یٰسین:۸۳) یعنی سفارش بھی اُسی کی ہو گی جس کے قبضہ و قدرت کے دائرے آسمان و زمین تک وسعت پذیر ہیں‘‘۔
قولہ تعالیٰ مَنْ ذَا الَّذِیْ یَشْفَعُ عِنْدَہٗ اِلَّا بِاِذْنِہٖ (البقرۃ:۲۵۵)
کون ہے جو اُس کی جناب میں اُس کی اجازت کے بغیر سفارش کر سکے؟
اس آیت کریمہ میں اُس شفاعت کا ذکر ہے جو میدانِ محشر میں اللہ تعالیٰ کی اجازت اور اس کے حکم سے کی جائے گی۔ اس سلسلے میں ارشادِ باری تعالیٰ ہے:
(ترجمہ) اُس روز سفارش کچھ فائدہ مند نہ ہو گی مگر اُس شخص کی جس کو اللہ تعالیٰ اجازت دے دے، اور اس کی بات کو پسند فرما لے‘‘۔
اس سے پتہ چلا کہ جب کسی شخص میں دو شرطیں پائی جائیں گی تو وہ سفارش کر سکے گا:
۱۔ جس کو اللہ تعالیٰ اجازت دیدے کہ تم سفارش کر سکتے ہو۔
۲۔ جس کے لئے شفاعت کرنے پر اللہ تعالیٰ راضی ہو جائے۔

قولہ تعالٰی وَ کَمْ مِّنْ مَّلَکٍ فِی السَّمٰوٰتِ لَا تُغْنِیْ شَفَاعَتُھُمْ شَیْئًا اِلَّا مِنْ بَعْدِ اَنْ یَّاْذَنَ اﷲُ لِمَنْ یَّشَاؓءُ وَ یَرْضٰی (النجم:۲۶)
آسمانوں میں کتنے ہی فرشتے موجود ہیں، ان کی شفاعت کچھ بھی کام نہیں آ سکتی جب تک کہ اللہ کسی ایسے شخص کے حق میں اِس کی اجازت نہ دے جس کے لئے وہ کوئی عرضداشت سننا چاہے اور اُس کو پسند کرے۔
اس آیت کریمہ اور سابقہ دونوں آیات کا مطلب ایک ہی ہے۔ علامہ ابن کثیر رحمہ اللہ فرماتے ہیں کہ
’’جب مقرب اور برگزیدہ فرشتوں کا یہ علم ہے کہ وہ بھی بارگاہِ قدس میں دم نہیں مار سکتے تو یہ جاہل اور احمق لوگ غیر اللہ اور معبودانِ باطل سے کس طرح توقع اور اُمید لگائے بیٹھے ہیں؟ جن کی عبادت کا اللہ تعالیٰ نے نہ شریعت میں کوئی حکم فرمایا اور نہ اجازت دی۔ بلکہ اس کے برعکس تمام انبیائے کرام کے ذریعہ سے اس کی تردید اور ممانعت فرمائی، اور اپنی نازل کردہ کتب میں اس کی نفی کی‘‘ـ
قُلِ ادْعُوا الَّذِیْنَ زَعَمْتُمْ مِّنْ دُوْنِ اﷲِ (بنی اسرائیل:۵۶)
(اے نبی صلی اللہ علیہ وسلم ! ان مشرکین سے) کہو کہ پکار دیکھو اُن اپنے معبودوں کو جنہیں تم اللہ کے سوا اپنا معبود سمجھ بیٹھے ہو۔
امام ابن قیم رحمہ اللہ ان آیات پر بحث کرتے ہوئے رقمطراز ہیں کہ:
’’اللہ تعالیٰ نے ان تمام اسباب اور ذرائع کو کالعدم قرار دے دیا ہے جن کو کسی نہ کسی صورت میں مشرکین عقیدئہ سفارش کو ثابت کرنے کے لئے استعمال کرتے ہیں۔ اس لئے کہ مشرک غیر اللہ کو صرف اس لئے معبود بناتا ہے کہ اُسے اس سے کوئی فائدہ اور نفع حاصل ہو لیکن جب تک کسی شخص میں مندرجہ ذیل چھ صفات نہ پائی جائیں اس وقت تک اُس سے نفع کی توقع عبث ہے:
۱۔ اسے نفع اور فائدہ پہنچانے پر قدرت یا ملکیت اور اختیار ہو۔
۲۔ ملکیت حاصل نہ ہو تو شریک ملکیت ہو۔
۳۔ شرکت بھی میسر نہ ہو تو مالک کا معین و مددگار ہو۔ ۴۔ اگر مددگار بھی نہیں تو کم از کم مالک کے ہاں اس کی یہ حیثیت تو مُسَلَّم ہو کہ اس کی سفارش مانی جاتی ہے۔
۵۔ اُس کے پاس ایسی ہی سلطنت و ملکیت ہو۔
۶۔ طاقت و قوت میں اُس سے بڑھ کر ہو۔


پس ایک عقلمند، اور صاحب بصیرت شخص کے لئے اس آیت میں ہدایت اور دلائل کی دولت موجود ہے اور توحید الٰہی سمجھنے کے لئے شمع نور ہویدا ہے۔ شرک و بدعت کی جڑیں کاٹنے کے لئے یہ آیات تلوارِ بے نیام کی حیثت رکھتی ہیں۔ حقیقت یہ ہے کہ قرآن کریم اس قسم کی آیات سے بھرا پڑا ہے لیکن افسوس ہے کہ لوگوں کی اکثریت اس پر غور کرنے کے لئے تیار نہیں۔ اس کی وجہ صرف ایک ہے وہ یہ کہ لوگوں میں شعور کا مادہ ختم ہو چکا ہے اور شرک و بدعت میں اس قدر آگے نکل گئے ہیں کہ اُن کا واپس آنا مشکل نظر آتا ہے کہ مشرکین یہ خیال کرتے ہیں کہ ان کے آباؤ واجداد نے جو سوچ اور فکر ان کو دی ہے وہ اس کے واحد وارث ہیں جس کی حفاظت ان کا فرض ہے یہی وہ چیز ہے جس کی وجہ سے انسان کا قلب فہم قرآن کی طرف مائل نہیں ہے۔
اللہ کی قسم! ان مشرکین کے آباؤ و اجداد، اپنے ہی جیسوں کو یا اپنے سے زیادہ شریروں کو وارث بنا گئے ہیں چنانچہ قرآن پاک ان کو اور انُ کو برابر رکھتا ہے۔

علامہ ابن قیم رحمہ اللہ ان آیات کے بارے میں فرماتے ہیں کہ:
’’٭مردوں سے اپنی حاجات طلب کرنا۔ اور ٭اُن سے استغاثہ اور فریاد کرنا۔ دنیا میں سب سے بڑا شرک ہے۔ اس لئے کہ انسان کے مرنے کے بعد اس کے اعمال کا سلسلہ منقطع اور ختم ہو چکا ہے۔ اور جب وہ خود اپنی جان کے نفع و نقصان کا بھی مالک نہیں رہا تو وہ دوسرے کی فریاد سن کر کیا جواب دے گا؟ اب تو دوسروں کی شفاعت اس کے لئے ممکن ہی نہیں رہی۔ شفاعت طلب کرنے والا اور جس کو شفاعت کنندہ سمجھ لیا گیا دونوں ہی اللہ تعالیٰ کی بارگاہ میں برابر ہیں کیونکہ اللہ تعالیٰ کی بارگاہِ قدس میں اس کی اجازت کے بغیر کسی کی شفاعت کرنا تو درکنار اونچی آواز سے بول بھی نہیں سکتا۔ اور سب سے غور طلب مسئلہ یہ ہے کہ اللہ تعالیٰ نے غیر اللہ سے استغاثہ، فریاد رسی اور سوال کرنے کو اپنی رضا کا سبب اور ذریعہ بھی نہیں قرار دیا بلکہ اس کو عدم اجازت اور شرک سے تعبیر فرمایا ہے اور اپنے غضب اور قہر کا باعث ٹھہرایا ہے۔ اب ہر مشرک کی یہ کیفیت ہو چکی ہے کہ اس نے غیر اللہ سے فریاد کر کے حقیقت میں اپنی حاجت اور طلب کے درمیان اللہ تعالیٰ کی ناراضی کو حائل کر لیا ہے۔ معبودِ حقیقی کے ساتھ شرک اُس کے دین خالص میں تغیر و تبدل، اہل توحید سے عداوت اور دشمنی یہ سب عیب مشرکین نے اپنے اندر جمع کر رکھے ہیں۔ ان کا شرک کرنا، خالق کائنات میں عیب اور نقص نکالنے کے مترادف ہے۔ اللہ تعالیٰ کے برگزیدہ بندوں اور موحدین کی مذمت اور ان سے عداوت ہے۔
ان کا یہ کہنا غلط ہے کہ اہل توحید مردوں کی تنقیص کرتے ہیں حالانکہ خود ان کا عمل یہ ہے کہ شرک کی وجہ سے اللہ تعالیٰ کی تنقیص کے مرتکب ہوتے ہیں اور ان لوگوں کی تنقیص کے مرتکب ہوتے ہیں جن کو یہ اللہ کا شریک ٹھہراتے ہیں۔ ان معنوں میں کہ اللہ کے بارے میں ان کا یہ عقیدہ ہے کہ یہ بزرگ ان کے اس شرک پر خوش ہیں اور یہ کہ خود انہوں نے ان کو شرک کی تلقین کی ہے اور یہ ان کی دوستی کا دم بھرتے ہیں یہ نہیں جانتے کہ شرک کرنے والے انبیاء و رُسل کے ہر دور میں اور ہر جگہ دشمن تصور کئے گئے ہیں۔ خصوصاً جن کو اللہ تعالیٰ کا شریک ٹھہرا لیا گیا ان میں تو بہت زیادہ نقص نکالنے کی اس وجہ سے کوشش کی گئی کہ وہ ہماری ان عبادتوںپر راضی ہیں اور یہ کہ ان کو اس قسم کی عبادات کا انہوں نے خود حکم دیا تھا اور اس عبادت سے وہ خوش ہوتے ہیں۔
اس طرح کا کردار ادا کرنے والے مشرکین ہمیشہ کثیر تعداد میں اس دنیا میں رہے ہیں اور انہوں نے ہمیشہ انبیاء کرام علیہم السلام کی مخالفت کی ہے۔ اس شرکِ اکبر سے وہی بچ سکتا ہے جو توحید صرف اللہ کے لئے خاص کرے، اللہ تعالیٰ کی رضا کے لئے مشرکین سے دشمنی مول لے، انکے ظلم و ستم برداشت کر کے اللہ کا قرب حاصل کرنے کی کوشش کرے، اور صرف ایک اللہ تعالیٰ کو اپنا دوست، الٰہ اور معبود سمجھے، تمام دنیا کی محبت کو دِل سے نکال کر صرف اللہ سے پیمانِ محبت باندھے۔ ساری کائنات کا ڈر قلب سے محو کر کے فقط اللہ تعالیٰ ہی سے ڈرے، اللہ ہی سے اپنی اُمیدیں وابستہ رکھے اور اپنی عجز و انکساری صرف اسی کے سامنے پیش کرے۔ توکل اور بھروسہ ہو تو اللہ پر، کسی وقت امداد کا طالب ہو تو اللہ سے، گڑگڑائے تو اُسی کے سامنے، استغاثہ دائر کرے تو اُسی کی بارگاہِ قدس میں، مقصود و منتہیٰ اسی کو قرار دے، غرض اپنے تمام اُمور اس کی مرضی اور حکم کے مطابق انجام دینے کی عادت ڈالے اور اسی کی رضا کا طالب رہے جب سوال کرے تو اُسی ایک اللہ سے۔ اعانت کا خواہاں ہو تو اُسی ایک اللہ سے۔ کوئی بھی عمل کرے تو اُسی وحدہ لا شریک لہ کے لئے۔ خود بھی اور اپنے تمام اُمور اور معاملات میں بھی صرف اللہ تعالیٰ کا ہی ہو کر رہ جائے‘‘۔
امام ابن قیم رحمہ اللہ نے ان آیات پر جو سیر حاصل بحث کی ہے حقیقت میں انہوں نے دین اسلام کا بہترین نقشہ کھینچ کر سامنے رکھ دیا ہے۔
قال ابو العباس رحمہ اللہ نَفَی اﷲُ عَمَّا سِوَاہُ کُلَّ مَا یَتَعَلَّقُ بِہِ الْمُشْرِکُوْنَ فَنَفٰی اَنْ یَّکُوْنَ لِغَیْرِہٖ مِلْکٌ اَوْ قِسْطٌ مِّنْہُ اَوْ یَکُوْنَ عَوْنًا لِّلّٰہِ وَ لَمْ یَبْقَ اِلَّا الشَّفَاعَۃُ فَبَیَّنَ اَنَّھَا لَا تَنْفَعُ اِلَّا لِمَنْ اَذِنَ لَہُ الرَّبُ کَمَا قَالَ وَلَا یَشْفَعُوْنَ اِلَّا لَمِنِ ارْتَضٰی فَھٰذِہِ الشَّفَاعَۃُ الَّتِیْ یَظُنُّھَا الْمُشْرِکُوْنَ ھِیَ مُنْتَفِیَۃٌ یَّوْمَ الْقِیٰمَۃِ کَمَا نَفَاھَا الْقُرْاٰنُ وَ اَخْبَرَ النَّبِیُّ صلی اللہ علیہ وسلم اَنَّہٗ یَاْتِیْ فَیَسْجُدُ لِرَبِّہٖ وَ یَحْمَدُہٗ لَا یَبْدَاُ بِالشَّفَاعَۃِ اَوَّلًا ثُمَّ یُقَالُ لَہٗ اِرْفَعْ رَاْسَکَ وَ قُلْ یُسْمَعْ وَ سَلْ تُعْطَ وَ اشْفَعْ تُشَفَّعْ وَ قال ابو ھریرۃ رضی اللہ عنہ مَنْ اَسْعَدُ النَّاسِ بِشَفَاعَتِکَ یَا رَسُوْلَ اﷲِ قَالَ مَنْ قَالَ لَآ اِلٰہَ اِلَّا اﷲُ خَالِصًا مِّنْ قَلْبِہٖ فَتِلْکَ الشَّفَاعَۃُ لِاَھْلِ الْاِخْلَاصِ بِاِذْنِ اﷲِ وَ لَا تَکُوْنُ لِمَنْ اَشْرَکَ بِاﷲِ وَ حَقِیْقَتُہٗ اَنَّ اﷲَ سُبْحَانَہٗ ھُوَ الَّذِیْ یَتَفَضَّلُ عَلٰی اَھْلِ الْاَخْلَاصِ فَیَغْفِرُ لَھُمْ بِوَاسِطَۃِ دُعَاؓءِ مَنْ اَذِنَ لَہٗ اَنْ یَّشْفَعَ لِیُکْرِمَہٗ وَ یَنَالَ الْمَقَامَ الْمَحْمُوْدَ فَالشَّفَاعَۃُ الَّتِیْ نَفَاھَا الْقُرْاٰنُ مَا کَانَ فِیْھَا شِرْکٌ وَ لِھٰذا اَثْبَتَ الشَّفَاعَۃَ بِاِذْنِہٖ فِیْ مَوَاضِعَ وَ قَدْ بَیَّنَ النَّبِیُّ صلی اللہ علیہ وسلم اَنَّھَا لَا تَکُوْنُ اِلاَّ لِاَھْلِ التَّوْحِیْدِ وَ الْاِخْلَاصِ انتھی
شیخ الاسلام امام ابن تیمیہ رحمہ اللہ فرماتے ہیں کہ
اللہ تعالیٰ نے تمام مخلوق سے ان باتوں کی نفی کر دی جن سے مشرکین سند پکڑتے ہیں اور خصوصاً اس بات کی نفی کہ اللہ تعالیٰ کے سوا کسی کو آسمان و زمین میں کسی قسم کی قدرت ہو یا قدرت کا کچھ حصہ یا وہ اللہ کی کچھ مدد کرتے ہوں۔ باقی رہی سفارش، تو یہ بھی اُسے نفع دے گی جس کے بارے میں ربِّ کریم اجازت عطا فرمائے، جیسا کہ فرمایا: ’’وہ کسی کی سفارش نہیں کرتے بجز اُس کے جس کے حق میں سفارش سننے پر اللہ راضی ہو‘‘۔ (الانبیاء:۲۸)۔ البتہ قیامت کے دن وہ شفاعت جس کے مشرکین قائل ہیں اُن کے حق میں نہ ہو سکے گی، کیونکہ قرآن کریم نے اس کی صراحت کے ساتھ غیر مبہم الفاظ میں تردید کی ہے۔ رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ وہ قیامت کے دن اپنے رب تعالیٰ کے حضور پیش ہوں گے اور فوراً شفاعت نہیں کریں گے بلکہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم سب سے پہلے اللہ کے سامنے سجدہ ریز ہوں گے، اُس کی حمد و ثنا بیان کریں گے۔ پھر آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو حکم ہو گا کہ اپنا سر مبارک اٹھاؤ۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی بات کو سنا جائے گا اور جو سوال کرو گے وہ دیا جائے گا اور سفارش کیجئے، آپ کی سفارش قبول کی جائے گی۔سیدنا ابوہریرہ رضی اللہ عنہ نے عرض کی کہ ’’یارسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم وہ کون خوش نصیب اور سعید شخص ہے جو آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی شفاعت کا مستحق ہو گا؟رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا کہ جو اپنے دل کی گہراہیوں سے کلمہ لَا اِلٰہ اِلَّا اللہ کا اقرار کرے۔ پس ثابت ہوا کہ یہ شفاعت اُن کو حاصل ہو گی جو اپنے اعمال و افعال میں مخلص ہوں گے اور وہ بھی اللہ تعالیٰ کی اجازت سے، لیکن مشرکین کی شفاعت ہرگز نہ ہو سکے گی۔ مقصد یہ ہے کہ اللہ تعالیٰ جن لوگوں کو سفارش کرنے کی اجازت دے گا اُن کی دُعا کی وجہ سے اہل اخلاص پر اپنا خاص فضل و کرم کرتے ہوئے معاف فرما دے گا تاکہ اُن کی عزت و تکریم ہو اور وہ قابل تعریف مقام حاصل کر لیں۔ پس قرآن کریم نے جس شفاعت کی تردید کی ہے وہ ایسی شفاعت ہے جس میں شرک کی آمیزش ہو۔ یہی وجہ ہے کہ اللہ تعالیٰ نے کئی مقامات پر شفاعت کو اپنی اجازت سے ثابت اور مقید کر دیا ہے۔ اور نبی رحمت صلی اللہ علیہ وسلم نے صاف اور واضح طور پر فرمایا کہ یہ شفاعت صرف موحدین اور سچی توحید والوں کے لئے ہو گی۔
شیخ الاسلام امام ابن تیمیہ رحمہ اللہ نے اخلاص کی جو بہترین تعریف کی ہے وہ ہے
’’ایک اللہ کریم کی خاص محبت اور ہر کام میں اس کی رضا جوئی کا نام اخلاص ہے‘‘۔
امام ابن قیم رحمہ اللہ سیدنا ابوہریرہ رضی اللہ عنہ والی حدیث کے مطلب کے بارے میں فرماتے ہیں:
’’اس حدیث پر غور کیجئے کہ اللہ تعالیٰ نے صرف توحید کو شفاعت کے حصول کا سبب قرار دیا ہے اور مشرکین کے اس عقیدہ کی تردید فرمائی ہے کہ وہ غیر اللہ سے محبت اور ان کی عبادت کی بنا پر اور ان کو سفارشی سمجھ کر شفاعت کے مستحق قرار پائیں گے۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے مشرکین کے اس زُعم باطل کے برعکس فرمایا کہ شفاعت حاصل کرنے کا صرف ایک ہی ذریعہ ہے اور وہ ہے توحید میں تجرید و اخلاص کا پایا جانا۔ جب اخلاص پیدا ہو جائے گا تو پھر اس کے لئے شفاعت کی اجازت مل جائے گی۔ مشرکین کی جہالت یہ ہے کہ وہ یہ عقیدہ رکھتے ہیں کہ جن کو انہوں نے اپنا ولی، دوست، اور سفارشی سمجھ رکھا ہے وہ اللہ کے ہاں ان کی سفارش کریں گے اور اس کی بارگاہ میں ان کے لئے نفع رساں ثابت ہوں گے۔ بالکل اسی طرح جس طرح کہ بادشاہوں کے مقربین اپنے ساتھیوں کو فائدہ پہنچا دیتے ہیں مشرکین اس بات کو بالکل بھول گئے ہیں کہ اللہ کے ہاں اس کی اجازت کے بغیر کوئی بھی سفارش کرنے کی جرات نہ کر سکے گا اور اللہ تعالیٰ کے ہاں اُسی شخص کی سفارش ممکن ہے جس کے اعمال و افعال اور کردار پر اللہ تعالیٰ راضی ہو گا۔
امام ابن قیم رحمہ اللہ نے پہلی فصل میں قرآن کریم کی یہ آیت پیش کی ہے: (ترجمہ) کون ہے جو اس کی جناب میں اس کی اجازت کے بغیر سفارش کر سکے؟ اور دوسری فصل میں یہ آیت ذکر کی ہے کہ: (ترجمہ) وہ کسی کی سفارش نہیں کرتے بجز اُس کے جس کے حق میں سفارش کرنے پر اللہ راضی ہو‘‘۔ رہی تیسری فصل تو اس میں فرماتے ہیں کہ ’’اللہ تعالیٰ کسی کے قول و عمل پر اس وقت تک قطعاً اظہار رضامندی نہیں کرتا جب تک کہ وہ توحید خالص کا حامل اور رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کا متبع نہ ہو‘‘۔

یہ تینوں فصلیں اُس شخص کے دِل سے شرک کی جڑیں کاٹنے کے لئے کافی ہیں، جس میں عقل و خرد کا مادہ موجود ہے اور وہ غور و فکر کے لئے بھی تیار ہے۔ امام ابن قیم رحمہ اللہ سلسلہء کلام کو جاری رکھتے ہوئے مزید فرماتے ہیں کہ شفاعت کی چھ قسمیں ہیں۔

۱۔ پہلی: شفاعت کبری ہے، جس سے اولوالعزم انبیاء علیہم السلام بھی گھبرا جائیں گے۔ حتی کہ معاملہ رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم تک آ پہنچے گا۔ رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم فرمائیں گے: ’’انا لھا‘‘ کہ یہ میرا ہی کام ہے۔ یہ واقعہ اس وقت پیش آئے گا جب کائنات کے تمام لوگ یکے بعد دیگرے تمام انبیاء کی خدمت میں حاضر ہو کر شفاعت کے لئے عرض کریں گے کہ اس مقام کے عذاب سے لوگوں کو نجات ملنی چاہیئے۔ اس شفاعت کے وہی لوگ مستحق ہوں گے جنہوں نے اللہ کے ساتھ کسی کو شریک نہیں ٹھہرایا ہو گا۔

۲۔ دوسری شفاعت دخولِ جنت کی ہو گی۔ اس کا مفصل بیان سیدنا ابوہریرہ رضی اللہ عنہ کی روایت میں موجود ہے جو صحیحین میں مروی ہے ۔ اور گذشتہ سطروں میں گزر چکی ہے۔

۳۔ تیسری شفاعت ان لوگوں کی ہو گی جو اُمت محمدیہ صلی اللہ علیہ وسلم میں سے ہوتے ہوئے اپنے گناہوں کی پاداش میں دخولِ جہنم کے مستوجب قرار پا جائیں گے لیکن رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم جہنم میں داخل ہونے سے پہلے ان کی شفاعت کریں گے تاکہ یہ لوگ دوزخ میں نہ جا سکیں۔

۴۔ چوتھی شفاعت ان اہل توحید کے لئے ہو گی جو اپنے گناہوں کی وجہ سے جہنم کی سزا بھگت رہے ہوں گے۔ احادیث متواترہ، اجماعِ صحابہ رضی اللہ عنہم ، اور اہل سنت کا اس پر اتفاق ہے کہ اہل توحید اپنے گناہوں کی وجہ سے سزا بھگتیں گے۔جو لوگ اس کا انکار کرتے ہیں ان نفوس قدسیہ نے ان کو بدعتی قرار دیا ہے، ان کی نکیر کی ہے اور ان کو گمراہ ٹھہرایا ہے۔

۵۔ پانچویں شفاعت صرف اہل جنت کے لئے ہو گی تاکہ ان کے اجر میں اضافہ کیا جائے اور ان کے درجات بلند کئے جائیں۔ اس شفاعت میں کسی کو کوئی اختلاف نہیں ہے۔
مندرجہ بالا پانچوں شفاعتیں صرف ان مخلصین کے لئے ہیں جنہوں نے کسی غیر اللہ کو نہ اپنا ولی بنایا اور نہ شفاعت کنندہ سمجھا جیسا کہ اللہ تعالیٰ کا فرمان ہے: (ترجمہ) اور اے محمد صلی اللہ علیہ وسلم تم اس (علم وحی) کے ذریعے سے ان لوگوں کو نصیحت کرو جو اس بات کا خوف رکھتے ہیں کہ اپنے رب کے سامنے کبھی اس حال میں پیش کئے جائیں گے کہ اس کے سوا وہاں کوئی (ایسا ذی اقتدار) نہ ہو گا جو اِن کا حامی و مددگار ہو یا ان کی سفارش کرے (الانعام:۵۱)۔

۶۔ چھٹی شفاعت بعض اہل جہنم کفار کے لئے ہے تاکہ ان کے عذاب میں تخفیف کی جائے اور یہ صرف ابوطالب کے لئے خاص ہے۔



فیہ مسائل
٭ ناقابل قبول شفاعت کی توضیح و تشریح۔ ٭ اس شفاعت کا تذکرہ جو مومنین کے لئے فائدہ مند ہو گی۔ ٭ شفاعت کبری کا ذکر جسے مقام محمود بھی کہتے ہیں۔ ٭ رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی شفاعت کرنے کے طریقے کی وضاحت کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم لوگوں کی بات سنتے ہی شفاعت نہیں کریں گے بلکہ سب سے پہلے بارگاہِ الٰہی میں سجدہ ریز ہوں گے جب اجازتِ شفاعت ملے گی تو شفاعت کریں گے۔ ٭ سیدنا ابوہریرہ رضی اللہ عنہ کا سوال کرنا کہ ’’یارسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم وہ کون خوش نصیب اور سعید شخص ہے جو اِس شفاعت کا حقدار ہو گا؟ ٭یہ شفاعت اُس شخص کے لئے قطعاً نہ ہو گی جس نے اللہ تعالیٰ کے ساتھ شرک کیا ہے۔ ٭ شرک کی حقیقت و ماہیت کا بیان
 

محمد نعیم یونس

خاص رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
اپریل 27، 2013
پیغامات
26,582
ری ایکشن اسکور
6,748
پوائنٹ
1,207
رُشد و ہدایت کی توفیق اللہ کے پا س ہے وہ جسے چاہے ہدایت دے اور جسے …

رُشد و ہدایت کی توفیق اللہ کے پا س ہے وہ جسے چاہے ہدایت دے اور جسے …
باب:اِنَّکَ لَا تَھْدِیْ مَنْ اَحْبَبْتَ وَلٰکِنَّ اﷲَ یَھْدِیْ مَنْ یَّشَاؓءُ

اس باب میں اس حقیقت کی وضاحت کی گئی ہے کہ رُشد و ہدایت کی توفیق اللہ تعالیٰ کے قبضہ و قدرت میں ہے جس کو چاہے ہدایت کی نعمت سے بہرہ مند ہونے کی توفیق عطا کرے اور جس سے چاہے یہ دولت چھین لے۔
اِنَّکَ لَا تَھْدِیْ مَنْ اَحْبَبْتَ وَلٰکِنَّ اﷲَ یَھْدِیْ مَنْ یَّشَاؓءُ وَھُوَ اَعْلَمُ بِالْمُھْتَدِیْنَ
اے نبی صلی اللہ علیہ وسلم ! تم جسے چاہو اُسے ہدایت نہیں دے سکتے مگر اللہ جسے چاہتا ہے ہدایت دیتا ہے اور وہ اُن لوگوںکو خوب جانتا ہے جو ہدایت قبول کرنے والے ہیں۔(القصص:۵۶)۔
اس مفہوم کو اللہ تعالیٰ نے دوسرے مقامات پر بھی واضح فرمایا ہے جیسے:
(ترجمہ) ’’اے میرے رسولِ کریم صلی اللہ علیہ وسلم ان کو ہدایت اور راہِ راست پر لانا آپ کا کام نہیں ہے بلکہ اللہ تعالیٰ جسے چاہتا ہے نورِ ہدایت سے منور فرماتا ہے‘‘۔ (البقرۃ:۲۷۲)۔
ایک جگہ پر یوں ارشاد ہوتا ہے:
(ترجمہ) ’’اے میرے پیغمبر صلی اللہ علیہ وسلم اکثر لوگ ایمان کی دولت سے بے بہرہ ہی رہیں گے اگرچہ آپ کا کتنا ہی جی چاہتا ہو۔ (یوسف:۱۰۳)۔
ان آیات میں جس ہدایت کی نفی کی گئی ہے وہ یہ ہے کہ ہدایت کی توفیق دینا آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے اختیار میں نہیں ہے، اس کا تعلق صرف اللہ تعالیٰ سے ہے اور وہی اس پر قدرت رکھتا ہے۔ البتہ مندرجہ ذیل آیت میں جس ہدایت کا ذکر کیا گیا ہے، اُس سے ہدایت کی تشریح اور اس کی وضاحت مراد ہے کیونکہ اللہ تعالیٰ کی طرف سے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم پر جو ذمہ داری عائد کی گئی ہے وہ یہی ہے کہ آپ دین اسلام، اس کے احکام اور اللہ کی ہدایت کو لوگوں پر واضح فرما دیں۔ آیت یہ ہے:
(ترجمہ) ’’اس میں کوئی شبہ نہیں کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم ایک سیدھے راستہ کی طرف ہدایت کر رہے ہیں‘‘۔
وفی الصحیح عن ابن المسیب عن ابیہ رضی اللہ عنہ قَالَ لَمَّا حَضَرَتْ اَبَا طَالِبٍ الْوَفَاۃُ جَاءَ ہٗ رَسُوْلُ اﷲِ صلی اللہ علیہ وسلم وَ عِنْدَہٗ عَبْدُ اﷲِ ابْنُ اُمَیَّۃَ وَ اَبُوْ جَھْلٍ فَقَالَ لَہٗ یَا عَمِّ قُلْ لَّا اِلٰہَ اِلَّا اﷲُ کَلِمَۃً اُحاجُّ لَکَ بِھَا عِنْدَ اﷲ فَقَالَا لَہٗ اَتَرْغَبُ عَنْ مِّلَّۃِ عَبْدِ الْمُطَّلِبِ فَاَعَادَ عَلَیْہِ النَّبِیُّ صلی اللہ علیہ وسلم فَاَعَادَا فَکَانَ اٰخِرُ مَا قَالَ ھُوَ عَلٰی مِلَّۃِ عَبْدِ الْمُطَّلِبِ وَ اَبٰی اَنْ یَّقُوْلَ لَآ اِلٰہَ اِلَّا اﷲُ فَقَالَ النَّبِیُّ صلی اللہ علیہ وسلم لَاَسْتَغْفِرَنَّ لَکَ مَا لَمْ اُنْہَ عَنْکَ فانزل اﷲ عز و جل مَا کَانَ لِلنَّبِیِّ وَ الَّذِیْنَ اٰمَنُوْا اَنْ یَّسْتَغْفِرُوْا لِلْمُشْرِکِیْنَ وَ لَوْ کَانُوْآ اُولِیْ قُرْبٰی (التوبہ:۱۱۳) و انزل اﷲ فی ابی طالب اِنَّکَ لَا تَھْدِیْ مَنْ اَحْبَبْتَ وَ لٰکِنَّ اﷲَ یَھْدِیْ مَنْ یَّشَاؓءُ وَ ھُوَ اَعْلَمُ بِالْمُھْتَدِیْنَ (القصص:۵۶)
صحیح بخاری اور صحیح مسلم میں سعید رحمہ اللہ اپنے باپ سیدنا مسیب رضی اللہ عنہ سے روایت کرتے ہیں۔ سیدنا مسیب رضی اللہ عنہ اپنے باپ سیدنا حُزن رضی اللہ عنہ سے روایت کرتے ہوئے کہتے ہیں کہ جب اُبوطالب کی وفات کے آثار دکھائی دیئے تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم اُس کے پاس تشریف لے گئے اُس وقت ابوجہل اور عبداللہ بن ابو امیہ بھی وہاں بیٹھے تھے۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:
چچاجان! کلمہ لَا اِلٰہ اِلَّا اﷲ کا اقرار کر لو، میں تمہارے لئے یہی کلمہ اللہ تعالیٰ کی بارگاہ میں بطور دلیل پیش کروں گا۔ ابوجہل اور عبداللہ بن امیہ بولے ’’کیا عبدالمطلب کے مذہب کو چھوڑ دو گے‘‘؟ رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم باربار کلمہ شہادت کی ترغیب دیتے تھے اور وہ دونوں ابوطالب کو اپنے مذہب پر قائم رہنے پر اصرار کرتے تھے ۔ ابوطالب کی آخری بات یہ تھی کہ: ’’وہ عبدالمطلب کے دین پر ہی قائم رہے گا‘‘ اور اُس نے لَا اِلٰہ اِلاَّ اﷲ کے اقرار سے اِنکار کر دیا۔
رسولِ اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے اُس سے فرمایا کہ
جب تک مجھے روک نہ دیا گیا میں تمہارے لئے مغفرت کی دعا کرتا رہوں گا۔
اس پر اللہ کریم نے یہ آیت نازل فرمائی کہ
نبی صلی اللہ علیہ وسلم کو اور اُن لوگوں کو جو ایمان لائے ہیں، زیبا نہیں ہے کہ مشرکوں کے لئے مغفرت کی دعا کریں چاہے وہ رِشتہ دار ہی کیوں نہ ہوں۔
رب ذوالجلال نے ابوطالب کے بارے میں یہ آیت نازل فرمائی کہ:
اے نبی ! تم جسے چاہو ہدایت نہیں دے سکتے مگر اللہ جسے چاہتا ہے ہدایت دیتا ہے اور وہ اُن لوگوں کو خوب جانتا ہے جو ہدایت قبول کرنے والے ہیں۔
رحمۃ للعٰلمین صلی اللہ علیہ وسلم نے ابوطالب کو کلمہ توحید کے اقرار کرنے کی ترغیب دی لیکن ابوطالب نے انکار کر دیا کیونکہ اس کو معلوم تھا کہ علم و یقین کے ساتھ لَا اِلٰہ اِلاَّ اﷲ کے اقرار کا مطلب یہ ہے کہ شرک اور مشرکین سے کلیۃً اظہارِ براء ت کی جائے۔ اور تمام عبادات پورے اخلاص کے ساتھ اللہ تعالیٰ کے لئے ادا کی جائیں اور یہ کہ اسلام کے دائرہ میں داخل ہوا جائے۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ مشرکین لَا اِلٰہ اِلاَّ اﷲ کے مطلب کو خوب سمجھتے تھے۔ اس وقت مکہ المکرمہ میں دو ہی قسم کے لوگ تھے، مسلمان اور کافر۔ اس کلمے کا اقرار وہی شخص کرتا تھا جو شرک سے بالکل بیزار ہو جاتا اور قطع تعلق کر لیتا تھا۔
یہ واقعہ اس بات کی دلیل ہے کہ اعمال کا دارومدار خاتمے پر ہے کیونکہ اگر ابوطالب خلوص دل سے اور ان تقاضوں کو ملحوظ رکھتے ہوئے جو نفی و اثبات کی صورت میں لَا اِلٰہ اِلاَّ اﷲ سے وابستہ ہیں یہ کلمہ پڑھ لیتا تو وہ لازماً اس کے لئے سود مند ثابت ہوتا۔
قرآن کریم میں ایک مقام پر اللہ تعالیٰ ارشاد فرماتا ہے:
(ترجمہ) ’’اور اسی طرح ہم نے آپ صلی اللہ علیہ وسلم سے پہلے کسی بستی میں کوئی پیغمبر نہیں بھیجا مگر اُس کے خوشحال لوگوں نے یہی کہا کہ ہم نے اپنے باپ دادوں کو ایک طریقہ پر پایا ہے اور ہم بھی ان ہی کے پیچھے پیچھے جا رہے ہیں‘‘۔
حدیث کے الفاظ سے واضح طور پر معلوم ہوتا ہے کہ ابو جہل اور عبداللہ بن امیہ اس کلمہ لَا اِلٰہ اِلاَّ اﷲ کے مقتضیات کو اچھی طرح سمجھتے تھے کیونکہ اُس وقت ان دونوں نے یہ بھانپ لیا تھا کہ اگر ابوطالب نے کلمہ لَا اِلٰہ اِلاَّ اﷲ کا اقرار کر لیا تو اس کا صاف مطلب یہ ہو گا کہ اس نے عبدالمطلب کے مذہب سے اظہارِ بیزاری کر دیا ہے۔ عبدالمطلب کا مذہب شرک فی الالوہیت ہی تو تھا البتہ توحید ربوبیت کا جیسا کہ پہلے گزر چکا، کافر و مشرک سب اقرار کرتے تھے۔
ابوطالب کے ہدایت یاب نہ ہونے میں اللہ تعالیٰ کی بہت سی حکمتیں پوشیدہ ہیں، ان میں سب سے بڑی حکمت یہ ہے کہ : لوگوں کو اس بات کا علم و یقین ہو جائے کہ کسی کو ہدایت دینا یا نہ دینا صرف اللہ تعالیٰ کے اختیار میں ہے، اس کے سوا کسی کو یہ اختیار حاصل نہیں ہے۔ اور اگر ٭لوگوں کے دلوں کو ہدایت کی طرف ملتفت کرنا، ٭مصائب و مشکلات سے نجات دلانا، ٭ ان کو عذابِ الٰہی سے بچانا۔ اور ان جیسے دوسرے اُمور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے اختیار میں ہوتے جو کہ تمام کائنات سے افضل و اشرف ہیں تو اس کے سب سے زیادہ حقدار ابوطالب تھے کیونکہ یہ رشتہ میں آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے چچا بھی ہیں اور دوسری وجہ یہ ہے کہ جو حمایت، نصرت اور اعانت رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی ابوطالب نے کی ہے وہ تاریخ کے اوراق پر ہمیشہ نقش رہے گی لیکن ہم اس حکمت اور بھید کی تہہ تک پہنچنے میں یکسر عاجز اور قاصر ہیں۔ اور اللہ کی ذات ہر عیب سے پاک اور منزہ و مبرہ ہے جس کی حکمتوں کو سمجھنے کے لئے عقل انسانی وطرئہ حیرت میں ڈوب جاتی ہے۔ اللہ تعالیٰ ہی اپنے بندوں میں سے جن کو چاہتا ہے اپنی معرفت، توحید، اور اخلاصِ عمل کی طرف رہنمائی کرتا ہے۔


فیہ مسائل
٭ بہت عظیم اور اہم مسئلہ جس میں آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے ارشاد ’’قل لَا اِلٰہ اِلاَّ اﷲ ‘‘ کی وضاحت کی ہے اور اُن لوگوں کی تردید کی گئی ہے جو کلمہ شہادت کے زبانی اقرار کو باعث نجات قرار دیتے ہیں اگرچہ وہ شرکیہ اعمال کا مرتکب ہو رہا ہو۔ ٭ جب رسولِ عربی صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنے چچا ابوطالب سے کہا کہ لَا اِلٰہ اِلاَّ اﷲ کا اقرار کر لو تو اس کے مطلب کو ابوجہل اور اُس کے ساتھی جانتے تھے اِسی لئے تو انہوں نے ابوطالب کو عبدالمطلب کے مذہب پر قائم رہنے کی ترغیب دی۔ آج کل کتنے ہی ابوجہل ہیں اللہ ان کا ستیاناس کرے جن سے ابوجہل لَا اِلٰہ اِلاَّ اﷲ کے مفہوم کو زیادہ جانتا تھا۔ ٭اپنے چچا ابوطالب کے قبولِ اسلام کے لئے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی اِنتہائی جدوجہد اور بدرجہ غایت کوشش و سعی۔ ٭ عبدالمطلب اور اس کے بڑوں کو مسلمان سمجھنے والوں کی تردید۔ ٭رسولِ اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے استغفار کے باوجود ابوطالب کی مغفرت نہ کی گئی بلکہ اس کے برعکس آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو ان کے لئے استغفار سے روک دیا گیا۔ ٭ انسان پر بُرے لوگوں کی صحبت کا اثر پڑنا۔ ٭ اپنے اکابر و اسلاف کی تعظیم میں غلو کی مضرتیں۔ ٭اپنے اکابر کی زندگی سے اِستدلال، جاہلیت کی رسم ہے۔ ٭ان احادیث سے اس بات کی شہادت ملتی ہے کہ اعمال کا دارومدار انسانی زندگی کے خاتمے پر ہے کیونکہ ابوطالب اگر بوقت وفات کلمہ شہادت کا اقرار کر لیتا تو وہ اُس کے لئے ضرور نفع رساں ہوتا۔ ٭مشرکین کے دلوں میں جو یہ شبہ پیدا ہو گیا ہے کہ وہ صرف لَا اِلٰہ اِلاَّ اﷲ اپنے جھگڑے اور اختلاف کی بنیاد سمجھتے تھے اس پر غور و تامل۔ اگرچہ حقیقت یہی ہے کہ شریعت اِسلامیہ میں اِس کو مرکزی حیثیت حاصل ہے تبھی تو رسولِ معظم صلی اللہ علیہ وسلم باربار یہ کوشش فرماتے ہیں کہ ابوطالب اِس کا اقرار کر لے۔ کلمہ شہادت کا مطلب اور اسِ کے تقاضے اتنے واضح اور روشن ہیں کہ مشرک بھی اِسے سمجھتے تھے، اِسی بنا پر تو اُنہوں نے اپنے معاملات اور اختلافات کو اس پر مرکوز رکھا تھا۔
 

محمد نعیم یونس

خاص رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
اپریل 27، 2013
پیغامات
26,582
ری ایکشن اسکور
6,748
پوائنٹ
1,207
کفر و شرک میں مبتلا ہونے کا سبب بزرگوں کے معاملہ میں غلو ہے۔

کفر و شرک میں مبتلا ہونے کا سبب بزرگوں کے معاملہ میں غلو ہے۔
باب:ما جاء ان سبب کفر بنی آدم وترکھم دینھم ھو الغلو فی الصلحین

اس باب میں یہ بیان کیا گیا ہے کہ بنی نوع انسان کے کفر اور شرک میں مبتلا ہونے اور دِین کو چھوڑنے کا سب سے بڑا سبب بزرگوں کے معاملہ میں غلو کرنا ہے۔
یٰٓاَھْلَ الْکِتٰبِ لَا تَغْلُوْا فِیْ دِیْنِکُمْ وَ لَا تَقُوْلُوْا عَلَی اﷲِ اِلَّا الْحَقَّ (النساء: ۱۷۱)
اے اہل کتاب! اپنے دین میں غلو نہ کرو۔ اور اللہ کی طرف حق کے سوا کوئی بات منسوب نہ کرو۔
مطلب یہ ہے کہ جس شخص کو اللہ تعالیٰ نے جو مقام عطا فرمایا ہے اس سے اس کو اونچا اور بالا نہ سمجھو۔ یہ خطاب اگرچہ یہود و نصاریٰ سے ہے لیکن اس کے ساتھ ہی پوری اُمت محمدیہ سے بھی ہے۔ اس کی وجہ یہ خدشہ ہے کہ یہ اُمت بھی کہیں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ وہی سلوک نہ کر لے جو نصاریٰ نے سیدنا عیسیٰ علیہ السلام کے ساتھ اور یہودیوں نے عزیر علیہ السلام کے ساتھ کیا تھا۔ اس سلسلے میں اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے:
(ترجمہ) ’’کیا ایمان لانے والوں کے لئے ابھی وہ وقت نہیں آیا کہ اُن کے دِل اللہ کے ذکر کے لئے اور اس نازل کردہ حق کے آگے جھکیں اور وہ اُن لوگوں کی طرح نہ ہو جائیں جنہیں پہلے کتاب دی گئی تو اُن کے دل سخت ہوگئے اور آج اُن میں سے اکثر فاسق بنے ہوئے ہیں‘‘؟ (الحدید:۱۶)۔
اسی لئے رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم ارشاد فرماتے ہیں
(ترجمہ) ’’میری تعریف میں اس طرح مبالغہ نہ کرو جس طرح نصاریٰ نے عیسیٰ ابن مریم کے بارے میں مبالغہ سے کام لیا۔
شیخ الاسلام امام ابن تیمیہ رحمہ اللہ فرماتے ہیں:
’’اُمت محمدیہ میں سے جو شخص یہود و نصاریٰ سے مشابہت اختیار کرے گا، اور دین میں افراط یا تفریط سے کام لے گا وہ ان ہی جیسا ہو گیا‘‘۔
مزید فرماتے ہیں: ’’سیدنا علی رضی اللہ عنہ نے کوفہ میں غالی رافضیوں کو جلا دیا تھا اور باب کندہ کے قریب گڑھے کھدوا کر اِن کو اِن میں پھینک دیا تھا، صحابہ کرام کا ان غالی رافضیوں کے قتل پر اتفاق تھا۔ لیکن سیدنا ابن عباس رضی اللہ عنہ کی رائے یہ تھی کہ ان کو بجائے جلانے کے تلوار سے قتل کر دیا جائے۔ اکثر اہل علم کا یہی قول ہے‘‘۔
و فی الصحیح عن ابن عباس رضی اللہ عنہ فی قول اﷲ تعالیٰ وَ قَالُوْا لَا تَذَرُنَّ اٰلِھَتَکُمْ وَ لَا تَذَرُنَّ وَدًّا وَّ لَا سُوَاعًا وَّ لَا یَغُوْثَ وَ یَعُوْقَ وَ نَسْرًا قَالَ ھٰذِہٖ اَسْمَآءُ رِجَالٍ صَالِحِیْنَ مِنْ قَوْمِ نُوْحٍ فَلَمَّا ھَلَکُوْا اَوْحَی الشَّیْطٰنُ اِلٰی قَوْمِھِمْ اَنْ اَنْصِبُوْا اِلٰی مَجَالِسِھِمُ الَّتِیْ کَانُوْا یْجْلِسُوْنَ فِیْھَا اَنْصَابًا وَ سَمُّوْھَا بِاَسْمَآئِھِمْ فَفَعَلُوْا وَ لَمْ تُعْبَدْ حَتّٰی اِذَا ھَلَکَ اُولٰٓئِکَ و نَسِیَ الْعِلْمُ عُبِدَتْ
سیدنا ابن عباس رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ وہ آیت
’’انہوں نے کہا ہرگز نہ چھوڑو اپنے معبودوں کو اور نہ چھوڑو ودؔ اور سواعؔ کو اور نہ یغوثؔ اور یعوقؔ اور نسرؔ کو‘‘ کے بارے میں کہتے ہیں کہ یہ سب قومِ نوح کے صالح لوگ تھے، جب وہ مر گئے تو شیطان نے اُن کی قوم کو یہ بات سمجھائی کہ یہ نیک لوگ جس جگہ بیٹھتے تھے وہاں بطورِ یادگار پتھر نصب کرو اور اس پتھر کو اُن کے نام سے پکارو، سو اُنہوں نے ایسا ہی کیا۔ جب اگلے لوگ مر گئے اور علم اُن سے جاتا رہا تب اُن کی اولاد نے اُن یادگاروں کی پرستش شروع کر دی۔
ابلیس نے ان سے کہا کہ دیکھو! تمہارے آباؤ اجداد ان بزرگوں کی عبادت کرتے تھے اور ان کے طفیل بارش ہوتی تھی۔ اس نے ان اصنام کی عبادت کو ان کے سامنے انتہائی خوبصورت انداز میں پیش کیا اور ان کی عظمت کا نقش اس طرح بڑھا چڑھا کر ان کے دلوں میں بٹھا دیا کہ وہ سمجھنے لگے کہ گویا وہی ان کے معبودِ حقیقی ہیں۔ اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے کہ: (ترجمہ) ’’اولادِ آدم! کیا میں نے تم کو ہدایت نہ کی تھی کہ شیطان کی بندگی نہ کرو۔ وہ تمہارا کھلا دشمن ہے اور میری ہی عبادت کرو یہ سیدھا راستہ ہے مگر اس کے باوجود اُس نے تم میں سے ایک گروہِ کثیر کو گمراہ کر دیا۔ کیا تم عقل نہیں رکھتے تھے‘‘۔ (سورئہ یٰسین)
اللہ تعالیٰ کے اس عہد و پیمان کو یاد رکھنے کا اصل فائدہ یہ ہے کہ انسان غلو سے محفوظ رہتا ہے۔ شیطان نے صالحین کی شان میں افراط و مبالغہ اور ان سے غلو فی المحبت کی بنا پر ہی ان لوگوں کو مبتلائے شرک کیا تھا۔ جیسا کہ آج کل اُمت محمدی میں سے اکثر لوگ شرک کا شکار ہو گئے ہیں، اس لئے کہ شیطان نے صالحین کی محبت و عظمت کو ان کی شان میں بدعت و غلو کو اُن کے سینوں میں اس طرح پیوست کر دیا ہے کہ یہ لوگ اب اعمالِ شرکیہ کو بھی توحید اور رضائے الٰہی کا ذریعہ سمجھ بیٹھے ہیں۔
وَ قَالَ ابْنُ الْقَیِّمُ رحمہ اللہ قَالَ غَیْرُ وَاحِدٍ مِّنَ السَّلَفِ لَمَّا مَاتُوْا عَکَفُوْا عَلٰی قُبُوْرِھِمْ ثُمَّ صَوَّرُوْا تَمَاثِیْلَھُمْ ثُمَّ طَالَ عَلَیْھُمُ الْاَمَدُ فَعَبَدُوْھُمْ
علامہ ابن قیم رحمہ اللہ فرماتے ہیں کہ
اکثر سلف صالحین نے بیان کیا ہے کہ جب وہ مر گئے تو پہلے یہ لوگ ان کی قبروں کے مجاور بنے، پھر ان کی تصاویر بنائیں، پھر زمانہ دراز گزرنے پر ان کی عبادت کرنے لگے۔
قبروں کے پجاریوں کے دل میں شیطان ہمیشہ یہ وسوسہ ڈالتا رہا کہ دیکھو! انبیائے کرام اور صلحائے عظام کی قبروں پر مجاور بن کر بیٹھنا اور ان پر قبے تعمیر کرنا ان اہل قبور سے محبت و عقیدت کا مظہر ہے اور یہ کہ ان کی قبروں کے پاس آ کر دعا کرنا قبولیت دعا کا ذریعہ ہے۔ یہ بات ان کے دل میں اچھی طرح گھر کر گئی تو پھر یہ وسوسہ ڈالا کہ: دیکھو! اگر ان کے نام کو وسیلہ ٹھہرا کر دعا کرو گے اور ان کے نام کی قسم دے کر ملتجی ہو گے تو دعا بہت جلد قبول ہو گی۔ کیونکہ اللہ تعالیٰ کی شان تو اس سے کہیں بلند ہے کہ ان بتوں کا نام لے کر اس کی قسم کھائی جائے یا کسی مخلوق کے ساتھ اس سے سوال کیا جائے۔
جب یہ بات اچھی طرح ان کے ذہن میں بیٹھ گئی تو یہ وسوسہ ڈالا کہ ان کو براہِ راست پکارو، ان کو اپنا شفاعت کنندہ سمجھو، ان کی قبروں پر چادریں چڑھاؤ، اور خوب چراغاں کرو۔ اگر ان کی قبروں کا طواف کیا جائے، ان کو بوسہ دیا جائے اور ان پر جانور ذبح کئے جائیں تو یہ بہت ہی نیکی اور سعادتمندی کی بات ہے۔ جب یہ چیز اِن کے ذہن میں راسخ ہو گئی تو کہا: دیکھو! لوگوں کو بھی ان بزرگانِ کرام کی عبادت کی طرف بلاؤ۔ اس کی بہترین صورت یہ ہے کہ ان کے عُرس منانے کا اہتمام کرو، اور ان کے یومِ پیدائش مناؤ۔ مشرکین نے جب دیکھا تو انہوں نے اس فعل کو انتہائی نفع بخش سودا سمجھا۔ دنیا میں بھی مالا مال ہو گئے اور آخرت میں بھی اپنے آپ ہی کو نجات یافتہ قرار دیا۔

شریعت اسلامیہ کا ایک ادنیٰ طالبعلم بھی یہ سمجھتا ہے کہ یہ سب خرافات توحید کے منافی اور اُس دین کے سراسر برعکس ہیں جس کو دے کر محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم مبعوث کئے گئے۔ اس کا مطلب تو صرف یہ ہے کہ فقط اللہ تعالیٰ کی عبادت کی جائے اس کے سوا اور کسی کے آگے نہ جھکا جائے۔ جب یہ تمام باتیں مشرکین کے دلوں میں جاگزیں ہو گئیں تو شیطان نے اپنا آخری تیر بھی چلایا کہ: دیکھو! جو شخص تم کو اس عقیدے کو اپنانے اور ان اعمال پر کاربند رہنے سے روکے، وہ شخص ان مراتب عالیہ کا منکر ہے اور بزرگوں کی شان کو گرانے کی کوشش کرتا ہے۔ وہ یہ سمجھتا ہے کہ ان بزرگوں کی کوئی قدر و قیمت نہیں ہے۔ چنانچہ نتیجہ یہ ہوا کہ اب اگر ان مشرکین کی اصلاح کے لئے کوئی بات کہی جاتی ہے تو وہ غضبناک ہو جاتے ہیں اور ان کے دِل نفرت کرنے لگتے ہیں۔ مشرکین کی اس حالت کو قرآن کریم ان الفاظ میں بیان کرتا ہے:
(ترجمہ) ’’جب اکیلے اللہ کا ذکر کیا جاتا ہے تو آخرت پر ایمان نہ رکھنے والوں کے دل کڑھنے لگتے ہیں اور جب اس کے سوا دوسروں کا ذکر ہوتا ہے تو یکایک وہ خوشی سے کھل اٹھتے ہیں‘‘۔ (الزمر:۴۵)۔ اور یہ بات اکثر جاہل اور طاغی نفوس کے سینوں میں بیٹھ چکی ہے۔ اور افسوس کا مقام تو یہ ہے کہ اکثر اہل علم اور دیندار لوگ بھی اس بیماری میں مبتلا ہیں حتی کہ یہ لوگ اہل توحید کے دشمن ہو گئے ہیں اور ان پر طرح طرح کے الزامات لگاتے ہیں اور عوام الناس کو ان سے متنفر کرنے میں کوئی کسر نہیں چھوڑتے۔ لیکن اہل شرک سے ان کی دوستی ہے اور خوب بڑھا چڑھا کر ان کی شان میں قصیدے پڑھتے ہیں ان کی جہالت یہیں ختم نہیں ہو جاتی بلکہ وہ یہ سمجھتے ہیں کہ وہ اللہ تعالیٰ کے دین اسلام اور اس کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کے مددگار ہیں۔ لیکن اللہ تعالیٰ ان کے اس کردار کی تردید کرتا ہے، ارشاد ہوتا ہے: (ترجمہ) ’’یہ لوگ اللہ تعالیٰ کے دوست ہرگز نہیں ہیں، اللہ تعالیٰ کے دوست تو صرف متقین اور پرہیزگار لوگ ہی ہیں‘‘(الانفال:۳۴)
وعن عمر رضی اللہ عنہ اَنَّ رَسُوْلَ اﷲِ صلی اللہ علیہ وسلم قَالَ لَا تُطْرُوْنِیْ کَمَااَطْرَتِ النَّصَارَی ابْنَ مَرْیَمَ اِنَّمَا اَنَا عَبْدٌ فَقُوْلُوْا عَبْدُ اﷲِ وَ رَسُوْلُہٗ
سیدنا عمر رضی اللہ عنہ سے روایت ہے، وہ کہتے ہیں کہ
رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ میری تعریف میں مبالغہ نہ کرنا جس طرح عیسیٰ بن مریم علیہ السلام کی تعریف میں نصاریٰ نے مبالغہ کیا تھا۔ میں ایک بندہ ہوں، بس مجھے اللہ کا بندہ اور اُس کا رسول کہو۔ (بخاری و مسلم)۔
برا ہو مشرکین کا جنہوں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی نصیحت پر کان نہ دھرا۔ وہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی مخالفت پر اُتر آئے جس چیز سے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے روکا تھا اس پر عمل کرنے لگے اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی اس انداز سے تعریف کی کہ جس سے آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے منع فرمایا تھا۔ انہوں نے آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی اس سلسلے میں شدید مخالفت کی اور غلو اور شرک میں نصاریٰ کی مشابہت اختیار کر لی اور محذورات و منہیات میں گر پڑے۔ انہوں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے بارے میں نظم و نثر میں اتنی کتابیں لکھیں جن کا شمار کرنا بھی مشکل ہو گیا ہے۔
شیخ الاسلام امام ابن تیمیہ رحمہ اللہ نے اپنے دور کے بعض ان مشرک علماء کی تردید کی ہے جنہوں نے لکھا ہے کہ:
’’جن جن مواقع پر اللہ تعالیٰ سے استغاثہ جائز ہے وہاں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے بھی استغاثہ جائز ہے‘‘۔
اسی موضوع پر خاصی کتابیں لکھی جا چکی ہیں جن کی شیخ الاسلام نے خوب تردید کی ہے۔ شیخ الاسلام کی یہ تردید اب بھی کتابی صورت میں موجود ہے۔ ایک شخص اپنی کتاب میں لکھتا ہے: ’’غیب کی وہ چابیاں جو صرف اللہ تعالیٰ ہی کے علم میں ہیں اُن سے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم بھی باخبر ہیں‘‘۔ اس کے علاوہ بھی اُس نے بہت سی خرافات اپنی کتاب میں جمع کر دی ہیں۔ اللہ تعالیٰ ہم سب کو قلبی بصیرت کے اس اندھا پن سے محفوظ رکھے۔ آمین۔ اس ضمن میں بوصیری کی ایک نظم یا یہ شعر دیکھئے: لکھا ہے: (ترجمہ) ’’اے مخلوق میں سے بہترین انسان! میں تیرے سوا خطراتِ عامہ میں کس کی پناہ میں آؤں‘‘۔ اس کے بعد کے اشعار پر غور کیجئے کہ اخلاص، دعا، اُمید و رجا، اعتماد اور مشکلات میں پناہ کی خواہش کا اظہار جو صرف اللہ تعالیٰ کے لئے مخصوص ہے، ان اشعار میں ان چیزوں کو غیر اللہ کے ساتھ خاص کر دیا گیا ہے۔
اصل میں یہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے فرامین سے انکار ہے۔ کیونکہ جو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا تھا اس کے خلاف عمل کیا جا رہا ہے اور اللہ تعالیٰ اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم دونوں کے بارے میں شکوک و شبہات پیدا کر دیئے گئے ہیں۔ حقیقت میں محبت رسول صلی اللہ علیہ وسلم کی صورت میں شیطان نے شرک کو ان کے قلب و ذہن میں پیوست کر دیا ہے۔ توحید اور اخلاص کو جو اللہ تعالیٰ نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو مرحمت فرما کر مبعوث کیا تھا ناقص کر دیا ہے
واقعہ یہ ہے کہ مشرکین رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی عظمت و توقیر کے بجائے آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی شان میں نقص اور گستاخی کے مرتکب ہوئے ہیں کیونکہ افراط تعظیم سے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے منع فرمایا تھا۔ یہ اس کا ارتکاب کرنے میں فخر محسوس کرتے ہیں اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے ارشادات اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی تعلیمات کی قطعاً پرواہ نہیں کرتے۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے فرامین پر رضامند نہیں اور نہ ان کو تسلیم ہی کرتے ہیں۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی عظمت اور توقیر اس میں ہے کہ:
٭ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے ارشادات کو عملی جامہ پہنایا جائے۔ ٭ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی منع کی ہوئی اشیاء کو ترک کر دیا جائے۔ ٭ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے اختیار کردہ راستہ پر چلا جائے۔ ٭ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی سنت مطہرہ کو مشعل راہ بنایا جائے۔ ٭ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے دین کی دعوت کو قریہ قریہ پہنچایا جائے۔ ٭ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے دین کی مدد و نصرت میں اپنا سب کچھ نچھاور کر دیا جائے۔ ٭ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے نقش قدم پر جو شخص گامزن ہو، اس سے محبت کی جائے۔اور جو شخص آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے طریقہ اور سنت کی مخالفت کرے اُس سے عداوت، بغض اور قطع تعلق کر لیا جائے۔ ان لوگوں نے جو کچھ اللہ تعالیٰ اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم چاہتے تھے، اس کے خلاف کیا ہے اور جن سے منع فرمایا تھا اس پر عمل پیرا ہیں۔ فاﷲ المستعان۔
وَ قَالَ قَالَ رَسُوْلُ اﷲِ صلی اللہ علیہ وسلم اِیَّاکُمْ وَ الْغُلُوَّا فَاِنَّمَا اَھْلَکَ مَنْ کَانَ قَبْلَکُمُ الْغُلُوُّ
سیدنا عمر رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: غلو سے بچتے رہو کیونکہ تم سے پہلے جتنے لوگ ہلاک ہوئے وہ سب غلو ہی کی وجہ سے ہلاک ہوئے تھے۔
ولمسلم عن ابن مسعود رضی اللہ عنہ اَنَّ رَسُوْلَ اﷲِ صلی اللہ علیہ وسلم قَالَ ھَلَکَ الْمُتنطِّعُوْنَ قَالَھَا ثَلَاثًا
صحیح مسلم میں سیدنا عبداللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے تین بار فرمایا کہ تکلف کرنے اور حد سے بڑھنے والے ہلاک ہو گ
ئے۔
علامہ خطابی کہتے ہیں:
کسی عمل میں غلو کرنے والا شخص متنطع کہلاتا ہے، وہ بھی متنطع ہے جو کلامی موشگافیوں میں الجھتا ہے اور ایسے ایسے مسائل کی ٹوہ میں لگا رہتا ہے جہاں انکی عقلوں کی رسائی ممکن نہ ہو۔ عبادت و تصوف کی اصطلاح میں اُس شخص کو بھی متنطع کہتے ہیں جو حلال اور مباح اشیاء کو اپنے اوپر حرام قرار دے لے جیسے روٹی اور گوشت نہ کھانا، سادے اور موٹے رُوئی کے کپڑے پہننا، بھیڑ بکریوں کے بالوں کے کپڑے استعمال کرنا، نکاح وغیرہ سے اجتناب کرنا۔ ان تمام چیزوں سے اس لئے رُک جانا کہ یہ زُہد، مستحسن اور مستحب ہے؟
شیخ الاسلام امام ابن تیمیہ رحمہ اللہ فرماتے ہیں کہ
یہ پرلے درجے کی جہالت اور ضلالت ہے کہ اس طرح کے تقشفات کو دین قرار دیا جائے۔ امام ابن قیم رحمہ اللہ امام غزالی کا قول نقل کر کے فرماتے ہیں کہ ’’بحث و تمحیص میں انتہا کو پہنچ جانے والے کو متنطع کہا جاتا ہے‘‘۔ ابوالسعادات کہتے ہیں: ’’کلامی مسائل میں بال کی کھال اتارنے والے کو متنطع کہا جاتا ہے وہ بھی اس دائرہ میں داخل ہیں جو باتکلف بات چیت کرتے اور حلق سے نکالتے ہیں‘‘۔ امام نووی رحمہ اللہ فرماتے ہیں: ’’خواہ مخواہ گفتگو میں تفصیلات پیدا کرنا اور بہ تکلف فصاحت و بلاغت کا اظہار کرنا، اجنبی اور غیر مانوس الفاظ بولنا، اور عوام سے خطاب کرتے وقت دقیق عبارات و الفاظ استعمال کرنا یہ سب کراہت میں داخل ہے‘‘۔
فیہ مسائل
٭ جو شخص اس زیر بحث باب اور آئندہ ابواب پر غور کرے گا اُس پر اسلام کی مظلومیت واضح اور آشکارا ہو جائے گی اور دلوں کے پھیرنے کے سلسلے میں اُس کو اللہ کے عجیب و غریب کرشمے اور اُس کی حکمتیں نظر آئیں گی۔ ٭کرئہ ارض پر سب سے پہلا جو شرک پایا گیا وہ صالحین کی محبت و عظمت میں غلو کی وجہ سے تھا۔ ٭دنیا میں سب سے پہلے جس میں تغیر و تبدل واقع ہوا وہ انبیائے کرام علیہم السلام کا دین تھا اور اُس کے اسباب کی وضاحت۔ اور اس حقیقت کا اظہار کہ اہل دنیا کو خوب علم تھا کہ انبیاء علیہم السلام کو اللہ تعالیٰ نے ہی مبعوث فرمایا ہے (لیکن پھر بھی لوگوں نے اس کی پروا نہ کی)۔ ٭ لوگوں نے بدعت کو بہت جلد قبول کر لیا حالانکہ شریعت اِسلامی اور فطرت سلیم اِس کی سخت تردید کرتی ہے۔ ٭ شرک کے پیدا ہونے کی صرف ایک وجہ تھی، وہ یہ کہ حق اور باطل کو آپس میں خلط ملط کر دیا گیا تھا اور اس کے دو سبب واضح طور سے نظر آتے ہیں: ۱۔صالحین کی محبت میں غلو اور افراط و مبالغہ۔ ۲۔اہل علم نے چند ایسے اُمور انجام دیئے کہ بظاہر اُن کی نیتیں درست تھیں لیکن بعد میں آنے والے افراد نے ان کا مطلب اس کے برعکس سمجھا جو سابق اہل علم کے وہم و گمان میں بھی نہ تھا۔ ٭ انسان کی طبیعت کچھ اس طرح واقع ہوئی ہے کہ اِس کے قلب و ضمیر میں حق کمزور سے کمزور تر واقع ہوتاچلا جاتا ہے اور باطل آہستہ آہستہ جڑ پکڑتا جاتا ہے۔ ٭اس باب میں سلف اُمت کے اقوال سے یہ بات ثابت کی گئی ہے کہ کفر و شرک میں ملوث ہونے کی سب سے بڑی وجہ بدعت کا ارتکاب تھا۔ ٭انسان کو بدعت کس گڑھے میں پھینک دیتی ہے؟ اس سے شیطان اچھی طرح آگاہ ہے اگرچہ بدعتی کی نیت اچھی ہی کیوں نہ ہو۔ ٭ اس باب کے مطالعہ سے ایک قاعدہ کلیہ سمجھ میں آتا ہے، وہ یہ کہ غلو سے قطعی طور پر اجتناب کرنا چاہیئے کیونکہ اس کا انجام انتہائی رسوا کن اور بسا اوقات انسان کو مشرک بنا دیتا ہے۔ ٭کسی عمل صالح کی انجام دہی کے لئے قبر پر مجاور بن کر بیٹھنا انتہائی نقصان دہ فعل ہے۔ ٭(مٹی اور پتھر وغیرہ سے) کسی شخص کی شبیہ بنانے کی ممانعت ظاہر ہوتی ہے۔ مزید برآں یہ کہ اِن کے مٹا دینے اور توڑ دینے میں جو حکمتیں اور مصلحتیں پوشیدہ ہیں، اُن کا علم۔ ٭ وقوعِ شرک کے واقعہ کا علم اور اس کے اسباب کی معرفت کی ضرورت کا احساس ہوتا ہے لیکن یہی وہ اہم پہلو ہے جس سے مسلمان غافل ہو گئے ہیں۔ اس واقعہ میں اِس بات کی وضاحت ہے کہ اُن کا اِرادہ صرف یہ تھا کہ ہمارے بزرگ ہمارے سفارشی ہیں۔ ٭ اُن مشرکین نے یہ سمجھا کہ جن علماء نے ان اولیاء کی تصویریں بنائی تھیں ان کا اِرادہ بھی وہی تھا جس کا ہم عملاً اظہار کر رہے ہیں۔ ٭رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے ہمیں یہ نصیحت فرمائی ہے کہ غلو میں مبتلا ہونے اور بے معنی موشگافیاں پیدا کرنے والے ہی ہمیشہ ہلاک ہوئے ہیں۔ ٭ اس باب میں اِس امر کی تصریح ہے کہ جب علم ناپید ہو گیا تو پھر ان کی عبادت شروع ہو گئی تھی اس سے علم کے وُجود کی قدر و قیمت اور اس کے ختم ہو جانے کے نقصانات کا پتا چلتا ہے ٭یہ بھی پتہ چلا کہ فقدانِ علم کا سب سے بڑا سبب یہ تھا کہ علماء اس دُنیا سے رخصت ہو گئے تھے۔
 

محمد نعیم یونس

خاص رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
اپریل 27، 2013
پیغامات
26,582
ری ایکشن اسکور
6,748
پوائنٹ
1,207
قبروں کے پاس بیٹھ کر اللہ کی عبادت کرنا یا قبر ستان میں مسجد بنانا …

قبروں کے پاس بیٹھ کر اللہ کی عبادت کرنا یا قبر ستان میں مسجد بنانا …
باب:من التغلیظ فیمن عبد اﷲ عند قبر رجل صالح فکیف اذا عبدہ

اس باب میں بتایا گیا ہے کہ کسی بزرگ کی قبر کے پاس بیٹھ کر اللہ تعالیٰ کی عبادت کرنا کس درجہ فتنوں کو دعوت دیتا ہے، چہ جائیکہ خود اُس مردِ صالح کی عبادت کی جائے۔
فی الصحیح عن عائشۃ رضی اللہ عنہا اَنَّ اُمَّ سَلَمَۃَ ذَکَرَتْ لِرَسُوْلِ اﷲِ صلی اللہ علیہ وسلم کَنِیْسَۃً رَاَتْھَا بِاَرْضِ الْحَبْشَۃِ وَ مَا فِیْھَا مِنَ الصُوَرِ فَقَالَ اُولٰٓئِکَ اِذَا مَاتَ فِیْھِمُ الرَّجُلُ الصَّالِحُ اَوِ الْعَبْدُ الصَّالِحُ بَنَوْا عَلٰی قَبْرِہٖ مَسْجِدًا وَ صَوَّرُوْہ فِیْہِ تِلْکَ الصُّوَرَ اُولٰٓئِکَ شِرَارُ الْخَلْقِ عِنْدَ اﷲِ (فَھٰؤُلَآءِ جَمَعُوْا بَیْنَ فِتْنَتَیْنِ فِتْنَۃَ الْقُبُوْرِ وَ فِتْنَۃَ التَّمَاثِیْلِ)
صحیح بخاری و صحیح مسلم میں سیدہ عائشہ رضی اللہ عنہا سے مروی ہے کہ
سیدہ اُمّ سلمہ رضی اللہ عنہا نے ملک حبشہ میں ایک گرجا دیکھا جس میں تصاویر بھی تھیں۔ سیدہ اُمّ سلمہ رضی اللہ عنہا نے یہ چشم دید منظر رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کو بتایا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:’’ان میں اگر کوئی صالح اور دیندار شخص فوت ہو جاتا تو یہ لوگ اُس کی قبر کے پاس مسجد بنا لیتے اور پھر اُس مسجد میں فوت شدہ شخص کی تصویر بناکر لٹکا دیتے تھے۔ فرمایا کہ اللہ تعالیٰ کی مخلوق میں اس قسم کے افراد اللہ تعالیٰ کی بارگاہ میں بدترین لوگ شمار ہوتے ہیں۔ (ان لوگوں میں بیک وقت دو فتنے جمع ہو گئے، ایک قبروں کا اور دوسرا تصاویر کا)۔
اس ارشادِ گرامی سے ثابت ہوا کہ قبرستان میں مسجد تعمیر کرنا حرام ہے کیونکہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ایسے افراد پر لعنت فرمائی ہے۔ شیخ الاسلام امام ابن تیمیہ رحمہ اللہ فرماتے ہیں کہ: ’’چونکہ قبروں پر مساجد کی تعمیر کی وجہ سے اکثر و بیشتر قومیں شرک میں ملوث ہو کر عذاب الٰہی کا شکار ہوئی تھیں، اسی بنا پر رحمۃ للعالمین صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنی اُمت کو اس سے سختی سے منع فرما دیا کیونکہ انسان جب کسی صالح اور بزرگ شخص کی تصویر کو دیکھتا ہے تو سمجھنے لگتا ہے کہ اس میں نجوم اور کواکب کی تاثیر کو بڑا دخل ہو گا۔ انسان کی یہ فطرت ہے کہ وہ بنسبت لکڑی یا پتھر کے کسی صالح اور بزرگ کی تصویر سے زیادہ جلدی متاثر ہوتا اور شرک میں مبتلا ہو جاتا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ جب ہم مشرکین کو کسی بزرگ کی قبر پر دیکھتے ہیں تو وہ وہاں آہ و زاری میں مبتلا ہوتے ہیں، انتہائی خوف و خشیت کی حالت میں دعائیں کرتے ہیں اور قلب و ذہن کی تمام توجہات سے اس طرح قبر پر عبادت میں مشغول ہوتے ہیں کہ مسجد میں ان کی یہ کیفیت ہرگز نہیں ہو پاتی۔ اکثر لوگوں کو سجدہ کرتے ہوئے بھی دیکھا گیا ہے اور وہ وہاں نماز پڑھنے اور دعاء و التجا کرنے کو مسجد سے زیادہ بابرکت سمجھتے ہیں، اسی خرابی کو مد نظر رکھتے ہوئے رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے قبروں کو سطح زمین سے صرف ایک بالشت اوپر رکھنے کا حکم فرمایا۔ حتی کہ قبرستان میں نماز پڑھنے سے بھی منع فرما دیا گیا۔ اگرچہ نمازی کی نیت برکت حاصل کرنا نہ ہو، جیسا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے طلوع شمس کے وقت نماز پڑھنے کو منع فرمایا اس لئے کہ مشرکین اس وقت سورج کی پوجا اور پرستش کرتے تھے چنانچہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنی اُمت کو اس وقت نماز پڑھنے سے منع فرما دیا، بیشک نمازی سورج کی پوجا نہ کرتا ہو، شریعت کا مقصد یہ ہے کہ شرک تک رسائی کے تمام دروازوں کو بند کر دیا جائے۔
جو شخص قبرستان میں نماز اس لئے پڑھتا ہے کہ اسے برکت ِ کثیر حاصل ہو گی تو گویا وہ براہِ راست اللہ تعالیٰ اور اس کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم سے جنگ کا مرتکب ہوا ہے، وہ شریعت اسلامیہ کی کھلم کھلا مخالفت پر اتر آیا ہے اور دین اسلام میں ایسی رخنہ اندازی کر رہا ہے جس کی اللہ تعالیٰ نے قطعاً اجازت نہیں دی۔ تمام مسلمانوں کا اس بات پر مکمل اتفاق ہے کہ شریعت اسلامیہ میں قبروں پر نماز پڑھنا ممنوع بلکہ حرام ہے اور یہ کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ایسا کرنے والے پر لعنت بھی کی ہے۔
دین میں سب سے بڑی بدعت قبروں پر مسجد بنانا اور وہاں نماز پڑھنا ہے، اور شرک میں مبتلا ہونے کا سب سے بڑا سبب بھی یہی ہے۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے فرامین اور نصوص حد تواتر تک پہنچ گئے ہیں کہ قبرستان میں نماز پڑھنا حرام ہے۔ تمام ائمہ کرام قبرستان میں مسجد تعمیر کرنے کو خلافِ سنت اور منافی شریعت قرار دیتے ہیں۔
ولھما عنھا قَالَتْ لَمَّا نُزِلَ بِرَسُوْلِ اﷲِ صلی اللہ علیہ وسلم طَفِقَ یَطْرَحُ خَمِیْصَۃً لَّہٗ عَلٰی وَجْھِہٖ فَاِذَا اغْتَمَّ بِھَا کَشَفَھَا فَقَالَ وَھُوَ کَذٰلِکَ لَعْنَۃُ اﷲِ عَلَی الْیَھُوْدِ وَ النَّصَارٰی اِتَّخَذُوْا قُبُوْرَ اَنْبِیَاؓئِھِمْ مَّسَاجِدَ یُحَذِّرُ مَا صَنَعُوْا وَلَوْ لَا ذٰلِکَ اُبْرِزَ قَبْرُہٗ غَیْرَ اَنَّہٗ خُشِیَ اَنْ یُّتَّخَذَ مَسْجِدًا
صحیح بخاری و صحیح مسلم میں اُمّ المؤمنین سیدہ عائشہ رضی اللہ عنہا سے روایت ہے کہ
رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم پر وفات کی علامات ظاہر ہوئیں تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم شدت تکلیف سے اپنی چادر کبھی چہرئہ انور پر ڈال لیتے اور کبھی چہرے کو کھلا رکھتے جب کھلا رکھتے تو فرماتے کہ یہود و نصاریٰ پر لعنت ہو اُنہوں نے انبیائے کرام کی قبروں کو عبادت گاہ بنا لیا۔ سیدہ عائشہ رضی اللہ عنہا فرماتی ہیں کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم یہود و نصاریٰ کے اس کردار سے ڈرا رہے تھے۔ اگر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی قبر کو سجدہ گاہ بنائے جانے کا خدشہ نہ ہوتا تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی قبر بھی عام صحابہ کی قبروں کی طرح ظاہر ہوتی۔
اسلام کی بے چارگی کا آپ اس سے اندازہ لگا سکتے ہیں کہ جس عمل بد سے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے روکا، اور اس کے کرنے والے کو ملعون قرار دیا، آج اسی عمل میں آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی اُمت کی اکثریت گرفتار ہو چکی ہے۔ اسلام کی نگاہ میں یہ بدترین گناہ ہے لیکن بعض لوگ اسے اللہ تعالیٰ کے قرب کا ذریعہ اور اس کی رضا کا سبب سمجھے ہوئے ہیں حالانکہ یہ براہِ راست اللہ تعالیٰ اور اس کے رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے عداوت اور جنگ کرنے کے مترادف ہے۔ اگر آپ اس پر ذرا غور فرمائیں گے تو یہ حقیقت واضح ہو جائے گی کہ قبر کے پجاریوں اور اصنام پرستوں کے درمیان کوئی فرق نہیں ہے۔
علامہ قرطبی رحمہ اللہ کہتے ہیں:
’’یہی وجہ ہے کہ مسلمانوں نے ذرائع شرک کے سدباب کی غرض سے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی قبر مبارک کے سلسلے میں انتہائی احتیاط سے کام لیا۔ انہوں نے آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی قبر کی دیوار کو اتنا اونچا کر دیا کہ اس میں داخل ہونے کی کوئی صورت باقی نہ رہی۔ پھر اس کے ارد گرد چاردیواری تعمیر کی جس کی وجہ سے وہ ایک گھیرے میں آ گئی۔ بعد ازاں ان کو یہ خطرہ لاحق ہوا کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی قبر کو قبلہ نہ بنا لیا جائے، کیونکہ وہ نمازیوں کے سامنے پڑتی تھی اور ان کے متعلق یہ گمان کیا جا سکتا تھا کہ وہ عبادت کی صورت میں، اس کے سامنے کھڑے ہو کر نماز پڑھنا شروع کر دیں گے چنانچہ اس خطرے کے پیش نظر قبر کے جانب شمال میں دونوں طرف دیواریں اس انداز سے تعمیر کی گئیں کہ نمازیوں کے سامنے آنا ممکن نہ رہا‘‘۔
ولمسلم عن جندب بن عبد اﷲ رضی اللہ عنہ قَالَ سَمِعْتُ النَّبِیَّ صلی اللہ علیہ وسلم قَبْلَ اَنْ یَّمُوْتَ بِخَمْسٍ وَ ھُوَ یَقُوْلُ اِنِّیْ اَبْرَأ اِلَی اﷲِ اَنْ یَّکُوْنَ لِیْ مِنْکُمْ خَلِیْلٌ فَاِنَّ اﷲَ قَدِ اتَّخَذَنِیْ خَلِیْلًا وَ لَوْ کُنْتُ مُتَّخِذًا مِنْ اُمَّتِیْ خَلِیْلًا لَاتَّخَذْتُ اَبَا بَکْرٍ خَلِیْلًا اَلَا وَ اِنَّ مَنْ کَانَ قَبْلَکُمْ کَانُوْا یَتَّخِذُوْنَ مِنْ قُبُوْرِ اَنْبِیَاؓئِھِمْ مَسَاجِدَ اَلَا فَلَا تَتَّخِذُوا الْقُبُوْرَ مَسَاجِدَ فَاِنِّیْ اَنْھَاکُمْ عَنْ ذٰلِکَ
صحیح مسلم میں سیدنا جندب بن عبداﷲ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے، وہ کہتے ہیں کہ
میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو وفات سے پانچ روز قبل یہ فرماتے ہوئے سنا کہ میں تم میں سے کسی کو اپنا خلیل نہیں بنا سکتا کیونکہ اللہ تعالیٰ نے مجھے اپنا خلیل بنا لیا ہے اور اگر میں اپنی اُمت میں سے کسی کو خلیل بناتا تو (سیدنا) ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ ہی کو بناتا۔ غور سے سنو! تم سے پہلے لوگ اپنے انبیاء کی قبروں کو عبادت گاہ بنا لیا کرتے تھے۔ خبردار! میں تم کو قبروں میں مساجد تعمیر کرنے سے منع کرتا ہوں۔
رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے اس ارشادِ گرامی سے معلوم ہوا کہ خلت کا مقام محبت سے کہیں بلند ہے۔ بعض لوگ یہ مغالطہ دیتے ہیں کہ محبت کا مقام اور درجہ خلت سے بڑھا ہوا ہے اور اللہ تعالیٰ نے سیدنا ابراہیم علیہ السلام کو خلیل اور رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کو حبیب کے لقب سے نوازا ہے۔ یہ اُن لوگوں کی جہالت ہے۔ وجہ یہ ہے کہ محبت عام ہے اور خلت خاص محبت کی انتہا کو خلت کہا جاتا ہے۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا ہے کہ مجھے اللہ تعالیٰ نے خلیل ٹھہرا لیا ہے۔ رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے اس کی وضاحت یوں فرمائی ہے کہ اللہ تعالیٰ کے سوا ان کا کوئی اور خلیل نہیں ہے، جہاں تک محبت کا تعلق ہے اس کی صف میں کئی لوگ آتے ہیں چنانچہ سیدہ عائشہ رضی اللہ عنہا اور اُن کے والد ماجد سیدنا ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ ، عمر بن الخطاب رضی اللہ عنہ اور معاذ بن جبل رضی اللہ عنہ وغیرہ صحابہ سے آپ کو محبت تھی اسی طرح اللہ تعالیٰ توبہ کرنے والوں، پاک و صاف رہنے والوں اور صبر کرنے والوں سے محبت رکھتا ہے لیکن اس نے اپنی مخلوق میں سے صرف دو انبیاء کو خلیل ٹھہرایا ہے ایک سیدنا ابراہیم علیہ السلام کو اور دوسرے رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کو۔
رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے اس ارشاد سے معلوم ہوا کہ صدیق اکبر رضی اللہ عنہ تمام صحابہ رضی اللہ عنہم سے افضل ہیں اس میں رافضیوں (موجودہ اہل تشیع) اور جہمیوں کی تردید ہو گئی کیونکہ یہ دونوں فرقے اہل بدعت میں سے سب سے زیادہ شریر ہیں بلکہ بعض سلف نے تو ان کو بہتر فرقوں میں سے بھی باہر نکال دیا ہے۔ تاریخ کا مطالعہ کرنے والوں سے یہ بات پوشیدہ نہیں کہ ان رافضیوں (شیعوں) کی وجہ سے شرک اور قبروں کی پوجا شروع ہوئی اور یہ وہ فرقہ ہے جس نے سب سے پہلے قبروں میں مساجد تعمیر کرنے کا سلسلہ شروع کیا تھا۔ شیخ الاسلام امام ابن تیمیہ رحمہ اللہ نے بھی انہیں توحید سے سب سے دُور بتلایا ہے۔
رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے اس ارشاد گرامی میں سیدنا ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ کی خلافت کی طرف واضح اشارہ موجود ہے کیونکہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی محبت جس سے زیادہ ہو گی وہی آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی جانشینی کا زیادہ مستحق ہو گا۔ دوسری بات یہ کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے سیدنا ابوبکر رضی اللہ عنہ کو نماز پڑھانے پر اپنا خلیفہ مقرر فرمایا تھا۔ تیسری یہ کہ جب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے یہ عرض کیا گیا کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم عمر بن الخطاب رضی اللہ عنہ کو نماز پڑھانے کے لئے فرمائیں تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم برہم اور ناراض ہوئے۔ یہ واقعہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے مرض الموت کا ہے۔
یہود و نصاریٰ کے اس فعل پر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے جو انکار فرمایا ہے، اس کے دو سبب تھے:
۱۔ پہلا یہ کہ وہ انبیائے کرام کی قبروں کو تعظیمی سجدہ کیا کرتے تھے۔
۲۔ دوسرا یہ کہ وہ انبیاء کی قبروں پر نماز پڑھنا باعث برکت خیال کرتے تھے اور حالت نماز میں ان انبیاء کی طرف خاص توجہ رکھتے تھے۔ ان کا عقیدہ تھا کہ انبیاء کی تعظیم و توقیر کی وجہ سے اللہ تعالیٰ کی عبادت کو ایک خاص درجہ حاصل ہو جائے گا۔ پہلی صورت شرکِ جلی کہلاتی ہے اور دوسری شرکِ خفی۔ اِسی بنا پر وہ لعنت کے مستحق ٹھہرائے گئے۔


جناب سید المرسلین صلی اللہ علیہ وسلم کی اس درجہ سخت تہدید، شدید وعید اور ان کو ملعون قرار دینے کے بعد ایک مسلمان کا قبروں کی تعظیم کرنا، اور ان پر قبے (ومزار) تعمیر کرنا، وہاں جا کر اور خصوصاً ان کو مرکز ِ توجہ ٹھہرا کر نماز پڑھنا کیوں کر جائز ہو سکتا ہے؟ یہ لوگ اگر ذرا بھی غور و فکر کریں تو یہ بات واضح ہو جائے گی کہ یہ براہِ راست اللہ اور اس کے رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ دشمنی اور جنگ کرنے کے مترادف ہے۔ اللہ کی قسم یہی وہ دروازہ ہے جس سے یغوثؔ، یعوقؔ، نسرؔ اور اصنام پرستوں میں شیطان داخل ہوا اور قیامت تک یہی ہوتا رہے گا۔ پس مشرکین میں دو جُرم بیک وقت جمع ہو گئے: ایک صالحین کی شان میں غُلُوْ، اور دوسرا صالحین کے طریقے کی مخالفت۔ اہل توحید کو اللہ تعالیٰ نے ہدایت سے نوازا کیونکہ یہ اہل اللہ اور صالحین کے نقش قدم پر چلے ان کو اس مقام سے بلند نہ سمجھا جس پر اللہ تعالیٰ نے ان کو فائز کیا ہے، اور وہ عبدیت کا عظیم مقام ہے، جس میں اُلوہیت کی کوئی بھی خصوصیت نہیں پائی جاتی۔
صحابہ کرام رضی اللہ عنہم سے یہ توقع نہ تھی کہ وہ رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی قبر کے ارد گرد مسجد بنا لیں گے کیونکہ جس جگہ نماز پڑھنا مقصود ہو وہ مسجد ہی کا حکم رکھتی ہے۔ حقیقت یہ ہے کہ ہر وہ جگہ جہاں نماز پڑھی جائے اُسے مسجد ہی کے نام سے موسوم کیا جاتا ہے۔ جیسا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ میری اُمت کے لئے رُوئے زمین کو پاک صاف اور مسجد قرار دے دیا گیا ہے۔
و لاحمد بسند جید عن ابن مسعود رضی اللہ عنہ مرفوعا اِنَّ مِنْ شِرَارِ النَّاسِ مَنْ تُدْرِکُھُمُ السَّاعَۃُ وَ ھُمْ اَحْیَاؓءُ ورواہ ابو حاتم فی صحیحہ وَالَّذِیْنَ یَتَّخِذُوْنَ الْقُبُوْرَ مَسَاجِدَ
مسند امام احمد میں بسند جید سیدنا ابن مسعود رضی اللہ عنہ سے مرفوعا روایت ہے کہ
رسولِ اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ بدترین اور شریر لوگ وہ ہوں گے کہ جن کی زندگی میں بڑے بڑے آثارِ قیامت نمودار ہوں گے۔ امام ابو حاتم نے اپنی صحیح میں روایت کیا ہے کہ (یہ وہ لوگ ہوں گے) جو قبرستانوں میں مسجدیں تعمیر کریں گے۔
امام احمد بن حنبل رحمہ اللہ اور امام شافعی رحمہ اللہ کے اصحاب قبرستان میں مسجد تعمیر کرنے کو حرام سمجھتے ہیں۔ اس پر شیخ الاسلام امام ابن تیمیہ ررحمہ اللہ درج کرتے ہوئے رقمطراز ہیں کہ
’’انبیاء و صالحین اور بعض بادشاہوں کی قبروں پر جو مساجد نظر آ رہی ہیں ان کا انہدام ضروری ہے اور ان کو منہدم کرنے میں کسی صاحب علم کو اختلاف نہیں ہے‘‘۔
امام ابن قیم رحمہ اللہ فرماتے ہیں کہ :
’’قبروں پر جو بڑے بڑے قبے (ومزار) نظر آرہے ہیں ان کو منہدم کر دینا واجب ہے کیونکہ ان کی بنیاد اللہ تعالیٰ اور اس کے رسولِ اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی مخالفت پر رکھی گئی ہے۔
علامہ زیلعی حنفی رحمہ اللہ شرح کنز میں تحریر فرماتے ہیں کہ:
’’قبروں پر تعمیرات کرنا مکروہ ہے۔ فتاویٰ قاضی خاں کے حوالے سے لکھتے ہیں کہ قبروں کو چونے (و سیمنٹ) سے پختہ کرنا اور ان پر قبے وغیرہ بنانا ممنوع ہے۔ کیونکہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے قبر کو چونا گچ کرنے اور اس پر تعمیر کرنے کو منع فرمایا ہے۔ حنفیہ کے نزدیک یہ عمل مکروہِ تحریمی ہے۔
اگر پہلے سے مسجد بنی ہوئی ہے تو اس میں نماز پڑھنا منع ہے۔ قبر آگے ہو یا پیچھے، اس سے کوئی فرق نہیں پڑتا۔ بلا اختلاف کسی مذہب کے ایسا کرنا معصیت ہے کیونکہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا فرمان ہے:
(ترجمہ) تم سے پہلے لوگ انبیاء و صالحین کی قبروں کو عبادت گاہ بنا لیا کرتے تھے۔ خبردار! میں تم کو قبرستان کو عبادت گاہ بنانے سے منع کرتا ہوں‘‘۔
اگر پہلے سے مسجد نہیں ہے تو بھی قبر کے پاس نماز پڑھنا ممنوع ہے، اس لئے کہ نماز کی مخالفت تو قبر کی وجہ سے ہے، خواہ مسجد ہو یا نہ ہو، ہر وہ مقام جہاں نماز ادا کی جائے، اُسے مسجد کہا جاتا ہے اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا ارشاد بھی یہی ہے کہ:
’’میری اُمت کے لئے ساری زمین کو پاک اور مسجد قرار دے دیا گیا ہے‘‘۔
ایک قبر کی جگہ ہو یا زیادہ کی، بہر حال جہاں قبر ہو وہاں نماز نہیں پڑھنی چاہیئے۔ ان دلائل سے ثابت ہوا کہ قبر اور اس کے صحن میں نماز پڑھنا حرام ہے۔ اس طرح جو مسجد قبرستان میں تعمیر ہو چکی ہو، اس میں نماز پڑھنا حرام ہے خواہ نمازی اور قبر کے درمیان کوئی دیوار وغیرہ حائل ہو یا نہ ہو۔


فیہ مسائل
٭ جو بھی کسی صالح اور بزرگ کی قبر کے پاس عبادت کے لئے مسجد تعمیر کرتا ہے، اگرچہ اُس کی نیت صحیح ہو وہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے تہدیدی فرمان کی زد میںآتا ہے۔ ٭ کسی صالح شخص کی تصویر بنانے کی حرمت میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی سخت ترین وعید ہے۔٭ رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے شدید تہدیدی کلمات میں عبرت و نصیحت کا یہ پہلو پنہاں ہے کہ ابتداء میں آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اس مسئلہ کی نرم الفاظ میں وضاحت فرمائی اور پھر وفات سے پانچ روز پہلے اس کی سختی سے تردید فرمائی۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اِسی پر بس نہیں کی (بلکہ وفات کے وقت ایسے لوگوں کو جو قبروں میں مساجد تعمیر کرتے ہیں، ملعون قرار دیا)۔ ٭ رسولِ اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنی قبر پر تعمیر مسجد سے منع فرمایا حالانکہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی قبر اُس وقت موجود نہ تھی۔٭ قبروں پر مسجد بنانا اور اُن میں عبادت کرنا یہود و نصاریٰ کا طریقہ تھا۔ ٭ اسی بنا پر رسولِ کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے یہود و نصاریٰ کو ملعون قرار دیا۔ ٭ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا یہود و نصاریٰ پر لعنت کرنے کا اصل مطلب یہ تھا کہ مسلمان آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی قبر پر اس قسم کے افعال کا ارتکاب نہ کریں۔٭ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی قبر کو ظاہر اور کھلا نہ رکھنے کا سبب اور مصلحت۔ ٭ قبر کو عبادت گاہ بنانے کے نقصانات کا تفصیل سے جائزہ لینا۔ ٭ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے قبروں پر مساجد تعمیر کرنے والوں اور اُن بدترین لوگوں کو جن کی زندگی میں قیامت برپا ہو گی، ایک ہی مقام دیا ہے۔ چنانچہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے شرک کے وقوع سے پہلے ہی اُس کے اسباب پر روشنی ڈال دی۔٭ رحمت عالم صلی اللہ علیہ وسلم نے وفات سے صرف پانچ روز قبل اس فتنے کے بارے میں صحابہ کرام رضی اللہ عنہم کو آگاہ فرمایا۔ اہل بدعت کے سب سے زیادہ شریر دو فرقوں کی تردید۔ اور بعض اہل علم نے تو ان کو بہتر فرقوں سے بھی خارج قرار دیا ہے۔ ان دو فرقوں میں ایک رافضی (شیعہ) اور دوسرا جہمیہ ہے۔ خصوصاً رافضیوں کی وجہ سے مسلمانوں میں شرک اور قبروں کی عبادت کے فتنے نے جنم لیا اور یہی وہ فرقہ ہے جس نے سب سے پہلے قبروں پر مساجد تعمیر کرنے کا سلسلہ شروع کیا تھا۔٭ اس باب میں یہ بھی بیان ہوا ہے کہ رحمت دو عالم صلی اللہ علیہ وسلم کو وفات کے وقت سخت تکلیف برداشت کرنی پڑی۔ ٭ رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کو خلت کی عظمت و بزرگی سے نوازا گیا ہے۔ ٭ اس بات کی وضاحت کہ خلت کا مقام محبت سے اونچا ہے۔ ٭ اس بات کی بھی تصریح کہ سیدنا ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ تمام صحابہ رضی اللہ عنہم سے افضل ہیں۔ ٭ رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کا اپنی زندگی میں ہی صدیق اکبر رضی اللہ عنہ کی خلافت کی طرف اشارہ فرمانا۔
 

محمد نعیم یونس

خاص رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
اپریل 27، 2013
پیغامات
26,582
ری ایکشن اسکور
6,748
پوائنٹ
1,207
بزرگوں کی قبروں کے بارے میں غلو کرنے کا نتیجہ …ان کی عبادت

بزرگوں کی قبروں کے بارے میں غلو کرنے کا نتیجہ …ان کی عبادت
باب:ان الغلو فی قبور الصالحین یصیرھا اوثانا تعبد من دون اﷲ

یہ باب اس بیان میں ہے کہ بزرگوں کی قبروں کے بارے میں غلو کرنے کا نتیجہ یہ نکلتا ہے کہ اُن کو بتوں کی حیثیت دے دی جاتی ہے اور پھر اُن کی بھی پرستش ہونے لگتی ہے۔
روی مالک فی المؤطا اَنَّ رَسُوْلَ اﷲِ صلی اللہ علیہ وسلم قَالَ اَللّٰھُمَّ لَا تَجْعَلْ قَبْرِیْ وَثَنًا یُّعْبَدُ اِشْتَدَّ غَضَبُ اﷲِ عَلٰی قَوْمٍ اِتَّخَذُوْا قُبُوْرَ اَنْبِیَاؓئِھِمْ مَسَاجِدَ
امام مالک رحمہ اللہ اپنی کتاب موطا میں روایت نقل کرتے ہیں کہ رسولِ اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا ک
ہ اے اللہ! میری قبر کو وثن نہ بنانا جسے لوگ پوجنا شروع کر دیں۔ اُن اقوام پر اللہ تعالیٰ کا غضب اور قہر نازل ہوا جنہوں نے اپنے انبیاء کی قبروں کو عبادت گاہیں بنا لیا تھا۔
اللہ تعالیٰ نے اپنے خلیل صلی اللہ علیہ وسلم کی دعا کو قبول فرمایا اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی قبر کو تین دیواروں میں چھپا دیا ہے اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی قبر مبارک کے اطراف کو آپ کی دعا کی وجہ سے اللہ رب العزت نے اپنی خاص رحمت اور حفاظت و صیانت میں لے لیا ہے۔ زیر بحث حدیث کے الفاظ اس بات پر شاہد ہیں کہ اگر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی قبر مبارک کو پوجا جاتا تو وہ بہت بڑا وثن بن جاتی لیکن اللہ تعالیٰ نے آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی قبر انور کو اس طرح محفوظ فرمایا ہے کہ وہاں تک پہنچنا کسی بادشاہ کے اختیار میں بھی نہیں رہا۔ حدیث مذکورہ سے یہ بات بھی معلوم ہوئی کہ وہ قبر، وثن کہلاتی ہے جسے قبروں کے پجاری اپنے ہاتھوں سے چومنا چاٹنا شروع کر دیں یا ان کے تابوتوں سے برکت حاصل کرنے کا ارادہ کریں۔ افسوس کہ آجکل قبروں کی تعظیم اور ان کی عبادت کا فتنہ اس قدر عام ہو گیا ہے کہ الامان والحفیظ۔
سیدنا عمر بن الخطاب رضی اللہ عنہ نے اُس درخت کو جڑ سے کاٹ پھینکے کا حکم صادر کیا جس کے نیچے بیٹھ کر رحمت عالم صلی اللہ علیہ وسلم نے حدیبیہ کے مقام پر لوگوں سے بیعت لی تھی۔ اس درخت کو اس لئے کاٹ دیا گیا کہ لوگوں نے وہاں جا کر اُس کے نیچے نماز پڑھنا شروع کر دی تھی۔ سیدنا عمر رضی اللہ عنہ نے شرک کا فتنہ پھیلنے کے خدشے کی وجہ سے اس کو کٹوا دیا تھا۔
خالد بن دینار کہتے ہیں کہ ابو العالیہ نے ہمیں مندرجہ ذیل عجیب و غریب واقعہ سنایا، فرماتے ہیں کہ ’’جب ہم نے تسترؔ (نامی ایرانی شہر) فتح کیا تو ہرمزانؔ کے مال میں جہاں اور بہت سی اشیاء دستیاب ہوئیں وہاں ایک چارپائی بھی ملی جس پر ایک شخص کی لاش تھی، اور اُس کے سرہانے ایک مصحف رکھا ہوا تھا۔ ہم اسے امیر المؤمنین عمر بن الخطاب رضی اللہ عنہ کی خدمت میں لے گئے۔ امیر المؤمنین کے حکم کے مطابق سیدنا کعب رضی اللہ عنہ نے اس کا عربی زبان میں ترجمہ کیا۔ ابو العالیہ رحمہ اللہ کہنے لگے میں نے اُس کو اس طرح پڑھ کر سنایا جیسا ہم قرآن پڑھا کرتے ہیں۔ خالد بن دینار: اُس مصحف میں کیا لکھا ہوا تھا؟ ابوالعالیہ بولے: تمہارے ہی جیسے اُمور و احکام، اور تمہارے ہی جیسی خوش الحانی، اور اس کے علاوہ بہت سی آئندہ پیش آنے والی باتیں۔ خالد بن دینار نے سوال کیا: تم نے اس شخص کی لاش کے ساتھ کیا سلوک کیا؟ ابوالعالیہ رحمہ اللہ : ہم نے دن کی روشنی میں مختلف تیرہ قبریں کھودیں اور پھر رات کی تاریکی میں ہم نے اس میت کو ایک قبر میں دفن کر کے تمام قبروں کو برابر کر دیا تاکہ لوگوں کو پتہ ہی نہ چل سکے کہ وہ کس قبر میں مدفون ہے۔ خالد بن دینار: اس لاش کے بارے میں تمہاری کیا رائے ہے کہ وہ کون تھا؟ ابوالعالیہ رحمہ اللہ : وہ سیدنا دانیال علیہ السلام کی لاش تھی۔ خالد بن دینار: تمہاری رائے میں اُن کو فوت ہوئے کتنا عرصہ گزرا ہو گا؟ ابوالعالیہ: تین سو سال کے قریب۔ خالد بن دینار: جسم میں کسی قسم کی تبدیلی تو نہیں ہوئی تھی؟ ابوالعالیہ: ہرگز نہیں صرف گدی کے قریب چند بال متغیر ہو گئے تھے کیونکہ انبیاء کے جسموں کو زمین خراب نہیں کر سکتی۔
اس واقعہ کے بارے میں علامہ ابن قیم رحمہ اللہ فرماتے ہیں کہ:
’’مہاجرین اور انصار مجاہدین صحابہ رضی اللہ عنہم نے سیدنا دانیال علیہ السلام کی قبر کو اس لئے برابر اور لوگوں کی نظروں سے اوجھل کر دیا تاکہ بعد میں آنے والے لوگ شرک و بدعت کے فتنے میں گرفتار نہ ہو جائیں۔ اور اس لئے بھی قبر کو ظاہر نہیں کیا تاکہ لوگ یہاں آ کر دعا اور تبرک حاصل نہ کر سکیں۔ کیونکہ اگر قبر کو نمایاں اور ظاہر کر دیا جاتا تو بعد میں آنے والے لوگ اللہ تعالیٰ کے علاوہ اس کی پوجا شروع کر دیتے۔ اور اگر متاخرین قبر کو ظاہر کرنے میں کامیاب ہو جاتے تو اس پر تلواروں سے جنگ شروع ہو جاتی اور پھر اللہ کے سوا قبر کی پوجا شروع ہو جاتی‘‘۔
اہل قبور کے لئے دُعائے مغفرت کی نیت سے جانا ممنوع نہیں بلکہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے اس کا حکم فرمایا ہے۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم فرماتے ہیں کہ:
(ترجمہ) قبروں کی زیارت کیا کرو کیونکہ وہ آخرت کو یاد دلاتی ہیں‘‘۔
جیسا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم خود اپنی والدہ ماجدہ کی قبر پر تشریف لے گئے تھے۔
ولابن جریر بسندہ عن سفیان عن منصور عن مجاھد اَفَرَاَیْتُمُ اللَّاتَ وَ الْعُزّٰی قَالَ کَانَ یَلُتُّ لَھُمْ السَّوِیْقَ فَمَاتَ فَعَکَفُوْا عَلٰی قَبْرِہٖ
علامہ ابن جریر رحمہ اللہ آیت کریمہ’’اَفَرَاَیْتُمُ اللَّاتَ وَ الْعُزّٰی‘‘ میں مذکور اللَّات کے بارے میں مجاہد رحمہ اللہ کا قول اپنی سند سے عن سفیان عن منصور نقل کرتے ہیں کہ
’’لاتؔ حجاج کرام کو ستو گھول کر پلایا کرتا تھا، جب یہ فوت ہو گیا تو لوگ اس کی قبر پر مجاور بن کر بیٹھ گئے‘‘۔
زیر بحث روایت کی باب سے مناسبت یہ ہے کہ لوگ اس شخص کی سخاوت دیکھ کر، اس کی محبت میں غلو کا شکار ہو گئے اور نوبت بایں جا رسید کہ اس کی عبادت شروع ہو گئی اور پھر اس کی قبر مشرکین عرب کا بہت بڑا وثن اور بت بن گئی۔
وکذا قال ابو الجوزاء عن ابن عباس رضی اللہ عنہ کَانَ یَلُتُّ السَّوِیْقَ لِلْحَاجِّ
ابن الجوزاء رحمہ اللہ نے بھی سیدنا ابن عباس رضی اللہ عنہ سے یہی نقل کیا ہے کہ لاتؔ حجاجِ کرام کو ستو گھول کر پلایا کرتا تھا
وعن ابن عباس رضی اللہ عنہ قَالَ لَعَنَ رَسُوْلُ اﷲِ صلی اللہ علیہ وسلم زَائِرَاتِ الْقُبُوْرِ وَ الْمُتَّخِذِیْنَ عَلَیْھَا الْمَسَاجِدَ وَ السُّرُجَ رواہ اھل السنن
سیدنا ابن عباس رضی اللہ عنہ سے روایت ہے، وہ کہتے ہیں کہ
رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے اُن عورتوں کو ملعون قرار دیا ہے جو قبروں کی زیارت کرتی ہیں۔ اور اُن کو بھی ملعون قرار دیا جو قبروں میں مسجدیں بناتے اور قبروں پر چراغاں کرتے ہیں۔
اس حدیث کو اہل سنن نے روایت کیا ہے۔
کچھ لوگوں نے سیدہ عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہا کی حدیث کا سہارا لے کر عورتوں کو قبرستان جانے کی رخصت دے دی ہے، تو اُنہیں معلوم ہونا چاہیئے کہ سیدہ عائشہ رضی اللہ عنہا اپنے بھائی عبدالرحمن رضی اللہ عنہ کی قبر پر تشریف لے گئیں اور قبر پر کھڑی ہو کر کہنے لگیں کہ:
(ترجمہ) ’’(اے بھائی!) اگر میں تمہاری وفات کے وقت تمہارے پاس موجود ہوتی تو تمہاری قبر کی زیارت نہ کرتی‘‘۔
اس روایت سے بھی عورتوں کے لئے قبروں کی زیارت مستحب ثابت نہیں ہوتی جیسا کہ مردوں کے لئے مستحب ہے کیونکہ اگر عورتوں کے لئے بھی قبروں کی زیارت مستحب ہوتی تو سیدہ عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہا اپنے بھائی کی قبر کی زیارت پر اس معذرت کا اظہار نہ کرتیں۔
رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے مردوں کو اجازت دینے کی علت اور وجہ یہ بیان فرمائی کہ
’’قبروں کی زیارت موت دلاتی ہے، دل کو نرم کرتی ہے اور آنکھوں کو پر نم کرتی ہے‘‘۔ (مسند احمد)۔
اور تجربہ سے یہ بات ثابت ہے کہ اگر عورت کے لئے یہ اجازت دے دی جائے تو وہ اپنی فطری کمزوری کے باعث جزع فزع اور بین کرنے سے باز نہیں رہ سکتی جس کا حرام ہونا سب کے نزدیک مسلم ہے۔ اس طرح عورتوں کا قبروں کی زیارت کے لئے جانا گویا حرام کاموں میں مبتلا ہونے کا سبب بن سکتا تھا اور ظاہر ہے کہ کوئی ایسی حد مقرر نہیں کی جا سکتی جس کی بناء پر عورتیں جزع و فزع ایسے حرام کاموں سے بچ سکیں۔ اسی لئے ان کو بالکل روک دیا گیا۔ شریعت کا اصول بھی یہی ہے کہ کسی فعل کی حکمت پوشیدہ ہو یا ظاہر، حکم کا اطلاق مظنہ (یعنی خطرہ) کی بنا پر آتا ہے تاکہ نہ صرف اس برائی کو روکا جا سکے بلکہ وہ ذرائع و وسائل جو عام طور پر اس برائی کی طرف لے جاتے ہیں ان سے بھی روک دیا جائے۔
محمد بن اسماعیل الصنعانی رحمہ اللہ اپنی مشہور تصنیف ’’تطہیر الاعتقاد‘‘ میں فرماتے ہیں کہ:
’’یہ بڑے بڑے قبے (و مزار) اور میلے جو الحاد اور شرک میں مبتلا ہونے کا ذریعہ ہیں جن کی وجہ سے اسلام کی بنیادیں ہل کر رہ گئی ہیں ان کو تعمیر کرنے والے بڑے بڑے بادشاہ، سلاطین، رؤسا اور والیان ریاست ہی تو تھے۔ انہوں نے اپنے قریبی رشتہ داروں کے قبے و مزار بنائے، یا ان لوگوں کی قبروں پر قبے و مزار تعمیر کئے جن کے متعلق یہ ملوک اور سلاطین حسن ظن رکھتے تھے۔ جیسے کوئی فاضل، یا عالم، یا صوفی، یا فقیر، یا کوئی بہت بڑا بزرگ۔ جو لوگ ان کو جانتے تھے وہ تو ان کی قبروں کی زیارت اس نیت سے کرتے تھے کہ ان کے لئے دعا اور استغفار کریں۔ یہ لوگ ان کے نام کی قطعاً دہائی نہ دیتے تھے اور نہ ان کو وسیلہ ہی خیال کرتے تھے۔ بلکہ ان کے لئے دعا کرتے اور بخشش مانگتے۔ لیکن ان اصحابِ قبور کو جاننے والے جب خود فوت ہو گئے تو بعد میں آنے والوں نے دیکھا کہ قبر پر ایک شاندار قبہ و مزار تعمیر ہے، جس پر چراغاں بھی ہوتا ہے اور نہایت قیمتی فرش بچھایا گیا ہے اور قبر پر اعلیٰ قسم کے کپڑے کے پردے لٹک رہے ہیں اور قبر کو ہاروں اور پھولوں سے خوب لادا اور سجایا گیا ہے۔ اس پر انہوں نے سوچا کہ یہ سب کچھ اس لئے کیا گیا ہے تاکہ ان سے کوئی نفع حاصل کیا جائے یا کسی مصیبت سے نجات حاصل کی جائے۔ اور یہ ان قبروں کے مجاور اِن قبروں کے متعلق طرح طرح کے افسانے تراشتے ہیں۔ یعنی فلاں وقت یہ ہوا اور فلاں زمانے میں وہ ہوا۔ فلاں شخص کی تکلیف دُور ہو گئی اور فلاں شخص کو اتنا نفع ہوا حتی کہ سادہ لوح عوام کے دلوںمیں جھوٹا، من گھڑت اور شرکیہ عقیدہ گھر کر جاتا ہے۔ حالانکہ صحیح اور درست مسئلہ وہی ہے جو احادیث نبویہ صلی اللہ علیہ وسلم سے روزِ روشن کی طرح عیاں ہے کہ جو شخص قبروں پر چراغاں کرتا ہے یا ان پر کوئی تحریر لکھ کر لٹکاتا ہے یا قبر پر کسی قسم کی تعمیر کرتا ہے وہ عنداللہ ملعون قرار دیا گیا ہے۔ اس سلسلے میں بہت سی احادیث وارد ہیں اور معروف ہیں جن کی روشنی میں مندرجہ بالا اعمال ممنوع اور حرام ٹھہرائے گئے ہیں اور وہ عظیم خطرہ کا ذریعہ اور سبب بھی ہیں‘‘ـ۔
فیہ مسائل
٭اوثان کی تشریح و توضیح۔ ٭ عبادت کا تفصیلی بیان۔ ٭ رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے اُسی شے سے پناہ مانگی ہے جس سے کہ خطرے کا اندیشہ ہو۔ ٭ رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے قبروں پر چراغاں کرنے اور ان میں مساجد تعمیر کرنے کو ایک جیسا گناہ قرار دیا ہے۔ ٭ ایسے افراد پر اللہ تعالیٰ کے شدید غضب اور غصے کا ذکر جو قبروں پر چراغاں کرتے ہیں۔٭ لاتؔ کی عبادت کیسے کی گئی؟ لاتؔ عرب کا بہت بڑا بت تھا۔ ٭ اس کی پہچان کہ لاتؔ ایک صالح اور بزرگ شخص کی قبر تھی۔ ٭ لاتؔ، صاحب قبر کا نام تھا، اس کی وجہ تسمیہ بھی تفصیل سے بیان کی گئی ہے ٭رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے اُن عورتوں کو ملعون قرار دیا ہے جو قبروں کی زیارت کو جاتی ہیں۔٭ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا اُن لوگوں کو بھی ملعون قرار دینا جو قبروں پر چراغاں کرتے ہیں۔
 

محمد نعیم یونس

خاص رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
اپریل 27، 2013
پیغامات
26,582
ری ایکشن اسکور
6,748
پوائنٹ
1,207
خالف عقیدئہ توحید، اعمال و اقوال کی بیخ کنی

مخالف عقیدئہ توحید، اعمال و اقوال کی بیخ کنی رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے کیسے کی؟
باب:ما جاء فی حمایۃ المصطفٰی صلی اللہ علیہ وسلم التوحید و سد کل طریق یوصل الی الشرک

اس باب میں اس بات کی وضاحت کی گئی ہے کہ رسولِ اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے اُن اقوال و اعمال کی، جو عقیدئہ توحید میں نقص و اضمحلال کا باعث بنتے ہیں، کس طرح بیخ کنی کی اور شجر توحید کی آبیاری کیلئے کیا کیا کوششیں فرمائیں۔
قال اﷲ تعالیٰ لَقَدْ جَاءَ کُمْ رَسُوْلٌ مِّنْ اَنْفُسِکُمْ عَزِیْزٌ عَلَیْہِ مَا عَنِتُّمْ حَرِیْصٌ عَلَیْکُمْ بِالْمُؤْمِنِیْنَ رَءُ وْفٌ رَّحِیْمٌ فَاِنْ تَوَلَّوْ فَقُلْ حَسْبِیَ اﷲُ لَآ اِلٰــہَ اِلَّا ھُوَ عَلَیْہِ تَوَکَّلْتُ وَ ھُوَ رَبُّ الْعَرْشِ الْعَظِیْمِ
دیکھو! تم لوگوں کے پاس ایک رسول آیا ہے جو خود تم ہی میں سے ہے۔ تمہارا نقصان میں پڑنا اُس پر شاق ہے، تمہاری فلاح کا وہ حریص ہے، ایمان لانے والوں کے لئے وہ شفیق اور رحیم ہے۔ اب اگر یہ لوگ تم سے منہ پھیرتے ہیں تو اے نبی صلی اللہ علیہ وسلم ان سے کہہ دو کہ میرے لئے اللہ بس کافی ہے۔ کوئی معبود نہیں مگر وہی (اللہ)، اسی پر میں نے بھروسہ کیا اور وہ مالک ہے عرش عظیم کا۔
سیدنا ابراہیم علیہ السلام نے دعاء فرمائی تھی:
(ترجمہ) ’’اے اللہ! ان لوگوں میں خود ان ہی کی قوم سے ایک رسول بھیج‘‘۔ (البقرۃ:۱۲۹) ۔
چنانچہ اللہ تعالیٰ نے اپنے خلیل علیہ السلام کی دعا کو شرفِ قبولیت بخشا اور فرمایا:
(ترجمہ) ’’اللہ نے مومنوں پر بڑا اِحسان کیا ہے کہ ان میں اِ ن ہی میں سے ایک پیغمبر صلی اللہ علیہ وسلم مبعوث فرمایا‘‘۔
سورئہ توبہ میں ارشاد فرمایا:
(ترجمہ) ’’لوگو! تمہارے پاس تم ہی میں سے ایک پیغمبر آیا ہے‘‘ (التوبہ:۱۲۸)
سیدنا جعفر رضی اللہ عنہ بن ابی طالب نے شاہِ نجاشی سے اور سیدنا مغیرہ بن شعبہ رضی اللہ عنہ نے کسریٰ کے قاصد سے کہا تھا:
’’اللہ تعالیٰ نے ہماری طرف ایسا رسول ( صلی اللہ علیہ وسلم ) مبعوث فرمایا ہے جس کے حسب و نسب کو ہم جانتے ہیں، جن کے اوصافِ حمیدہ ہماری آنکھوں کے سامنے ہیں، جن کا آنا جانا، سفر و حضر، بیٹھنا اٹھنا اور چلنا پھرنا ہمارے علم میں ہے اور جس کی صداقت و امانت ہمارے ہاں مسلم ہے‘‘۔
حقیقت یہ ہے کہ شریعت محمدیہ کا ایک ایک امر اور حکم صاف ستھرا اور نکھرا ہوا ہے اور اس پر عمل کرنا انتہائی آسان ہے۔ لوگوں کا ہدایت قبول کرنا اور دینی و دنیوی اُمور میں کامیابی و کامرانی سے ہمکنار ہونا رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کا دلی منشاء تھا اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی یہی اصل تمنا اور خواہش تھی۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا:
’’میں نے اِس بات کی وضاحت کر دی ہے کہ ایسی کوئی چیز باقی نہیں رہی جو جنت کے قریب لے جاتی ہو اور جہنم سے دُور رکھتی ہو اور میں نے وہ بیان نہ کی ہو‘‘۔ (رواہ الطبرانی)۔
رحمت دو عالم صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنی اُمت کو شرکِ جیسی معصیت سے ڈرایا اور اُن اسباب و ذرائع سے آگاہ فرمایا جن کی وجہ سے ایک عام آدمی مرتکب شرک ہو سکتا ہے۔ رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے شرک میں مبتلا ہونے کے اسباب بیان کرنے اور اُن کی وضاحت کرنے میں کوئی کسر باقی نہیں چھوڑی۔ اُن اسباب و ذرائع میں سب سے اہم یہ ہیں:
۱۔ قبروں کی تعظیم کرنا۔
۲۔ اُن کی تعظیم میں غلو سے کام لینا۔
۳۔ قبرستان کی طرف منہ کر کے نماز پڑھنا۔
۴۔ قبرستان میں نماز پڑھنا۔ اور اس قسم کے بیشمار اسباب ہیں جن کا گزشتہ صفحات میں ذکر کیا جا چکا ہے اور آئندہ بھی آ رہا ہے۔


عن ابی ھریرۃ رضی اللہ عنہ قَالَ قَالَ رَسُوْلُ اﷲِ صلی اللہ علیہ وسلم لَا تَجْعَلُوْا بُیُوْتَکُمْ قُبُوْرًا وَلَا تَجْعَلُوْا قَبْرِیْ عِیْدًا وَ صَلُّوْا فَاِنَّ صَلٰوتَکُمْ تَبْلُغُنِیْ حَیْثُ کُنْتُمْ
سیدنا ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے، وہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:
اپنے گھروں کو قبرستان نہ بناؤ۔ اور میری قبر کو (عید یعنی) عرس کی جگہ نہ ٹھہراؤ۔ اور مجھ پر درود و سلام بھیجو کیونکہ تم جہاں بھی رہو یہ دُرود و سلام مجھ تک بہرحال پہنچتا ہے۔ (رواہ ابوداؤد باسناد حسن رواتہ ثقات)۔
شیخ الاسلام امام ابن تیمیہ رحمہ اللہ فرماتے ہیں:
’’رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے ارشاد کا مطلب یہ ہے کہ تمہارا دُرود و سلام مجھے پہنچ جایا کرے گا، خواہ تم میری قبر سے قریب رہو یا دُور۔ لہٰذا میری قبر کو زیارت گاہ بنانے کی ضرورت نہیں‘‘۔
صحیح بخاری و مسلم میں سیدنا عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہ سے مرفوعاً روایت ہے جس میں رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم ارشاد فرماتے ہیں:
(ترجمہ) ’’اپنی نماز کا کچھ حصہ گھروں میں ادا کیا کرو۔ نماز اور عبادت سے محروم کر کے اپنے گھروں کو قبرستان نہ بناؤ‘‘۔
ہر اُس عام اجتماع کو جو باقاعدہ ہفتے، مہینے یا سال کے بعد منعقد کیا جائے، عید کہتے ہیں۔ مشرکین کی جتنی عیدیں مشہور ہیں اُن میں سے بعض زمان سے تعلق رکھتی ہیں اور بعض مکان سے۔ جب اللہ تعالیٰ نے شریعت اسلامیہ کو نازِل فرمایا تو ان مشرکین کی زمانی عیدوں کے مقابلے میں مسلمانوں کو عید الفطر، عید الاضحی اور ایامِ منٰی جیسی تقریبوں سے نوازا۔ جن عیدوں کا تعلق مکان سے تھا اُن کے مقابلہ میں اللہ تعالیٰ نے مکہ المکرمہ، مزدلفہ، عرفہ اور دوسرے مشاعر عطا کئے۔
وعن علی بن الحسین رضی اللہ عنہ اَنَّہٗ رَاٰی رَجُلًا یَجِیْئُ اِلٰی فُرْجَۃٍ کَانَتْ عِنْدَ قَبْرِ النَّبِیِّ صلی اللہ علیہ وسلم فَیَدْخُلُ فِیْھَا فَیَدْعُوْ فَنَھَاہُ وَ قَالَ اَلَآ اُحَدِّثُکُمْ حَدِیْثًا سَمِعْتُہٗ مِنْ اَبِیْ عَنْ جَدِّیْ عَنْ رَّسُوْلِ اﷲ صلی اللہ علیہ وسلم قَالَ لَا تَتَّخِذُوْا قَبْرِیْ عِیْدًا وَّ لَا بُیُوْتَکُمْ قُبُوْرًا وَ صَلُّوْا عَلَیَّ فَاِنَّ تَسْلِیْمکُمْ یَبْلُغُنِیْ اَیْنَما کُنْتُمْ رَوَاہُ فِی الْمُخْتَارَۃِ
سیدنا علی بن حسین رضی اللہ عنہ سے منقول ہے کہ انہوں نے ایک شخص کو دیکھا کہ وہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے حجرہ مبارک میں ایک کھڑکی کے پاس آتا جو آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی قبر کے پاس تھی۔ اور اس کھڑکی سے اندر داخل ہو کر دُعا کرتا۔ اِمام زین العابدین رحمہ اللہ نے اُسے روکا اور فرمایا: آؤ میں آپ کو ایک ایسی حدیث سناتا ہوں جسے میرے والد نے میرے دادا سے اور اُنہوں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے سنا۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:
میری قبر کو میلا ( عید اور عرس) اور اپنے گھروں کو قبرستان نہ بنا لینا۔ تم مجھ پر دُرود و سلام بھیجا کرو۔ تم جہاں بھی ہو گے تمہارا درود و سلام مجھ کو پہنچ جایا کرے گا۔
علی بن حسین سے امام زین العابدین رحمہ اللہ مراد ہیں۔ خانوادئہ حسین رضی اللہ عنہ میں زین العابدین رحمہ اللہ سے کوئی شخص زیادہ عالم نہ تھا۔ امام زین العابدین رحمہ اللہ تابعین میں سے افضل مرتبہ کے مالک تھے۔
شیخ الاسلام امام ابن تیمیہ رحمہ اللہ فرماتے ہیں کہ:
’’غور کیجئے! یہ حدیث اہل مدینہ اور اہل بیت سے مروی ہے اور یہ وہ بزرگ ہیں جو نسب و مکان کے اعتبار سے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے قریب تر ہیں۔ لہٰذا ظاہر ہے وہ دُوسروں کی نسبت زیادہ محتاط، اضبط اور قابل حجت ہیں، اس بنا پر اس حدیث کے لائق استدلال ہونے کے بارے میں کون شک و شبہ کا اظہار کر سکتا ہے؟‘‘۔
امام مالک رحمہ اللہ نے اہل مدینہ کے لئے اِس بات کو مکروہ قرار دیا ہے کہ وہ جب بھی نماز کے لئے مسجد میں آئیں، قبر نبوی صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس جا کر سلام کہیں کیونکہ یہ سلف اُمت کا طریقہ نہ تھا۔ پھر فرماتے ہیں:
’’اِس اُمت کی اصلاح صرف اُن ہی باتوں سے ممکن ہے جن سے قرون اُولیٰ کی اصلاح ہوئی تھی‘‘۔
صحابہ کرام رضی اللہ عنہم اور تابعین عظام کا یہ عام دستور تھا کہ وہ مسجد نبوی صلی اللہ علیہ وسلم میں نماز پڑھنے کے بعد اپنے کاروبار کے لئے نکل جاتے یا بیٹھ جاتے، قبر نبوی کے پاس سلام کے لئے نہ آتے۔ صحابہ کرام رضی اللہ عنہم کو یہ مسئلہ معلوم تھا کہ صلوٰۃ و سلام جو ہم نے نماز میں پڑھا ہے وہ کامل اور افضل ترین ہے۔ اس کے بعد مزید کسی چیز کی ضرورت نہیں۔ قبر نبوی صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس آکر صلوٰۃ و سلام کہنے یا وہاں نماز پڑھنے یا دُعا وغیرہ کرنے کی شریعت اسلامیہ میں کوئی دلیل نہیں ملتی بلکہ اس سے روکا گیا ہے۔ جیسا کہ رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم فرماتے ہیں:
(ترجمہ) ’’میری قبر کو عید و میلا گاہ نہ بنا لینا اور تم مجھ پر دُرود بھیجتے رہنا وہ مجھ تک پہنچ جاتا ہے‘‘۔
اس حدیث سے ثابت ہوا کہ صلوٰۃ و سلام دُور سے ہو یا نزدیک سے بہرحال رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم تک پہنچا دیا جاتا ہے۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اُن لوگوں کو ملعون قرار دیا ہے جو انبیاء علیہم السلام کی قبروں کو مسجد اور عبادت گاہ بنا لیتے ہیں۔
صحابہ کرام رضی اللہ عنہم کے دور میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے حجرئہ مبارک میں ایک دروازہ تھا جس سے انسان اندر جا سکتا تھا اور اس کے بعد ایک دوسری دیوار کا اضافہ کر دیا گیا جس سے ہر شخص اندر داخل ہو سکتا تھا لیکن صحابہ کرام رضی اللہ عنہم حجرئہ مبارک میں قطعاً داخل نہ ہوتے، نہ نماز کے لئے، نہ صلوٰۃ و سلام کے لئے، نہ اپنے یا کسی دوسرے کے لئے دعا کی غرض سے اور نہ کسی حدیث کے بارے میں سیدہ عائشہ رضی اللہ عنہا سے سوال کے لئے۔ نہ شیطان کو یہ جرات ہوئی کہ وہ صحابہ کرام رضی اللہ عنہم کے دل میں اس قسم کا وسوسہ ڈال سکے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم آپ کے صلوٰۃ و سلام کو سن رہے ہیں تاکہ سننے والے کہیں یہ نہ سمجھ لیں کہ ہمیں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے جواب دیا ہے یا ہم سے گفتگو فرمائی ہے یا آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے کوئی حدیث بیان کی ہے یا سلام کا جواب دیا ہے۔
صحابہ رضی اللہ عنہم تو اس نوع کی بدعات سے محفوظ رہے لیکن اس قسم کے وساوس کو دوسرے افراد کے دلوں میں ڈالنے میں شیطان کامیاب ہو گیا جس کی وجہ سے وہ لوگ خود بھی گمراہ ہوئے اور دوسروں کو بھی گمراہ کیا۔ پھر نوبت یہاں تک پہنچی کہ لوگوں نے یہ محسوس کرنا شروع کر دیا کہ صاحب قبر ہمیں بعض اُمور کے انجام دینے کا حکم صادر کرتا ہے اور بعض سے روکتا ہے، وہ ہمارے سوالات کا جواب دیتا ہے اور ہم سے ہم کلام ہوتا ہے حتی کہ بعض اوقات وہ اپنی قبر سے باہر نکل کر بھی ہم سے بالمشافہ گفتگو کرتا ہے۔ ان کا یہ عقیدہ بھی ہو گیا کہ میت کی روح، جسم کی شکل اختیار کر کے ہم سے ہم کلام ہوتی ہے جیسے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے معراج کی رات مختلف ارواح کو دیکھا تھا اور ان سے باتیں بھی کی تھیں۔
صحیح احادیث سے ثابت ہوتا ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے روضہ مبارک کی طرف یا کسی دُوسری قبر یا مشہد کی طرف قصدًا جانا منع ہے کیونکہ اِس کا مطلب یہ ہو گا کہ اِس قبر کو زیارت گاہ بنا لیا گیا ہے، اور یہ ممنوع ہے۔ دوسری بات یہ کہ شرک میں مبتلا ہونے کا یہ سب سے بڑا ذریعہ اور سبب ہے۔ سیدنا ابو سعید رضی اللہ عنہ سے صحیحین میں مروی ہے، آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:
(ترجمہ) ’’تین مساجد کے علاوہ کہیں سفر کر کے نہیں جانا چاہیئے اور وہ یہ ہیں: مسجد الحرام، مسجد نبوی اور مسجد اقصیٰ‘‘۔
فیہ مسائل
٭ رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کا اپنی اُمت کو شرک کی چاردیوار سے بے حد دُور رہنے کی ہدایت کرنا۔ ٭ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو ہمارے ساتھ جو اُلفت و محبت تھی اور ہماری نجات کے لئے آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو جو شغف تھا اُس کا مختصر خاکہ۔ ٭ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنی قبر کی زیارت کی مخصوص صورت سے منع فرمایا۔٭ رسول اللہ کا نفلی نماز گھر پڑھنے کی ترغیب دینا۔ ٭ صحابہ کرام رضی اللہ عنہم کے ہاں یہ بات مسلم اور معروف تھی کہ قبرستان میں نماز پڑھنا منع ہے۔ ٭ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے اس کی وجہ بیان فرماتے ہوئے کہا کہ جو شخص مجھ پر دُرود و سلام پڑھتا ہے خواہ وہ دور ہو یا نزدیک وہ صلوٰۃ و سلام میرے پاس پہنچا دیا جاتا ہے لہٰذا قریب آنے کی ضرورت نہیں۔ ٭ اس بات کی بھی وضاحت کی گئی ہے کہ رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم عالم برزخ میں ہیں اور اُمت کے اعمال میں سے صرف دُرود و سلام ہی آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں پیش کیا جاتا ہے۔
 

محمد نعیم یونس

خاص رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
اپریل 27، 2013
پیغامات
26,582
ری ایکشن اسکور
6,748
پوائنٹ
1,207
اُمت محمدی صلی اللہ علیہ وسلم کے بعض افراد بت پرستی میں مبتلا ہو جائیں گے۔

اُمت محمدی صلی اللہ علیہ وسلم کے بعض افراد بت پرستی میں مبتلا ہو جائیں گے۔
باب: ماجاء ان بعض ھذہ الامۃ یعبد الاوثان

اس باب میں یہ بیان کیا گیا ہے کہ اُمت ِ محمدی صلی اللہ علیہ وسلم کے بعض افراد بت پرستی میں مبتلا ہوجائیں گے
اَلَمْ تَرَ اِلَی الَّذِیْنَ اُوْتُوْا نَصِیْبًا مِّنَ الْکِتٰبِ یُؤْمِنُوْنَ بِالْجِبْتِ وَ الطَّاغُوْتِ وَ یَقُوْلُوْنَ لِلَّذِیْنَ کَفَرُوْا ھٰٓؤُلَآءِ اَھْدٰی مِنَ الَّذِیْنَ اٰمَنُوْا سَبِیْلاً {سورۃ النساء}
کیا آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے ان لوگوں کو نہیں دیکھا جنہیں کتاب کے علم میں سے کچھ حصہ دیا گیا ہے اور ان کا حال یہ ہے کہ جِبْت اور طاغُوت کو مانتے ہیں ۔ اور کافروں کے متعلق کہتے ہیں کہ ایمان لانے والوں سے تو یہی زیادہ صحیح راستے پر ہیں ۔
اﷲ کے سوا جس چیز کی بھی عبادت کی جائے اسے وثن کہتے ہیں، وہ حجر وشجر کی صورت ہو یا قبور و مشاہد کی شکل میں ۔ کسی نبی اور ولی کی عبادت ہو یا کسی بزرگ اور صالح شخص کی جیسا کہ حدیث میں پہلے گزر چکا ہے۔ ابراہیم خلیل اﷲعلیہ السلام نے کہا:
(ترجمہ) ’’تم اﷲ کو چھوڑ کر جنہیں پوج رہے ہو وہ تو محض بت ہیں اور تم ایک جھوٹ گھڑ رہے ہو‘‘۔ (سورۃ العنکبوت : ۱۷)
اور مشرکین نے کہا:
(ترجمہ) ’’انہوں نے جواب دیا ’’کچھ بت ہیں جن کی ہم پوجا کرتے ہیں اور انہی کی سیوا میں ہم لگے رہتے ہیں‘‘۔ (سورۃ الشعراء: ۷۱)۔
مزید فرمایا:
(ترجمہ) ’’اس نے کہا ’’کیا تم اپنی ہی تراشی ہوئی چیزوں کو پوجتے ہو‘‘؟ (سورۃ الصٰفٰت : ۹۵)
ابن ابی حاتم رحمہ اللہ نے عکرمہ رحمہ اللہ سے روایت نقل کی ہے ۔ عکرمہ رحمہ اللہ کہتے ہیں کہ
حییّی بن اخطب، اور کعب بن اشرف قریش مکہ کے پاس آئے تو قریش مکہ کہنے لگے کہ تمہارے پاس اﷲ کی کتاب موجود ہے اور مزید برآں تم میں اہل علم بھی خاصی تعداد میں ہیں۔ لہٰذا ہمیں یہ بتاؤ کہ ہم اچھے ہیں یا محمد صلی اللہ علیہ وسلم ؟ اہل مکہ بولے: پہلے تم اپنا تعارف تو کراؤ کہ تم کون ہواور محمد کون ہے؟ قریش مکہ نے بیک زبان کہا :
٭ ہم صلہ رحمی کرتے ہیں ۔ ٭ عمدہ او رموٹی تازی اونٹنیوں کو ذبح کرکے فقراء ومستحقین میں تقسیم کرتے ہیں ۔ ٭ پیاسوں کو پانی اور دودھ پلانا ہمارا شیوہ ہے ۔ ٭قیدیوں کو آزاد کرنا ہمارا اصول ہے ۔ ٭ حجاج کرام کے لئے پانی کی سہولتیں مہیا کرنا اور ان کی خدمت میں مصروف رہنا ہمارے آباؤ اجداد سے ہمیں ورثے میں ملا ہے۔ باقی رہے محمد 2 ٭ تو ان کی کوئی اولاد نہیں بلکہ تن تنہا اور اکیلے ہی ہیں ۔ ٭ ہمارے خاندانی تعلقات کو اس نے منقطع کرکے رکھ دیا ہے ۔ ٭ قبیلہ غفار کے چوروں اور ڈاکوؤں نے اس کی حمایت اور نصرت کا اعلان کردیا ہے ۔ اب بتائیے کہ ہم اچھے ہیں یا محمد ؟ حییّی بن اخطب اور کعب بن اشرف بولے: تم ان سے بہتر اور صحیح راستے پرہو۔
ان لوگوں کی تردید کرتے ہوئے اﷲ تعالیٰ نے زیر نظر آیات نازل فرمائیں ۔
یہی واقعہ مسند امام احمد میں ابن عباس سے منقول ہے ۔
سیدنا عمر بن الخطابرضی اللہ عنہ، ابن عباس رضی اللہ عنہ ابوالعالیہ ، مجاہد رحمہ اللہ اور حسن وغیرہ نے الجبت سے سحر اور طاغوت سے شیطان مراد لیا ہے ۔
قُلْ ھَلْ اُنَبِّئُکُمْ بِشَرٍّ مِّنْ ذٰلِکَ مَثُوْبَۃً عِنْدَ اللہِ مَنْ لَّعَنَہُ اللہُ وَغَضِبَ عَلَیْہِ وَجَعَلَ مِنْھُمُ الْقِرَدَۃَ وَ الْخَنَازِیْرَ وَ عَبَدَ الطَّاغُوْت {سورۃ المائدہ : ۶۰}
پھر کہو کیا میں ان لوگوں کی نشان دہی کروں جِن کا انجام اﷲ تعالیٰ کے ہاں فاسقوں کے انجام سے بھی بدتر ہے ۔ وہ جِن پر اﷲ نے لعنت کی ، جن پر اس کا غضب ٹوٹا ۔ جن میں سے بندر اور سُور بنائے گئے جنہوں نے طاغوت کی بندگی کی ۔
اﷲ تعالیٰ نے اپنے پیغمبر صلی اللہ علیہ وسلم سے کہا :
اے میرے رسول صلی اللہ علیہ وسلم ان مخالفین سے کہہ دیجیے کہ آؤ میں تم کو بتاؤں جو قیامت کے دن اﷲ کے ہاں سب سے زیادہ عذاب میں گرفتار ہوگا ؟ تم ہمیں وہی سمجھتے ہو ، حالانکہ فرمایا ، وہ تم ہی لوگ ہو، جن کی صفات مذمومہ اﷲ نے بیا ن کی ہیں کہ:وہ اﷲ تعالیٰ کی رحمت سے دور، اﷲ کے غضب کے شکار، ایسا غضب جس کے بعد اﷲ کی رضا ناممکن، اور سب سے بڑی مکروہ صفت یہ کہ اس نے تمہیں بندر ، اور خنزیر کی شکل میں بدل دیا۔
ایک حدیث میں عبداﷲ بن مسعود رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ رسول اﷲ صلی اللہ علیہ وسلم سے بندرو ں ، اور خنزیروں کے بارے میں پوچھا گیا کہ کیا یہ وہی قوم تو نہیں جن کی شکلوں کو اﷲ تعالیٰ نے مسخ کردیا اور بدل دیا تھا؟ اس کے جواب میں آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا :
’’اﷲ تعالیٰ نے کسی قوم کو کبھی ہلاک نہیں کیا یا کہا کہ کسی قوم کو مسخ نہیں کیا ، جس کی نسل کو باقی رکھا ہو ، بندر اور خنزیر تو پہلے ہی موجود تھے‘‘۔ (رواہ المسلم)۔
امام بغوی رحمہ اللہ اپنی شہرۂ آفاق تفسیر ’’ معالم التنزیل ‘‘ میں رقمطراز ہیں کہ قُلْ : رسول اﷲ صلی اللہ علیہ وسلم سے خطاب ہے ۔ بِشَرٍّ مِّنْ ذٰلِکَ اے یہودِ نامسعود تمہارا ہمارے متعلق یہ کہنا کہ ہمارا دنیااور آخرت میں بہت کم حصہ ہے اور یہ کہ ہمارا دین تمہارے دین سے ناقص ہے ۔ حقیقت میں دنیا اور آخرت میں تم جیسے بدکردار لوگوں کا کوئی حصہ نہیں ہے ۔ کیونکہ ہر بری خصلت تمہارے اندر موجود ہے اور تمہارا ٹھکانا آگ ہے ۔
مَثُوْبَۃً: یعنی بلحاظ انجام کے کون شخص گھاٹے میں ہے ؟ (آؤ میں بتاتا ہوں )
عِنْدَ اﷲِ مَنْ لَّعَنَہُ اﷲ: آخرت میں خسارہ ان لوگوں کو ہوگا جن کو اﷲ تعالیٰ نے ملعون قرار دیا۔
وَغَضِبَ عَلَیْہ: اور جن پر اﷲ تعالیٰ نے اپنا غضب اور قہر نازل فرمایا ۔ جیسے یہود۔
وَجَعَلَ مِنْھُمُ الْقِرَدَۃَ وَ الْخَنَازِیْرَ: یعنی یہ کہ ان کی نافرمانیوں کی بنا پران کو بندر اور سور بنا دیا ، امام بغوی رحمہ اللہ فرماتے ہیں کہ اصحاب السبت کو بندر ، اور عیسٰی علیہ السلام کے مائدہ کا انکار کرنے والوں کو خنزیر بنادیا گیا۔
علی بن ابی طلحہ، ابن عباس سے روایت کرتے ہیں کہ بندر اور خنزیر دونوں ہی اصحاب السبت میں سے ہیں چنانچہ ان کے نوجوان افراد کو بندر ، اور بوڑھوں کو خنزیر بنادیاگیا ۔
وَ عَبَدَ الطَّاغُوْت : یعنی ان میں سے بعض لوگوں کو شیطان کی عبادت کرنے والے بنادیا گیا ۔ کیونکہ یہ شیطان کی چال اور اس پھندے میں پھنس گئے ۔
آپ صلی اللہ علیہ وسلم فرماتے ہیں :
’’ اللہ تعالیٰ یہود و نصارٰی پر لعنت کرے انہوں نے اپنے انبیاء اور بزرگوں کی قبروں کو عبادت گاہ بنالیا‘‘ ۔
آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے اس ارشاد گرامی کا مقصد اپنی امت کو متنبہ کرنا ہے کہ کہیں وہ بھی ان یہودونصارٰی جیسا عمل و کردار ادا نہ کرنے نہ لگ جائے ۔
عن ابی سعیدخدری رضی اللہ عنہ أَنَّ رَسُوْلَ اﷲِ صلی اللہ علیہ وسلم قَالَ لَتَتَّبِعُنَّ سُنَنَ مَنْ کَانَ قَبْلَکُمْ حَذْوَ الْقُذَّۃَ بِالْقُذَّۃِ حََتّٰی لَوْ دَخَلُوْا جُحْرَ ضَبٍّ لَدَخَلْتُمُوْہُ قَالُوْا یَا رَسُوْلَ اﷲِ أَلْیَھُوْدُ وَ النَّصَارٰی قَالَ فَمَنْ (اخرجاہ)
سیدنا ابو سعید خدری رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ تم پہلی امتوں کی پیروی میں ایسے برابر ہوجاؤ گے جیسے تیر،تیر سے ۔ یہاں تک کہ اگر وہ گوہ کے بل میں گھسے تھے تو تم بھی گھسو گے ۔ صحابہ کرام رضی اللہ عنہم نے عرض کی کہ یہود ونصارٰی کی پیروی ہم کریں گے ؟ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا پھر اور کون ہوسکتا ہے؟
القذہ تیر کے پر کو کہتے ہیں ۔ حدیث کا مطلب یہ ہے کہ جو یہود ونصاری کا رکردار تھا، یہ امت بھی بالکل ان کی تقلید کرے گی ۔ رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے وہاں کے مشرکوں کو یہود ونصاری کے مشرکین کے ساتھ یہ کہہ کر تشبیہ دی ہے کہ جس طرح ایک تیر کے پر دوسرے تیر کے پر کی طرح ہوتے ہیں اسی طرح تم میں کی اکثریت یہودیوں اور عیسائیوں کے نقش قدم پر چلے گی اور شرک کا ارتکاب کرے گی ۔
ایک حدیث میں یوں ارشادنبوی صلی اللہ علیہ وسلم ہے :
’’حتٰی کہ پہلی امتوں میں سے کسی نے اگر اپنی ماں سے علانیہ زنا کیا ہوگا تو میری امت میں بھی ایسے بدبخت لوگ پائے جائیں گے جو ایسے (غیر انسانی ) فعل کا ارتکاب کریں گے‘‘ ۔
آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے ارشاد کا مطلب یہ ہے کہ یہود ونصاریٰ کا کوئی برے سے برا عمل بھی میری امت کے لوگ نہ چھوڑیں گے ۔
سفیان بن عیینہ رحمہ اللہ نے کیا خوب فرمایا تھا کہ :
’’ اگر ہمارے عبادت گزار اور صوفی بگڑے تو وہ یہود ونصارٰی سے مشابہت میں برابر ہو ں ‘‘۔
شارح رحمہ اللہ فرماتے ہیں کہ اب یہ دونوں گروہ کس کثرت سے پائے جاتے ہیں ۔ لیکن اﷲ تعالیٰ کی یہ خاص رحمت ہے کہ امت محمدی مجموعی طورپر گمراہ نہیں ہوئی اور نہ ہوگی ۔ یعنی صحابہ ر ضوان اﷲ علیہم اجمعین نے عرض کی کہ اے اﷲ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کیا ہم یہود ونصارٰی کی پیروی کریں گے ؟ تو رسول اﷲ صلی اللہ علیہ وسلم نے جواب دیا کہ : اگر وہ نہیں تو ان کے علاوہ اور کون ہے جن کے نقش قدم پر تم چلوگے
مطلب یہ ہے کہ ہاں ، میری امت یہودونصاری کی پیروی کرے گی۔

ولمسلم عن ثوبان رضی اللہ عنہ أَنَّ رَسُوْلَ اﷲِ صلی اللہ علیہ وسلم قَالَ إِنَّ اﷲَ زَوٰی لِیَ الْأَرْضَ فَرَأَیْتُ مَشَارِقَھَا وَ مَغَارِبَھَا وَ إِنَّ اُمَّتِیْ سَیَبْلُغُ مُلْکُھَا مَا زُوِیَ لِیْ مِنْھَا وَ اُعْطِیْتَ الْکَنْزَیْنِ أَلْأَحْمَرَ وَ الْأَبْیَضَ وَ إِنِّیْ سَأَلْتُ رَبِّیْ لِاُمَّتِیْ أَنْ لَّا یُھْلِکَھَا بِسَنَۃٍ بِعَامَّۃٍ وَ أَنْ لَّا یُسَلِِّطَ عَلَیْھِمْ عَدُوًّا مِّنْ سِوٰی أَنْفُسِھِمْ فَیَسْتَبِیْحُ بَیْضَتَھُمْ وَإِنَّ رَبِّیْ قَالَ یَا مُحَمَّدُ إِذَا قَضَیْتُ قَضَآئً فَإِنَّہٗ لَا یُرَدُّ وَ إِنِّیْ أَعْطَیْتُکَ لِاُمَّتِکَ أَنْ لَّا اَھْلِکَھُمْ بِسَنَۃٍ عَامَّۃٍ وَأَنْ لَّا اُسَلِّطُ عَلَیْھِمْ عَدُوًّا مِّنْ سِوٰی أَنْفُسِھِمْ فَیَسْتَبِیْحُ بَیْضَتُھُمْ وَ لَوْ إِجْتَمَعَ عَلَیْھِمْ بِأَقْطَارِھَا حَتّٰی یَکُوْنَ بَعْضُھُمْ یُھْلِکُ بَعْضًا وَ یُسْبِیْ بَعْضُھمْ بَعْضًا
صحیح مسلم میں سیدنا ثوبان رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ
اﷲ تعالیٰ نے زمین کو میرے سامنے اس طرح سمیٹ دیا کہ میں مشرق و مغرب تک بیک وقت دیکھ رہا تھا ۔ اور میری امت کی حدود مملکت وہاں تک جا پہنچیں گی جہاں تک مجھے زمین کو سمیٹ کر دکھلایا گیا ہے۔ اور مجھے دوخزانے عطا فرمائے گئے۔ ایک سرخ اور دوسرا سفید۔ رسول اﷲ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ میں نے اپنی امت کے بارے میں عرض کیا تھا کہ اسے ایک ہی قحط سالی سے صفحہ ہستی سے نہ مٹا دیا جائے اور یہ کہ میری امت پر مسلمانوں کے علاوہ کوئی دوسرا خارجی دشمن مسلط نہ کیا جائے جو مسلمانوں کے بلاد و اسباب کو مباح سمجھے۔ چنانچہ اﷲ تعالیٰ نے جواباً فرمایا کہ اے محمد صلی اللہ علیہ وسلم ، جب میں کسی بات کا فیصلہ کردیتا ہوں تو اسے ٹالانہیں جا سکتا ۔ میں نے تیری امت کے بارے میں تمہیں وعدہ دے دیا ہے کہ اسے ایک ہی قحط سالی سے تباہ نہیں کیا جائے گا۔ اور دوسرے یہ کہ ان کے اپنے افراد کے علاوہ کسی دوسرے کو ان پر مسلط نہیں کیا جائے گا کہ ان کے مملوکہ مال واسباب کو مباح سمجھ لے اگر چہ کفر کی ساری طاقتیں اکٹھی ہو کر مسلمانوں کے مقابلے کے لئے جمع کیوں نہ ہو جائیں۔ ہاں مسلمان آپس میں ایک دوسرے کو ہلاک کرتے اور قیدی بناتے رہیں گے۔
امام ابوداؤد نے عبداللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ سے بھی ایک روایت اسی مضمون کی نقل کی ہے جس کے الفاظ یہ ہیں کہ رسول اﷲ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا :
ترجمہ: پینتیس ، چھتیس یا سینتیس سال تک اسلام کا خوب بول بالا رہے گا۔ پھر اگر وہ ہلاک ہو جائیں گے تو ہلاک ہونے والوں کا راستہ ہوگا اور اگر دین ان کو قائم رکھے گا تو پھر ستر سال تک چلے گا، راوی نے کہا کہ میں نے پوچھا یہ مدت آج کے بعدسے شروع ہوگی یا پہلے سالوں سمیت؟ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا پہلے سالوں سمیت۔
سنن ابی داؤد میں مندرجہ ذیل حدیث بھی منقول ہے ۔ ابوہریرہ رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:
’’زمانہ قریب سے قریب تر ہوتا چلا جائے گا۔ علم میں کمی واقع ہوتی رہے گی ، فتنوں کا عام دور دورہ ہوگا بخل عام ہوجائے گا، اور قتل وغارت گری کا بازار گرم ہوجائے گا۔ سوال کیا گیا یارسول اﷲ صلی اللہ علیہ وسلم ہرج کا کیا معنی؟ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا قتل اور خونریزی‘‘ ۔
آئمۃمضلین سے جاہل امراء ، علمائے سؤ ، اور بے علم عبادت گزار مراد ہیں ، جو بغیر علم کے لوگوں کی رہنمائی کریں گے۔ اور کتاب وسنت کے خلاف لوگوں کے فیصلے نمٹائیں گے۔ وہ خود بھی گمراہ ہوں گے اور اﷲکی مخلوق کو بھی گمراہ کریں گے۔ ایسے ہی لوگوں کے بارے میں اﷲ تعالیٰ فرماتا ہے کہ یہ لوگ قیامت کے دن کہیں گے کہ :
(ترجمہ) ’’اے رب ہمارے ، ہم نے اپنے سرداروں اور اپنے بڑوں کی اطاعت کی اور انہوں نے ہمیں راہ راست سے بے راہ کردیا‘‘۔
اور بعض اس قسم کے گمراہ اور مضل بھی گزرے ہیں جو اپنے مریدوں کو یہ نصیحت کرتے تھے کہ میرے مرنے کے بعد بھی اگر تم کو کسی قسم کی ضرورت اور مشکل پیش آجائے تو میری قبر پر آجانا ہم تمہاری مشکل دُور کر دیں گے۔ اور یاد رکھیئے اس آدمی سے کسی بھلائی کی توقع نہیں ہے جس کو ایک گز بھر مٹی اپنے ساتھیوں سے جدا کر دیتی ہے۔ اور یہ صاف گمراہی ہے کہ آدمی اپنے ساتھیوں کو دعوت دے کہ آؤ اﷲ کو چھوڑ کرغیر کی عبادت کریں اور اس سے اپنی حاجتیں طلب کریں، حالانکہ ان پر وہ قادر نہیں ہے اور نہ ان کی مشکلات کو دُور کرسکتا ہے۔ ان ہی جیسے لوگوں کے بارے میں اﷲ کریم فرماتا ہے: (ترجمہ) ’’ پھر وہ اﷲ تعالیٰ کو چھوڑ کر ان کو پکارتا ہے جو نہ اس کو نقصان پہنچاسکتے ہیں نہ فائدہ۔ یہ ہے گمراہی کی انتہا۔ وہ ان کوپکارتا ہے جن کا نقصان ان کے نفع سے قریب تر ہے، بدترین ہے اس کا مولیٰ اور بدترین ہے اس کا رفیق‘‘۔ (سورئہ حج:۱۲،۱۳)۔
ایک دوسرے مقام پر یوں ارشادفرمایاگیا ہے:
(ترجمہ) ’’لوگو ں نے اسے چھوڑ کر ایسے معبود بنا لئے جو کسی چیز کو پیدا نہیں کرتے بلکہ خود پیدا کئے جاتے ہیں جو خود اپنے لئے بھی کسی نفع یا نقصان کا اختیار نہی رکھتے۔ جو نہ مار سکتے ہیں نہ جِلا سکتے ہیں نہ مرے ہوئے کو پھر اٹھا سکتے ہیں‘‘۔ (سورئہ فرقان:۳)
اﷲ تعالیٰ واضح اور غیر مبہم الفاظ میں کہتا ہے : ’
’اﷲ تعالیٰ سے رزق مانگو اور اسی کی بندگی کرو اور اس کا شکر ادا کرو۔ اسی کی طرف تم پلٹائے جانے والے ہو‘‘۔(سورئہ العنکبوت:۱۷) ۔
قرآن کریم میں اس موضوع کی بے شمار آیات ہیں جن میں اﷲ تعالیٰ ہدایت اور صراط مستقیم کو واضح الفاظ میں گمراہی سے ممتا ز اور ممیز کرتا ہے۔ اور بعض لوگوں کی گمراہی اس حد تک پہنچی ہوئی ہے کہ وہ علی الاعلان اس بات کا اظہار کرتے ہیں کہ ان کو اﷲ تعالیٰ کے ہاں ایسامقام اور عزت حاصل ہے کہ جہاں پہنچ کر تمام احکام الٰہی ان سے ساقط ہوچکے ہیں اور پھر اسی پر بس نہیں بلکہ وہ یہ بھی دعویٰ کرتے ہیں کہ اولیاء اﷲ سے، ان کی زندگی میں بھی اور ان کی وفات کے بعد بھی استغاثہ کیا جاسکتا ہے کیونکہ ان کو نفع پہنچانے اور تکلیف دینے پر قدرت حاصل ہے۔ اور بعض مواقع پر وہ تدبیر امر بھی کرتے ہیں یہ سب ان کی کرامات ہیں۔ ان کو لوح محفوظ کے اسرار کا بھی علم ہے اور لوگوں کے دلوں کے بھیدبھی ان پر واضح ہیں۔ ان ہی وجوہ کی بنا پر ان کی قبروں پر مساجد تعمیر کرنا، اور پھر ان پر چراغاں کرنا جائز اور مستحب سمجھتے ہیں۔
اس قسم کے اور بھی باطل اور خلاف شریعت دعوے، افراط وتفریط، غلواور عبادت غیر اﷲ جیسے اقوال و افعال اور عقائد باطلہ کے وہ قائل ہیں۔ اس نوع کی ہفوات کفر اور ارتداد اور اللہ کی کتا ب اور اس کے رسول کی خلاف ورزی اب کتنی عام ہوچکی ہے ؟ ۔
ورواہ البرقانی فی صحیحہ وَإِنَّمَا أَخَافُ عَلٰی اُمَّتیْ الْاَئِمَّۃَ الْمُضِلَّیْنَ وَإِذَا وَقَعَ عَلَیْھِمُ السَّیْفُ لَمْ یُرْفَعْ إِلٰی یَوْمِ الْقِیٰمَۃِ وَ لَا تَقُوْمُ السَّاعَۃُ حَتّٰی یَلْحَقَ حَیٌ مِّنْ اُمَّتِی بِالْمُشْرِکِیْنَ حَتّٰی تَعْبُدَ فِئَامٌ مِّنْ اُمَّتِی الْأَوْثَانِ وَاِنَّہٗ سَیَکُوْنَ فِیْ اُمَّتِیْ کَذَّابُوْنَ ثَلَاثُوْنَ کُلُّھُمْ یَزْعَمُ أَنَّہٗ نَبِیٌّ وَ أَنَا خَاتَمُ النَّبِیِّیْنَ لَا نَبِیَّ بَعْدِیْ وَ لَا تَزَالُ طَآئِفَۃٌ مِّنْ اُمَّتِیْ عَلَی الْحَقِّ مَنْصُوْرَۃٌ لَا یَضُرُّھُمْ مَنْ خَذَلَھُمْ حَتّٰی یَأَتِیَ أَمْرُ اﷲِ تَبَارَکَ وَ تَعَالٰی
حافظ برقانی رحمہ اللہ نے اپنی کتاب میں نقل کیا ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:
’’میں اپنی امت کے بارے میں گمراہ کن لیڈروں سے ڈرتا ہوں۔ اور جب ان میں تلوار چل پڑے گی تو قیامت تک نہ رک سکے گی اور اس وقت تک قیامت برپا نہیں ہوگی جب تک کہ میری امت کی ایک جماعت مشرکوں سے نہ جا ملے۔ اور یہ کہ میری امت کے بہت سے لوگ بت پرستی نہ کرلیں۔ اور میری امت میں تیس جھوٹے دجال پیدا ہوں گے جو سب کے سب نبوت کا دعویٰ کریں گے۔ حالانکہ میں آخری نبی صلی اللہ علیہ وسلم ہوں ، میرے بعد کسی قسم کا کوئی نبی نہیں آئے گا۔ میری امت میں سے ایک گروہ حق پر قائم رہیگا اور فتحیاب ہوگا۔ ان کی مدد چھوڑنے والے ان کا کچھ نہیں بگاڑ سکیں گے۔ یہاں تک کہ اﷲ تعالیٰ کا حکم آجائے۔
رسول اﷲ صلی اللہ علیہ وسلم نے لفظ اِنَّمَا استعمال فرمایا ، جو حصر کے لئے بولا جاتا ہے اور جس میں امت کو آئمہ ضلال کی گمراہیوں سے سخت الفاظ میں متنبہ کیا گیا ہے ۔ حدیث کا مطلب یہ ہے کہ رسول اﷲ صلی اللہ علیہ وسلم کو گمرا ہ، اور بے دین امراء، حکام، اور آئمہ سے شدید ترین خطرہ تھا کہ یہ لوگ عوا م کو گمراہ کرنے اور پھسلانے میں پیش پیش ہوتے ہیں۔ یہ خطرہ رسول اﷲ صلی اللہ علیہ وسلم کے دل میں اﷲ تعالیٰ کے القاء اور اطلاع سے پیدا ہوا، جیسا کہ گزشتہ ایک حدیث میں گزر چکا ہے کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا :
’’تم پہلی امتوں کی پوری نقالی کرو گے، جیسے تمام پروں کے بال برابر ہوتے ہیں‘‘۔
اسی مضمون پر مشتمل سیدنا ابوالدردا رضی اللہ عنہ کی ایک حدیث ہے جس میں رسول اﷲ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:
’’ میں اپنی امت کے متعلق گمراہ آئمہ و حکام سے شدید ترین خطرہ محسوس کرتا ہوں‘‘ (ابوداؤد، طیالسی)
سیدنا ثوبان رضی اللہ عنہ کی حدیث کے الفاظ یہ ہیں جس میں رسول اﷲ صلی اللہ علیہ وسلم فرماتے ہیں کہ:
’’میں اپنی امت کے بارے میں گمراہ آئمہ و حکام سے ڈرتا ہوں‘‘۔
اللہ کریم نے اپنی کتابِ مبین میں صراط مستقیم ، اور اس سیدھے راستے کی ، جو تمام مومنوں اور صحابہ کرام کا راستہ تھا ، بار بار وضاحت فرمائی ہے ۔ اس سلسلے میں شک وشبہ کا کوئی معمولی غبار بھی باقی نہیں رہنے دیا ۔ اور اب جو شخص دین میں کوئی ایسی بدعت پیدا کرتا ہے جس کا کتا ب وسنت میں کوئی وجود نہیں ملتاتو وہ شخص عند اﷲ ملعون ہے اس کی بدعت مردود ہے ۔ اس کی وضاحت رسول اﷲ صلی اللہ علیہ وسلم نے خود فرمائی ہے آپ صلی اللہ علیہ وسلم فرماتے ہیں :
’’ جو شخص بدعت پیدا کرے یا بدعتی کو پناہ دے، اس پر اﷲ تعالیٰ کی، تمام فرشتوں کی اور تمام لوگوں کی لعنت ہو، ایسے شخص سے اﷲ تعالیٰ نہ فرائض قبول فرمائے گا نہ نوافل‘‘۔
ایک جگہ ارشاد نبوی صلی اللہ علیہ وسلم ہے:
’’ جو شخص ہمارے دین میں ایسی چیز جاری کرتا ہے جو اس میں نہیں، وہ مردود اور ناقابل عمل ہے‘‘۔
اور ایک موقع پر یہ الفاظ بیان فرمائے گئے ہیں: ’’ ہر نئی چیز بدعت ہے اور ہر بدعت گمراہی ہے ‘‘۔
یہ مندرجہ بالا صحیح احادیث ہیں، جن پر اصول دین، اور احکام شریعت کا دارومدار ہے اور ان احادیث کے مفہوم کو قرآن کریم نے بار بار، اور کئی مواقع پر وضاحت اور تفصیل سے بیا ن فرمایا ہے۔ ایک جگہ اﷲ تعالیٰ ارشاد فرماتا ہے :
’’ لوگو : جو کچھ تمہارے رب کی طرف سے تم پرنازل کیاگیا ہے اس کی پیروی کرو اور اپنے رب کو چھوڑ کر دوسرے سرپرستوں کی پیروی نہ کرو، مگر تم نصیحت کم ہی مانتے ہو‘‘(سورئہ اعراف:۳)
ایک دوسرے مقام پر ارشاد الٰہی ہے :
(ترجمہ) ’’ اس کے بعد اے نبی صلی اللہ علیہ وسلم ہم نے تم کو دین کے معاملہ میں ایک صاف شاہراہ (شریعت) پر قائم کیا ہے لہٰذا تم اسی پر چلواور ان لوگوںکی خواہشات کا اتباع نہ کرو جو علم نہیں رکھتے‘‘(سورۃ الجاثیہ : ۱۸) ۔
اس مضمون کی آیات قرآن مجید میں کثرت سے ملتی ہیں۔ خلیفہ ثانی سیدنا عمر بن الخطاب رضی اللہ عنہ کے وہ الفاظ جو انہوں نے سیدنا زیاد بن حدیر رضی اللہ عنہ کو فرمائے، سنہری حروف سے لکھنے کے قابل ہیں فرماتے ہیں:
’’کیا تمہیں اس چیز کا علم ہے جو اسلام کے گرنے کا باعث بنتی ہے؟ میں نے عرض کی نہیں۔ سیدنا عمر بن خطاب رضی اللہ عنہ نے فرمایا کہ عالم شخص کا پھسل جانا اور منافق کا کتاب اﷲ کے بارے میں جھگڑا کرنا اور گمراہ حکام و آئمہ کا فیصلہ، اسلام کے منہدم ہونے کا ذریعہ اور سبب بنتا ہے۔ (دارمی)۔
یزید بن عمیر رحمہ اللہ کا بیان ہے کہ سیدنا معاذ بن جبل رضی اللہ عنہ جس وقت بھی وعظ و ارشاد کے لئے کھڑے ہوتے، یہ جملہ ضرور ارشاد فرماتے :
’’ اﷲ تعالیٰ حق وانصاف سے فیصلہ کرتا ہے اس میں شک کرنے والے ہی ہلاک ہوتے ہیں ‘‘۔
گزشتہ صفحات میں زیر بحث حدیث میں قبور کے ان پجاریوں کی زبردست تردید ہوتی ہے جو یہ کہتے ہیں کہ ہم غیراﷲ کی عبادت کرکے شرک کے مرتکب نہیں ہوئے۔ یہ الفاظ وہ درحقیقت توحید سے ناواقفیت کی بنا پر کہتے ہیں۔ حقیقت یہ ہے کہ ان کا عمل شرک پر مبنی ہے اور توحید کے سراسر خلاف ہے اﷲ تعالیٰ کے نزدیک توحید، تمام اعمال سے زیادہ اہم اور مطلوب ومقصود ہے۔ اور شرک تمام اعمال سیئہ سے زیادہ قابل نفرت ہے۔
گزشتہ صفحات میں زیر بحث حدیث کی مزید وضاحت صحیح بخاری ومسلم کی روایت سے ہوتی ہے سیدنا ابوہریرہ رضی اللہ عنہ مرفوعًا روایت بیان کرتے ہیں کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:
’’اس وقت تک قیامت قائم نہ ہوگی جب تک کہ بنودوس کی عورتوں کے سرین ذوالخلصہ بت کے گرد حرکت نہ کریں گے۔ پھر فرمایا: ذوالخلصہ بنودوس کا بت تھا، جس کی وہ جاہلیت کے زمانے میں پوجا کیا کرتے تھے‘‘۔
ابن حبان معمر سے روایت کرتے ہیں جس کے الفاظ یہ ہیں:
قَالَ اِنَّ عَلَیْہِ الْاٰنَ بَیْتًا مَبْنِیًّا مُغْلَقًا
اب وہ ایسی جگہ ہے جہاں ایک مکان تعمیر ہے اور اس کا دروازہ بند ہے ۔
علامہ ابن قیم رحمہ اللہ بنوثقیف کے اسلام اور لات کے گرائے جانے کا واقعہ لکھتے ہوئے فرماتے ہیں:
’’ہر اس جگہ کو جہاں شرک اور کسی بھی طاغوتی طاقت کی پرستش ہورہی ہو جہاں تک ممکن ہو، اسے منہدم کردینا ضروری ہے۔ ایک دن بھی اسے باقی نہ رکھا جائے۔
پھر ان بڑے بڑے قبوں اور ہر قسم کی تعمیرا ت کو جو قبوں پر بنائی گئی ہیں ، اور جن کی اﷲ تعالیٰ کے سوا عبادت ہورہی ہے گرادینا ضروری ہے ۔
اسی طرح ان حجر وشجر کو ، جن کو لوگ متبرک سمجھتے ہیں اور جن پر نذر و نیاز دیتے ہیں ، طاقت و قدرت ہوتے ہوئے فوراً ختم کردینا چاہیے ۔ کیونکہ ان میں سے اکثر کو لات ، مناۃ ، اور عزی کا سا مقام دے دیا گیا ہے یا ان سے بھی بڑھ کر ان کی تکریم ہوتی ہے ۔ ان کے پجاری اپنے سے پہلے یہودو نصارٰی کے نقش قدم پر گامزن ہیں۔ اور قدم بقدم ان کی تقلید میں الجھے ہوئے ہیں۔ یہ لوگ کم علمی اور جہالت کی وجہ سے شرک میں مبتلا ہیں۔
سب سے بڑا ظلم تو یہ ہورہا ہے کہ معروف کو منکر اور منکر کو معروف سمجھا جارہا ہے ۔ اسی طرح سنت کو بدعت سمجھ کر رد کردیاگیا اور بدعت کو سنت سمجھ کر اپنا لیا گیا ہے ۔ شریعت مطہر ہ کے نشانات ختم ہو کر رہ گئے ہیں ۔ اور اسلام کی بیچارگی کا یہ عالم ہے کہ اس پر غور و فکر کرنے کی کوئی شخص بھی تکلیف گوارا نہیں کرتا ۔ علمائے حق ، اﷲ کو پیارے ہوچکے ہیں اور سفہاء اور احمق لوگوں کا دور ،دورہ ہے ۔ کوئی کام بھی تو ٹھیک سے نہیں ہورہا ہے ۔ مشکلات میں اضافہ ہی ہوتا چلا جارہا ہے ۔ اور لوگوں کی بدعملی اور گناہوں کی وجہ سے بروبحر میں فساد برپا ہوچکا ہے ۔
لیکن ان ناموافق حالات کے باوجود مسلمانوں میں سے ایک جماعت حق وانصاف پر قائم رہے گی ، جو مشرکین اور مبتد عین سے برسر پیکار ہوگی ، یہاں تک کہ اﷲ تعالیٰ اس کرۂ ارضی کا وارث ہو جائے۔ کیونکہ وہی بہتر اور اعلیٰ وارث ہے ۔


فیہ مسائل
٭سب سے اہم مسلئہ یہ بیان ہوا ہے کہ جبت اورطاغوت کا مطلب اور معنٰی کیا ہے؟ ٭کیا یہ قلبی کیفیت اور اعتقاد کانام ہے یا جبت اور طاغوت کو باطل سمجھتے ہوئے طاغوت کی عبادت کرنے والوں کی موافقت کانام ہے ؟ ٭ یہود کا یہ کہنا کہ وہ کافر جو اپنے کفر کو پہچانتے ہیں وہ ایمانداروں سے زیادہ ہدایت یافتہ ہیں ۔ ٭چھٹا مسئلہ جو اصل میں باب سے متعلق ہے وہ یہ ہے کہ اس جماعت کا امتِ محمدیہ میں ہر وقت پایا جانا ضروری ہے جیسا کہ سیدنا ابو سعید رضی اللہ عنہ کی روایت میں اس کی تصریح موجود ہے ۔ ٭اس بات کی وضاحت کہ امتِ محمدیہ میں بہت سے لوگ غیراﷲ کی عبادت میں مبتلا ہوں گے ۔ ٭سب سے زیادہ تعجب خیز بات یہ ہے کہ کلمہ شہادت کا اقرار کرتے ہوئے نبوت کا اقرار کریں گے جیسے مختار ثقفی نے کیا تھا اور نبوت کے اس دعویدار کا عقیدہ یہ ہوگا کہ وہ بھی اس امت کے افراد میں سے ایک فرد ہے اور یہ کہ رسول اﷲ صلی اللہ علیہ وسلم اور قرآن کریم حق اور سچے ہیں ۔ خصوصاً محمد صلی اللہ علیہ وسلم خاتم الرسل ہیں ۔ اس تضاد اور اختلافِ عقائد کے باوجود بعض اس کی تصدیق کریں گے ۔ اور اسے نبی مانیں گے ۔ مختا ر کذاب کا دعوٰی نبوت صحابہ رضی اللہ عنہم کے آخری دور میں تھا۔ اس قرب کے باوجود بے شمار لوگوں نے اس کی نبوت کا اقرار کیا ۔ ٭اس بات کی بشارت کہ حق و انصاف دنیا سے بالکل ختم نہیں ہوگا جیسا کہ باقی امم کے دور میں ہوا ، بلکہ قیامت تک ایک جماعت حق وصداقت کا عَلَم بلند رکھے گی ۔ ٭حزب اﷲ کی سب سے بڑی علامت یہ بیان کی گئی ہے کہ وہ اپنی تعداد کی قلت کے باوجودجو لوگ ان کی مخالفت کریں گے ۔ یا انہیں ذلیل ورسوا کرنے کی کوشش کریں گے ، وہ اس جماعت کو کوئی گزند نہ پہنچا سکیں گے۔ ٭حزب اﷲ کے وجود کی شرط قیامت تک کے لئے ہے ۔ ٭زیر بحث احادیث میں مندرجہ ذیل علامات کی وضاحت ہوتی ہے :
٭ رسول اﷲ صلی اللہ علیہ وسلم کا یہ بتانا کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم پر مشرق ومغرب کی طرف سے زمین سمیٹ کر دکھلائی گی اور جو کچھ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا وہ حرف بحرف ثابت ہو بخلاف شمال و جنوب کے ۔
٭ رسول اﷲ صلی اللہ علیہ وسلم کا یہ بھی فرمانا کہ مجھے دو خزانے عطاکیے گئے ہیں ۔
٭ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کا یہ بتا نا کہ امت کے بارے میں میری پہلی دو دعائیں قبول ہوئی ہیں ۔
٭ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کا یہ بھی واضح کرنا کہ میری تیسری دعا قبول نہیں ہوئی ۔
٭ رسول اﷲ صلی اللہ علیہ وسلم کا یہ بتانا کہ میری امت میں آپس میں تلوار چل جائے گی تو پھر رکنے کا نام نہیں لیگی ۔
٭ رسول اﷲ صلی اللہ علیہ وسلم کا یہ پیش گوئی کرنا کہ میری امت میں جھوٹے نبی پیدا ہوں گے ۔
٭ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کا یہ بھی فرمانا کہ ایک گروہ حق وانصاف کی حمایت کرتا رہے گا ۔
مندرجہ بالا امور اگرچہ بعید از قیاس ہیں لیکن رسول اﷲ صلی اللہ علیہ وسلم جو فرما گئے ہیں وہ حرف بحرف ثابت ہو کر رہا ۔
٭رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کا امت کے گمراہ پیشواؤں سے خطرہ محسوس فرمانا ۔ بلکہ اس بات کو حصر اور مقید کردینا کہ صرف ان سے ہی خطرہ ہے ۔
(۱۱) اوثان کی عبادت کی خود تشریح فرمادینا ۔
 

محمد نعیم یونس

خاص رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
اپریل 27، 2013
پیغامات
26,582
ری ایکشن اسکور
6,748
پوائنٹ
1,207
جادُو کا بیان

جادُو کا بیان
بابُ :مَا جَآءَ فِی السِّحر

اس باب میں جادو کا بیان ہے
وَ لَقَدْ عَلِمُوْا لَمَنِ اشْتَرَاہُ مَا لَہٗ فِی الْاٰخِرَۃِ مِنْ خَلاَقٍ (سورۃ البقرۃ : ۱۰۲)
اور انہیں خوب معلوم تھا کہ جو اس چیز کا خریدار بنا اس کے لئے آخرت میں کوئی حصہ نہیں۔
جس کے وجوہ اور اسباب پوشیدہ اور انتہائی دقیق ہوں اسے لغت عرب میں ’’ السحر ‘‘ کہتے ہیں ۔ ایک حدیث میں رسول اﷲ نے فرمایا :
فصاحت بیان میں بھی جادو کا سا اثر ہوتا ہے ۔ (بخاری، موطا، مسند احمد)۔
سحر (جادو ) کو السحر اس لئے کہا جاتا ہے کہ اس کا اثر آخر شب میں مخفی طور پر پایا جاتا ہے ۔ ابن قدامہ رحمہ اللہ اپنی کتاب ’’ الکافی ‘‘ میں فرماتے ہیں :
’’السحر ان تعویذ گنڈوں اور دھاگوں کی گر ہوں کو کہتے ہیں جو انسان کے بدن اور خصوصاً دل پر اثر کرتے ہیں ، جن کی وجہ سے انسان بیمار ہوجاتا ہے ۔ اور کبھی کبھی اس کی موت بھی واقع ہوجاتی ہے ۔ بعض اوقات میاں بیوی میں پھوٹ پڑجاتی ہے ۔
جیسا کہ اﷲ تعالیٰ نے فرمایا :
(ترجمہ) ’’یہ لوگ ان سے وہ چیز سیکھتے ہیں جس سے شوہر اور بیوی میں جدائی ڈال دیں‘‘۔ (البقرۃ:۱۰۲)۔ ایک اور مقام پر ارشاد باری تعالیٰ ہے : (ترجمہ) اور گرہوں میں پھونکنے والوں (والیوں ) کے شر سے۔ (الفلق:۴)
یعنی وہ جادوگرنیاں جو بوقت جادو ، دھاگے وغیرہ میں گرہ باندھتی ہیں اور ہر گرہ میں پھونکتی ہیں۔ اگر جادو میں کوئی مؤثرانہ حقیقت کار فرمانہ ہوتی تو اﷲ تعالیٰ اس سے پناہ مانگنے کی تلقین نہ کرتا۔
اُمّ المؤمنین عائشہ رضی اللہ عنہا فرماتی ہیں :
’’رسول اﷲ صلی اللہ علیہ وسلم پر بھی جادو کا اثر ہوگیا تھا ۔ یہاں تک کہ بعض اوقات آپ صلی اللہ علیہ وسلم یہ خیال کرتے کہ کوئی کام کرچکے ہیں حالانکہ ایسا نہ ہوتا۔ اُمّ المؤمنین عائشہ رضی اللہ عنہا کہتی ہیں کہ مجھے ایک دفعہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا میرے پاس دو فرشتے آئے ۔ ایک میرے سر کے پاس اور دوسرا میرے قدموں کے پاس آکر بیٹھ گیا ایک نے کہا اسے کیا تکلیف ہے ؟ دوسرے نے جواب دیا ’’ اس کو جادو کردیا گیا ہے ‘‘ ۔پہلے نے پھر پوچھا ’’اس کو کس نے جادو کیا ‘‘ ؟ جواب ملا: لبید بن اعصم نے۔کنگھی میں دھاگے کی گرہیں لگائی ہیں اور اسے کجھور کے خوشہ کے خول میں بند کرکے بئر ذروان میں ڈال دیا ہے‘‘۔ (بخاری)۔
٭ سیدنا ابن عباس رضی اللہ عنہ نے خلاق کا ترجمہ نصیب اور حصہ کیا ہے۔
٭ سیدنا قتادہ رحمہ اللہ فرماتے ہیں ’’ اہل کتاب کو یہ علم تھا اور ان سے عہد لیا گیا تھا کہ آخرت میں جادوگر کا کوئی حصہ نہیں ۔
٭ حسن بصری رحمہ اللہ نے کہا ’’ جادوگر کا کوئی دین اور مذہب نہیں ہوتا ۔
زیر بحث آیت کریمہ سے پتا چلاکہ جادو حرام ہے اور سابقہ تمام مذاہب میں بھی انبیاء علیہم السلام نے اس کو حرام قرار دیا ہے ۔ اﷲ تعالی فرماتا ہے :
’’ جادوگر جہاں جائے فلاح نہیں پائے گا ‘‘۔ (طہ:۶۹)
امام احمد رحمہ اللہ کے اصحاب کے نزدیک جادو سیکھنا اور سکھلانا دونوں کفر ہیں ۔
عبد الرزاق ، صفوان بن سلیم سے روایت کرتے ہیں کہ رسول اﷲ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا :’’جس شخص نے تھوڑا یا زیادہ جادو سیکھا اس کا معاملہ اﷲ سے ختم ہوا‘‘۔ یہ حدیث مرسل ہے ۔
اﷲتعالیٰ نے جادو کوکفر ہی قرار دیا ہے ۔ جیسے :
’’ ہم تو آزمائش ہیں تم کفر میں نہ پڑ و‘‘۔ (سورۃ البقرۃ: ۱۰۲)۔ سلیمان علیہ السلام نے مطلق کفر کی بات نہیں کی بلکہ شیطان ہی کفرکرتے تھے۔ (سورۃ البقرۃ : ۱۰۲)۔
سیدنا ابن عباس رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں :
’’ ان دونوں کو خیر وشر ، کفر اور ایمان کا علم تھا جس کی وجہ سے ان کو اس بات کا بھی علم تھا کہ جادو کفر ہے‘‘۔
وقولہ یُؤْ مِنُوْنَ بِالْجِبْتِ وِالطَّاغُوْتِ (سورۃ النساء : ۵۱)
قال عمرأَلْجِبْتُ السِّحْرُوَ الطَّاغُوْتُ الشَّیْطٰنُ وقال جابر الطواغیت کاھن ینزل علیہ الشیطٰن فیْ کلّ حی واحد
ان کا حال یہ ہے کہ وہ جبت اور طاغوت کو مانتے ہیں ۔ امیر المؤمنین سیدنا عمر رضی اللہ عنہ نے فرمایا کہ الجبت جادو اور الطاغوت شیطان ہے ۔سیدنا جابر رضی اللہ عنہ نے فرمایا کہ طاغوت وہ کاہن ہیں جن پر شیطان اترتا تھا اور ہر قبیلے کا الگ الگ کاہن ہوتا تھا ۔
جبت اور طاغوت کیا ہے؟
مصنف رحمہ اللہ نے اس کی وضاحت کی ہے کہ الجبت بھی جادو میں سے ہے ۔
سیدنا عمر رضی اللہ عنہ نے فرمایا کہ
’’الجبت جادو اور الطاغوت شیطان ہے‘‘۔
یہ اثر ابن ابی حاتم وغیرہ نے نقل کیا ہے سیدنا عمر رضی اللہ عنہ نے کہا جبت جادوہے اور طاغوت شیطان ہے ۔
سلف امت کے اقوال وارشادات کے مطالعہ کرنے سے یہ بات روز روشن کی طرح واضح ہوجاتی ہے کہ ہر وہ چیز جو انسان کو اﷲ کی عبادت سے روکے ، اﷲ اور اس کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کی اطاعت اور فرمانبرداری کے لئے سدراہ ثابت ہو، خواہ وہ انسان کی صورت میں ہو یا جن کی ، شجروحجر کی صورت میں ہو یا قوانین اسلامیہ کے علاوہ اجنبی دستور کی صورت میں ۔ غرض کسی بھی شکل میں ہو ، طاغوت کہلائے گی اور ان پر عمل کرنے والے اورنافذ کرنے والے بھی طاغوت کہلائیں گے ۔
طاغوت میں وہ کتب بھی شامل ہیں جو عقل انسانی کی ایجاد ہیں ، جن سے شریعت اسلامیہ سے دوری پیدا ہونے کا امکان ہو۔
وعن جندب مرفوعاً حَدُّالسَّاحِرِ ضَرْبُہٗ بِالسَّیْفِ (رواہ الترمذی)
سیدنا جندب رضی اللہ عنہ سے مرفوعاًروایت ہے ۔ رسول اﷲ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ
جادوگر کی سزا یہ ہے کہ اسے تلوار سے قتل کردیا جائے ۔
جادوگر کی سزا : حافظ ابن حجر عسقلانی رحمہ اللہ فرماتے ہیں کہ :
’’جندب الخیر نے روایت کی ہے کہ وہ ایک جادوگر کے پاس آئے اور اسے تلوار ماردی، یہاں تک کہ وہ مر گیا۔ اور کہا کہ میں نے رسول اﷲ صلی اللہ علیہ وسلم کو فرماتے سنا ہے۔ پھر یہ حدیث بیان کی۔
ابن سکن نے بریدہ سے حدیث نقل کی ہے کہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ
جادوگر کو ایک ہی وار سے ختم کردیا جائے تاکہ امت متفق رہے ۔
قولہٗ حد الساحر ضربۃ بالسیف
ضربۃ اور ضربہ دونوں طرح روایات میں آیا ہے اور دونوں صورتیں درست ہیں ، معنٰی میں کوئی خاص فرق نہیں پڑتا ۔ امام مالک ، امام احمد اور امام ابو حنیفہ رحمۃ اللہ علیہم نے اسی حدیث کو سامنے رکھ کر جادوگر کے بارے میں فیصلہ دیا ہے کہ اسے قتل کر دیا جائے ۔ عمر عثمان ، عبداﷲ بن عمر، حفصہ ، جندب بن عبداﷲ، جندب بن کعب ، قیس بن سعد ، عمر بن عبدالعزیز رضی اللہ عنہم کے نزدیک بھی یہی ہے کہ جادوگر کو قتل کردیا جائے ۔
وفِیْ صحیح البخاری عن بجالۃ بن عبدۃ قَالَ کَتَبَ عُمَرُبْنُ الْخَطَّابِ أِنِ قْتُلُوْا کُلَّ سَاحِرٍ وَّ سَاحِرَۃٍ قَالَ فَقَتَلْنَا ثَلَا ثَ سَوَاحِرَ
صحیح بخاری میں بجالہ بن عبدہ رحمہ اللہ سے روایت ہے ۔ وہ کہتے ہیں کہ سیدنا عمر بن خطاب رضی اللہ عنہ نے لکھا کہ
ہر جادوگر کو خواہ مرد ہو یا عورت قتل کردو ۔
بجالہ رحمہ اللہ کہتے ہیں کہ
سیدنا عمر رضی اللہ عنہ کا پیغام سن کر ہم نے تین جادوگروں کو موت کے گھاٹ اتاردیا۔
سیدنا عمر رضی اللہ عنہ کے فرمان سے یہی ظاہر ہوتا ہے کہ جادوگر کو توبہ کی مہلت دیئے بغیر قتل کردینا چاہئے۔ امام احمد رحمہ اللہ اور امام مالک رحمہ اللہ کے نزدیک بھی یہی حکم ہے کیونکہ جادوگر کی توبہ سے جادو کا علم زائل نہیں ہوسکتا
وَصَحَّ عَنْ حَفْصَۃَ رَضِیَ اﷲ تَعَالیٰ عَنْھَا أَنَّھَا أَمَرَتْ بِقَتْلِ جَارِیَۃٍ لَّھَا سَحَرَتْھَا فَقُتِلَتْ وَکَذٰلِکَ صَحَّ عَنْ جُنْدُبٍ قَالَ أَحْمَدُ ثَلَاثَۃٌ مِّنْ أَصْحَبِ النَّبِیْ صلی اللہ علیہ وسلم
اُمّ المومنین حفصہ رضی اللہ عنہا سے ثابت ہے کہ انہوں نے اپنی ایک لونڈی کو جس نے حفصہ رضی اللہ عنہا پر جادو کا وار کیا تھا، قتل کرنے کا حکم دیا تھا۔ چنانچہ اس لونڈی کو قتل کردیا گیا۔ جندب رضی اللہ عنہ سے بھی اسی قسم کا واقعہ منقول ہے۔ امام احمدرحمہ اللہ فرماتے ہیں کہ جادوگروں کو قتل کرنا رسول اﷲ صلی اللہ علیہ وسلم کے تین صحابہ رضی اللہ عنہم سے ثابت ہے۔
مصنف رحمہ اللہ نے جادوگر کے قتل کی طرف اشارہ کیا ہے ۔ جیسا کہ امام بخاری رحمہ اللہ اپنی تاریخ میں ابی عثمان الہندی سے روایت کرتے ہیں کہ ابی عثمان نے کہا: ولید کے پاس ایک جادوگر آیا اور اس نے ایک شخص کو ذبح کر کے اس کا سر تن سے جدا کردیا۔ ہم بہت حیرا ن ہوئے اور ہمارے تعجب کی کوئی انتہا نہ رہی چند لمحوں کے بعد جادوگر نے اس شخص کا سر دوبارہ ملا دیا اور وہ صحیح سالم ہوگیا۔ اتفاق سے سیدنا جندب الازدی رضی اللہ عنہ وہاں آگئے، انہوں نے آگے بڑھ کر جادوگر کو قتل کردیا۔

جادوگر کا قتل کرنا تین صحابہ کرام رضوان اﷲ علیہم اجمعین سے ثابت ہے اور وہ یہ ہیں ۔ (۱) سیدنا عمر بن الخطاب رضی اللہ عنہ (۲) اُمّ المؤمنین حفصہ رضی اللہ عنہا ۔ (۳) سیدنا جندب الازدی رضی اللہ عنہ ۔ واﷲ اعلم ۔

فیہ مسائل
٭ جبت اور طاغوت کے معنٰی اور ان میں فرق واضح کرنا ۔ ٭طاغوت کبھی جنوں اور کبھی انسانوں میں سے بھی ہوتا ہے ۔ ٭خصوصاً ان سات امور ، جو انتہائی مہلک اور جن سے خصوصی طور پر بچنے کا حکم دیا گیا ہے ، کی معرفت۔ ٭جادوگر وںکو کافر قرار دیا گیا ہے ۔ ٭جادوگر کو بلا توبہ کرائے قتل کردیا جائے ۔ ٭جادوگر سیدنا عمر رضی اللہ عنہ کے دور میں بھی تھے ، ان کے بعد ان کا وجود کیونکر ناممکن ہوسکتا ہے ؟
 

محمد نعیم یونس

خاص رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
اپریل 27، 2013
پیغامات
26,582
ری ایکشن اسکور
6,748
پوائنٹ
1,207
جادُو کی اقسام

جادُو کی اقسام
باب :بیان شیٔ من انواع السحر

اس باب میں جادو کی چند اقسام بیان کی گئی ہیں
قال احمد حدثنا محمد بن جعفر حدثنا عوف بن حیان ابن العلاء حدثنا قطن بن قبیصۂ عن ابیہ انہٗ سمع النبی صلی اللہ علیہ وسلم قَالَ إِنَّ الْعِیَافَۃَ وَ الَّطرْقَ وَ الطیرَۃَ مِنَ الْجِبْتِ
امام احمدـ رحمہ اللہ فرماتے ہیں کہ سیدنا مخارق رضی اللہ عنہ نے رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کو یہ فرماتے ہوئے سنا کہ
پرندوں کو اڑانا ، زمین پر خطوط کھینچنا اور کسی کو دیکھ کر فالِ بدلینا ، سب جادو کی اقسام ہیں ۔
شارح کتاب نے اس مقام پر کرامات اولیاء اﷲ پر سیر حاصل بحث کی ہے اور ان شیطانی شعبدہ بازیوں کا بھی تفصیل سے ذکر کیا ہے جن سے عوام ، اور جاہل لوگوں کو یہ دھوکا لگا ہے کہ جس شخص سے اس قسم کی شعبدہ بازی ظاہر ہو وہ شخص اولیاء اﷲ میں سے ہے یہ وہ چیز ہے جس کی وجہ سے اکثر لوگ گمراہی میں مبتلا ہوگئے ہیں۔ پھر کہا ہے کہ اس موضوع پر مفصل احکام سے باخبر ہونا مقصودہو تو شیخ الاسلام ابن تیمیہ رحمہ اللہ کی کتاب ’’ الفرقان بین اولیاء الرحمن و اولیاء الشیطن ‘‘ کا مطالعہ کیجئے ۔
شیخ الاسلام امام ابن تیمیہ رحمہ اللہ نے اس بات کی وضاحت فرمادی ہے کہ علم نجوم جادو میں سے ہے ۔ اور اﷲ تعالیٰ کا یہ فرمان ہے :
’’ جادوگر کہیں بھی نجات نہ پاسکے گا‘‘۔ (طہٰ : ۶۹)
جس قدر علم نجوم زیادہ حاصل کرتا جائے گا اسی قدر گناہ بڑھتا جائے گا ۔ کیونکہ علم نجوم کو موثر سمجھنا گنا ہ ہے جیسے جادوکو مؤثر خیال کرنا باطل ہے ۔
قَالَ عَوْف أَلْعِیَافَۃُ زَجْرُ الطِّیَرِ وَ الطَّرْقَ أَلْخَطُّ یُخَطَّ بِالْأَرْضِ وَالْجِبْتُ قَالَ الْحَسَنُ رَنَّۃُ الشَّیْطٰنِ اسناد جیّد )ولابی داؤد و انسائی و ابن حبان فِیْ صحیحہ المسند منہ
سیدنا عوف رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ پرندوں کو اڑانا، عیافہ اور زمین پر خطوط وغیرہ کھینچنا طرق کہلاتا ہے۔ امام حسن بصری رحمہ اللہ کے نزدیک شیطان کی چیخ وپکار اور آہ وبکا کو الجبت کہتے ہیں ۔ اس حدیث کی سند جید ہے ۔
و عن ابن عباس قَالَ قَالَ رَسُوْلُ اﷲِ صلی اللہ علیہ وسلم مَنِ اقْتَبَسَ شُعْبَۃً مِّنَ النُّجُوْمِ فَقَدِ اقْتَبَسَ شُعْبَۃً مِّنَ السِّحْرِ زَادَ مَا زَادَ (رواہ ابوداؤد واسنادہ صحیح)۔
سیدنا ابن عباس رضی اللہ عنہ سے روایت ہے ، وہ کہتے ہیں کہ رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ
جس شخص نے علم نجوم کا کچھ حصہ حاصل کیا ۔ تو گویا اس نے اتنا جادو سیکھ لیا اور جس قدر زیادہ سیکھتا جائے گا اتنا ہی اس کی وجہ سے گناہ میں اضافہ ہوتا چلاجائے گا ۔
وللنسائی من حدیث ابی ھریرۃ مَنْ عَقَدَ عُقْدَۃً ثُمَّ نَفَثَ فِیْھَا فَقَدْ سَحَرَ وَمَنَْ سَحَرَ فَقَدْ أَشْرَکَ وَ مَنْ تَعَلَّقَ شَیْئًا وُ کِلَ إِلَیْہِ
سیدنا ابوہریرہ رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ رسول اﷲ صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا کہ
جو شخص گرہ دیتے وقت اس میں پھونک مارے اس نے جادو کیا ہے ۔ اور جو شخص جادو کرے اس نے شرک کیا اور جو اپنے جسم پر تعویذ دھاگہ لٹکائے اسے اسی کے سپرد کر دیا جاتا ہے ۔
جادوگر جب کسی شخص کو نشانہ بنانا چاہتے ہیں تو دھاگہ لے کر اسے گرہ دیتے جاتے ہیں اور ہر گرہ پر کچھ نہ کچھ پڑھ کر پھونک مارتے جاتے ہیں ۔ جس سے وہ اپنے اس قبیح عمل میں کامیاب ہو جاتے ہیں ان کے اس گرہ دینے کی طرف قرآن کریم نے بھی اشارہ کیا ہے ۔
گنڈوں پر (پڑھ پڑھ ) کر پھونکنے والیوں کی برائی سے۔ (الفلق : ۴)۔
’’ نفث ‘‘ : اس پھونک کو کہتے ہیں جس میں لعاب دہن کی آمیزش بھی ہو ۔ یہ خاص جادوگر کا عمل ہے جب کوئی جادوگر کسی پر جادو سے حملہ کرنا چاہتا ہے تو وہ ارواح خبیثہ اور شیاطین سے بھی مدد لیتا ہے اور اس دھاگے کو گرہ دیتے وقت اس میں ایسی پھونک مارتا ہے جس میں لعاب دہن کی آمیزش ہوتی ہے ۔ اس پھونک سے زہریلا مادہ خارج ہوتا ہے اس پھونک میں خبیث روحیں اور شیطان اس جادوگر کی مددکرتے ہیں ۔ اور اس کے ساتھ ہی اس گرہ میں پھونک مارتے ہیں ۔ چنانچہ جس پر جادو کرنا مقصود ہو ، اس پر اﷲ تعالیٰ کے اذن سے جسے اہل علم کی اصطلاح میں اذن کونی قدری کہتے ہیں ۔ نہ کہ اذن شرعی ، اثر ہوجاتا ہے ۔ یہ ابن قیم رحمہ اللہ کے قول کا خلاصہ ہے۔ رسول اﷲ صلی اللہ علیہ وسلم کے اس ارشاد گرامی میں اس بات کی تصریح موجود ہے کہ جادوگر مشرک ہے کیونکہ جادو کا اثر بغیر شرک کے نہیں ہوتا ۔ جیسا کہ حافظ ابن حجر عسقلانی رحمہ اللہ نے بعض لوگوں سے اس کی حکایات بیان کی ہیں۔
جس شخص کا قلبی تعلق کسی غیر اﷲ سے ہوجائے ، وہ اس کو معتمد علیہ اور قابل بھروسہ قرار دے لے اور اس سے اپنی امیدیں وابستہ کرلے تو اﷲ تعالیٰ بھی اسے اسی چیز کے سپرد کردیتا ہے ۔ اس کے برخلاف جو شخص اپنے رب ، اپنے مولا ، اپنے الہ ٰ اور اس رب تعالیٰ پر بھروسہ کرتا ہے جو ہر چیز کا مالک ومختا ر تو اﷲ تعالیٰ اس کے لئے کافی ہوجاتا ہے ۔ اس کی حفاظت اپنے ذمہ لے لیتا ہے اسے ہر شر سے محفوظ رکھتا ہے اور اس سے اپنی محبت و مودّت کا سلوک کرتا ہے ۔ کیونکہ وہی نِعْمَ الْمَوْلیٰ وَنِعْمَ النَّصِیْرُ ہے ۔ اﷲ تعالیٰ فرماتا ہے :
(ترجمہ):کیا اﷲ تعالیٰ اپنے بندے کے لئے کا فی نہیں ہے ؟
۔ اور جو شخص جادوگر ، شیاطین ، یا ان کے علاوہ کسی دوسری مخلوق پر بھروسہ کرلے تو اﷲ تعالیٰ اسے اسی کی تحویل میں دے دیتا ہے ۔ اور پھر انسان ہلاک ہوجاتا ہے۔حقیقت یہ ہے کہ جو شخص دل کی آنکھ سے اس قسم کے لوگوں کے حالات پر غور کرے جو غیر اﷲپر بھروسہ اور اعتماد کرلیتے ہیں تو اس پر یہ بات روز روشن کی طرح واضح ہوجائے گی ، کہ وہ لوگ کس قدر گمراہ ، بے بس ، اور مایوس نظر آتے ہیں
مصنف رحمہ اللہ نے چغلی کو بھی اسی باب میں بیان کیا ہے۔ یحییٰ بن ابی کثیر سے روایت کرتے ہیں کہ
’’ جھوٹا اور چغل خور ایک ساعت میں جو فساد برپا کردیتا ہے۔ جادوگر ایک سا ل میں بھی اتنا فساد برپا نہیں کرسکتا‘‘
۔ ابوالخطاب اپنی کتاب عیون المسائل میں لکھتے ہیں:
’’ چغلی کھانا اور لوگوں میں فساد برپا کرنا جادو ہی کی ایک قسم ہے‘‘۔
وہ اپنی کتاب فروع میں مزید فرماتے ہیں جس کا خلاصہ یہ ہے کہ:
’’چغلی کو سحر اور جادو اس لئے کہا گیا ہے کہ چغل خور بھی اپنی باتوں اور عمل سے مکر وحیلہ کر کے دوسرے کو اسی طرح اذیت اور تکلیف پہنچانا چاہتاہے ۔ جس طرح کہ جادوگر ۔ اور یہ بات تجربہ سے ثابت ہے کہ چغلی کھانا انتہائی اذیت رساں فعل ہے۔ اور اس کا اثر مرتب ہوتا ہے۔ جو جادو کا ہوتا ہے۔ بعض اوقات چغلی جادوسے بھی زیادہ سنگین اور اذیت رساں ثابت ہوتی ہے قریب قریب دونوں کا حکم ایک ہی ہے۔ البتہ جادوگر کو جادو کی وجہ سے کافر قرار دیا جائے گا ۔ کیونکہ یہ خاص فعل ہے ۔ اور اس کی وجہ بھی خاص ہے ۔لیکن چغل خور جادوگر نہیں البتہ دونوں کے فعل سے نتیجہ ایک ہی جیسا نکلتا ہے ۔ لہٰذا ساحر اور جادوگر کافر قرار دیا جائے گا بخلاف چغل خور کے۔ کیونکہ اس کے لئے وہی حکم لگایا جائے گا جو کہ اس عمل یا اس کے اثر کے مطابق ہوگا۔ مگر ایسے عمل میں جو کہ موجب کفر یا عدم قبول توبہ ہو‘‘۔
چغلی کی حرمت پر علمائے امت کا اتفاق ہے ۔ علامہ ابن حزم رحمہ اللہ فرماتے ہیں :
’’غیبت اور چغلی کی حرمت پر علمائے اہل سنت کا اتفاق ہے البتہ خیر خواہی کے لئے غیبت جائز ہے۔ اور ان کے کبائر میں سے ہونے پر بھی حجت اور دلیل پائی گئی ہے‘‘۔
فصاحت و بلاغت اور پوری وضاحت سے اپنی بات بیان کرنا ۔ صعصعہ بن صوحان رحمہ اللہ فرماتے ہیں۔ ’
’اﷲ تعالیٰ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم نے سچ فرمایا ہے کیونکہ بعض اوقات مدعا علیہ اصل حق دار کی نسبت ، تیز کلام اور چرب زبان ہونے کی وجہ سے ، سامعین کو مسحور اور قائل کرکے دوسرے کا حق چھین لیتا ہے ‘‘ ۔
ابن عبدالبر فرماتے ہیں :
’’ بعض اہل علم نے اسی بنا پر فصاحت کی مذمت کی ہے کیونکہ یہ جادوہی کی ایک قسم ہے اور جادو بذات خود مذموم ہے ‘‘۔
اکثر اہل علم اور اہل ادب کی ایک جماعت نے فصاحت کی تاویل مدح سے کی ہے کیونکہ اﷲ تعالیٰ نے بیان کی تعریف فرمائی ہے ۔ ایک دفعہ عمر بن عبدالعزیز رحمہ اللہ کی خدمت میں ایک سائل آیا اور اس نے اپنے سوال کو انتہائی فصاحت و بلاغت سے پیش کیا تو عمر بن عبدالعزیز رحمہ اللہ نے فرمایا :
’’ واللہ یہ جادو ہے ۔ لیکن حلال ہے ‘ ‘ ۔
ایک مقام پر رسول اﷲ صلی اللہ علیہ وسلم فرماتے ہیں :
’’ جو شخص حق کو پامال کرنے میں فصاحت و بلاغت سے کام لے وہ عنداﷲ انتہائی ناپسندیدہ ہے ۔ وہ اس طرح زبان کی کمائی کھاتا ہے جیسے گائے اپنی زبان سے کھاتی ہے‘‘۔ (مسند احمد ، ابوداؤد )
و عن ابن مسعود أَنَّ رَسُوْلَ اﷲِ صلی اللہ علیہ وسلم قَالَ أَلَا ھَلْ اُنَبِّئُکُمْ مَا الْعَضْہُ ھِیَ النَّمِیْمَۃُ اَلْقَالَۃُ بَیْنَ النَّاسِ (رواہ مسلم )
سیدنا ابن مسعود رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ ایک دفعہ رسول اﷲ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ
میں تمہیں العضہ کے بارے میں بتاؤں کہ وہ کیا ہے ؟ پھر خود ہی فرمایا کہ وہ چغلی کھانا ہے ۔ یعنی دو شخصوںمیں ایسی بات بنانا جس سے وہ آپس میں لڑائی جھگڑے پر اتر آئیں ۔
عن ابن عمر رضی اللہ عنہ أَنَّ رَسُوْلَ اﷲِ صلی اللہ علیہ وسلم قَالَ إِنَّ مِنَ الْبَیَانِ لَسِحْرًا (صحیح بخاری ومسلم )
صحیح بخاری و مسلم مین عبداﷲ بن عمر رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اﷲ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ
فصاحت و بلاغت میں بھی جادو کا اثرہوتاہے ۔
فیہ مسائل
٭عیافہ ، طرق اور الطیرہ جادو ہی کی اقسام ہیں ۔ ٭ عیافہ اور طرق کی مکمل وضاحت اور تفصیل بیان کی گئی ہے ۔ ٭علم نجوم بھی جادو کی ایک قسم ہے ۔ ٭ پھونک مار کر گرہ دینا جادو ہے ۔ ٭چغلی کھانا جادو کی ایک شکل ہے۔ ٭بعض اوقات فصاحت وبلاغت سے بات کرنا بھی جادو کہلاتا ہے ۔
 

محمد نعیم یونس

خاص رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
اپریل 27، 2013
پیغامات
26,582
ری ایکشن اسکور
6,748
پوائنٹ
1,207
کہانت اور غیب دانی کے بارے میں احکامِ شریعت کی وضاحت

کہانت اور غیب دانی کے بارے میں احکامِ شریعت کی وضاحت
باب: ماجاء فی الکُھّان و نحوھم

اس باب میں کہانت اور غیب دانی کے بارے میں احکام شریعت کے وضاحت کی گئی ہے
روی مسلم فیْ صحیحہٖ عن بعض ازواج النبِیْ صلی اللہ علیہ وسلم عن النبیْ صلی اللہ علیہ وسلم قال مَنْ أَتٰی عَرَّافًا فَسَأَلَہٗ عَنْ شَیْ ٍٔ فَصَدَّقَہٗ بِمَا یَقُوْلْ لَمْ تُقْبَلْ لَہٗ صَلٰوۃُ أَرْبَعِیْنَ یَوْمًا
صحیح مسلم میں رسول اﷲ صلی اللہ علیہ وسلم کی بعض ازواج مطہرات سے مروی ہے کہ رحمت دو عالم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ ،
جس شخص نے کسی نجومی کے پاس جا کر کچھ پوچھا اور اس کی تصدیق بھی کی تو اس کی چالیس روز تک نماز قبول نہ ہوگی ۔ وہ شیاطین جو فرشتوں کی بعض باتیں چوری چھپے سن کر دوسروں کو بتا تے ہیں ان کو کاہن کہا جاتا ہے۔
رسول اﷲ صلی اللہ علیہ وسلم کی بعثت سے پہلے اکثر شیاطین فرشتوں کی بعض باتیں سن لیا کرتے تھے ۔ لیکن آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی بعثت کے بعد آسمان پر کڑی نگرانی کردی گئی لہٰذا اب وہ بہت ہی مشکل سے کوئی بات سن پاتے ہیں۔ اب صورت حال یہ ہے کہ یہ شیاطین بعض علاقوں کی خبریں دوسرے علاقوں کے کاہنوں کو بتادیتے ہیں ۔ جس سے جاہل لوگ ان کاہنوں کی کرامت اور کشف کے قائل ہوجاتے ہیں اور اکثر لوگ اس دھوکے میں مبتلا ہیں کہ ان کو بتانے والے اولیاء اﷲ ہیں جو بعض اوقات غیب کی خبریں بتا تے ہیں ۔ حالانکہ یہ سب کچھ شیاطین کی طرف سے کیا جارہا ہے ۔ اس کی وضاحت قرآن کریم میں کی گئی ہے ۔
’’ترجمہ : اور جس دن وہ سب ( جن وانس ) کو جمع کرے گا ( اور فرمائے گا کہ ) اے گروہ جنات تم نے انسانوں سے بہت (فائدے ) حاصل کیے ۔ جوانسانوں میں ان کے دوست ہوں گے وہ کہیں گے کہ پروردگا ر ہم ایک دوسرے سے فائدہ حاصل کرتے رہے اور ( آخر ) اس وقت کو پہنچ گئے جو تونے ہمارے لئے مقرر کیا تھا ۔ اﷲ فرمائے گا ( اب ) تمہارا ٹھکانا دوزخ ہے بیشک تمہارا پروردگار دانا (اور ) خبردار ہے‘‘۔
زیر نظر حدیث میں کاہنوں کے پاس جانے کی ممانعت کی گئی ہے ۔ علامہ قرطبی رحمہ اللہ فرماتے ہیں کہ :
’’ان کاہنوں اور منجموں کو جو بازاروں میں سادہ لوح عوام کو گمراہ کرتے اور فریب دے کر ان کی جیبیں صاف کرتے ہیں، جو شخص روکنے کی طاقت رکھتا ہو ۔ روکے ، ان پر سخت گرفت کرے اور ان کے پاس آنے والے لوگوں کو بھی منع کرے اور سمجھائے ۔ ان کاہنوں کی چند ایک باتوں کے صحیح ہوجانے سے ان کے جال میں نہ پھنسنا چاہئے ۔ اور نہ اس فریب میں آنا چاہئے کہ ان کے پاس لوگوں کا جھمگھٹا لگا رہتا ہے اور اس سے بھی دھوکا نہ کھانا چاہیے ۔ کہ ان کے پاس علم والے لوگ آتے ہیں ۔ کیونکہ ان کے پاس اہل علم نہیں بلکہ جاہل لوگ آتے ہیں ۔ اگر ان کے پاس علم کی دولت ہوتی تو خلاف شریعت امور کا ارتکاب نہ کرتے ان کا حال یہ ہے کہ رات دن محرمات کے ارتکاب میں مبتلا اور مشرکانہ تعویذ گنڈوں میں مصروف رہتے ہیں‘‘۔
ابوداؤد ، ترمذی ، نسائی ، ابن ماجہ اور مستدرک حاکم میں مندرجہ ذیل الفاظ سے حدیث مروی ہے مزید برآں حاکم کا کہنا ہے کہ یہ حدیث صحیح بخاری اور مسلم کی شروط پر پوری اترتی ہے ۔ حدیث کے الفاظ یہ ہیں:
’’جو شخص کاہن او ر نجومی کی بات کی تصدیق کرے۔ تو گویا انے اس دین اسلام کا انکار کیا جو محمد صلی اللہ علیہ وسلم پر اتارا گیا‘‘۔
مصنف رحمہ اللہ نے نے تو راوی کے نام کی جگہ خالی چھوڑدی تھی لیکن اس روایت کو امام احمد ، امام بہیقی اور حاکم نے سیدنا ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے مرفوعاً روایت کیا ہے ۔
اس حدیث میں کاہن اور جادوگر کے کفر پر واضح دلیل ہے کیونکہ یہ علم غیب کا دعویٰ کرتے ہیں جو سراسر کفر ہے او ر ان کی تصدیق کرنے والا بھی کافر ٹھہرا ۔ اﷲ تعالیٰ کے علاوہ کسی کا علم غیب کا دعوٰی کرنا یاکسی کے متعلق یہ عقیدہ رکھنا کہ وہ علم غیب جانتا ہے ، کفر ہے ۔ قرآن کریم کی مندرجہ ذیل آیت اس پر شاہد ہے :
’’اس گھڑی( قیامت ) کا علم اﷲ ہی کے پاس ہے ۔ وہی بارش برساتا ہے وہی جانتا ہے کہ ماؤں کے پیٹ میں کیا پرورش پارہا ہے ، کوئی متنفس نہیں جانتا کہ کل وہ کیا کمائی کرنے والا ہے اور نہ کسی شخص کو یہ خبر ہے کہ کس سرزمین میں اس کو موت آنی ہے ۔ اﷲ ہی سب کچھ جاننے والا اور باخبر ہے‘‘۔(سورۃ القمان : ۳۴)۔
سورۃ الانعام (آیت۵۹)میں ارشادِ ربانی ہے:
(ترجمہ) : ’’ اسی کے پاس غیب کی کنجیاں ہیں جنہیں اس کے سوا کوئی نہیں جانتا‘‘۔ سورۃ جن (آیت۲۶) میں ارشاد فرمایا گیا کہ : ’’ وہ عالم الغیب ہے ، اپنے غیب پر کسی کو مطلع نہیں کرتاسوائے اس رسول کے جسے اس نے پسند کرلیا ہو‘‘ ۔
پس جو شخص عراف یا کاہن کی تصدیق کرتا ہے وہ مندرجہ بالا آیات سے کفر کا مرتکب ہوتاہے ۔ اور جوآیات سے کفر کرے وہ کافرہوجاتا ہے ۔
وعن عمران بن حصین مرفوعًا لَیْسَ مِنَّا مَنْ تَطَیَّرَ أَوْ تُطُیِّرَلَہٗ أَتَکَھَّنَ أَوْ تُکُھِّنَ لَہٗ أَوْ سَحَرَأَوْسُحِرَلَہٗ وَمَنْ أَتٰی کَاھِنًا فَصَدَّقَہٗ بِمَایَقُوْلُ فَقَدْکَفَرَ بِمَآ اُنْزِلَ عَلٰی مُحَمَّدٍ صلی اللہ علیہ وسلم
سیدنا عمران بن حصین رضی اللہ عنہ سے مرفوعاً روایت ہے رسول اﷲ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا
جو شخص خود فال نکالے یا اس کے لئے فال نکالی جائے یا خود کاہن بنے یا اس کے لئے کوئی دوسرا شخص کاہن تجویز کرے یا جو شخص خود جادوگر ہو یا اس کے لئے کوئی دوسرا شخص جادوگر کو تجویز کرے وہ ہم میں سے نہیں ۔اور جو شخص کسی کاہن کے پاس جائے اور اس کی باتوں کی تصدیق کرے تو گویا اس نے شریعت محمدیہ سے کفر کا ارتکاب کیا ۔ (رواہ البزار بسند جید)۔
یعنی جو شخص خود بدفال لے یاکسی شخص کے لئے کوئی دوسرا فال لے اور وہ شخص جو خود کاہن ہو یاکسی کاہن کے کہنے پر چلے ، اسی طرح وہ شخص جو خود جادو کرے یا اس کے لئے کوئی دوسرا شخص جادو کرے ۔ پس جو شخص بھی ان امور میں مبتلا ہوا ، اس سے رحمت دوعالم صلی اللہ علیہ وسلم بے زار ہیں کیونکہ ان میں سے بعض تو شرک ہیں ۔ جیسے کسی چیز سے بدفال لینا ۔ اور بعض کفر ہیں جیسے کہانت اور جادو ۔ اور جو شخص ان پر رضامندی ظاہر کرے اور ان کی باتوں پر عمل کرے وہ ان کا ساتھی ہے ۔ اس لئے اس نے باطل اور کفر کو قبول کرکے اس پر عمل کیا ہے ۔
شیخ الاسلام ابن تیمیہ رحمہ اللہ فرماتے ہیں :
’’ کاہن ، نجومی ، اور علم رمل جاننے والے کو عراف کہا جاتا ہے۔ جیسے وہ شخص جو اٹکل پچو سے کام لے کر غیب دانی ، اور کشف وغیرہ کا جھوٹا دعویٰ کرتا ہو‘‘۔
سیدنا ابن عباس رضی اللہ عنہ ان لوگوں کے بارے میں جو حروف ابجد وغیرہ لکھ کر حساب کرتے اور نجوم سیکھتے ہیں، فرماتے ہیں کہ جو شخص ایسا عمل کرے اس کا آخرت میں کوئی حصہ اور اجر نہیں ہے ۔
افسوس کہ لوگوں میں جو موجودہ جاہلیت پائی جاتی ہے وہ سابقہ دور جاہلیت سے بھی بدترین ہے جسے قرآن وحدیث بھی دور نہیں کرسکتے کیونکہ انہوں نے قرآن وحدیث کو پس پشت ڈال رکھا ہے اور یہی قرآن وحدیث ان کے خلاف بطور حجت پیش ہوگا ۔ لہٰذامسلمانوں کو ان لوگوں کی خوشنما پگڑیوں ، لمبی لمبی داڑھیوں اور خوب صورت چہروں کے جال میں نہ آنا چاہیے کیونکہ اس کے پس پردہ جہالت اور کور پن کے سوا کچھ نظر نہیں آئے گا ۔ اس میں شک نہیں کہ جو شخص ولایت کا دعوٰی کرتا ہے اور بعض پوشیدہ امور کی اطلاع دینے کو بطور دلیل پیش کرتا ہے وہ اولیاء الشیطان میں سے ہے ۔ نہ کہ اولیاء الرحمان میں سے ! کیونکہ اﷲ تعالیٰ اپنے مومن اور متقی بندے کے ہاتھ سے کرامت ظاہر کرتا ہے جیسے دعا قبول ہوجانا ۔ یا کوئی اچھا عمل سرزد ہوجانا ۔ جس میں اس مومن و متقی کو نہ کوئی دخل ہوتا ہے ، نہ طاقت ہوتی ہے اور نہ وہ اپنے ارادے سے یہ کام کرتا ہے ۔ برعکس ان شیاطین کے جو مغیبات اور پوشیدہ امور کی خبر دینے کا دعویٰ کرتے ہیں ۔
ہر شخص کو صحابہ کرام اور تابعین عظام کی زندگیوں کا مطالعہ کرناچاہیے جو تمام اولیاء کے سردار اور پیشوا تھے۔ کیا ان میں سے کسی نے بھی اس قسم کا غلط دعوٰے کیا ؟ اور کیا کوئی خلاف شریعت بات زبان سے نکالی ؟ اﷲ جانتا ہے! کبھی نہیں۔ بلکہ ان کی حالت تو یہ ہوتی تھی کہ قرآن کریم کی تلاوت کے وقت ان کی آنکھوں سے آنسوبند نہ ہوتے تھے ۔ اور ان کو اس بات کی طاقت نہ کہ اپنے آپ پر ضبط کرسکیں ۔ سیدنا صدیق اکبر رضی اللہ عنہ کو لیجئے کہ قرآن کریم کی تلاوت کرتے وقت اتنا روتے کہ ہچکی بندھ جاتی اور سلسلہ تلاوت رک جاتا ۔ سیدنا عمر ابن الخطاب رضی اللہ عنہ کا یہ عالم تھا کہ نماز میں قرأت شروع کرتے تو پچھلی صفوں میں رونے کی آواز سنائی دیتی ۔ اور اکثر ایسا ہوا کہ رات کے وقت ذکر و اذکار میں اتنا روئے کہ بیمار پڑگئے ۔ اور کئی روز تک صحابہ کرام بیمار پرسی کے لئے تشریف لاتے رہے ۔

تمیم داری کا یہ حال تھا کہ رات سونے کے لئے بستر پر تشریف لاتے تو جہنم کی آگ کا نقشہ سامنے آجاتا اور ساری ساری رات کروٹ بدلتے رہتے ۔ آخرنماز کے لئے اٹھ کھڑے ہوتے ۔ اگر آپ اولیاء اﷲ کی صفات دیکھنا اور پڑھنا چاہتے ہیں تو سورۃ الرعد، سورۃ المومنون، سورۃ الفرقان ، سورۃ الذاریات ، اور سورۃ الطور کی تلاوت کیجیے ۔ آ پ کو اولیا ء اﷲ کی صفات کاعلم ہوجائے گا ۔ یہ اولیا ء اﷲ نہیں ہیں جو جھوٹے دعوے کرتے پھرتے ہیں ۔ اوراﷲ کی ان صفات کے خود مدعی ہیں جو اس نے اپنی ذات کے لئے مخصوص کی ہوئی ہیں ۔ جیسے کبریائی ، عظمت اور علم غیب وغیرہ ۔ ان کا دعوٰے غیب دانی ہی کفر ہے ۔ یہ ولی اﷲ کیسے بن سکتے ہیں ؟ ان جھوٹوں اور افتراپردازشیطانوں کی وجہ سے عوام الناس کی مصیبتوں میں اضافہ ہی ہوا ہے ۔ جو نسلاً بعد نسل اپنے مشرک اباؤ اجداد سے یہ علوم سیکھ رہے ہیں ۔ اور سادہ لوح عوام کے دلوں پر چھائے ہوئے ہیں ۔ ہم سب کو اﷲ تعالیٰ دین حنیف پر ثابت قدم رہنے اور ان باطل امور سے مجتنب رہنے کی توفیق عطافرمائے ۔ آمین ۔
قرآن کریم میں مومنوں کی صفات کا جابجا تذکر ہ موجود ہے ۔ ان میں سے چند صفات یہ ہیں : (۱) ۔ اللہ کے وعدوں کو پورا کرتے ہیں۔ (۲) اپنے عہد و پیمان کو نہیں توڑتے ۔ (۳) صلہ رحمی کرتے ہیں ۔ (۴) اﷲ تعالیٰ سے ڈرتے ہیں۔ (۵) بڑے حساب کے تصور سے کپکپاجاتے ہیں ۔ (۶) اﷲ کی رضا کے لئے صبر کرتے ہیں ۔ (۷) نماز قائم کرتے ہیں ۔ (۸) اپنا مال اﷲ کی راہ میں رات دن خرچ کرتے ہیں ۔ (۹) برائی کا بدلہ بھلائی سے دیتے ہیں ۔ (۱۰) اﷲ کے ذکر سے ان کے دل مطمئن رہتے ہیں ۔ (۱۱) اچھے اچھے اعمال کرتے ہیں۔ (۱۲) زمیں پر آہستہ آہستہ چلتے ہیں ۔ (۱۳) جب جہلا سے ملتے ہیں تو سلام کہہ کر نکل جاتے ہیں ۔ (۱۴) رات کو قیام کرتے ہیں ۔ (۱۵)عذاب دوزخ سے ہمیشہ پناہ مانگتے ہیں ۔ (۱۶) خرچ کرتے ہیں تو اسراف نہیں کرتے ۔ (۱۷) بخیلی سے بھی کام نہیں لیتے ۔ (۱۸) اﷲ کے ساتھ کسی کو نہیں پکارتے ۔ (۱۹) کسی کو ناحق قتل نہیں کرتے ۔ (۲۰) جھوٹ نہیں بولتے ۔ (۲۱) لغویات میں وقت ضائع نہیں کرتے ۔ (۲۲)سحری کا وقت توبہ واستغفار میں گزارتے ہیں ۔ (۲۳) کسی سائل کو محروم نہیں کرتے ۔ (۲۴) زنا نہیں کرتے ۔

ایسی صفات کے حاملین ہی اصل میں اولیاء اﷲ ہیں جن کو کسی قسم کا غم نہ ہوگا ۔
قرآن کریم میں مومنوں کی بیشمار صفات مرقوم ہیں ، بلکہ قرآن کریم کی اکثر آیات ایمان اور اہل ایمان کے بارے میں مذکور ہیں ۔ حقیقت میں یہی لوگ اولیاء اﷲ ہیں ۔ جہالت اور گمراہی نے عوام کے دلوں پر ایسی گرفت کرلی ہے کہ ان لوگوں نے ایسے عظیم اوصاف اور اس بلند مرتبہ کو ، جو صرف اﷲ تعالیٰ کے خاص بندوں کا حصہ ہی ہے ، ایسے افراد میں بھی سمجھ لیا ہے جنہیں پاکیزگی اور گندگی کی بھی تمیز نہیں بلکہ وہ اپنے کپڑوں میں ہی پیشاب کرلیتے ہیں۔ انتہائی گندے اور میلے کچیلے رہتے ہیں ، نہ نماز پڑھتے ہیں نہ کوئی اچھا کام کرتے ہیں ۔ ان سے ہر نعمت چھن چکی ہے ، ان کے اندر اگر کوئی چیز باقی ہے تو وہ صرف حیوانیت ہے ۔
ورواہ الطبرانی فی الاوسط باسناد حسن من حدیث ابن عباس دون قولہٖ ’’وَمَنْ أَتٰی کَا ہِنًا‘‘ قال البغوی أَلْعَرَّافُ الَّذِ یَدَّعِیْ مَعْرِفَۃَ الْاُمُوْرِ بِمُقَدَّمَاتٍ یُّسْتَدَلَّ بَھَا عَلَی الْمَسْرُوْقِ وَمَکَانَ الضَّآ لَّۃِ وَ نَحْوِ ذٰلِکَ وقیل ھُوَ الْکَاھِنُ وَ الْکَاھِنُ ھُوَ الَّذِیْ یُخْبِرُ عَنِ الْمُغِیْبَاتِ فِی الْمُسْتَقْبِلِ وقیل اَلَّذِیْ یُخْبِرُ عَمَّا فِی الضَّمِیْرِ
طبرانی نے اوسط میں سند حسن سے یہی حدیث سیدنا ابن عباس رضی اللہ عنہ سے روایت کی ہے ۔ البتہ اس میں ’’وَمَنْ أَتٰی کَاھِنًا‘‘ سے آگے تک کے الفاظ نہیں ہیں ۔امام بغوی رحمہ اللہ نے عراف کی تشریح میں بیان کیا ہے کہ جو شخص چند باتیں ملا کر مسروقہ چیز اور جائے سرقہ کی نشان دہی کردے اس کو عراف یعنی نجومی کہتے ہیں۔ بعض علماء کا کہنا ہے کہ جو شخص آئندہ آنے والی خبریں بتائے اس کو کاہن کہا جاتا ہے۔ بعض کی رائے یہ ہے کہ جو شخص کسی کے دل کی بات بتائے وہ کاہن ہوتا ہے ۔
وقال ابوالعباس بن تیمیہ اَلْعَرَّافُ إِسْمُ لِّلْکَاھنِ وَالْمُنَجِّمِ وَ الرَّمَّالِ وَ نَحْوِھِمْ مِمَّنْ یَّتَکَلَّمُ فِیْ مَعْرِفَۃِ الْاُمُوْرِ بِھٰذِہِ الطُّرُقِ
شیخ الاسلام امام ابن تیمیہ رحمہ اللہ فرماتے ہیں کہ جو شخص کہانت ، تنجیم اور علم رمل وغیرہ کی مدد سے بعض امور کی اطلاع دے اس کو عراف کہتے ہیں ۔
وقال ابن عباس فِیْ قَوْمٍ یَکْتُبُوْنَ أَبَاجَادٍ وَ یَنْظُرُوْنَ فِیْ النُّجُوُمِ مَآ أَریٰ مَنْ فَعَلَ ذٰلِکَ لَہٗ عِنْدَ اﷲِ مِنْ خَلَاقٍ
سیدنا ابن عباس رضی اللہ عنہ ان لوگوں کے بارے میں جو حروف ابجد وغیرہ لکھ کر حساب کرتے اور نجوم سیکھتے ہیں، فرماتے ہیں کہ جو شخص ایسا عمل کرے اس کا آخرت میں کوئی حصہ اور اجر نہیں ہے ۔

فیہ مسائل
٭ قرآن کریم پر ایمان اور کاہن کی تصدیق ایک دل میں جمع نہیں ہوسکتے ہیں ۔ ٭اس بات کی وضاحت کہ کاہن کی تصدیق کرنا کفر ہے ۔ ٭جس شخص کے لئے کہانت کی گئی ہو، اس کاحکم ۔ ٭جس کی شخص کے لئے فال لی گئی ہو اس کی وضاحت ۔ ٭جس شخص کے لئے جادو کیا گیا ہو اس کا حکم۔ ٭جو شخص حروف ابجد وغیرہ لکھ حساب کرتا ہے اس کے بارے میں حکم ۔ ٭کاہن اور عراف میں جو فرق ہے اس کی وضاحت ۔
 
Top