• الحمدللہ محدث فورم کو نئےسافٹ ویئر زین فورو 2.1.7 پر کامیابی سے منتقل کر لیا گیا ہے۔ شکایات و مسائل درج کروانے کے لئے یہاں کلک کریں۔
  • آئیے! مجلس التحقیق الاسلامی کے زیر اہتمام جاری عظیم الشان دعوتی واصلاحی ویب سائٹس کے ساتھ ماہانہ تعاون کریں اور انٹر نیٹ کے میدان میں اسلام کے عالمگیر پیغام کو عام کرنے میں محدث ٹیم کے دست وبازو بنیں ۔تفصیلات جاننے کے لئے یہاں کلک کریں۔

ھِدایۃ المُستفید اُردُو ترجمہ فتح المجید شرح کتابُ التوحید

محمد نعیم یونس

خاص رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
اپریل 27، 2013
پیغامات
26,582
ری ایکشن اسکور
6,748
پوائنٹ
1,207
جادُو اور جنوں وغیرہ کو نکالنے کے علاج کے متعلق اُمور
باب: ماجآء فی النشرۃ

اس باب میں جادو وغیرہ اور جنوں کو نکالنے کے علاج کے متعلق امور کا ذکر کیا گیا ہے ۔
عن جابر أَنَّ رَسُوْلَ اﷲِ صلی اللہ علیہ وسلم سُئِلَ عَنِ النُّشْرَۃِ فَقَالَ ھِیَ مِنْ عَمَلِ الشَّیْطَانِ ۔
سیدنا جابر رضی اللہ عنہ سے روایت ہے ۔ وہ کہتے ہیں رسول اکر م صلی اللہ علیہ وسلم سے نشرہ کے متعلق پوچھا گیا تو آپ نے فرمایا کہ یہ شیطانی عمل ہے ۔ (رواہ احمد بسند جید ، و ابوداؤد)۔
علامہ ابن جوزی رحمہ اللہ فرماتے ہیں کہ کسی شخص سے جادُو دُور کرنے کو نشرہ کہتے ہیں اور یہ کام وُہی شخص کر سکتا ہے جو جادُو جانتا ہو۔ القاموس میں ہے کہ یہ بضم النون ہے۔ اس سے شیطانی عمل سے ترتیب دیا گیا نشرہ مراد ہے جو اہل جاہلیت کیا کرتے تھے۔
وَقَالَ سُئِلَ أَحْمَدُعَنْھَا فَقَالَ ابْنُ مَسْعُوْدٍ یَکْرَہُ ھٰذَا کُلَّہٗ وفی البخاری عن قتادۃ رضی اللہ عنہ قلت لابن المُسَیِّب رَجُلٌ بِہٖ طِبٌّ أَو یُؤَخَّذُ عَنْ إِمْرَأَتِہٖ أَیُحَلُّ عَنْہُ أَوْ یُنَشَّرُ قَالَ لَا بَأْ سَ بِہٖ إِنَّمَا یُرِیْدُوْنَ بِہِ الْإِ صْلَاحَ فَأَمَّامَا یَنْفَعُ فَلَمْ یُنْھٰی عَنْہُ
امام ابوداؤد رحمہ اللہ کہتے ہیں کہ امام احمد بن حنبل رحمہ اللہ سے نشرہ کے بارے میں سوال کیا گیا تو امام صاحب نے فرمایا کہ سیدنا عبداﷲ بن مسعود رضی اللہ عنہ اس سارے عمل کو مکروہ قرار دیتے تھے ۔ اور صحیح بخاری میں قتادہ رحمہ اللہ سے مروی ہے وہ کہتے ہیں کہ میں نے سعید ابن مسیب (( سے پوچھا کہ اگر کسی شخص پر جادو یا کوئی ایسا ٹوٹکا ہو جس سے وہ اپنی عورت کے پاس نہیں آسکتا ۔ آیا اس کا حل کیا جائے یا نشرہ کریں؟ آپ رحمہ اللہ نے جواب دیا کہ اس میں کوئی حرج نہیں کیونکہ اس سے اصلاح مقصود ہے اور جو چیز فائدہ مند ہو اس کے استعمال کی ممانعت نہیں ۔
یہ سعید ابن المسیّب رضی اللہ عنہ کی رائے ہے جس سے ایسا نشرہ مراد ہے جو جادُو کی اقسام پر مبنی نہ ہو۔
وَرُوی عَنِ الْحَسَن أَنَّہٗ قَالَ لَا یَحُلُّ السِّحْرَ إِلَّا سَاحِرٌ قال ابن القیم أَلنُّشْرَۃُ حَلُّ السِّحْرِ عَنِ الْمَسْحُوْرِ وَھِیَ نَوْعَانِ احدھما حَل بِسِحْرٍ مِّثْلِہٖ وَ ھُوَ الَّذِیْ مِنْ عَمَلِ الشَّیْطٰنِ وَ عَلَیْہِ یُحْمَلُ قَوْلُ الْحَسَنِ فَیَتَقَرَّبُ النَّاشِرُ وَالْمُنْشِرُ إِلَی الشَّیْطٰنِ بِمَا یُحِبُّ فَیُبْطِلُ عَمَلَہٗ عَنِ الْمَسْحُوْرِ والثانی أَلنُّشْرَۃُ بِا لرُّقْیَۃِ وَ التَّعَوُّذَاتِ وَ الْٔأَدْوِیَۃِ وَ الدَّعْوَاتِ الْمُبَاحَۃِ فَھٰذَا جَآئِزٌ
امام حسن بصری رحمہ اللہ سے منقول ہے ۔ انہوں نے فرمایا کہ جادو کو جادوگر ہی دور کر سکتا ہے ۔ علامہ ابن قیم رحمہ اللہ فرماتے ہیں کہ جادو کیے گئے شخص سے جادو کو دور کرنا نشرہ کہلاتا ہے ۔ اس کی دو قسمیں ہیں۔ پہلی یہ ہے کہ جادو کو جادو ہی سے دور کیا جائے ۔ یہ شیطانی عمل ہے جو ناجائز ہے ۔ اس کی صورت یہ ہے کہ جادو دور کرنے والا اور جس پر جادو کا وار کیا گیا ہے ۔ دونوں ایسا فعل کرتے ہیں جس سے شیطان کا قرب حاصل ہوچنانچہ شیطان اپنا اثر دور کردیتا ہے ۔
امام حسن بصری رحمہ اللہ کے مذکورہ بالا قول کو اسی پر محمول کیا جائے گا ۔
نشرہ کی دوسری قسم وہ ہے جو جھاڑ پھونک ، تعوذ ، ادویات اور جائز ادعیہ سے علاج کیا جاتا ہے ۔ یہ جائز ہے ۔
جادُو دُور کرنے کے جواز میں جن احادیث کو پیش کیا گیا ہے وہ مندرجہ ذیل ہیں:
ابن ابی حاتم اور ابوالشیخ، لیث بن ابی سلیم سے روایت کرتے ہیں، لیث بن ابی سلیم کہتے ہیں کہ مجھے یہ نسخہ تیر بہدف ملا ہے کہ مندرجہ ذیل آیات پڑھ کر پانی والے برتن میں پھونک کر مریض کے سر پر ڈال دیا جائے۔ ان شاء اللہ فوراً صحت یاب ہو جائے گا۔ آیات یہ ہیں: سورئہ یونس آیت نمبر ۸۱ تا ۸۲۔ سورئہ اعراف آیت نمبر ۱۱۸ تا ۱۲۱۔ اور سورئہ طہ آیت نمبر ۶۹۔
ابن بطال نے کہا کہ وہب بن منبہ کی کتاب میں ہے کہ ’’بیری کے سات سبز اور تازہ پتے لے کر ان کو دو پتھروں میں پیس کر پانی میں ڈال دو اور اس پانی پر آیۃ الکرسی، چاروں قل پڑھ کر دم کر دو۔ اور پھر بیمار کو تین گھونٹ پلا دو اور باقی پانی سے وہ غسل کر لے۔ یہ نسخہ بیمار کے لئے تیر بہدف ثابت ہو گا، جبکہ جادُو کے ذریعے مرد کو بیوی کی مجامعت سے روک دیا گیا ہو‘‘۔

فیہ مسائل
٭ جادو کا علاج جادو سے کرنے کی ممانعت ۔ ٭ ممنوع علاج اور جس علاج کی رخصت دی گئی ہے اس میں فرق کی وضاحت جس سے شبہات دور ہوجاتے ہیں ۔
 

محمد نعیم یونس

خاص رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
اپریل 27، 2013
پیغامات
26,582
ری ایکشن اسکور
6,748
پوائنٹ
1,207
باب: شگون اور فال کے بارے میں شریعت کے احکام و مسائل
باب :مَا جآ ءَ فِی التَّطَیُّرِ

اس باب میں شگون او رفال کے بارے میں شریعت کے احکام بیان کیے گئے ہیں اور اس کو کسی قطعی فیصلے پر پہنچنے کا ذریعہ قرار دینے سے روکا گیا ہے۔
قال اﷲ تعالیٰ اَلَآاِنَّمَا طٰئِرُھُمْ عِنْدَ اﷲِ وَ ٰلٰکِنَّ اَکْثَرَھُمْ لَا یَعْلَمُوْنَ (الاعراف : ۱۳۱)
در حقیقت ان کی فالِ بد تو اللہ تعالیٰ کے پاس تھی، مگر ان میں سے اکثر بے علم تھے۔
پرندے یا جانور وغیرہ سے فال لینے کو تطیر کہتے ہیں زیر نظر باب میں اس کی ممانعت پر بحث کی گئی ہے۔ مشرکین عرب کی یہ عادت تھی کہ کسی کام کو شروع کرنے سے قبل پرندوں اور حیوانات کے اڑنے اور گزر جانے سے فال لیتے تھے لیکن رسول اﷲ صلی اللہ علیہ وسلم نے مسلمانوں کو اس سے منع فرمایا اور اسے باطل قرار دیا اور امت کو بتا یا کہ یہ حرکت نہ حصول نفع کے لئے مؤثر ثابت ہوسکتی ہے اور نہ دفع ضر کے لئے ۔
تطیر چونکہ ایک شیطانی اور شرکیہ عمل ہے جو توحید کے سراسر خلاف ہے اس لئے مصنف رحمہ اللہ نے اپنی کتاب میں اس کی تردیدفرمائی ہے ۔
قولہ الا انما طآئرھم عند اﷲ
پوری آیت کریمہ یہ ہے : ترجمہ:
’’جب اچھا دور آتا تو کہتے کہ ہم اسی کے مستحق ہیں اور جب برا دور آتا تو موسیٰ اور اس کے ساتھیوں کواپنے لئے فال بد ٹھہراتے حالانکہ در حقیقت ان کی فال بد تو اﷲ کے پاس تھی مگر ان میں اکثر بے علم تھے‘‘۔ (سورۃ الاعراف :۱۳۱) جب فرعون اور اس کی قوم کوصحت وعافیت ، اور کشادگی رزق کی نعمتیں کثرت سے میسر آئیں تو خوشی سے پھولے نہ سمائے اور کہنے لگے کہ ہم ہی اس کے صحیح اور حقیقی حقدار ہیں اور اس کے برعکس جب کبھی مصائب اور قحط سالی وغیرہ کے عذاب میں مبتلا ہوجاتے تو فوراً اپنی اصل بیہودگی پر اتر آتے اور کہتے کہ یہ مصائب و آلام موسیٰ علیہ السلام اور اس کے ماننے والوں کی وجہ سے نازل ہوئے ہیں۔ ان کی اس یاوا گوئی کی تردید اﷲ تعالیٰ نے بیان فرمائی ہے کہ: ’’ کہ یہ مصائب وآلام اور عذاب الٰہی تمہارے ہی کفر ، تکذیب آیات الٰہی اور اس کے رسول کو جھٹلانے کی پاداش میں نازل ہوئے ہیں ۔
قولہ ولکن اکثرھم لا یعلمون
یعنی ان کی اکثریت احمق اور جاہل ہے ، وہ عقل اور غور وفکر سے کام نہیں لیتے ۔ اگر ذرا بھی عقل وخرد سے کام لیں تو ان پر یہ بات عیاں ہوجائے کہ ہمارے پیغمبر موسیٰ علیہ السلام کی ہدایات میں تو سراسر خیر برکت ، سعادت دارین اور کامیابی ہی کامیابی ہے ۔ اور ان انعامات سے وہی شخص بہرہ مند ہوسکتا ہے جو سچے دل سے ایمان لائے اور ہمارے پیغمبر کی اطاعت کرے ۔
بعض اوقات کسی مریض کے پاس کوئی صحت مند شخص چلاجائے تو مشیت ایزدی سے اس مخالطت کی بنا پر صحت مند شخص اس مرض میں مبتلا ہوجاتا ہے ۔ اسی بنا پر رسول اﷲ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا :
’’ مجذوم سے ایسے بھاگو جیسے شیر سے بھاگتے ہو‘‘ ۔
اور ایک دوسرے موقع پر فرمایا کہ :
’’ کسی بیمار کو تندرست کے پاس نہ لے جایا جائے ‘‘ ۔
جہاں طاعون کی وبا پھیلی ہوئی ہو ، اس جگہ کے متعلق فرمایا کہ :
’’ اگر کسی علاقے کے بارے میں پتا چلے کہ وہاں طاعون کی وبا پھیلی ہوئی ہے تو وہاں نہیں جانا چاہیے‘‘ ۔
اس قسم کے تمام امراض ، تقدیر الٰہی سے پہنچتے ہیں فی نفسہ کوئی مرض متعدی نہیں ہے۔ امام احمد اور امام ترمذی، سیدنا ابن مسعود رضی اللہ عنہ سے مرفوعاً روایت کرتے ہیں کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے تین بار فرمایا:
’’کوئی بیماری متعدی نہیں ہے ۔ ایک دیہاتی نے عرض کی کہ یارسول اﷲ صلی اللہ علیہ وسلم خارش کی پھنسی پہلے پہل اونٹ کے ہونٹ یا دم پر ظاہر ہوتی ہے ، پھر اتنا بڑا اونٹ سارے کا سارا خارش کی لپیٹ میں آجاتا ہے ۔ اس پر رسول اﷲ صلی اللہ علیہ وسلم نے بااندازِ سوال فرمایا کہ پہلے اونٹ کو کس نے خارش لگائی ؟ نہ کوئی بیماری متعدی ہے، نہ کوئی بدفالی ہے ، نہ الوکا بولنا ہے اور نہ ماہ صفر کی تبدیلی ہے ۔ اﷲ تعالیٰ نے ہر نفس کو پیدا فرما کر اس کی زندگی ، اس کی مشکلات ، اور اس کا رزق سب کچھ لکھ دیا ہے ‘‘ ۔
مطلب یہ ہے کہ رسول اﷲ صلی اللہ علیہ وسلم نے ایسی وضاحت فرمادی ہے کہ اس قسم کی مصائب ومشکلات صرف اﷲ تعالیٰ کی قضاء قدر سے ظہور پذیر ہوتی ہیں ۔ انسان کو چاہیئے کہ وہ صحت وعافیت کی زندگی بسر کرے اور ان اسباب وعلل سے دامن کشاں رہے جن سے کسی مصیبت میں مبتلا ہونے کا خطرہ ہو ، جیسا کہ اسے حکم ہے کہ خواہ مخواہ آگ اور پانی میں نہ کود جائے ۔ کیونکہ ان کی فطرت اور جبلت میں یہ اثر پایا جاتا ہے کہ وہ انسان کو ہلاک کردیتے ہیں ۔ اسی طرح انسان کو چاہیے کہ مجذوم کے پاس جانے سے پرہیز کرے ۔ اور ایسے شہر میں جانے کی کوشش نہ کرے جہاں طاعون کی وبا پھیلی ہوئی ہو۔ کیونکہ وہاں جانا اپنے آپ کو ہلاکت میں ڈال دینے کے مترادف ہے ۔ اور اس بات کو قطعاً نہ بھولے کہ تمام اسباب کا پیدا کرنے والا اﷲ تعالیٰ ہے ۔ کسی دوسرے کی کوئی مجال اور طاقت نہیں کہ وہ کسی سبب کو سود مند یا ضرررساں بنادے ۔
ہاں! البتہ جب توکل علی اللہ اور قضا و قدر پر ایمان مضبوط تر ہو جائے، اس قسم کے مریضوں کے پاس جانے میں انسان کے لرزش نہ پیدا ہو، اللہ تعالیٰ پر اعتماد و یقین کمال کی حد تک پہنچا ہوا ہو اور اس کے قلب میں یہ بات راسخ ہو چکی ہو کہ اللہ کی مرضی اور مشیت کے بغیر کچھ نہیں ہو سکتا، تو اس صورت میں بعض اوقات انسان اسباب پر حاوی ہو جاتا ہے اور خصوصاً جب کوئی خاص یا عام مصلحت ہو تو انسان کو ضرور جانا چاہیئے۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے اس عمل کو بھی اسی پر محمول کیا جائے گا جس میں آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے ایک مجذوم کو پکڑا اور اپنے ساتھ کھانا کھانے کی دعوت دیتے ہوئے فرمایا کہ:
ترجمہ: ’’اللہ تعالیٰ کا نام لے کر اور اس پر بھروسہ اور توکل کر کے کھانا شروع کرو‘‘۔
امام احمدرحمہ اللہ نے اس کو روایت کیا ہے اور یہ حدیث عبداللہ بن عمر اور سلمان فارسی سے بھی مروی ہے سیدنا خالد بن ولید رضی اللہ عنہ کے واقعے سے اس کی مزید تائید ہوتی ہے جبکہ آپ رضی اللہ عنہ نے زہر ہلاہل کے جام کو بسم اللہ پڑھ کر پی لیا اور اس زہر نے رتی بھر بھی تکلیف نہ پہنچائی۔ سیدنا سعد بن ابی وقاص اور ابومسلم الخولانی رضی اللہ عنہما کو دیکھئے کہ وہ اپنی فوج سمیت سمندر کی سطح پر ایسے چلے جا رہے تھے جیسے خشکی پر محو سفر ہوں۔
صحیح مسلم میں ایک روایت ہے کہ سیدنا معاویہ رضی اللہ عنہ بن الحکم نے ایک دفعہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے کہا کہ ہم میں چند افراد ایسے بھی ہیں جو فالِ بد لیتے ہیں، تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا:
(ترجمہ) ’’یہ ویسے ہی اپنے دل میں وسوسہ اور وہم پاتے ہیں، اس کی وجہ سے وہ اپنے کام سے نہ رُکیں‘‘۔
رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے اس کی وضاحت فرمائی کہ ہے کہ اس قسم کا تشاؤم اور فالِ بد لینا انسان کے عقیدہ سے تعلق رکھتا ہے۔ فی نفسہٖ کسی پرندے وغیرہ کے اُڑانے میں تطیر نہیں ہے کیونکہ انسان کا وہم، خوف کھانا اور اُس کا شرک میں مبتلا ہو جانا اس کے دیکھنے اور سننے سے تعلق رکھتا ہے۔ اسی وجہ سے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنی اُمت کو اس امر کی پوری تفصیل سے آگاہ فرمایا اور اس قسم کے تطیر وغیرہ نقصانات اور فساد فی الدین کی وضاحت بیان فرمائی تاکہ لوگوں کو پتہ چل جائے کہ اللہ تعالیٰ نے اس کی کوئی علامت نہیں بیان کی اور نہ اس قسم کے خوف و ہراس کی کوئی وجہ جواز ہے تاکہ لوگوں کے دِل مطمئن رہیں ان میں اللہ تعالیٰ کی وحدانیت راسخ ہو جائے اور رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی تعلیمات ان کے سینوں میں مستحکم اور مضبوط تر ہو جائیں۔ یہی وہ مقصودِ اعظم ہے جس کی وضاحت کے لئے اللہ تعالیٰ نے انبیاء کی بعثت کا سلسلہ شروع کیا، اور اپنی مخلوق کی ہدایت کے لئے کتابیں بھی نازل فرمائیں، اسی مقصد توحید کی خاطر زمین و آسمان کی تخلیق کی، جنت اور دوزخ کے لئے توحید کو میزان قرار دیا اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے لوگوں کے دلوں سے شرک و بدعت کی جڑوں کو کاٹا تاکہ لوگ اہل جہنم کے سے عمل سے دامن کشاں رہیں۔
پس جو شخص توحید کی مضبوط رسی کو تھام لے، اور اللہ تعالیٰ پر توکل اور یقین کو پختہ کر لے تو طیرہ وغیرہ کے دل میں جاگزین ہونے سے پہلے ہی اسکی جڑیں کٹ جائیں گی اور اس کے تمام تخیلات باطلہ ختم ہو جائیں گے۔
سیدنا عکرمہ رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ ہم سیدنا ابن عباس رضی اللہ عنہ کے پاس بیٹھے باتیں کر رہے تھے کہ ہمارے اوپر سے ایک پرندہ چیختا ہوا گزر گیا۔ ایک آدمی کہنے لگا ’’بھلائی ہے بھلائی ہے‘‘۔ سیدنا ابن عباس رضی اللہ عنہ نے اس شخص سے کہا کہ ’’دیکھو! اس میں خیر ہے نہ شر ہے‘‘۔ سیدنا ابن عباس رضی اللہ عنہ نے سنتے ہی اس کی تردید اور ممانعت فرمائی کہ کہیں اس کے دِل میں خیر و شر کی تاثیر کا عقیدہ نہ پیدا ہو جائے۔
چند احادیث اس قسم کی موجود ہیں جن سے بعض علماء نے فال لینے کا جواز پیش کیا ہے، ان میں سے ایک حدیث یہ ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:
(ترجمہ) ’’تین چیزوں میں نحوست ہے، ۱۔ عورت، ۲۔گھوڑے، اور ۳۔مکان میں‘‘۔ امام ابن قیم رحمہ اللہ نے اس کا بہترین جواب دیا ہے، فرماتے ہیں: ’’
رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے مندرجہ بالا ارشاد گرامی میں شوم وغیرہ کے اثبات کی کوئی دلیل نظر نہیں آتی۔ حدیث کا صحیح مفہوم یہ ہے کہ اللہ تعالیٰ بعض اشیاء کو منحوس اور بعض کو مبارک پیدا کرتا ہے۔ منحوس کے پاس جانے سے نحوست پیدا ہو جاتی ہے اور مبارک اجسام والے افراد سے خیر و برکت کے چشمے پھوٹتے ہیں۔ جیسے کسی کے ہاں صالح لڑکا پیدا ہو تو گھر میں چار چاند لگ جاتے ہیں، اور اگر منحوس لڑکا ہو تو اس کے شر سے سارا گھرانا برباد ہو کر رہ جاتا ہے۔ لہٰذا اس حدیث میں عورت، گھر اور گھوڑے کی بھی یہی صورت ہے کسی کو نیک بخت، منحوس اور صاحب ِ خیر پیدا کرنا اللہ تعالیٰ ہی کے قبضہ و اختیار میں ہے۔ دونوں صورتوں میں فقط اللہ تعالیٰ کی قضا و قدر کو دخل ہے، اللہ تعالیٰ مختلف اسباب و نتائج پیدا کرتا ہے جیسے کستوری سے خوشبو آئے گی جس سے انسان محظوظ ہوتا ہے اور لذت حاصل کرتا ہے اور گندگی سے بدبو آئے گی جس سے ہر انسان نفرت کرتا ہے۔ ان دونوںقسموں میں فرق واضح ہے۔ یہی صورت مذکورہ حدیث کی۔ پس مبارک و منحوس اشیاء اور تطیر میں فرق ہے، وہ ایک قسم ہے، اور یہ دوسری قسم‘‘۔
ولھما عن انس قَالَ قَالَ رَسُوْلُ اﷲِ صلی اللہ علیہ وسلم لَا عَدْوٰی وَ لَا طِیَرَۃَ وَ یُعْجِبُنِی الْفَالُ قَالُوْا وَ مَا الْفَالُ قَالَ اَلْکَلِمَۃُ الطَّیِّبَۃُ
ترجمہ: صحیحین میں سیدنا انس رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ رسول اﷲ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ کوئی بیماری متعدی نہیں ہے اور نہ فال بد کوئی چیز ہے اور مجھے فال پسند ہے ۔ صحابہ کرام رضی اللہ عنہم نے عرض کی کہ فال کیا ہے ؟ تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ اچھی بات کو فال کہتے ہیں ۔
ابو السعادات رحمہ اللہ فرماتے ہیں کہ ’’فال خوشی، اور تکلیف دونوں حالتوں پر بولا جاتا ہے۔ البتہ طیرۃ تکلیف دہ حالت کے لئے خاص ہے۔ بعض اوقات خوشی کی حالت پر بھی اس کا اطلاق ہوتا ہے۔ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فال کو اس لئے پسند فرمایا ہے کہ جب لوگ اللہ کی طرف سے کسی فائدہ کی اُمید کریں گے اور کسی اچھے نتیجے کی توقع رکھیں گے تو ان کے حصول کے لئے خواہ سبب ہلکا پھلکا ہو یا بہت بڑا دونوں صورتوں میں خیر ہی ہو گی۔ اور اگر وہ اللہ تعالیٰ سے اپنی اُمیدیں اور آرزوئیں ختم کر لیں گے تو سوائے مصائب کے کچھ حاصل نہ ہو گا۔ لیکن تطیر میں اللہ تعالیٰ کی ذات سے بدگمانی اور مصائب کی توقع کے سوا اور کچھ نہیں ہوتا۔ تفاؤل کی صورت یہ ہے کہ جب مریض کسی کو یہ کہتا ہوا سنے کہ یا سالم! تو مریض کے دل میں فوراً یہ خیال پیدا ہوتا ہے کہ اب میں بہت جلد صحت یاب ہو جاؤں گا۔ یا کوئی شخص اپنی کسی گم شدہ چیز کو تلاش کر رہا ہو اور وہ کسی کو یہ کہتا ہوا سنے کہ یا واجد! تو اس کے دل میں یہ خیال پیدا ہو گا کہ میری چیز مجھے ضرور مل جائے گی۔ مندرجہ ذیل حدیث اس کی تائید کرتی ہے:
رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے پوچھا گیا کہ فال کیا ہے؟ تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ اچھی بات کو فال کہتے ہیں‘‘۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے اس کی وضاحت فرمائی ہے کہ مجھے فال بہت اچھی لگتی ہے جس سے ثابت ہوا کہ فال اور چیز ہے اور طیرہ جس کی ممانعت کی گئی ہے، اور چیز ہے۔ علامہ ابن قیم رحمہ اللہ فرماتے ہیں کہ: ’’فال کو پسند کرنے یا اس سے خوش ہونے میں شرک کی کوئی وجہ نظر نہیں آتی، بلکہ یہ انسانی فطرت اور طبیعت کے عین مطابق ہے کیونکہ فطرف انسانی ہر اُس چیز کو اچھا سمجھتی ہے جو اس کے ذوق کے مطابق ہو، جیسا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے مروی ہے کہ ’’آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو دنیا میں دو چیزیں پسند ہیں، ایک خوشبو اور دوسری عورت‘‘۔ ایک روایت میں ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم میٹھی چیز اور شہد کو محبوب گردانتے تھے۔ اسی طرح آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو اچھی آواز سے اذان اور تلاوتِ قرآنِ کریم کو سننا بہت محبوب تھا۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم اچھے اخلاق اور عمدہ خصلتوں اور عادتوں کو بہت پسند فرماتے تھے۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ہر اچھی چیز کو، اور جو اُس کے حصول کا ذریعہ اور وسیلہ ہو اُسے پسند فرماتے کیونکہ اللہ تعالیٰ نے انسان کی طبیعت اور فطرت میں یہ صفت ودیعت فرما دی ہے کہ وہ ہر اچھے نام کو چاہتا اور اُس سے محبت کا خواہاں ہے جس کی وجہ سے انسان طبعی طور پر ان کی طرف میلان رکھتا ہے جیسے انسان کی طبیعت ہے، اسی طرح ان اشیاء کے ناموں میں بھی یہ تاثیر رکھ دی ہے جس سے انسان ان کا نام سنتے ہی خوشی اور مسرت محسوس کرنے لگتا ہے جیسے کامیابی و کامرانی، تندرستی اور سرخروئی اور مبارکبادی وغیرہ الفاظ سنتے ہی انسان کی طبیعت کھلکھلا اٹھتی ہے، دل مضبوط ہو جاتا ہے اور سینہ کھل جاتا ہے اور انسان کا جسم ایک تازگی محسوس کرنے لگتا ہے۔لیکن مذکورہ اوصاف کے خلاف اگر کوئی چیز انسان کے کان میں پڑے تو غم اور خوف کے آثار دکھائی دیتے ہیں، اور انسان کا جسم ایک گھٹن سی محسوس کرتا ہے جس کا لازمی نتیجہ یہ نکلتا ہے کہ یہ چیز دنیا میں مصائب و مشکلات کا پیش خیمہ بنتی ہے اور قوتِ ایمانی میں نقص اور کمی واقع ہو جاتی ہے، بعض اوقات تو یہ چیز انسان کے شرک میں مبتلا ہو جانے کا ذریعہ بھی بن جاتی ہے‘‘۔
حلیمی رحمہ اللہ فرماتے ہیں کہ
’’رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فال کو اس لئے پسند فرمایا کہ نحوست بری چیز تھی، جس سے انسان اللہ تعالیٰ کے متعلق بغیر کسی سبب کے بدگمانی میں مبتلا ہو جاتا ہے۔ البتہ فال سے حسن ظن پیدا ہوتا ہے اور اس لئے بھی کہ انسان کو حکم دیا گیا ہے کہ وہ ہر حال میں اللہ تعالیٰ کے متعلق حسن ظن رکھے‘‘۔
ولابی داوٗد بسند صحیح عن عقبۃ بن عامر قال ذُکِرَتِ الطِّیَرَۃُ عِنْدَ رَسُوْلِ اﷲِ صلی اللہ علیہ وسلم فَقَالَ أَحْسَنُھَا الْفَآلُ وَ لَا تَرُدُّ مُسْلِمًا فَاِذَا رَاٰی أَحَدُکُمْ مَا یَکْرَہُ فَلْیَقُلْ اَللّٰھُمَّ لَا یَاْتِیْ بِالْحَسَنٰتِ اِلَّا أَنْتَ وَ لَا یَدْفَعُ السَّیِّأٰتِ إِلَّا أَنْتَ وَ لَا حَوْلَ وَ لَا قُوَّۃَ إِلَّا بِکَ
سنن ابوداؤد میں صحیح سند سے سیدنا عقبہ بن عامر رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ ایک دفعہ رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس فال بد کا تذکرہ ہوا تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ اس سے فال بہتر ہے ۔ اور یہ کسی مسلمان کو کسی مقصد سے باز نہیں رکھتی ۔ تم میں سے کوئی شخص ناپسند چیز دیکھے تو یہ دعاء کرے۔ ’’ اے اﷲ ، تیرے سوا کوئی بھلائی نہیں لاتا اور تیرے سوا کوئی برائی دور نہیں کرسکتا ۔ اور تیری مدد کے بغیر ہمیں نہ بھلائی کی طاقت ، نہ برائی سے بچنے کی ہمت ہے ۔
قرآن کریم میں ہے:
(ترجمہ) ’’اگر انہیں کوئی فائدہ پہنچتا ہے تو کہتے ہیں یہ اللہ کی طرف سے ہے اور اگر کوئی نقصان پہنچتا ہے تو کہتے ہیں یہ تمہاری بدولت ہے۔ کہو سب کچھ اللہ ہی کی طرف سے ہے۔ آخر ان لوگوں کو کیا ہو گیا ہے کہ کوئی بات ان کی سمجھ میں نہیں آتی، اے انسان! تجھے جو بھلائی بھی حاصل ہوتی ہے اللہ کی عنایت سے ہوتی ہے اور جو مصیبت تجھ پر آتی ہے وہ تیرے اپنے کسب و عمل کی بدولت ہے۔
وعن ابن مسعود مرفوعًا اَلطِّیَرَۃُ شِرْکٌ الطِّیَرَۃُ شِرْکٌ وَمَا مِنَّا إِلَّا وَ لٰکِنَّ اﷲَ یُذْھِبُہٗ بِالتَّوَکُّلِ رواہ ابوداؤد ، والترمذی وصحہ وَجَعَلَ أٰخِرَہٗ مِنْ قَوْلِ ابْنِ مَسْعُوْدٍ
عبداللہ ابن مسعود رضی اللہ عنہ سے مرفوعًا روایت ہے کہ
رسولِ اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے بدفالی لینے کو دوبار شرک سے تعبیر فرمایا ۔ اور ہم میں کوئی ایسا شخص نہیں جسے باتقاضائے بشریت ایسا وہم نہ گزرتا ہو مگر اللہ تعالیٰ توکل کی وجہ سے اس کو دفع کرتا ہے۔
اسے ابوداؤد اور ترمذی نے روایت کرکے صحیح کہا اور آخری جملہ یعنی ’’وَمَا مِنَّا إِلَّا وَ لٰکِنَّ اﷲَ یُذْھِبُہٗ بِالتَّوَکُّلِ‘‘ کو ابن مسعود رضی اللہ عنہ کا قول قرار دیا ہے۔
وَ لِاَحْمَدَ مِنْ حَدِیْثِ ابْنِ عَمْرٍ و مَنْ رَدَّتْہُ الطِّیَرَۃُ عَنْ حَاجَتِہٖ فَقَدْ أَشْرَکَ قَالُوْا فَمَا کَفَّارَۃُ ذٰلِکَ قَالَ أَنْ تَقُوْلَ اَللّٰھُمَّ لَا خَیْرَ إِلَّا خَیْرُکَ وَ لَا طَیْرَ إِلَّا طَیْرُکَ وَ لَآ إِلٰہَ غَیْرُکَ
ترجمہ : مسند احمد میں عبداللہ بن عمرو رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ
آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ جس شخص کو فالِ بد اپنے کام سے روک دے اس نے شرک کیا صحابہ رضوان اللہ علیہم اجمعین نے عرض کی کہ اس کا کفارہ کیا ہے ؟آپ صلی اللہ علیہ وسلم فرمایا اس کا کفارہ یہ ہے کہ تم کہو: ’’اے اللہ ،تیری بھلائی کے سوا کوئی بھلائی نہیں اور تیرے پرند کے سوا کوئی پرند نہیں اور تیرے سوا کوئی معبود نہیں ۔
کسی چیز کو دیکھ کر یا سن کر اس کو منحوس سمجھتے ہوئے اپنے کام یا سفر سے رُک جانا شرک ہے لہٰذا جو شخص ایسا خلافِ شریعت عمل کرے گا وہ مشرک ہو گا۔ اور اس لحاظ سے کہ ایسے شخص نے اللہ تعالیٰ پر توکل اور اعتماد نہیں کیا بلکہ غیر اللہ پر اعتماد کر لیا ہے اس لئے اس کے اس فعل میں شیطان کا عمل دخل اور اس کا حصہ پایا جائے گا۔

ولہ من حدیث الفضل ابن عباس إِنَّمَا الطَِّیَرَۃُ مَا اَمْضَاکَ اَوْ رَدَّکَ
مسند احمد میں سیدنا فضل بن عباس رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ فالِ بد یہ ہے کہ وہ تجھے کسی کام میں لگا دے یا روک دے۔
جب کوئی شخص تطیر کے بعد اس کے مطابق عمل کرے یعنی یا تو اپنے کام سے رُک جائے یا اُس پر عمل شروع کر دے، تو یہی وہ حد فاصل ہے جسکی رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ممانعت فرمائی ہے، کیونکہ انسان تطیر پر اعتماد اور بھروسہ کر لیتا ہے۔ اور وہ فال جس کو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے پسند فرمایا ہے اس میں اعتماد صرف اللہ تعالیٰ پر ہی ہوتا ہے۔ اس میں صرف خوشی اور مسرت کا پہلو نمایاں ہوتا ہے اور بس۔ اس امتیازی فرق کو بالکل نہ بھولنا چاہیئے۔

فیہ مسائل
٭ اللہ تعالیٰ کے قول۔ ٭مرض کے متعدی ہونے کی نفی ۔ ٭فالِ بد کی نفی ۔ ٭اُلو سے فالِ بد کی ممانعت ۔ ٭صفر کے عقیدہ کی تردید ۔ ٭فال کی ممانعت نہیں بلکہ یہ مستحب ہے۔ ٭فال پر مفصل بحث اور اس کے تمام پہلوؤں کی وضاحت ۔ ٭اگر فال بد کے وساوس دل میں پیدا ہوجائیں اور انسان ان کو ناپسند کرے تو یہ تکلیف دہ نہیں ہوتے بلکہ اﷲ تعالیٰ پر توکل اور اعتماد کی وجہ سے یہ وساوس ختم ہوجاتے ہیں ۔ ٭جس شخص کے دل میں اس قسم کے وساوس پیدا ہوجائیں ان کو رفع کرنے کی دعاء۔ ٭فال بد کے شرک ہونے کی تصریح ۔ ٭قابل مذمت تطیر سے پردہ اٹھاگیا ہے اور پوری تفصیل سے اس نشاندہی کی گئی ہے۔
 

محمد نعیم یونس

خاص رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
اپریل 27، 2013
پیغامات
26,582
ری ایکشن اسکور
6,748
پوائنٹ
1,207
علم نجوم کے بارے میں شرعی احکام۔
باب:ماجاء فِی التَّنْجِیْمِ

اس باب میں علم نجوم کے بارے میں شرعی احکام کی وضاحت کی گئی ہے ۔
قال البخاری فی صحیحہ قال قتادہ خَلَقَ اﷲُ ھٰذِہِ النُّجُوْمَ لِثَلَاثٍ زِیْنَۃً لِّلسَّمَآءِ وَرُجُوْمًا لِّلشَّیٰطِیْنِ وَ عَلَامَاتٍ یُّھْتَدٰی بِھَا فَمَنْ تَأَوَّلَ فِیْھَا غَیْرَ ذٰلِکَ أَخْطَأَ وَ أَضَاعَ نَصِیْبَہٗ وَ کَلَّفَ مَا لَا عِلْمَ لَہٗ بِہٖ انتھی
امام بخاری رحمہ اللہ اپنی صحیح بخاری میں فرماتے ہیں کہ قتادۃ رحمہ اللہ نے فرمایا کہ اﷲ تعالیٰ نے ان ستاروں کو تین چیزوں کے لئے پیدا فرمایا ہے۔ (۱)۔ آسمان کی زینت کیلئے۔ (۲) ۔ شیاطین کو مارنے کیلئے ۔ (۳)۔ اور برو بحر میں راستے معلوم کرنے کے لئے ۔ جو شخص اس کے علاوہ کوئی اور مطلب لیتا ہے وہ خطاکار ہے ۔ اس نے اپنا حصہ شرعی ضائع کردیا اور خود کو اس تکلف میں ڈال دیا ، جس کا کوئی علم نہیں ۔
شیخ الاسلام امام ابن تیمیہ رحمہ اللہ فرماتے ہیں:
’’آسمانی سیاروں کی رفتار سے زمین کے حادثات و واقعات کی کھوج لگانے کو تنجیم کہتے ہیں‘‘۔
الخطابی رحمہ اللہ فرماتے ہیں کہ
’’وہ علم نجوم جس کی کتاب و سنت میں ممانعت کی گئی ہے، وہ یہ ہے کہ نجومیوں کا یہ دعویٰ کرنا کہ آنے والے فلاں دن یا فلاںمہینے میں یہ حادثہ رُونما ہو گا۔ یا اس قسم کی ہوا چلے گی، یا فلاں وقت بارش ہو گی یا فلاں چیز مہنگی ہو جائے گی، فلاں سستی ہوگی وغیرہ وغیرہ۔ اس قسم کی پیشن گوئی سے یہ استدلال کیا جاتا ہے کہ فلاں ستارہ جب فلاں برج میں داخل ہوتا ہے یا فلاں فلاں ستارے جب جمع یا الگ ہو جاتے ہیں تو اِن کی وجہ سے زمین پر اس قسم کے انقلابات و تغیرات ظہور پذیر ہوتے ہیں۔ نجومیوں کا یہ دعویٰ حقیقت میںعلم غیب کا دعویٰ ہے جو اللہ تعالیٰ کی ذات کیلئے مخصوص ہے‘‘۔
ایک دوسری روایت میں ہے، قتادہ رحمہ اللہ فرماتے ہیں:
ستاروں میں اللہ کریم نے تین فائدہ رکھے ہیں: ۱۔ آسمان کی زینت ہیں۔ ۲۔مسافروں کے لئے نشانِ راہ ہیں۔ ۳۔ اور شیاطین کے لئے شعلوں کا کام دیتے ہیں جو شخص ان کے علاوہ کچھ اور سمجھے تو اس نے اپنی رائے سے کام لیا جس میں خطا کھائی، اپنا دینی حصہ ضائع کر بیٹھا اور بلا علم تکلف سے کام لیا اور بعض جاہل جو اللہ کے اوامر کو نہیں جانتے انہوں نے ان ستاروں کے متعلق کاہنوں کی سی نئی نئی باتیں بنائیں جیسے یہ کہ جو شخص ان ان ستاروں کی گردش میں شادی کرے گا اس کا سفر یوں ختم ہو گا وغیرہ وغیرہ۔ کوئی بھی ستارہ ہو اس میں سرخ بھی پیدا ہوتے ہیں اور سیاہ بھی، لمبے اور چھوٹے بھی، خوبصورت اور بدصورت بھی، ان ستاروں اور چارپایوں اور پرندوں کو علم غیب کی چیزوں کا کیا علم ہو سکتا ہے۔ اگر اللہ کے سوا کسی کو غیب کا علم ہوتا تو اس کے سب سے زیادہ حقدار سیدنا آدم علیہ السلام تھے جن کو اللہ کریم نے اپنے ہاتھ سے پیدا فرمایا، اپنے فرشتوں سے سجدہ کروایا اور ہر چیز کے نام بتائے‘‘۔
غور فرمائیے، تابعین کرام کے دور میں جو منکرات و بدعات پیدا ہو گئی تھیں ان کی تردید کس انداز سے امام موصوف نے کی ہے۔ حقیقت یہ ہے کہ امام صاحب نے تردید کا حق ادا کر دیا ہے۔ مبتدعین کی بیہودگیاں ہر زمانے میں اور خصوصاً تابعین کے بعد سے آج تک بڑھتی ہی چلی گئی ہیں، جنہوں نے پوری دنیا کو اپنی لپیٹ میں لے لیا ہے، اس فرق کے ساتھ کہ بعض مقامات میں کم ہیں اور بعض مقامات میں زیادہ۔ جو اللہ کا بندہ لوگوں کو ان سے روکتا ہے اور صحیح راستے کی نشان دہی کرتا ہے اس پر مصیبتوں کے پہاڑ ٹوٹ پڑتے ہیں۔
اللہ تعالیٰ فرماتا ہے:
(ترجمہ) ’’ہم نے آسمان دنیا کو عظیم الشان چراغوں سے آراستہ کیا ہے اور انہیں شیاطین کو مار بھگانے کا ذریعہ بنا دیا ہے‘‘۔ (الملک:۵) ایک مقام پر یوں ارشاد فرمایا گیا ہے کہ: (ترجمہ) ’’اس نے زمین میں راستہ بتانے والی علامتیں رکھ دیں اور تاروں سے بھی لوگ ہدایت پاتے ہیں‘‘۔ (النحل:۱۶)۔
قتادہ رحمہ اللہ کے زیر نظر اثر میں اس بات کی طرف اشارہ ہے کہ ستارے آسمانِ دنیا میں ہیں جیسا کہ ابن مردویہ نے سیدنا ابن مسعود رضی اللہ عنہ سے ایک روایت نقل کی ہے جس میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا ہے کہ:
’’آسمانِ دنیا کو اللہ تعالیٰ نے دھوئیں سے پیدا کیا اور اس میں سورج اور چاند کو روشن کیا اور اسے ستاروں سے مزین فرمایا جس سے شیاطین کو شعلے پڑتے ہیں اور شیاطین سے حفاظت ہوتی ہے‘‘۔
یعنی ان ستاروں سے سمندروں اور جنگلوں میں مشرق و مغرب، اور جنوب و شمال کی جہت کا پتہ لگایا جاتا ہے جس سے مسافر اپنی منزل کی طرف رواں دواں رہتے ہیں۔ قرآن کریم میں اللہ تعالیٰ ارشاد فرماتا ہے:
(ترجمہ) ’’اللہ تعالیٰ وہ ذاتِ کبریا ہے جس نے تمہارے فائدہ کے لئے ستاروں کو پیدا کیا تاکہ تم اِن سے خشکی اور سمندر کی تاریکیوں میں راستہ معلوم کر سکو‘‘۔ یعنی ان سے اپنی منزل مقصود کا تعین کر لیتے ہو۔ (سورۃ الانعام:۹۷)۔
اس آیت سے یہ ہرگز معلوم نہیں ہوتا کہ تم غیب کی باتیں معلوم کر لیتے ہو جیسا کہ نجومیوں کا دعویٰ ہے۔ اس کی تردید اس سے پہلے بتفصیل گذر چکی ہے۔ نجومیوں کے اس قول کی کوئی حقیقت نہیں ہے جیسا کہ جناب قتادہ رحمہ اللہ فرماتے ہیں کہ
’’جو تین فوائد اللہ تعالیٰ نے اپنے کلام میں بیان فرما دیئے ہیں، ان کے علاوہ اگر کوئی شخص اور مطلب نکالے گا تو وہ خطاکار ہو گا اور خیر کثیر سے محروم ہو جائے گا۔ کیونکہ اس نے اپنے آپ کو ایسے کام میں مشغول اور مصروف کر لیا ہے جو سراسر نقصان دے ہے اور فائدہ سے یکسر خالی‘‘۔
سوال: نجومیوں کی بعض باتیں درست ثابت ہوتی ہیں، اس کی کیا وجہ ہے؟
جواب: نجومیوں کی بعض باتوں کی حیثیت وہی ہے جو کاہنوں کی ہے یہ ایک بات درست کہتے ہیں اور سو جھوٹ بولتے ہیں۔ ان کی درست بات کا مطلب یہ ہرگز نہیں ہوتا کہ وہ بربنائے علم درست ہے بلکہ وہ اتفاقاً درست ثابت ہو جاتی ہے اس میں نجومی کا کمال نہیں ہے۔ پس جو شخص ان کو سچا سمجھتا ہے وہ آزمائش اور فتنے میں مبتلا ہو جاتا ہے۔ سیدنا ابن عباس رضی اللہ عنہ قرآن کریم کی مندرجہ ذیل آیت
(ترجمہ) ’’اس نے زمین میں پہاڑوں کی میخیں گاڑ دیں تاکہ زمین تم کو لے کر ڈھلک نہ جائے، اس نے دریا جاری کئے اور قدرتی راستے بنائے تاکہ تم ہدایت پاؤ اس نے زمین میں راستہ بتانے والی علامتیں رکھ دیں‘‘
کے متعلق فرماتے ہیں کہ علامات کا لفظ پہلے کلام پر معطوف ہے۔ وہ کلام جس کو زمین کے متعلق بیان کیا ہے پھر زیادہ وضاحت کی اور آسمان کے بارے میں الگ فرمایاکہ ’’وَبِالنَّجْمِ ھُمْ یَھْتَدُوْنَ‘‘ (یعنی وہ ستاروں سے راستے تلاش کر لیتے ہیں)۔
علم نجوم اور نجومیوں کی تردید اور اُ ن کے بطلان میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے بہت سے ارشادات موجود ہیں جیسے:
’’جو شخص علم نجوم کا کچھ حصہ سیکھ لیتا ہے گویا اُس نے جادُو کا ایک حصہ سیکھ لیا، جتنا زیادہ سیکھ لے گا اتنا ہی بڑا جادوگر ہو گا‘‘۔ (ابوداؤد، ابن ماجہ، مسند احمد)۔
اسی طرح رجاء بن حیوۃ رحمہ اللہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:
’’میں اپنی اُمت سے مندرجہ ذیل اُمور کے بارے میں شدید خطرہ محسوس کرتا ہوں:
ا۔نجوم کی تصدیق سے۔
۲۔قضاء و قدر کی تکذیب سے اور
۳۔ حکام و آئمہ کے ظلم سے‘‘۔ (رواہ عبد بن حمید)۔
ابو محجن رضی اللہ عنہ سے مرفوعاً روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:
’’میں اپنی اُمت کے بارے میں تین چیزوں سے خطرہ محسوس کر رہا ہوں:
۱۔ حکام و آئمہ کا ظلم۔
۲۔ نجوم پر ایمان۔ اور۔
۳۔ قضاء و قدر کی تکذیب۔ (رواہ ابن عساکر و حسنہ السیوطی)۔
سیدنا انس رضی اللہ عنہ سے مرفوعاً روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ’
’مجھے اپنے بعد اُمت کے بارے میں دو چیزوں کا خطرہ ہے:
۱۔ قضاء و قدر کی تکذیب اور
۲۔ نجوم پر ایمان کا‘‘۔ (مسند ابو یعلی، کامل ابن عدی و کتاب النجوم للخطیب و حسنہ للسیوطی)
علم نجوم کی تردید میں متعدد احادیث ذکر کی گئی ہیں اور اس سے محفوظ رہنے کے لئے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے وعیدی ارشادات ایک مسلمان کے لئے کافی و وافی ہیں۔
وہ علم نجوم جس سے تجربہ اور مشاہدہ کے بعد زوالِ شمس، اور جہت ِ قبلہ وغیرہ معلوم کی جاتی ہے اُس کا حاصل کرنا ممنوع نہیں کیونکہ یہ اس سے زیادہ نہیں کہ اس سے پتا چل جاتا ہے کہ جب تک سایہ کم ہوتا رہے گا تو سورج مشرقی کنارہ سے وسط آسمان کی طرف بڑھتا جائے گا اور جب سایہ زیادہ ہونے لگے گا تو وسط آسمان سے سورج مغربی کنارہ کی طرف گرنا شروع ہو جائے گا اور یہ ایک صحیح علم ہے جس کا ادراک مشاہدہ سے ہوتا ہے۔ البتہ اتنی بات ضرور ہے کہ اس فن کے جاننے والوں نے ایسے آلات ایجاد کر لئے ہیں جن کی وجہ سے آدمی سورج کی رفتار کا ہر وقت معائنہ کرنے کا محتاج نہیں رہا (مثلاً گھڑیاں وغیرہ)۔ اور جو ستاروں سے جہت قبلہ پر استدلال کیا جاتا ہے تو وہ ایسے ستارے ہیں جن کے مطالعہ سے ایسے اہل علم ائمہ نے قوانین وضع کئے ہیں جن کے دینی شغف اور معرفت اسلام میں ہمیں کوئی شک نہیں ہے اور ہم ان کو اس معاملہ میں سچا سمجھتے ہیں۔ مثلاً کبھی ان ستاروں کو کعبہ میں کھڑے ہو کر مشاہدہ کیا اور کبھی کعبہ سے باہر تو ان کا ادراک ایک مشاہدہ کی خبر ہے اور ہمارا ادراک یہ ہے کہ ہم ان کی خبر کو قبول کرتے ہیں کیونکہ وہ دینی لحاظ سے ہمارے نزدیک مشکوک نہیں ہیں اور نہ وہ اپنی معرفت میں کوتاہی کرنے والے تھے‘‘۔
ابن المنذر مجاہد رحمہ اللہ سے نقل کرتے ہیں کہ:
وہ چاند کی منزلوں کا علم سیکھنے کو معیوب نہیں سمجھتے‘‘۔
ابن المنذر نے ابراہیم کا یہ قول بھی روایت کیا ہے کہ
’’ان کے نزدیک وہ علم نجوم جس سے بر و بحر وغیرہ میں راستے اور دیگر ضروری چیزوں کا پتا چل سکے وہ ممنوع نہیں ہے‘‘۔
ابن رجب رحمہ اللہ اور الماذون رحمہ اللہ فرماتے ہیں:
’’وہ علم نجوم جس سے انسان اپنا سفر صحیح طور پر جاری رکھ سکے یا جس سے جہت قبلہ یا راستہ معلوم ہو سکے جائز اور مباح ہے لیکن وہ علم نجوم جس سے ایک دوسرے پر اثر مرتب ہونا ثابت ہو گا، وہ خواہ کم ہو یا زیادہ حرام اور باطل ہے‘‘۔
فیہ مسائل
٭ ستاروں کے پیدا کرنے میں کون کون سی حکمتیں پنہاں ہیں ۔ ٭جو حکمتیں بیان کی گئی ہیں ، ان کے علاوہ تمام کی تردید ۔ ٭منازل قمر کا علم حاصل کرنے کے سلسلے میں علماء کا اختلاف ۔ ٭سحر کو باطل سمجھتے ہوئے بھی اس کی تصدیق کرنے پر وعید۔
 

محمد نعیم یونس

خاص رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
اپریل 27، 2013
پیغامات
26,582
ری ایکشن اسکور
6,748
پوائنٹ
1,207
بارش کو ستاروں اور مختلف منزلوں کی طرف منسوب کرنا کیسا ہے؟
بابُ :مَاجَآء فِی الْإِسْتِسْقَاءِ بِالْأنْوَاءِ

اس باب میں بارش کو ستاروں کی مختلف منزلوں کی طرف منسوب کرنے پر وعید کی گئی ہے ۔ اور بتایا گیا ہے کہ اس قسم کا عقیدہ رکھنا خلاف شریعت ہے۔
قول اﷲ تعالیٰ وَ تَجْعَلُوْنَ رِزْقَکُمْ أَنَّکُمْ تُکَذِّبُوْنَ (سورۃ الواقعہ)
اور اس نعمت میں اپنا حصہ تم نے یہ رکھا ہے کہ اسے جھٹلاتے ہو۔
چاند کی مختلف منزلوں کو انواء کہتے ہیں۔ ابوالسعادات رحمہ اللہ نہایۃ میں فرماتے ہیں کہ:
’’چاند کی اٹھائیس منزلیں ہیں اور وہ ہر رات اپنے لئے ان منزلوں میں سے ایک منزل تبدیل کرتا ہے‘‘۔
چاند کی مختلف منزلوں کو قرآن کریم میں بھی ذکر کیا گیا ہے جیسے:
(ترجمہ) ’’چاند، اس کے لئے ہم نے منزلیںمقرر کر دی ہیں‘‘۔ (یٰسین:۲۹)۔
ہر تیرہ تاریخ کی رات طلوعِ فجر کے وقت مغرب میں چاند غروب ہو جاتا ہے اور اس کے بالمقابل اسی وقت مشرق سے طلوع ہوتا ہے اور اسی طرح پورا دَور ساری منزلوں میں ایک سال میں مکمل ہوتا ہے۔ عربوں کا عقیدہ تھا کہ جب چاند ایک منزل سے غروب کے بعد اس کے بالمقابل منزل سے طلوع ہوتا ہے تو اس وقت بارش ہوتی ہے اور اس بارش کو وہ اس منزل کی طرف منسوب کرتے اور کہتے کہ ہمیں چاند کی فلاں منزل کے ترحم کی وجہ سے بارش ملی اور اس کا نام نو رکھا گیا ہے کیونکہ جب چاند مغرب میں جا کر گرتا ہے تو وہ مشرقی مطلع سے دُور ہو جاتا ہے۔
زیر نظر آیت کریمہ کی تشریح کے سلسلے میں ایک روایت امام احمدرحمہ اللہ ، امام ترمذی رحمہ اللہ (اس کو حسن بھی قرار دیتے ہیں) ابن جریر، ابن ابی حاتم رحمہم اللہ سے نقل کرتے ہیں اور الضیاء بھی اپنی کتاب المختارہ میں سیدنا علی رضی اللہ عنہ سے روایت کرتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:
’’تم نے اس نعمت کا یہ شکر ادا کیا ہے کہ تم اسے جھٹلاتے رہو گے یعنی بجائے شکر کرنے کے یہ کہتے رہو گے کہ اب بارش فلاں ستارے اور فلاں برج میں داخل ہونے والی ہے‘‘۔
تمام تفسیروں میں سے مندرجہ بالا تفسیر صحیح ہے۔ سیدنا علی، ابن عباس، قتادہ، ضحاک رضی اللہ عنہم اور عطا خراسانی رحمہ اللہ سے بھی مندرجہ بالا تفسیر ہی منقول ہے اور جمہور مفسرین کا بھی یہی قول ہے۔ مصنف نے بھی اِسی وجہ سے اس آیت کریمہ کو اپنی کتاب میں درج کیا ہے۔ امام ابن قیم رحمہ اللہ اس کی تشریح یوں بیان فرماتے ہیں کہ:
’’تم نے اپنا حصہ اس رزق (قرآن) سے، جس سے تمہاری زندگی قائم ہے، یہ بنا رکھا ہے کہ تم قرآنِ کریم کی تکذیب ہی کرتے رہو گے‘‘۔
امام حسن بصری رحمہ اللہ فرماتے ہیں:
’’تم نے قرآن کریم میں سے اپنا حصہ صرف یہ حاصل کیا ہے کہ اس کی تکذیب ہی کرنا ہے‘‘
۔ امام حسن بصری رحمہ اللہ مزید فرماتے ہیں:
’’وہ شخص بہت ہی گھاٹے میں ہے جس کا قرآنِ کریم میں سوائے تکذیب کے کوئی حصہ نہیں‘‘۔
وعن ابی مالک الاشعری أَنَّ رَسُوْلَ اﷲِ صلی اللہ علیہ وسلم قَالَ أَرْبَعٌ فِیْ أُمَّتِیْ مِنْ أَمْرِ الْجَاہِلِیَّۃِ لَا یَتْرُکُوْنَھُنَّ أَلْفَخْرُ بِالْأَحْسَابِ وَ الطَّعْنُ فِی الْأَنْسَابِ وَالْاءِ سْتِسْقَآءُ بِالنُّجُوْمِ وَ النِّیَاحَۃُ وَقَالَ أَلنَّائِحَۃُ إِذَا لَمْ تَتُبْ قَبْلَ مَوْتِھَا تُقَامُ یَوْمَ الْقِیٰمَۃِ وَ عَلَیْھَا سِرْبَالٌ مِّنْ قَطِرَانٍ وَدِرْعٌ مِّنْ جَرَبٍ (رواہ مسلم)
سیدنا ابو مالک اشعری رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا میری امت جاہلیت کے چار کام ترک نہیں کرے گی: ۱۔ خاندانی شرافت پر فخر کرنا۔ ۲۔ نسب میں عیب نکالنا ۔ ۳۔ ستاروں سے بارش برسنے کا عقیدہ رکھنااور ۴۔ نوحہ کرنا ۔ پھر فرمایا ۔نوحہ کرنے والی عورت اگر موت سے پہلے توبہ نہ کرے تو قیامت کے دن اس کے بدن پر تار کول کا کرتہ اور خارش کی درع پہنائی جائے گی۔
مطلب یہ ہے کہ بعض افرادِ اُمت ان چار اُمور پر، ان کی حُرمت جاننے کے باوجود یا لا علمی کی وجہ سے عمل کرتے رہیں گے، حالانکہ یہ اُمورِ جاہلیت اور اُن کی یاد انتہائی مذموم اور مکروہ ہے لیکن اس کے باوصف لوگ اس میں مبتلا رہیں گے۔ جاہلیت سے، قبل از نبوت کا زمانہ مراد ہے، کیونکہ اُس وقت جہالت عام تھی۔ حقیقت یہ ہے کہ ہر وہ کام جو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی تعلیمات کے خلاف ہو وہ جاہلیت ہی کی رسم ہے اس لئے کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنی نبوت سے پہلے کی بہت سی رسموں کی ممانعت فرمائی ہے۔
شیخ الاسلام محمد بن عبدالوہاب رحمہ اللہ نے اس پر ایک مستقل کتاب ’’مسائل الجاہلیہ‘‘ تصنیف فرمائی ہے جس میں ان تمام اُمور کا مختصر طور سے بیان آگیا ہے جن کی رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے مخالفت کی ہے اور جن کا جاہلیت سے خاص تعلق ہے۔ ان اُمور کی تعداد تقریباً ایک سو بیس تک پہنچ گئی ہے۔
شیخ الاسلام امام ابن تیمیہ رحمہ اللہ فرماتے ہیں:
’’رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے خبر دی ہے کہ جاہلیت کے بعض اعمال لوگ ترک نہیں کریں گے اور اس حدیث میں ان ہی لوگوں کی مذمت کی گئی ہے۔ اس سے ثابت ہوا کہ اُمور جاہلیت اور ان پر عمل کرنا شریعت اسلامیہ میں انتہائی مذموم، ناپسندیدہ فعل ہے۔ اگر ناپسندیدہ نہ ہوتا تو ان اعمال کو جاہلیت کی طرف منسوب کرنے کے کوئی معنی نہ تھے۔ ان اُمور کو جاہلیت کی طرف منسوب کرنا ہی ان کی ناپسندیدگی اور مذمت کی دلیل ہے، جیسا کہ قرآن کریم میں فرمایا گیا ہے: ’’اور سابق دورِ جاہلیت کی سی سج دھج نہ دکھاتی پھرو‘‘۔ (الاحزاب:۳۳)
اس آیت میں تبرج کی مذمت کی گئی ہے اور خصوصاً جاہلیت کی حالت کو مذموم قرار دیا گیا ہے۔ اس میں دورِ جاہلیت کے لوگوں سے مشابہت کی بھی ممانعت کی گئی ہے‘‘۔
اپنے آباء و اجداد اور ان کے کارناموں کی وجہ سے لوگوں پر اظہارِ فخر کرنا، یہ جہالت اور دیوانگی کی علامت ہے کیونکہ اللہ تعالیٰ کے ہاں عزت و شرف کے حصول کا تعلق صرف تقوی اور پرہیزگاری سے ہے جیسا کہ اللہ تعالیٰ فرماتا ہے:
(ترجمہ) ’’درحقیقت اللہ کے نزدیک تم میں سب سے زیادہ عزت والا وہ ہے جو سب سے زیادہ پرہیزگار ہے‘‘۔ (الحجرات:۱۳)۔ دوسری جگہ ارشاد فرمایا: (ترجمہ) ’’یہ تمہاری دولت اور تمہاری اولاد نہیں ہے جو تمہیں ہم سے قریب کرتی ہو، ہاں مگر جو ایمان لائے اور نیک عمل کرے، یہی لوگ ہیں جن کے لئے اُن کے عمل کی دُہری جزا ہے اور وہ بلند و بالا عمارتوں میں اطمینان سے رہیں گے‘‘۔ (السبا:۳۷)۔
سنن ابی داؤد میں سیدنا ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے مرفوعاً روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:
(ترجمہ) ’’اللہ تعالیٰ نے تم سے جاہلیت کی حماقت اور آباء و اجداد کا فخر دُور کر دیا ہے اب یا تو متقی مومن ہو گا یا فاجر و فاسق، سب لوگ آدم علیہ السلام کی اولاد ہیں اور آدم علیہ السلام کی پیدائش مٹی سے ہوئی۔ اب لوگوں کو قومی فخر و مباہات کو ترک کر دینا چاہیئے کیونکہ وہ جہنم کے کوئلے بن چکے ہیں یا پھر وہ اللہ کے نزدیک گندگی کے کیڑے سے بھی زیادہ ذلیل ہو جائیں گے‘‘۔
ایک دفعہ سیدنا ابوذر غفاری رضی اللہ عنہ نے ایک شخص کی والدہ کے نسب کے بارے میں عار دلائی، رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم غصے میں آگئے اور فرمایا: ’’تو نے اُسے اُس کی ماں کے بارے میں عار دلائی ہے، ابھی تمہارے اندر جاہلیت کی بو موجود ہے‘‘۔
اس واقعہ سے معلوم ہوا کہ حسب و نسب میں عیب نکالنا بھی اعمالِ جاہلیت میں سے ہے اور یہ بھی معلوم ہوا کہ کبھی مسلمان میں بھی ایسے اعمال، جن کا تعلق جاہلیت، یہودیت اور نصرانیت سے ہے، پائے جاتے ہیں، ان سے کوئی مسلمان کافر یا فاسق نہیں ہو جاتا۔ شیخ الاسلام امام ابن تیمیہ رحمہ اللہ بھی اسی کے قائل ہیں کہ اس قسم کی معمولی لغزش سے انسان کافر نہیں ہو جاتا
امام احمد بن حنبل رحمہ اللہ اور ابن جریر رحمہ اللہ نے سیدنا جابرالسوائی سے ایک روایت نقل کی ہے، جس میں جابر سوائی کہتے ہیں کہ میں نے
رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو یہ فرماتے ہوئے سنا ہے کہ: ’’مجھے اپنی امت کے بارے میں تین چیزوں سے خطرہ ہے: ۱۔ستاروں کے ذریعے سے بارش طلب کرنا۔ ۲۔بادشاہ کا ظلم۔ ۳۔ اور قضا و قدر کی تکذیب‘‘۔ جب کوئی شخص یہ کہتا ہے کہ ’’ہمیں فلاں منزل یا فلاں ستارہ کی وجہ سے بارش ملی) تو وہ دو حال سے خالی نہیں: ایک یہ کہ کہنے والے کا عقیدہ یہ ہو کہ بارش برسنے میں ستاروں کو بہت بڑا دخل اور اثر حاصل ہے۔ پس یہ عقیدہ کفر اور شرک کا ہے۔ قبل از بعثت مشرکین عرب کا یہی عقیدہ تھا جیسا کہ ان کا یہ بھی عقیدہ تھا کہ میت یا غائب کو پکارنا قرین صحت ہے، کیونکہ وہ نفع پہنچانے اور مصائب دور کرنے پر قادر ہیں۔ اس کو شریعت اِسلامیہ نے شرک سے تعبیر کیا ہے اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو حکم دیا گیا ہے کہ جو شخص یہ عقیدہ نہ چھوڑے اس کے ساتھ جنگ کی جائے۔ اِسی کے متعلق قرآن کریم کہتا ہے کہ: (ترجمہ) ’’اے ایمان والو! کافروں سے جنگ کرو یہاں تک کہ فتنہ باقی نہ رہے اور دین پورے کا پورا اللہ کیلئے ہو جائے‘‘ (انفال:۳۹)۔ اس آیت میں فتنہ سے شرک مراد ہے۔
دوسرے یہ کہ ’’مُطِرنَا کَذَا وَ کَذَا‘‘ (ہمیں اس اس طرح بارش ملی)وغیرہ کہنے والے کا عقیدہ یہ ہو کہ حقیقی موثر اور بارش برسانے والا صرف اللہ تعالیٰ ہی ہے لیکن یونہی بربنائے عادت اور لوگوں کی دیکھا دیکھی اس نے یہ جملہ کہہ دیا۔ اس بارے میں صحیح موقف یہ ہے کہ مجازاً بھی بارش کو کسی ستارے کی طرف نسبت کرنا حرام ہے جیسا کہ ابن مفلح نے اپنی کتاب ’’الفروع‘‘ میں اس کی تصریح کی ہے کہ ’’مُطِرنَا کَذَا وَ کَذَا‘‘ (ہمیں اس اس طرح بارش ملی) کہنا حرام ہے۔ اور صاحب ِ انصاف نے اس کی حرمت پر آخری فیصلہ دیا ہے۔ یعنی اگرچہ یہ مجازاً ہی کہا گیا ہو مگر اس کی حرمت میں کسی کا اختلاف نہیں ہے۔
اس کی حرمت کی سب سے بڑی وجہ یہ ہے کہ یہ جملہ کہنے والے نے ایک ایسے فعل کی نسبت ایسی مخلوق کی طرف کی ہے جس کو اس فعل پر قطعاًا کوئی قدرت نہیں ہے بلکہ وہ خود اللہ تعالیٰ کے حکم کے تابع اور مسخر ہے اور اسے نفع اور ضرر دینے پر ذرّہ بھر بھی اختیار نہیں ہے۔ اس نسبت کو ہم شرکِ اصغر کہہ سکتے ہیں۔ واللہ اعلم۔
کسی کے فوت ہونے پر بین کرنے کو النیاحۃ کہتے ہیں کیونکہ بین کرنے والا اللہ تعالیٰ کی قضا و قدر پر ناراض ہو کر ہی تو بین کرے گا۔ بین کرنا صبر کے سراسر خلاف ہے اور شریعت اسلامیہ میں کبیرہ گناہ شمار ہوتا ہے جس پر سخت وعید آتی ہے اور اس کی تردید میں بہت سی حدیثیں کتب احادیث میں موجود ہیں۔
حدیث نبوی صلی اللہ علیہ وسلم کے اس جملے میں اس بات کی طرف واضح اشارہ ہے کہ اگرچہ گناہ کتنا ہی بڑا کیوں نہ ہو، توبہ کرنے سے ختم ہو جاتا ہے۔ اس مسئلے پر تمام علمائے اُمت کا اتفاق ہے اور اعمالِ صالحہ اور حسنات سے بھی بڑے بڑے گناہ معاف ہو جاتے ہیں، نیز مصائب و مشکلات میں ابتلاء سے بھی انسان کے گناہ دُھل جاتے ہیں۔ اسی طرح ایک مسلمان کے دوسرے مسلمان کے لئے دعا کرنے سے بھی گناہ دُھل جاتے ہیں۔ اللہ تعالیٰ کی اجازت سے شفاعت کرنے سے بھی گناہ دُھل جاتے ہیں۔ خود اللہ تعالیٰ بھی گناہوں کو معاف فرما دیتا ہے جبکہ انسان مشرک نہ ہو، جیسا کہ سیدنا عبد اللہ بن عمر رضی اللہ عنہ سے مرفوعاً روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:
’’اللہ تعالیٰ بندے کی توبہ اُس وقت تک قبول کرتا ہے جب تک کہ جان کنی کا وقت نہ آجائے‘‘ـ۔
علامہ قرطبی رحمہ اللہ فرماتے ہیں کہ: ’’سربال، سرابیل کا واحد ہے، یہ قمیص کے علاوہ دوسرے کپڑوں پر بھی بولا جاتا ہے‘‘۔ یعنی ان کپڑوں کو گندھک سے لیپ دیا جائے گا اور وہ ان کے لئے قمیص کی طرح ہو جائے گا تاکہ ان کے جسموںپر آگ خوب بھڑکے اور ان کی بو بدترین قسم کی ہو اور خارش کی وجہ سے ان کی تکلیف بہت سخت ہو جائے۔ سیدنا عبداللہ بن عباس رضی اللہ عنہ نے قطران کا ترجمہ ’’پگھلا ہوا تانبہ‘‘ کیا ہے۔
ولھما عن زید بن خالد قَالَ صَلّٰی لَنَ رَسُوْلُ اﷲِ صلی اللہ علیہ وسلم صَلٰوۃَ الصُّبْحِ بِالْحُدَیْبِیَّۃِ عَلٰی إِثَرِسَمَآئٍ کَانَتْ مِنَ اللّیْلِ فَلَمَّا انْصَرَفَ أَقْبَلَ عَلَی النَّاسِ فَقَالَ ھَلْ تَدْرُوْنَ مَا ذَا قَالَ رَبُّکُمْ قَالُوْا أَﷲُ وَ رَسُوْلُہٗ أَعْلَمُ قَالَ أَصْبَحَ مِنْ عِبَادِیْ مُؤمِنٌ بِیْ وَ کَافِرٌ فَأَمَّا مَنْ قَالَ مُطِرْنَا بِفَضْلِ اﷲِ وَ رَحْمَتِہٖ فَذٰلِکَ مُؤمِنٌ بِیْ کَافِرٌ بِالْکَوَاکِبِ وَأَمَّا مَنْ قَالَ مُطِرْنَا بِنَوْءِ کَذَا وَ کَذَا فَذَالِکَ کَافِرٌ بِیْ مُؤمِنٌ بِالْکَوَاکِبِ
صحیحین میں زید بن خالد سے روایت ہے ، وہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے مقام ِ حدیبیہ میں ہمیں صبح کی نماز ایسی رات میں پڑھائی جس میں بارش ہوئی تھی آپ صلی اللہ علیہ وسلم نمازسے فارغ ہو کر صحابہ کرام رضی اللہ عنہم کی طرف متوجہ ہوئے اور پوچھا کہ کیا تمہیں پتہ ہے کہ اللہ تعالیٰ نے کیا ارشاد فرمایا ہے ؟ صحابہ کرام رضی اللہ عنہم نے عرض کی کہ اللہ تعالیٰ اور اس کا رسول صلی اللہ علیہ وسلم ہی بہتر جانتے ہیں ۔
آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا اللہ تعالیٰ فرماتا ہے کہ آج صبح میرے بہت سے بندے مومن ہوگئے اور بہت سے کافر ۔ پس جس نے کہا کہ یہ بارش اللہ تعالیٰ کے فضل وکرم اور اس کی رحمت سے ہوئی ہے وہ مجھ پر ایمان لایا اور ستاروں سے اس نے کفر کیا ۔ اور جس نے کہا کہ یہ بارش فلاں فلاں ستارے کی وجہ سے ہوئی ہے اس نے مجھ سے کفر کیا اور ستاروں پر ایمان لایا ۔
حدیث کا مطلب یہ ہے کہ بارش کے متعلق جو شخص یہ عقیدہ رکھے کہ انواء کی وجہ سے اور ان کے اثر کی وجہ سے بارش ہوئی ہے تو یہ شخص کافر ہے کیونکہ وہ شرک فی الربوبیت کا مرتکب ہوا ہے اور ہر مشرک کافر ہوتا ہے اور جو شخص انواء وغیرہ کی تاثیر کا معتقد نہیں بلکہ اس نے رسماً یہ جملہ کہہ دیا ہے تو یہ شرکِ اصغر ہے، کیونکہ اس نے اللہ تعالیٰ کی نعمت کو غیر اللہ کی طرف منسوب کیا ہے کیونکہ اللہ تعالیٰ نے کسی بھی ستارے میں کسی قسم کا کوئی بھی سبب بارش برسنے کا نہیں رکھا۔ یہ تو اس کا خاص فضل اور احسان ہے کہ جب چاہتا ہے بارش برساتا ہے اور جب چاہتا ہے اُسے روک لیتا ہے۔ زیر بحث حدیث اس بات پر واضح دلیل کی حیثیت رکھتی ہے کہ وہ افعال، جن کا تعلق صرف اللہ کی ذات سے ہے ان کو غیر اللہ کی طرف مجازاً بھی منسوب نہیں کیا جا سکتا۔
اس مقام پر ایمان کی حقیقت کو سمجھنا چاہیئے۔ فضل اور رحمت اللہ تعالیٰ کی دو صفتیں ہیں اور اہل سنت کا مسلک یہ ہے کہ خود اللہ تعالیٰ نے، یا، رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے جو صفات، اللہ تعالیٰ کی بیان کی ہیں، وہ صفات قائم بالذات ہیں، کسی غیر کی محتاج نہیں، خواہ وہ صفات ذات سے تعلق رکھتی ہوں جیسے حیات، علم یا افعال سے، جیسے رحمت وغیرہ۔ اس مسئلے کو خوب غور سے سمجھ لینا چاہیئے، کیونکہ اس مسئلے میں بہت سے لوگوں نے لغزش کھائی اور گمراہ ہوئے ہیں۔ زیر نظر حدیث سے یہ بھی معلوم ہوا کہ اللہ تعالیٰ کے انعام و اکرام کو صرف اسی کی طرف منسوب کرنا چاہیئے اور اسی ایک کی تعریف کرنی چاہیئے۔ اہل توحید کا یہی شیوہ ہے کہ وہ فقط اللہ تعالیٰ کی حمد و ثنا بیان کرتے ہیں۔
اور اس مقام پر کفر کی حقیقت کو بھی سمجھنا چاہیئے کہ اللہ تعالیٰ کی کسی بھی نعمت کو غیر اللہ کی طرف منسوب کرنا کفر ہے، اسی لئے بعض علماء نے اس کی حرمت کا فتویٰ دیا ہے، اگرچہ کہنے والے کا عقیدہ ستاروں میں تاثیر کا نہ ہو، اس کو کفرانِ نعمت سے تعبیر کیا جائے گا کیونکہ نسبت غلط ہو گئی ہے۔

فیہ مسائل
٭ ان چار امور کا ذکر جو جاہلیت کی رسوم سے تعبیر ہیں ۔ ٭ان چار اعمال میں سے بعض کا کفر ہونا ۔ ٭بعض کفر ایسا بھی ہے جو انسان کو ملت اسلامی سے خارج نہیں کرتا۔ ٭انعام واکرام کے نزول کی وجہ سے بعض اوقات انسان کا کافر ہونا۔ ٭اس مقام پر ایمان کی حقیقت کو سمجھنا۔ ٭اس مقام پر کفر کی حقیقت کو سمجھنا۔ ٭اس بات کو سمجھنا کہ فلاں ستارے کی تاثیر صحیح ثابت ہوئی۔ ٭طالب علم کو بات ذہن نشین کرانے کے لئے اُستاد کا سوالیہ جملہ استعمال کرنا، جیسے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے صحابہ رضی اللہ عنہم سے پوچھا تھا کہ فَقَالَ ھَلْ تَدْرُوْنَ مَا ذَا قَالَ رَبُّکُمْ یعنی کیا تمہیں معلوم ہے تمہارے رب نے کیا ارشاد فرمایا؟ ٭بَین کرنے والی کو سخت ڈانٹ پلانا۔
 

محمد نعیم یونس

خاص رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
اپریل 27، 2013
پیغامات
26,582
ری ایکشن اسکور
6,748
پوائنٹ
1,207
اللہ تعالیٰ کی محبت اسلام کی بنیاد ہے۔
باب :فی قولہٖ تعالیٰ وَمِنَ النَّاسِ مَنْ یَّتَّخِذُ مِنْ دُوْنِ اﷲِ اَندَادًا یُّحِبُّوْنَھُمْ کَحُبِّ اﷲِ

اللہ تعالیٰ کی محبت اسلام کی بنیادہے اسی محور کے گرد اسلام کی چکی گھومتی ہے۔ جس شخص کا اسلام مکمل ہوگا اس کی اﷲ سے محبت بھی کامل ہوگی۔ اور جس کا اسلام ناقص ہوگا اس کی محبت بھی ناقص ہوگی۔ لہٰذا اسی مناسبت سے مصنف رحمہ اللہ نے اﷲ کی محبت کے متعلق باب قائم کیا ہے۔ اور اس باب میں اسی موضوع پر بحث ہو گی۔ ان شاء اﷲ۔
وَ مِنَ النَّاسِ مَنْ یَّتَّخِذُ مِنْ دُوْنِ اﷲِ اَندَادًا یُّحِبُّوْنَھُمْ کَحُبِّ اﷲِ
کچھ لوگ ایسے ہیں جو اﷲ تعالیٰ کے سوا دوسروں کو اس کا ہمسر اور مد مقابل بناتے ہیں اور ان سے ایسی محبت کرتے ہیں جیسی اﷲ تعالیٰ سے محبت ہونی چاہیئے۔ (سورۃ البقرۃ :۱۶۵)
علامہ ابن قیم رحمہ اللہ مدارج السالکین میں اس آیت کریمہ کی تفسیر میں فرماتے ہیں:
’’جو شخص غیر اللہ سے ایسی والہانہ محبت رکھے جیسی کہ اللہ سے کی جاتی ہے تو گویا اُس نے اس غیر اللہ کو اللہ تعالیٰ کا ہمسر قرار دے لیا۔ یہ معبود محبت میں ہو گا نہ کہ تخلیق اور ربوبیت میں کیونکہ لوگ ربوبیت اور تخلیق میں غیر اللہ کو معبود نہیں بناتے بلکہ محبت میں بناتے ہیں۔ اس لئے کہ اکثر لوگوں نے غیر اللہ سے ایسی محبت قائم کر رکھی ہے کہ اس میں اللہ تعالیٰ کی عظمت و توقیر سے تجاوز کر گئے ہیں‘‘۔
اس آیت کے معنی میں علماء کے دونوں قول نقل کئے گئے ہیں:

۱۔ ’’جو لوگ مومن ہیں، ان کی اللہ تعالیٰ سے محبت، ان کی مشرکین کی، اپنے معبودانِ باطل کی محبت اور عظمت سے کہیں زیادہ ہے‘‘۔ ابن جریر رحمہ اللہ اس آیت کا مطلب مجاہد رحمہ اللہ سے نقل کرتے ہیں: ’’ان پر فخر و مباہات کا اظہار کرتے ہیں اور ان کو اللہ تعالیٰ کے برابر مانتے ہیں، ایمانداروں کی اللہ سے محبت، ان کافروں کی اپنے بتوں کی محبت سے کہیں زیادہ ہے‘‘۔ پھر اس کے بعد ابن زید رحمہ اللہ کا قول نقل کیا ہے کہ: ’’ان مشرکوں کے شریک اِن کے وہ معبودانِ باطل ہیں جن کی وہ اللہ کے ساتھ پرستش کرتے ہیں، وہ اُن سے ایسی محبت رکھتے ہیں جیسے ایماندار اللہ سے محبت رکھتے ہیں، لیکن ایمانداروں کی اللہ سے محبت بہرحال کفار کی، اپنے معبودوں کی محبت سے کہیں بڑھ کر ہے‘‘۔
۲۔ دوسرا معنی یہ ہے کہ مومنین کی اللہ تعالیٰ سے محبت زیادہ قوی ہے مشرکین کی اُس محبت سے جو وہ اپنے معبودانِ باطل سے کرتے ہیں کیونکہ مومنین کی محبت خالص اور صرف اللہ تعالیٰ سے ہے اور مشرکین کی محبت کئی مقامات میں بٹی ہوئی ہے، ایک اللہ سے اور دوسری معبودانِ باطل سے۔ خالص اور صرف اللہ سے محبت بہر صورت مشترکہ محبت سے قوی تر اور افضل ہے۔
مندرجہ بالا دونوں معنی آیت ’’یُحِبُّوْنَھُمْ کَحُبِ ﷲ‘‘ سے ماخوذ ہیں کیونکہ اس میں بھی دو قول ہیں:
۱۔ پہلا یہ کہ مشرکین اپنے باطل معبودوں سے ایسی ہی محبت رکھتے ہیں جیسی کہ اللہ تعالیٰ سے رکھتے ہیں۔ اس سے معلوم ہوا کہ مشرکین بھی اللہ تعالیٰ سے محبت کرتے تھے لیکن اس محبت میں انہوں نے اپنے معبودوں کو شریک بنا رکھا تھا۔
۲۔ دوسرے معنی یہ ہیں کہ یہ مشرک اپنے باطل معبودوں سے اسی طرح محبت کرتے ہیں جیسے مومنین اللہ تعالیٰ سے کرتے ہیں۔ اس کے بعد اللہ تعالیٰ نے خود وضاحت فرما دی کہ مومنین کی اللہ تعالیٰ سے محبت اس سے کہیں زیادہ قوی اور پختہ ہے جو مشرکین کی اپنے باطل معبودوں سے ہے۔
شیخ الاسلام امام ابن تیمیہ رحمہ اللہ پہلے قول کو ترجیح دیتے ہیں اور فرماتے ہیں کہ:
’’اللہ تعالیٰ نے مشرکین کی مذمت اس لئے فرمائی ہے کہ انہوں نے محبت میں اللہ تعالیٰ کے ساتھ اپنے باطل معبودوں کو شریک بنا رکھا ہے کیونکہ انہوں نے مومنین کی طرح خالص اللہ سے محبت نہیں کی۔ مشرکین کی محبت میں اللہ اور معبودانِ باطل سے برابری کا ذکر مشرکین کے اپنے قول سے اللہ تعالیٰ نے بیان فرمایا کیونکہ مشرکین اور اُن کے باطل معبود جب اکٹھے دوزخ میں جمع ہوں گے تو مشرک اپنے معبودوں سے کہیں گے کہ: (ترجمہ) اللہ کی قسم ہم تو صریح گمراہی میں مبتلا تھے جبکہ تم کو رب العالمین کی برابری کا درجہ دے رہے تھے‘‘۔ (الشعراء:۹۷ تا ۹۸)۔ یہ بات واضح اور روزِ روشن کی طرح عیاں ہے کہ مشرکین نے توحید ربوبیت اور خلق اشیاء میں اپنے معبودوں کو اللہ تعالیٰ کے برابر ہرگز نہیں سمجھا تھا بلکہ وہ صرف محبت اور عظمت میں برابری کے قائل تھے اور یہی برابری ہے جس کا قرآنِ کریم میںذکر ہے کہ: (ترجمہ) ’’سب تعریف اللہ تعالیٰ ہی کے لئے جس نے زمین اور آسمان بنائے، روشنی اور تاریکیاں پیدا کیں۔ پھر بھی وہ لوگ جنہوں نے دعوتِ حق کو ماننے سے انکار کر دیا ہے دوسروں کو اپنے رب کا ہمسر ٹھہرا رہے ہیں‘‘۔ یعنی مشرکین نے اپنے معبودوں کو اللہ تعالیٰ کے ساتھ محبت اور عظمت میں شریک ٹھہرایا اور دونوں کو برابر کا درجہ دیا‘‘۔ (سورئہ انعام:۱)۔
مشرکین مکہ شرک فی الالوہیت میں گرفتار تھے البتہ شرک فی الربوبیت سے کسی حد تک بچے ہوئے تھے لیکن افسوس کہ آج کا مشرک شرک فی الالوہیت میں تو گرفتار تھا ہی، اب شرک فی الربوبیت میں پھنسا ہوا نظر آتا ہے جیسا کہ یہ عقیدہ رکھنا کہ فوت شدہ افراد کو دنیوی معاملات میں تصرف حاصل ہے۔ العیاذ باﷲ۔
ایک جگہ اللہ تعالیٰ فرماتا ہے کہ:
(ترجمہ) ’’اے نبی ( صلی اللہ علیہ وسلم ) لوگوں سے کہہ دو ’’اگر تم حقیقت میں اللہ سے محبت رکھتے ہو، تو میری پیروی اختیار کرو، اللہ تم سے محبت کرے گا‘‘۔ (آل عمران:۳۱)۔
اس آیت کریمہ کو آیت ِ محبت بھی کہتے ہیں۔ یعنی سلف اُمت سے منقول ہے کہ بعض لوگوں نے اللہ تعالیٰ سے محبت کا دعوی کیا تو اللہ تعالیٰ نے یہ آیت کریمہ نازل فرمائی۔ اس آیت کریمہ میں محبت کا معیار اور پھر محبت کے فوائد و ثمرات کا بھی ذکر ہے۔ اللہ تعالیٰ سے محبت کی سب سے بڑی علامت یہ بیان فرمائی ہے کہ انسان رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی اتباع اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے طریق زندگی کو مشعل راہ بنا لے۔ اور پھر اس کا عظیم فائدہ یہ بیان فرمایا کہ اس کے بدلے میں اللہ تعالیٰ تم سے محبت کرے گا۔ پس جب انسان رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی اتباع اور پیروی نہیں کرے گا تو اللہ تعالیٰ کی محبت بھی اس کو حاصل نہ ہو گی۔
اللہ تعالیٰ نے ایک مقام پر ارشاد فرمایا کہ:
(ترجمہ) ’’اے ایمان والو! اگر تم میں سے کوئی اپنے دین سے پھرتا ہے (تو پھر جائے) اللہ اور بہت سے لوگ ایسے پیدا کر دے گا جو اللہ کو محبوب ہوں گے اور اللہ ان کو محبوب ہو گا، جو مومنوںپر نرم اور کفار پر سخت ہوں گے۔ جو اللہ کی راہ میں جہاد کریں گے اور کسی ملامت کرنے والے کی ملامت سے نہ ڈریں گے‘‘۔ (المائدۃ:۵۳) ۔
اس آیت کریمہ میں اللہ تعالیٰ نے محبت کرنے والوں کی تین علامتیں بیان کی ہیں:
۱۔ پہلی یہ کہ وہ آپس میں انتہائی شفیق اور رحم دِل ہوتے ہیں۔ آپس میں ایک دوسرے سے نہایت خندہ پیشانی سے پیش آتے ہیں۔ عطا رحمہ اللہ مومن کی خصلت بیان کرتے ہوئے کہتے ہیں: ’’اللہ تعالیٰ سے محبت کرنے والا شخص مومنین کے لئے ایسا نرم ہوتا ہے جیسے بیٹا باپ کے سامنے یا غلام اپنے آقا کے سامنے، اور کافروں کے لئے ایسا سخت ہوتا ہے جیسے شیر اپنے شکار پر، قرآن کریم میں: ’’اَشِدَّاءُ عَلَی الْکُفَّارِ رُحَمَآءُ بَیْنَھُمْ‘‘ سے مراد یہی لوگ ہیں۔
۲۔ دوسری علامت یہ ہے کہ وہ اللہ تعالیٰ کے راستے میں اپنے نفس، اپنے ہاتھ، اپنی زبان اور اپنے مال سے جہاد کرتے ہیں۔ حقیقت میں یہی وہ علامت ہے جس سے اصل محبت کا پتہ چلتا ہے۔
۳۔ ان کی تیسری علامت یہ ہے کہ وہ شریعت ِ اسلامیہ پر عمل پیرا ہونے اور اس کی تبلیغ و اشاعت کے سلسلے میں کسی کی ملامت اور مخالفت سے نہیں گھبراتے۔ سچی محبت کی یہ سب سے بڑی علامت ہے۔

محبت کا دعویٰ کرنے والا اگر اپنے محبوب کی محبت میں کسی سے خوف اور ملامت کا ڈر یا خطرہ محسوس کرے تو وہ حقیقی محب کہلانے کا مستحق نہیں۔ قرآن کریم میں ہے:
(ترجمہ) ’’جن کو یہ لوگ پکارتے ہیں وہ تو خود اپنے رب کے حضور رسائی حاصل کرنے کا وسیلہ تلاش کر رہے ہیں کہ کون اس سے قریب تر ہو جائے اور وہ اُس کی رحمت کے اُمیدوار اور اُس کے عذاب سے خائف ہیں‘‘۔ (بنی اسرائیل:۵۷)۔
اس آیت کریمہ میں اللہ تعالیٰ سے محبت کرنے والوں کے تین مقام بیان فرمائے گئے ہیں:
۱۔ اَلْحُبّ: محبت کا مطلب یہ ہوتا ہے کہ محبوب کا قرب کسی نہ کسی صورت میں حاصل ہو جائے۔
۲۔ التَوَسُّلْ: یعنی اعمالِ صالحہ کر کے محبوب تک پہنچنے کی کوشش کی جائے۔
۳۔ اَلرَّجَاء خوف: یہ دونوں وصف اس بات کی نشاندہی کرتے ہیں کہ اعمالِ صالحہ کا وسیلہ اُمید، رحمت اور خوفِ عذاب سے ایک زائد عمل ہے۔
یہ بات واضح ہے کہ اُسی کا قرب حاصل کرنے کی کوشش کی جاتی ہے جس سے محبت اور دِلی لگاؤ ہو۔ محبوب کا قرب اس کی ذات کی محبت کے تابع ہے۔ فی نفسہٖ محبوب کا قرب کوئی معنے نہیں رکھتا یہ محبوب تک پہنچنے کا ایک ذریعہ ہے۔ فرقہ جہمیہ اور معطّلہ کے ہاں اِن سب اُمور کی کوئی قیمت نہیں ہے۔ اُن کا عقیدہ یہ ہے کہ نہ اللہ کسی کے قریب آتا ہے اور نہ اُس کے قریب کوئی جا سکتا ہے۔ اُس کی ذات سے نہ کوئی محبت کرتا ہے اور نہ وہ کسی سے محبت کرتا ہے۔ ان دونوں فرقوں نے: ٭دلوں کی حیات اور زندگی کا انکار کیا۔ ٭رُوح کی نعمتوں اور اُس کی آسائشوں کو ناقابل فہم سمجھا۔ ٭نفوس کی تروتازگی سے انحراف کیا۔ ٭آنکھوں کی ٹھنڈک سے محرومی کے قائل ہوئے۔ ٭دنیا و آخرت کی اعلیٰ نعمتوں کی تردید کی۔ یہی وہ اسباب تھے جن کی وجہ سے اُن کے دِل سخت ہو گئے اور اللہ تعالیٰ اور ان کے درمیان معرفت اور محبت کے حصول کی راہ میں بہت سے پردے حائل کر دیئے گئے۔ اب صورتِ حال یہ ہو گئی ہے کہ: ٭یہ لوگ نہ تو اللہ تعالیٰ کو پہچاننے کی کوشش کرتے ہیں، ٭نہ محبت کے لئے قدم بڑھاتے ہیں۔ ٭بلکہ وہ ان لوگوں کو سزائیں دیتے ہیں جو اللہ کے اسماء و صفات اور اس کی جلالت ِ شان کا تذکرہ کرتے رہے ہیں اور ان پر ایسی بیماریوں کی تہمت لگاتے ہیں جن کے وہ خود زیادہ مستحق ہیں۔ ٭ اور صاحب بصیرت اور زندہ دِل لوگوں کیلئے یہی کافی ہے کہ وہ ان کے کلام میں سختی اور ناخوشی اور نفرت محسوس کرتے ہیں اور جان لیتے ہیں کہ انہیں اللہ تعالیٰ کی محبت اور معرفت اور توحید سے کوئی لگاؤ نہیں ہے۔
شیخ الاسلام امام ابن تیمیہ رحمہ اللہ نے فرمایا کہ:
’’محبت کی اس سے زیادہ واضح تعریف اور کوئی نہیں ہو سکتی اور حدود (تعریفوں) سے اس کی ذات کی پوشیدگی اور بڑھ جاتی ہے اور اس کی تعریف خود اس کا اپنا وجود ہے اور محبت کی صفت اس سے زیادہ واضح اور کوئی نہیں کہ ’’محبت محبت ہے‘‘
اور لوگوں نے جو اس پر یہ گفتگو کی ہے تو وہ اس کے اسباب و موجبات اور علامات و شواہد اور ثمرات و احکام پر گفتگو کی ہے۔ محبت کی تعریف میں جو جامع بات کہی گئی وہ وہ ہے جس کو ابوبکر الکتانی رحمہ اللہ نے جنید بغدادی سے نقل کیا ہے۔ ابوبکر الکتانی فرماتے ہیں کہ:
’’ایک دفعہ موسم حج میں مختلف ممالک سے علما اور شیوخ مکہ مکرمہ میں جمع تھے کہ محبت الٰہی کا مسئلہ چھڑ گیا۔ اس اجتماع میں سب سے کم عمر جنید رحمہ اللہ تھے۔ علماء نے پوچھا کہ آپ کی اس مسئلے میں کیا رائے ہے؟ جنید رحمہ اللہ بڑے بڑے علمائے کرام کی یہ فرمائش سن کر دم بخود رہ گئے اور چند منٹ کیلئے سر جھکا دیا۔ پھر سر اُٹھایا تو آنکھوں سے آنسو بارش کی طرح بہہ رہے تھے اور زبان پر یہ الفاظ جاری تھے: (ترجمہ) ’’بندہ اپنے آپ سے بے خود ہو، اپنے ربِّ کریم کے ذکر میں مصروف ہو، اس کے حقوق کی ادائیگی میں ہمہ تن مشغول ہو، دلی توجہ سے اس کی طرف نظر جمائے ہوئے ہو ربِّ کریم کے ڈر اور خوف کے نور نے اُس کے دل کو جِلا دیا ہو۔ اور اللہ کی محبت کے پیالے سے خالص مشروب پیتا ہو اور اُس کے غیب کے پردوں سے اس کیلئے حیا واضح ہو جائے اگر وہ بولتا ہے تو اللہ سے، بات کرتا ہے تو اللہ کی، حرکت کرتا ہے تو اللہ کے حکم سے، سکون میں آتا ہے تو اللہ سے۔ پس یہ بندہ ناچیز اللہ کیلئے، اللہ کیساتھ اور اللہ ہی کی معیت میں ہے جنید رحمہ اللہ کے منہ سے مندرجہ بالا کلام نکل رہا تھا اور تمام علمائے کرام پر سناٹا چھایا ہوا تھا اور سب علمائے کرام زاروقطار رو رہے تھے۔ جب جنید رحمہ اللہ خاموش ہوئے تو سب نے کہا کہ اے تاج العارفین! آپ نے اِس پر مزید گفتگو کی گنجائش نہیں چھوڑی، یہ کہا اور مجلس برخاست ہو گئی‘‘
۔
علامہ ابن قیم رحمہ اللہ محبت الٰہی پر تفصیل سے بحث کرتے ہوئے فرماتے ہیں کہ:
’’اللہ تعالیٰ کی محبت دس اُمور سے پیدا ہوتی ہے: ۱۔ قرآن کریم کی اِس طرح تلاوت کرنا کہ ہر لفظ کے معانی، مفہوم اور اُس کے تقاضوں پر غور و فکر اور تدبر کیا جائے۔ ۲۔ فرضی نماز کے بعد نوافل کی کثرت، تاکہ اللہ کا قرب حاصل ہو سکے ۳۔ دِل زبان، عمل اور حال سے اللہ تعالیٰ کا ذکر کیا جائے جتنا ذکر کثرت سے ہو گا اتنی ہی محبت تیز ہو گی۔ ۴۔جب انسان پر شہوات کا غلبہ ہو تو اُس وقت اللہ تعالیٰ کی محبوب اشیاء کو اپنی محبوب اشیاء پر فوقیت دے۔ ۵۔اللہ تعالیٰ کے اسماء و صفات اور اس کے مشاہدات پر غور و فکر اور مطالعہ کرنا اور اس معرفت کے باغوں اور میدانوں میں سیر کرنا۔ ۶۔ اللہ تعالیٰ کے ظاہری اور باطنی انعامات اور احسانات کا مشاہدہ کرنا۔ ۷۔اور سب سے بڑھ کر یہ کہ اللہ تعالیٰ کے حضور دِل کو اِنتہائی اِنکساری کی حالت میں پیش کئے رکھنا۔ ۸۔ جب اللہ تعالیٰ آسمانِ دنیا میں نزول فرماتا ہے، اس وقت اپنے آپ کو بالکل یکسو اور علیحدہ رکھنا اور قرآنِ کریم کی تلاوت کرنا، اور تلاوت ختم کرے تو توبہ اور استغفار پر اختتام کرنا۔ ۹۔ اللہ تعالیٰ کے سچے دوستوں کی مجالس میں بیٹھنا اور ان کی اچھی گفتگو کے ثمرات سمیٹنا اور اس وقت گفتگو کرنا جب اس کی مصلحت راجح ہو اور تجھے معلوم ہو کہ اس سے تیرے حال میں اضافہ اور دوسروں کی بھلائی ہے۔ ۱۰۔ ان تمام اسباب و ذرائع سے اجتناب اور دُوری اِختیار کرنا جن کی وجہ سے اِنسان کے دِل اور اللہ تعالیٰ کے درمیان بعد پیدا ہو۔
یہی وہ دس اسباب ہیں جن سے محبیّن کا گروہ محبت کی منزلیں طے کر کے اپنے محبوب تک پہنچا ہے‘‘
قُلْ اِنْ کَانَ ٰابَآؤُکُمْ وَ اَبْنَآؤُکُمْ وَ اِخْوَانُکُمْ وَ اَزْوَاجُکُمْ وَ عَشِیْرَتُکُمْ وَ اَمْوَالُ نِ اقْتَرَفْتُمُوْھَا وَ تِجَارَۃٌ تَخْشَوْنَ کَسَادَھَا وَ مَسٰکِنُ تَرْضَوْنَھَآ اَحَبَّ اِلَیْکُمْ مِّنَ اﷲِ وَ رَسُوْلِہٖ وَ جِھَادٍ فِیْ سَبِیْلِہٖ فَتَرَبَّصُوْا حَتّٰی یَاْتِیَ اﷲُ بِاَمْرِہٖ وَ اﷲُ لَا یَھْدِی الْقَوْمَ الْفٰسِقِیْنَ (سورۃ التوبہ : ۲۴)۔
اے نبی صلی اللہ علیہ وسلم : کہہ دو کہ اگر تمہارے ماں باپ اور تمہارے بیٹے اور تمہارے بھائی، اور تمہاری بیویاں، اور تمہارے عزیز واقارب اور تمہارے وہ کاروبار جن کے ماند پڑ جانے کا تم کو خوف ہے اور تمہارے وہ گھر جو تم کو پسند ہیں، تم کو اﷲ او ر اس کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم اور اس کی راہ میں جہاد سے عزیز تر ہیں تو انتظار کرو یہاں تک کہ اﷲ اپنا فیصلہ تمہارے سامنے لے آئے۔ اور اﷲ فاسق لوگوں کی رہنمائی نہیں کیا کرتا۔
اس آیت کریمہ میں اللہ تعالیٰ نے اپنے پیارے پیغمبر صلی اللہ علیہ وسلم کو حکم فرمایا ہے کہ وہ ان لوگوں کو جو اپنے اہل و عیال، اپنے مال و متاع، اپنے قبیلہ و قوم، اپنے تجارتی اثاثوں، اپنے گھر بار کو کلی یا جزوی لحاظ سے اللہ کے احکام سے زیادہ محبوب اور پسند کرتے ہیں یا ان میں سے کوئی چیز جہاد فی سبیل اﷲ کرنے سے مانع ہو تو عذابِ الٰہی کی گرفت سے ڈرائیں۔ ایسا نہ ہو کہ ان کو بعد میں کف افسوس ملنا پڑے۔ زیر بحث آیت کریمہ کی تفسیر میں حافظ ابن کثیر رحمہ اللہ رقمطراز ہیں:
’’اگر یہ اشیاء اللہ تعالیٰ اور اس کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم اور اللہ تعالیٰ کے راستہ میں جہاد کرنے سے زیادہ محبوب اور پسند ہیں تو اُس کے عذاب کا انتظار کریں‘‘۔
مسند احمد اور ابوداؤد میں سیدنا عبد اللہ بن عمر رضی اللہ عنہ سے روایت ہے، وہ کہتے ہیں کہ میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو یہ فرماتے ہوئے سنا کہ:
’’جب تم بیع عینہ کرنے لگو اور بیلوں کی دُمیں پکڑ لو، کھیتی باڑی کو اپنا مقصد بنا لو اور جہاد جیسے عظیم الشان عمل کو چھوڑ بیٹھو تو اللہ تعالیٰ تم پر ذلت و رُسوائی مسلط کر دے گا اور یہ رُسوائی اُس وقت تک دور نہ ہو گی جب تک کہ تم دین حنیف کی طرف نہ لوٹ آؤ گے‘‘۔
پس انسان کے لئے ضروری ہے کہ وہ اللہ تعالیٰ کی پسندیدہ چیزوں کو اپنی پسندیدہ چیزوں پر ترجیح دے، جسے اللہ پسند کرتا ہے ان کو پسند کرے اور جو اُمور اللہ تعالیٰ کو ناپسند ہیں اُن کو ترک کر دے کسی سے دوستی ہو تو صرف اللہ تعالیٰ کی خاطر اور دشمنی ہو تو فقط اُس کی رضا کے لئے اور اللہ کے پیغمبر صلی اللہ علیہ وسلم کی اتباع اور پیروی کرے کیونکہ اسی میں انسان کی فلاح اور کامیابی مضمر ہے۔
عَنْ أَنَسٍ رضی اللہ عنہ أَنَّ رَسُوْلَ اﷲِ صلی اللہ علیہ وسلم قَالَ لَا یُؤْمِنُ أَحَدُکُمْ حَتّٰی أَکُوْنَ أَحَبَّ إِلَیْہِ مِنْ وَّلَدِہٖ وَ وَالِدِہٖ وَ النَّاسِ أَجْمَعِیْنَ۔ (صحیحین )۔
سیدنا انس رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ وہ کہتے ہیں رسول اﷲ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا تم میں سے کوئی شخص ایماندار نہیں ہوسکتا ہے ۔ جب تک وہ مجھے اپنی اولاد اپنے ماں باپ اور تمام لوگوں سے زیادہ محبوب نہ سمجھے۔
ایمانِ کامل یہ ہے کہ انسان کو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی ذات گرامی سے اپنی اولاد، اپنے ماں باپ، حتی کہ تمام دنیا سے زیادہ محبت ہو۔ حقیقت یہ ہے کہ کمال کا یہ درجہ اُس وقت تک حاصل ہونا ممکن نہیں جب تک کہ انسان کو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے محبت اپنی جان سے بھی زیادہ نہ ہو۔ صحیح بخاری میں ایک روایت ہے کہ
سیدنا عمر بن الخطاب رضی اللہ عنہ نے ایک دفعہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے عرض کیا کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی ذات گرامی مجھے اپنی جان کے علاوہ تمام دنیا و ما فیہا سے زیادہ محبوب ہے تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا کہ: ’’مجھے اُس ذات کی قسم جس کے قبضہ میں میری جان ہے، جب تک میں تمہارے نزدیک تمہاری جان سے بھی زیادہ محبوب نہ ہو جاؤں اس وقت تک تم مومن نہیں ہو سکتے۔ عمر رضی اللہ عنہ بولے: اب آپ صلی اللہ علیہ وسلم مجھے میری جان سے بھی زیادہ محبوب ہیں۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ اب ٹھیک ہے‘‘۔
جو شخص یہ کہتا ہے کہ نفی کمال مراد ہے، اگر اس سے اُس کا مقصد کمالِ واجب مراد ہے جس کے ترک کرنے والے کی مذمت کی گئی ہے اور اس کی سزا بھی سنا دی گئی ہے تو وہ صحیح کہتا ہے۔ اور جو شخص یہاں کمال مستحب سمجھتا ہے تو اس بات کی کوئی مثال نہیں ملتی نہ کلام اللہ میں، نہ کلامِ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم میں۔
شیخ الاسلام امام ابن تیمیہ رحمہ اللہ فرماتے ہیں کہ:
’’جو شخص رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے محبت کا دعویٰ کرتا ہے لیکن آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی اتباع نہیں کرتا اور دوسرے لوگوں کے اقوال کو آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی حدیث پر ترجیح دیتا ہے تو وہ اپنے دعوائے محبت میں جھوٹا ہے کیونکہ اللہ تعالیٰ ارشاد فرماتا ہے کہ: (ترجمہ) ’’یہ لوگ کہتے ہیں کہ ہم ایمان لائے اللہ اور رسول صلی اللہ علیہ وسلم پر اور ہم نے اطاعت قبول کی مگر اس کے بعد ان میں سے ایک گروہ اطاعت سے منہ موڑ جاتا ہے ایسے لوگ ہرگز مومن نہیں‘‘۔ (النور:۴۷)۔ اس آیت میں اس شخص کے ایمان کی نفی کر دی گئی ہے جو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی اطاعت اور فرمانبرداری سے منہ پھیر لیتا ہے۔ البتہ ہر مسلمان جس قدر اسلام میں پختہ ہو گا اُسی قدر اُس کی محبت پختہ اور مضبوط ہو گی اور ہر مسلمان یقینا مومن ہے البتہ ایمانِ مطلق خاص لوگوں کا حصہ ہے‘‘۔
شیخ الاسلام امام ابن تیمیہ رحمہ اللہ فرماتے ہیں کہ:
’’جب کوئی شخص کفر کے بعد اسلام لائے یا مسلمانوں کے گھر پیدا ہوا اور شریعت اسلامیہ کی پیروی، اللہ تعالیٰ کی اطاعت اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی اتباع کرے تو وہ مسلمان ہو گا لیکن اس کا ایمان مجمل ہو گا۔ البتہ اس کے دل میں ایمان آہستہ آہستہ اور بتدریج داخل ہو گا ورنہ لوگوں کی اکثریت یقین محکم اور جہاد کے سے عظیم عمل تک نہیں پہنچ پاتی۔ اگر ایسے افراد کو ذَرا سا شک اور شبہ کا موقع مل جائے تو وہ فوراً اس کا شکار ہو جاتے ہیں۔ اگر جہاد کی ترغیب دی جائے تو جان پیش کرنے سے انکار کر دیتے ہیں کیونکہ ان کے پاس یقین کی دولت کا فقدان ہوتا ہے جس کی وجہ سے وہ شک و شبہ سے بچ سکیں اور نہ اُن کے پاس اللہ تعالیٰ اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی محبت کا جوہر ہوتا ہے کہ وہ اپنے اہل و عیال اور مال و متاع کو ان کی خوشنودی میں لٹا دیں۔ اگر ایسے افراد دنیا میں مصائب سے بچ کر زندگی گذار جائیں تو جنت میں داخل ہوں گے اور اگر ایسے افراد کہیں آزمائش و ابتلاء میں گھر جائیں، جس سے اُن کے شکوک و شبہات میں اضافہ ہونے کا اِمکان قوی ہو تو پھر اللہ تعالیٰ کی رحمت ہی اُن کو سیدھے راستے پر قائم رکھ سکتی ہے وگرنہ یہ لوگ ریب و شک کی گہری غار میں جا گریں اور ہو سکتا ہے کہ یہ لوگ نفاق کی دلدل میں پھنس جائیں‘‘۔
زیر بحث حدیث سے معلوم ہوا کہ اعمال صالحہ ایمان کا جزوِ لاینفک ہیں کیونکہ محبت دل کا عمل ہے اور دُوسری بات یہ ثابت ہوئی کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی محبت واجب ہے اور اللہ تعالیٰ کی محبت کے تابع اور اس کا لازمی حصہ ہے کیونکہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے محبت بھی صرف اللہ تعالیٰ ہی کی خاطر اور اُس کے حکم کے مطابق کی جاتی ہے ایک مومن صادق کے دل میں جس قدر محبت الٰہی کی کثرت ہو گی اسی لحاظ سے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے محبت بھی زیادہ ہو گی اور اِسی مناسبت سے کمی بھی واقع ہو گی کیونکہ جو شخص کسی سے اللہ کے لئے محبت کرتا ہے تو اس کی محبت حقیقتاً اللہ ہی سے ہوتی ہے جیسا کہ ایمان عمل صالح سے محبت کرنا، حقیقت میں اللہ تعالیٰ سے محبت کرنا ہے ایسی محبت میں شرک کا اثر نہیں ہوتا کیونکہ بذاتہٖ نہ تو اس پر اعتماد ہوتی ہے نہ کسی مرغوب چیز کے حصول کی اُمید یا کسی تکلیف دہ چیز کا دفاع اور جو ایسی محبت ہو وہ حقیقت میں اللہ سے محبت ہوتی ہے، اس لئے کہ اس میں نہ تو غیر اللہ سے تعلق ہے اور نہ اللہ کے سوا کسی سے رغبت ہے۔ یہاں اس محبت میں جو اللہ کے لئے ہو اور اس محبت میں جو مشرکین اپنے باطل معبودوں سے کرتے ہیں، ایک نمایاں فرق اور امتیاز موجود ہے کیونکہ مشرکوں کے دِلوں میں اُن کی اُلوہیت کا عنصر غالب ہوتا ہے جو اللہ کے سوا کہیں جائز نہیں ہے۔
ولھما عنہ قَالَ قَالَ رَسُوْلُ اﷲِ صلی اللہ علیہ وسلم ثَلَاثٌ مَنْ کُنَّ فَیْہِ وَجَدَ بِھِنَّ حَلَاوَۃَ الْاِیْمَانِ أَنْ یَّکُوْنَ اﷲُ وَرَسُوْلُہٗ أَحَبَّ إِلَیْہِ مِمَّا سِوِاھُمَا وَ أَنْ یُّحِبَّ الْمَرْءَ لَا یُحِبُّہٗ إِلَّا لِلّٰہِ وَ أَنْ یَّکْرَہَ أَنْ یَّعُوْدَ فِی الْکُفْرِ بَعْدَ إِذْ أَنْقَذَہُ اﷲُ مِنْہُ کَمَا یَکْرَہُ أَنْ یُّقْذَفَ فِی النَّارِ
صحیح بخاری ومسلم میں سیدنا انس رضی اللہ عنہ سے ہی روایت ہے، وہ کہتے ہیں کہ رسول اﷲ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ تین صفات ایسی ہیں وہ جس شخص میں بھی ہوں گی وہ ایمان کی مٹھاس اپنے اندر ضرور محسوس کرے گا ۔ پہلی یہ کہ اﷲ تعالیٰ اور اس کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کو سب سے زیادہ محبوب سمجھے ۔ دوسری یہ کہ کسی شخص سے محض اﷲ تعالیٰ کے لئے محبت کرے ۔ تیسر ی یہ کہ کفر میں جانا اس قدر ناپسند کرے جس طرح کہ آگ میں گرنا ناپسند کرتا ہے ۔ بعد ااس بات کے کہ اﷲ تعالیٰ نے اسے کفر کے گھٹا ٹوپ اندھیروں سے نکالا ۔
حلاوت سے وہ دِلی کیفیت مراد ہے جو کسی نعمت اور خوشی کے موقع پر دِل پر طاری ہوتی ہے اور یہ ذوق مومن اپنے قلوب میں ہمہ وقت محسوس کرتے ہیں۔ علامہ سیوطی رحمہ اللہ التوشیح میں لکھتے ہیں:
’’زیر بحث حدیث میں استعارہ تخیلیہ ہے جس میں ایک مومن کی رغبت کو میٹھی شے سے تشبیہ دی گئی ہے اور اس کا لازم ذکر کر کے اِس کے ایمان کی طرف مضاف کیا ہے‘‘۔
امام نووی رحمہ اللہ فرماتے ہیں کہ
’’اطاعت الٰہی کے وقت، مصائب جھیلتے وقت، دُنیوی اغراض کو پس پشت ڈالتے وقت، اللہ تعالیٰ اور اس کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کی اطاعت کر کے اور اُس کی مخالفت سے رُکتے وقت، جو کیفیت اور سُرور ایک مومن کے دِل میں اُبھرتا ہے، اُس ذوق کو حلاوتِ ایمان سے تعبیر کیا گیا ہے۔
یحییٰ بن معاذ رحمہ اللہ فرماتے ہیں کہ
’’اللہ تعالیٰ کی محبت اور اُس کی حقیقت یہ ہے کہ انعام و اکرام کے وقت اس میں زیادتی نہ ہو اور مصائب و مشکلات اور امتحان کے وقت اس میں کمی نہ ہو‘‘۔
رہی وہ محبت جو طبعاً اور فطرتاً ایک انسان اپنے ماں باپ اور بیوی بچوں سے کرتا ہے، یہ محبت اللہ تعالیٰ کی محبت کے برابر نہ ہو بلکہ کمتر ہو۔ امام خطابی رحمہ اللہ فرماتے ہیں کہ
’’یہاں طبعی اور فطری محبت مراد نہیں ہے بلکہ وہ محبت مراد ہے جو اختیار ی ہو‘‘۔
لیکن محبت شرکیہ جس کا سابقہ صفحات میں تفصیل سے ذکر کیا گیا ہے، جو اللہ تعالیٰ اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی محبت کے منافی ہے، خواہ وہ کم ہو یا زیادہ ہر لحاظ سے غلط اور کتاب و سنت کے صریح احکام کے خلاف ہے۔
اللہ تعالیٰ سے محبت کرنے کے سلسلہ میں رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا ہے کہ :
’’اپنے پورے دل سے اللہ سے محبت کرو‘‘۔
اللہ تعالیٰ اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ محبت کی مندرجہ ذیل چند نمایاں خصوصیات ہیں ٭ جسے اللہ پسند کرے، انسان بھی اس کو پسند کرے۔ ٭جو اللہ تعالیٰ کو ناپسند ہو وہ انسان کو بھی ناپسند ہو۔ ٭اللہ تعالیٰ کی پسندیدہ اشیاء کو تمام چیزوں پر ترجیح دے۔ ٭ جس قدر ممکن ہو سکے اللہ تعالیٰ کے احکام پر عمل پیرا ہو۔ ٭ اللہ تعالیٰ کی حرام کردہ حدود سے دُور رہے اور ان کو انتہائی حقیر و ذلیل سمجھے۔ ٭ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی اتباع اور فرمانبرداری کرے۔ ٭ اپنے آپ کو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی سیرت میں ڈھالنے کی کوشش کرے۔ ٭ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے منع کردہ اُمور سے کنارہ کش اور دُور رہے۔ اللہ تعالیٰ نے ارشاد فرمایا ہے:
’’جو شخص رسول ( صلی اللہ علیہ وسلم ) کی فرمانبرداری کرے گا تو بیشک اُس نے اللہ تعالیٰ کی فرمانبرداری کی‘‘۔ (النساء:۸۰)
اس آیت کی مکمل اور چلتی پھرتی تصویر نظر آئے۔ پس جو شخص رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے ارشادات پر دوسرے افراد کے قول کو ترجیح دے اور رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے جن اُمور سے روکا ہے اُن کی کھلم کھلا مخالفت کرے تو یہ اس بات کی واضح علامت ہے کہ وہ اپنی محبت میں جھوٹا ہے کیونکہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم اور اللہ تعالیٰ کی محبت،دونوں آپس میں لازم و ملزوم ہیں۔ جو شخص اللہ تعالیٰ کی اطاعت و فرمانبرداری کرے اور اُس سے محبت کا دعویٰ کرے تو لازم ہے کہ وہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی اتباع اور ان سے محبت کا اظہار بھی کرے، اور جو شخص ایسا نہیں کرتا وہ اپنی محبت میںجھوٹا ہے جیسا کہ سابقہ صفحات میں ’’آیت جنت‘‘ وغیرہ میں واضح ہو چکا ہے۔ واللہ المستعان۔
شیخ الاسلام امام ابن تیمیہ رحمہ اللہ فرماتے ہیں کہ:
’’رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے اس کی وضاحت فرمائی ہے کہ جو خوش نصیب ان تمام صفاتِ کاملہ سے متصف ہو گا وہی ایمان کی حلاوت اور لذت سے بہرہ اندوز ہو گا کیونکہ کسی چیز کی مٹھاس اور لذت کا پایا جانا اُس کی محبت کا بین ثبوت ہے۔ قاعدہ یہ ہے کہ جب کوئی شخص کسی چیز کو چاہتا اور اس کے حصول کے لئے تگ و دو کرنے کے بعد اس کو حاصل کرنے میں کامیاب ہو جاتا ہے تو اس کامیابی پر اسے ایک قسم کی لذت، سرور اور خوشی محسوس ہوتی ہے اور یہ بات بھی مسلمہ ہے کہ اپنی محبوب چیز کو حاصل کرنے کے بعد ہی مسرت و بہجت اور لذت حاصل ہوتی ہے‘‘۔
شیخ الاسلام امام ابن تیمیہ رحمہ اللہ مزید وضاحت کرتے ہوئے فرماتے ہیں کہ:
’’حلاوتِ ایمانی جو فرحت و مسرت اور لذت کو متضمن ہے وہ اللہ تعالیٰ کی کامل محبت کے بعد حاصل ہوتی ہے اور کامل محبت تین اُمور کے پائے جانے کے بعد میسر آتی ہے: ۱۔ محبت میں کمال۔ ۲۔محبت میں خلوص۔ ۳۔ اور محبت کے منافی اُمور سے دوری۔ ٭ تکمیل محبت یہ ہے کہ اللہ تعالیٰ اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم تمام دنیا و ما فیہا سے زیادہ محبوب ہوں۔ کیونکہ یہاں اللہ تعالیٰ اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی محبت کا پایا جانا ہی کافی نہیں ہے بلکہ ضروری ہے کہ ان کی محبت ہر چیز پر غالب ہو۔ ٭ تفریغ محبت یہ ہے کہ انسان جس سے بھی محبت کرے وہ صرف اللہ تعالیٰ کے لئے ہو۔ شارح کہتے ہیں کہ اللہ کی محبت، اس کی اطاعت کی محبت کو مستلزم ہے، بندے کے لئے ضروری ہے کہ اُس کی اطاعت کا دم بھرے اور محب کا فرض ہے کہ جس چیز سے محبوب محبت کرے، اُس سے وہ بھی محبت کرے۔ اللہ تعالیٰ کی محبت کو یہ بھی مستلزم ہے کہ جو لوگ اُس کے اطاعت گزار ہیں، اُن سے بھی محبت رکھے۔ مثلاً انبیاء، رُسل، صالحین اور اس کے نیک بندوں کو مرکز الفت قرار دینا جس سے اللہ محبت کرے اور جو اللہ سے محبت کرے، اس سے تعلقاتِ محبت استوار کرنا، کمالِ ایمان میں سے ہے، جیسا کہ سیدنا ابن عباس رضی اللہ عنہ کی اس حدیث میں واضح کیا گیا ہے، جو آئندہ درج کی جا رہی ہے۔ ٭ دفع ضد کا مطلب یہ ہے کہ ایمان کے مقتضیات کے خلاف جتنی اشیاء ہیں سب کو ناپسند سمجھے جیسے آگ میں گرنے کو ناپسند کرتا ہے۔
زیر بحث حدیث میں اُن لوگوں کی تردید ہوتی ہے جن کا گمان یہ ہے کہ انسان سے گناہ کا صادر ہونا اسکے حق میں موجب نقص ہوتا ہے اگرچہ وہ توبہ بھی کر لے۔ اس سلسلے میں صحیح بات یہ ہے کہ اگر گنہگار توبہ نہ کرے تو اس کے ایمان میں نقص واقع ہو جاتا ہے اور اگر فوراً توبہ کر لے تو نقص واقع نہیں ہوتا۔ اسکی سب سے بڑی دلیل یہ ہے کہ مہاجرین اور انصار صحابہ کرام رضی اللہ عنہم کے بارے میں اُمت کا اجماع ہے کہ وہ اِس اُمت محمدیہ صلی اللہ علیہ وسلم میں سب سے افضل تھے باوجود اِس بات کے کہ وہ قبل از اسلام کافر اور مشرک تھے۔ اللہ تعالیٰ نے ان کو اسلام کے نور سے منور فرما دیا۔ ہجرت اور اسلام کی یہ خصوصیت ہے کہ وہ گذشتہ تمام اعمالِ سیہء کو حرفِ غلط کی طرح مٹا دیتے ہیں جیسا کہ صحیح روایات اس کی تصدیق کرتی ہیں۔
وفی روایۃ لَا یَجِدُ أَحَدٌ حَلَاوَۃَ الْاِیْمَانَ حَتّٰی یُحِبُّ الْمَرْءَ لَا یُحِبُّہٗ إِلَّا لِلّٰہِ
ایک روایت میں اس طرح ہے کہ کوئی شخص ایمان کی مٹھاس اس وقت تک محسوس نہیں کرسکتا جب تک کہ وہ کسی آدمی سے صرف اﷲ تعالیٰ کی رضا کے لئے محبت نہ کرے ۔
یہ روایت صحیح بخاری کتابُ الادب میں مذکور ہے، پوری حدیث کے الفاظ یہ ہیں:
(ترجمہ) ’’کوئی شخص ایمان کی مٹھاس اس وقت تک محسوس نہیں کر سکتا جب تک کہ کسی آدمی سے صرف اللہ کے لئے محبت نہ کرے اور یہ کہ کفر میں لوٹنا اُس کو اِتنا ہی برا اور ناگوار ہو جیسے آگ میں گرنا اور یہ کہ اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم سے تمام کائنات سے زیادہ محبت ہو‘‘۔
محبت کے متعلق پوری تفصیل گزر چکی ہے جس کا خلاصہ یہ ہے کہ محبت مومن کی اُس قلبی کیفیت کا نام ہے جو اللہ تعالیٰ کی عظمت اور ہیبت کی وجہ سے اُس پر طاری ہوتی ہے۔
وعن ابن عباس قَالَ مَنْ أَحَبَّ فِی اﷲِ وَ أَبْغَضَ فِی اﷲِ وَ وَالٰی فِی اﷲِ وَ عَادٰی فِی اﷲِ فَإِنَّمَا تَنَالُ وَلَایَۃَ اﷲِ بِذٰلِکَ وَ لَنْ یَّجِدَ عَبْدٌ طَعْمَ الْاِیْمَانِ وَ إِنْ کَثُرَتْ صَلٰوتُہٗ وَ صَوْمُہٗ حَتّٰی یَکُوْنَ کَذٰلِکَ وَ قَدْ صَارَتْ عَامَّۃُ مُوَاخَاۃِ النَّاسِ عَلٰی أَمْرِ الدُّنْیَا وَ ذٰلِکَ لَا یُجْدِ عَلٰی أَھْلِہٖ
سیدنا ابن عباس رضی اللہ عنہ سے منقول ہے، ان کاکہنا ہے کہ جو شخص صرف اﷲ تعالیٰ کیلئے محبت کرے اور اﷲ تعالیٰ ہی کیلئے کسی سے بغض و عناد رَکھے، اﷲ تعالیٰ کیلئے دوستی رکھے اور اﷲ تعالیٰ ہی کیلئے عدوات رکھے تو ایسا شخص ہی اﷲ تعالیٰ کی دوستی حاصل کرسکے گا۔ اور کوئی شخص ان اُمور کے بغیر اِیمان کی مٹھاس حاصل نہیں کر سکتا اگرچہ وہ بہ کثرت نمازیں ادا کرے اور روزے رکھے۔ آج کل عام لوگوں کی محبت صرف دنیاوی معاملات پر موقوف ہے اور یہ اﷲ تعالیٰ کے ہاں کچھ سود مند ثابت نہ ہوگی۔ (رواہ ابن جریر)۔
یعنی اہل ایمان سے اس لئے محبت کرے کہ وہ اللہ تعالیٰ اور اُس کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کی فرمانبرداری کرتے ہیں۔ اور جو لوگ کفر و شرک میں مبتلا ہیں اور اللہ تعالیٰ اور اُس کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کی فرمانبرداری اور اطاعت سے منحرف ہیں، ایسے لوگوں سے نفرت و بغض اور دشمنی صرف اس لئے رکھے کہ یہ لوگ اللہ تعالیٰ کی نافرمانی کے مرتکب ہیں۔ اگرچہ یہ لوگ اِنتہائی قریبی رشتہ دار ہی کیوں نہ ہوں۔ اللہ تعالیٰ فرماتا ہے:
(ترجمہ) ’’تم کبھی یہ نہ پاؤ گے کہ جو لوگ اللہ اور آخرت پر ایمان رکھنے والے ہیں وہ ان لوگوں سے محبت کرتے ہوں جنہوں نے اللہ اور رسول صلی اللہ علیہ وسلم کی مخالفت کی ہے‘‘۔ (المجادلہ:۲۲)۔
خالص اللہ تعالیٰ کے لئے دوستی اور عداوت، اللہ کی محبت کے یہ دو بنیادی وصف ہیں کیونکہ جو شخص اللہ تعالیٰ سے محبت کرے گا وہ اگر کسی دوسرے سے محبت اور دوستی کرے گا، جیسے اولیاء اﷲ سے دوستی اور اُن کی مدد اور اللہ تعالیٰ کے نافرمانوں سے عداوت اور اُن سے جہاد، تو یہ بھی حقیقت میں اللہ تعالیٰ ہی کے لئے ہو گا۔ جس قدر اللہ تعالیٰ کی محبت دِل میں قوی اور مضبوط ہو گی، اُسی قدر یہ اعمال بھی ظہور پذیر ہوں گے اور اسی محبت کے کمال سے توحید کی تکمیل ہو گی اور اس کی کمزوری سے اس میں کمزوری واقع ہو گی، پس اس میدان میںلوگوں کی تین قسمیں ہیں: ٭ بعض کی محبت کامل ترین۔ ٭ بعض کی محبت کمزور اور ضعیف۔ ٭ اور بعض بدقسمت وجودِ محبت سے بالکل کورے۔
اخوت، محبت اور نصرت کے معنی میں استعمال ہوتا ہے اور بالکسر اَمارت کے معنی میں، اور یہاں پہلی صورت مراد ہے۔ مسند احمد اور طبرانی میں ایک روایت ہے جس میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ: (ترجمہ) ’’انسان واضح طور سے ایمان کی روشنی محسوس نہیں کر سکتا جب تک وہ اللہ کی رضا کے لئے محبت نہ کرے اور اس کی رضا کے لئے دشمنی نہ رکھے، اور جب دوستی اور دشمنی اللہ ہی کے لئے کرے گا تو پھر اللہ کی محبت اور ولایت کا حقدار ہو جائے گا‘‘۔ ایک روایت میں یہ الفاظ ہیں:
’’ایمان کی مضبوط ترین کڑی یہ ہے کہ انسان کی دوستی اور دشمنی صرف اللہ ہی کے لئے ہو‘‘۔ (رواہ الطبرانی)۔
صوم و صلوٰۃ کی کثرت کے باوجود بھی اس کو ایمان کی لذت اور اس کی مٹھاس حاصل نہیں ہو سکے گی جب تک کہ وہ اپنے اندر محض اللہ تعالیٰ کے لئے دوسروں سے محبت، عداوت، دوستی اور دشمنی کی صفات پیدا نہ کرے
جیسا کہ سیدنا ابو امامہ رضی اللہ عنہ سے مرفوعاً روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:
(ترجمہ) ’’جو اللہ تعالیٰ کی رضا کے لئے محبت کرتا ہے، اس کے لئے بغض رکھتا ہے، اسی کے لئے خیرات دیتا اور اسی کے لئے روکتا ہے، اس کا ایمان مکمل ہو گیا‘‘۔
دنیوی غرض سے ایک دوسرے سے میل ملاپ بجائے فائدہ کے الٹا نقصان دے ہوتا ہے، اس کی وضاحت قرآن کریم میں موجود ہے؛ اللہ تعالیٰ فرماتا ہے:
(ترجمہ) ’’وہ دن جب آئے گا تو متقین کو چھوڑ کر باقی سب دوست ایک دوسرے کے دشمن ہو جائیں گے‘‘۔ (الزخرف:۷۶) ۔
دنیوی اغراض کی بنا پر ایک دوسرے سے لین دین اور دوستی ایک فتنہ ہے۔ سیدنا ابن عباس رضی اللہ عنہ کے دَور میں، جو بالاتفاق خیر القرون کہلاتا ہے، یہ بات مصیبت کا باعث بن گئی تھی اور آج تک اس میں اضافہ ہی ہو رہا ہے اور اب تو نوبت بایں جا رسید کہ شرک و بدعت، فسق و فجور اور اللہ تعالیٰ کی نافرمانی کی بنیاد پر دوستیاں قائم کی جارہی ہیں اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا مندرجہ ذیل ارشاد حرف بحرف صادق آ رہا ہے کہ:
’’اسلام اپنے ابتدائی دَور میں اوپر اور اجنبی کی حیثیت میں تھا اور اس پر وہی اجنبیت کا دَور پھر لوٹ آئے گا‘‘۔(مسلم، ابن ماجہ، ترمذی)۔
مہاجرین و انصار، تمام صحابہء رسول رضی اللہ عنہ اور سیدنا ابوبکر رضی اللہ عنہ اور سیدنا عمر رضی اللہ عنہ کے دورِ خیر القرون میں سب کی یہ حالت تھی کہ صرف اللہ تعالیٰ کی محبت اور اس کا قرب حاصل کرنے کے ئے اپنی خاص اور اشد ضرورت کے باوجود دوسروں کو ترجیح دیتے تھے۔ اس کا نقشہ قرآن کریم نے ان الفاظ میں کھینچا ہے کہ
(ترجمہ) ’’اور اپنی ذات پر دُوسروں کو ترجیح دیتے ہیں خواہ اپنی جگہ خود محتاج ہوں‘‘۔ (الحشر:۹)۔
سیدنا عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہ ، صحابہ کرام رضی اللہ عنہم کے اس وصف کو بیان کرتے ہوئے فرماتے ہیں کہ:
’’رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے دَور میں ہم سب لوگ اپنے درہم و دینار کے بارے میں اپنے آپ سے اپنے دُوسرے مسلمان بھائیوں کو زیادہ حقدار سمجھتے تھے‘‘ (ابن ماجہ)۔
وَقَالَ ابْنُ عَبَّاسٍ فِیْ قَوْلِہٖ تَعَالٰی وَ تَقَطَّعَتْ بِھِمُ الْأَسْبَابٌ قَالَ الْمَوَدَّۃ
سیدنا ابن عباس رضی اللہ عنہ نے اس آیت کہ ’’ اور ان کے اسباب وسائل کا سلسلہ کٹ جائے گا ‘‘۔ کی یہ تفسیر کی ہے کہ اسباب کے معنی دوستی اور تعلقات ہیں ۔
سیدنا ابن عباس رضی اللہ عنہ کے اس قول کو عبد بن حمید، ابن جریر، ابن المنذر، ابن ابی حاتم اور حاکم نے بھی نقل کیا ہے اور حاکم نے اس کو صحیح قرار دیا ہے۔ معنی یہ کہ دُنیاوی محبت اور دوستی قیامت کے دن ان کو کوئی فائدہ نہ دے سکے گی جبکہ میدانِ محشر میں اُن کو اس دوستی کی اشد ضرورت ہو گی۔ بلکہ وہاں تو ایک دُوسرے سے بیزاری اور قطع تعلق کا اظہار کریں گے۔ ان کی اس حالت کو اللہ تعالیٰ ان الفاظ میں بیان فرماتا ہے کہ:
(ترجمہ) ’’اور اس نے کہا تم نے دُنیا کی زندگی میں تو اللہ کو چھوڑ کر بتوں کو اپنے درمیان محبت کا ذریعہ بنا لیا ہے مگر قیامت کے روز تم ایک دوسرے کا انکار اور ایک دوسرے پر لعنت کرو گے اور آگ تمہارا ٹھکانہ ہو گی اور کوئی تمہارا مددگار نہ ہو گا‘‘۔ (العنکبوت:۲۵)۔
قرآنِ کریم کی آیت: اِذْ تَبَرَّاَ الَّذِیْنَ اتَّبَعُوْا مِنَ الَّذِیْنَ اتُّبِعُوْا وَرَاَوُ الْعَذَابَ کی تشریح میں علامہ ابن قیم رحمہ اللہ لکھتے ہیں:
’’پیشوا ہدایت یافتہ اور سیدھے راستے پر تھے اور ان کی اتباع اور پیروی کرنے والوں نے دعویٰ تو یہ کیا کہ ان کے نقش قدم پر چلتے اور ان کی پیروی کرتے ہیں لیکن صورتِ حال اس کے بالکل برعکس تھی۔ یہ رات دن اِن کی مخالفت کرتے اور بدعملی کا شکار رہے اور صرف زبانی محبت اور دوستی کو یہ سمجھ بیٹھے کہ اس سے ہمیں فائدہ ہو گا۔ قیامت کے روز اِن ہی بدعملوں سے وہ لوگ اپنی برات اور لا تعلقی کا علی الاعلان اظہار کریں گے کیونکہ ان لوگوں نے اللہ تعالیٰ کو چھوڑ کر دوسروں کی محبت کا دعویٰ کیا تھا۔ یہی صورتِ حال ہر اُس شخص سے پیش آئے گی جو غیر اللہ کو اپنا ولی اور دوست بناتا ہے، غیر اللہ کی وجہ سے دشمنی اور دوستی کرتا ہے۔ بغض و عناد کا معیار بھی غیر اللہ کی محبت ہوتا ہے۔ اس قسم کے تمام اعمال باطل ہیں اور قیامت کے دن یہی اعمال حسرت اور مایوسی کا ذریعہ ثابت ہوں گے کیونکہ اس بدنصیب شخص نے بڑی ہی محبت اور کدوکاوش سے اور تکلیفیں اٹھا کر یہ اعمال انجام دیئے تھے لیکن وہ اپنی دوستی اور دشمنی، محبت و عداوت اور دوسروں کی امداد و اعانت غیر اللہ کے لئے کرتا رہا، اور اس نے اللہ تعالیٰ اور اس کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کی رضا اور اطاعت کو پس پشت ڈال دیا تھا جس کی وجہ سے اللہ تعالیٰ نے اس کے تمام اعمال کو لغو اور باطل قرار دے دیا اور تمام اسباب جو غیر اللہ کی رضا کے لئے تھے سب توڑ دیئے گئے۔ پس ہر وہ ذرائع اور اسباب و وسائل جو غیر اللہ کی بنیاد پر ہوں گے منقطع ہو جائیںگے اور صرف ایک ہی سبب باقی اور قائم رہے گا جو صرف اللہ تعالیٰ اور بندے کے درمیان ہو گا اور وہ یہ ہے کہ انسان تمام منہیات (منع کردہ اُمور) کو چھوڑ کر اللہ تعالیٰ اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی پیروی اور اِتباع اپنے اوپر لازم قرار دے لے اور تمام قسم کی عبادات کو اللہ تعالیٰ کی رضا اور خوشنودی کے لئے سرانجام دے، جیسے محبت اور عداوت، دوستی، دشمنی اور صدقات و خیرات، کسی سے قرب و بُعد حتی کہ اگر کسی کو کچھ نہ دے تو وہ بھی اللہ کی رضا کے لئے ہو اور تمام چھوٹے اور بڑے لوگوں کی اتباع اور پیروی کو چھوڑ کر صرف رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی اتباع اور پیروی اختیار کرے اور کسی کی طرف آنکھ اٹھا کر بھی نہ دیکھے چہ جائیکہ کسی کو مقامِ نبوت میں ان کا شریک بنائے اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے ارشاد پر کبھی بھی کسی دوسرے شخص کے قول کو ترجیح نہ دے، یہ وہ سبب ہے جو کبھی بھی منقطع نہ ہو گا۔ اللہ اور بندے کے درمیان یہی وہ نسبت ہے جسے کوئی منقطع نہیں کر سکتا۔ عبدیت کا یہی وہ مقام ہے جو اللہ کو انتہائی پسند اور محبوب ہے اور وہ ہے خالص عبودیت کی نسبت اور یہی اس کی خوراک کی جگہ ہے۔ وہ اسی کے اِرد گرد گھومتا ہے اور اسی کی طرف لوٹتا ہے اور یہ نسبت اس وقت تک حاصل نہیں ہو سکتی جب تک کہ انسان رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی من کل الوجوہ پیروی، اتباع اور فرمانبرداری نہ کرے کیونکہ عبدیت کا یہ مقام انبیائے کرام کے واسطے سے لوگوں کو حاصل ہوتا ہے اور اس کی پہچان اور معرفت بھی انبیاء کی زبان سے ہوئی۔ لہٰذا اِس عبدیت کے اعلیٰ اور ارفع مقام تک رسائی بھی انبیائے کرم کی اِتباع کے بغیر ممکن نہیں چنانچہ اللہ تعالیٰ ارشاد فرماتا ہے کہ: (ترجمہ) ’’اور جو کچھ بھی اُن کا کیا دھرا ہے اُسے لے کر ہم غبار کی طرح اڑا دیں گے‘‘۔ (الفرقان:۲۳)۔ یہ اُن اعمال کے بارے میں فرمایا گیا ہے جو خلافِ سنت کئے گئے تھے اور اللہ تعالیٰ کی رضا کے لئے نہ تھے۔ ہر ایسے عمل کو، خواہ وہ پہاڑ سے بھی بڑا اور وزنی ہو، اس کو اللہ تعالیٰ ذرّوں کی طرح ہوا میں اُڑا دے گا اور صاحب ِ عمل کو اس کا قطعاً کوئی فائدہ حاصل نہ ہو سکے گا۔ قیامت کے روز تمام حسرتوں اور ناکامیوں میں سب سے بڑی حسرت یہ ہو گی کہ انسان اپنی پوری پونجی، کامل محنت اور کدوکاوش سے کمائی ہوئی دولت کو ضائع اور برباد دیکھے خصوصاً جب وہ یہ دیکھے گا کہ کوشش کرنے والے اپنی کوشش میں کامیاب ہو گئے‘‘۔
فیہ مسائل
٭ اپنے اہل وعیال ، مال ودولت ، حتی کہ اپنی جان سے بھی رسول اﷲ صلی اللہ علیہ وسلم سے محبت کا وجوب۔ ٭کسی وقت ایمان کی نفی کی جائے تو اس کا یہ مطلب نہیں ہوتا کہ وہ شخص دائرہ اسلام سے خارج ہوجاتا ہے۔ ٭ایمان کی حلاوت ضرور ہے لیکن کبھی انسان محسوس کرتاہے ۔ اور کبھی نہیں کرتا ۔ ٭یہ چار اعمال قلب ایسے ہیں جن کے بغیر انسان اﷲ کی محبت حاصل نہیں کرسکتا اور نہ ہی ان کے بغیر ایمان کا ذائقہ چکھ سکتا ہے ۔ ٭صحابہ کرام کا یہ محسوس کرنا کہ لوگوں کا زیادہ تر میل ملاپ صرف دنیا کی خاطر ہے ۔ ٭بعض مشرک بھی ایسے ہوتے ہیں جو اﷲ تعالیٰ سے بے انتہا محبت کرتے ہیں ۔ ٭مندرجہ آٹھ اشیاء جس کو دین سے زیادہ پیاری ہوں اس کو سخت وعید اور سزا سنانا ۔ ٭ کسی شخص کا اپنے باطل معبود سے اﷲ تعالیٰ کی محبت کے برابر محبت رکھنا ہی شرک ِ اکبر کہلاتا ہے
 

محمد نعیم یونس

خاص رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
اپریل 27، 2013
پیغامات
26,582
ری ایکشن اسکور
6,748
پوائنٹ
1,207
خوف الٰہی
بابُ :قول اﷲ تعَالیٰ اِنَّمَا ذَالِکُمُ الشَّیْطَانُ یُخَوِّفُ اَوْلِیَاءَ ہٗ فَلَا تَخَافُوْھُمْ وَ خَافُوْنِ اِنْ کُنْتُمْ مُّؤْمِنِیْنَ

شریعت اِسلامیہ میں خوف الٰہی کو افضل و اہم ترین مقام حاصل ہے اور عبادات میں اس کو مرکزیت حاصل ہے لہٰذا خوف و خشیت صرف اللہ تعالیٰ سے ہونی چاہیئے اس باب میں اسی پر سیر حاصل بحث ہوگی۔ ان شاء اللہ
اِنَّمَا ذٰلِکُمُ الشَّیْطٰنُ یُخَوِّفُ أَوْلِیَاءَ ہ فَلاَ تَخَافُوْھُمْ وَ خَافُوْنِ اِنْ کُنْتُمْ مُّؤْمِنِیْنَ
اب تمہیں معلوم ہو گیاکہ وہ در اصل شیطان تھا جو اپنے دوستوں سے خواہ مخواہ ڈرا رہا تھا لہٰذا آئندہ تم انسانوں سے نہ ڈرنا، مجھ سے ڈرنا اگر تم حقیقت میں صاحبِ ایمان ہو۔(اٰل عمران : ۱۷۵)
شریعت اسلامیہ میں خوفِ الٰہی کو افضل و اہم ترین مقام حاصل ہے اور عبادات میں اس کو مرکزی حیثیت حاصل ہے خوف و خشیت، صرف اللہ سے ہونی چاہیے۔ جیسا کہ مندرجہ ذیل آیاتِ بینات سے واضح ہے:
(ترجمہ) ’’اور وہ اس کے خوف سے ڈرے رہتے ہیں‘‘۔(الانبیاء: ۲۸)۔ ’’اپنے رب سے جو ان کے اوپر ہے ڈرتے ہیں‘‘۔(النحل: ۵۰)۔ ’’اور جو اپنے رب کے سامنے کھڑا ہونے سے ڈرے اس کے لئے دو باغ ہیں‘‘۔(الرحمٰن: ۴۶)۔ ’’سو تم خاص مجھ ہی سے ڈرتے رہو‘‘۔(النحل: ۵۱)۔(اے گروہِ یہود!)’’تم لوگوں سے نہ ڈرو بلکہ مجھ سے ڈرو‘‘۔(المائدہ: ۴۴)۔
اس موضوع پر بے شمار آیاتِ قرآن موجودہیں۔
خوف کی تین قسمیں ممکن ہیں۔
اول…سری اور پوشیدہ خوف: وہ یہ کہ انسان غیراللہ مثلاً وثن اور طاغوت وغیرہ کے شر سے خوف کھائے جیسا کہ قوم ہود نے جناب ہود علیہ السلام سے کہا تھا ۔ کہ
(ترجمہ) ’’ہم تو یہ سمجھتے ہیں کہ تیرے اوپرہمارے معبودوںمیں سے کسی کی مار پڑگئی ہے۔ ہود نے کہا۔ ’’میں اللہ کی شہادت پیش کرتا ہوں اور تم گواہ رہو کہ یہ جو اللہ کے سوا دوسروں کو تم نے خدائی میں شریک ٹھہرارکھاہے، اس سے میں بے زار ہوں۔ تم سب کے سب مل کر میرے خلاف اپنی کرنی میں کسرنہ اٹھا رکھو اور مجھے ذرا مہلت نہ دو‘‘۔(ھود: ۵۴ ۔۵۵)۔
ایک مقام پر ارشادہوا:
(ترجمہ) ’’یہ لوگ اس کے سوا دوسروں سے تم کو ڈراتے ہیں۔(الزمر: ۳۶)
خوف کی یہی وہ صورت ہے جو قبر پرستوں اور غیراللہ کی عبادت کرنے والوں میں پائی جاتی ہے قبرپرست خود بھی ان سے ڈرتے اور خوف کھاتے ہیں۔ اہلِ توحید کو بھی جب کہ وہ ان کی عبادت سے انکارکرتے ہیں اور خالص اللہ کی عبادت کی دعوت دیتے ہیں تو یہ ڈرانے کی کوشش کرتے ہیں۔ خوف کی یہ قسم توحیدِ خالص کے سَراسَر منافی ہے۔
الثانی نمبر۲… خوف کی دوسری قسم یہ ہے کہ انسان بعض لوگوں سے ڈرکر ایسے امور کو چھوڑدے جن پرعمل کرنا واجب اور ضروری ہے… یہ خوف قطعی طور سے حرام ہے خوف کی یہ صورت وہ شرک ہے جو کمالِ توحید کے منافی ہے… زیر نظر آیت کریمہ کے نازل ہونے کا سبب بھی یہی خوف تھا۔ قرآنِ کریم نے اس خوف کو ان الفاظ میں بیان کیاہے:
(ترجمہ) ’’اور وہ جن سے لوگوں نے کہا کہ تمہارے خلاف بڑی فوجیں جمع ہوئی ہیں ان سے ڈرو‘‘۔ تو یہ سن کران کا ایمان اور بڑھ گیا اور انہوں نے جواب دیا کہ ہمارے لیے اللہ ہی کافی ہے اور وہی بہترین کارسازہے۔ آخر کار وہ اللہ تعالیٰ کی نعمت اور فضل کے ساتھ پلٹ آئے ان کو کسی قسم کا ضرر بھی نہ پہنچا اور اللہ کی رضا پر چلنے کاشرف بھی انہیں حاصل ہوگیا۔ اللہ بڑا فضل فرمانے والا ہے۔ اب تمہیں معلوم ہوگیا کہ وہ دراصل شیطان تھاجو اپنے دوستوں سے خواہ مخواہ ڈرا رہاتھا۔ لہٰذا آئندہ تم انسانوں سے نہ ڈرنا۔ مجھ سے ڈرنا اگر تم حقیقت میں صاحبِ ایمان ہو‘‘۔(آل عمران: ۱۷۳۔۱۷۴۔۱۷۵)
ایک حدیث میں ہے کہ اللہ تعالیٰ قیامت کے روز اپنے بندے سے سوال کرے گا:
’’جب تم نے برائی کو دیکھاتو اسے بدلنے کی کوشش کیوں نہ کی؟ بندہ جواب دے گا، اے میرے رب، لوگوں کے ڈر کی وجہ سے۔ اللہ تعالیٰ فرمائے گا کہ میں ہی اس کامستحق تھا کہ تو مجھ سے ہی ڈرتا‘‘۔
ثالث نمبر۳……الخوف الطبیعی: اس کی صورت یہ ہے کہ انسان کسی زبردست دشمن یا کسی جنگلی درندے وغیرہ سے وقتی طورپرخوف کھاجائے۔خوف کی یہ قسم مذموم نہیں ہے۔ جیسا کہ سیدنا موسیٰ علیہ السلام کے بارے میں اللہ تعالیٰ فرماتاہے کہـ:
(ترجمہ) ’’وہ ڈرے اور سہمے ہوئے نکل کھڑے ہوئے‘‘۔(القصص: ۲۱)
اِنَّمَا ذٰلِکُمْ الشَّیْطٰنُ یُخَوِّفُ اَوْلِیَاءَ ہٗ کا مطلب یہ ہے کہ شیطان تم کو اپنے دوستوں سے خوف زدہ کرتاہے اور فَلاَ تَخَافُوْھُمْ وَخَافُوْنِ میں اللہ کی طرف سے مومنوں کے لئے غیراللہ سے خوف زدہ ہونے کی نہی فرمائی گئی ہے۔ اس میں در حقیقت یہ حکم دیا گیا ہے کہ وہ اپنے لئے خوف و خطرکے حدودکو صرف اللہ تعالیٰ کی ذاتِ اقدس تک محدود رکھیں اور اپنی ذات پر فقط اسی سے ڈرنے کی کیفیت طاری رکھیں۔ یہی وہ اخلاص ہے جس کو دلوں میں جاگزین کرنے کا اللہ تعالیٰ نے اپنے بندوںکو حکم دیا ہے اور اسی کو پسند فرمایا ہے جب وہ خوف و خطر اور اپنی تمام عبادات اللہ تعالیٰ کے لئے مخصوص کردیں گے تو وہ ان کو ایسی چیزوں سے بہرہ ور کردے گاجوان کی توقعات کے دائرہ سے بالکل باہر ہوں گی اور ان کو دنیا وآخرت کے خطرات سے قطعی طور پر محفوظ رکھے گا۔ جیسا کہ اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے کہ: اَلَیْسَ اﷲُ بِکَافٍ عَبْدَہٗ۔
(کیا اللہ اپنے بندے کیلئے کافی نہیں)۔
علامہ ابن قیم رحمہ اللہ فرماتے ہیں کہ:
’’اللہ تعالیٰ کے دشمن کا سب سے بڑا فریب یہ ہے کہ وہ مومنوں کو اپنے لاؤ لشکر سے ڈرانے اور مرغوب کرنے کی پوری کوشش کرتاہے تاکہ وہ جہاد جیسے عظیم الشان عمل سے رک جائیں، امر بالمعروف و نہی عن المنکر جیسے رفیع الشان وظیفہ حیات سے اپنی زبانوں کو بند رکھیں۔ چنانچہ اللہ تعالیٰ نے زیر بحث آیت کریمہ میں یہ بات واضح فرمائی ہے کہ یہ شیطانی فریب ہے۔ ایسانہ ہو کہ تم اس کے جال میں آجاؤ۔ علامہ موصوف فرماتے ہیں کہ تمام مفسرین کے نزدیک اس آیت کا یہی معنی ہے کہ شیطان اپنے ساتھیوں سے مسلمانوں کو ڈراتا اور دھمکاتاہے‘‘۔
قتادہ رحمہ اللہ فرماتے ہیں، آیت کا معنی یہ ہے کہ:
’’مسلمانوں کے دلوں میں ابلیس اپنے لشکر کے بہت عظیم اور بھاری ہونے کا وسوسہ پیداکرتاہے۔ اگرانسان کا ایمان قوی اور مضبوط ہوگا تو یہ خوف اس کے دل میں پیدا نہیں ہو گا۔ اور اگر کوئی کمزورایمان والاشخص ہے تو ڈر جائے گا‘‘۔
پس اس آیت سے معلوم ہوا کہ صرف اللہ تعالیٰ سے ڈرنا اور خوف کھانا کامل ایمان کی شروط میں سب سے بڑی شرط ہے۔
قول اﷲ تعالیٰ اِنَّمَا یَعْمُرُ مَسٰجِدَ اﷲِ مَنْ اٰمَنَ بِاﷲِ وَ الْیَوْمِ الأٰخِرِ وَ أَقَامَ الصَّلٰوۃَ وَ أٰتَی الزَّکوٰۃَ وَ لَمْ یَخْشَ اِلاَّ اﷲَ فَعَسٰیٓ أُولٰٓئِکَ أَنْ یَّکُوْنُوْا مِنَ الْمُھْتَدِیْنَ (التوبۃ: ۱۸)
اللہ کی مسجدوں کوآباد کرنے والے وہی لوگ ہوسکتے ہیں جو اللہ تعالیٰ اور روزِ آخر کومانیں اور نمازقائم کریں، زکوٰۃ دیں اور اللہ کے سوا کسی سے نہ ڈریں۔ ان ہی سے توقع ہے کہ یہ سیدھی راہ پر چلیں گے۔
اس آیت کریمہ میں اللہ تعالیٰ نے یہ بتایاہے کہ تعمیر مساجد میں وہی لوگ حصہ لیتے ہیں جن کے دلوں میں ایمان کی دولت و دیعت کی گئی ہے اور ان کا آخرت پر یقین کامل ہے۔ ان کا ایمان دل کے ہر گوشے میں پیوست ہوتاہے، وہ ظاہری اعضا سے اعمالِ صالحہ انجام دیتے ہیں اور کسی طاغوتی قوت سے نہیں ڈرتے۔ان ہی صفات کے حامل لوگوں سے تعمیر مساجد کا عمل معرضِ ظہور میں آتاہے اور مشرک اس عمل سے دوربھاگتے ہیں تعمیر مساجد میں اللہ تعالیٰ کی اطاعت، رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی اتباع، اور اعمالِ صالحہ کی روح کار فرما ہوتی ہے۔ اگر کبھی مشرکین کے ہاتھوں سے ایسا عمل ظاہر ہوجائے تو اس کی حیثیت ایسے ہوتی ہے جیسے:
(ترجمہ) ’’دشتِ بے آب میں سراب کہ پیاسا اس کو پانی سمجھے ہوئے تھا مگر جب وہاں پہنچا تو کچھ نہ پایا‘‘۔(النور:۳۹)یاان کے اعمال کی مثال: (ترجمہ) ’’اس راکھ کی سی ہے جسے ایک طوفانی دن کی آندھی نے اڑادیاہو۔(ابراہیم: ۱۸)
جن بدنصیب لوگوں کے اعمال کی حیثیت بطور نتیجہ کے یہ ہو، اس سے تو بہتریہ ہے کہ عمل کیا ہی نہ جائے۔پس تعمیر مساجد جیسا عظیم الشان عمل جس کا تعلق توحید خالص اور عملِ صالح سے ہے اور شرک وبدعت کی ملاوٹ سے یہ عمل بالکل پاک و صاف ہے، وہ ایمان مطلق میں داخل ہے۔ اہل سنت و الجماعۃ کا یہی عقیدہ ہے۔
ابن عطیہ رحمہ اللہ فرماتے ہیں:
’’تعظیم غیراللہ، عبادتِ غیراللہ اور اطاعت غیراللہ، سے ڈرنا مراد ہے کیونکہ انسان فطرتاً دنیوی خطرات سے ڈرجاتاہے۔ پس اسے چاہیے کہ وہ تمام امور میں قضا و قدر اور اس کے تصرفات سے اللہ تعالیٰ سے ڈرتارہے‘‘۔
علامہ ابن قیم رحمہ اللہ فرماتے ہیں کہ:
’’خوف دل کی عبادت ہے اور یہ صرف اللہ تعالیٰ ہی کے لئے مخصوص رہنی چاہیئے۔ وہ اعمال جن کا تعلق صرف دل سے ہے، درج ذیل ہیں: عاجزی، رجوع، محبت، توکل اور امید‘‘۔
قولہٗ فَعَسٰیٓ أُولٰٓئِکَ أَنْ یَّکُوْنُوْا مِنَ الْمُھْتَدِیْنَ ابن ابی طلحہ، سیدنا ابن عباس رضی اللہ عنہ سے اس کا ترجمہ یوں نقل کرتے ہیں کہ:
’’یہی لوگ ہدایت پرہیں‘‘۔
قرآن میں جہاں بھی عسیٰ کا لفظ آیا ہے اس کا واقع ہونا لازمی ہے۔ایک موقع پر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا:
’’جب تم کسی شخص کو دیکھو کہ وہ مسجد میں آتاجاتارہتاہے تو اس کے ایمان دار ہونے کی شہادت دو‘‘۔
کیونکہ اللہ تعالیٰ کا فرمان ہے:
اللہ کی مسجدوں کو آباد کرنے والے وہی لوگ ہوسکتے ہیں جو اللہ تعالیٰ اور روزِ آخرت کومانیں۔
(رورہ احمد، والترمذی، والحاکم، عن ابی سعید الخدریرضی اللہ عنہ )
قول اﷲ تعالیٰ وَمِنَ النَّاسِ مَنْ یَّقُوْلُ اٰمَنَّا بِاﷲِ فَإِذَآ أُوْذِیَ فِی اﷲِ جَعَلَ فِتْنَۃَ النَّاسِ کَعَذَابِ اﷲِ (العنکبوت: ۱۰)
لوگوں میں سے کوئی ایسا ہے جو کہتا ہے کہ ہم ایمان لائے اللہ پر، مگر جب وہ اللہ کے معاملہ میں ستایا گیا تو اس نے لوگوں کی ڈالی ہوئی آزمائش کو اللہ تعالیٰ کے عذاب کی طرح سمجھ لیا۔
اس آیت کریمہ کی تفسیر میں حافظ ابن کثیر رحمہ اللہ فرماتے ہیں:
’’اس آیت میں اللہ تعالیٰ نے اس جھٹلانے والی قوم کی صفات بیان کی ہیں جو صرف زبان سے ایمان کا دعویٰ کرتے ہیں۔ لیکن ان کے دل ایمان کی دولت سے بالکل خالی ہیں۔ دنیا میں جب ایسے لوگ مصائب و مشکلات اور محنت و مشقت میں پڑجاتے ہیں تو یہ سمجھتے ہیں کہ یہ ان پراللہ تعالیٰ کا عذاب نازل ہواہے۔ چنانچہ یہ لوگ مُرتد ہوجاتے ہیں‘‘۔
سیدنا ابن عباس رضی اللہ عنہ اس آیت کا ترجمہ یوں بیان فرماتے ہیں کہ :
’’ایسے افراد کو جب معمولی سی محنت و مشقت سے دو چار ہونا پڑتا ہے تو وہ ارتداد کے فتنے میں مبتلا ہوجاتے ہیں‘‘۔
علامہ ابن قیم رحمہ اللہ فرماتے ہیں:
’’اللہ کریم نے جب سے انبیاء کی بعثت کا سلسلہ شروع کیا ہے اس وقت سے لے کر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم تک کے پورے دور میں عام لوگ دو فرقوں میں تقسیم ہوگئے۔ ایک وہ جنہوں نے انبیاء کی دعوت کو قبول کرلیا۔ دوسرے وہ جنہوں نے انبیاء کی دعوت کا انکارکردیا اور کفرو شرک اور گناہوں پراصرار کرتے رہے۔ جن لوگوں نے انبیاء کی دعوت پر لبیک کہا، اللہ تعالیٰ نے ان کا زبردست امتحان لیا، ان کومختلف مصائب و مشکلات سے گذرنا پڑا اور ان کو خاص طور پر فتنوں اور آزمائشوں میں مبتلا کیا گیا تاکہ سچے اور جھوٹے میں امتیاز پیدا ہوجائے۔ جو شخص اللہ پر ایمان نہیں لاتا، اس کے متعلق یہ قطعاً خیال نہیں کیاجاسکتا کہ وہ اللہ کو عاجزکرسکتاہے یا اس سے سبقت لے جا سکتاہے۔ البتہ جو شخص پیغمبروں پر ایمان لے آیا اور ان کی اطاعت کا دم بھرا تو اس کے دشمن اس سے اظہار عداوت کریں گے۔ اس کو اذیتیں پہنچائیں گے اور اس قسم کے ابتلا میں ڈالیں گے جو اس کے لئے تکلیف کا باعث بنے۔ جو شخص اللہ کے رسولوں پرایمان نہیں لاتا اور ان کی اطاعت نہیں کرتا، اس کو دنیا اور آخرت میں سزادی جائے گی اور ایسی چیزیں اس کے لئے پیدا کی جائیں گی جو اس کو اذیت پہنچانے کا باعث بن سکتی ہوں۔اتباعِ الٰہی سے گریز کرنے والوں کی بدنصیبی یہ ہے کہ وہ اتباع کو بہت بڑے الم اور عظیم اذیت سے تعبیرکرتے ہیں۔ مگر یہ الم ان کے لئے عظیم تر اور ہمیشہ رہنے والا ہوگا اور ان کی اتباع کی فرضی الم انگیزیوں سے اس کی اذیت کا دائرہ زیادہ وسیع ہوگا۔پس جن لوگوں نے انبیاء کی دعوت کو قبول کیا اور ان کی اطاعت و فرمانبرداری میں زندگی گذارنے لگے تو مخالفین نے ان کو طرح طرح کی اذیتیں دیں اور ان سے انتہائی وحشیانہ سلوک روارکھا…اللہ تعالیٰ کی سنت ابتدائے آفرینش سے یہ چلی آرہی ہے کہ کوئی شخص ایمان باللہ کااعلان کرتا ہے یا نہیں کرتا، اس دارِ دنیا میںبہرحال اسے مصائب و مشکلات سے ضرور گزرنا پڑتاہے۔ لیکن مومنین کو ابتدا میں اس دارِ فانی میں مصیبت اورتکلیف تو ضروراٹھانی پڑے گی البتہ آخرت کی بازی وہ جیت جائیں گے اور عاقبت کی خوشیاںان ہی کے حصہ میں آئیں گی۔ رہے وہ لوگ جنہوں نے انبیاء کی دعوت کو ٹھکرادیا اور ان کی مخالفت میں زندگی برباد کر بیٹھے، ان کو بھی اس فانی دنیا مصائب و مشکلات سے گزرنا پڑے گا۔ ایسے لوگوں کو ابتدا میں تو لذت اور خوشی محسوس ہوتی ہے لیکن آخرت کا عذاب اور جہنم کی بھڑکتی ہوئی آگ ان کے حصے میں آئے گی۔ وہ ایسا عذاب ہے جو ختم ہونے والانہیں ہے۔
اس عارضی دنیا میں انسان کے لئے ضروری ہے کہ وہ لوگوں میں مل جل کررہے۔ ہر شخص کے ارادے اورتصورات مختلف ہوتے ہیں اور ہر شخص کی یہ خواہش ہوتی ہے کہ لوگ اس کی بات کو اولیت کا درجہ دیں۔ جو شخص ان کا ساتھ نہیں دیتا اسے مختلف قسم کی مشکلات میں ڈال دیا جاتا ہے اور جو شخص ان کی ہاں میں ہاں ملاتا ہے اسے بھی مشکلات کا سامنا کرنا پڑتاہے، کبھی اپنوں سے اور کبھی غیروں سے۔ بطور مثال کے ایک دین دار اور متقی شخص ہی کو لے لیجئے۔ جو فاسق و فاجر اور ظالم قوم میں زندگی گزار رہا ہو۔ایساشخص ان کے ظلم و ستم سے ہرگزنہیں بچ سکتاالبتہ اگر ان کی موافقت کرلے یا خاموشی اختیار کر لے ابتداء ً تو ان کے ظلم و ستم سے محفوظ رہے گا لیکن بالآخر یہ شخص ان کے جس ظلم اور زیادتی سے بچنا چاہتا تھا اس کا شکارہوکررہے گا۔ اور اگر بالفرض ان کے شرسے محفوظ بھی رہے تو دوسرے لوگوں کے ظلم کا نشانہ بنے بغیر نہیں رہ سکتا۔
اُم المومنین عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہا کے اس ارشاد گرامی کو جو انہوں نے سیدنا معاویہ رضی اللہ عنہ سے فرمایا تھا، مضبوطی سے تھام لینا چاہیے اور حرزجان بنالینا چاہیئے۔ سیدہ صدیقہ رضی اللہ عنہا فرماتی ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ:
’’جو شخص لوگوں کو ناراض کرکے اللہ کو راضی کرلے تو اس کی تمام ضروریات کا اللہ تعالیٰ خود کفیل ہوجاتا ہے۔اور جو شخص اللہ تعالیٰ کو ناراض کرکے لوگوں کو خوش کرنے کی کوشش کرتا ہے تو وہ اللہ کے نزدیک اس کی کفایت نہ کر سکیں گے‘‘۔ (ترمذی)
پس جس خوش نصیب کو اللہ تعالیٰ ہدایت عطا فرمائے، بھلائی و کامیابی کا راستہ اس کے سامنے ظاہرکردے اور مخالفین کے شرسے اس کو محفوظ رکھے تو وہ محرمات میں ان کی موافقت نہیں کرے گا اور ان ظالموں کے ظلم و ستم کو خندہ پیشانی سے برداشت کرتاچلاجائے گا۔ یہاں تک کہ دنیا اور آخرت کی کامیابی اس کے قدم چوم لے گی۔ جیساکہ انبیاء اور ان کی اتباع کرنے والوں کے ساتھ ہوتا چلاآیاہے۔
مذکورۃ الصدر دو قسم کے لوگوں کے علاوہ ایک شخص وہ بھی ہے جو بے بصیرتی اور کم عقلی کی بنا پر ایمان کا دعویدار بن بیٹھاہو اگر کسی وقت کسی مصیبت اور مشکل میں پھنس جائے تو اسے وہ ایک فتنہ سمجھتا ہے۔ فتنہ کا مطلب یہ ہے کہ وہ اس آزمائش اور تکلیف کو جو بہرحال انبیاء اور ان کے فرمانبرداروںکو مخالفین کی طرف سے پہنچتی ہے، ایک عذاب سمجھتاہے۔ اس فتنہ کی وجہ سے وہ ایمان سے بھاگتاہے اور اس سبب کوچھوڑدیتاہے جس سے یہ مصیبت دور ہو، جیسے کہ اللہ تعالیٰ کا عذاب کہ مومن ایمان لاکراس سے خلاصی چاہتے ہیں۔
صاحبِ بصیرت، اور خالص مومن تو عذابِ الٰہی سے ڈرکرایمان کی طرف لپکے اور دوڑے اور عارضی مصائب کو برداشت کرنے کے لئے سینہ سپرہوگئے۔
اور یہ کم عقل اور بے بصیرت لوگ انبیائے کرام کے دشمنوں کی عارضی تکلیف سے بچنے کے لئے ان کی موافقت کرنے پر رضا مند ہوگئے اور ان کی ہاں میں ہاں ملانے لگے، ان کی عارضی تکلیف اور جلد ختم ہوجانے والی مصیبت سے بھاگے اور عذابِ الہٰی کی طرف چل پڑے۔ لوگوںکی آزمائش اور فتنہ کو عذابِ الٰہی سمجھ بیٹھے اوربالکل برباد ہوگئے۔ اس ذہن کے حامل لوگ حماقت اور بے وقوفی کا شکار اس طرح ہوگئے کہ گرمی سے بچاؤکی خاطر آگ میں چھلانگ لگادی…چند لمحوں کی تکلیف برداشت کرنے سے تو انکارکردیا لیکن دائمی عذاب کو دعوت دے دی۔ایسے شخص کی حالت یہ ہوتی ہے کہ اگر اللہ تعالیٰ اپنے دوستوں کو غلبہ اور کامیابی سے ہمکنار کرتا ہے، تو یہ شخص فوراً بول اٹھتا ہے کہ میں تو تمہارے ہی ساتھ تھا لیکن ایسا شخص اللہ تعالیٰ کو کیسے دھوکادے سکتاہے؟ وہ اس کے نفاق سے بخوبی آگاہ ہے اور اس کے دل کی دھڑکنوں سے واقف ہے۔
اس آیت کریمہ میں فرقہ مرجئہ اور کرامیہ کی تردید بھی ہوگئی۔ تردید کی صورت یہ ہے کہ جو لوگ صرف زبانی ایمان لائے اور مشکلات پر صبرنہ کیا۔ کیونکہ فقط قول اور تصدیق بغیرعمل کے نفع مند نہیں ہوتے۔ شرعی ایمان اس وقت تک صحیح نہیں قرارپاتا جب تک مندرجہ ذیل تین باتیں انسان کے اندرجمع نہ ہوں۔ ۱۔ دل سے تصدیق اور اس پرکاربندرہنا۔ ۲۔ زبان سے اقرار۔ ۳۔ اور اعضاء سے اس پر عمل کرنا۔ سلفِ اُمت اور اہلِ سنت کا یہی مسلک اور یہی عقیدہ ہے۔ واللہ اعلم۔ اس آیت سے یہ مسئلہ بھی واضح ہوا کہ سچی بات کرنے میں مخلوق کی مداہنت سے بچنا چاہیئے اور بچے گاوہی جسے اللہ بچائے۔
وَعَنْ أَبِیْ سَعِیْدٍ رضی اللہ عنہ مَرْفُوْعًا اِنَّ مِنْ ضَعْفِ الْیَقِیْنِ أَنْ تُرْضِیَ النَّاسَ بِسَخَطِ اﷲِ وَأَنْ تَحْمَدَھُمْ عَلٰی رِزْقِ اﷲِ ـ
سیدنا ابو سعید خدری رضی اللہ عنہ سے مرفوعاً روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ
ایمان کی کمزوری یہ ہے کہ اللہ تعالیٰ کو ناراض کرکے لوگوں کو خوش کرے اور اللہ تعالیٰ کے عطا کردہ رزق پر لوگوں کی تعریف کرے۔
ضعف ، کمزوری کو کہتے ہیں۔ اور یقین کامل ایمان کا دوسرا نام ہے سیدنا ابن مسعودرضی اللہ عنہ فرماتے ہیں:
’’یقین پورا ایمان ہے اور صبر آدھا‘‘۔
اس روایت کو ابو نعیم نے حلیۃ الاولیاء میں، اور امام بیہقی رحمہ اللہ نے کتاب الزھد میں سیدنا ابنِ مسعودرضی اللہ عنہ سے مرفوعاً روایت کیا ہے۔
سیدنا ابن عباس رضی اللہ عنہ مرفوعاً روایت کرتے ہیں کہ مجھے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:
’’اگر تم رضا کے ساتھ یقین میں عمل کرنے کی استطاعت رکھتے ہو توکرلو اور اگر اس کی طاقت نہیں رکھتے توجس چیز کو برا سمجھتے ہو اس میں صبر کرنا بہت سی بھلائیوں کا حامل ہے‘‘۔
ایک روایت میں یہ الفاظ ہیں:
’’یا رسول اللہ ! میں یقین کی دولت کیسے حاصل کر سکتاہوں؟ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ تمہارا ایمان یہ ہونا چاہیے کہ جس مصیبت میں تم گرفتار ہووہ بہرحال پہنچنے والی تھی اور جس سے بچ گئے ہو وہ پہنچ نہیں سکتی تھی‘‘۔
حدیث کا مفہوم یہ ہے کہ اللہ تعالیٰ کی رضا پر دوسروں کی رضا کو ترجیح دی جائے یہ چیزاس وقت پیداہوتی ہے جب کسی شخص کے قلب میں اللہ تعالیٰ کی عظمت و بزرگی اور اس کی علوشان کا جذبہ مفقود ہو۔ یہی وہ جذبہ ہے جس سے رَبِّ کریم کو ناراض کرکے مخلوقِ الٰہی کوراضی اور خوش کیا جاتا ہے۔ لیکن حقیقتِ حال یہ ہے کہ اللہ کریم ہی دلوں میں مختلف تصرفات کرتاہے، غم و اندوہ کے حملوں سے انسان کو نجات بخشتا ہے اور اس کی بدکرداریوں کو آنِ واحدمیںختم کردیتا ہے۔ اللہ تعالیٰ کی رضا پر دوسروں کی رضا کو ترجیح دینا شرک کی اقسام میں سے ایک قسم ہے کیونکہ انسان نے اللہ کی رضاپر مخلوق کی رضا کو اہم گردانا۔ ایسے لوگوں کا قرب اس طرح حاصل کیا جس سے اللہ تعالیٰ ناراض ہوتاہے۔
اس ناپسندیدہ عمل سے وہی شخص محفوظ رہ سکتا ہے جسے اللہ محفوظ رکھے،اپنی اطاعت کی توفیق بخشے اور ان صفات جلیلہ کی معرفت تامہ عطا کرے جواس کی ذاتِ کبریا کی عظمت کے قابل ہیں۔ اور ان تمام صفات سے اللہ تعالیٰ کو پاک اور منزہ سمجھے جو اس کے کمال کے منافی ہیں۔ نیز اس کی توحیدِ ربوبیت اور توحیدِ الُوہیت کی معرفت بھی مکمل ہو۔
قولہٗ وَأَنْ تَحْمَدَھُمْ عَلٰی رِزْقِ اﷲِ
یعنی جن لوگوں کے توسط سے رزق کی نعمت میسرآئی ہو، اس نعمت کو ان کی طرف منسوب کرنا، اور ان کی تعریف میں لگے رہنا کیونکہ حقیقت میں تو اللہ تعالیٰ ہی اس نعمت کو عطا کرنے والا ہے اسی نے ان ذرائع سے یہ رزق بہم پہنچایا ہے۔ اور جب وہ چاہتا ہے اس قسم کے خودبخود اسباب مہیافرمادیتا ہے۔ کسی شخص کی تعریف نہ کرنا مندرجہ ذیل حدیث کے مخالف نہیں ہے ’’جو شخص لوگوں کا شکر ادا نہیں کرتا وہ اللہ تعالیٰ کا بھی شکر ادا نہیں کرسکتا‘‘۔ (ابوداؤد، ترمذی، صحیح ابن حبان)۔
لوگوں کا شکر ادا کرنے کی صورت صرف یہ ہوتی ہے کہ ان کے لئے دعا کرے، اس لئے کہ اللہ تعالیٰ نے ان کے ذریعہ سے نعمت عطافرمائی ہے اس کے بدلے میں یا تو دُعائے خیر کی جائے یا اس کا کوئی بہتربدلہ دینے کی کوشش کی جائے۔ جیسا کہ ایک حدیث میں آیا ہے۔ رسول صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ’’جو تمہارے ساتھ بھلائی کرے اس کا بدلہ چکاؤ اگر بدلہ نہ دے سکو تو اس کے لئے اتنی دعا کرو کہ تمہیں یقین ہوجائے کہ تم نے بدلہ چکا دیا ہے‘‘۔ (ابوداؤد، نسائی)۔ اچھے اور معروف عمل کو لوگوںکی طرف اس لحاظ سے منسوب کرنا کہ یہ ذریعہ اور سبب بنے ہیں درست ہے لیکن حقیقت میں یہ اچھا عمل اللہ تعالیٰ ہی کی طرف سے وجود میں آیاہے۔

وَ أَنْ تَذُمَّھُمْ عَلٰی مَا لَمْ یُؤْتِکَ اﷲُ اِنْ رِزَقَ اﷲُ لَا یَجُرُّہٗ حِرْصُ حَرِیْصٍ وَ لَا یَرُدُّہٗ کَرَاھِیَۃ کَارِہٍ ـ
اور جو چیز اللہ تعالیٰ نے نہیں دی اس کی وجہ سے لوگوں کی مذمت کرے۔ یاد رکھو، کہ اللہ تعالیٰ کے رزق کو نہ کسی حریص کی حرص لاسکتی ہے اور نہ کسی ناپسند کرنے والے کی ناپسندیدگی اسے روک سکتی ہے۔
کیونکہ جو چیز تو ان سے طلب کرتا ہے وہ تیرے لئے مقدر نہیں ہے۔ جو چیز تم نے کسی سے مانگی تھی اگر وہ تیرے مقدر میں ہوتی تو تجھے ضرور مل جاتی۔ پس جو شخص یہ سمجھ لے کہ : ۱۔رزق دینے والا۔ ۲۔رزق میں تنگی کرنے والا۔ ۳۔ اسباب اور بغیر اسباب کے رزق مہیا کرنے والا۔ اور بعض اوقات ایسی جگہ سے رزق عطا فرمانے والا جو انسان کے وہم و گمان میں بھی نہ ہو، صرف اللہ تعالیٰ وحدہٗ لا شریک لہٗ ہے، تو ایسا شخص کسی کی نہ تعریف کرے گا اور نہ مذمت بلکہ اپنے دین و دنیا کے تمام اُمور صرف اللہ تعالیٰ کو سونپ دے گا۔
شیخ الاسلام امام ابن تیمیہ رحمہ اللہ فرماتے ہیں کہ:
’’اس حدیث میں لفظِ یقین اللہ تعالیٰ کے احکام کی اطاعت، اور ان انعامات کو جو وہ اپنے فرمانبردار بندوں کو عطا فرمائے گا، شامل ہے۔ نیز یہ لفظ اللہ کی تقدیر اور اس کی تدابیر کو بھی شامل ہے۔ لہٰذا جو شخص اللہ کریم کو ناراض کرکے اور اس کے احکام کی مخالفت کرکے مخلوق الٰہی کو راضی کرنے کی کوشش کرتاہے۔ اس کا صاف مطلب یہ ہوا کہ ایسے شخص کو اللہ کے رزاق ہونے اور اس کے وعدے پر ایمان اور یقین نہیں ہے۔ انسان یہ رویہ اس وقت اختیار کرتا ہے جب وہ لوگوں کے پاس مختلف انعامات دیکھ کران کی طرف مائل ہو جاتا ہے اور حقوق اللہ اور اس کے ارشادات کو پس پشت ڈال دیتاہے۔ اس بے رخی کے دو وجوہ ہوسکتے ہیں۔ ۱۔ ایک یہ کہ جو کچھ لوگوں کے پاس دیکھتا ہے اسے حاصل کرنے کی خواہش کرتاہے۔ ۲۔ دوسرے یہ کہ اللہ تعالیٰ کے وعدے کی سچائی، اس کی نفرت اور تائید پرایمان بالکل کمزور ہے اور دنیا و آخرت میں جو اجر جزیل ملنے والا ہے اس پر اعتماد مفقودہے۔
حقیقت یہ ہے کہ جب کوئی شخص اللہ تعالیٰ کو راضی کرنے کی پوری کوشش کرتاہے تو اللہ تعالیٰ اس کی مدد ضرورکرتاہے۔ اسے رزق بھی فراخی سے ملتا ہے، وہ لوگوں کا دستِ نگر بھی نہیں رہتا۔ اللہ کو ناراض کرکے لوگوں کی خوشی حاصل کرنے کی وجہ صرف یہ ہے کہ وہ لوگوں سے خوف کھاتاہے اور ان سے امیدیں وابستہ رکھتاہے۔ یقین کا یہ انتہائی کمزورپہلو ہے۔ جس چیز کی لوگوں سے امید ہوتی ہے اگر وہ حاصل نہ ہو تو اس کا صاف مطلب یہ ہے کہ تمام امور کی باگ ڈور اللہ تعالیٰ کے ہاتھ میں ہے۔ وہ جو چاہتاہے ہوتا ہے اور جو نہیں چاہتا اس کا ہونا ممکن ہی نہیں۔ ناکامی کی صورت میں لوگوں کی مذمت کرنا بھی یقین اور ایمان کی کمزوری کی علامت ہے۔ اس لئے ہر شخص کو چاہیے کہ وہ نہ کسی سے ڈرے، نہ کسی سے امید باندھے اور نہ اپنے خواہشات کی بناپرکسی کی مذمت کرے کیونکہ محمود وہی شخص ہے جس کی اللہ تعالیٰ اور اس کا رسول صلی اللہ علیہ وسلم تعریف کریں اور مذموم بھی وہی ہے جس کی مذمت اللہ تعالیٰ خود کرے یا اس کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کی زبان سے مذمت بیان کی جائے۔
رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت اقدس میں جب بنی تمیم کا وفد آیا تو وفد کے ایک شخص نے بڑی بے باکی سے کہاکہ ’’اے محمد ! مجھے کچھ نہ کچھ ضرور دیجئے، کیونکہ میرا کسی کی تعریف کرنا باعثِ زینت اور میرا کسی کی مذمت کرنا باعثِ ذِلت ہوتاہے۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا: ’’یہ مقام صرف اللہ تعالیٰ ہی کو حاصل ہے‘‘۔
زیرِ بحث حدیث سے ثابت ہوا، کہ ایمان بڑھتا گھٹتا رہتاہے۔ دوسری بات یہ معلوم ہوئی کہ ایمان میں کمی بیشی ہوتی ہے اور اعمال اور ایمان کا آپس میں گہراتعلق ہے۔
وعن عائشۃ رضی اللہ عنہا أَنَّ رَسُوْلَ اﷲِ صلی اللہ علیہ وسلم قَالَ مَنِ الْتَمَسَ رِضَی اﷲِ بِسَخَطِ النَّاسِ رَضِیَ اﷲُ عَنْہُ وَ أَرْضٰی عَنْہُ النَّاس ـ وَمَنِ الْتَمَسَ رِضَی النَّاسِ بِسَخَطِ اﷲِ سَخَطَ اﷲُ عَلَیْہِ وَ أَسْخَطَ عَلَیْہِ النَّاسَ
ام المومنین سیدہ عائشہ صدیقہرضی اللہ عنہا فرماتی ہیں کہ
رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ جو شخص لوگوں کی ناراضی مول لے کر اللہ تعالیٰ کو راضی کرنا چاہتاہے، اس پر اللہ تعالیٰ راضی ہوجاتاہے اور لوگ بھی خوش ہوجاتے ہیں۔ اور جو شخص اللہ تعالیٰ کو ناراض کرکے لوگوں کی خوشی کا طالب ہوتاہے اس پر لوگ بھی ناراض اور اللہ تعالیٰ بھی ناراض ہوجاتا ہے۔ (ابن حبان)۔
ابن حبان نے مندرجہ بالا الفاظ سے یہی روایت نقل کی ہے، البتہ امام ترمذی رحمہ اللہ نے اہل مدینہ میں سے ایک شخص سے مندرجہ ذیل واقعہ تفصیل سے نقل کیا ہے کہ:
’’سیدنا امیر معاویہ رضی اللہ عنہ نے اُمّ المومنین عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہا کی خدمت عالیہ میں لکھا کہ آپ مجھے کچھ وصیت فرمائیں جو مختصرہو، چنانچہ سیّدۃ عائشہ رضی اللہ عنہا نے اس کا مندرجہ ذیل جواب تحریر فرمایا: ’’تم پر اللہ تعالیٰ کی سلامتی ہو۔ امابعد میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے یہ فرماتے ہوئے سنا ہے کہ جو شخص لوگوں کی ناراضگی مول لے کر اللہ تعالیٰ کی رضا حاصل کرنے کی کوشش کرتا ہے اللہ تعالیٰ لوگوں کی امداد سے اس کو بے پروا کردیتاہے۔ اور جو شخص اللہ تعالیٰ کی ناراضگی مول لے کر لوگوں کی رضا حاصل کرنے کی کوشش کرتاہے اللہ تعالیٰ ایسے شخص کو لوگوں کے ہی سپردکردیتاہے۔والسلام علیک،(رواہ ابونعیم فی الحلیۃ)۔
شیخ الاسلام امام تیمیہ رحمہ اللہ فرماتے ہیں کہـ:
اُمّ المومنین عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہا نے سیدنا معاویہ رضی اللہ عنہ کو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا یہ ارشادگرامی لکھ کر بھیجا: جس نے لوگوں کو ناراض کرکے اللہ کوخوش کیا اللہ اسے لوگوں کی تکالیف سے بچائے گا اورجس نے اللہ کوناراض کرکے لوگوں کو خوش کیا وہ اللہ کے مقابل اس کے کسی کام نہ آسکیں گے۔
حدیث کے مندرجہ بالا الفاظ مرفوعاً بیان کئے گئے ہیں۔
البتہ موقوف حدیث کے الفاظ مندرجہ ذیل ہیں:
’’جس نے لوگوں کو ناراض کرکے اللہ کو خوش کیا، اس سے اللہ بھی راضی ہو جائے گا اور لوگوں کو اس سے راضی کردے گا اور جس نے اللہ کو ناراض کرکے لوگوںکو خوش کیا تو وہی لوگ جو اس کی تعریف کرتے ہیں اس کی مذمت کرنے لگیں گے‘‘۔
رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے ارشاد گرامی کو سامنے رکھ کر سیدہ عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہا نے جس مسئلہ کو واضح فرمایا ہے وہ تفقہ فی الدین کی عظیم الشان مثال ہے۔ کیونکہ جو شخص لوگوں کی ناراضی مول لے کر اپنے اللہ کو منا لیتا اور اس کو راضی کر لیتا ہے تو پھر اللہ تعالیٰ اسے ضائع نہیں کرتا بلکہ اسے شریروں کے ظلم و ستم سے محفوظ فرمالیتاہے اور ایسا شخص اللہ کا صالح بندہ بن جاتا ہے۔ کیونکہ اللہ تعالیٰ صالحین کاہی دوست اور والی ہے، اور وہی اپنے بندے کے لئے کافی اور کارساز ہے وہ خود فرماتاہے: ’’جو کوئی اللہ تعالیٰ سے ڈرتے ہوئے کام کرے گا، اللہ تعالیٰ اس کے لئے مشکلات سے نکلنے کاکوئی راستہ پیداکردے گا اور اسے ایسے راستے سے رزق دیگا جدھر اس کا گمان بھی نہ جاتا ہو‘‘۔
اللہ تعالیٰ بلاشبہ اپنے بندوں کی کفالت کرتاہے۔ جو شخص یہ خیال کرے کہ سب لوگ اس سے راضی اور خوش ہوجائیں تو یہ ناممکن بات ہے۔ لوگ اس وقت تک خوش رہیں گے جب تک ان کی اغراض پوری ہوتی رہیں گی۔ لیکن جب لوگوں کو انجام کا پتا چلے گا کہ: ’’جو اللہ کو ناراض کرکے لوگوں کو خوش کرے تو وہ اللہ کے مقابل اس کے کسی کام نہ آئیں گے‘‘۔ تو اپنے ہی ہاتھوں کو کاٹیں گے، جیسے ظالم کی طرح جو اپنے ہی ہاتھوں کو کاٹتاہے۔ جو شخص اس دارِفانی میں لوگوںکی بے حد تعریف کرتا ہے وہی آخرت میں ان کی مذمت کرے گا۔ آخرت تو متقین کے لئے ہی مخصوص ہے یہ عام لوگوں کی خواہش کے مطابق ابتدا میں کیسے میسرآسکتی ہے؟
ابن رجب رحمہ اللہ فرماتے ہیں کہ:
’’جس شخص پر اس بات کی حقیقت کا انکشاف ہو جائے کہ زمین پر جتنی بھی مخلوق الٰہی ہے وہ سب مٹی سے زیادہ وقعت نہیں رکھتی تو وہ شخص مٹی کی اطاعت کو رب الارباب کی اطاعت پر کیسے ترجیح دے سکتاہے؟ یا ملک الاملاک اور اللہ کی ذات کو ناراض کرکے مٹی کو کیسے خوش کرنے کی کوشش کرے گا؟ اگر کسی بدنصیب نے ایسا کردار اداکیاتو ’’یہ تو بڑی عجیب بات ہو گی‘‘۔
زیر بحث حدیث سے واضح ہوتا ہے کہ جو شخص لوگوں سے خوف کھائے گا اور اللہ تعالیٰ کی رضا پر لوگوںکی خوشی کو ترجیح دے گا اسے سخت ترین سزا سے دو چار ہونا پڑے گا۔ خصوصاً شریعت اسلامیہ کے مطابق جو سزا ملے گی اس کی سختی کا اندازہ کرنا بھی مشکل ہے۔ اللہ تعالیٰ ہرمسلمان کو اس سزا سے محفوظ رکھے۔ آمین۔ قرآن کریم میں ارشاد ہے:
’’ان کی اس بدعہدی کی وجہ سے جو انہوں نے اللہ تعالیٰ کے ساتھ کی اور اس جھوٹ کی وجہ سے جو وہ بولتے رہے اللہ تعالیٰ نے ان کے دلوں میں نفاق بٹھا دیا جو اس کے حضور ان کی پیشی کے دن تک ان کا پیچھا نہ چھوڑے گا‘‘۔(التوبہ: ۷۷)
فیہ مسائل
٭ یقین، کمزور اور قوی ہوتا رہتا ہے۔ ٭ یقین کے کمزور ہونے کی تین علامات کا ذکر۔ ٭خوف کو خالص اللہ تعالیٰ کی ذات کے لئے مخصوص کردینا اسلام کے فرائض میں سے ایک فرض ہے۔ ٭ جو شخص خوفِ الہٰی میں خلوص پیداکرلیتا ہے اس کے اجرو ثواب کا ذکر۔ ٭ جس شخص کے خوفِ الٰہی میں ملاوٹ پیداہوگئی اس کی سزا کے متعلق گفتگو۔
 

محمد نعیم یونس

خاص رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
اپریل 27، 2013
پیغامات
26,582
ری ایکشن اسکور
6,748
پوائنٹ
1,207
توکل علی اللہ مومنوں کی خاص علامت ہے۔

توکل علی اللہ مومنوں کی خاص علامت ہے۔
باب: قال اﷲ تعالیٰ وعلی اﷲ فتوکلوا ان کنتم مؤمنین

اس باب میں توکل علی اﷲ کو مومنوں کی ایک خاص علامت قرار دیاگیا ہے
قال اﷲ تعالیٰ وعلی اﷲ فتوکلوا ان کنتم مؤمنین
اللہ تعالیٰ نے فرمایا: ’’تم اللہ تعالیٰ پر ہی توکل کرو، اگر تم مومن ہو‘‘۔
ابو السعادات رحمہ اللہ فرماتے ہیں
’’جب کوئی شخص کسی کام کو انجام دینے کی ذمہ داری قبول کر لیتا ہے تو اس وقت کہتے ہیں تَوَکَّلَ بِالْاَمْرِ اور جب کسی پر پورا اعتماد کرلیا جائے تو اس وقت کہاجاتاہے۔ میں نے اپنے معاملہ میں فلاں شخص پر اعتماد اور بھروسہ کر لیا ہے۔ جب کوئی شخص کسی کام کو انجام دینے سے عاجز آجائے یا کسی کو اپنا معتمد سمجھ کر اس پر بھروسہ کر لے تو اس وقت کہا جاتا ہے : ’’فلاں نے فلاں کو اپنا معاملہ سپرد کر دیا ‘‘۔
مصنف رحمہ اللہ نے مندرجہ بالا آیت پر باب کا عنوان اس لیے قائم کیا ہے کہ توکل فرائضِ اسلام میں سے ایک ایسا فریضہ ہے جو صرف اللہ تعالیٰ کے لیے مخصوص ہے ۔
آیت کا مفہوم یہ ہے کہ انسان ساری دنیا سے منہ موڑ کر صرف اللہ پر توکل کرلے۔ عبادات کی جتنی بھی اقسام ہیں تَوَکُّلْ عَلَی اﷲِ ان تمام عبادات سے عظیم تر ہے کیونکہ اعمالِ صالحہ کادارومدار توکل ہی پرہے۔
جب ایک انسان ساری دنیا سے کٹ کر اپنے دینی اور دنیاوی تمام اُمور میں اللہ تعالیٰ پر توکل کرلیتاہے تواس کے اخلاص میں کوئی شبہ باقی نہیں رہتا اور اس کا معاملہ اللہ سے ہوجاتاہے۔ توکل علی اﷲ اِیَّاکَ نَعْبُدُ وَاِیَّاکَ نَسْتَعِیْنُ کی بڑی منزلوں میں سے ایک منزل ہے لہٰذا توحیدکی تینوںقسمیں اس وقت تک مکمل نہ ہوںگی جب تک توکل علی اللہ کامل نہ ہو گا۔ جیسا کہ زیر نظرآیت سے واضح ہے۔ اللہ تعالیٰ فرماتا ہے:
’’موسیٰ نے اپنی قوم سے کہاکہ لوگو! اگر تم واقعی اللہ تعالیٰ پر ایمان رکھتے ہو تو اس پر بھروسہ کرو، اگرمسلمان ہو‘‘۔(یونس: ۸۴)۔
ایک مقام پر اس کی یوں وضاحت فرمائی:
(ترجمہ) ’’وہ مشرق و مغرب کا مالک ہے، اس کے سوا کوئی معبود نہیں ہے لہٰذا اسی کو اپنا وکیل بنالو‘‘۔(المزمل: ۹)۔
امام احمد بن حنبل رحمہ اللہ فرماتے ہیں:
’’توکل صرف دل کا عمل ہے‘‘۔
پیشِ نظر آیت کریمہ کی تشریح میں علامہ ابن قیم رحمہ اللہ فرماتے ہیں کہ:
’’اللہ تعالیٰ نے توکل کو ایمان کی شرط قراردیا ہے، جس سے پتا چلا کہ جس دل میں توکل نہیں، وہاں ایمان نہیں،
جیسا کہ اللہ تعالیٰ فرماتا ہے:
موسیٰ علیہ السلام نے اپنی قوم سے کہا کہ لوگو! اگر تم واقعی اللہ تعالیٰ پر ایمان رکھتے ہو تو اس پر بھروسہ کرو، اگرمسلمان ہو۔(یونس: ۸۴) ۔
اس آیت کریمہ میں توکل کو اسلام کی صحت کا معیار قرار دیا گیا ہے، پس جس شخص کا ایمان قوی ہوگا اس کا توکل علی اللہ بھی مضبوط ہوگا۔ اور اگر خدانخواستہ ایمان کمزور ہوگیا تو توکل کا کمزور ہونا بھی یقینی ہے۔ اسی طرح جس کا توکل علی اللہ کمزورہوگااس کا ایمان بھی کمزور ہوگا۔ اللہ تعالیٰ اپنے کلام پاک میں کبھی تو توکل اور عبادت کو یکجا بیان فرماتاہے،کبھی توکل اور ایمان کو اور کبھی توکل اور تقویٰ کو اور کبھی توکل اور اسلام کو اور کبھی توکل اور ہدایت کو۔ پس معلوم ہوا کہ ایمان اور احسان کے تمام اہم مقامات پرتوکل علی اللہ کو مرکزی حیثیت حاصل ہے اور یہ کہ اسلام کے تمام اعمال میں توکل کا وہی مقام اور اس کی وہی حیثیت ہے جو بدن انسانی میں سر کی ہے۔ جیسے بدن کے بغیر سَر قائم نہیں رہ سکتا اسی طرح ایمان اور اس کے مقامات اور اعمال توکل علی اللہ کے بغیرقائم نہیںرہ سکتے۔
شیخ الاسلام امام ابن تیمیہرحمہ اللہ فرماتے ہیں:
جو شخص مخلوق سے امیدیں وابستہ کرلیتا ہے اور مخلوقِ الٰہی پرہی توکل اور بھروسہ کربیٹھتا ہے وہ اپنے مقاصد میںہرگزکامیاب نہیں ہوسکتا۔ وہ مشرک ہے
اور مشرک کے متعلق اللہ تعالیٰ کافرمان ہے۔
(ترجمہ) ’’جو کوئی اللہ کے ساتھ کسی کو شریک بناتا ہے گویا وہ آسمان سے گرپڑا پھر اسے جانور نوچ لیں گے یا ہوا اس کو دور دراز مکان میں پھینک دے گی‘‘۔(الحج: ۳۱)۔
شارح رحمہ اللہ فرماتے ہیں کہ توکل علی اللہ کی دو قسمیں ہیں۔
۱۔ایسے اُمور میں غیراللہ پر توکل کرنا جو صرف اللہ تعالیٰ کے قبضہ قدرت میں ہیں، جیسے وہ لوگ جو فوت شدگان یا طاغوت وغیرہ سے یہ امید رکھتے ہیں کہ وہ کسی قسم کی امداد کریں گے یا حفاظت کا فریضہ ادا کریں گے یا رزق وغیرہ دیں گے یا قیامت کے دن سفارش کریں گے، یہ عقیدہ شرکِ اکبرہے۔
۲۔دوسری قسم یہ ہے کہ ظاہری اسباب و ذرائع پر بھروسہ کرلیا جائے، جیسے کسی امیر یا بادشاہ پر یہ بھروسہ کرلیا جائے کہ اللہ تعالیٰ نے جو کچھ اسے دیا ہے اس میں سے ہم کو بھی دے گا یا کسی بیرونی طاقت کے شر سے بچاؤ کی امید کرلی جائے تو یہ شرکِ اصغر کی ایک قسم ہے۔

جائز وکالت یہ ہے کہ انسان کسی دوسرے شخص کوایسے کام پر وکیل بنائے جس پر اسے قدرت حاصل ہو اور وکیل بنانے کے بعد بھی وکیل پر اعتماد اور بھروسہ نہ کر بیٹھے بلکہ توکل اور کلی اعتماد اللہ تعالیٰ پر رکھے کہ وہ اس کام کو نائب اور وکیل پر آسان کردے۔ نائب اور وکیل پر اعتماد کے بجائے ربِ کریم پر اعتماد کرے جو حقیقی مسبّب الاسباب ہے۔
قال اﷲ تعالیٰ اِنَّمَا الْمُؤْمِنُوْنَ الَّذِیْنَ اِذَا ذُکِرَ اﷲُ وَجِلَتْ قُلُوْبُھُمْ وَ اِذَا تُلِیَتْ عَلَیْھِمْ اٰیٰتُہٗ زَادَتْھُمْ اِیْمَاناً وَّعَلٰی رَبِّھِمْ یَتَوَکَّلُوْنَ (الانفال: ۲)
سچے اہل ایمان تو وہ لوگ ہیں جن کے دل اللہ کا ذکر سن کر لرز جاتے ہیں۔ اور جب اللہ کی آیات ان کے سامنے پڑھی جاتی ہیں تو ان کا ایمان بڑھ جاتا ہے اور وہ اپنے رب پر توکل رکھتے ہیں۔
اس آیت کریمہ کی تفسیر میں سیدنا ابن عباس رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ: ’’پہلے اللہ تعالیٰ نے منافقین کی علامات بیان فرمائی ہیں کہ فرائض کی ادائیگی کے وقت بھی ان کے دل میں ذکراللہ کی جھلک نظر نہیں آتی۔ ٭ نہ اللہ تعالیٰ کی آیات پران کا ایمان ہے۔ ٭ نہ توکل علی اللہ کے قائل ہیں۔ ٭ جب مسلمانوں سے الگ ہوتے ہیں تو نماز نہیں پڑھتے۔ ٭ اور اپنے مال کی زکوٰۃ بھی ادا نہیں کرتے۔ اللہ تعالیٰ نے ان کے متعلق فرمایا ہے کہ یہ مومن ہی نہیں ہیں۔
منافقین کی علامات بیان کرنے کے بعد مومنین کی صفاتِ حسنہ کوبیان کیاگیاہے: ’’سچے اہل ایمان تو وہ لوگ ہیں جن کے دل اللہ تعالیٰ کا ذکر سن کرلرز جاتے ہیں اور جب اللہ کی آیات ان کے سامنے پڑھی جاتی ہیں تو ان کا ایمان بڑھ جاتاہے اور وہ اپنے رب پر توکل رکھتے ہیں‘‘۔ (الانفال:۲)۔ مومن ہی اللہ تعالیٰ کے مقرر کردہ فرائض ادا کرتاہے‘‘۔ دل کے کپکپاجانے کا لازمی نتیجہ یہ ہوتا ہے کہ جن اعمال کے کرنے کا حکم دیا گیا ہے ان کو انجام دینے اور جن سے روکاگیا ہے ان کو چھوڑدینے کے لئے مستعد اور چوکس ہوجاتاہے‘‘۔
زیر نظر آیت کے بارے میں السُّدی کہتے ہیں:
’’اس سے وہ شخص مراد ہے جو کسی پر ظلم کرنے کے لئے کمر بستہ ہو یا اللہ تعالیٰ کی نافرمانی، اور اس کی بغاوت پر آمادہ ہو۔ اسے کہا جائے کہ اِتَّقِ اﷲَ اِتَّقِ اﷲَ یہ لفظ سنتے ہی اس پر ہیبت طاری ہوجائے اور اس کادل کانپنے لگے‘‘۔(رواہ ابن ابی شیبہ، وابن جریر)۔
صحابہ کرام رضی اللہ عنہم ، تابعین عظام، تبع تابعین اور تمام اہل سنت نے اس آیت کریمہ سے استدلال کیا ہے کہ ایمان بڑھتا گھٹتا رہتاہے۔ سیدنا عمیر بن حبیب رضی اللہ عنہ صحابی فرماتے ہیں:
’’ایمان بڑھتا گھٹتا ہے۔ ان سے سوال کیا گیا کیسے بڑھتا گھٹتا ہے؟ انہوں نے جواب دیا جب ہم اللہ کا ذکر کرتے ہیں اور اس کے عذاب سے ڈرتے ہیں تو ایمان کا یہی بڑھنا ہے۔ اور جب ہم غفلت کرتے یا بھول جاتے یا اس کے احکام کو ضائع کردیتے ہیں تو یہ ایمان کا کم ہوناہے۔ (ابن سعد)۔
مجاہد رحمہ اللہ فرماتے ہیں:
’’ایمان میں کمی بیشی ہوتی رہتی ہے اور اسکا قول و عمل سے پتا چلتا ہے‘‘ (ابن ابی حاتم)
امام شافعی رحمہ اللہ امام احمد بن حنبل رحمہ اللہ اورابو عبید رحمہ اللہ نے ایمان کے بڑھنے گھٹنے پراجماعِ اُمت بیان کیا ہے۔
قولہٗ وَعَلٰی رَبِّھِمْ یَتَوَکَّلُوْنَ یعنی مومنین کی صفات یہ ہیں: وہ دل سے اللہ تعالیٰ پر اعتماد اور بھروسہ کرتے ہیں۔ اپنے تمام دینی اور دنیاوی امور کو اللہ ہی کی طرف سونپ دیتے ہیں۔ ٭ اللہ تعالیٰ کے علاوہ کسی سے امید نہیں رکھتے۔ ٭ اللہ تعالیٰ ہی کو اپنا مقصود سمجھتے ہیں۔ ٭ اللہ تعالیٰ ہی کی طرف رغبت کرتے ہیں۔ ٭مومنین کو یہ یقین ہے کہ جو اللہ تعالیٰ چاہے گا وہی ہوگا۔ ٭ اور جو اس کی مشیت کے خلاف ہے اس کا وجود میں آنا ممکن نہیں۔ ٭اللہ تعالیٰ اپنی مملکت میں واحد متصرف ہے۔ ٭اور وہی اکیلا معبودِ حقیقی ہے۔
زیر نظر آیت کریمہ میں مخلص مومنین کے خاص طور پر تین اعلیٰ مقام بتائے گئے ہیں اور تین علامات بیان کی گئی ہیں۔ ۱۔خوفِ الٰہی۔ ۲۔ ایمان میں اضافہ۔ ۳۔ اور صرف اللہ تعالیٰ پر توکل۔ یہ تین مقامات ایسے ہیں جن سے ایمان کامل ہوتا ہے۔ ظاہری اور باطنی اعمال انسان سے ظہور پذیر ہوتے ہیں جیسے۔
نماز:جو شخص نماز قائم کرے، اس کی حفاظت بھی کرے۔ اور اپنے مال کی زکوٰۃ ادا کرتا رہے تو اس عمل صالح کا لازمی نتیجہ یہ نکلے گا کہ وہ دوسرے واجبات پر بھی عمل کرے گا اور محرکات کو چھوڑ دے گا۔ جیسا کہ اللہ تعالیٰ فرماتا ہے:
’’نماز ہر برائی اور بے حیائی کے کاموں سے روکتی ہے اور اللہ تعالیٰ کا ذکر سب سے بلند و بالا ہے۔(العنکبوت: ۴۵)
قول اﷲ تعالیٰ یٰٓأَیُّھَا النَّبِیُّ حَسْبُکَ اﷲُ وَمَنِ اتَّبَعَکَ مِنَ الْمُؤُمِنِیْنَ (الانفال: ۶۴)۔
اے نبی( صلی اللہ علیہ وسلم ) ! تمہارے لیے اور اہل ایمان کے لئے تو بس اللہ کافی ہے۔
اس آیت کریمہ کے معنی علامہ ابن قیم رحمہ اللہ یوں فرماتے ہیں کہ:
’’اے پیغمبر صلی اللہ علیہ وسلم ! آپ کے متبعین کو صرف اللہ ہی کافی و وافی ہے۔ اس کے ہوتے ہوئے کسی دوسرے کی ضرورت نہیں‘‘۔
شیخ الاسلام امام ابن تیمیہ رحمہ اللہ نے بھی یہی معنی پسند فرمائے ہیں۔
بعض نے یہ معنی بھی بیان کیے ہیں کہ: ’’آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو اللہ تعالیٰ اور مومنین کافی ہیں‘‘۔
علامہ ابن قیم رحمہ اللہ فرماتے ہیں کہ ـ:
یہ معنی بہت غلط ہیں۔ آیت کریمہ کو اس معنی پر محمول کرنا جائز نہیں ہے کیونکہ جیسے تمام عبادات مثلاً توکل اور تقویٰ وغیرہ اللہ تعالیٰ کے لئے مخصوص ہیں اسی طرح کفایت اور حسب بھی اللہ تعالیٰ ہی کے لئے مخصوص ہیں جیسے اللہ تعالیٰ فرماتاہے کہ: (ترجمہ) ’’اگر وہ دھوکے کی نیت رکھتے ہوں تو تمہارے لئے اللہ کافی ہے۔ وہی تو ہے جس نے اپنی مدد سے اور مومنوں کے ذریعہ سے تمہاری تائید کی‘‘۔(الانفال: ۶۲)
اس آیت کریمہ پر غور فرمائیے کہ اللہ تعالیٰ نے ’’حسب‘‘ اور تائید کو الگ الگ بیان فرمایا ہے۔ ’’حسب‘‘ کو صرف اپنی طرف منسوب فرمایا اور ’’تائید‘‘ کو اپنی مدد و نصرت اور مومنین دونوں کی طرف نسبت فرمائی ہے۔ اور خصوصاً اپنے ان بندوں کی جو اہل توحید ہیں اس بات پر تعریف کی ہے کہ انہوں نے ’’حسب‘‘ کو صرف اللہ تعالیٰ کے لئے مخصوص کیا ہے جیسا کہ اہلِ توحید کا قول نقل کرتے ہوئے اللہ تعالیٰ فرماتاہے:
’’اور وہ جن سے لوگوں نے کہا کہ تمہارے خلاف بڑی فوجیں جمع ہوئی ہیں، ان سے ڈرو تو یہ سن کر ان کا ایمان اور بڑھ گیا اور انہوں نے جواب دیا کہ ہمارے لئے اللہ تعالیٰ کافی ہے اور وہ بہترین کارساز ہے‘‘۔ (آل عمران: ۱۷۳)۔
مومنین نے حسبنااللہ ورسولہ نہیں کہا۔ ایک جگہ پر اسی کو یوں بیان کیا گیا ہے:
(ترجمہ) ’’وہ کہنے لگے کہ اللہ تعالیٰ ہمارے لئے کافی ہے، وہ اپنے فضل سے ہمیں اور بہت کچھ دے گا اور اس کا رسول صلی اللہ علیہ وسلم بھی ہم پر عنایت فرمائے گا۔ ہم اللہ تعالیٰ ہی کی طرف نظر جمائے ہوئے ہیں‘‘۔ (التوبہ:۵۹)۔
اس آیت پر ذرا غور فرمائیے کہ مومنین موحدین نے ’’ایتاء‘‘ کو اللہ اور رسول صلی اللہ علیہ وسلم دونوں کی طرف اور ’’حسب‘‘ کو صرف اللہ تعالیٰ کی طرف منسوب کیا ہے۔ یہ نہیں کہا کہ حسبنااﷲ ورسولہ بلکہ حسب کو خالص اللہ کا حق قرار دیاہے جیسے ایک دوسرے مقام پراللہ تعالیٰ ان کی بات کو یوں نقل فرماتا ہے کہ:
(ترجمہ) ’’ہم اللہ ہی کی طرف نظر جمائے ہوئے ہیں‘‘۔
اس آیت میں رغبت کو صرف اللہ تعالیٰ کی طرف منسوب کیاگیا ہے جیسا کہ اللہ تعالیٰ خود فرماتاہے:
(ترجمہ) ’’اور اپنے رب ہی کی طرف نظر جمائے رکھو‘‘۔
پس ثابت ہوا کہ رغبت، توکل، انابت اور حسب صرف اللہ تعالیٰ کے لئے مخصوص ہیں۔ جیسے عبادت، تقویٰ، سجدہ، نذرونیاز، اور قسم وغیرہ صرف اللہ کے لئے ہیں۔
مندرجہ بالابحث سے آیت زیر نظر آیت کا باب سے تعلق بھی معلوم ہوگیا وہ یہ کہ جب اللہ تعالیٰ ہی اکیلا اپنے بندے کا کارساز ہے تو بندے پر واجب ہے کہ وہ اسی ایک وحدہٗ لا شریک پر توکل اور اعتماد کرے جب کوئی شخص اللہ تعالیٰ کو چھوڑ کر ادھر اُدھر دیکھنے لگتا ہے تو اللہ تعالیٰ بھی اپنی رحمتوں کو روک لیتا ہے اور انسان کو اس کی حالت پر چھوڑ دیتا ہے۔ جیسا کہ ایک حدیث میں فرمایا گیاہے:
’’جو شخص اپنا دلی تعلق کسی بھی غیراللہ سے جوڑے تو اللہ تعالیٰ اسے اسی کے سپرد کردیتاہے‘‘۔
قال اﷲ تعالیٰ وَمَنْ یَّتَوَکَّلْ عَلَی اﷲِ فَھُوَ حَسْبُہٗ (الطلاق: ۳)
جو اللہ پر بھروسہ کرے تو اللہ اس کے لئے کافی ہے۔
علامہ ابن قیم رحمہ اللہ فرماتے ہیں کہ حَسْبُہٗ کے معنی ہیں نگران اور جس کا اللہ نگران اور کفایت کنندہ ہو تو ایسے آدمی کو اس کا دشمن کچھ بھی بگاڑ نہیں سکتا سوائے اس کی تنگی کے جس کا وقوع تقدیر میں لکھا جا چکا ہے اور اس سے چارہ بھی نہیں جیسے گرمی، سردی، بھوک پیاس سے چارہ نہیں اور ایسی تکلیف وہ اس کو کبھی نہیں دے سکتا جس سے اس کی مراد برآئے اور اذیؔ (جو کہ ظاہر میں ایذاء اور حقیقت میں اس پر احسان ہے اور دشمن کے لئے ضرر ہے) اور ضررؔ (جس سے وہ شفا چاہتا ہے) میں بہت فرق ہے۔
بعض سلف نے کہا ہے۔ اللہ تعالیٰ نے ہر عمل کی جزاء اس کی ذات سے رکھی ہے اور اللہ پرتوکل کی جزا اس کو کفایت کرنا ہے۔ اللہ تعالیٰ نے فرمایا:
’’جو اللہ پر بھروسہ کرے تو اللہ تعالیٰ اس کا نگران ہے‘‘۔
اور یہ نہیں فرمایا کہ اس کو اتنا اجر ملے گا، جیسا کہ دوسرے اعمال میں کہا ہے بلکہ متوکل کے لئے اللہ تعالیٰ نے اپنی ذات کو کافی اور اس کا محافظ بنایا ہے۔ اگر بندہ اللہ تعالیٰ پر پوری طرح توکل کرے اور اس کے خلاف زمین اور آسمان اور ان میں رہنے والی مخلوقات اس کے خلاف تدبیر کرے تو اللہ تعالیٰ اس کے لئے کوئی کشادگی کی راہ پیداکرے گا اور رزق اور مدد میں اس کی کفایت کرے گا‘‘۔
امام احمد رحمہ اللہ نے کتاب الزہد میں وہب بن منبہ رحمہ اللہ کا ایک قول نقل کیا ہے وہ کہتے ہیں کہ :
’’اللہ تعالیٰ نے اپنی ایک کتاب میں فرمایا ہے کہ: (ترجمہ) ’’مجھے اپنی عزت کی قسم! جو شخص صرف مجھے ہی اپنا ملجا و ماویٰ بنالے۔ اس کے بعد اگرساتوں آسمان اور اس کے رہنے والے ، اور ساتوں زمینیں اور اس میں رہنے والے سب مل کر بھی میرے اس خاص بندے کے خلاف محاذ قائم کرلیں تو میں اپنے بندے کو پھر بھی ان کے چنگل سے بچا لوں گا۔ اور جو شخص مجھے چھوڑ دے اور مجھ سے اعراض کرلے، تو میں تمام اسباب کو ختم کردوںگا۔ اور اس کے قدموں تلے سے زمین نکال کر اس کو فضا میں معلق کردوںگا اور اسے اس کے نفس ہی کے سپرد کرکے چھوڑ دوں گا۔ خبردار! میں اپنے بندے کے لئے اکیلا کارساز ہوں جب تک میرا بندہ میری اطاعت و فرمانبرداری میں رہے گا۔ میں اسے بغیر سوال کئے دیتا چلاجاؤںگا اور اس کی پکار سے پہلے اس کی دعا قبول کروں گا۔ کیونکہ میں اس کی حاجت کو اس سے زیادہ جانتا اور سمجھتا ہوں‘‘۔
پیش نظر آیت کریمہ میں توکل علی اللہ کی فضیلت بیان فرمائی گئی ہے۔ حقیقت یہ ہے کہ جلب منفعت اور دفع ضرر کے لئے توکل علی اللہ بہت بڑا سبب اور ذریعہ ہے۔ اس آیت کریمہ میں اس بات کی طرف بھی توجہ دلائی گئی ہے کہ توکل کے ساتھ ساتھ اسباب اور ذرائع کو بروئے کار لانا چاہیئے کیونکہ اللہ تعالیٰ نے بھی پہلے تقویٰ کا ذکر فرمایا اور بعد میں توکل بیان کیا۔ جیسا کہ اللہ تعالیٰ فرماتا ہے:
(ترجمہ) ’’اللہ تعالیٰ سے ڈر کر کام کرتے رہو، ایمان رکھنے والوں کو اللہ ہی پر بھروسہ کرنا چاہیئے‘‘۔
یہاں تقویٰ کو توکل کے ساتھ اس لئے بیان فرمایا کہ تقوی ان اسباب کو شامل ہے جن اسباب کی شریعت اسلامیہ نے اجازت دی ہے اور اس بات کو بطور خاص ذہن میں رکھنا چاہیئے کہ توکل بغیر شرعی اسباب کے کوئی معنی نہیں رکھتا۔ اگرچہ اس میں اس طرح کا توکل پایا جاتا ہے پس انسان کو چاہیئے کہ اپنے عجز کو توکل اور توکل کو عجز نہ سمجھے بلکہ ان تمام اسباب کو جن سے اپنا مقصود حاصل کرنا ہو، بروئے کار لائے اور جو جائز اسباب مہیا ہو سکیں، ان کو ترک نہ کرے۔
وعن ابن عباس رضی اللہ عنہ قَالَ حَسْبُنَا اﷲُ وَ نِعْمَ الْوَکِیْلُ قَالَھَا اِبْرَاھِیْمُ حِیْنَ اُلْقِیَ فِی النَّارِ وَ قَالَھَا مُحَمَّدٌ صلی اللہ علیہ وسلم حِیْنَ قَالُوْا لَہٗ اِنَّ النَّاسَ قَدْ جَمَعُوْا لَکُمْ فَاخْشَوْھُمْ فَزَادَھُمْ اِیْمَانًا وَّ قَالُوْا حَسْبُنَا اﷲُ وَ نِعْمَ الْوَکِیْلُ (رواہ البخاری والنسائی)۔
سیدنا ابن عباس رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ ’’حَسْبُنَا اﷲُ وَ نِعْمَ الْوَکِیْلُ ‘‘ سیدنا ابراہیم علیہ السلام نے اُس وقت کہا تھا جب انہیں آگ میں ڈالا گیا تھا۔ اورمحمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے اُس وقت کہا تھا جب جنگ اُحد کے اختتام پر لوگوں نے کہا کہ دشمن تمہارے لئے فوجیں جمع کر رہا ہے اس سے ڈرو، تو اس سے مسلمانوں کا ایمان اور مضبوط ہوا اور بڑھا۔
یعنی یہ ہے کہ اللہ تعالیٰ ہی ہمارا کارساز ہے ہم اسی پر توکل اور بھروسہ کریں گے جیسا کہ ’’کیا اللہ تعالیٰ اپنے بندے کے لئے کافی نہیں ہے‘‘ (الزمر:۳۹)۔ اور جس نے اللہ تعالیٰ پر بھروسہ کیا اور اس کو اپنا وکیل بنایا ہے وہ بہت ہی عمدہ اعلی اور ارفع ہے جیسا کہ فرمایا گیا ہے: (ترجمہ) ’’اور اللہ تعالیٰ سے وابستہ ہو جاؤ وہ ہے تمہارا مولیٰ بہت ہی اچھا ہے وہ مولیٰ اور بہت ہی اچھا ہے مددگار‘‘۔ (الحج:۷۸)۔
علامہ ابن قیم رحمہ اللہ فرماتے ہیں کہ:
’’جو شخص اللہ پر توکل کرے اور اسی کی طرف راجع ہو، اللہ تعالیٰ اس کا کفیل اور کارساز بن جاتا ہے کیونکہ وہی ایک ذات کبریا ایسی ہے جہاں خوف زدہ کو اطمینان حاصل ہوتا ہے اور امن کے متلاشی کو پناہ ملتی ہے۔ پس جو شخص اللہ تعالیٰ کا دوست بن جائے، اسی سے امداد کاطالب ہو، اسی پر توکل کرے اور کلی طور پر تمام دنیا سے کٹ کر اللہ کریم سے جڑ جائے اللہ تعالیٰ بھی اس سے محبت کرتا ہے، اس کو اپنی حفاظت، اپنے امان اور اپنی پناہ میں لے لیتا ہے، جو شخص اللہ سے ڈرے اور تقویٰ اختیار کرے تو اللہ تعالیٰ بھی اس کو امان اور اطمینان کی دولت سے نوازتا اور پھر جس چیز کی بندے کو ضرورت ہوتی ہے اللہ تعالیٰ وہ چیز فراوانی سے اس کو عطا فرما دیتا ہے‘‘۔
اللہ تعالیٰ نے سیدنا ابراہیم علیہ السلام کا یہ واقعہ قرآن کریم میں نقل فرمایا ہے، قرآن کریم کے الفاظ یہ ہیں کہ:
(ترجمہ) ’’انہوں نے کہا: جلا ڈالو اس (ابراہیم) کو اور مدد کرو اپنے معبودوں کی اگر تمہیں کچھ کرنا ہے۔ ہم نے کہا: ’’اے آگ ٹھنڈی ہو جا اور سلامتی (والی) بن جا ابراہیم پر۔ وہ چاہتے تھے کہ ابراہیم علیہ السلام کے ساتھ برائی کریں مگر ہم نے ان کو بری طرح ناکام کر دیا‘‘ (انبیاء:۶۸ تا ۷۰)۔
غزوئہ اُحد میں شکست کھانے کے بعد جب قریش مکہ، مدینہ منورہ کی حدود سے باہر نکلے تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو اس کی اطلاع ملی کہ ابوسفیان جو اس وقت لشکر کفار کا سپہ سالار تھا دوبارہ مدینہ پر حملہ کرنا چاہتا ہے۔ تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم بھی ستر جانباز سوار صحابہ کرام کو لے کر اس کے مقابلہ کے لئے حمراء الاسد نامی مقام پر قریشی حملہ آوروں کو روکنے کے لئے تشریف لے گئے۔ یہ سن کر ابوسفیان حواس باختہ ہو گیا اور وہ اپنے لشکر کو لے کر سیدھا مکہ کی طرف روانہ ہو گیا۔ راستے میں ابوسفیان کو عبدالقیس میں سے ایک قافلہ ملا۔ ابوسفیان نے پوچھا کہاں جا رہے ہو؟ انہوں نے جواب دیا: مدینہ جانا چاہتے ہیں۔ ابوسفیان بولا: مدینہ جا کرہمارا پیغام محمد صلی اللہ علیہ وسلم کو پہنچا دو گے؟ انہوں نے کہا کیوں نہیں۔ ضرور پہنچائیں گے۔ ابوسفیان نے یہ پیغام دیا کہ: جب مدینہ پہنچو تو مسلمانوں سے کہنا کہ ہم نے دوبارہ حملہ کرنے کی تیاری مکمل کر لی ہے تاکہ تم سب مسلمانوں کو صفحہ ہستی سے مٹا دیا جائے۔ چنانچہ عبدالقیس کا یہ قافلہ جب حمراء الاسد پہنچا تو ابوسفیان کی یہ بات بھی رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو سنا دی۔ آپ اُس وقت تک ابھی حمراء الاسد ہی میں قریش کے انتظار میں تھے۔ اس وقت رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے یہ دعا پڑھی فرمایا: ’’حَسْبُنَا اﷲُ وَ نِعْمَ الْوَکِیْلُ ‘‘ ۔
سیدنا ابراہیم علیہ السلام اور محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے اس واقعہ میں اس عظیم الشان دعائیہ جملہ کی عظمت اور فضیلت کا پتا چلتا ہے کیونکہ یہ دو خلیلوں کا متفقہ دعائیہ جملہ ہے اور وہ بھی انتہائی مشکل وقت میں۔ ایک حدیث میں ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ:
’’جب تم کسی بڑی مصیبت میں گھر جاؤ تو یہ دعا وردِ زبان رکھا کرو، اللہ تعالیٰ ہر مشکل کو آسان کر دے گا۔ وہ عظیم دعا یہ ہے: ’’حَسْبُنَا اﷲُ وَ نِعْمَ الْوَکِیْلُ ‘‘ ۔
فیہ مسائل
٭ توکل علی اللہ فرائض میں سے ہے۔ ٭ ایمانِ صادق کی سب سے بڑی شرط یہی توکل ہے۔ ٭کلمہ ’’حَسْبُنَا اﷲُ وَ نِعْمَ الْوَکِیْلُ ‘‘ کی عظمت اور اہمیت کا اندازہ اس سے ہوتا ہے کہ مشکل اور مصیبت کے وقت سیدنا ابراہیم علیہ السلام اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم دونوں نے اِسے پڑھا۔
 

محمد نعیم یونس

خاص رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
اپریل 27، 2013
پیغامات
26,582
ری ایکشن اسکور
6,748
پوائنٹ
1,207
کیا لوگ اللہ کی چال سے بے خوف ہو گئے ہیں؟

کیا لوگ اللہ کی چال سے بے خوف ہو گئے ہیں؟
باب:اَفَاَمِنُوْا مَکْرَ اﷲِ فَلَا یَاْمَنُ مَکْرَ اﷲِ اِلَّا الْقَوْمُ الْخَاسِرُوْنَ (الاعراف:۹۹)

کیا یہ لوگ اللہ کی چال سے بے خوف ہیں حالانکہ اللہ کی چال سے وہی قوم بے خوف ہوتی ہے جو تباہ ہونے والی ہو۔
اس مقام پر اس آیت کریمہ کے ذکر سے مصنف رحمہ اللہ کا مقصد یہ تنبیہ کرنا ہے کہ اللہ تعالیٰ کی گرفت سے بے خوف ہو جانا بالکل اسی طرح کے عظیم گناہوں میں سے ہے اور توحید الٰہی کے سراسر خلاف ہے جیسا کہ اللہ تعالیٰ کی رحمت سے نااُمید ہو جانا بہت بڑا گناہ ہے۔ یہ آیت کریمہ اس بات کی طرف رہنمائی کرتی ہے کہ مومن کو چاہیئے کہ وہ خوف اور رِجا کی کیفیتوں کے درمیان اپنی زندگی بسر کرے جیسا کہ کتاب و سنت اور سلف ِ اُمت نے اس کی وضاحت فرمائی ہے۔
زیر نظر آیت کا مفہوم یہ ہے کہ اللہ تعالیٰ نے پہلے ان لوگوں کا حال بیان فرمایا جنہوں نے پوری قوت سے انبیاء کی مخالفت اور اُن کی تکذیب کی اور پھر فرمایا کہ اِن لوگوں نے انبیائے کرام کی مخالفت اس لئے کی کہ وہ اللہ تعالیٰ کی گرفت سے بے خوف ہو گئے تھے۔ اللہ تعالیٰ ان کے بارے میں پوری تفصیل سے بیان کرتے ہوئے فرماتا ہے کہ:
(ترجمہ) ’’پھر کیا بستیوں کے لوگ اب اس سے بے خوف ہو گئے ہیں کہ ہماری گرفت کبھی اچانک ان پر رات کے وقت نہ آجائے جب کہ وہ سوئے پڑے ہوں؟ یا انہیں اطمینان ہو گیا ہے کہ ہمارا مضبوط ہاتھ کبھی یکایک ان پر دن کے وقت نہ پڑے گا جبکہ وہ کھیل رہے ہوں؟ کیا یہ لوگ اللہ کی چال سے بے خوف ہیں؟ حالانکہ اللہ کی چال سے وہی قوم بے خوف ہوتی ہے جو تباہ ہونے والی ہو‘‘۔ (سورۃ الاعراف:۹۹)۔
ان کے اس مکروہ کردار کی سب سے بڑی وجہ یہ تھی کہ وہ اللہ تعالیٰ کی گرفت سے بے خوف ہو گئے تھے کیونکہ اللہ تعالیٰ نے ان کو اس قدر نعمتوں سے نوازا اور مال و دولت میں اس قدر فراوانی عطا فرمائی کہ یہ لوگ اس بات کو قطعاً بھول گئے کہ یہ مال و متاع بھی ہماری گرفت کا ذریعہ بن سکتا ہے۔
امام حسن بصری رحمہ اللہ فرماتے ہیں:
’’وہ شخص بڑا بیوقوف ہے اور احمق ہے جس پر دنیا کے مال و متاع کے دروازے کھول دیئے جائیں اور وہ اس کو اپنے لئے آزمائش اور امتحان نہ سمجھے‘‘ـ
قتادہ رحمہ اللہ فرماتے ہیں:
’’ ایک قوم نے اللہ تعالیٰ کے احکام سے بغاوت اور سرکشی کی اور اللہ تعالیٰ نے کسی بھی قوم کو گرفت میں نہیں لیا حتی کہ وہ اللہ کے انعام و اکرام کی وجہ سے عیش و عشرت میں پڑ گئے اور اس عارضی وسعت رزق سے دھوکا کھا بیٹھے۔ پس اب کسی شخص کو دھوکے میں نہ آنا چاہیئے‘‘۔
ایک حدیث میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا:
’’انسان کی نافرمانیوں پر اگر اللہ تعالیٰ اس کی پسند کے مطابق دنیا کا مال و متاع دیتا چلا جائے تو اس کے معنی صرف اسے ڈھیل دینا ہے‘‘۔ (رواہ احمد وابن جریر)۔
اسماعیل بن رافع رحمہ اللہ فرماتے ہیں:
’’اللہ تعالیٰ کی گرفت سے بے خوف ہونے کی سب سے بڑی علامت یہ ہے کہ انسان گناہ کرتا چلا جائے، اور اُس پر مغفرت کی اُمید رکھے‘‘۔ (رواہ ابن ابی حاتم)۔
بعض متقدمین اہل علم نے مکر اللہ کی مندرجہ ذیل تشریح فرمائی ہے:
’’جب انسان گناہ پر گناہ کرتا چلا جاتا ہے تو بعض اوقات اللہ اسے ڈھیل دے دیتا ہے اور مزید انعام و اکرام کی بارش کر دیتا ہے اور پھر اسے اچانک اپنی گرفت میں لے لیتا ہے‘‘۔
مکر اللہ کی یہ مختصر سی تشریح تھی جو مختلف علمائے کرام اور محدثین عظام کی عبارات سے پیش کی گئی۔ واللہ اعلم۔
قَالَ وَمَنْ یَّقْنَطُ مِنْ رَّحْمَۃِ رَبِّہٖٓ اِلَّا الضَّآلُّوْنَ (الحجر)
سیدنا ابراہیم علیہ السلام نے کہا:
اپنے رب کی رحمت سے مایوس تو گمراہ لوگ ہی ہوا کرتے ہیں۔
اللہ تعالیٰ سے نااُمید ہونے اور اس کی طرف سے مصائب کے حل کو مستبعد سمجھنے کو قنوط کہتے ہیں۔ اس کے بالمقابل اللہ کی گرفت سے بے خوف ہونا۔ یہ دونوں کبیرہ گناہوں میں سے ہیں اور تصورِ توحید کے منافی ہیں۔ زیر نظر آیت اور اس سے پہلے بیان کی گئی آیت کریمہ کو مصنف رحمہ اللہ نے اس لئے یکجا بیان کیا ہے جو شخص اللہ تعالیٰ سے ڈرتا ہے اُس کو رحمت الٰہی سے مایوس نہیں ہونا چاہیئے بلکہ خوف اور اُمید کے بین بین زندگی گزارنا چاہیئے۔ انسان اپنے گناہوں سے ڈرتا اور اُس کی اطاعت میں عمل صالح کرتا رہے اور پھر اُس کی رحمت کا اُمیدوار بھی رہے جیسا کہ اللہ تعالیٰ فرماتا ہے:
(ترجمہ) ’’(بھلا اس شخص کی روش بہتر ہے یا اس شخص کی) جو مطیع فرمان ہے رات کی گھڑیوں میں کھڑا رہتا ہے اور سجدے کرتا ہے۔ آخرت سے ڈرتا ہے اور اپنے رب کی رحمت سے اُمید لگاتا ہے؟ (الزمر:۹)۔
دوسرے مقام پر فرمایا:
(ترجمہ) ’’جو لوگ ایمان لائے ہیں اور جنہوں نے اللہ کی راہ میں اپنا گھربار چھوڑا اور جہاد کیا ہے وہ رحمت الٰہی کے جائز اُمیدوار ہیں اور اللہ ان کی لغزشوں کو معاف کرنے والا اور اپنی رحمت سے اُنہیں نوازنے والا ہے‘‘۔ (البقرۃ:۲۱۸)۔
اللہ تعالیٰ اور اُس کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کی اطاعت و فرمانبرداری کو چھوڑ کر نافرمانی اور گناہوں پر اصرار کرنا اور اس پر بخشش کی اُمید رکھنا شیطان کا زبردست دھوکا اور فریب ہے تاکہ بندے کو خوفناک کیفیت میں ڈال دے اور ان اسباب و ذرائع کے قریب بھی نہ آنے دے جن کی وجہ سے انسان نجات حاصل کر سکے۔ لیکن اہل ایمان اور توحید میں پکے افراد کا ہمیشہ یہ دستور رہا ہے کہ وہ اللہ تعالیٰ سے ڈرتے ہوئے ان اسباب سے دست کش نہیں ہوتے جن سے کامیابی اور نجات ممکن ہے وہ اللہ کے عذاب سے بھاگتے اور اُس کی بخشش کی اُمید رکھتے ہیں۔ اور ان کے سینوںمیں اجر و ثواب کی توقع پنہاں ہوتی ہے۔
آیت زیربحث کا معنی یہ ہے کہ اللہ تعالیٰ نے اپنے خلیل سیدنا ابراہیم علیہ السلام کا قول نقل فرمایا ہے، یہ اُس وقت کا واقعہ ہے جب فرشتوں نے سیدنا خلیل علیہ السلام کو سیدنا اسحق علیہ السلام کی پیدائش کی خوشخبری سنائی تھی، چنانچہ اس خوشخبری پر سیدنا ابراہیم علیہ السلام نے کہا:
(ترجمہ) ’’کیا تم اس بڑھاپے میں مجھے اولاد کی بشارت دیتے ہو، ذرا سوچو تو سہی کہ یہ کیسی بشارت تم مجھے دیتے ہو‘‘؟ (الحجر:۵۴)۔
کیونکہ دنیا کا دستور یہ ہے کہ جب انسان خود اور اس کی بیوی بڑھاپے کی عمر کو پہنچ جاتے ہیں تو پھر اولاد کا پیدا ہونا بہت ہی مشکل نظر آتا ہے، لیکن اللہ تعالیٰ کے ہاں تو کوئی چیز بھی مشکل نہیں وہ تو ہر چیز پر قادر ہے۔ سیدنا ابراہیم علیہ السلام کے اس تعجب خیز جملہ کو سن کر فرشتوں نے کہا:
’’ہم تمہیں برحق بشارت دے رہے ہیں‘‘۔
ہم نے جو خوشخبری دی ہے اُس میں شک و شبہ کی قطعاً کوئی گنجائش نہیں ہے کیونکہ اللہ تعالیٰ جب کسی کام کا ارادہ کر لیتا ہے تو پھر کوئی چیز درمیان میں حائل اور رکاوٹ نہیں بن سکتی۔ اس لئے
’’تم مایوس نہ ہو‘‘۔
اس پر سیدنا ابراہیم علیہ السلام نے کہا:
’’اللہ کی رحمت سے وہی لوگ نااُمید ہوتے ہیں جو گمراہ ہوں‘‘۔
سیدنا ابراہیم علیہ السلام اللہ تعالیٰ کی قدرتوں اور اس کی رحمت کی وسعتوں کو خوب جانتے اور سمجھتے تھے لیکن اُنہوں نے صرف تعجب اور حیرت سے فرمایا تھا
’’کیا تم اس بڑھاپے میں مجھے اولاد کی بشارت دیتے ہو‘‘۔
الضَّالُّوْنَ کے دو معنی بیان کئے گئے ہیں: ۱۔ وہ لوگ جو صراط مستقیم کو چھوڑ کر شیطان کی بتائی ہوئی غلط راہ پر چلے جا رہے ہوں۔ ۲۔ دوسرا معنی یہ ہے کہ کافر ہی اللہ کی رحمت سے مایوس ہوتے ہیں۔ دوسرے معنی کی تائید مندرجہ ذیل آیت سے ہوتی ہے:
(ترجمہ) ’’اللہ کی رحمت سے سوائے کافروں کے کوئی نااُمید نہیں ہوتا‘‘۔
عن ابن عباس رضی اللہ عنہ اَنَّ رَسُوْلَ اﷲِ صلی اللہ علیہ وسلم سُئِلَ عَنِ الْکَبَآئِرِ فَقَالَ الشِّرْکُ بِاﷲِ وَ الْیَاْسُ مِنْ رَّوْحِ اﷲِ وَ الْاَمْنُ مِنْ مَّکْرِ اﷲِ
سیدنا ابن عباس رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے کبیرہ گناہوں کے بارے میں پوچھا گیا کہ وہ کون کون سے ہیں؟ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ:
۱۔ اللہ کے ساتھ شرک کرنا۔ ۲۔ اللہ کی رحمت سے مایوس ہونا۔ ۳۔ اور اللہ کی گرفت سے بے خوف رہنا۔ (کبیرہ گناہ ہیں)۔
تمام کبیرہ گناہوںمیں شرک سب سے کبیرہ گناہ ہے۔ علامہ ابن قیم رحمہ اللہ فرماتے ہیں:
’’اللہ کے ساتھ شرک کرنا توحید ربوبیت کو ختم کرنے، توحید الوہیت کو ناقص قرار دینے اور اللہ تعالیٰ کے بارے میں سوءِ ظن کے مترادف ہے‘‘۔
اللہ تعالیٰ نے بالکل سچ فرمایا اور اپنی مخلوق کی خیرخواہی کے لئے فرمایا:
(ترجمہ)’’اللہ تعالیٰ کے منکر اوروں کو اللہ کے برابر کرتے ہیں‘‘۔ (الانعام:۱)۔ اور سورئہ لقمان میں فرمایا: (ترجمہ) اللہ تعالیٰ کے ساتھ شرک کرنا سب سے بڑا ظلم ہے‘‘۔ لہٰذا ثابت ہوتا ہے کہ مندرجہ بالا وجوہ کی بنا پر شرک جیسے گناہ کو بغیر توبہ کئے اللہ تعالیٰ معاف نہیں فرمائے گا۔
جن اُمور کے سلسلے میں اللہ تعالیٰ سے ڈرا جاتا ہے اور جن اُمور کی توقع کی جاتی ہے ان کے بارے میں اللہ تعالیٰ سے اُمید اور توقع ختم کر لینا نااُمیدی کہلاتا ہے۔ اللہ تعالیٰ کے بارے میں یہ سوء ظن کی بدترین مثال ہے۔ اس کی رحمت لازوال سے نااُمیدی اس کی جُودت بے پایاں سے قنوطیت اور اس کی مغفرت لابدی سے صرفِ نظر کر لینے کا یہی نتیجہ ہوا کرتا ہے۔
انسان کو مہلت پر مہلت دیتے جانا، اور اس کے دل سے ایمان کی دولت کو سلب کر لینا، یہ اس بات کی علامت ہے کہ انسان اللہ کے بارے میں بڑا جاہل اور بیوقوف ہے اور اپنے بارے میں خودفریبی میں مبتلا ہے۔

یہ بات یاد رکھنے کی ہے کہ زیر بحث حدیث میں صرف تین کبیرہ گناہوں کا ذکر ہے۔ اس کے علاوہ بھی بہت سے کبیرہ گناہ ہیں۔ کتاب و سنت میں ان تین کو بہت ہی اہمیت حاصل ہے یہ تمام کبیرہ گناہوں میں سر فہرست ہیں۔ محققین علمائے کرام و محدثین عظام کی تصریحات کے مطابق کبیرہ گناہ کے متعلق مندرجہ ذیل اصول سامنے رکھنے چاہئیں کہ : ٭ ہر گناہ جس کے متعلق اللہ تعالیٰ جہنم کی وعید سنائے۔ ٭یا جس کے مرتکب کو ملعون قرار دیا جائے۔ ٭ یا اللہ تعالیٰ کے غضب اور عذاب کی وعید سنائی جائے۔ ٭ یا بقول امام ابن تیمیہ رحمہ اللہ ایمان کی نفی کی جائے۔ وہ کبیرہ گناہ ہوتا ہے۔ ٭ وہ بھی کبیرہ گناہ ہے جس کے مرتکب سے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم اپنی برات کا اظہار کر دیں۔ ٭ یا جس کے بارے میں آپ صلی اللہ علیہ وسلم یہ فرما دیں کہ یہ ہم میں سے نہیں ہے۔
سیدنا ابن عباس رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ کبیرہ گناہ تقریباً سات سو تک پہنچتے ہیں جن میں سے یہ اکبر الکبائر ہیں لیکن یہ اصول یاد رکھنا چاہیئے کہ استغفار کرنے پر کوئی کبیرہ گناہ کبیرہ نہیں رہتا اور اس پر اصرار کیا جائے تو کوئی صغیرہ گناہ صغیرہ نہیں رہتا‘‘۔
و عن ابن مسعود رضی اللہ عنہ قَالَ اَکْبَرُ الْکَبَآئِرِ اَلْاِشْرَکُ بِاﷲِ وَ الْاَمْنُ مِنْ مَّکْرِ اﷲِ وَ الْقُنُوْطُ مِنْ رَّحْمَۃِ اﷲِ وَ الْیَاْسُ مِنْ رُّوْحِ اﷲِ (رواہ عبدالرزاق)۔
سیدنا عبداللہ بن عباس رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ اللہ تعالیٰ کے ساتھ شرک کرنا، اُس کے مکر سے بے خوف ہونا، اُس کی رحمت اور اس کے کرم سے نااُمید اور مایوس ہونا کبیرہ گناہوں میں سے ہیں۔
زیر بحث حدیث میں خاص طور پر اس بات کی طرف توجہ دلائی گئی ہے کہ انسان کو خوف اور رجاء کے درمیان رہنا چاہیئے۔ جب وہ اللہ تعالیٰ سے ڈرے تو اُس کی رحمت سے مایوس اور بد دِل نہ ہو بلکہ اُس کی رحمت کی اُمید کا چراغ دِل میں روشن رکھے۔ سلف صالحین پسند کرتے تھے کہ صحت میںخوف غالب رہے اور بیماری میں اُمید غالب ہو جائے۔ ابوسلیمان الدارانی رحمہ اللہ کا یہی طریقہ اور یہی دستور تھا۔ بلکہ وہ فرماتے تھے کہ ’’دل پر خوف کا غلبہ ہونا چاہیئے کیونکہ اگر خوف پر رجا غالب آگئی تو دِ ل کی دُنیا میں فساد برپا ہو جائے گا‘‘۔

مندرجہ ذیل آیاتِ قرآنی میں خوف کو اُمید سے مقدم گردانا گیا ہے اور پہلے ذکر کیا گیا ہے فرمایا:
(ترجمہ) ’’جو لوگ بے دیکھے اپنے رب سے ڈرتے ہیں یقینا ان کے لئے مغفرت ہے اور بڑا اجر‘‘۔ (الملک:۱۲)۔ ’’وہ اس دن سے ڈرتے رہتے ہیں جس میں دِل الٹنے اور دیدے پتھرا جانے کی نوبت آجائے گی‘‘۔ (النور:۲۷) ۔ ’’اور جو دے سکتے ہیں دیتے ہیں اور اُن کے دِل اس بات سے ڈرتے رہتے ہیں کہ ان کو اپنے رب کی طرف پلٹنا ہے۔ یہی لوگ نیکیوں میں جلدی کرتے اور ان کے لئے آگے نکل جاتے ہیں۔ (المؤمنون:۶۰ تا ۶۱)۔ ’’کیا جو رات کے اوقات میں سجدے اور قیام سے اللہ کی عبادت کرتا ہے اور آخرت سے ڈرتا ہے اور اپنے رب کی رحمت کا اُمیدوار ہے‘‘۔ (الزمر:۹)۔
 

محمد نعیم یونس

خاص رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
اپریل 27، 2013
پیغامات
26,582
ری ایکشن اسکور
6,748
پوائنٹ
1,207
اللہ پر ایمان لانے کا مطلب یہ ہے کہ تقدیر پر صبر کیا جائے۔

اللہ پر ایمان لانے کا مطلب یہ ہے کہ تقدیر پر صبر کیا جائے۔
باب:من الایمان باﷲ الصبر علی اقدار اﷲ

اس باب میں بتایا گیا ہے کہ اللہ تعالیٰ پر ایمان لانے کا مطلب یہ ہے کہ اللہ تعالیٰ کی تقدیر پر صبر کیا جائے۔
وَمَنْ یُّؤْمِنْ بِاﷲِ یَھْدِ قَلْبَہٗ وَ اﷲُ بِکُلِّ شَییئٍ عَلِیْمٌ (التغابن:۱۱)۔
جو شخص اللہ پر ایمان رکھتا ہو، اللہ اُس کے دِل کو ہدایت بخشتا ہے اور اللہ کو ہر چیز کا علم ہے۔
امام احمد بن حنبل رحمہ اللہ کا کہنا ہے کہ اللہ تعالیٰ نے اپنے کلام پاک میں تقریباً نوے مقامات پر صبر کا ذکر فرمایا ہے۔ صحیح مسلم اور مسند امام احمد کی ایک صحیح حدیث میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم فرماتے ہیں کہ اَلصَّبْرُ ضِیَائٌ صبر ایک نور ہے۔ امام بخاری رحمہ اللہ نے مرفوعاً روایت کیا ہے کہ صبر سے بہتر اور وُسعت پذیر چیز کسی کو نہیں دی گئی، اور پھر سیدنا عمر رضی اللہ عنہ کا ایک قول نقل کیا ہے جس میں وہ فرماتے ہیں
’’ہم نے اپنی زندگی کے اُس حصہ کو بہتر پایا جس میں صبر ہے‘‘
۔ سیدنا علی رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں:
’’ایمان میں صبر کو وہی مقام حاصل ہے جو انسان کے بدن میں سر کو ہے یہ کہہ کر سیدنا علی رضی اللہ عنہ نے بلند آواز سے فرمایا دیکھو اُس شخص کا ایمان ہی نہیں جس میں صبر کی صلاحیت نہیں ہے‘‘۔
صبر کے معنی یہ ہیں کہ انسان اپنے نفس پر ضبط کرے، زبان کا صبر یہ ہے کہ شکوہ و شکایت کے الفاظ زبان سے نہ نکلیں اور اعضاء کا صبر یہ ہے کہ مصائب و مشکلات کے وقت اپنے چہرے کو نہ نوچا جائے، نہ گریبان چاک کیا جائے۔ صبر تین اُمور سے تعبیر ہے:
۱۔ اللہ تعالیٰ کے احکام کو عملی جامہ پہنانا۔
۲۔ اللہ تعالیٰ کے منع کردہ اُمور سے مجتنب رہنا اور ان کو ترک کرنا۔ اور
۳۔ مصائب و مشکلات کو خندہ پیشانی سے برداشت کرنا۔

اس آیت کے ابتدائی الفاظ یہ ہیں: مَآ اَصَابَ مِنْ مُّصِیْبَۃٍ اِلاَّ بِاِذْنِ اﷲِ (التغابن:۱۱) کوئی مصیبت کبھی نہیں آتی مگر اللہ کے اِذن ہی سے آتی ہے۔ یعنی ہر قسم کی مصیبت اور آزمائش اللہ تعالیٰ کی مشیت، ارادے اور اس کے حکم کے بعد ہی انسان کو پہنچتی ہے، ایک آیت میں ارشاد فرمایا گیا ہے: (ترجمہ) ’’کوئی مصیبت ایسی نہیں ہے جو زمین میں یا تمہارے اپنے نفس پر نازل ہوتی ہو اور ہم نے اس کو پیدا کرنے سے پہلے ایک کتاب میں نہ لکھ رکھا ہو، ایسا کرنا اللہ کے لئے بہت آسان کام ہے‘‘۔ (الحدید:۲۲)۔ سورئہ بقرہ میں فرمایا:
(ترجمہ) ’’جو لوگ صبر کریں اور جب کوئی مصیبت پڑے تو کہیں کہ ہم اللہ ہی کے لئے ہیں اور اللہ ہی کی طرف ہمیں پلٹ کر جانا ہے، انہیں خوشخبری دے دو کہ اِن پر ان کے رب کی طرف سے بڑی عنایات ہوں گی۔ اُس کی رحمت اُن پر سایہ کرے گی اور ایسے ہی لوگ راست رَو ہیں۔ (البقرۃ:۱۵۵ تا ۱۵۷)۔
یعنی جو شخص مصائب و مشکلات میں گھر جائے اور یہ سمجھے کہ یہ مصائب و آلام اللہ تعالیٰ کی قضا و قدر ہی سے نازل ہوئی ہیں، پھر صبر کا دامن ہاتھ سے نہ چھوڑے اور اجر و ثواب کا اُمیدوار رہے اور اللہ تعالیٰ کی تقدیر پر رضامند ہو کر اُسے تسلیم کرے تو اللہ تعالیٰ اُس کے دل کو ثابت قدم بھی رکھتا ہے اور صراطِ مستقیم سے بھی دُور نہیں جانے دیتا اور نتیجتاً جو کچھ اُس سے ضائع ہو جاتا ہے، اللہ اُس سے کہیں زیادہ عطا فرما دیتا ہے، اس کا دل نورِ ہدایت سے منور ہو جاتا ہے اور صدقِ یقین کی بے مثل دولت اُس کے دل میں پیدا ہو جاتی ہے۔ آیت کے اس ٹکڑے میں اس بات کی طرف اشارہ ہے کہ انسان کا صبر کرنا بھی اللہ تعالیٰ کے اس علم کے مطابق ہوتا ہے جو اس کی حکمت کو شامل ہے جس کی وجہ سے انسان صبر و رضا کا مظاہرہ کرتا ہے۔
قال علقمہ رحمہ اللہ ھُوَ الرَّجُلُ تُصِیْبُہُ الْمُصِیْبَۃُ فَیَعْلَمُ اَنَّھَا مِنْ عِنْدِ اﷲِ فَیَرْضٰی وَ یُسَلِّمُ
جناب علقمہ رحمہ اللہ فرماتے ہیں یہ وہ شخص ہے جسے کوئی مصیبت پہنچے اور وہ یہ سمجھے کہ یہ مصیبت اللہ کی طرف سے ہے اس لئے اس پر خوش ہو اور دِل کی گہرائیوں سے اُسے تسلیم کرے۔
یہ قول اعمش نے ابی ظبیان سے یوں نقل فرمایا ہے کہ:
’’ہم ایک موقع پر علقمہ رحمہ اللہ کے پاس بیٹھے ہوئے تھے کہ آپ کے سامنے یہ آیت پڑھی گئی ’’وَمَنْ یُّؤْمِنْ بِاﷲِ یَھْدِ قَلْبَہٗ ‘‘ تو جناب علقمہ رحمہ اللہ نے فرمایا: ’’اس سے وہ شخص مراد ہے جو کسی مصیبت میں مبتلا ہو جائے اور یہ سمجھ کر کہ یہ مصیبت اللہ تعالیٰ کی طرف سے ہے، اس پر راضی رہے اور اسے خندہ پیشانی سے برداشت کرے‘‘۔
جناب علقمہ رضی اللہ عنہ کے اس قول سے ثابت ہوا کہ اعمال ایمان کا جزو ہیں۔
اس آیت کا مطلب سیدنا سعید بن جبیر رضی اللہ عنہ یہ بیان کرتے ہیں کہ وہ اِنَّا ِﷲِ وَ اِنَّا اِلَیْہِ رَاجِعُوْنَ کہے۔
اس آیت کریمہ سے ثابت ہوا کہ صبر کرنا دِل کی ہدایت اور روشنی کا ذریعہ بنتا ہے اور صابرین کے لئے یہ بہت بڑا اجر ہے۔
و فی صحیح مسلم عن ابی ھریرۃ رضی اللہ عنہ اَنَّ رَسُوْلَ اﷲِ صلی اللہ علیہ وسلم قَالَ اِثْنَتَانِ فِی النَّاسِ ھُمَا بِھِمْ کُفْرٌ اَلطَّعْنُ فِی النَّسَبِ وَ النِّیَاحَۃُ عَلَی الْمَیِّتِ
صحیح مسلم میں سیدنا ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ
لوگوں میں دو باتیں کفر کی ہیں ایک کسی کے حسب و نسب پر طعن کرنا، دوسرے میت پر بین کرنا۔
یعنی یہ دونوں چیزیں لوگوںمیں کفر کا بقایا ہیں کیونکہ یہ جاہلیت کے اعمال میں سے ہیں اور یہ لوگوںمیں موجود رہتی ہیں اور ان سے وہی شخص بچ سکتا ہے جسے اللہ بچائے اور علم عطا فرمائے اور ایسا نورِ ایمانی بخشے جس سے وہ روشنی حاصل کرے، لیکن یہ سمجھ لینا چاہیئے کہ جس آدمی میں کفر کا ایک شعبہ ہو وہ کافر مطلق کی طرح نہیں ہوتا جیسا کہ وہ آدمی جس میں ایمان کی ایک شاخ ہو وہ مطلق مومن کی طرح نہیں ہوتا اور کفر نکرہ اور معرف باللام کے اثبات میں بہت بڑا فرق ہے۔
حدیث کے ان الفاظ کا مطلب یہ ہے کہ کسی شخص کو نسب کی بنا پر حقیر سمجھنا یا اس کا نسب نامہ معلوم ہوتے ہوئے اُسے کسی دوسرے شخص کا بیٹا قرار دینا۔ کسی رشتہ دار کی موت پر بین کرنا اور لوگوں کے سامنے اس کے فضائل و محاسن بیان کرنا، بین کہلاتا ہے۔ اس قسم کے بین کرنا اور میت کے اوصاف ظاہر کرنا وغیرہ اُمور تقدیر الٰہی پر عدمِ رضا اور صبر کے سراسر منافی ہے۔ نیاحۃ میں اس قسم کے بول بولنا مراد ہے کہ ’’مرنے والا میرا دایاں بازو تھا اور یہی میرا پشت پناہ تھا‘‘۔ اس حدیث سے ثابت ہوا کہ صبر کرنا واجب ہے۔ دوسری بات یہ معلوم ہوئی کہ ایک کفر ایسا بھی ہے جس کے ارتکاب سے انسان ملت اسلامیہ سے خارج نہیں ہوتا۔

و لھما عن ابن مسعود رضی اللہ عنہ مرفوعا لَیْسَ مِنَّا مَنْ ضَرَبَ الْخُدُوْدَ وَ شَقَّ الْجُیُوْبَ وَ دَعَا بِدَعْوَی الْجَاھِلِیَّۃِ
صحیح بخاری اور صحیح مسلم میں سیدنا عبداللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ سے مرفوعاً مروی ہے کہ رسولِ اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ
جو شخص اپنا چہرہ نوچے، کپڑے پھاڑے اور جاہلیت جیسے بول بولے وہ ہم میں سے نہیں ہے۔
یہ حدیث اُن نصوص میں سے ایک ہے جن میں وعید سنائی گئی اور تنبیہ کی گئی ہے۔ سفیان ثوری رحمہ اللہ اور امام احمد بن حنبل رحمہ اللہ سے منقول ہے کہ اس قسم کی احادیث کی تاویل کرنا صحیح نہیں ہے تاکہ لوگوں کے دلوںمیں گناہوں کے بارے میں ڈر اور خوف پیدا ہو اور لوگ ان برے اور مکروہ اعمال سے باز رہیں۔ یہ حدیث اس بات کی واضح دلیل ہے کہ مذکورہ حدیث میں جن افعالِ قبیحہ کا ذکر کیا گیا ہے وہ کمال توحید کے منافی ہیں۔ حافظ ابن حجر عسقلانی رحمہ اللہ فرماتے ہیں کہ
’’رخسار کا اس لئے خاص طور پر ذکر فرمایا کہ اکثر لوگ رُخسار ہی پر ہاتھ مارتے ہیں ورنہ چہرے کا کوئی حصہ پیٹنا بھی اسی قبیل میں داخل ہے‘‘۔
جیوب گریبان کو کہتے ہیں، گریبان پھاڑنا، اہل جاہلیت کی پرانی رسم ہے مرنے والے کے غم میں ایسا کیا جاتا ہے۔ شیخ الاسلام امام ابن تیمیہ رحمہ اللہ فرماتے ہیں:
’’میت پر نوحہ کرنا زَمانہ جاہلیت کی عادت ہے‘‘۔
امام ابن قیم رحمہ اللہ فرماتے ہیں:
’’اپنی قبائلی رسوم کی طرف لوگوںکو بلانا اور ان کو زندہ کرنا عصبیت کی دعوت دینا ہے۔ کسی خاص مسئلے میں اپنے علماء اور مشائخ کے بارے میں تعصب سے کام لینا، بعض علماء کو بعض پر ایک خاص نوعیت کی فضیلت دینا، علماء و مشائخ کی وجہ سے ایک دوسرے سے دشمنی اور دوستی قائم کرنا، سب جاہلیت کی رسوم ہیں جن کا اسلام سے کوئی تعلق نہیں‘‘۔
ابن ماجہ میں ایک حدیث سیدنا ابوامامہ رضی اللہ عنہ سے منقول ہے جسے ابن حبان نے صحیح قرار دیا ہے، حدیث کے الفاظ یہ ہیں:
’’رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنا چہرہ زخمی کرنے والی، گریبان پھاڑنے والی اور بین کرنے والی عورت پر لعنت کی ہے‘‘۔
اس حدیث سے معلوم ہوا کہ یہ افعال کبیرہ گناہوں سے ہیں۔ دوسرے بات یہ معلوم ہوئی کہ اگر کوئی شخص قضاء و قدر پر برافروختہ نہ ہو اور بین وغیرہ کرنے کی نیت بھی نہ ہو اور بات بھی جھوٹی نہ ہو تو ان افعال میں سے اگر معمولی فعل اتفاقاً سرزد ہو جائے تو وہ قابل مواخذہ نہیں ہے جیسا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی وفات پر بعض صحابہ جیسے سیدنا ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ اور سیدہ فاطمہ رضی اللہ عنہا سے اس قسم کی معمولی سی بات کا اظہار ثابت ہے جس کی تصریح امام احمد بن حنبل رحمہ اللہ نے کی ہے۔
ان احادیث میں رونے کی نفی نہیں کی گئی کیونکہ صحیح بخاری میں ایک روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے لخت جگر سیدنا ابراہیم رضی اللہ عنہ کی جب وفات ہوئی تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنی زبان مبارک سے یہ الفاظ ادا فرمائے تھے:
(ترجمہ) ’’آنکھوں میں آنسو ہیں اور دل غمگین ہے۔ بایں ہمہ ہم زبان سے ایسا کوئی لفظ نہیں نکالیں گے جس سے اللہ ناراض ہو جائے۔ اے ابراہیم! تیری جدائی کی وجہ سے ہم پر حزن و ملال طاری ہے‘‘۔
صحیح بخاری و مسلم میں سیدنا اُسامہ بن زید رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ایک دفعہ اپنی ایک بیٹی (سیدہ زینب رضی اللہ عنہا ) کے ہاں تشریف لے گئے۔ دیکھا کہ اُس کا لڑکا موت و حیات کی کش مکش میں ہے۔ بیٹی نے بچے کو اٹھا کر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی گود میں دے دیا۔ بچے کا سانس اس طرح چل رہا تھا جیسے دھونکنی۔ یہ منظر دیکھ کر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی آنکھوں سے آنسو بہنے لگے۔ سیدنا سعد رضی اللہ عنہ بولے یارسول اللہ! یہ کیا بات ہے آپ صلی اللہ علیہ وسلم کیوں رو رہے ہیں؟ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ’’یہ رحمت ہے، جسے اللہ تعالیٰ نے اپنے بندوں کے دِلوںمیں رکھا ہوا ہے۔ اللہ تعالیٰ اپنے اُن بندوںپر ہی رحم کرتا ہے جو خود دُوسرے پر رحم کرتے ہیں‘‘۔
عن انس رضی اللہ عنہ اَنَّ رَسُوْلَ اﷲِ صلی اللہ علیہ وسلم قَالَ اِذَا اَرَادَ اﷲُ بَعَبْدِہِ الْخَیْرَ عَجَّلَ لَہُ الْعُقُوْبَۃَ فِی الدُّنْیَا وَ اِذَا اَرَادَ بَعَبْدِہِ الشَّرَّ اَمْسَکَ عَنْہُ بِذَنْبِہٖ حَتّٰی یُوَافِیَ بِہٖ یَوْمَ الْقِیٰمَۃِ وَ قَالَ صلی اللہ علیہ وسلم اِنَّ عِظَمَ الْجَزَآءِ مَعَ عِظَمِ الْبَلَاؓءِ وَ اِنَّ اﷲ تَعَالٰی اِذَا اَحَبَّ قَوْمًا اِبْتَلَاھُمْ فَمَنْ رَضِیَ فَلَہُ الرِّضَا وَ مَنْ سَخِطَ فَلَہُ السَّخَطُ
سیدنا انس رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ
جب اللہ تعالیٰ اپنے کسی بندے سے خیر خواہی کرنا چاہتا ہے تو اُس کے گناہوں کی سزا جلدی اِسی دنیا میں دے دیتا ہے۔ اور جب کسی سے برائی چاہتا ہے تو اُس کے گناہ کی سزا قیامت تک کے لئے روک لیتا ہے تاکہ اُسے پوری سزا دی جا سکے۔
رحمت دو عالم صلی اللہ علیہ وسلم نے مزید فرمایا کہ
جتنی بڑی مصیبت ہو گی اتنا ہی اجر زیادہ ہو گا اور جب اللہ تعالیٰ کسی قوم سے محبت کرتا ہے تو اُنہیں آزمائش میں ڈال دیتا ہے۔ پس جو شخص آزمائش میں اللہ پر راضی رہا اُس کے لئے اللہ کی رضا اور جو شخص ناخوش ہوا اُس پر اللہ تعالیٰ بھی ناخوش ہو گا۔
فیہ مسائل
٭ صبر کرنا اللہ تعالیٰ پر ایمان لانے کا ایک حصہ ہے۔ ٭اُس شخص کو سخت وعید اور ڈانٹ پلائی گئی ہے جو مصیبت اور مشکل کے وقت اپنے چہرے کو نوچے، گریبان پھاڑے اور جاہلیت کی سی آہ و بکا کرے۔ ٭ جس شخص کے ساتھ اللہ تعالیٰ بھلائی کرنا چاہتا ہے اُس کی علامت اور نشانی۔ ٭ جس شخص کے بارے میںاللہ تعالیٰ برائی کا ارادہ کرے اُس کی علامت۔ ٭ جب اللہ تعالیٰ کسی شخص سے محبت کرنا چاہتا ہے تو اُس کی علامت۔ ٭ ناراضگی کی حرمت۔ ٭ مصائب و مشکلات میں محصور ہو جانے پر رضا کا اجر و ثواب۔
 

محمد نعیم یونس

خاص رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
اپریل 27، 2013
پیغامات
26,582
ری ایکشن اسکور
6,748
پوائنٹ
1,207
ریاکاری سے نیکیاں برباد ہو جاتی ہیں۔
باب:ما جآء فی الریاء

اس باب میں یہ بیان کیا گیا ہے کہ ریاکاری ہر لحاظ سے قابل مذمت ہے اور اس سے نیکیاں برباد ہو جاتی ہیں۔
قال اﷲ تعالیٰ قُلْ اِنَّمَآ اَنَا بَشَرٌ مِّثْلُکُمْ یُوْحٰی اِلَیَّ اَنَّمَآ اِلٰھُکُمْ اِلٰہٌ وَّاحِدٌ فَمَنْ کَانَ یَرْجُوْا لِقَآءَ رَبِّہٖ فَلْیَعْمَلْ عَمَلاً صَالِحًا وَّ لَا یُشْرِکْ بِعِبَادَۃِ رَبِّہٖٓ اَحَدًا (الکہف:۱۱۰)
کہہ دو اے محمد ( صلی اللہ علیہ وسلم ) کہ میں تو ایک اِنسان ہوں تم ہی جیسا، میری طرف وحی کی جاتی ہے کہ تمہارا معبود بس ایک اللہ ہی ہے۔ پس جو کوئی اپنے رب کی ملاقات کا امیدوار ہو، اُسے چاہیئے کہ نیک عمل کرے اور بندگی میں اپنے رب کے ساتھ کسی کو شریک نہ کرے۔
اللہ تعالیٰ نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے نام یہ فرمان جاری کیا کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم یہ اعلان کر دیں کہ میرے اندر نہ ربوبیت ہے اور نہ الوہیت کی کوئی صفت ہے، بلکہ یہ دونوں صفتیں صرف اللہ تعالیٰ وحدہ لا شریک لہ کے لئے مختص ہیں اور میری طرف یہ وحی کی گئی ہے کہ جو شخص اللہ تعالیٰ کی ملاقات کا متمنی ہو، اُسے اعمالِ صالحہ کرنے چاہئیں اور اُس کی عبادت میں کسی کو شریک نہ بنائے۔ آیت کا آخری لفظ ’’اَحَدًا‘‘ ہے جو نحوی لحاظ سے سیاقِ نہی میں نکرہ استعمال ہوا ہے اس میں عمومیت پائی جاتی ہے جس میں انبیاء، ملائکہ، صالحین اور اولیائے کرام وغیرہ سب شامل ہیں۔
شیخ الاسلام امام ابن تیمیہ رحمہ اللہ فرماتے ہیں کہ:
’’علمائے سلف و خلف میں سے اکثر نے لِقَا کے یہ معنی کئے ہیں کہ مومن آدمی اللہ تعالیٰ کو بالمشافہ اور سامنے دیکھے گا‘‘۔ شیخ الاسلام نے رویت پر دلائل بھی ذکر فرمائے‘‘۔
پیش نظر آیت کریمہ کی تفسیر میں علامہ ابن قیم رحمہ اللہ فرماتے ہیں کہ:
’’جس طرح اللہ تعالیٰ اپنی الوہیت میں واحد اور یکتا ہے اسی طرح اُس کی عبادت میں بھی کسی کو شریک نہ کیا جائے۔ عمل صالح وہی ہوتا ہے جس میں ریاکاری اور سُمع کو قطعاً دخل نہ ہو اور اُس کو سنت کے مطابق انجام دیا جائے‘‘۔
یہ آیت کریمہ اس بات کی واضح دلیل ہے کہ اصل دین جس کی تبلیغ و اشاعت کے لئے اللہ تعالیٰ نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم سے پہلے تمام انبیائے کرام علیہ السلام کو مبعوث فرمایا، وہ یہ تھا کہ تمام عبادات میں اللہ تعالیٰ کو واحد و یکتا سمجھا جائے جیسا کہ اللہ تعالیٰ فرماتا ہے کہ:
(ترجمہ) ’’ہم نے تم سے پہلے جو بھی رسول بھیجا اُس کو یہی وحی کی ہے کہ میرے سوا کوئی معبود نہیں۔ پس تم لوگ میری ہی عبادت کرو‘‘۔ (الانبیا:۲۵)۔
اس اصولی دعوت کا انکار کرنے والوں کی کئی قسمیں ہیں: ٭ یا تو وہ کوئی طاغوت ہے جو اللہ کی الوہیت اور ربوبیت میں رخنہ اندازی کرنے کی کوشش کرتا ہے اور اپنی عبادت کے لئے لوگوں کو دعوت دیتا ہے۔ ٭ یا ایسا طاغوت ہے جو غیر اللہ کی عبادت کے لئے لوگوں کو بلاتا ہے۔ ٭ یا وہ مشرک ہے جو اللہ کے ساتھ ساتھ غیراللہ کو بھی پکارتا ہے اور کئی قسم کی غیر شرعی عبادات کی وجہ سے اس غیر کا تقرب حاصل کرنے کی کوشش کرتا ہے۔ ٭ یا ایسا شخص ہے جسے توحید میںشک و شبہ ہو، یعنی اس کے دِل میں یہ شبہ ہو کہ آیا اللہ ہی سچا ہے یا اس کی عبادت میں کسی دوسرے کو شریک ٹھہرایا جائے؟ ٭ یا وہ شخص ہے جو بالکل عقل و خرد سے خالی اور کورا ہے، جو شرکیہ اعمال کو شریعت سمجھتا ہے اور شرک کو قرب الٰہی کا ذریعہ خیال کرتا ہے۔
اس آخری قسم میں اُمت محمدیہ کی اکثریت گرفتار ہے۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ لوگ علم سے بہت دُور ہیں اور تقلید کے پھندے میں جکڑے ہوئے ہیں۔ دین اسلام اپنی بے بسی پر نوحہ کناں ہے اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی تعلیمات کو لوگ بالکل بھول گئے ہیں۔

و عن ابی ھریرۃ رضی اللہ عنہ مرفوعا قال اﷲ تعالیٰ اَنَا اَغْنَی الشُّرَکَآءِ عَنِ الشِّرْکِ مَنْ عَمِلَ عَمَلاً اَشْرَکَ مَعِیَ فِیْہِ غَیْرِیْ تَرَکْتُہٗ وَ شِرْکَہٗ (رواہ مسلم)۔
سیدنا ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے مرفوعاً روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:
اللہ تعالیٰ فرماتا ہے کہ میں تمام شرکت والوں سے زیادہ بے پرواہ ہوں شرک سے۔ جو شخص کوئی ایسا کام کرے جس میں میرے ساتھ کسی غیر کو شریک کرے تو میں اُسے اور اُس کے شرک کو چھوڑ دیتا ہوں۔
یہ حدیث قدسی ہے جس کا مطلب یہ ہے کہ جو شخص اللہ تعالیٰ کو چھوڑ کر مخلوق میں سے کسی کی رضاء کے لئے کوئی عمل کرتا ہے تو اللہ تعالیٰ فرماتا ہے کہ میں اُس سے اور اُس کے عمل بد سے بیزار ہوں، میرا اِن دونوں سے کوئی تعلق نہیں ہے۔
سنن ابن ماجہ میں ایک روایت ہے جس کے الفاظ یہ ہیں:
’’میں ایسے شخص کے عمل سے بیزار ہوں اور وہ اُس کے لئے ہو گا جس کی خاطر شرک کیا ہے‘‘۔
ابن رجب رحمہ اللہ فرماتے ہیں کہ وہ اعمال جو کسی غیر اللہ کے لئے کئے جاتے ہیں اُن کی کئی قسمیں ہیں: کچھ اعمال تو ایسے ہوتے ہیں جو صرف ریاکاری کی بنیاد پر کئے جاتے ہیں جیسے منافقین کے اعمال۔ اِن کے بارے میں اللہ تعالیٰ فرماتا ہے:
’’جب نماز کے لئے اٹھتے ہیں تو کسمساتے ہوئے محض لوگوں کو دکھانے کی خاطر اٹھتے ہیں اور اللہ کو کم ہی یاد کرتے ہیں‘‘ (النساء:۱۳۲)۔
ریا کاری کی یہ قسم مومنین کے فرض روزوں میں پیدا نہیں ہو سکتی بلکہ صدقات و خیرات اور حج وغیرہ اعمال میں جن کا ظاہر سے تعلق ہے اس کا پایا جانا ممکن ہے۔ یا اِن اعمال میں جن کا فائدہ دوسروں کو بھی پہنچتا ہے ایسے اعمال میں اخلاص اِنتہائی اہمیت کا حامل ہے۔ ایک مسلمان کو قطعاً شک نہ کرنا چاہیئے کہ اس قسم کی ریاکاری اعمال کو ضائع کر دیتی ہے۔ اور ایسا ریاکار شخص اللہ تعالیٰ کی سزا اور اُس کی ناراضگی کا سزاوار ہے۔
کچھ اعمال ایسے بھی ہوتے ہیں جو اللہ تعالیٰ کی رضا کے لئے کئے جاتے ہیں لیکن ان میں ریاکاری کا دخل ہوتا ہے ایسے اعمال میں اگر ریاکاری غالب آجائے تو نصوصِ شرعیہ سے ثابت ہے کہ یہ عمل باطل ہو جاتا ہے۔ جیسا کہ زیر نظر حدیث سے واضح ہے۔ اس کی تائید میں دوسری حدیث مسند امام احمد میں ہے جس کو شداد بن اوس سے امام صاحب نے مرفوعاً روایت کیا ہے، اس میں رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ اللہ تعالیٰ فرماتا ہے:
’’جو شخص دکھلاوے کی نماز پڑھتا ہے یا دکھلاوے کا روزہ رکھتا ہے یا دکھلاوے کا صدقہ و خیرات کرتا ہے تو اُس نے شرک کیا۔ اللہ تعالیٰ فرماتا ہے جو مجھ سے شرک کرے تو میں اپنے شریک سے بہترین حصہ دار ہوں جو میرے ساتھ کسی کو شریک کرے تو اُس کے عمل کی ہر کوشش اور اس کا ہر کم و بیش اُس کے اُس شریک کے لئے ہے جس کو اُس نے میرا شریک بنایا، میں اُس سے بے نیاز ہوں‘‘۔ (مسند احمد)۔
امام احمد رحمہ اللہ اس مقام پر بہت سی احادیث ذکر فرمانے کے بعد لکھتے ہیں کہ:
’’اگر جہاد کے عمل میں ریاکاری کے علاوہ کوئی دوسری نیت کارفرما ہو جیسے خدمت کا معاوضہ یا حصولِ غنیمت کا احساس پیدا ہو جائے یا سفر جہاد میں مالِ تجارت ساتھ لے لے تو ایسی صورت میں یہ عمل بالکل ضائع نہ ہو گا بلکہ جہاد کے اجر و ثواب میں کمی واقع ہوجائے گی‘‘۔
ابن رجب رحمہ اللہ امام احمد بن حنبل رحمہ اللہ کا حوالہ دیتے ہوئے کہتے ہیں کہ اُنہوں نے کہا کہ:
’’تجارت کرنے والے، مزدوری کرنے والے اور کرایہ پر کام کرنے والے کو جہاد میں اسی قدر اجر ملے گا جس قدر اُس کی نیت خالص ہو گی اور ان کو وہ درجہ نہ ملے گا جو ایسے آدمی کا ہے جو خالص اللہ تعالیٰ کے لئے اپنے مال اور اپنی جان سے اللہ کی راہ میں جہاد کرتا ہے‘‘۔
وہ شخص جو مزدوری لے کر جہاد میں شرکت کرتا ہے، ایسے شخص کے بارے میں امام احمد بن حنبل رحمہ اللہ مزید فرماتے ہیں کہ:
’’ایسا شخص اگر صرف روپے پیسے کی غرض سے جہاد میں شرکت نہیں کرتا بلکہ اُس کی نیت اعلائے کلمۃ اللہ بھی ہے تو کوئی مضائقہ نہیں۔ اس شخص کی مثال اُس شخص کی سی ہے جو اپنا قرض وصول کرنے کے لئے نکلا۔ اگر مل گیا تو ٹھیک ورنہ اللہ اللہ خیر سلا‘‘۔
مسند احمد میں سیدنا عبداللہ بن عمرو رضی اللہ عنہما سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:
جب کوئی تم میں سے جہاد کا مصمم ارادہ کر لے اور پھر اللہ اسے رزق بھی عنایت کرے تو اس میں کوئی حرج نہیں ہے۔ اور تم میں سے وہ شخص جسے روپیہ پیسہ مل جائے تو جنگ میں شریک ہو جاتا ہے اور اگر کچھ نہ دیا جائے تو شرکت نہیں کرتا ایسے شخص میں کوئی بھلائی نہیں ہے۔
و عن ابی سعید رضی اللہ عنہ مرفوعاً اَلَآ اُخْبِرُکُمْ بِمَا ھُوَ اَخْوَفُ عَلَیْکُمْ عِنْدِیْ مِنَ الْمَسِیْحِ الدَّجَّالِ قَالُوْا بَلٰی یَا رَسُوْلَ اﷲِ صلی اللہ علیہ وسلم قَالَ الشِّرْکُ الْخَفِیُّ یَقُوْمُ الرَّجُلُ فَیُصَلِّیْ فَیُزَیِّنُ صَلٰوتَہٗ لِمَا یَرٰی مِنْ نَّظرِ رَجُلٍ (رواہ احمد)
سیدنا ابوسعید خدری رضی اللہ عنہ سے مرفوعاً روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ میں تمہیں وہ بات نہ بتاؤں جس کا خوف مجھے تم پر مسیح دجال سے بھی زیادہ ہے؟ صحابہ کرام رضی اللہ عنہم نے عرض کی کہ ہاں ضرور بتائیے۔
آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ وہ شرک خفی ہے۔ وہ اِس طرح کہ کوئی شخص نماز کے لئے کھڑا ہو، پھر اپنی نماز کو محض دکھلاوے کے لئے عمدہ طریق سے ادا کرے۔
صحیح ابن خزیمہ میں محمود بن لبید سے روایت ہے وہ کہتے ہیں
’’ایک دفعہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ہمارے پاس تشریف لائے اور فرمانے لگے کہ اے لوگو! شرک خفی سے بچو‘‘ صحابہ کرام رضی اللہ عنہم نے عرض کی کہ یارسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم شرک خفی کیا ہے؟ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے جواب دیا ’’شرک خفی یہ ہے کہ انسان نماز پڑھنے لگے تو دوسروں کے لئے نماز کو اچھی طرح ادا کرے‘‘۔
اس شرک کو خفی اس لئے کہا گیا ہے کہ انسان لوگوں کو یہ یقین دلانے کی کوشش کرتا ہے کہ اس کا یہ عمل خالص اللہ کے لئے ہے لیکن واقعہ یہ ہے کہ بباطن وہ غیر اللہ کے لئے انجام دے رہا ہے، کیونکہ وہ نماز اس لئے ٹھیک ادا کر رہا ہے کہ اُسے لوگ دیکھ رہے ہیں۔ شداد بن اوس رضی اللہ عنہ سے روایت ہے ، وہ کہتے ہیں کہ :
’’رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے مقدس ترین دَور میں ہم ریاکاری کو شرکِ اصغر سمجھا کرتے تھے‘‘۔
(ابن جریر فی التہذیب)۔
علامہ ابن قیم رحمہ اللہ فرماتے ہیں:
’’شرک اصغر میں مندرجہ ذیل افعال، اعمال اور اقوال سرفہرست ہیں:
٭ معمولی قسم کی ریاکاری۔ ٭ کسی کام کو دکھلاوے کی غرض سے اچھا کرنا۔ ٭غیر اللہ کی قسم اٹھانا۔ ٭ایک دوسرے کو یہ کہنا ’’وہی ہو گا جو اللہ چاہے اور تم چاہو گے‘‘۔ ٭یہ اللہ تعالیٰ اور آپ کی طرف سے ہے۔ ٭میں اللہ تعالیٰ اور آپ کے ساتھ ہوں۔ ٭میرے لئے اللہ تعالیٰ اور آپ کافی ہیں۔ ٭ اللہ تعالیٰ اور آپ پر ہی میرا اعتماد ہے۔ ٭اگر اللہ تعالیٰ اور آپ نہ ہوتے تو یہ کام نہ ہوتا۔ مندرجہ بالا اُمور بعض اوقات شرکِ اکبر کا مقام بھی حاصل کر لیتے ہیں۔ اس میں کہنے والے کے عقیدہ کو بہت بڑا دخل ہے‘‘۔
اس امر میں کسی کو بھی اختلاف نہیں ہے کہ صحت عمل اور اس کی قبولیت میں اخلاص کو مرکزی حیثیت حاصل ہے اور اخلاص کے ساتھ ساتھ عمل کا مطابق سنت نبوی صلی اللہ علیہ وسلم ہونا بھی عظیم ترین شرط ہے۔
فضیل بن عیاض رحمہ اللہ آیت لِیَبْلُوَکُمْ اَیُّکُمْ اَحْسَنُ عَمَلاً کا مطلب بیان کرتے ہوئے فرماتے ہیں کہ:
’’عمل خالص بھی ہو اور صواب بھی ہو‘‘۔
دوستوں نے عرض کی کہ خالص اور صواب میں کیافرق ہے؟ فضیل بن عیاض رحمہ اللہ نے فرمایا کہ:
’’خالص یہ ہے کہ وہ عمل صرف اللہ تعالیٰ کی خاطرکیا جائے اور صواب یہ ہے کہ سنت نبوی صلی اللہ علیہ وسلم کے مطابق ہو۔ اگر عمل خالص ہو لیکن صواب نہ ہو یا صواب ہو اور خالص نہ ہو تو قبول نہیں ہوتا‘‘۔
زیرِ نظر حدیث میں بہت سے فوائد پنہاں ہیں مثلاً: رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی شفقت و محبت اُمت کے ساتھ، اُمت کی خیرخواہی۔ صالحین اُمت کے لئے ریاکاری کو فتنہ دجال سے بھی زیادہ خطرناک محسوس فرمایا۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے جب صحابہ کرام رضی اللہ عنہم کے متعلق قوت ایمانی کے باوجود ریاکاری کا خطرہ محسوس کیا تو ان کے بعد آنے والے حضرات کی کیا وقعت اور حیثیت باقی رہ جاتی ہے؟ بعد میں آنے والے افراد اُمت تو بالاولیٰ شرکِ اکبر اور شرک اصغر میں مبتلا ہو سکتے ہیں۔

فیہ مسائل
٭عمل صالحہ میں جب غیر اللہ کی رضا کا دخل ہو جائے تو اس کے ضائع ہونے میں کوئی شک نہیں رہتا۔ ٭ غیر اللہ کی رضا والے عمل کے ضائع ہونے کا سب سے بڑا سبب یہ ہے کہ اللہ تعالیٰ کی ذاتِ گرامی مستغنی اور بے پرواہ ہے۔ ٭ اس کے ضائع ہونے کے اسباب میں سے ایک سبب یہ ہے کہ اللہ تعالیٰ تمام شرکاء سے ارفع و اعلیٰ ہے۔ ٭ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا اپنے صحابہ کرام رضی اللہ عنہم کے بارے میں خطرہ محسوس کرنا کہ کہیں ان کے قلوب میں ریاکاری کے جراثیم نہ پیدا ہو جائیں۔ ٭ریاکاری کی تفسیر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے خود یہ ارشاد فرمائی کہ انسان نماز کو خالص اللہ کے لئے صحیح طور پر اطمینان سے اس لئے ادا کرے کہ لوگ اسے دیکھ رہے ہیں
 
Top