• الحمدللہ محدث فورم کو نئےسافٹ ویئر زین فورو 2.1.7 پر کامیابی سے منتقل کر لیا گیا ہے۔ شکایات و مسائل درج کروانے کے لئے یہاں کلک کریں۔
  • آئیے! مجلس التحقیق الاسلامی کے زیر اہتمام جاری عظیم الشان دعوتی واصلاحی ویب سائٹس کے ساتھ ماہانہ تعاون کریں اور انٹر نیٹ کے میدان میں اسلام کے عالمگیر پیغام کو عام کرنے میں محدث ٹیم کے دست وبازو بنیں ۔تفصیلات جاننے کے لئے یہاں کلک کریں۔

ہاتھوں کی محنت والی کمائی

محمد نعیم یونس

خاص رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
اپریل 27، 2013
پیغامات
26,582
ری ایکشن اسکور
6,748
پوائنٹ
1,207
ہاتھوں کی محنت والی کمائی

رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کا فرمان ہے:
قَالَ رَسُوْلُ اللّٰہِ صلی اللہ علیہ وسلم :
(( مَا أَکَلَ أَحَدٌ مِنْکُمْ طَعَامًا أَحَبَّ إِلَی اللّٰہِ عَزَّوَجَلَّ مِنْ عَمَلِ یَدَیْہِ۔ ))1
'' تم میں سے کسی نے بھی ایسا کھانا نہیں کھایا جو رب تعالیٰ کو اس کی ہاتھوں کی کمائی سے زیادہ محبوب ہو۔ ''
شرح...: اللہ تعالیٰ کو سب سے زیادہ کھانا وہ پسند ہے جسے انسان اپنے ہاتھوں سے کما کر کھاتا ہے۔
اسلام نے کام پر رغبت دلائی اور لوگوں سے مانگنا منع کیا ہے۔
وَقَالَ النَّبِيُّ صلی اللہ علیہ وسلم :
(( لَأَنْ یَّأْخُذَ أَحَدَکُمْ حَبْلَہُ فَیَأْتِيْ بِحُزْمَۃِ الْحَطَبِ عَلَی ظَھْرِہِ فَیَبِیْعَھَا فَیَکُفَّ اللّٰہُ بِھَا وَجْھَہُ، خَیْرٌ لَہُ مِنْ أَنْ یَسْأَلَ النَّاسَ أَعْطُوْہُ أَوْ مَنَعُوْہُ۔))2
'' اگر کوئی اپنی رسی اٹھائے اور لکڑی کا گٹھا اپنی پیٹھ پر لاد کر لائے، اس کو بیچے اور اللہ اس کے ذریعے اس کی آبرو بچائے رکھے تو یہ اس کے لیے اس سے بہتر ہے کہ لوگوں سے سوال کرے کہ وہ دیں یا نہ دیں۔ ''
اس حدیث میں مانگنے سے بچنے پر ابھارا گیا ہے، گو انسان طلب معاش میں اپنے آپ کو حقیر سمجھتا رہے اور مشقت اٹھاتا رہے کیونکہ کمائی کی وجہ سے کام کرنے میں کوئی عار نہیں، نیز اس حدیث سے ہاتھ کے کام کی فضیلت بھی ظاہر ہوتی ہے اور کسی سے کام کروانے کی بجائے براہ راست خود کام کرنے کا مقدم ہونا بھی ثابت ہوتا ہے۔
امام المرسلین صلی اللہ علیہ وسلم بذات خود محنت کرتے اور اپنے ہاتھوں سے کما کر کھاتے تھے یہاں تک کہ مکہ والوں کی بکریاں بھی چراتے تھے۔ رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:
قَالَ صلی اللہ علیہ وسلم :
(( مَا بَعَثَ اللّٰہُ نَبِیًّا إِلاَّ رَعٰی الْغَنَمَ )) فَقَالَ أَصْحَابُہُ: وَأَنْتَ؟ فَقَالَ: ((نَعَمْ، کُنْتُ أَرْعَاھَا عَلیٰ قَرَارِیْطَ لِأَھْلِ مَکَّۃَ۔ ))3
'' اللہ تعالیٰ نے کوئی پیغمبر ایسا نہیں بھیجا جس نے بکریاں نہ چرائی ہوں۔ صحابہ نے عرض کیا اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے بھی چرائیں؟ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ہاں میں چند قیراط اجرت پر مکہ والوں کی بکریاں چراتا تھا۔ ''
ــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــ
1مسند أحمد، رقم: ۱۷۱۱۵، وقال حمزۃ أحمد الزین: إسنادہ صحیح۔
2 أخرجہ البخاري في کتاب الزکوٰۃ، باب: الاستعفاف عن المسألۃ، رقم: ۱۴۷۱۔
3 أخرجہ البخاري في کتاب الإجارۃ، باب: رعي الغنم علی قراریط، رقم: ۲۲۶۲۔
 

محمد نعیم یونس

خاص رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
اپریل 27، 2013
پیغامات
26,582
ری ایکشن اسکور
6,748
پوائنٹ
1,207
سب انبیاء و رسل ہی کام کرتے اور اپنے ہاتھوں سے کماتے تھے چنانچہ داؤد علیہ السلام کاریگر تھے اور اپنے ہاتھ کی کمائی کماتے تھے۔
رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:
(( مَا أَکَلَ أَحَدٌ طَعَامًا قَطُّ خَیْرًا مِنْ أَنْ یَأْکُلَ مِنْ عَمَلِ یَدَہِ، وَإِنَّ نَبِيَّ اللّٰہِ دَاوٗدَ علیہ السلام کَانَ یَأْکُلُ مِنْ عَمَلِ یَدِہِ۔ ))1
'' کسی آدمی کے لیے اس سے بہتر کوئی کھانا نہیں ہے کہ اپنے ہاتھ سے محنت کرکے کھائے اور اللہ کے نبی داؤد علیہ السلام اپنے ہاتھ سے کما کر کھاتے تھے۔ ''
حدیث میں صرف حضرت داؤد علیہ السلام کے ذکر میں حکمت یہ ہے کہ کام کرنا ان کی مجبوری نہیں تھا کیونکہ اللہ رب تعالیٰ کے فرمان کے مطابق وہ زمین میں خلیفہ و حکمران تھے لیکن انہوں نے افضل طریقے سے کما کر کھانے کو پسند کیا، اسی لیے آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے ہاتھ کی محنت سے کمائے گئے مال کو بہترین ثابت کرنے کے لیے بطور دلیل حضرت داؤد علیہ السلام کا قصہ پیش کیا۔
حدیث سے یہ بھی ثابت ہوا کہ کمانا، توکل کے منافی نہیں۔ داؤد علیہ السلام کا ہاتھ سے محنت کرنے سے مراد زرہ بکتر بنانا ہے اور اللہ تعالیٰ نے ان کے لیے لوہے کو نرم کردیا تھا چنانچہ وہ زرہ بنا بنا کر فروخت کرتے اور بڑے بادشاہ اور حکمران ہونے کے باوجود صرف اور صرف اسی چیز کی کمائی کھاتے تھے۔اللہ تعالیٰ نے فرمایا:
{وَشَدَدْنَا مُلْکَہُ وَآتَیْنَاہُ الْحِکْمَۃَ وَفَصْلَ الْخِطَابِ o} [صٓ:۲۰]
'' اور ہم نے اس کی (داؤد علیہ السلام کی) سلطنت کو مضبوط کردیا تھا اور اسے حکمت اور فضل الخطاب (فیصلہ کن خطابات) عطا کی۔''
اس کے باوجود وہ محتاط رہتے اور صرف اپنے ہاتھ کی محنت سے کمائی ہوئی روزی تناول فرماتے۔
اللہ تعالیٰ کا فرمان ہے:
{وَعَلَّمْنٰہُ صَنْعَۃَ لَبُوْسٍ لَّکُمْ لِتُحْصِنَکُمْ مِّنْ بَأْسِکُمْ فَھَلْ أَنْتُمْ شٰکِرُوْنَ o} [الانبیاء: ۸۰]
'' اور ہم نے اسے (داؤد علیہ السلام کو) تمہارے لیے لباس بنانے کی کاریگری سکھائی۔ جو تمہاری جنگوں میں حفاظت کا موجب ہے تو کیا تم شکر بھی ادا کرنے والے بنو گے۔''
امام قرطبی رحمہ اللہ اس آیت کے تحت رقمطراز ہیں کہ کام سیکھنے اور اسباب پکڑنے میں یہ آیت بنیادی حیثیت کی حامل ہے اور عقل مندوں کی یہی رائے ہے، یہ جاہل اور غبی قسم کے انسانوں کا قول نہیں جو یہ کہتے ہیں کہ کام سیکھنا صرف کمزوروں کے ذمہ ہے۔
اس کا سبب اللہ کی مخلوق میں اللہ کی سنت ہے، چنانچہ جس نے اس میں (محنت مزدوری میں) طعن کیا تو وہ کتاب اللہ اور سنت میں نقص نکالتا ہے اور جن نبیوں کا ہم نے تذکرہ کیا ہے ان کی نسبت کمزوری اور جنون کی طرف کرتا ہے۔ کاریگری کے ذریعہ انسان اپنے آپ کو لوگوں سے روک لیتا ہے اور اپنے نفس سے ضرر اور تنگی دور کرتا ہے۔
ابن حجر رحمہ اللہ کے بقول اس کی ایک شرط یہ ہے کہ انسان یہ اعتقاد نہ رکھتا ہو کہ رزق کمانے سے حاصل ہوتا ہے بلکہ یہ نظر یہ ہو کہ اس واسطہ سے رزق اللہ تعالیٰ کی طرف سے ملتا ہے۔
ہاتھ سے محنت کرنے کی فضیلت میں باطل اور لہو و لعب کے مقابلہ میں مباح امور میں مشغول رہنا اپنے آپ کو اس کے ساتھ مصروف رکھنا اور غیر سے مانگنے کی ذلت سے بچنا شامل ہے۔
اس سے بلند مرتبہ والی ہاتھ کی کمائی وہ ہے جو جہاد کے ذریعہ کفار سے حاصل کی جائے اور آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم اور آپ کے صحابہ کا یہی ذریعہ تھی یہ اشرف ترین کمائی ہے کیونکہ اس میں اللہ تعالیٰ کا کلمہ بلند اور دوسرے دشمنوں کا کلمہ پست ہوتا ہے نیز اس میں اخروی نفع بھی ہوتا ہے۔
ــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــ
1 أخرجہ البخاري في کتاب البیوع، باب: کسب الرجل وعملہ بیدہ، رقم: ۲۰۷۲۔
 

محمد نعیم یونس

خاص رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
اپریل 27، 2013
پیغامات
26,582
ری ایکشن اسکور
6,748
پوائنٹ
1,207
یہاں پر ایک اور بھی حلال اور پاکیزہ کمائی ہے لیکن اس کا تعلق براہ راست ہاتھوں کی محنت سے نہیں۔ مراد اس سے اولاد کی کمائی ہے اسے بھی انسان کی ذاتی کمائی ہی شمار کیا گیا ہے۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:
((عَنْ عَمَّۃِ عَمَارَۃِ بْنِ عُمَیْرٍ أَنَّہَا سَأَلَتْ عَائِشَۃَ: فِیْ حِجْرِیْ یَتِیْمٌ أَفَآکُلُ مِنْ مَّالِہٖ فَقَالَتْ: قَالَ رَسُوْلُ اللّٰہِ صلی اللہ علیہ وسلم : إِنَّ مِنْ أَطْیَبِ مَا أَکَلَ الرَّجُلُ مِنْ کَسْبِہِ، وَوَلَدُہُ مِنْ کَسْبِہِ۔ ))1
'' عمارہ بن عمیر کی پھوپھی بیان کرتی ہیں کہ انہوں نے اُم المؤمنین سیّدہ عائشہ رضی اللہ عنہا سے مسئلہ پوچھا: میری زیر پرورش ایک یتیم ہے۔ کیا میں اُس کے مال سے کھا سکتی ہوں؟ سیّدہ عائشہ رضی اللہ عنہا نے جواب دیاکہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا ہے: بے شک زیادہ پاکیزہ رزق وہ ہے جو انسان اپنی کمائی سے کھاتا ہے اور اس کی اولاد اس کی کمائی سے ہے۔ ''
کیونکہ اولاد اس کی شادی کی وجہ سے حاصل ہوئی، لہٰذا باپ کے لیے ان کی کمائی کھانا جائز ہے۔
ابوعیسیٰ رحمہ اللہ کا قول ہے کہ بعض صحابہ اور دیگر کئی اہل علم کا عمل اسی بات پر ہے کہ والد کا ہاتھ اولاد کے مال میں کشادہ ہے چنانچہ جو چاہے لے سکتا ہے۔بعض اہل علم کا قول ہے کہ صرف ضرورت کے وقت ہی لے سکتا ہے ویسے نہیں۔
ــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــ
1 صحیح سنن أبي داؤد، رقم: ۳۰۱۳۔
 

محمد نعیم یونس

خاص رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
اپریل 27، 2013
پیغامات
26,582
ری ایکشن اسکور
6,748
پوائنٹ
1,207
آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے اس چیز کی وضاحت کی ہے کہ اولاد انسان کی بہترین کمائی میں سے ہے اور اس کا مال کھانا باپ کے لیے جائز و درست ہے چنانچہ فرمایا:
(( وَلَدُ الرَّجُلِ مِنْ کَسْبِہِ، مِنْ أَطْیَبِ کَسْبِہِ، فَکُلُوْا مِنْ أَمْوَالِھِمْ۔ ))1
'' آدمی کی اولاد اس کی کمائی سے ہے، (بلکہ) اس کی بہترین کمائی سے ہے، لہٰذا ان کے اموال سے کھاؤ۔ ''
اسی لیے جب رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس ایک آدمی آیا تو اس نے پوچھا: اے اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم ! میرا مال بھی ہے اور اولاد بھی اور میرا باپ میرے مال کا محتاج ہے (یعنی میں کیا کروں؟) آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے جواب دیا:
(( أَنْتَ وَمَالُکَ لِوَالِدِکَ؛ إِنَّ أَوْلَادَکُمْ مِنْ أَطْیَبِ کَسْبِکُمْ، فَکُلُوْا مِنْ کَسْبِ أَوْلَادِکُمْ۔ ))2
'' تو اور تیرا مال تیرے والد کے لیے ہے بے شک تمہاری اولاد تمہاری بہترین کمائی سے ہے چنانچہ اپنی اولاد کی کمائی سے کھاؤ۔ ''
ایک روایت میں ہے کہ اس آدمی نے آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کو شکایت لگائی تھی کہ میرا باپ میرا مال ختم کر رہا ہے تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اس کا عذر قبول نہیں کیا اور نہ ہی والد پر خرچ روکنے کی رخصت دی بلکہ فرمایا: تو اور تیرا مال تیرے والد کا ہے۔ یعنی جب وہ تیرے مال کامحتاج ہوگا تو ضرورت کے مطابق تجھ سے مال لے سکتا ہے جیسے وہ اپنے مال سے لیتا تھا اور جب تیرے پاس مال نہیں تھا لیکن اب تیرے پاس کمائی کا ذریعہ ہے تو تجھ پر کما کر باپ پر خرچ کرنا لازم ہے۔
ــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــ
1صحیح سنن أبي داود، رقم: ۳۰۱۴۔
2 صحیح سنن أبي داؤد، رقم: ۳۰۱۵۔
اللہ تعالی کی پسند اور ناپسند
 
شمولیت
اگست 11، 2013
پیغامات
17,117
ری ایکشن اسکور
6,783
پوائنٹ
1,069
15317927_1145235268878074_9028563754056444002_n (1).jpg


پاکیزہ کمائی


رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے پوچھا گیا کہ کونسی کمائی پاکیزہ تر ہے؟ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا ، آدمی کی اپنے ہاتھ کی کمائی اور ہر قسم کی تجارت جو دھوکہ و فریب سے پاک ہو

--------------------------------------------------

(السلسلة الصحيحة : 607 ، ، الترغيب والترهيب : 3/4 ، ،
صحيح الترغيب : 1688 (صحيح لغيره) ، ، السنن الكبرى للبيهقي :5/263 ، ،
شعب الإيمان للبيهقي : 2/548 ، ، الآداب للبيهقي : 483 ، ،
المعجم الأوسط للطبراني : 8/47 ، ، صحيح الجامع : 1126)
 
Top