• الحمدللہ محدث فورم کو نئےسافٹ ویئر زین فورو 2.1.7 پر کامیابی سے منتقل کر لیا گیا ہے۔ شکایات و مسائل درج کروانے کے لئے یہاں کلک کریں۔
  • آئیے! مجلس التحقیق الاسلامی کے زیر اہتمام جاری عظیم الشان دعوتی واصلاحی ویب سائٹس کے ساتھ ماہانہ تعاون کریں اور انٹر نیٹ کے میدان میں اسلام کے عالمگیر پیغام کو عام کرنے میں محدث ٹیم کے دست وبازو بنیں ۔تفصیلات جاننے کے لئے یہاں کلک کریں۔

ہاتھ چھوڑ کر نماز

شمولیت
ستمبر 21، 2017
پیغامات
548
ری ایکشن اسکور
14
پوائنٹ
61
السلام علیکم ورحمۃ اللہ
السلام علیکم ورحمۃ اللہ وبرکاتہ!
''حق'' اور ''اپنے حق'' کے فرق کا لحاظ کیئے بغیر کسی کو دستبرداری سے اجر کی امید ہے، تو یہ ''اجر'' مقلدین لے لیں!
ہم ایسے ''اجر'' سے دستبردار ہو جاتے ہیں!
بھائی یہاں کوئی مناظرہ نہیں ہو رہا مذاکرہ ہورہا ہے۔ آپ اپنے مفید مشوروں سے نوازیں مہذب انداز میں۔
 

ابن داود

فعال رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
نومبر 08، 2011
پیغامات
3,410
ری ایکشن اسکور
2,730
پوائنٹ
556
السلام علیکم ورحمۃ اللہ وبرکاتہ!
بھائی یہاں کوئی مناظرہ نہیں ہو رہا مذاکرہ ہورہا ہے۔ آپ اپنے مفید مشوروں سے نوازیں مہذب انداز میں۔
میں تو آپ کے حق میں تعزیر کے حق میں ہوں!
ممکن ہو تو میں آپ کو تعزیر سے نوازوں!
 
شمولیت
ستمبر 21، 2017
پیغامات
548
ری ایکشن اسکور
14
پوائنٹ
61
السلام علیکم ورحمۃ اللہ وبرکاتہ!

میں تو آپ کے حق میں تعزیر کے حق میں ہوں!
ممکن ہو تو میں آپ کو تعزیر سے نوازوں!
وعلیکم السلام ورحمۃ اللہ وبرکاتہ
بھائی صلح صفائی اچھی چیز ہے لڑائی جھگڑا بری۔
اچھائی کا ساتھ دو برائی سے رکو۔ اللہ آپ کو جزائے خیر دے۔
 
شمولیت
ستمبر 21، 2015
پیغامات
2,697
ری ایکشن اسکور
760
پوائنٹ
290
سوال: نماز میں ہاتھ باندھنے کا کیا حکم ہے؟

الحمد للہ:

اول:

نماز میں ہاتھ باندھنے کا مطلب یہ ہے کہ : قیام کے دوران دائیں ہاتھ کو بائیں پر رکھے، یہ نماز میں نبی صلی اللہ علیہ وسلم سے ثابت شدہ عمل ہے، اور جمہور اہل علم نماز میں ہاتھ باندھنے کے قائل ہیں۔

ابن قدامہ رحمہ اللہ کہتے ہیں:
" نماز میں دائیں ہاتھ کو بائیں ہاتھ پر رکھنا : بہت سے اہل علم کے مطابق نماز کے ثابت شدہ طریقے میں شامل ہے، یہ عمل علی ، ابو ہریرہ رضی اللہ عنہما کیساتھ ساتھ نخعی، ابو مجلز، سعید بن جبیر، ثوری، شافعی اور اصحاب الرائے سے مروی ہے، ابن المنذر نے اسے مالک سے بھی نقل کیا ہے" انتہی
"المغنی" (1/281)

دائمی فتوی کمیٹی کے علمائے کرام کا کہنا ہے:
"نماز میں ہاتھ باندھنے کا طریقہ یہ ہے کہ: دائیں ہاتھ کی ہتھیلی کو بائیں ہاتھ پر رکھا جائے، جبکہ "سدل" یہ ہے کہ ہاتھوں کو پہلوؤں کی طرف لٹکا دیا جائے، اور نبی صلی اللہ علیہ وسلم سے یہ ثابت ہے کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے نماز میں قراءت کے وقت اپنا دایاں ہاتھ بائیں ہاتھ پر رکھا ، اور اسی طرح رکوع سے اٹھنے کے بعد قومہ کی حالت میں بھی اسی طرح ہاتھ باندھے، اس عمل نبوی کو احمد، اور مسلم نے وائل بن حجر رضی اللہ عنہ سے روایت کیا ہے، وہ کہتے ہیں:
"انہوں نے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کو ابتدائے نماز میں تکبیر کیساتھ رفع الیدین کرتے ہوئے دیکھا، پھر آپ نے اپنا کپڑا [اوپر لی ہوئی چادر وغیرہ]سمیٹ کر اپنا دایاں ہاتھ بائیں ہاتھ پر رکھا، اور جس وقت رکوع میں جانے لگے تو کپڑے کے اندر سے ہاتھ باہر نکال کر رفع الیدین کیساتھ تکبیر کہی ، اور رکوع میں چلے گئے، پھر جب "سمع اللہ لمن حمدہ" کہا تو پھر رفع الیدین کیا، اور جب آپ سجدے میں گئے تو اپنی دونوں ہتھیلیوں کے درمیان سجدہ فرمایا"
اور احمد و ابو داود کی حدیث میں الفاظ یوں ہیں: "آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنا دایاں ہاتھ بائیں ہاتھ کی ہتھیلی، پَہُنچَا[ہتھیلی اور کلائی کا درمیانی جوڑ]، کلائی پر رکھا"
اور ابو حازم سہل بن سعد ساعدی رضی اللہ عنہ سے روایت کرتے ہیں کہ: "لوگوں کو حکم دیا جاتا تھا کہ ہر شخص نماز میں اپنا دایاں ہاتھ بائیں بازو پر رکھے" ابو حازم یہ بیان کرنے کے بعد کہتے ہیں: مجھے اس عمل کے بارے میں یہی علم ہے کہ یہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کا عمل ہے" احمد ، بخاری

نیز نبی صلی اللہ علیہ وسلم سے کسی حدیث میں یہ ثابت نہیں ہے کہ انہوں نے اپنے دونوں ہاتھوں کو نماز میں قیام کے دوران نیچے لٹکایا ہو"
"فتاوى اللجنة الدائمة" (6/365، 366)

دوم:

دونوں ہاتھوں کو باندھنے کی جگہ سینے پر ہے۔
چنانچہ ابن خزیمہ: (479) میں وائل بن حجر رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کیساتھ نماز ادا کی، تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنا دایاں ہاتھ بائیں ہاتھ پر رکھا اور انہیں سینے پر باندھا۔
البانی رحمہ اللہ نے اس حدیث کو "تحقیق صحیح ابن خزیمہ " میں صحیح کہا ہے۔

نیز البانی رحمہ اللہ اپنی کتاب: "صفة صلاة النبي صلى الله عليه وسلم" (ص 69) میں کہتے ہیں:
"دونوں ہاتھوں کو سینے پر باندھنا ہی سنت میں ثابت ہے، جبکہ اس سے متصادم کوئی بھی عمل یا تو ضعیف ہے، یا پھر بے بنیاد ہے" انتہی

سندی رحمہ اللہ سنن ابن ماجہ پر اپنے حاشیہ میں کہتے ہیں:
"مختصر یہ ہے کہ : جس طرح ہاتھوں کو چھوڑنے کی بجائے انہیں باندھنا ہی سنت ہے، اسی طرح یہ بھی ثابت ہے کہ دونوں ہاتھوں کو باندھنے کی جگہ سینہ ہی ہے، کوئی اور جگہ نہیں ہے، جبکہ یہ حدیث کہ: "سنت یہ ہے کہ ہتھیلی کو ہتھیلی پر رکھ کر نماز میں ناف کے نیچے باندھا جائے" تو اس حدیث کے ضعیف ہونے پر سب متفق ہیں" انتہی

شیخ ابن عثیمین رحمہ اللہ کہتے ہیں:
"نماز میں ناف کے نیچے ہاتھ باندھنا ہی [حنبلی] مذہب میں مشروع عمل ہے اور یہی قول مشہور ہے، اس بارے میں علی رضی اللہ عنہ کی ایک روایت بھی ہے کہ: "سنت یہ ہے کہ ہتھیلی کو ہتھیلی پر رکھ کر نماز میں ناف کے نیچے باندھا جائے" اسے ابو داود نے روایت کیا ہے، اور نووی ،ابن حجر رحمہما اللہ سمیت دیگر ائمہ کرام نے اسے ضعیف قرار دیا ہے۔

جبکہ کچھ اہل علم اس بات کے قائل ہیں کہ ہاتھوں کو ناف سے اوپر باندھا جائے، اس بارے میں امام احمد نے واضح لفظوں میں صراحت کی ہے۔

جبکہ دیگر اہل علم اس بات کے قائل ہیں کہ دونوں ہاتھوں کو سینے پر باندھے، اور یہی موقف صحیح ترین ہے، تاہم اس بارے میں صریح نصوص کے بارے میں کچھ نقد کیا گیا ہے، لیکن بخاری کی روایت سہل بن سعد والی سے اس بات کی واضح تائید ہوتی ہے کہ ہاتھوں کے باندھنے کی جگہ سینہ ہی ہے، نیز سینے پر ہاتھ باندھنے کے بارے میں سب سے اچھی حدیث -اگرچہ اس پر کچھ نہ کچھ نقطہ چینی کی گئی ہے- وہ وائل بن حجر رضی اللہ عنہ والی روایت ہے کہ : "نبی صلی اللہ علیہ وسلم اپنے دونوں ہاتھوں کو سینے پر باندھا کرتے تھے""
"الشرح الممتع" (3/36، 37)

سوم:

دونوں ہاتھوں کو باندھنے کا طریقہ دو طرح ہے:

1- اپنی دائیں ہتھیلی بائیں ہتھیلی، پَہُنچَا[ہتھیلی اور کلائی کا درمیانی جوڑ]اور کلائی پر رکھے۔

2- اپنے دائیں ہاتھ سے بائیں ہاتھ کو پکڑ لے۔

ان دونوں کیفیات کے دلائل سوال نمبر: (
41675) کے جواب میں ملاحظہ کریں۔

واللہ اعلم.

شیخ صالح المنجد
 

ابن داود

فعال رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
نومبر 08، 2011
پیغامات
3,410
ری ایکشن اسکور
2,730
پوائنٹ
556
السلام علیکم ورحمۃ اللہ وبرکاتہ!
بھائی صلح صفائی اچھی چیز ہے لڑائی جھگڑا بری۔
اچھائی کا ساتھ دو برائی سے رکو۔ اللہ آپ کو جزائے خیر دے۔
جی تعزیر بھی دین اسلام میں شامل ہے، اور اس پر بھی اجر ہے!
اور برائی کی سزا اور اس سے روکنے کے لئے ہی تعزیر لگائی جاتی ہے!
 
شمولیت
ستمبر 21، 2017
پیغامات
548
ری ایکشن اسکور
14
پوائنٹ
61
وعلیکم السلام ورحمۃ اللہ وبرکاتہ
جی تعزیر بھی دین اسلام میں شامل ہے، اور اس پر بھی اجر ہے!
اور برائی کی سزا اور اس سے روکنے کے لئے ہی تعزیر لگائی جاتی ہے!
اتحاد کی کوشش قابل تعزیر ہے تو ان کوششوں کو مسدود کرنے والے پر کیا ہے؟ ابتسامہ
 
شمولیت
ستمبر 21، 2017
پیغامات
548
ری ایکشن اسکور
14
پوائنٹ
61
اس تھریڈ کا مقصد یہی تھا کہ جو فقہاء ہاتھ چھوڑ کر نماز پڑھتے ہیں دلائل وہ بھی رکھتے ہیں اور ان شاء اللہ نماز ان کی بھی باعث اجر ہے۔
دیکھنا یہ ہے کہ ایک طرف ہاتھ چھوڑ کر نماز بھی باعث اجر کہلائے اور دوسری طرف ہاتھ باندھنے کے مقام پر اسقدر جھگڑا کہ شائد فریقین میں سے کسی کی نماز ہی قبول نہ ہو۔
 
شمولیت
ستمبر 21، 2015
پیغامات
2,697
ری ایکشن اسکور
760
پوائنٹ
290
دیکھنا بھی آپ نے اور سمجھنا بھی آپ نے ہی ھے کہ آپ کس بات کے کیا معنی لیتے ہیں - اتحاد بالمقابل کفر کس نے ٹھہرایا؟ قصص کس نے بیان کئے ، وغیرہ وغیرہ اور وغیرہ
 
شمولیت
ستمبر 21، 2015
پیغامات
2,697
ری ایکشن اسکور
760
پوائنٹ
290
السلام علیکم ورحمۃ اللہ وبرکاتہ!
میرا مؤقف میں ایک بار پھر واضح کردوں!
جب تک کوئی بھی شخص نماز کے جس طریقہ کو واقعتاً اللہ کے نبی صلی اللہ علیہ وسلم سے جائز اور ثابت سمجھ کر ادا کرتا ہے، اور اس پر اس کا غلطی و بطلان واضح وبین نہیں ہو جاتا، اس کی نماز کے اللہ کے ہاں مقبول ہونے کا معاملہ اللہ ہی جانتا ہے، میں اس کی نماز کو اللہ کے ہاں غیر مقبول نہیں کہہ سکتا!
بلکہ میں تمام مسلمانوں کی نمازوں کے لئے اللہ کے ہاں دعاگو ہوں کہ اللہ ہماری نمازوں کی کمی کوتاہی معاف فرمائے!
اور ہر شخص کو چاہیئے کہ وہ اسی طرح نماز ادا کرے جسے وہ اللہ کے نبی صلی اللہ علیہ وسلم سے جائز و ثابت سمجھتا ہے! خواہ حنفی ہو، خواہ ، مالکی ، خواہ اہل الحدیث!
اللہ انسان کے دلوں کا حال جانتا ہے، کہ کون کسی معاملہ کے بین ہو جانے کے بعد مخالفت کرتا ہے، اور کس پر حقیقت حال مخفی ہے!
واضح ترین اور آخری سطر توجہ طلب
 
شمولیت
ستمبر 21، 2017
پیغامات
548
ری ایکشن اسکور
14
پوائنٹ
61
السلام علیکم ورحمۃ اللہ
واضح ترین اور آخری سطر توجہ طلب
اللہ انسان کے دلوں کا حال جانتا ہے، کہ کون کسی معاملہ کے بین ہو جانے کے بعد مخالفت کرتا ہے، اور کس پر حقیقت حال مخفی ہے!
بالکل صحیح کہا کہ کسی بات کی بین ہوجانے کے بعد مخالفت نری ہٹ دھرمی کہلائے گی۔ جس سے مخفی ہے وہ معذور ہونے کے سبب اجر کا مستحق رہے گا۔
مسئلہ اس وقت ہوتا ہے کہ ایک فریق اپنے فہم کو دمجھتا ہے کہ یہ بین ہے مگر دوسرا اسے خطا پر سمجھ رہا ہوتا ہے۔ وہ اپنے فہم کو صحیح کہہ رہا ہوتا ہے۔
لہٰذا فیصہ یوں نہیں بلکہ یوں ہو کہ وہ اظہر من الشمس ہو۔
 
Top