• الحمدللہ محدث فورم کو نئےسافٹ ویئر زین فورو 2.1.7 پر کامیابی سے منتقل کر لیا گیا ہے۔ شکایات و مسائل درج کروانے کے لئے یہاں کلک کریں۔
  • آئیے! مجلس التحقیق الاسلامی کے زیر اہتمام جاری عظیم الشان دعوتی واصلاحی ویب سائٹس کے ساتھ ماہانہ تعاون کریں اور انٹر نیٹ کے میدان میں اسلام کے عالمگیر پیغام کو عام کرنے میں محدث ٹیم کے دست وبازو بنیں ۔تفصیلات جاننے کے لئے یہاں کلک کریں۔

ہاں میں تنگ نظر ہوں !

شمولیت
اگست 11، 2013
پیغامات
17,117
ری ایکشن اسکور
6,783
پوائنٹ
1,069
ہاں میں تنگ نظر ہوں !

یہ تحریر صحابہ کرام کے غلاموں کے نام.

عام طور پر تنگ نظری صحیح نہیں، لیکن جب آپ کی وسعت قلبی کو تنگ نظری کا جامہ پہنایا جائے تو شرح صدر کے ساتھ اس تنگ نظری کو قبول کرنا چاہیے.
در اصل صحابہ کرام کے بارے میں میرا نظریہ یہ ہے کہ ان کی غلطیاں صحیح سند سے بھی قبول نہیں کی جائے گی، چہ جائیکہ اس کی سند ضعیف یا موضوع ہو.
کیوں کہ وہ ہمارے سر کا تاج ہیں، جینے کا حوصلہ ہیں، مسکرانے کا سبب ہیں، آنکھوں کا نور ہیں، دل کا سرور ہیں، ہدایت کا معیار ہیں، حق وباطل کے مابین تفریق کی دیوار ہیں، اللہ کے پسندیدہ ہیں، نبی کے گرویدہ ہیں.
بھلا کوئی اپنے سر کے اس تاج کی برائی سن سکتا ہے جسے عرش والے نے سجایا ہو، کیا کوئی اپنی آنکھوں کو بے نور کر سکتا ہے، کیا کوئی اپنا چین و سکوں داؤ پر لگا سکتا ہے؟
تو پھر ہم سے یہ کیسے امید رکھتے ہو کہ ہم تمھاری بے سند باتوں پر کان دھریں.
اگر صحابہ کے بارے میں صرف اچھی باتیں سننا اور ان کی برائی سننے سے حد درجہ نفرت کرنا تنگ نظری ہے تو یہ تنگ نظری ہمیں دل وجان سے قبول ہے، کیوں کہ خالق کائنات نے ہمیں یہی سکھایا ہے، اور سرور دو عالم نے ہمیں یہی تعلیم دی ہے.
رب دو جہاں کو پہلے سے علم تھا کہ کون سے صحابی سے کہاں اور کتنی بڑی غلطی ہوگی، اس کے باوجود رب رحیم نے ان سے جنت کا وعدہ کرلیا، اور قیامت تک آنے والے لوگوں کو یہ تعلیم دی کہ دیکھو میرے محبوب کے اصحاب کی غلطی کو میں نے در گذر کردیا ہے اس لئے تم ان کے دفینے کو اکھاڑ کر اپنی عاقبت خراب نہ کرنا.
کہتے ہو کہ بڑے جلد باز ہو، بہت تسرع سے کام لیتے ہو، کسی کے کہنے کا مقصد سمجھتے ہی نہیں ہو. تم خود سوچو کہ اپنی جان کے دفاع کی جلد بازی کس میں نہیں ہوتی؟
صحابہ کرام تو ہماری جان سے بڑھ کر ہیں، ان کی محبت اور ان کی عزت وقار کے دفاع کے بنا تو ہم مردہ لاش ہیں، اگر ہم نے عزیز از جان کے دفاع میں جلد بازی کردی تو کون سا جرم کر دیا؟
نیز جب ان کے دفاع کے ضمن میں رسول، دین اسلام، اور جنت کا دفاع آتا ہو تو ویسے بھی اسے فاستبقوا الی الخیرات کی سند مل جاتی ہے.
کیا تم نے سنا نہیں کہ ابو بکر وعمر رضی اللہ عنہما کے مابین کچھ کہا سنی ہو گئی، صدیق کہتے ہیں کہ مجھے ندامت ہوئی، میں نے عمر سے معافی مانگی، لیکن عمر نے انکار کر دیا، میں نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس آیا اور پورا ماجرا سنایا، نبی اکرم نے کہا کہ اے ابوبکر تجھے اللہ پروانہ مغفرت عطا کرے، پھر عمر کو ندامت ہوئی، ابوبکر کو ڈھونڈتے ہوئے دربا رسالت پہنچے، دیکھا تو فضا بدلی ہوئی ہے، ایک سناٹا سا چھایا ہے، سید المرسلین کے چہرے کا رنگ تبدیل ہو چکا ہے، ابو بکر نے فورا صورت حال کو بھانپ لیا اور اپنے گھٹنوں کے بل بیٹھ کر فریاد کرنے لگے کہ اے نبیوں کے سردار غلطی میری تھی، میں نے عمر پر ظلم کیا تھا، لیکن نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کا غصہ ٹھنڈا نہیں ہوا، نبی کہنے لگے کہ: تم میرے اس ساتھی کو ستاتے ہو کہ جب پوری دنیا مجھے جھٹلا رہی تھی تو اکیلا یہ میری تصدیق کر رہا تھا، جب سب میرے پاس آنے سے ڈرتے تھے تب اس نے اپنی جان ومال سب کچھ نچھاور کر دیا.
رضی اللہ عنہما وعن سائر الصحابۃ اجمعین
صحیح بخاری میں یہ قصہ موجود ہے.
ذرا دل کو یکجا کرو، دماغ کو متوجہ کرو، ہوش حواس کو قلب کا پابند کرکے سوچو کہ کیا نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کو طرفین کی باتیں سن کر فیصلہ نہیں کرنا چاہیے تھا؟
خاص کر جب صدیق اکبر خود اپنی غلطی کا اعتراف کر رہے ہیں؟
کیا اسے بھی جلد بازی، بردباری وسمجھداری سے عاری جذبہ کہوگے؟
یہاں فیصلہ مقصود نہیں تھا، یہاں یہ بتانا مقصود تھا کہ:
جن کے رتبے میں سوا ہے ان کو سوا مشکل ہے
یعنی تکلیف ابو بکر کو ہوتی اور اور درد مجھے ہوتا ہے، اذیت ابوبکر کو ہوتی ہے اور دل میرا بے چین ہوتا ہے.
ابو بکر صدیق رضی اللہ عنہ کی قدر ومنزلت اور ان کی عظمت کو سب کے سامنے بیان کرنا تھا، ورنہ عمر رضی اللہ عنہ بھی نبی کے چہیتے اور پیارے تھے، ویسے ہی تمام صحابہ کرام نبی کے چہیتے تھے.
تم صحیح سند سے صحابہ کی غلطی ثابت کرتے ہو اور کرب واذیت نبی کو ہوتی ہے، توہین رب کے فیصلے کی ہوتی، وقار قرآن کا داؤ پر لگتا ہے.
جن کے بارے میں بدکلامی سے نبی کو تکلیف ہو کیا ہم جیسے غلامان نبی اور ان کی شفاعت کے لالچی کو تکلیف نہ ہوگی؟
اگر کل کو یہ سوال ہو گیا کہ تم سے تو میرے دفاع کرنے والوں کا دفاع بھی نہ ہو سکا، تم تو اپنے آپ کو اختلاف سے بچانے کی خاطر میرے دوستوں کی برائی سنتے رہے، تم کیسے میرے حوض سے پینے کے لائق ہو؟
بتاؤ کیا جواب دوں گا جنت کا دروازہ کھولنے والے، اور اپنی شفاعت سے جہنم سے نکال کر جنت میں داخل کروانے والے پیارے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کو؟
نبی سے دیوانہ وار محبت کرنے والے نفوس قدسیہ کے خلاف ایک جملہ دل کو چھلنی ہی نہیں بلکہ روح کو زخمی کردیتا ہے، دل چھلنی ہو تو پھر سکون میسر آجاتا ہے، لیکن جب روح زخمی ہوتی ہے تو اس کا علاج صرف دفاع صحابہ میں ہی ملتا، یہ ایک لذت ہے جس کا احساس ہر کسی کو نہیں ہوتا.

اس لئے میں ان لوگوں سے کہتا ہوں جن کی ناقص عقل اور عاصی زبان صحابہ کرام اور بالخصوص کاتبِ وحی امیر المومنین معاویہ رضی اللہ عنہم اجمعین کو نشانہ بناتی ہے کہ سنو: معاویہ رضی اللہ عنہ کے گناہ (یہ بات بطور الزام کہی جا رہی ہے، ورنہ ہم صحابہ کرام کی لغزشوں کو شمار کرنا اللہ کے فیصلے پر انگشت نمائی سمجھتے ہیں) تمھاری نیکیوں پر بھاری ہیں، کیوں کہ معاویہ کے رب نے تو ان کے گناہ کو معاف فرما کر جنت کا پروانہ دے دیا ہے، لیکن تمہاری ساری عمر نیکیوں کا پتہ ہی نہیں کہ وہ درباری الہی میں پہنچی بھی ہے یا نہیں؟؟؟
کبھی مدینہ آنا ہو تو ان جاں نثاروں کی جاں نثاری کا مظہر دیکھنا، مسجد نبوی کا ایک ایک کھمبا، اور اس کے فرش کا ایک ایک ذرہ صحابہ کی عظمت کو سلام کرتا نظر آئے گا، مسجد کے ہر گوشے سے صحابہ کرام کے خلوص کی خوشبو آئے گی، پوری مسجد بلکہ پورا مدینہ ان کی محبت رسول کی گواہی دے گا، موقع ملے تو احد بھی چلے جانا، وہاں کی ہوائیں تمہیں نبی کے دیوانوں کی قربانی اور جاں نثاری کے قصے سسک سسک کر سنائیں گی، ذرا جبل رماۃ کا بھی رخ کر لینا جہاں آج بھی اس کے سینے سے حمزہ وابودجانہ رضی اللہ عنہما کی شہادت کے حزن وملال کی آہ وبکا سنائی دیتی ہے، ذرا احد کو بھی مخاطب کرلینا کیوں کہ وہ تو نبی سے محبت کرتا تھا نا، وہ قصہ بڑی تفصیل سے بتائے گا، اور ساتھ ہی اپنی بے بسی پر روئے گا بھی کہ جب یاران رسول خاتم الانبیاء کی حفاظت کی خاطر اپنے جسموں پر تیر وتلوار کے زخم کھا رہے تھے تو میں بے بسی سے دیکھتا رہا، ذرا احد اور جبل رماۃ کے بیچ وبیچ بھی چلے جانا، ہاں یاد رہے یہاں جانے سے قبل دل کو مضبوط کرلینا، کیوں کہ یہاں کی زمین تمہیں چہرہ انور کے زخمی ہونے کا ادھورا قصہ سنائے گی، کیوں کہ وہ کبھی اسے پورا کر ہی نہیں پاتی، نیز یہ بھی بتائے گی کہ ایک خاتون شوہر، بیٹا اور بھائی کی شہادت پر اتنی بے چین نہیں ہوئی جتنی مضطرب وہ نبی کی شہادت کی افواہ پر ہوئی، اور جب لوگ مدینے میں پناہ لینے جا رہے تھے تو یہ افواہ کی حقیقت جاننے کیلئے میدان جنگ کی طرف دیوانہ وار دوڑی چلی آرہی تھی، جب اس نے اپنی آنکھوں سے چہرہ انور کا دیدار کر لیا تو بے ساختہ کہہ اٹھی کل مصیبۃ بعک جلل یا رسول اللہ، پھر وہ زمیں بلکتے ہوئے اپنی عاجزی کے قصے یوں سنائی گی کہ عربی اور اردو دونوں زبانوں میں میرا ضمیر مؤنث ہے، لیکن میرے ضمیر کی انوثت کو وہ عظمت حاصل نہ ہو سکی جو اس خاتون کو حب رسول کے جذبہ نے عطا کیا.
بتاؤ نا دنیا میں کون سی ایسی قربانی ہے جسے صحابہ کرام رضی اللہ عنہم اجمعین اپنے نبی کے اشارہ ابرو کی نذر نہ کیا ہو.
اب بولو کیا ان کی قربانیوں پر قربان نہ جاؤں؟
کیا ایسی پاکیزہ ہستیوں کے دفاع میں جلد بازی کرنا خطا ہے؟
ان کی غلطیوں کا احصائیہ پیش کرکے انہیں غلط ٹھہرانے والوں کے خلاف دل کا سینے سے باہر نکل کر دفاع صحابہ کا ثبوت دینا حلم وبردباری کے خلاف ہے؟
ذرا تم خود سوچو کہ جنہوں نے اپنے بچوں کو یتیم، اور اپنی شریک حیات کو بیوہ کرکے نبی کی جان کی حفاظت میں لگ گئے، اور جسم سے نکلنے والے خون کا آخری قطرہ بھی ہمارے آقا پر قربان کر دیا ان کے حقوق کے دفاع میں کیا جلدی اور کیا تاخیر؟

ہاں تمہارا یہ کہنا ٹھیک ہے کہ صحابہ کرام پر ہونے والے اس قسم کے اعتراضات کا سنجیدگی کے ساتھ جواب دینا بھی ضروری ہے، یہی تو میں بھی کہتا ہوں، لیکن غیروں کے اعتراض کا جواب نا؟ نہ کہ اپنوں کی دریدہ دہنی کے خلاف بھی ہم مجسمہ بنے رہیں اور اتحاد و احترام رائے کا ثبوت پیش کرتے رہیں؟
بہر حال! الحمد للہ میرے یہ جذبات اور تنگ نظری دلائل سے مبرہن ہیں، البتہ دوسروں کی سنجیدگی اور متانت کے براہین کا پتہ نہیں.

ابو احمد کلیم الدین یوسف
جامعہ اسلامیہ مدینہ منورہ
 
Top