• الحمدللہ محدث فورم کو نئےسافٹ ویئر زین فورو 2.1.7 پر کامیابی سے منتقل کر لیا گیا ہے۔ شکایات و مسائل درج کروانے کے لئے یہاں کلک کریں۔
  • آئیے! مجلس التحقیق الاسلامی کے زیر اہتمام جاری عظیم الشان دعوتی واصلاحی ویب سائٹس کے ساتھ ماہانہ تعاون کریں اور انٹر نیٹ کے میدان میں اسلام کے عالمگیر پیغام کو عام کرنے میں محدث ٹیم کے دست وبازو بنیں ۔تفصیلات جاننے کے لئے یہاں کلک کریں۔

ہجرت کی ممانعت والی حدیث پر اعتراضات کا جائزہ ، اور""" انما الاعمال""" والی حدیث پر اعتراضات کا مزید

عادل سہیل

مشہور رکن
شمولیت
اگست 26، 2011
پیغامات
367
ری ایکشن اسکور
941
پوائنٹ
120
ہجرت کی ممانعت والی حدیث پر اعتراضات کا جائزہ ، اور""" انما الاعمال""" والی حدیث پر اعتراضات کا مزید جائزہ


بسم اللہ ، و الصلاۃ و السلام علی رسول اللہ ،

السلام علیکم ورحمۃ اللہ و برکاتہ ،
صحیح ثابت شدہ احادیث شریفہ پر کسی بھی علمی دلیل کے بغیر اعتراض کرنے والے اور اپنے ہم مسلکوں کے علاوہ ہر دوسرے پر الزامات عائد کرنے والے ، حتیٰ کہ صحابہ رضی اللہ عنہم اجمعین سے لے کر آج تک مسلمانوں کے سب ہی علماء پر الزام کرنے والے لوگوں کی طرف سے میرے ایک تھریڈ """:صحیح البخاری کی پہلی حدیث پر اعتراضات کا جائزہ، الحمد للہ یہ حدیث شریف قران حکیم کے عین مطابق ہے:""" جس میں اعتراض کرنے والے کی بددیانتی کو واضح کیا گیا تھا ، اُس تھریڈ میں اُس اعتراض کرنے والے کے اعتراضات کو نشر کرنے والے رانا صاحب نے ایک اور اعتراض بعنوان""" بخاری کی پہلی حدیث انما الاعما ل بالنیات صحابہ دُشمنی پر مشتمل ہے """" دو دفعہ نشر کیا ، جو کہ بالکل سابقہ اعتراضات اور الزامات کی طرح جھوٹ ، بد دیانتی اور قران کریم کی معنوی تحریف پر مبنی ہے ،
میرے الفاظ پر غصہ مت کیجیے گا ، ان لوگوں کے لکھے ہوئے مضامین کے عناوین ہی میرے ان الفاظ کے جواز کے جواز کے لیے کافی ہیں ، اور جو کچھ ان لوگوں نے اپنے ان مضامین میں لکھا ہے وہ تو مجھے اور بھی بہت کچھ کہنے کا حق دیتا ہے ، اس لیے براہ مہربانی پہلے میرا یہ تھریڈ تحمل اور توجہ سے پڑھیے اور پھر فیصلہ کیجیے کہ میں نے جو کچھ ان لوگوں کے لکھے ہوئے کے بارے میں کہا ہے وہ غلط ہے یا درست ،
یہاں اس نئے تھریڈ میں ، میں اُس""" بخاری کی پہلی حدیث انما الاعما ل بالنیات صحابہ دُشمنی پر مشتمل ہے """" نامی مضمون کا جائزہ پیش کر رہا ہوں ، کچھ منطقی طور پر اور زیادہ تر اسلامی علوم کی مقبول کسوٹیوں پر پرکھتے ہوئے ،
یہاں ایک دفعہ پھر انتظامیہ سے گذارش کرتا ہوں کہ میں اپنے اس تھریڈ کو خالص علمی گفتگو والا تھریڈ رکھنا چاہتا ہوں ، لہذا ہرقسم کی کاپی پیسٹ والے مراسلات کو حذف کر دیا جائے ، خواہ پیسٹ کیا گیا مواد کہیں باہر سے لایا جائے یا یہیں سے کسی مراسلے میں سے پیسٹ کیا جائے ،
جس کسی کو جو بات کرنا ہے وہ اپنے الفاظ میں اور انسانوں کی سمجھ میں آ سکنے والے انداز میں ، اسلامی آداب کے مطابق کرے ، اور کسی پر جھوٹی الزام تراشی سے باز رہے ، اور ہمارے أئمہ کرام اور علماء کرام کے بارے میں بھی اپنی ہفویات کو روکے رکھے ، علمی دلائل کے ساتھ جس کی غلطی ظاہر کرنا چاہے کرے ، اِن شاء اللہ ہر بات واضح ہوتی جائے گی ،

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
یاد دہانی ::: میرے مضامین میں اردو اور عربی عبارات کو درست طور پر دیکھنے کے لیے درج ذیل فونٹس ضرور انسٹال کر لیجیے ،
Al qalam quran
al qalam quran.ttf - 4shared.com - online file sharing and storage - download - Adil Suhail
al_Mushaf
al_mushaf.ttf - 4shared.com - online file sharing and storage - download - Adil Suhail
Trad Arabic Bold Unicode
Trad Arabic Bold.ttf - 4shared.com - online file sharing and storage - download - Adil Suhail
alvi nastaleeq
Alvi Nastaleeq.ttf - 4shared.com - online file sharing and storage - download - Adil Suhail
اس تمہیدی بات چیت کے بعد اب میں اپنا نیا جواب شروع کرتا ہوں۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

ہجرت کی ممانعت والی حدیث پر اعتراضات کا جائزہ ، اور""" انما الاعمال""" والی حدیث پر اعتراضات کا مزید جائزہ
السلام علی من اتبع الھُدیٰ ،
میرے معرز و محترم کلمہ گو مسلمان بھائیو اور بہنو ، اور دیگر قارئین کرام ،
اللہ سُبحانہ ُ و تعالیٰ کے حبیب ، اللہ تبارک وتعالیٰ کے بعد سب سے بلند ترین درجہ اورسب سے اعلی ترین عِزت و قدر والی شخصیت محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وعلی آلہ وسلم کے ظہور مُبارک سے لے کر آج اور تا حال تحریر ھذا ایسے لوگ موجود ہیں جو اللہ کی دُشمنی میں ، اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وعلی آلہ وسلم سے دُشمنی رکھتے ہیں ، اور انداز و اطوار بدل بدل کر ایسے وار کرتے ہیں جن کے نتیجے میں وہ چاہتے ہیں کہ مسلمان خصوصاً اور انسان عموما ًمحمد صلی اللہ علیہ وعلی آلہ وسلم کی شخصیت مبارکہ اور اُن صلی اللہ علیہ وعلی آلہ وسلم کی تعلیمات شریفہ کو درست طور پر نہ جان سکیں ، اور رحمۃ للعالمین ،معلمء انسانیت صلی اللہ علیہ وعلی آلہ وسلم کی دی ہوئی ، دُنیا اور آخرت کی کامیابیوں والی تعلیم و تربیت کی بجائے شیاطین کی راہ پر چلیں ،
کافروں میں سے ایسے بد بختوں کا ظاہر ہونا کوئی عجیب بات نہیں ہوتی ، بہت زیادہ دُکھ ، غصہ اور افسوس اُس وقت ہوتا ہے جب اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وعلی آلہ وسلم کی شخصیت پاک اور تعلیمات شریفہ سے دُور کرنے کی کوشش میں وہ لوگ نظر آتے ہیں جو ہماری ہی صفوں میں شُمار کیے جاتے ہیں ، جو نام و حسب و نسب سے مسلمان ہوتے ہیں ، میں انہیں مسلمانوں کی صفوف اور گنتی میں سے خارج قرار دینے کا حق نہیں رکھتا لیکن یہ ضرور کہتا ہوں کہ اُن لوگوں کی رسول دُشمنی جو کہ شہد میں چُھپائے ہوئے زہر کی سی صُورت میں ہوتی ہے ، اُن لوگوں کی مسلمانی کا پول کھول دیتی ہے ، لہذا ہمیں ایسے لوگوں کی پہچان ہونا چاہیے ، اور ہمیں ہمارے اسلامی علوم کی کسوٹیوں پر پرکھ پرکھ کر ایسے لوگوں کی اُن کاروائیوں کی حقیقت بھی جاننی ہی چاہیے ، جن کاروائیوں کے ذریعے وہ ہمیں ہمارے محبوب ، اللہ کے حبیب محمد صلی اللہ علیہ وعلی آلہ وسلم کی راہ سے ، اُن کی محبت سے دورکرنا چاہتے ہیں ،
ایسے ہی لوگ اُن کافروں اور منافقین کی حوصلہ افزائی کے اسباب میں سے ہیں جنہیں ابلیس اور اس کے پیروکار محمد رسول اللہ صلی علیہ وعلی آلہ وسلم ، و فداہ کل ما رزقنی اللہ کی شان میں گستاخیاں کرنے کے لیے استعمال کر تے ہیں ،
ایسے ہی لوگوں میں سے کچھ وہ ہیں جو رسول اللہ صلی اللہ علیہ و علی آلہ وسلم کی صحیح ثابت شدہ قولی اور فعلی سُنّت مُبارکہ پر جہالت زدہ اور رسول دُشمنی پر مبنی بے تکے اعتراضات وارد کرتے ہیں ، اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وعلی آلہ وسلم کی سُنّت مبارکہ کو جمع کر کے اُن صلی اللہ علیہ وعلی آلہ وسلم کی اُمت کے لیے قیامت تک محفوظ کرنے والوں سے بھی دُشمنی کا مظاہرہ کرتے ہیں ، اور پاک باز اِیمان والوں پر جھوٹے ہونے کے جھوٹے الزاما ت لگاتے ہیں ،
میرے ان الفاظ پر کسی پیشانی پر بل پڑ رہے ہوں تو وہ کچھ دیر تحمل کیے رکھے ، اِن شاء اللہ ، میں اپنی اِن ساری باتوں کو اسلامی علوم کے دلائل کے مطابق ثابت کروں گا ، اور منطقی طور پر بھی اُن ہی لوگوں کی باتوں کے ذریعے ثابت کروں گا ، باذِن اللہ العزیز القدیر ،
یہ لوگ جو """ فہم قران """ ، """ موافق قران """ ، """ مخالف قران """ اور """ صحابہ کی محبت """ وغیرہ جیسے میٹھے الفاظ میں لپیٹ کر """ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وعلی آلہ وسلم ، و فداہ کل ما رزقنی اللہ کی مخالفت """ کا زہر پھیلا رہے ہیں ، اُس کو واضح کروں گا ، باذن اللہ العزیز القدیر،
اس مضمون میں ، ایک ایسے ہی شخص کے ایک مضمون کا جائزہ پیش کر رہا ہوں ،
اِن شاء اللہ ، یہ جائزہ میں اُس شخص کے مضمون کو کچھ حصوں میں تقسیم کرتے ہوئے ، ہر حصے کے جواب کے طور پر پیش کروں گا،
میرے اِس مضمون میں اُس اعتراض کرنے والے بوہیو نامی شخص کی لکھی ہوئی عبارات ہلکے سرمئی رنگ میں ظاہر کی جائیں گی ،
اُس شخص نے اپنے اس مضمون کا عنوان درج ذیل رکھا ہے ، یا جِس شخص نے یہ مضمون انٹر نیٹ پر ایک دو مقامات پر نشر کیا ہے اُس شخص نے یہ عنوان رکھا ہے :::
""" بخاری کی پہلی حدیث انما الاعما ل بالنیات صحابہ دُشمنی پر مشتمل ہے """"
اللہ تبارک و تعالیٰ پر توکل کرتے ہوئے میں اس عنوان کے جواب میں کہتا ہوں کہ :::
"""""رسول اللہ صلی اللہ علیہ وعلی آلہ وسلم کی صحیح ثابت شدہ سُنّت مبارکہ پر اعتراضات ، رسول دُشمنی کا کھلا ثبوت ہے """""،
عنوان بندی کے بعد اُس شخص نے صحیح بخاری شریف کی پہلی حدیث مبارک کچھ اس انداز میں نقل کی ہے """ [FONT=Al_Mushaf]سمعت عمر بن الخطا ب رضی اللہ عنہ علی المنبر یقول سمعت رسول اللہ صلے اﷲ علیہ و سلمیقول انما الاعمال بالنیات وانمالکل امرأ مانویٰ فمن کانت ہجرتہ
[FONT=Al_Mushaf]الی دنیا یصیبھا او الی امرأۃ ینکحھا و ہجرتہ[/FONT][FONT=Al_Mushaf] الی مآ ہاجر الیہ ۔[/FONT][FONT=Al_Mushaf]
[/FONT]
(کتاب بخاری کی پہلی حدیث) """،

قارئین کرام ، سب سے پہلے تو ایک لطیف لیکن اہم بات کی طرف توجہ مبذول کرواتا چلوں کہ اعتراض کرنے والے شخص نے جو کچھ ادِھر اُدھر سے کاپی پیسٹ کیا ہے ، اور جو کچھ لکھا ہے اُس میں بہت سے غلطیاں ہیں ، جو اس بات کی دلیل ہیں کہ اعتراض کرنے والے کو کچھ ہوش نہیں کہ وہ کہاں کیا نقل کر رہا ہے اور کیا لکھ رہا ہے ، اِن شاء اللہ اس کے ثبوت آپ کو وقتا ً فوقتا ً دِکھاتا رہوں گا ،
سب سے پہلا ثبوت یہ منقولہ بالا اقتباس ہے ، جِس میں حدیث شریف کے متن میں ایک فاش غلطی ہے ، اللہ ہی جانے یہ غلطی وہاں ہے جہاں سے یہ متن نقل کیا گیا ہے ، یا اعتراض کرنے والے کی طرف سے ہے ، بہرحال وہ غلطی یہ ہے کہ """[FONT=Al_Mushaf] فھجرتہُ[/FONT] """ کو """ [FONT=Al_Mushaf]و ہجرتہُ[/FONT] """ لکھا گیا ہے ،
اس کے بعد ، قارئین کرام ایک اور أہم نکتہ ذہن میں رکھتے ہوئے چلیے گا کہ اعتراض کرنے والے نے حدیث شریف کی سند میں صرف ایک ہی راوی کا نام ذِکر کیا ہے ،
کسی دوسرے راوی کا نہیں ، اور اس حرکت کا منطقی نتیجہ یہ ہوا کہ وہ شخص جو بھی الزام لگا رہا ہے وہ اسی ایک راوی پر لگا رہا ہے ، اور اس کا مطمع نفس اسی ایک راوی کو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وعلی آلہ وسلم سے ایسی بات منسوب کرنے والا دِکھانا ہے جو بات اس اعتراض کرنے والے شخص کی جہالت کی بنا پر اسے یوں لگی کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و علی آلہ وسلم نے نہیں فرمائی ،
ایک دفعہ پھر کہتا ہوں کہ """میرے ان الفاظ پر کسی پیشانی پر بل پڑ رہے ہوں تو وہ کچھ دیر تحمل کیے رکھے ، اِن شاء اللہ ، میں اپنی اِن ساری باتوں کو اسلامی علوم کے دلائل کے مطابق ثابت کروں گا ، اور منطقی طور پر بھی اُن ہی لوگوں کی باتوں کے ذریعے ثابت کروں گا ، باذِن اللہ العزیز القدیر"""
قارئین کرام ،،،اب غور سے دیکھیے کہ وہ راوی کون ہے ؟؟؟؟؟
رسول اللہ صلی اللہ علیہ وعلی آلہ وسلم کےدوسرے بلا فصل خلیفہ ، امیر المؤمنین عمر ابن الخطاب رضی اللہ عنہ ُ و ارضاہ ، ہی تو ہیں ،
سُبحان اللہ ، دعویٰ کس کے خلاف کیا گیا تھا ، لیکن صحابہ رضی اللہ عنہم اجمعین سے دُشمنی تو مدعیٰ کے ہاں ہی ظاہر ہو گئی ، مزید تفصیل اِن شاء اللہ آگے لکھتا ہوں ،
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
میری بات جاری ہے ، اِن شاء اللہ اگلے مراسلات میں اس کی تکمیل ہو گی ، سب ہی محترم قارئین سے گذارش ہے کہ میری بات ختم ہونے تک اپنے جوابات روکے رکھیں ، عین ممکن ہے اُن کی بہت سی باتوں کو جواب میری اگلی گذارشات میں شامل ہو ، والسلام علیکم۔
[/FONT]
 

عادل سہیل

مشہور رکن
شمولیت
اگست 26، 2011
پیغامات
367
ری ایکشن اسکور
941
پوائنٹ
120
::: گذشتہ سے پیوستہ ::: دوسرا حصہ :::

[HR][/HR]::: گذشتہ سے پیوستہ ::: دوسرا حصہ :::
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ ۔
محترم قارئین ،اعتراض کرنے والے نےاِس منقولہ بالا انداز میں حدیث شریف کی روایت کو نقل کرنے کے بعد بہت گھما پَھرا کر ایسی عبارت لکھی جس میں سے یہ تاثر ملے کہ گویا وہ اُس راوی پر بہتان لگا رہا ہے جِس نے امیر المؤمنین عُمر رضی اللہ عنہ ُ سے روایت کی ہے ، لیکن درحقیقت وہ کچھ اور کہہ رہا ہے ، اس کی وضاحت اِن شاء اللہ ابھی کرتا ہوں ،
آپ سب سے گذارش ہے کہ تحمل ، غور اور تدبر کے ساتھ میری گذارشات پڑھتے چلیے،
اعتراض کرنے والے نے حدیث شریف کا متن ، ایک راوی والی سند کے ساتھ نقل کرنے کے بعد اپنی کہانیاں شروع کرتے ہوئے لکھا :::
""" خلاصہ
اس حدیث میں راوی حضرت عمرؓ کے حوالہ سے حضوؐر کی طرف منسوب کی ہوئی حدیث بیان کررہا ہے کہ انہوں نے فرمایا کہ
اعمال کا دارومدار نیتوں پر ہے اور ہر شخص کے لئے وہی کچھ ہوگا جس کی وہ نیت کرے گا ۔ پھر جس کی ہجرت دنیا کے حصول کے لئے ہوگی وہ اس کو پائے گا یا جس کی ہجرت کسی عورت کے لئے ہوگی تو وہ اس سے نکاح کرے گا۔یعنی جس کسی کی ہجرت جس کے لئے ہوگی وہ اسی کا مہاجر کہلائے گا ۔
:
تبصرہ
راوی صاحب کے رویوں اور رجحانوں کو قارئین کرام گنتی کرتے اور نوٹ کرتے چلیں ۔
بخاری صاحب اپنی کتاب مجموعہ احادیث کی شروعات اس حدیث سے فرمارہے ہیں جس سے پڑھنے والوں کے ذہنوں میں یہ تاثرات قائم ہوں کہ رسول صلے اﷲ علیہ و سلم جیسی عظیم المرتبہ ہستی بھی اپنے انقلابی اصحاب کرامؓ کے ہجرت جیسے زبردست کارنامہ اور قربانی سے کلی طور پر مطمئن نہیں تھے ۔
جبھی تو ہجرت کو اقسام میں بانٹ کر بعض غیر مخلصین ، دنیا کے پرستاروں اور عورتوں کے حصول کے لئے ہجرت کرنے والوں کی طرف اشارہ فرمارہے ہیں، کہ کچھ لوگوں کی ہجرت ایسی بھی تھی۔""" ،
میں جواباً کہتا ہوں کہ :::
اعتراض کرنے والے نے سب سے پہلی بد دیانتی تو یہ کی کہ ، اپنی بے ربط بات کی پہلی عبارت میں جس راوی پر پہلا الزام عائد کیا ، اُس راوی کا نام نہ تو سند میں ذِکر کیا اور نہ ہی اپنے الزامات میں کہیں اُس کا نام ذِکر کیا ، ،،،، کیوں ؟؟؟
::::::: کیونکہ وہ ایسے بے ربط خیالات کو الفاظ میں ظاہر کرنے کی کوشش میں تھا ، جن کے بارے میں نہ تو وہ کچھ صحیح طور پر جانتا تھا ، اور نہ ہی وہ اسے اندازہ تھا کہ وہ کن بے ہنگم سوچوں میں گُم ہو کر کیا لکھے جارہا ہے ،
::::::: اور کیونکہ وہ جانتا تھا کہ وہ جس راوی پر اعتراض کرنے والا ہے وہ راوی اُمت مسلمہ کے زُھد و تقوی اور علم و فضل کے اعلی درجات پر فایز اماموں میں سے ایک امام ہو گذرا ہے ، اس لیے اُس کا نام نہیں لیا اور بد دیانتی کےاندھیرے میں ، اور بد تہذیبی کا مظاہرہ کرتے ہوئے ایک مجہول شخص کے طور پر اُس راوی کا ذِکر کرتے ہوئے اُس پر الزاما ت عائد کر ڈالے ،
::::::: اور اگر ایسا نہیں تو پھر ایک اور آخری صُورت یہ بچتی ہے کہ اعتراضات کرنے والے اور جھوٹے الزامات لگانے والے نے جان بوجھ کر """ کہیں پر نگاہیں کہیں پر نشانہ """ پر عمل کرتے ہوئے کسی کا بے نام ذِکر کرتے ہوئے کسی اورپر بھی رسول اللہ صلی اللہ علیہ وعلی آلہ وسلم سے اس حدیث شریف میں بیان کردہ باتیں منسوب کرنے کا الزام لگایا ہے ،
جی ہاں ، واقعتاً ایسا ہی ہے ، اِن دونوں صورتوں کے علاوہ کوئی تیسری صُورت نہیں ، اِن شاء اللہ ابھی آپ صاحبان پر یہ سب کچھ واضح ہو جائے گا ،
محترم قارئین ، حدیث شریف پر اعتراض کرنے والے شخص نے اپنی خام خیالوں میں سے پہلے جملے میں جس راوی کا اس سرسری اور بدتہذیبی والا انداز میں تذکرہ کیا ہے ، سب سے پہلے میں اُس راوی کا تعارف کرواتا چلوں،رسول اللہ صلی اللہ علیہ وعلی آلہ وسلم کے دوسرے بلا فصل خلیفہ امیر المؤمنین عُمر ابن الخطاب رضی اللہ عنہ ُ و ارضاہُ سے یہ حدیث شریف روایت کرنے والے راوی کا نام """[FONT=Al_Mushaf]علقمة بن وقاص بن محصن الليثي
""" رحمہُ اللہ ہے ،
یہ بڑے ، پہلے درجہ والے تابعین رحمہم اللہ میں سے ہیں ، جنہوں نے صحابہ رضی اللہ عنہم اجمعین کی بھر پور صحبت حاصل کی اوراُن رضی اللہ عنہم اجمعین سے تعلیم و تربیت حاصل کی ،
اللہ ، اللہ کہاں یہ عظیم المرتبہ عالم ، عابد ، متقی ،اور زاہد ہستی اور کہاں چند کتابیں پڑھ کر اپنے مزاج کے مطابق اللہ کے کلام کو استعمال کرتے ہوئے اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وعلی آلہ وسلم کی سُنّت شریفہ پر اعتراض وارد کرنے والا،
بہرحال ، اعتراض کرنے والے کی شخصیت اس قابل ہی نہیں کہ اس کے بارے میں بات کی جائے ، یہ جو ایک بات بطور موازنہ کی گئی ہے اُس کا سبب صرف یہ ہے کہ قارئین کرام یہ جان سکیں کہ کون کس پر جھوٹ گھڑنے کا الزام لگا رہا ہے؟؟ ؟
اور یہ بھی خیال رہے کہ جو شخص تابعین ، تبع تابعین اور اُمت کے ائمہ کرام کو """ حدیث گھڑنے والے""" کہہ کر انہیں جھوٹا قرار دے رہا ہے ، وہ کسی بھی طور کسی ایسی عزت و اکرام کا مستحق نہیں جو مسلمانوں کے درمیان ہونا واجب ہے،
الحمد للہ ، میں اپنی طرف سے پوری کوشش کرتا ہوں ، اور اِن شاء اللہ کرتا رہوں گا کہ ایسے بد اخلاق اور جھوٹے شخص کا ذِکر بھی کسی طور اسلامی اخلاقیات کی حدود سے باہر نہ ہو، لیکن نشری کمزوریوں اور اپنے نبی صلی اللہ علیہ وعلی آلہ وسلم کی محبت، اپنے صحابہ رضوان اللہ علیہم ، اپنے صالحین ، متقین ، زاھدین ، مجاھدین ،عابدین ، أئمہ کرام ، اور علماء کرام کی محبت اور عزت کی وجہ سے ، اگر میری طرف سے اُس کے لیے کوئی ایسا لفظ وارد ہوجائے جسے قارئین بھائیوں یا بہنوں میں سے کوئی غیر مہذب سمجھتا ہو تومجھ پر کوئی اعتراض کرنے یا کو ئی پابندی لاگو کرنے سے پہلے ، احادیث شریفہ پر جھوٹے ، جاھلانہ اعتراضات وارد کرنے والے ، اور مسلمانوں کے ائمہ کرام کو جھوٹا کہنے والے اس شخص ، اور اس کے حمایتیوں کے اسلوب کو بھی مد نظر رکھنا چاہیے ،
اس کے بعد آگے چلتے ہوئے اِسلامی علوم میں اُمت کے أئمہ اور عُلماء کرام رحمہم اللہ کے ہاں قبول شدہ علمی کسوٹیوں کے مطابق اس اعتراض کرنے والے کے اعتراضات کا جائزہ لیتے ہیں ،
اعتراض کرنے والے نے لکھا :::
""" اس حدیث میں راوی حضرت عمرؓ کے حوالہ سے حضوؐر کی طرف منسوب کی ہوئی حدیث بیان کررہا ہے کہ """
قارئین کرام ، اعتراض کرنے والے کی بات میں سب سے پہلے عبارت منقولہ بالا ہے ، اور یہ منقولہ بالا عبارت خود اس شخص کے اضطراب اور لا علمی کی دلیل ہے ، یا پھر اس کی بد دیانتی کی کہ جانتے بوجھتے ہوئے یہ شخص بات کو کچھ کا کچھ بنا رہا ہے ، جی ہاں ، اس کے بعد والی عبارات اور اس منقولہ بالا عبارات میں کچھ ربط نہیں ، اس پہلی عبارت میں تو یہ علقمہ رحمہُ اللہ تعالیٰ پر یہ الزام لگایا گیا ہے کہ انہوں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وعلی آلہ وسلم سے منسوب حدیث بیان کی ، یعنی معاذ اللہ ، گویا کہ علقمہ رحمہُ اللہ یہ جانتے تھے کہ جو بات وہ بطور حدیث بیان کر رہے ہیں وہ صرف رسول اللہ صلی اللہ علیہ وعلی آلہ وسلم سے منسوب ہے ، اُن صلی اللہ علیہ وعلی آلہ وسلم سے ثابت نہیں ،
علقمہ بن وقاص رحمہُ اللہ کی صداقت ، دیانت اور قوت حفظ اُمت کے سارے محدثین کے ہاں بااعتماد ہے ، لہذا علوم الحدیث کے کسی قاعدے قانون کے مطابق انہیں بھی کسی طور پر کمزور نہیں کیا جا سکتا ،
لہذا اس اعتراض کرنے والے شخص کی باتوں کے منطقی نتیجہ کے مطابق رسول اللہ صلی اللہ علیہ وعلی آلہ وسلم سے ایک ایسی بات جو اس اعتراض کرنے والی کی جہالت کے مطابق انہوں نے نہیں فرمائی ، منسوب کرنے کے الزام کے زد میں وہ راوی بدرجہ اُولیٰ آتا ہے جِس راوی سے علقمہ رحمہُ اللہ نے روایت کی ،جِس راوی نے براہ راست رسول اللہ صلی اللہ علیہ و علی آلہ وسلم کا یہ قول مُبارک روایت کیا ،
بتایے تو قارئین کرام ، ایسی صورت میں وہ شخص کون ہوا جس پر یہ الزام آیا کہ اُس نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وعلی آلہ وسلم سے اس حدیث میں ذِکر کردہ بات منسوب کر دی؟؟؟؟؟ ،
::::::: جواب :::::::
میں نے کچھ دیر پہلے کہا تھا """ قارئین کرام ایک نکتہ ذہن میں رکھتے ہوئے چلیے گا کہ اعتراض کرنے والے نے حدیث شریف کی سند میں صرف ایک ہی راوی کا نام ذِکر کیا ہے ،
کسی دوسرے راوی کا نہیں ، منطقی نتیجہ یہ ہوا کہ وہ شخص جو بھی الزام لگا رہا ہے وہ اسی ایک راوی پر لگا رہا ہے ، اور اس کا مطمع نفس اسی ایک راوی کو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وعلی آلہ وسلم سے ایسی بات منسوب کرنے والا دِکھانا ہے جو بات اس اعتراض کرنے والے شخص کی جہالت کی بنا پر اسے یوں لگی کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و علی آلہ وسلم نے نہیں فرمائی ،
قارئین کرام ،،،اب غور سے دیکھیے کہ وہ راوی کون ہے ؟؟؟؟؟
رسول اللہ صلی اللہ علیہ وعلی آلہ وسلم کےدوسرے بلا فصل خلیفہ ، امیر المؤمنین عمر ابن الخطاب رضی اللہ عنہ ُ و ارضاہ ، ہی تو ہیں،
سُبحان اللہ ، دعویٰ کس کے خلاف کیا گیا تھا ، لیکن صحابہ رضی اللہ عنہم اجمعین سے دُشمنی تو مدعیٰ کے ہاں ہی ظاہر ہو گئی ، مزید تفصیل اِن شاء اللہ آگے لکھتا ہوں """ ،
اور اب اپنی اس بات کے مطابق تفصیل کے طور پر کہتا ہوں قارئین کرام کہ ، اعتراض کرنے والی کی عبارات کے مطابق منطقی طور پر یہ ثابت ہوتا ہے کہ وہ شخص صحابہ رضی اللہ عنہم اجمعین کی عِزت اور محبت کا ڈھونگ رچا کر ان میں سے افضل ترین شخصیات میں سے دوسری شخصیت ، امیر المؤمنین عُمر ابن الخطاب رضی اللہ عنہ ُ پر یہ الزام لگا رہا ہے کہ اس حدیث شریف میں جو کچھ فرمایا گیا ہے وہ انہوں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وعلی سے منسوب کیا ہے ، کیونکہ حدیث سنانے والے تو وہی ہیں ،
بوہیو نامی اس شخص کی یہ عبارات اُس کے باطل مسلک اور اس کے باطن میں موجزن عقائد کی خوب اچھی طرح نقاب کشائی کرتی ہیں ، الحمد للہ جو ایسے لوگوں کو اس حال میں رکھتا ہے کہ یہ لوگ خود اپنی ہی باتوں کےتضاد کے ذریعے بھی پہچانے جاتے ہیں ۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ ۔۔۔۔۔
میری بات ابھی جاری ہے ،،،،،
[/FONT]
 

عادل سہیل

مشہور رکن
شمولیت
اگست 26، 2011
پیغامات
367
ری ایکشن اسکور
941
پوائنٹ
120
::: گذشتہ سے پیوستہ ::: تیسرا حصہ :::

::: گذشتہ سے پیوستہ ، تیسرا حصہ :::
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ ۔۔۔
چلیے اب اُس اعتراضات کرنے والے شخص کی اگلی بات کی طرف چلتے ہیں ، یہ لکھنے کے بعد کہ :::
""" اس حدیث میں راوی حضرت عمرؓ کے حوالہ سے حضوؐر کی طرف منسوب کی ہوئی حدیث بیان کررہا ہے کہ """
اُس نے لکھا :::
"""اعمال کا دارومدار نیتوں پر ہے اور ہر شخص کے لئے وہی کچھ ہوگا جس کی وہ نیت کرے گا ۔ پھر جس کی ہجرت دنیا کے حصول کے لئے ہوگی وہ اس کو پائے گا یا جس کی ہجرت کسی عورت کے لئے ہوگی تو وہ اس سے نکاح کرے گا۔یعنی جس کسی کی ہجرت جس کے لئے ہوگی وہ اسی کا مہاجر کہلائے گا ۔
:
تبصرہ
راوی صاحب کے رویوں اور رجحانوں کو قارئین کرام گنتی کرتے اور نوٹ کرتے چلیں ۔
بخاری صاحب اپنی کتاب مجموعہ احادیث کی شروعات اس حدیث سے فرمارہے ہیں جس سے پڑھنے والوں کے ذہنوں میں یہ تاثرات قائم ہوں کہ رسول صلے اﷲ علیہ و سلم جیسی عظیم المرتبہ ہستی بھی اپنے انقلابی اصحاب کرامؓ کے ہجرت جیسے زبردست کارنامہ اور قربانی سے کلی طور پر مطمئن نہیں تھے ۔
جبھی تو ہجرت کو اقسام میں بانٹ کر بعض غیر مخلصین ، دنیا کے پرستاروں اور عورتوں کے حصول کے لئے ہجرت کرنے والوں کی طرف اشارہ فرمارہے ہیں، کہ کچھ لوگوں کی ہجرت ایسی بھی تھی۔"""

بوہیو کی لکھی ہوئی اُس منقولہ بالا عبارت کے جواب میں عادل سہیل کہتا ہے :::
محترم قارئین ، اعتراض کرنے والے اور جھوٹے الزام لگانے والے اس شخص کے رویوں اور رجحانوں کی گنتی کرتے چلیے اور انہیں اپنے اذہان یا کسی اور ذریعہ سے محفوظ کرتے چلیے کہ اِن شاء اللہ بوقت ضرورت کام آئیں گے ،
صحابہ رضی اللہ عنہم اجمعین ، اور تابعین پر الزام تراشی کے رویے کو ابھی ثابت کر چکا ہوں ، اس کے بعد مزید خلاف حق ، خلاف حقیقت اور جہالت یا تعصب پر مبنی دیگر رویوں اور رجحانات پر غور فرماتے چلیے ،
جن میں سے ایک تو اس شخص کی طرف سے عربی متون کے اس طرح غلط ترجمےکرنا ، یا ایسے ترجموں کو کاپی پیسٹ کرنا ہے جو ترجمے اُس کی سوچوں کی تائید کر نے کا امکان رکھتے ہوں ،
منقولہ بالا حصے میں اُس نے حدیث شریف کا ترجمہ یوں لکھا ہے کہ :::
"""اعمال کا دارومدار نیتوں پر ہے اور ہر شخص کے لئے وہی کچھ ہوگا جس کی وہ نیت کرے گا ۔ پھر جس کی ہجرت دنیا کے حصول کے لئے ہوگی وہ اس کو پائے گا یا جس کی ہجرت کسی عورت کے لئے ہوگی تو وہ اس سے نکاح کرے گا۔یعنی جس کسی کی ہجرت جس کے لئے ہوگی وہ اسی کا مہاجر کہلائے گا ۔"""
جبکہ حدیث شریف کا یہ ترجمہ نہیں ہو سکتا ، کیونکہ یہ ترجمہ نہ تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وعلی آلہ وسلم کے الفاظ کی مُراد ہے اور نہ ہی اس فرمان مبارک کے سبب کے مطابق ہے ،
حدیث شریف کے الفاظ مبارکہ درج ذیل ہیں :::
((((([FONT=Al_Mushaf]إِنَّمَا الأَعْمَالُ بِالنِّيَّاتِ ، وَإِنَّمَا لِكُلِّ امْرِئٍ مَا نَوَى ، فَمَنْ كَانَتْ هِجْرَتُهُ إِلَى دُنْيَا يُصِيبُهَا أَوْ إِلَى امْرَأَةٍ يَنْكِحُهَا فَهِجْرَتُهُ إِلَى مَا هَاجَرَ إِلَيْهِ[/FONT] )))))
اور ان الفاظ کا ترجمہ یہ ہے:::
((((( بے شک ، کاموں (کے آخرت میں ) نتیجے کا انحصار (کام کرنے کی )نیتوں پر ہے ، اور بے شک ہر شخص کے لیے وہی (نتیجہ ) ہے جس کی اُس نے نیت کی ، لہذا جِس نے دُنیا کی طرف ہجرت کی تا کہ دُنیا کمائے ، یا کسی عورت کی طرف ہجرت کی تاکہ اُس عورت سے نکاح کر سکے ، تو اُس کی ہجرت اُسی کی طرف ہے جِس کی طرف اُس نے ہجرت کی )))))
رسول اللہ صلی اللہ علیہ وعلی آلہ وسلم نے اپنے صحابہ رضی اللہ عنہم اجمعین کو اور ان کے ذریعے اپنی اُمت کو یہ سبق ایک خاص واقعہ کے ظاہر ہونےکے بعد عنایت فرمایا ، جو واقعہ یا تو اعتراض کرنے والے کے علم میں ہی نہیں ، یا پھر اپنی بد دیانتی اور رسول دُشمنی کے سبب بہت سے دیگر حقائق کی طرح اُس شخص نے اُس واقعہ کو بھی ظاہر نہیں کیا ، جبکہ اعتراض کرنے والے کے کیے ہوئے ترجمے کا آخری حصہ اُسی واقعے کی نشاندہی کر رہا ہے ، اور یہ معاملہ اس بات کی دلیل ہے کہ اعتراض کرنے والے کو اس کاکچھ علم نہیں ،
مؤقر قارئین ، اِن شاء اللہ اُس واقعہ کا ذِکر آگے کروں گا ،
یہاں آپ یہ سمجھتے چلیے کہ اعتراض کرنے والے نے اپنے کیے ہوئے ترجمے میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ و علی آلہ وسلم کے فرمان مبارک کا معنی اور مفہوم بالکل پلٹ کر لکھ مارا ، کیوں ؟؟؟ بوجہ جہالت یا رسول دُشمنی ؟؟؟
:::::: اعتراض کرنے والے نے اس حدیث شریف کو صحابہ رضی اللہ عنہم اجمعین کی ہجرتوں کے لیے خاص کر دیا !!! کیسے اور کس قانون کے تحت ؟؟؟
اس کا کوئی جواب وہ شخص نہیں دے سکتا اور نہ ہی اُس کے منھج پر چلنے والا کوئی اور شخص یہ جواب دے سکتا ہے ، کیونکہ یہ سب اُن لوگوں کے اذاہان کی پیداوار ہے ، جِس کی کوئی علمی دلیل وہ لوگ مہیا نہیں کر سکتے ،
ان لوگوں کی تمام تر کاروائیوں سے صاف ظاہر ہوتا ہے کہ ان کی کاروائیوں کے بنیادی اسباب میں سے ایک سبب صرف اور صرف رسول اللہ صلی اللہ علیہ وعلی آلہ وسلم کی سُنّت مبارکہ سے بدظن کرتے ہوئے اُن صلی اللہ علیہ وعلی آلہ وسلم کی اُمت کو اُن صلی اللہ علیہ وعلی آلہ وسلم کی تعلیمات سے دُور کرنا ہے ، قران پاک کا نام لے کر لوگوں کو اللہ کی طرف سے قران کریم کے مقرر کردہ مفسر اور شارح محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وعلی آلہ وسلم کی تعلیمات سے دُور کر کے اس راہ پر چلانا ہے کہ جسراہ پر چلنے والے کا جو من چاہے اللہ کی کتاب سے وہ کچھ سمجھتا پھرے ، خود کو قران پر عمل کرنے والا سمجھتے ہوئے گمراہی میں بھٹکتا رہے ،
قارئین کرام ، اس مذکورہ بالا حدیث پاک میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وعلی آلہ وسلم نے یہ سمجھایا ہے کہ ہر عمل کے اُخروی نتیجے کا دراومدار عمل کرنے والے کی نیت کے مطابق ہوتا ہے ، یہ معاملہ بالکل اللہ تبارک و تعالیٰ کے فرامین مبارکہ کے عین مطابق ہے ، اس کا تفصیلی جواب میں """صحیح البخاری کی پہلی حدیث پر اعتراضات کا جائزہ، الحمد للہ یہ حدیث شریف قران حکیم کے عین مطابق ہے""" میں دے چکا ہوں ، جس کا آن مطالعہ درج ذیل ربط پر کیا جاسکتا ہے ،
:صحیح البخاری کی پہلی حدیث پر اعتراضات کا جائزہ، الحمد للہ یہ حدیث شریف قران حکیم کے عین مطابق ہے: - پاکستان کی آواز
اس مذکورہ بالا مضمون کا ضرور اور بغور مطالعہ کیجیے ، اِن شاء اللہ اعتراض کرنے والے کی طرف سے بنائے گئے سارے شکوک دُور ہو جائیں گے ،
اور یہاں اِس مضمون میں اُس کی طرف سے کیے گئے ترجمے کی غلطی بھی پتہ چل جائے گی ۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
اس کے بعد اعتراض کرنے والے کی اگلی بات کی طرف چلتے ہیں ، جِس میں اُس نے قران حکیم میں سے کچھ ایسی آیات نقل کی ہیں جن آیات مبارکہ میں ہجرت کا ذِکر ہے اور اُن آیات کو ذِکر کر کے یہ ثابت کرنے کی کوشش کی ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و علی آلہ وسلم نے جو فتح مکہ کے بعد وہاں یعنی مکہ المکرم سے کرنے کو ممنوع قرار فرمایا ہے ، وہ خلاف قران ہے لہذا یہ حدیث بھی جھوٹی ہے ،
آیے دیکھتے ہیں کہ ((((([FONT=Al_Mushaf]مَنِ الْكَذَّابُ الْأَشِرُ[/FONT]:::کون ہے شیخی بِھگارنے والا جھوٹا))))))
اعتراض کرنے والا لکھتا ہے :::
""" انقلابیوں کی نظر میں ہجرت کی اہمیت کم کرنے کی حدیث سازوں کی سازش:


21 -
عمرہ کا بیان : (115)

مکہ میں جنگ کرنا حلال نہیں ہے، ابوشریح نے نبی صلی اللہ علیہ وسلم سے روایت کیا ہے کہ وہاں خونریزی نہ کرے ۔

[FONT=Al_Mushaf]حدثنا عثمان بن أبي شيبة حدثنا جرير عن منصور عن مجاهد عن طاوس عن ابن عباس رضي الله عنهما قال قال النبي صلی الله عليه وسلم يوم افتتح مکة لا هجرة ولکن جهاد ونية وإذا استنفرتم فانفروا فإن هذا بلد حرم الله يوم خلق السموات والأرض وهو حرام بحرمة الله إلی يوم القيامة وإنه لم يحل القتال فيه لأحد قبلي ولم يحل لي إلا ساعة من نهار فهو حرام بحرمة الله إلی يوم القيامة لا يعضد شوکه ولا ينفر صيده ولا يلتقط لقطته إلا من عرفها ولا يختلی خلاها قال العباس يا رسول الله إلا الإذخر فإنه لقينهم ولبيوتهم قال قال إلا الإذخر
[/FONT]

صحیح بخاری:جلد اول:حدیث نمبر 1730 حدیث متواتر حدیث مرفوع مکررات 34 متفق علیہ 19 بدون مکرر


عثمان بن ابی شیبہ، جریر، منصور، مجاہد، طاؤس، ابن عباس رضی اللہ عنہ سے روایت کرتے ہیں کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے جس دن مکہ فتح کیا تو فرمایا کہ ہجرت باقی نہ رہی۔ لیکن جہاد اور نیت ہے، جب تم جہاد کرنے کے لئے بلائے جاؤ تو جہاد کے لئے نکلو۔


یہ شہر ہے جس کو اللہ تعالیٰ نے حرام کیا ہے جس دن اللہ تعالیٰ نے آسمان اور زمین کو پیدا کیا اور اللہ تعالیٰ کی قائم کی ہوئی حرمت قیامت تک قائم رہے گی، اس میں شک نہیں کہ مجھ سے پہلے کسی کے لئے حلال نہ تھی اور میرے لئے بھی دن کے ایک حصہ میں حلال کی گئی اس کی حرمت قیامت تک قائم رہے گی، اس کا کانٹا نہ کاٹا جائے اور نہ اس کا شکار بھگایا جائے اور نہ یہاں کی گری پڑی چیز اٹھائی جائے مگر وہ شخص اٹھا سکتا ہے جو اس کی تشہیر کرے، اور نہ وہاں کی گھاس اکھاڑی جائے اور ابن عباس رضی اللہ عنہ نے عرض کیا یا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ان کے سناروں اور گھروں کے لئے اذخر کی اجازت دیجئے۔ آپ نے فرمایا کہ اذخر کی اجازت ہے۔


[FONT=Al_Mushaf]حدثنا علي بن عبد الله حدثنا يحيی بن سعيد حدثنا سفيان قال حدثني منصور عن مجاهد عن طاوس عن ابن عباس رضي الله عنهما قال قال رسول الله صلی الله عليه وسلم لا هجرة بعد الفتح ولکن جهاد ونية
[FONT=Al_Mushaf]وإذا استنفرتم فانفروا[/FONT]
بخاری باب نمبر46 حدیث نمبر52
[/FONT]


:
خلاصہ
اس حدیث میں راوی نے حضور ؐ کے نام یہ فرمان منسوب کیا ہے کہ
فتح مکہ کے بعد ہجرت کا عمل بند ہے ۔ہاں جہاد ،یا نیّتِ خیر سے کوئی کہیں بھی جا سکتا ہے ۔ اور جب تمہیں کوئی بھگانے کے لئے مجبور کرے تو بھاگ جاؤ۔

Narrated Ibn 'Abbas:
Allah's Apostle said, "There is no Hijra i.e. migration) after the Conquest, but Jihad and good intention remain; and if you are called (by the Muslim ruler) for fighting, go forth immediately.

:
تبصرہ
اس حدیث میں حدیث گھڑنے والوں نے صاف الفاظ میں فتح مکہ کے بعد کے زمانہ میں ہجرت کے لئے کوئی شہر ، ملک یا علاقہ چھوڑ کر جانے کا یعنی ہجرت کا انکار کیا ہے۔
ہجرت پر گویا یہ بندش لاگو کی ہے کہ فتح مکہ کے بعد ہجرت کرنے والاخود کو مہاجر تصور نہ کرے ۔
ان حدیث سازوں نے دنیا میں آئندہ کے لئے جو بھی ملک وطن، شہر، گھر بار چھوڑنے اور ایک جگہ سے دوسری جگہ نقل مکانی کی جو ضرورتیں پیش آئیں گی ان کے لئے دو عنوان لکھے ہیں ایک جہاد اور بھلائی خیر حاصل کرنے کے لئے نقل مکانی کرنا ۔
دوسرا کسی کے مجبور یا پریشان کرنے اور بھگانے کے لئے تنگ کرنے کے سبب نقل مکانی کرنا یعنی بھگوڑا بن جانا ۔

محترم قارئین!
روایت کا عربی متن بھی آپ کے سامنے ہے کہ
[FONT=Al_Mushaf]يوم افتتح مکة لا هجرة
[FONT=Al_Mushaf]
[/FONT]
[FONT=Al_Mushaf]لا ہجرۃ بعد الفتح[/FONT][FONT=Al_Mushaf]
[/FONT]
یعنی فتح مکہ کے بعد ہجرت کا حکم ، تقدس اور وہ تصور و فلسفہ جو اللہ تعالیٰ نے بذریعہ قرآن سکھایا ہے وہ سب اس حدیث سے ممنوع اور کالعدم ٹھہرتا ہے ۔

میرا یہ الزام کہ حدیث ساز راوی لوگ اپنی طرف سے باتیں بنا کر انہیں رسول صلے اﷲ علیہ و سلم کی حدیث کے طور پر پیش کررہے ہیں جبکہ یہ مانا ہوا مسلم اصول ہر وقت پڑھنے والوں کو ذہن میں رکھنا چاہیئے کہ ان حدیثوں کو پرکھنے کی کسوٹی قرآن حکیم کو قرار دے کر اس کے ساتھ پرکھا جائے ۔پھر از خود دودھ کا دودھ اور پانی کا پانی ہو کر سامنے آجائے گا۔
تو آئیے اس مضمون کو قرآن سے ملاکر دیکھیں کہ کیا اصحاب رسولؐ میں سے ہجرت کرنے والے مہاجر صحابہ کے لئے قرآن بھی کوئی ایسی نشان دہی کرتا ہے یا اشاروں اورکنایوں میں ان حدیثوں کی طرح کوئی ترشح کی عبارت کہیں لاتا ہے ؟
یا قرآن میں اللہ اپنے علم کی بنیاد پر ان کی ایسی حدیثوں کے جواب میں جو انہوں نے قرآن دشمنی ،رسولؐ دشمنی اور صحابہ دشمنی کے طور پر بنا کر عام کرنی تھیں ، پہلے ہی سے رد فرماکر اپنے رسولؐ کے ساتھیوں کی صفائی پیش کردی ہے۔

ملاحظہ فرمائیں ۔
[FONT=Al_Mushaf]لِلْفُقَرَاءِ الْمُهَاجِرِينَ الَّذِينَ أُخْرِجُوا مِنْ دِيَارِهِمْ وَأَمْوَالِهِمْ يَبْتَغُونَ فَضْلًا مِنَ اللَّهِ وَرِضْوَانًا وَيَنْصُرُونَ اللَّهَ وَرَسُولَهُ ۚ أُولَئِكَ هُمُ الصَّادِقُونَ[/FONT]
(59:

(
اور) ان مفلسان تارک الوطن کے لئے بھی جو اپنے گھروں اور مالوں سے خارج (اور جدا) کر دیئے گئے ہیں (اور) خدا کے فضل اور اس کی خوشنودی کے طلبگار اور خدا اور اس کے پیغمبر کے مددگار ہیں۔ یہی لوگ سچے (ایماندار) ہیں ۔

!
جناب معزز قارئین
اس آیت کریمہ کو ہر شخص اپنے گھر کے باترجمہ قرآن پاک میں غور سے پڑھے ۔
اس میں رب تعالیٰ مہاجر صحابہ کے اعمال اور دل کی نیتوں کے بارے میں خود شہادت دے رہا ہے کہ، ان کی ہجرت کا مقصد اور مدعا یہ تھا کہ یہ لوگ
[FONT=Al_Mushaf]یَبْتَغُوْنَ فَضْلًا مِّنَ اللّٰہِ وَرِضْوَانًا[/FONT]
یعنی ان کی ہجرت سے نیت یہ تھی کہ وہ اللہ کی رضا حاصل کرسکیں ، اللہ کا فضل حاصل کرسکیں ۔
غور فرمایا جائے کہ قرآن حکیم اصحاب رسولؐ کے لئے گواہی دے رہا ہے کہ انہوں نے اپنا وطن ،گھر بار ، مال ومتاع سب کچھ کسی عورت یا دنیا کے حصول کے لئے نہیں چھوڑا بلکہ خالص اللہ کے فضل اور اس کی رضا حاصل کرنے کے لئے چھوڑا ہے ۔

آخر میں قرآن حکیم ان کے لئے یہ سرٹیفیکٹ بھی دیتا ہے کہ
[FONT=Al_Mushaf]أُولَئِكَ هُمُ الصَّادِقُونَ[/FONT]
یعنی یہ ہجرت کرنے والے اپنی اس نیت اور چاہت میں سچے تھے ۔

توجہ فرمائی جائے کہ اس سرٹیفکیٹ نے ، اس قرآنی شہادت نے ہجرت میں شک و شبہ ڈالنے والی اندر کی پلیتی و بھڑاس اور حیلہ جوئی کو جھوٹ قرار دیا ہے یا نہیں؟

قرآن نے صحابہ کے دل کی نیتوں کے بارے میں یہ بتا کر کہ وہ اپنی ہجرت سے اللہ کے فضل اور رضا کے متلاشی تھے۔
قرآن نے صحابہ دشمن روایات سازوں کو ان کی روایات ان کے منہ پر دے ماری ہیں ۔

میں یہ بھی بتاتا چلوں کہ میرے ایک استاد الحدیث عالم صاحب مرحوم اس حدیث کو متواتر کا درجہ دیتے تھے۔
مہاجرین اور انصار صحابہ کے بارے میں قرآن حکیم کی ایک اور شہادت ملاحظہ فرمائیں ۔
[FONT=Al_Mushaf]وَالَّذِينَ آمَنُوا وَهَاجَرُوا وَجَاهَدُوا فِي سَبِيلِ اللَّهِ وَالَّذِينَ آوَوْا وَنَصَرُوا أُولَئِكَ هُمُ الْمُؤْمِنُونَ حَقًّا ۚ لَهُمْ مَغْفِرَةٌ وَرِزْقٌ كَرِيمٌ[/FONT]
(8:74 )
اور جو لوگ ایمان لائے اور وطن سے ہجرت کر گئے اور خدا کی راہ میں لڑائیاں کرتے رہے اور جنہوں نے (ہجرت کرنے والوں کو) جگہ دی اور ان کی مدد کی۔ یہی لوگ سچے مسلمان ہیں۔ ان کے لیے (خدا کے ہاں) بخشش اور عزت کی روزی ہے۔
[FONT=Al_Mushaf]وَالَّذِينَ آمَنُوا مِنْ بَعْدُ وَهَاجَرُوا وَجَاهَدُوا مَعَكُمْ فَأُولَئِكَ مِنْكُمْ ۚ وَأُولُو الْأَرْحَامِ بَعْضُهُمْ أَوْلَى بِبَعْضٍ فِي كِتَابِ اللَّهِ ۗ إِنَّ اللَّهَ بِكُلِّ شَيْءٍ عَلِيمٌ [/FONT][FONT=Al_Mushaf]
[/FONT]
(8:75)
اور جو لوگ بعد میں ایمان لائے اور وطن سے ہجرت کرگئے اور تمہارے ساتھ ہو کر جہاد کرتے رہے وہ بھی تم ہی میں سے ہیں۔ اور رشتہ دار خدا کے حکم کی رو سے ایک دوسرے کے زیادہ حقدار ہیں۔ کچھ شک نہیں کہ خدا ہر چیز سے واقف ہے۔
اس آیت میں اصحاب رسول کی شان میں جو ایمان کے بعد ہجرت اورجہاد کرنے والے اور ان کو اپنے ہاں پناہ دینے والے انصار صحابہ کے لئے فرمایا گیا ہے کہ یہ سب مومنین برحق تھے اور ان کے لئے مغفرت کا بھی اعلان کیا جاتا ہے اور ان کے لئے رزق کریم کا بھی اعلان کیا جاتا ہے ۔

[FONT=Al_Mushaf]وَالسَّابِقُونَ الْأَوَّلُونَ مِنَ الْمُهَاجِرِينَ وَالْأَنْصَارِ وَالَّذِينَ اتَّبَعُوهُمْ بِإِحْسَانٍ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُمْ وَرَضُوا عَنْهُ وَأَعَدَّ لَهُمْ جَنَّاتٍ تَجْرِي تَحْتَهَا الْأَنْهَارُ خَالِدِينَ فِيهَا أَبَدًا ۚ ذَلِكَ الْفَوْزُ الْعَظِيمُ[/FONT]
(9:100)
جن لوگوں نے سبقت کی (یعنی سب سے) پہلے (ایمان لائے) مہاجرین میں سے بھی اور انصار میں سے بھی۔ اور جنہوں نے نیکو کاری کے ساتھ ان کی پیروی کی خدا ان سے خوش ہے اور وہ خدا سے خوش ہیں اور اس نے ان کے لیے باغات تیار کئے ہیں جن کے نیچے نہریں بہہ رہی ہیں اور ہمیشہ ان میں رہیں گے۔ یہ بڑی کامیابی ہے۔
اسی طرح سورۃ توبہ کی آیت نمبر100میں اصحاب رسولؐ اور ان کے احسن طریقہ پر اتباع کرنے والوں کے لئے قرآن حکیم نے جنت میں جانے اور رہنے کا جو اعلان فرمایا ہے اس میں بھی صحابہ کے تعارف میں دیگر خصائص کے ساتھ ہجرت کے حوالے سے متعارف کرایا ہے اور شا ید یہ اس لئے بھی کہ بخار ی کی اس پہلے نمبرپر لائی ہوئی حدیث کی بھی اچھی طرح سے تردید ہوجائے ۔"""
[/FONT]

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
""" بخاری کی پہلی حدیث انما الاعمال بالنیات ہی صحابہ دشمنی پر مبنی ہے """ نامی یہ مضمون لکھ کر ، صحیح بخاری شریف کی پہلی حدیث مبارک میں سمجھائے گئے مسئلے میں چونکہ "ہجرت " کو بطور مثال ذِکر فرمایا گیا لہذا اُس حدیث شریف پر اعتراض کرنے والے نے اپنے خود ساختہ الزامات کو ثابت کرنے کے لیے ایک اور ایسی حدیث شریف جس کے ایک حصے میں ہجرت کے بارے میں تین حکم صادر فرمائےگئے ہیں ،اعتراض کرنے والے نے اُس حدیث شریف پر بھی اُسی طرح کے بے تکے ، جہالت زدہ یا تعصب زدہ اعتراضات وارد کیے ہیں ، جِس طرح کے اعتراضات """ [FONT=Al_Mushaf]اِنّما الاعمالُ بالنِّیات[/FONT]""" والی حدیث شریف پر کیے ہیں ،
آیے اب ہجرت سے ممانعت والے حکم پر مشتمل حدیث شریف کے اُس حصے کو بھی پڑھتے ہیں ، اور اُس حدیث شریف پر وارد کیے گئے غلط بودے الزامات کو بھی اسلامی علوم کی کسوٹیوں پر پرکھتے ہیں ،
حدیث مُبارک میں ہجرت سے ممانعت کے بارے میں جو کچھ فرمایا گیا ، وہ صحیح بخاری اورصحیح مُسلم میں مختلف مقامات پر مروی ہے ، اور وہ اِرشاد مُبارک درج ذیل ہے :::
((((([FONT=Al_Mushaf]لاَ هِجْرَةَ بَعْدَ الْفَتْحِ وَلَكِنْ جِهَادٌ وَنِيَّةٌ ، وَإِذَا اسْتُنْفِرْتُمْ فَانْفِرُوا[/FONT] ::: فتح (مکہ)کے بعد ہجرت نہیں ہے ، لیکن جِہاد (کرنا ہے) اور نیت ، اور اگر تُم لوگوں کو نکلنے کے لیے کہا جائے تو نکل جاؤ )))))
صحیح بخاری/حدیث2783/کتاب الجہاد/ پہلا باب ،صحیح مُسلم /حدیث3368/کتاب الحج/باب82،
ایک دفعہ پھر بتاتا چلوں کہ یہ حدیث شریف صحیح بخاری اور صحیح مُسلم میں دیگر بھی کئی مقامات پر انہی الفاظ میں اور کچھ دیگر اِرشادات کے ساتھ مروی ہے ،
::::::: سب سے پہلے تو یہ دیکھتے چلیے کہ اعتراض کرنے والے نے اپنے مذموم مقصد کے حصول کے لیے اس حدیث شریف کا ترجمہ بھی غلط کیا ہے ، اور وہ الفاظ استعمال کیے ہیں جو اُس کے ارادوں کے مددگار ہو سکیں ، اور حدیث شریف کے مفہوم کو اُس مفہوم میں قید کر سکیں جس مفہوم میں وہ شخص اسے قید کرنا چاہتا ہے ، میں نے اُس کی ان باتوں کو سرخ رنگ میں نمایاں کر دیا ہے ، ،، لکھتا ہے :::
""": انقلابیوں کی نظر میں ہجرت کی اہمیت کم کرنے کی حدیث سازوں کی سازش:

،،،،،،،

خلاصہ
اس حدیث میں راوی نے حضور ؐ کے نام یہ فرمان منسوب کیا ہے کہ
فتح مکہ کے بعد ہجرت کا عمل بند ہے ۔ہاں جہاد ،یا نیّتِ خیر سے کوئی کہیں بھی جا سکتا ہے ۔ اور جب تمہیں کوئی بھگانے کے لئے مجبور کرے تو بھاگ جاؤ۔

Narrated Ibn 'Abbas:
Allah's Apostle said, "There is no Hijra i.e. migration) after the Conquest, but Jihad and good intention remain;
and if you are called (by the Muslim ruler) for fighting, go forth immediately.

:
تبصرہ
اس حدیث میں حدیث گھڑنے والوں نے صاف الفاظ میں فتح مکہ کے بعد کے زمانہ میں ہجرت کے لئے کوئی شہر ، ملک یا علاقہ چھوڑ کر جانے کا یعنی ہجرت کا انکار کیا ہے۔
ہجرت پر گویا یہ بندش لاگو کی ہے کہ فتح مکہ کے بعد ہجرت کرنے والاخود کو مہاجر تصور نہ کرے ۔
ان حدیث سازوں نے دنیا میں آئندہ کے لئے جو بھی ملک وطن، شہر، گھر بار چھوڑنے اور ایک جگہ سے دوسری جگہ نقل مکانی کی جو ضرورتیں پیش آئیں گی ان کے لئے دو عنوان لکھے ہیں ایک جہاد اور بھلائی خیر حاصل کرنے کے لئے نقل مکانی کرنا ۔
دوسرا کسی کے مجبور یا پریشان کرنے اور بھگانے کے لئے تنگ کرنے کے سبب نقل مکانی کرنا یعنی بھگوڑا بن جانا ۔ """

محترم قارئین ، مسلمانوں کی نظر میں حدیث شریف کی اہمیت ختم کرنے کی مذموم کوشش میں احادیث پر اعتراض کرنے والے کی بد دیانتی کہیے یا اپنی غلط فہمیوں میں مگن پن کہیے ، یا انگریزی زُبان سے نا واقفیت کہیے ، کہ اُسے یہ پتہ ہی نہیں چلا کہ اُس نے اپنی سوچ کو درست دکھانے کے لیے جواُردُو ترجمہ کیا ہے ، اُس اُردُو ترجمے کے بالکل بالعکس ، بالکل خلاف کہیں سے انگلش ترجمہ بھی نقل کر مارا ہے ، پہلے بھی کہا تھا اور اب پھر کہتا ہوں کہ """ الحمد للہ جو ایسے لوگوں کو اس حال میں رکھتا ہے کہ یہ لوگ خود اپنی ہی باتوں کےتضاد کے ذریعے بھی پہچانے جاتے ہیں"""،
یاد رکھیے گا محترم قارئین ، کہ احادیث شریفہ ، امیر المؤمنین عمر ابن الخطاب رضی اللہ عنہ ُ ، علقمہ بن وقاص رحمہُ اللہ ، اور دیگر ائمہ اور عُلماء اُمت پر الزام تراشی کرنے والے کو اتنا بھی ہوش نہیں کہ وہ کہاں کیا لکھ رہا ہے اور کہاں کیا نقل کیے جا رہا ہے ، اُسے صرف یہی کرنا ہے کہ جیسے تیسے ہو احادیث شریفہ اور احادیث روایت کرنے والوں اور جمع کرنے والوں کو ناقابل اعتماد دِکھا دیا جائے ، لیکن الحمد للہ ، ایسا نہ کبھی ہوا اور نہ ہی کبھی ہوگا اِن شاء اللہ ،
میں کہتا ہوں کہ اس حدیث شریف میں وہ دونوں مفہوم موجود ہیں جو اِس شخص نے اپنے اُردُو ترجمے میں اور کہیں سے نقل کردہ انگریزی ترجمے میں لکھے ہیں ،
اِن شاء اللہ اِن کی تفصیل آگے بیان کروں گا ،
فی الحال اعتراض کرنے والے کی یہ بد دیانتی ، یا جہالت ملاحظہ کیجیے کہ اِس نے ، اس حدیث شریف کی صِرف صحیح بخاری میں مروی ایک ہی روایت دیکھ کر ، یا یوں بھی کہہ سکتے ہیں کہ صِرف ایک ہی روایت لے کر ، راویوں اور امام بخاری رحمہُ اللہ کو "حدیث گھڑنے والے " بنا ڈالا،
جبکہ یہ اس حدیث شریف میں جِس حکم پر اعتراض کرنے والے نے اعتراض وارد کیے ہیں ، یعنی ہجرت سے ممانعت کا حکم ، یہ حکم صرف صحیح بخاری کی اسی روایت میں ہی نہیں ہے ، اور نہ ہی صِرف عبداللہ ابن عباس رضی اللہ عنہما اس حکم کے اکیلے راوی ہیں،
جی ہاں ، یہ حکم ، صحیح بخاری میں عبداللہ ابن عباس رضی اللہ عنہ ُ نے کی روایت سے بھی ہے ، اور اِیمان والوں کی محترمہ امی جان عائشہ رضی اللہ عنہا کی روایت سے بھی ، خیال رہے کہ یہ دونوں ہی روایات اسی صحیح بخاری شریف میں ہیں ،
لیکن اعتراض کرنے والے نے امی عائشہ رضی اللہ عنہا و ارضاھا کی روایت کا کچھ ذِکر نہیں کیا ،
اگر تو اُسے اُس کا روایت کا پتہ ہی نہیں ، تو وہ موضوع اور مسئلے کے بارے میں جاھل ہوا،
اور اگر اسے پتہ ہے تو پھر یہ کہنے میں کوئی حرج نہیں کہ اُس اعتراض کرنے والے شخص نے اپنی بد دیانتی، اور اپنے مذموم مقصد کے حصول کی کوشش میں امی جان عائشہ رضی اللہ عنہا کی بیان کردہ حدیث شریف کا ذِکر نہیں کیا ،
کیونکہ امی جان عائشہ رضی اللہ عنہا نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وعلی آلہ وسلم کے اس حکم مبارک کی تشریح بھی فرمائی ہے ، جو اسی صحیح بخاری میں مروی ہے ، اس تشریح کا ذِکر اِن شاء اللہ ابھی کچھ آگے چل کر کرتا ہوں ،
اور اس حدیث شریف میں صادر فرمایا گیا حکم ، دیگر راویوں کے ذریعے ، احادیث مُبارکہ کی دیگر کتب شریفہ میں بھی مروی ہے ، میں یہاں طوالت سے بچنے کے لیے وہ سب روایات نقل نہیں کروں گا ، لیکن اُن کے حوالہ جات لکھے دیتا ہوں ، تا کہ قارئین کرام میں سے جو کوئی ان روایات کو دیکھنا چاہےتو اِن شاء اللہ با آسانی دیکھ لے ،
محترم قارئین ، فتح مکہ کے بعد مکہ المکرمہ سے ہجرت کرنے کی ممانعت والا یہ حکم((((([FONT=Al_Mushaf]لاَ هِجْرَةَ بَعْدَ الْفَتْحِ[/FONT]::: فتح (مکہ)کے بعد ہجرت نہیں ہے))))) عبداللہ ابن عباس رضی اللہ عنہما ، اِیمان والوں کی امی جان عائشہ رضی اللہ عنہا کے علاوہ صفوان بن اُمیہ رضی اللہ عنہ ُ ، ابو سعید الخُدری رضی اللہ عنہ ُ اور مجاشع بن رضی اللہ عنہ ُ نے بھی روایت کیا ہے ،
اور صحابہ رضی اللہ عنہم کے قول کے طور پر بھی ، اِیمان والوں کی امی جان عائشہ رضی اللہ عنہا ، اور عبداللہ ابن عُمر رضی اللہ عنہ ُ کی طرف سے مروی ہے ،
عبداللہ ابن عباس رضی اللہ عنہما ، کی روایات صحیح بخاری اور صحیح مسلم میں بھی ہیں ،
صحیح بخاری/حدیث2783/کتاب الجہاد/ پہلا باب ، صحیح مُسلم /حدیث3368/کتاب الحج/باب82،
اِیمان والوں کی امی جان عائشہ رضی اللہ عنہا کی روایت صحیح بخاری میں بھی ہے ،
صحیح بخاری/حدیث2783/کتاب الجہاد/ پہلا باب ، صحیح مُسلم /حدیث4938/کتاب الامارۃ /باب20،
مجاشع بن مسعود رضی اللہ عنہ ُ کی روایت صحیح بخاری میں بھی ہے ،
صحیح بخاری/حدیث 3078 اور 3079/کتاب الجہاد/ پہلا 194 ،
صفوان بن اُمیہ رضی اللہ عنہ ُ کی روایت سُنن النسائی ، اور مُسند احمد میں ہے ،
سُنن النسائی/حدیث4186/کتاب البیعۃ/باب15، مُسند احمد /حدیث15700/مُسند صفوان بن اُمیہ رضی اللہ عنہ ُ میں سے حدیث رقم 5،
ابو سعید الخُدری رضی اللہ عنہ ُ کی روایت مُسند أحمد میں ہے ،
مُسند احمد /حدیث10741/مُسند ابی سعید الخُدری رضی اللہ عنہ ُ میں سے حدیث رقم 179،
امی جان عائشہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا و أرضاھا ،اور عبداللہ ابن عُمر رضی اللہ عنہما کے اقوال کا ذِکر اِن شاء آگے کرتا ہوں ،
یہ سب معلومات اس بات کو ثابت کرتی ہیں کہ اعتراض کرنے والا شخص یا تو جاھل ہے یا پھر جانتے بوجھتے ہوئے قران حکیم کا نام استعمال کرتے ہوئے رسول اللہ صلی اللہ علیہ و علی آلہ وسلم کی دُشمنی میں اُن صلی اللہ علیہ و علی آلہ وسلم کی سُنّت مبارکہ کو مشکوک بنانے کی مذموم کوششیں کرتا ہے ، اور اُن صلی اللہ علیہ وعلی آلہ وسلم کی سُنّت مبارکہ روایت کرنے ، اور جمع کرنے والوں پر جھوٹی الزام تراشی کرتا ہے ،
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ ۔۔۔۔۔
اس کے بعد ، اور ، اعتراض کرنے والے کی طرف سے پیش کردہ آیات مبارکہ کے بارے میں بات کرنے سے پہلے میں ((((([FONT=Al_Mushaf]لاَ هِجْرَةَ بَعْدَ الْفَتْحِ وَلَكِنْ جِهَادٌ وَنِيَّةٌ ، وَإِذَا اسْتُنْفِرْتُمْ فَانْفِرُوا[/FONT]:::فتح (مکہ)کے بعد ہجرت نہیں ہے ، لیکن جِہاد (کرنا ہے) اور نیت ، اور اگر تُم لوگوں کو نکلنے کے لیے کہا جائے تو نکل جاؤ )))))کی شرح میں، ہجرت کے بارے میں کچھ معلومات بیان کرتا چلوں تو اِن شاء اللہ زیادہ فائدہ مندہوگا ، اِن شاء اللہ اِن معلومات کی روشنی میں ہجرت سے متعلقہ بنیادی احکام بھی سمجھ آجائیں گے ، اور اِن شاء اللہ اعتراض کرنے والے کے اعتراضات کی حقیقت بھی کھل جائے گی کہ اُس نے یا تو جہالت کی بنا پر ، اپنی سوچ و فکر کو ہی سب کچھ سمجھتے ہوئے یہ اعتراضات وارد کیے ہیں ، یا پھر اسے حقائق کا تو پتہ تھا لیکن اپنی رسول دُشمنی ، سُنت دُشمنی ، صحابہ ، تابعین ،تبع تابعین اور مسلمانوں کے أئمہ اور عُلماء سے دُشمنی کی تسکین کے لیے ، مسلمانوں کو اُن کے رسول صلی اللہ علیہ وعلی آلہ وسلم کی سُنّت مبارکہ جو کہ قران پاک کی شرح اور تفسیر ہے ، اُس سے دُور رکھنے کے لیے یہ بھونڈی کوشش کی ہے ،
آیے ، مکہ المکرمہ کی فتح کے بعد ، مکہ المکرمہ سے ہجرت کی ممانعت والے حکم کی کچھ تفصیل کا مطالعہ کرتے ہیں، اور ہجرت کی اقسام کے بارے میں جانتے ہیں ، اِن شاء اللہ ،
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
قارئین کرام ، میری بات جاری ہے ، اِن شاء اللہ کل مکمل کر دوں گا ،اور اس مضمون کے برقی نسخے کا ربط بھی مہیا کردوں گا ، والسلام علیکم
 

عادل سہیل

مشہور رکن
شمولیت
اگست 26، 2011
پیغامات
367
ری ایکشن اسکور
941
پوائنٹ
120
::: گذشتہ سے پیوستہ :چوتھا حصہ :مکہ المکرمہ سے ہجرت کی ممانعت والے حکم کی تفصیل ، اور ہجرت کی اقسام

::: گذشتہ سے پیوستہ :چوتھا حصہ :مکہ المکرمہ سے ہجرت کی ممانعت والے حکم کی تفصیل ، اور ہجرت کی اقسام :::
پچھلے مراسلے میں میری بات یہاں رکی تھی کہ :::
آیے ، مکہ المکرمہ کی فتح کے بعد ، مکہ المکرمہ سے ہجرت کی ممانعت والے حکم کی کچھ تفصیل کا مطالعہ کرتے ہیں، اور ہجرت کی اقسام کے بارے میں جانتے ہیں ، اِن شاء اللہ ،
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
اسی مقام سے اپنے موضوع کو بڑھاتے ہوئے کہتا ہوں کہ:::

::::::: فتح مکہ المکرمہ کے موقع پر مکہ المکرمہ سے ہجرت سے ممانعت والی یہ مذکورہ بالا حدیث شریف جس پر اپنی لا عملی کے زعم میں اعتراض کرنے والے نے اعتراض کرتے ہوئے امیر المؤمنین فی الحدیث ، امام بخاری رحمہُ اللہ تعالیٰ ، اور اس حدیث شریف کے راویوں پر بہتان باندھے ہیں ، اور اپنے اسی زعم میں اللہ تبارک و تعالیٰ کے فرامین کو اُن کے موقع محل سے ہٹا کر اپنے افکار میں تیار کردہ مقام پر لگانے کی کوشش کی ہے ، جو کہ اُن لوگوں کا کام تھا اور ہے جنہیں اللہ تبارک و تعالیٰ نے ""' مغضوب علیھم """ قرار دیا ہے ،
اِن شاء اللہ ، پہلے تو میں اس حدیث شریف میں بیان فرمودہ مکہ المکرمہ سے ہجرت کی ممانعت والے حکم کے بارے میں کچھ معلومات مہیا کرتا ہوں ، اور پھر اِن شاء اللہ اُس کے بعد اِن آیات مُبارکہ کے بارے میں کچھ بات کروں گا جن آیات مبارکہ کو اعتراض کرنے والے نے غلط طور پر استعمال کرنے کی مذموم کوشش کی ہے ،
::::::: اس حدیث شریف میں مکہ المکرمہ فتح ہو جانے کے بعد ، مکہ المکرمہ سے ہجرت کرنے سے منع فرمایا گیا ہے ، اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وعلی آلہ وسلم کے اس حکم کے صادر ہونے سے لے کر ، صحابہ رضی اللہ عنہم اجمعین ، تابعین ، تبع تابعین رحمہم اللہ جمعیاً ، اور اُمت کے سارے ہی أئمہ کرام اور عُلماء کرام کا اس بات پر اتفاق رہا ہے کہ اس حکم کے بعد مکہ المکرمہ سے ہجرت کرنا جائز نہیں رہا ، کیونکہ مکہ المکرمہ مسلمانوں کے زیر اختیار ہو چکا ، اور """دار الاسلام """ بن چکا ، اور اسی حکم کی روشنی میں سب نے متفقہ طور پر یہ مسئلہ بھی اخذ کیا کہ ہر وہ شہر جس پر مسلمانوں کا اختیار ہو جائے وہ """ دار الاسلام """ کے حکم میں ہو گا ، اور وہاں سے ہجرت نہیں کی جائے گی ،
اگر اعتراض کرنے والا شخص اس حدیث شریف کو اپنی رائے اور اپنی رسول دُشمنی کے دُھن میں سمجھنے اور سمجھانے کی بجائے ، صحابہ رضی اللہ عنہم اجمعین ، تابعین ، تبع تابعین رحمہم اللہ جمعیاً ، اور اُمت کے سارے ہی أئمہ کرام اور عُلماء کرام کی شرح اور تعلیمات کے مطابق سمجھتا تو اسے یہ غلط فہمی نہ ہوتی ،
لہذا ، دو میں سے ایک ہی بات کا امکان ہے کہ یا تو اعتراض کرنے والاصحابہ رضی اللہ عنہم اجمعین ، تابعین ، تبع تابعین رحمہم اللہ جمعیاً ، اور اُمت کے سارے ہی أئمہ کرام اور عُلماء کرام کی شرح سے جاھل ہے ، یا پھر جانتے بوجھتے ہوئے گمراہی پھیلا رہا ہے ، دونوں میں سے کوئی بھی صُورت رہی ہو اُس کا یہ عمل کسی بھی طور اچھا نہیں ،
::::: دار الاسلام سے ہجرت کی ممانعت ، قران کریم ، صحابہ رضی اللہ عنہم اور ائمہ کے کلام میں :::::
یہ بات اللہ جلّ و عزّ کے فرامین میں بالکل واضح ہے کہ فتح مکہ سے پہلے تک مکہ المکرمہ میں رہنے والے مسلمانوں پر ہجرت فرض تھی (((((([FONT=Al_Mushaf]إِنَّ الَّذِينَ تَوَفَّاهُمُ الْمَلآئِكَةُ ظَالِمِي أَنْفُسِهِمْ قَالُواْ فِيمَ كُنتُمْ قَالُواْ كُنَّا مُسْتَضْعَفِينَ فِي الأَرْضِ قَالْوَاْ أَلَمْ تَكُنْ أَرْضُ اللّهِ وَاسِعَةً فَتُهَاجِرُواْ فِيهَا فَأُوْلَئِكَ مَأْوَاهُمْ جَهَنَّمُ وَسَاءتْ مَصِيرًا[/FONT]O[FONT=Al_Mushaf]إِلَّا الْمُسْتَضْعَفِينَ مِنَ الرِّجَالِ وَالنِّسَاءِ وَالْوِلْدَانِ لَا يَسْتَطِيعُونَ حِيلَةً وَلَا يَهْتَدُونَ سَبِيلًا[/FONT]O[FONT=Al_Mushaf]فَأُولَئِكَ عَسَى اللَّهُ أَنْ يَعْفُوَ عَنْهُمْ وَكَانَ اللَّهُ عَفُوًّا غَفُورًا[/FONT]O[FONT=Al_Mushaf]وَمَنْ يُهَاجِرْ فِي سَبِيلِ اللَّهِ يَجِدْ فِي الْأَرْضِ مُرَاغَمًا كَثِيرًا وَسَعَةً وَمَنْ يَخْرُجْ مِنْ بَيْتِهِ مُهَاجِرًا إِلَى اللَّهِ وَرَسُولِهِ ثُمَّ يُدْرِكْهُ الْمَوْتُ فَقَدْ وَقَعَ أَجْرُهُ عَلَى اللَّهِ وَكَانَ اللَّهُ غَفُورًا رَحِيمًا[/FONT]::: اور جو لوگ اپنی جانوں پر ظلم کرتے تھے ، جب فرشتوں نے اُن کی روحیں قبض کیں تو پوچھا کہ تُم لوگ کس حال میں تھے ؟ اُن لوگوں نے کہا ہم زمین(کے اس ٹکڑے)میں کمزور تھے ، فرشتوں نے کہا ، تو کیا اللہ کی زمین وسیع نہیں تھی کہ تُم (اُس میں) ہجرت کر جاتے ،اور یہ وہ لوگ ہیں جن کا ٹھکانہ جہنم ہے اور وہ بڑا ہی بُرا ٹھکانہ ہےOسوائے مَردوں ، عورتوں اور بچوں میں سے (ایسے)کمزور لوگ جو (ہجرت کے لیے) کوئی سبب حاصل نہیں کر سکتے تھے اور نہ ہی (ہجرت ) کے لیے کوئی راستہ پاتے تھے (ایسے لوگ دارلکفر سے ہجرت نہ کرنے کے جرم میں جہنم میں جانے والوں میں سے نہیں ہوں گے)Oاور جو کوئی اللہ کی راہ میں ہجرت کرے گا وہ زمین پر بہت زیادہ مال اور وسعت پائے گا ، اور جو کوئی اپنے گھر سے اللہ اور اُس کے رسول کی طرف ہجرت کرتا ہوا نکلے اور اُسے موت آ پکڑے تو (بھی ہجرت مکمل ہونے سے پہلے ہی) اللہ کے ہاں اُس کا ثواب پکا ہو گیا ، اور اللہ بہت زیادہ بخشش کرنے والا اور رحم کرنے والا ہے))))) سُورت النِساء /آیات97 تا 100،
اپنے رواں موضوع """مکہ المکرمہ سے ہجرت کی ممانعت، اور ہجرت کی اقسام """کے بارے میں ان آیات کریمات کے روشنی میں کچھ عرض کرنے سے صرف ایک نکتے کی طرف آپ سب کی توجہ مبذول کروانا چاہتا ہوں کہ ان آیات مبارکہ میں سے آخری آیت کے اس حصے کی طرف توجہ فرمایے ((((([FONT=Al_Mushaf]وَمَنْ يَخْرُجْ مِنْ بَيْتِهِ مُهَاجِرًا إِلَى اللَّهِ وَرَسُولِهِ ثُمَّ يُدْرِكْهُ الْمَوْتُ فَقَدْ وَقَعَ أَجْرُهُ عَلَى اللَّهِ[/FONT]::: اور جو کوئی اپنے گھر سے اللہ اور اُس کے رسول کی طرف ہجرت کرتا ہوا نکلے اور اُسے موت آ پکڑے تو (بھی ہجرت مکمل ہونے سے پہلے ہی) اللہ کے ہاں اُس کا ثواب پکا ہو گیا ،)))))
غور فرمایے ، کیا اس آیت مبارکہ میں وہی کچھ نہیں بتایا گیا جو رسول اللہ صلی علیہ و علی آلہ وسلم نے ((((([FONT=Al_Mushaf]اِنّما الاعمالُ بالنِّیات[/FONT]))))) والی حدیث شریف میں فرمایا ہے ، لیکن جو لوگ رسول اللہ صلی علیہ و علی آلہ وسلم کی سُنّت مبارکہ پر قران فہمی کے زعم میں اعتراضات وارد کرتے ہیں ، ان لوگوں کو سمجھ نہیں آتی، یا سمجھنا ہی نہیں چاہتے ، اللہ أعلم ،
اپنے رواں موضوع کی طرف واپس آتے ہوئے کہتا ہوں :::
ہمارے تمام أئمہ کرام اور عُلماء عظام اس بات پر متفق ہیں کہ یہ آیات مبارکہ اہل مکہ کے بارے میں نازل ہوئی تھیں ، اور اللہ تبارک و تعالیٰ کے کلام پاک کے اسلوب کے مطابق اس میں دیا گیا ہجرت کا حکم سب ہی مسلمانوں کے لیے تھا اور ہے ، لیکن فتح مکہ کے موقع پر اللہ تعالیٰ نے اپنے رسول صلی اللہ علیہ و علی آلہ وسلم کےی زبان مبارک سے اہل مکہ کے لیے ہجرت ممنوع فرما دی ،
اورانہی آیات مبارکہ، اور کی روشنی میں یہ مسئلہ اخذ کیا جاتا ہے کہ" دار الکفر "اور "دار الحرب "میں رہنے والے مسلمانوں پر وہاں سے" دار الاسلام" کی طرف ہجرت کرنا فرض ہے ،
اس حکم کو اللہ تبارک و تعالیٰ نے اپنے حبیب علیہ افضل الصلاۃ و السلام کی زبان مبارک سے دیگر الفاظ میں بھی ادا کروایا ، اِس کا ذِکر اِن شاء اللہ ابھی کچھ دیر بعد کروں گا ،
رہا معاملہ مکہ المکرمہ کے مسلمانوں کا تو جب مکہ المکرمہ کو اللہ تعالیٰ نے" دار الاسلام "بنا دیا تو اپنے رسول صلی اللہ علیہ وعلی آلہ وسلم کی ز بان مبارک سے وہاں رہنے والوں کے لیے ہجرت کرنا ممنوع قرار فرما دِیا ، یہ مفہوم ہے، نبی اللہ صلی اللہ علیہ وعلی آلہ وسلم کے اِرشاد پاک ((((([FONT=Al_Mushaf] لاَ هِجْرَةَ بَعْدَ الْفَتْحِ [/FONT]))))) کا نہ کہ وہ جو اعتراض کرنے والے شخص نے اپنی جہالت ، یا رسول دُشمنی کے سبب ظاہر کیا ہے ،
اور مذکورہ بالا آیات کریمات میں جو ہجرت کرنے کا حکم ہے وہ اہل مکہ کے علاوہ دوسروں کے لیے باقی رہا ،
جیسا کہ میں نے آغاز میں کہا ، کہ اس مفہوم پر صحابہ رضی اللہ عنہم اجمعین ، تابعین ، تبع تابعین اور اُمت کے سارے ہی أئمہ اور عُلماء رحمہم اللہ اور حفظہم اللہ کا اتفاق ہے ، اس کےثبوت میں چند عبارات نقل کرتا ہوں ،
::::::: عبداللہ ابن عُمر رضی اللہ عنہما بھی فرمایا کرتے تھے ((((([FONT=Al_Mushaf]لاَ هِجْرَةَ بَعْدَ الْفَتْحِ[/FONT]::: فتح(مکہ) کے بعد ہجرت نہیں ہے)))))صحیح البخاری/ کتاب مناقب الانصار/باب 45
::::::: اِیمان والوں کی امی جان محترمہ ، امی عائشہ رضی اللہ عنہا و ارضاھا کا فرمان ہے ((((([FONT=Al_Mushaf]انقَطعَت الهجرة مُنذُ فَتحَ اللهُ عَلى نبيهِ مكة [/FONT]::: ہجرت اُس وقت سے ختم ہو گئی ، جب سے اللہ تعالیٰ نے اپنے نبی صلی اللہ علیہ وعلی آلہ وسلم کے لیےمکہ فتح کر دیا ))))) صحیح البخاری/ کتاب الجہاد و السِیر/باب 194
::::::: محترم قارئین ، ابھی کچھ ہی دیر پہلے میں نے کہا کہ """ اعتراض کرنے والے شخص نے اپنی بد دیانتی، اور اپنے مذموم مقصد کے حصول کی کوشش میں امی جان عائشہ رضی اللہ عنہا کی بیان کردہ حدیث شریف کا ذِکر نہیں کیا ،
کیونکہ امی جان عائشہ رضی اللہ عنہا نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وعلی آلہ وسلم کے اس حکم مبارک کی تشریح بھی فرمائی ہے ، جو اسی صحیح بخاری میں مروی ہے ، اس تشریح کا ذِکر اِن شاء اللہ ابھی کچھ آگے چل کر کرتا ہوں """، اب یہاں میں وہ تشریح پیش کر رہا ہوں :::
عطاء بن ابی رباح رحمہُ اللہ نے امی عائشہ رضی اللہ عنہا سے ہجرت کے بارے میں سوال کیا تو انہوں نے اِرشاد فرمایا ((((([FONT=Al_Mushaf]لَا هِجْرَةَ الْيَوْمَ كَانَ الْمُؤْمِنُونَ يَفِرُّ أَحَدُهُمْ بِدِينِهِ إِلَى اللَّهِ تَعَالَى وَإِلَى رَسُولِهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ مَخَافَةَ أَنْ يُفْتَنَ عَلَيْهِ فَأَمَّا الْيَوْمَ فَقَدْ أَظْهَرَ اللَّهُ الْإِسْلَامَ وَالْيَوْمَ يَعْبُدُ رَبَّهُ حَيْثُ شَاءَ وَلَكِنْ جِهَادٌ وَنِيَّةٌ [/FONT]::: ))))) صحیح البخاری/حدیث3611/ کتاب المناقب/باب 99[FONT=Al_Mushaf]هِجْرَةِ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ و عَلیٰ آلہِ وَسَلَّمَ وَأَصْحَابِهِ إِلَى الْمَدِينَةِ[/FONT]،
قارئین کرام ، ہم مسلمانوں کے اسلامی علوم میں یہ ایک قانون طے ہے کہ """[FONT=Al_Mushaf]الراوي أدرى بِمَرويهِ مِن غيرهِ[/FONT] ::: راوی اپنی روایت کے بارے میں کسی دوسرے سے زیادہ علم رکھنے والا ہوتا ہے """، اور ایمان والوں کی امی جان عائشہ رضی اللہ عنہا تو بلا نزاع عالم فاضل فقیہ صحابہ رضی اللہ عنہم میں سے اعلی ترین درجے والوں میں سے تھیں ، لہذا اُن کی اپنی ہی روایت کردہ حدیث شریف کی شرح میں اُن کی بات کسی اور کی بات سے زیادہ معتبر ہے ،
اور انہوں نے جو کچھ سمجھایا ہے ، اس حدیث شریف میں سے ہم مسلمانوں کے أئمہ اور علماء نے وہ ہی کچھ سمجھا ہے ، اور اُسے ہی اپنایا ہے ، ایک دو مثالیں ملاحظہ فرماتے چلیے :::
::::::: اِمام محمد بن عبدالبر المالکی رحمہُ اللہ نے "مؤطا مالک /کتاب الجامع/کتاب7 کی پہلی حدیث شریف" کی شرح میں لکھا """""[FONT=Al_Mushaf]وقد قيل أنه لم تكن هجرة مفترضة بالجملة على أحد إلا على أهل مكة فإن الله عز وجل افترض عليهم الهجرة إلى نبيهم حتى فتح عليه مكة فقال حينئذ [/FONT]((((([FONT=Al_Mushaf]لاَ هِجْرَةَ بَعْدَ الْفَتْحِ وَلَكِنْ جِهَادٌ وَنِيَّةٌ ، وَإِذَا اسْتُنْفِرْتُمْ فَانْفِرُوا[/FONT])))))
[FONT=Al_Mushaf]فمضت الهجرة على أهل مكة من كان مهاجرا لم يجز له الرجوع إلى مكة واستيطانها وترك رسول الله صلى الله عليه وسلم بل افترض عليهم المقام معه فلما مات صلى الله عليه وسلم افترقوا في البلدان وقد كانوا يعدون من الكبائر أن يرجع أعرابيا بعد هجرته[/FONT]
[FONT=Al_Mushaf]وهذا الحديث يدل على قوله لا هجرة بعد الفتح أي لا هجرة مبتداة يهجر بها المرء وطنه هجرانا ،[/FONT]
[FONT=Al_Mushaf]لا ينصرف إليه من أهل مكة قريش خاصة بعد الفتح وأما من كان مهاجرا منهم فلا يجوز له الرجوع إليها على حال من الأحوال ويدع رسول الله صلى الله عليه وسلم [/FONT]::: اور یہ بھی کہا گیا ہے کہ ہجرت بنیادی طور پر سوائے اہل مکہ کے کسی بھی اور پر فرض نہ تھی، کہ اللہ عز وجل نے اہل مکہ پر فرض کیا تھا کہ وہ اپنے نبی(صلی اللہ علیہ وعلی آلہ وسلم) کی طرف ہجرت کریں ، یہاں تک کہ مکہ فتح ہوگیا ، تو اُس وقت رسول اللہ صلی اللہ علیہ وعلی آلہ وسلم نے اِرشاد فرمایا(((((فتح (مکہ) کے بعد ہجرت نہیں ہے ، لیکن جِہاد (کرنا ہے) اور نیت ، اور اگر تُم لوگوں کو نکلنے کے لیے کہا جائے تو نکل جاؤ)))))،
پس ہجرت اہل مکہ پر(اس طرح ) فرض ہو رہی ، کہ اہل مکہ میں سے جِس کسی نے ہجرت کی اُس کے لیے جائز نہ رہا کہ وہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وعلی آلہ وسلم کو چھوڑ کر مکہ واپس جائے اور وہاں رہائش اختیار کر لے ، بلکہ اللہ نے اُن (اہل مکہ کے مہاجرین )پر فرض کر دِیا کہ وہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وعلی آلہ وسلم کے ساتھ ہی رہیں ، پس (اسی لیے )جب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وعلی آلہ وسلم فوت ہو گئے تو وہ مہاجرین (صحابہ رضی اللہ عنہم اجمعین )مختلف شہروں میں جا بسے ،وہ ( صحابہ رضی اللہ عنہم )اس بات کو بڑے گناہوں میں سے سمجھتے کہ کوئی شخص ہجرت کے بعد واپس (اپنے پہلے مُقام )پر چلا جائے ،
اور یہ (مؤطا مالک والی )حدیث رسول اللہ صلی اللہ علیہ وعلی آلہ وسلم کے فرمان مبارک (((((فتح (مکہ) کے بعد ہجرت نہیں ہے )))))کی طرف دلیل ہے ، جس کا مطلب یہ ہے کہ فتح مکہ کے بعد کوئی بھی شخص اپنے(اس) وطن سے ہمیشہ کے لیے چھوڑ کر جانے والی ہجرت کی ابتداء نہیں کرے،
(اور یہ قرار پایا کہ فتح مکہ کے بعد ) اہل مکہ اور خا ص طور پر قریش رسول اللہ صلی علیہ وعلی آلہ وسلم کی طرف ہجرت نہیں کریں گے ، اوراُن میں سے جو کوئی پہلے ہجرت کر چکا ہے اُس کے لیے کسی بھی حال میں یہ جائز نہیں رہا کہ وہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وعلی آلہ وسلم کو چھوڑ دے اور مکہ واپس چلا جائے"""""،[FONT=Al_Mushaf]التمهيد لما في الموطأ من المعاني والأسانيد /باب المیم/تابع لمحمد بن شھاب /الحدیث الخامس و الثلاثون،[/FONT]
مؤطاء مالک کی وہ حدیث جس کی شرح میں یہ مندرجہ بالا باتیں لکھی گئی ہیں درج ذیل ہے ((((( [FONT=Al_Mushaf]إِذَا سَمِعْتُمْ بِهِ بِأَرْضٍ فَلاَ تَقْدَمُوا عَلَيْهِ وَإِذَا وَقَعَ بِأَرْضٍ وَأَنْتُمْ بِهَا فَلاَ تَخْرُجُوا فِرَارًا مِنْهُ [/FONT]::: اگر تُم لوگ کسی زمین (کے ٹکڑے ، علاقے)کے بارے میں (وہاں ) طاعون ہونے کی خبر سنو تو وہاں مت جاؤ ، اور اگر طاعون وہاں واقع ہو جائے جہاں تُم لوگ ہو تو پھر طاعون سے فرار اختیار کرتے ہوئے اُس جگہ سے نکلو نہیں))))) اس حدیث شریف میں بھی ہجرت سے متعلق ایک حکم مذکور ہے ، اور وبائی امراض کی صورت میں اپنے ، اور دوسروں کے بچاؤ کی ترکیب و تعلیم بھی ، لیکن میں اپنےزیر مطالعہ موضوع تک محدود رہنے کے لیے اس حدیث شریف میں مذکور حکم کے بارے میں کوئی بات کیے بغیر آگے بڑھ رہا ہوں ،
::::::: اِمام ابو محمد أحمد بدر الدین العینی الحنفی رحمہُ اللہ نے فتح مکہ کے بعد ، مکہ المکرمہ سےہجرت والی ممانعت کے حکم والی حدیث شریف کی شرح میں لکھا """"" [FONT=Al_Mushaf]والهجرة من دار الحرب إلى دار الإسلام باقية إلى يوم القيامة ولم تبق هجرة من مكة بعد أن صارت دار الإسلام وهذا يتضمن معجزة لرسول الله بأنها تبقى دار الإسلام لا يتصور منها الهجرة قوله ولكن جهاد أي لكن لكم طريق إلى تحصل الفضائل التي في معنى الهجرة وذلك بالجهاد ونية الخير في كل شيء من لقاء رسول الله ونحوه[/FONT]::: اور "دار الحرب" سے "دار الاسلام" کی طرف ہجرت کرنا قیامت تک باقی ہے((( اِن شاء اللہ، اس کے بارے میں بات ابھی کروں گا)))اور مکہ کا "دارالاسلام" بن جانے کے بعد وہاں سے ہجرت کرنا باقی نہیں رہا ، """""، عُمدۃ القاری شرح صحیح البخاری/ کتاب جزاء الصید /باب 10
اسی کتاب میں ایک دوسرے مقام پر لکھا """""[FONT=Al_Mushaf]والهجرة انقطعت بعد فتح مكة لأن المؤمنين كانوا يفرون بدينهم إلى الله وإلى رسوله مخافة أن يفتنوا وأما اليوم فقد أظهر الله الإسلام والمؤمن يعبد ربه حيث شاء[/FONT] ::: """""، عُمدۃ القاری شرح صحیح البخاری/ کتاب الجہاد و السِیر /باب 194
::::::: ہجرت صرف نقل مکانی تک محدود نہیں ::::::
اعتراض کرنے والے شخص نے ہجرت کے بارے میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وعلی آلہ وسلم کے دیگر فرامین مبارکہ کا یا تو مطالعہ ہی نہیں کیا، اور اپنا مطلوبہ ہدف (سُنّت مبارکہ کے بارے میں گمراہی پھیلانا)حاصل کرنے کے لیے صرف ایک حدیث شریف کے الفاظ سے کھیلتے ہوئے اپنی مذموم کوشش کر ڈالی ،
آیے ، میں آپ صاحبان کو اختصار کے ساتھ ، رسول کریم محمد صلی اللہ علیہ و علی آلہ وسلم کے کچھ ایسے ارشادات گرامی پڑھاتا چلوں جن میں ہمیں اعتراض کرنے والوں کی فلسفہ سازیوں کی حقیقت نظر آتی ہے،
::::::: ہجرت کی اقسام :::::::
::::::: نقل مکانی ،،،دار الحرب ، اور دار الکفر سے سے دار الاسلام منتقل ہونے والی ہجرت :::::::
یہ ہجرت قیامت تک باقی ہے ، اور ہر اس مسلمان پر فرض ہے جو اس کی استطاعت رکھتا ہو،
اس کی ایک دلیل تو سورت النِساء کی وہ آیات مبارکہ ہیں جو ابھی ابھی ذِکر کی گئی ہیں ، اور اس ہجرت کے قیامت تک باقی رہنے کی خبر اللہ جلّ و عزّ نے اپنے اُسی رسول صلی اللہ علیہ وعلی آلہ وسلم کی زبان مبارک سے بھی کروائی ہے ، جِس رسول صلی اللہ علیہ وعلی آلہ وسلم کی زبان مبارک سے "دارالاسلام " سے ہجرت کی ممانعت کی خبر کروائی ،
::::::: دار الاسلام سے ہجرت کرنے کو تو اللہ نے اپنے رسول کریم محمد صلی اللہ علیہ وعلی آلہ وسلم کی زبان مبارک کے ذریعے منع کروایا دِیا ، لیکن اپنے حبیب علیہ افضل الصلاۃ و السلام کی اُمت پر اپنی خصوصی رحمتوں کا نزول جاری رکھتے ہوئے اپنے حبیب صلی اللہ علیہ وعلی آلہ وسلم کی زبان پاک سے یہ اعلان بھی کروا دِیے کہ((((([FONT=Al_Mushaf]لاَ تَنْقَطِعُ الْهِجْرَةُ حَتَّى تَنْقَطِعَ التَّوْبَةُ وَلاَ تَنْقَطِعُ التَّوْبَةُ حَتَّى تَطْلُعَ الشَّمْسُ مِنْ مَغْرِبِهَا[/FONT]:::جب تک توبہ (کرنے کی مہلت)ختم نہیں ہوگی ، اُس وقت تک ہجرت بھی ختم نہیں ہوگی ، اور جب تک سورج مغرب سے طلوع نہیں ہوتا اُس وقت تک توبہ کرنے کی مہلت ختم نہیں ہوگی))))))سُنن ابو داؤد/حدیث2481/کتاب الجہاد/باب2، امام الالبانی رحمہُ اللہ نے صحیح قرار دیا، سُنن الدارمی/حدیث2568/کتاب ومِن کتاب السِیر/باب70،مسُند احمد17369/حدیث معاویہ بن ابی سُفیان رضی اللہ عنہ ُ میں سےحدیث رقم 82،
(((((([FONT=Al_Mushaf]لاَ تَنْقَطِعُ الْهِجْرَةُ مَا قُوتِلَ الْكُفَّارُ[/FONT]::: جب تک کافروں کے ساتھ لڑائی بند ہوتی اُس وقت تک ہجرت ختم نہیں ہوگی)))))سُنن النسائی /حدیث4189/کتاب البیعۃ/باب15،صحیح ابن حبان/حدیث 4866/کتاب السِیر/باب الھجرۃ،مُسند احمد /حدیث22984/ عبداللہ بن السعدی رضی اللہ عنہ ُ ،
قارئین کرام یہ مذکورہ بالا احادیث مبارکہ ، اعترض کرنے والے کے ہر وسوسے کو ختم کرنے والی ہیں ، کہ ان احادیث مبارکہ میں بڑے ہی صاف الفاظ میں یہ فرمایا گیا ہے کہ ہجرت قیامت تک جاری رہنے والی چیز ہے ،
اب ان مریضوں کو کیا کہیے گا جو صرف ایک روایت لے کر اپنے اوھام کی تبلیغ کرنے لگتے ہیں ، اور اُن لوگوں کو "احادیث گھڑنے والے " کہتے ہیں جن کے اِیمان ، زھد ، تقویٰ ، صداقت اور اتباع رسول صلی اللہ علیہ و علی آلہ وسلم کی ایک ادنی ٰ سی جھلک بھی ان اعتراض کرنے والوں میں کہیں ڈھونڈے بھی نہیں ملتی ، ولا حول ولا قوۃ الا باللہ ،
اللہ کرے کہ صحیح ثابت شدہ احادیث مبارکہ پر اعتراض کرنے والوں اور ان کے ہم نوا لوگوں کو یہ ہدایت نصیب ہو ، اور کسی صحیح ثابت شدہ حدیث شریف پر اپنے ذاتی و ہموں کی بنا پر اعتراض وارد کرنے سے پہلے وہ اُس حدیث شریف میں بیان فرمودہ موضوع ، یا مسئلے کے بارے میں دیگر صحیح ثابت شدہ احادیث شریفہ میں بھی پڑھیں ، اور پھر اللہ کے کلام پاک کی روشنی میں صحیح عقل و فہم کے مطابق سمجھیں تو انہیں یہ نظر آنے لگے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وعلی آلہ وسلم کی کوئی بھی صحیح ثابت شدہ حدیث شریف اللہ تبارک و تعالیٰ کے کلام پاک کے خلاف نہیں ، و للہ الحمد۔
::::::: ایک خاص نکتہ :::::::
سورت النساء کی مذکورہ بالا آیات کریمات میں بھی یہ بات واضح ہے کہ یہ ہجرت اُسی پر فرض ہے جو اس کی استطاعت رکھتا ہو،
مکہ المکرمہ سے ہجرت کی ممانعت والی اسی حدیث کی شرح میں امام ابن عبدالبر رحمہُ اللہ کا کہنا ہے """""[FONT=Al_Mushaf]وقد بقي من الهجرة باب باق إلى يوم القيامة وهو المسلم في دار الحرب إذا أطاقت أسرته أو كان كافرا فأسلم لم يحل له المقام في دار الحرب وكان عليه الخروج عنها فرضا واجبا قال رسول الله صلى الله عليه وسلم[/FONT](((((([FONT=Al_Mushaf]أنا برىءٌ مِن كل مسلم مع مُشرك[/FONT])))))
[FONT=Al_Mushaf]وكيف يجوز لمسلم المقام في دار تجرى عليه فيها أحكام الكفر وتكون كلمته فيها سفلى ويده وهو مسلم هذا لا يجوز لأحد[/FONT]::: """""،[FONT=Al_Mushaf] التمهيد لما في الموطأ من المعاني والأسانيد /باب المیم/تابع لمحمد بن شھاب /الحدیث الخامس و الثلاثون،[/FONT]
(((کفار و مشرکین کے ساتھ اور ان کے شہروں ، ملکوں اور بستیوں میں رہنے کے بارے میں تفصیلی گفتگو """کفار کے ممالک میں رہائش اختیار کرنا""" میں کر چکاہوں ، یہ مضمون ایک مراسلے کی صورت میں درج ذیل لنک پر میسر ہے ، و الحمد للہ )))
http://goo.gl/smcjA
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
::::::: نقل مکانی ،،، کسی جگہ سے مسلمانوں کو زبردستی نکالے جانے پر ہونے والی ہجرت :::::::
کسی جگہ پر کافروں کی طرف سے مسلمانوں کو زبر دستی نکالا جائے ، اور مسلمان اپنی جان مال عزت کا تحفظ لڑ کر نہ کر سکتے ہوں اور وہاں سے نکل جائیں ، یہ عمل بھی ہجرت ہے ، جیسا کہ ماضی قریب میں ہی فلسطین ، بوسنہ و ہرسک ، شیشان ،کشمیر ،برما وغیرہ کے مسلمانوں کے ساتھ کیا گیا ،
یہ ہجرت بھی اللہ تبارک و تعالی کے فرمان کے مطابق ہے ، لیکن افسوس ، صد افسوس کہ اعتراض کرنے والے نے اپنے اُردو ترجمے میں جو مفہوم لکھ کر حدیث شریف کو غلط دکھانے کی کوشش کی ، وہ مفہوم ان آیات مبارکہ میں بڑی وضاحت سے موجود ہے ،
الحمد للہ ، ثم الحمد للہ ، ایک دفعہ پھر اللہ تعالیٰ نے اس کی گمراہی کو اُس کے ہی لکھے ہوئے میں سے واضھ کروا دیا ، اور دِکھا دیا کہ صحیح ثابت شدہ احادیث مُبارکہ کو غلط کہنے والا ، اُنہیں """خلاف قران """ کہنے والا خود """خلاف قران """ سوچ و فہم میں مبتلا ہے ،
محترم قارئین اللہ سُبحانہ ُ و تعالیٰ یہ فرمان پاک پڑھیے ((((([FONT=Al_Mushaf]مَا أَفَاءَ اللَّهُ عَلَى رَسُولِهِ مِنْ أَهْلِ الْقُرَى فَلِلَّهِ وَلِلرَّسُولِ وَلِذِي الْقُرْبَى وَالْيَتَامَى وَالْمَسَاكِينِ وَابْنِ السَّبِيلِ كَيْ لَا يَكُونَ دُولَةً بَيْنَ الْأَغْنِيَاءِ مِنْكُمْ وَمَا آتَاكُمُ الرَّسُولُ فَخُذُوهُ وَمَا نَهَاكُمْ عَنْهُ فَانْتَهُوا وَاتَّقُوا اللَّهَ إِنَّ اللَّهَ شَدِيدُ الْعِقَابِ[/FONT]o[FONT=Al_Mushaf]لِلْفُقَرَاءِ [/FONT][FONT=Al_Mushaf]الْمُهَاجِرِينَ الَّذِينَ أُخْرِجُوا مِنْ دِيَارِهِمْ[/FONT][FONT=Al_Mushaf] وَأَمْوَالِهِمْ يَبْتَغُونَ فَضْلًا مِنَ اللَّهِ وَرِضْوَانًا وَيَنْصُرُونَ اللَّهَ وَرَسُولَهُ أُولَئِكَ هُمُ الصَّادِقُونَ[/FONT] :::اللہ نے بستیوں والوں (کے مال)میں سے جو(مال ومتاع) کچھ اپنے رسول کو (بطور غنیمت)دیتا ہے تو وہ اللہ کے لیے ہے اور اللہ کے رسول کے لیے ہے ، اور قریبی لوگوں کے لیے ہے ، اور یتموں ، غریبوں اور مسافروں کے لیے ہے ، تا کہ (یہ مال)تُم لوگوں میں سے صرف مالدار لوگوں کے درمیان میں ہی نہ رہے ، اور جو کچھ (حکم اور چیز )رسول تم لوگوں کو دے وہ لے لو ، اور جِس سے منع کر اُس سے باز آجاؤ ، اور اللہ (کی ناراضگی ، غصے اور عذاب )سے بچو ، یقیناً اللہ بہت سخت سزا دینے والا ہے o مہاجرین میں سے وہ غریب لوگ جنہیں اُن کے گھروں اور مال و متاع میں سے (زبردستی)نکال دِیا گیا(اور )وہ لوگ(اپنے گھروں اور مالوں کی بجائے ) اللہ کا فضل اور رضا چاہتے ہیں ، اور اللہ اور اس کے رسول کی مدد کرتے ہیں ، وہی ہیں سچے (اِیمان والے)لوگ)))))سُورت الحشر (59)/آیات 7،8،
قارئین کرام ، ان مذکورہ بالا آیات مبارکہ میں تدبر کیجیے ، بالخصوص سرخ رنگ میں لکھے گئے حصوں کو بغور پڑھیے ، اور دیکھیے کہ حدیث شریف کے اردو ترجمے میں ، اعتراض کرنے والے نے اپنے گھروں سے نکالے جانے پر ہجرت کر لینے کے مفہوم کو "بھگوڑا" بن جانے کی تعلیم سمجھا ، یا سمجھانے کی جو کوشش کی ، وہ """ خلاف قران """ ہے کہ نہیں ،
اگر زبردستی نکالے جانے پر ہجرت کرنا بھگوڑا بننا ہوتا ، اور ایسا کرنے والے بھگوڑے ہوتے ، تو اللہ تبارک و تعالیٰ اُن کو بھی مہاجرین میں قبول نہ فرماتا اور نہ ہی اُن کو سچے اِیمان والے ہونے کی خوشخبری دیتا ،
قارئین کرام ، سورت الحشر کی مذکورہ بالا آیت رقم 8 ، اعتراض کرنے والے نے بھی اپنے مضمون میں نقل کی ہے ، لیکن اللہ تعالیٰ نے اسے وہاں بھی حق سمجھنے کی توفیق نہیں دی ، اور وہ اپنی ہی رَو میں بہتا رہا اور یہ نہیں سمجھ سکا کہ حدیث شریف میں بیان کردہ جس کام کو وہ برادکھانے کی کوشش میں قرانی آیات نقل کر رہا ہے ، وہی کام تو اس آیت مبارکہ میں بھی ذکر کیا گیا ہے یعنی """ زبردستی گھروں اور مالوں میں سے نکال دیا جانا """، اور ان لوگوں کو اللہ تعالیٰ نے مہاجر قرار دیا ہے ، جب کہ اس اعتراض کرنے والے کی سمجھ کے مطابق تو انہیں بھگوڑا کہا جانا چاہیے تھا،
اس آیت کو ذکر کر کے اپنی باطل سوچیں لکھ کر آخر میں اعتراض کرنے والے نے اپنے باطل زعم کے گھمنڈ میں لکھا """ قرآن نے صحابہ دشمن روایات سازوں کو ان کی روایات ان کے منہ پر دے ماری ہیں"""
میں اُس کے الفاظ کو تھوڑی سی تبدیلی کے ساتھ اس کے لیے اور اس کے ہم خیالوں کے لیے ہپیش کرتا ہوں :::
""" قران کریم میں اللہ تعالیٰ نے صحابہ رضی اللہ عنہم اجمعین کے دُشمنوں،حدیثوں پر اعتراض کرنے والوں کی خلاف قران ، قران فہمی ان کے منہ پر دے ماری ہے """
قارئین کرام ، اب آپ خود فیصلہ کر لیجیے کہ اعتراض کرنے والے کا معاملہ کیا ہے ؟؟؟
اُسے یا تو اللہ تبارک و تعالیٰ کے فرامین کی درست سمجھ ہی نہیں ، اور یا پھر جان بوجھ کر انہیں ان کے موقع محل سے ہٹا رہا ہے ، کیوں ؟؟؟
اس کا جواب بارہا ذِکر کر چکا ہوں ، اور الحمد للہ جو میری اُن باتوں کو سچ ثابت کرنے کی توفیق دے رہا ہے جو میں نےاس شخص کی طرف سے کیے گئے اعتراضات کے بارے میں کہی تھیں ،
::::::: گناہوں سے ہجرت :::::::
اسی صحیح البخاری میں ، جس کی ایک روایت پر اعتراض کرنے والے نے اعتراض کر ڈالے ، ہجرت کے بارے میں یہ حدیث شریف بھی منقول ہے ،جو صِرف نقل مکانی کو ہی ہجرت کی بجائے ایک اور عمل کو بھی ہجرت قرار دیے جانے کی خبر پر مشتمل ہے ،
محترم قارئین ، ایک دفعہ پھر گذارش ہے کہ یہاں بھی اس نکتے پر غور کرتے چلیے گا کہ کیا یہ احادیث مبارکہ اعتراض کرنے والے کو یا تو معلوم ہی نہیں اور یا پھر اپنی بد دیانتی کے سبب وہ جان بوجھ کر اِن احادیث شریفہ سے صرف نظر کرتا چلا ہے ،
عبداللہ ابن عَمرو رضی اللہ عنہما کا کہنا ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وعلی آلہ وسلم نے اِرشاد فرمایا ہے ((((([FONT=Al_Mushaf]الْمُسْلِمُ مَنْ سَلِمَ الْمُسْلِمُونَ مِنْ لِسَانِهِ وَيَدِهِ وَالْمُهَاجِرُ مَنْ هَجَرَ مَا نَهَى اللَّهُ عَنْهُ[/FONT] :::مُسلمان وہ ہے جِو اپنی زبان اور ہاتھ (کے ظلم و زیادتی) سے (دوسرے)مسلمانوں کو بچائے رکھے ،اور مہاجر وہ ہے جو اُس (کام یا چیز وغیرہ)سے ہجرت کرےجس سے اللہ نے منع کیا ))))))صحیح البخاری/حدیث10/ کتاب الایمان/باب4،
صحیح بخاری کے علاوہ دیگر کتابوں میں صحیح سند کے ساتھ یہی خبر ، یہی حکم فضالۃ بن عُبید رضی اللہ عنہ ُ کی روایت سے ان الفاظ میں بھی مروی ہے ((((([FONT=Al_Mushaf]الْمُؤْمِنُ مَنْ أَمِنَهُ النَّاسُ عَلَى أَمْوَالِهِمْ وَأَنْفُسِهِمْ وَالْمُهَاجِرُ مَنْ هَجَرَ الْخَطَايَا وَالذُّنُوبَ[/FONT] :::اِیمان والاوہ ہے جو لوگوں کو اُن کی جانوں اور مالوں کے بارے میں محفوظ رکھے ، اور مہاجر وہ ہے جو غلطیوں اور گناہوں سے ہجرت کرے)))))سُنن ابن ماجہ/حدیث 4069/کتاب الفتن/باب2،امام الالبانی رحمہُ اللہ نے صحیح قرار دیا ،
پس اللہ جلّ جلاہُ نے ہمیں اپنے حبیب ، اپنے رسول کریم مُحمد صلی اللہ علیہ و علی آلہ وسلم کی زبان پاک سے یہ علم بھی دِیا کہ ہجرت صِرف نقل مکانی تک محدود نہیں ، بلکہ اللہ کے منع کردہ کاموں کو چھوڑ دینا بھی اللہ تعالیٰ کے ہاں ہجرت ہے ،
اور یہ ایسی ہجرت ہے جِس کے لیےعموماً کسی مُسلمان کو اپنا گھر ، اپنا وطن ، اپنا مال و متاع چھوڑنے کی مُشقت نہیں کرنا پڑتی ، یا بالکل ہی چھوڑنے کی ضرورت نہیں پڑتی ، اور یہ ہجرت بھی ایسی ہجرت ہے جو اُس وقت تک جاری رہے گی جب تک انسانی معاشرے میں اللہ اور اُس کے رسول صلی اللہ علیہ و علی آلہ وسلم کی نافرمانیاں ہوتی رہیں گی ،
اعتراض کرنے والے اور اس کے ہم خیالوں کو اگر ہمارے رسول کریم صلی اللہ علیہ وعلی آلہ وسلم کی سُنّت مبارکہ کا پورا علم نہیں، اور وہ اپنی جہالت کی بنا پر کسی ایک حدیث شریف کے متن کو لے کر اعتراضات کرتے ہیں تو ان کے لیے یہ دعا ہی کرتا ہوں کہ اللہ تعالیٰ انہیں ہدایت دے ، اور اگر اللہ تعالیٰ کی مشیئت میں اُن کے لیے ہدایت نہیں ہے تو اللہ تعالیٰ اپنی ساری ہی مخلوق کو اُن لوگوں کے شر سے محفوظ کر دے ۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
میری بات جاری ہے
 

عادل سہیل

مشہور رکن
شمولیت
اگست 26، 2011
پیغامات
367
ری ایکشن اسکور
941
پوائنٹ
120
::: گذشتہ سے پیوستہ : پانچواں حصہ :::

::: گذشتہ سے پیوستہ : پانچواں حصہ :::
ہجرت کی اقسام کا ذِکر کرنے کے بعد ، اُن آیات مبارکہ کے بارے میں کچھ بات کرتا ہوں جنہیں اعتراض کرنے والے نے اپنے خود ساختہ اور غلط مفاہیم اور جھوٹے الزامات کی تائید میں استعمال کرنے کی کوشش کی ہے ،
اُس نے سب سے پہلے سُورت الحشر کی آیت مبارکہ رقم 8نقل کی ہے جس کا میں نے ابھی کچھ ہی دیر پہلے ذِکر کیا ہے:::
""" [FONT=Al_Mushaf]لِلْفُقَرَاءِ الْمُهَاجِرِينَ الَّذِينَ أُخْرِجُوا مِنْ دِيَارِهِمْ وَأَمْوَالِهِمْ يَبْتَغُونَ فَضْلًا مِنَ اللَّهِ وَرِضْوَانًا وَيَنْصُرُونَ اللَّهَ وَرَسُولَهُ ۚ أُولَئِكَ هُمُ الصَّادِقُونَ

(59:
(
اور) ان مفلسان تارک الوطن کے لئے بھی جو اپنے گھروں اور مالوں سے خارج (اور جدا) کر دیئے گئے ہیں (اور) خدا کے فضل اور اس کی خوشنودی کے طلبگار اور خدا اور اس کے پیغمبر کے مددگار ہیں۔ یہی لوگ سچے (ایماندار) ہیں ۔ """
سورت الحشر کی مذکورہ بالا آیت رقم 8 ، کے بارے میں ابھی ابھی بیان کر چکا ہوں کہ یہ آیت اُس شخص کے اپنے ہی خلاف دلیل بن گئی ہے ، چند سطور پیچھے جا کر تفصیل پڑھی جا سکتی ہے ، اِن شاء اللہ ،
اُس نے جو دیگر آیات مبارکہ اور ان کے ترجمے نقل کیے ہیں وہ درج ذیل ہیں ، ان تراجم میں ، میں لفظ خدا کو """ اللہ """ سے تبدیل کر کے نقل کر رہا ہوں :::
""" [FONT=Al_Mushaf]وَالَّذِينَ آمَنُوا وَهَاجَرُوا وَجَاهَدُوا فِي سَبِيلِ اللَّهِ وَالَّذِينَ آوَوْا وَنَصَرُوا أُولَئِكَ هُمُ الْمُؤْمِنُونَ حَقًّا ۚ لَهُمْ مَغْفِرَةٌ وَرِزْقٌ كَرِيمٌ[/FONT]
(8:74 )
اور جو لوگ ایمان لائے اور وطن سے ہجرت کر گئے اور اللہ کی راہ میں لڑائیاں کرتے رہے اور جنہوں نے (ہجرت کرنے والوں کو) جگہ دی اور ان کی مدد کی۔ یہی لوگ سچے مسلمان ہیں۔ ان کے لیے (اللہ کے ہاں) بخشش اور عزت کی روزی ہے۔

[FONT=Al_Mushaf]وَالَّذِينَ آمَنُوا مِنْ بَعْدُ وَهَاجَرُوا وَجَاهَدُوا مَعَكُمْ فَأُولَئِكَ مِنْكُمْ ۚ وَأُولُو الْأَرْحَامِ بَعْضُهُمْ أَوْلَى بِبَعْضٍ فِي كِتَابِ اللَّهِ ۗ إِنَّ اللَّهَ بِكُلِّ شَيْءٍ عَلِيمٌ [/FONT][FONT=Al_Mushaf]
[/FONT]
(8:75)
اور جو لوگ بعد میں ایمان لائے اور وطن سے ہجرت کرگئے اور تمہارے ساتھ ہو کر جہاد کرتے رہے وہ بھی تم ہی میں سے ہیں۔ اور رشتہ دار اللہکے حکم کی رو سے ایک دوسرے کے زیادہ حقدار ہیں۔ کچھ شک نہیں کہ خدا ہر چیز سے واقف ہے۔


[FONT=Al_Mushaf]وَالسَّابِقُونَ الْأَوَّلُونَ مِنَ الْمُهَاجِرِينَ وَالْأَنْصَارِ وَالَّذِينَ اتَّبَعُوهُمْ بِإِحْسَانٍ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُمْ وَرَضُوا عَنْهُ وَأَعَدَّ لَهُمْ جَنَّاتٍ تَجْرِي تَحْتَهَا الْأَنْهَارُ خَالِدِينَ فِيهَا أَبَدًا ۚ ذَلِكَ الْفَوْزُ الْعَظِيمُ[/FONT]
(9:100)
جن لوگوں نے سبقت کی (یعنی سب سے) پہلے (ایمان لائے) مہاجرین میں سے بھی اور انصار میں سے بھی۔ اور جنہوں نے نیکو کاری کے ساتھ ان کی پیروی کی اللہ ان سے خوش ہے اور وہ اللہ سے خوش ہیں اور اس نے ان کے لیے باغات تیار کئے ہیں جن کے نیچے نہریں بہہ رہی ہیں اور ہمیشہ ان میں رہیں گے۔ یہ بڑی کامیابی ہے۔
اسی طرح سورۃ توبہ کی آیت نمبر100میں اصحاب رسولؐ اور ان کے احسن طریقہ پر اتباع کرنے والوں کے لئے قرآن حکیم نے جنت میں جانے اور رہنے کا جو اعلان فرمایا ہے اس میں بھی صحابہ کے تعارف میں دیگر خصائص کے ساتھ ہجرت کے حوالے سے متعارف کرایا ہے اور شا ید یہ اس لئے بھی کہ بخار ی کی اس پہلے نمبرپر لائی ہوئی حدیث کی بھی اچھی طرح سے تردید ہوجائے ۔"""

قارئین کرام ، اعتراض کرنے والے یہ جو آیات مبارکہ نقل کی ہیں ، ان سب ہی آیات مبارکہ میں ، اور کئی دیگر آیات مبارکہ میں ہجرت کرنے والوں کے لیے دُنیا اور آخرت میں انعام و اکرام کی خوش خبریاں فرمائی گئی ہیں ، لیکن کسی بھی آیت کریمہ سے کہیں سے ایسی کوئی بات اشارۃً بھی نہیں ملتی کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وعلی آلہ وسلم کی زبان مبارک سے جو فتح مکہ کے بعد ، مکہ سے ہجرت کرنے کی پابندی کا ھکم اللہ تعالیٰ نے ادا کروایا ہے وہ اِن آیات مبارکہ ، یا ہجرت کا ذِکر لیے ہوئے کسی بھی اور آیت پاک کے خلاف ہے ،
اللہ تبارک و تعالیٰ نے اپنے ان فرامین میں بہت ہی واضح انداز میں ہجرت ،اور مہاجرین کے فضائل اور انعام و اکرام بیان فرمائے ہیں ، اپنے رسول صلی اللہ علیہ وعلی آلہ وسلم کی کسی بات کی تردید نہیں فرمائی ، لہذا یہ آیات مبارکہ کے ذریعے اُن لوگوں کی حقیقت بھی واضح ہوتی ہے جو اللہ سُبحانہ ُ و تعالیٰ کے حبیب صلی اللہ علیہ وعلی آلہ وسلم کے صحیح ثابت شدہ فرامین مبارکہ پر اپنی بیمار عقلوں میں آنے والے جہلات یا تعصب پر مبنی اعتراضات وارد کرتے ہیں ،
اعتراض کرنے والے نے ایک اور دوسری آیت کریمہ کو استعمال کر کے اپنی حدیث دُشمنی کو تسکین پہنچانے ، اور سُنّت مبارکہ کے بارے میں شکوک پھیلانے کا مذموم مقصد حاصل کرنے کی کوشش کی ہے ، اِن شاء اللہ اُس کا جواب بھی اُس کی جگہ پر دیتا ہوں ،
ابھی تک اعتراض کرنے والے کی باتوں کا جو جائزہ لیا گیا ، الحمد للہ اُس میں یہ ثابت ہو رہا ہے کہ اُس کا کوئی اعتراض حق، سچ اور اسلامی علوم پر مبنی نہیں ۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ ۔۔
میری بات جاری ہے ۔
[/FONT]
 

عادل سہیل

مشہور رکن
شمولیت
اگست 26، 2011
پیغامات
367
ری ایکشن اسکور
941
پوائنٹ
120
::: گذشتہ سے پیوستہ ::: چَھٹا حصہ :::

::: گذشتہ سے پیوستہ ::: چَھٹا حصہ :::
ان باتوں کے بعد اُس شخص نے پھر ایک بے ربطی کا مظاہرہ کرتے ہوئے ، غالباً صِرف امام بخاری رحمہُ اللہ تعالیٰ کے خلاف اپنے دل کے کچھ اور پھپھولے پھوڑتے ہوئے موضوع سے ہٹتے ہوئے لکھا :::
""" کیونکہ بخاری نے اپنی کتاب میں سورۃ مائدہ کی آیت نمبر117
[FONT=Al_Mushaf]مَا قُلْتُ لَهُمْ إِلَّا مَا أَمَرْتَنِي بِهِ أَنِ اعْبُدُوا اللَّهَ رَبِّي وَرَبَّكُمْ ۚ وَكُنْتُ عَلَيْهِمْ شَهِيدًا مَا دُمْتُ فِيهِمْ ۖ فَلَمَّا تَوَفَّيْتَنِي كُنْتَ أَنْتَ الرَّقِيبَ عَلَيْهِمْ ۚ وَأَنْتَ عَلَى كُلِّ شَيْءٍ شَهِيدٌ

(5:117)
میں نے ان سے کچھ نہیں کہا بجز اس کے جس کا تو نے مجھے حکم دیا ہے وہ یہ کہ تم خدا کی عبادت کرو جو میرا اور تمہارا سب کا پروردگار ہے اور جب تک میں ان میں رہا ان (کے حالات) کی خبر رکھتا رہا جب تو نے مجھے [FONT=Al_Mushaf]فَلَمَّا تَوَفَّيْتَنِي[/FONT] تو تو ان کا نگران تھا اور تو ہر چیز سے خبردار ہے۔

[FONT=Al_Mushaf]فَلَمَّا تَوَفَّيْتَنِي كُنْتَ أَنْتَ الرَّقِيبَ عَلَيْهِمْ[/FONT]
کے ذیل میں حدیث لکھی ہے کہ صحابہ کو قیامت کے دن رسولؐ کے سامنے فرشتے گھسیٹ کر جہنم میں ڈالیں گے تو اللہ نے ا صحاب رسولؐ کے جنت میں جانے کے واضح اعلانات کرکے ان راویوں کے پول کھول دئیے ۔
ان کا اصل اور چھپا ہوا چہرہ نمایا ں کردیا ہے ۔
کیونکہ وہ کوئی بھی ایسا موقع نہیں جا د یتے جس سے پڑھنے والوں کے ذہنوں میں اکابرین اسلام کے بارے میں بدگمانیاں پیدا ہوتی ہوں ۔
یعنی جان بوجھ کر لوگوں کے ذہنوں میں یہ لوگ شکوک وشبہات پیدا کرتے رہتے ہیں ۔
چہ دلاور است دزدے کہ بکف چراغ دارد
اسے راوی کی جرأت کہیں یا اصحاب رسولؐ سے اس کی نفرت کی شدت کہیں یا مسلمانوں کی ذہنی پسماندگی اور شان صحابہ کے بارے میں ان کی بے حسی کہیں اس حد تک کہ ان کے اورمدارس دینیہ کے شیوخ الحدیث کے بارے میں راوی کو اتنا یقین ہے کہ وہ اس کی صحابہ دشمنی پر پردہ ڈال کر بخاری کی کتاب کو قرآن ثانی اور مثلہ معہ کی رٹ لگاتے رہیں گے ۔"""
بد دیانتی یا جہالت پر مبنی مذکورہ بالا ساری ہفویات اور غلط بیانیوں کے بارے میں یہاں صرف اتنا کہتا ہوں کہ یہ باتیں نشر کرنے والا ، یا لکھنے والا اُس حدیث کا ذِکر کرے اور، ہمیں دکھائے کہ کونسی سی حدیث میں یہ کہا گیا ہے کہ """صحابہ کو قیامت کے دن رسولؐ کے سامنے فرشتے گھسیٹ کر جہنم میں ڈالیں گے """
میں کہتا ہوں کہ اس قِسم کے الفاظ اعتراض کرنے والے شخص کی صحابہ رضی اللہ عنہم اجمعین سے دُشمنی کا واضح ثبوت ہیں ، کہ وہ صحابہ رضی اللہ عنہم سے بغض و عناد کا اظہار کرنے کے لیے ایسے الفاظ استعمال کر رہا ہے اور نام دوسروں کا لگا رہا ہے کہ یہ کسی اور نے کہا ہے ،
اگر میری یہ بات درست نہیں تو صحابہ رضی اللہ عنہم اجمعین کے بارے میں یہ منقولہ بالا بدتمیزی پر مشتمل باتیں لکھنے والا ، یا اُن باتوں کو نشر کرنے والا مجھے دِکھائے کہ یہ الفاظ صحیح بخاری شریف کی کونسی حدیث میں ہیں ،
بلکہ اس کو بھی چھوڑیے ، ان کے لیے میدان عمل زیادہ وسیع کر دیتا ہوں اور کہتا ہوں کہ کسی بھی صحیح ثابت شدہ حدیث میں یہ الفاظ دکھا دے جو اُس نے اپنی صحابہ دشمنی کی لَو میں جلتے ہوئے لکھے ہیں اور الزام دوسروں پر لگانے کی کوشش کی ہے ،
خیال رہے میں کہہ رہا ہوں کہ اِن شاء اللہ اُسے اس کی ہر بات کا کچا چَھٹا کھول کھول کر جواب مہیا کر دیا جائے گا ،

اس کام کے کے لیے انہیں میری طرف سے اس رواں مہینے یعنی ذوالقعدہ 1433ہجری کی 23 تاریخ تک کی مہلت ہے ، اگر اُس وقت تک ان لوگوں کی طرف سے صحابہ رضی اللہ عنہم کی دُشمنی سے لبریز اور اُن کی شان میں گستاخی پر مبنی اس منقولہ بالا الزام کی کوئی علمی وضاحت سامنے نہ آئی تو یہ ان کے جھوٹے ، دھوکہ باز اور الزام گھڑنے والوں میں سے ہونے کا ایک اور ثبوت ہو گا ،
الحمد للہ ، ایک دفعہ پھر اس اعتراض کرنے والے کے اپنے ہی لکھے ہوئے میں سے یہ ثابت ہو رہا ہے کہ یہ درحقیقت یہ اعتراض کرنے والا اور اس کے ہم خیال لوگ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و علی آلہ وسلم اور اُن کے صحابہ رضی اللہ عنہم اجمعین ، اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ و علی آلہ وسلم کی سُنّت کی حفاظت کرنے والوں سے دُشمنی کو """ خلاف قران """ کی رٹ لگا لگا کر چھپانے کی کوشش کرتے ہیں ، اور اللہ سُبحانہ ُ و تعالیٰ اُن کی اس حقیقت کو اپنے کسی نہ کسی بندے کے ذریعے واضح کروایا ہی دیتا ہے ، [FONT=Al_Mushaf]و لہ الحمد و المنۃ[/FONT] ،
تمام محترم قارئین سے گذارش ہے کہ اگر ان لوگوں کی طرف سے میری اس بات کے جواب میں کچھ کہا ، لکھا یا کاپی پیسٹ کیا تو براہ مہربانی مجھے اُس کی خبر ضرور کیجیے گا ، تا کہ اللہ کی توفیق سے میں اُن کا جواب مہیا کر سکوں،اور ان کے اس جھوٹے الزام کا پول بھی کھل جائے جس کی آڑ میں اس شخص نے اپنی صحٓبہ دشمنی کی جلن کو کچھ کم کرنے کی کوشش کی اور الزام حدیث والوں پر لگا دِیا ۔
چلیے اعتراض کرنے والےکی اگلی باتوں کی طرف چلتے ہیں ، لکھتا ہے :::
"""! جناب محترم قارئین
قرآن حکیم ایک انقلابی کتاب ہے اس کی تعلیم میں جو فلاسفی ہے وہ اس پر ایمان لانے والوں کو جہدمسلسل کی تعلیم دیتی ہے ۔ قرآن تو دنیا بھر کے ستائے ہوئے محکومین اور مستضعفین کو پکار پکار کر کہتا ہے کہ اے مظلومو! تم کیوں ظلم کی چکی میں پس رہے ہو ، سسک رہے ہو تمہیں کیا ہوگیا ہے کہ
[FONT=Al_Mushaf]إِنَّ الَّذِينَ تَوَفَّاهُمُ الْمَلَائِكَةُ ظَالِمِي أَنْفُسِهِمْ قَالُوا فِيمَ كُنْتُمْ ۖ قَالُوا كُنَّا مُسْتَضْعَفِينَ فِي الْأَرْضِ ۚ قَالُوا أَلَمْ تَكُنْ أَرْضُ اللَّهِ وَاسِعَةً فَتُهَاجِرُوا فِيهَا ۚ فَأُولَئِكَ مَأْوَاهُمْ جَهَنَّمُ ۖ وَسَاءَتْ مَصِيرًا[/FONT]
(4:97)
اور جو لوگ اپنی جانوں پر ظلم کرتے ہیں جب فرشتے ان کی جان قبض کرنے لگتے ہیں تو ان سے پوچھتے ہیں کہ تم کس حال میں تھے وہ کہتے ہیں کہ ہم ملک میں عاجز وناتواں تھے فرشتے کہتے ہیں کیا خدا کا ملک فراخ نہیں تھا کہ تم اس میں ہجرت کر جاتے ایسے لوگوں کا ٹھکانہ دوزخ ہے اور وہ بری جگہ ہے۔
[FONT=Al_Mushaf]أَلَمْ تَكُنْ أَرْضُ اللَّهِ وَاسِعَةً فَتُهَاجِرُوا فِيهَا ۚ[/FONT]
یعنی اللہ کی دھرتی بہت کشادہ ہے۔ پھر تم کیوں نہیں اس کے اطراف و اکناف میں ہجرت کرجاتے ۔

!
معززقارئین
غور فرمائیں کہ قرآن حکیم دنیا بھر کے مظلوموں کو مورچہ تبدیل کرنے کے لئے جو تعلیم دیتا ہے اسے ہجرت کے نام سے تعبیر فرماتا ہے قرآن کی اس آئیڈیالوجی کو حدیث ساز دانشور سمجھ گئے تھے اس لئے انہوں نے حدیث کے نام پر رسول صلے اﷲ علیہ و سلم کے نام سے قرآن حکیم کے فلسفہ کا رخ موڑنے کے لئے روایت میں جعل سازی کی ہے وہ یہ کہ
[FONT=Al_Mushaf]لا ہجرۃ بعد الفتح[/FONT]
اب مکہ فتح ہوگیا اس لئے ہجرت کا سلسلہ بھی ختم ۔
حقیقت تو یہ ہے کہ جہاں بھی اور جب بھی مسلما نوں پر عر صہ حیات تنگ کر دیا جا ئے وہ احکام الٰہی کے مطا بق زندگی نہ گزار سکتے ہوں اور نظام کو تبد یل کر نا بھی ان کے بس میں نہ ہو ،وہاں سے وہ ہجرت کر جا ئیں۔

مگر مذ کورہ با لا حد یث میں یہ تلقین کی جا رہی ہے کہ وہیں ٹکے رہو چا ہے تمہیں شدی ہو کر زندگی کیوں نہ گزا ر نی پڑے ۔
میں دعویٰ سے کہتا ہوں کہ یہ قرآن دشمن ، مسلمانوں سے قرآن کا متن اور کتاب چھیننے میں ناکامی کے بعد قرآن کی معنوی تحریف پر ہر وقت ادھار کھائے بیٹھے ہیں۔
مذکورہ بالا آیت مدنی ہے اور اس میں مظلوموں سے خطاب ہے کہ جب اللہ کی زمین کشادہ ہے تو اس میں ہجرت کیوں نہیں کرتے ۔ """
قارئین کرام ،ان منقولہ بالا باتوں کا جواب گذر چکا ہے ، جی ہاں پہلے پیرا گراف کی ابتدائی عبارات:::
"""! جناب محترم قارئین
قرآن حکیم ایک انقلابی کتاب ہے اس کی تعلیم میں جو فلاسفی ہے وہ اس پر ایمان لانے والوں کو جہدمسلسل کی تعلیم دیتی ہے ۔ قرآن تو دنیا بھر کے ستائے ہوئے محکومین اور مستضعفین کو پکار پکار کر کہتا ہے کہ اے مظلومو! تم کیوں ظلم کی چکی میں پس رہے ہو ، سسک رہے ہو تمہیں کیا ہوگیا ہے کہ"""
کے بارے میں یہاں گذارش کرتا ہوں کہ قران کریم جو اللہ تبارک و تعالیٰ کے فرامین کا مجموعہ ہے ، اللہ کا کلام ہے اور اللہ تعالیٰ کا کلام اللہ سُبحانہ ُ و تعالٰی کی صِفات میں سے ایک صِفت ہے، اللہ تعالیٰ کے کلام میں کسی مخلوق کے کلام یا خیالات کا کوئی عمل دخل نہیں ،اور اس کلام مبارک میں جو تعلیم مہیا فرمائی گئی ہے وہ بھی اسی طرح کسی بھی مخلوق کی کسی بھی صِفت کی حامل نہیں ، بلکہ صاحبء کلام ، خالق اللہ عزّ وجلّ کی شان کے مطابق ہے ،
غور کیجیے کہ احادیث شریفہ پر اعتراض کرنے والا نہ صرف اللہ تعالیٰ کے کلام پاک کو کوئی مخلوق قرار دے رہا ہے بلکہ ، اس کلام پاک کو مخلوق کے پیچ دار اور عموماً بے ڈھنگ قِسم کے کلام "فسلفہ" والا قرار دے رہا ہے ، جبکہ اللہ پاک کا یہ کلام مبارک کسی "فلاسفی " والا نہیں ، بلکہ صاف کھلا اور واضح بیان ہے ، لیکن صرف ان کے لیے جو اُسے اللہ ہی کے مقرر کردہ ذرائع کے مطابق سمجھتے ہیں ، اور جو کوئی اُسے اللہ کے مقرر کردہ ذرائع سے ہت کر سمجھنے اور سمجھانے کی کوشش کرتا ہے وہ گمراہ ہوتا ہے اور گمراہ کرتا ہے ،
لہذا یہ شخص قران حکیم میں فلاسفی بھی پاتا ہے ، اور پھر اللہ تبارک و تعالیٰ کی بجائے اُس فلسفی کو تعلیم دینے والی قرار دیتا ہے ، جبکہ قران حکیم میں موجود ساری ہی تعلیم و تربیت ، اللہ تبارک و تعالیٰ ، نے اپنے اس کلام مبارک کے ذریعے اور اپنے رسول محمد صلی اللہ علیہ و علی آلہ وسلم کی سُنت مبارکہ کے ذریعے بنی نوع انسان کے لیے مہیا فرمائی ،
اعتراض کرنے والے کی منقولہ بالا باتوں میں سے پہلے پیرا گراف کے بعد جو کچھ کہا گیا اُن سب باتوں کا جواب میری سابقہ گذارشات میں گذر چکا ، جس میں یہ واضح ہو چکا ہے کہ یہ اعتراض کرنے والا شخص یا تو اس مسئلے کے بارے میں جاھل ہے اور یا پھر جان بوجھ کر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وعلی آلہ وسلم کی دُشمنی میں ، صحابہ رضی اللہ عنہم اجمعین ، تابعین ، تبع تابعین سے لے کر ابھی تک کے أئمہ اور علماء پر الزامات لگا ر ہا ہے ، تیسری کوئی صُورت نہیں ،
اعتراض کرنے والے کے لکھے ہوئے میں سے منقولہ بالا عبارات میں سے آخری عبارت بھی ایک یک طرف تماشہ دکھا رہی ہے ، اور الحمد للہ ایک دفعہ اور ، اِن لوگوں کے منھج کی کمزوری اور غلطی کو واشگاف کر رہی ہے ، لکھتا ہے :::
"""مذکورہ بالا آیت مدنی ہے اور اس میں مظلوموں سے خطاب ہے کہ جب اللہ کی زمین کشادہ ہے تو اس میں ہجرت کیوں نہیں کرتے ۔ """
محترم قارئین ، ذرا اِن سے پوچھیے تو """ جناب کو یہ خبر کس نے دی کہ ساری سورت النساء(4) میں سے یہ ایک آیت پاک( رقم97)مدنی ہے ؟؟؟ اور باقی کی سُورت مدنی نہیں ؟؟؟
کیا قران میں اللہ نے یہ خبر دی ہے ، یا پھر انہی لوگوں کی لائی ہوئی خبر مان رہے ہو ؟ جن کو جھوٹا اور حدیثیں گھڑنے والا کہتے چلے آرہے ہو؟؟؟"""،
سبحان اللہ ، ان لوگوں کی بد دیانتی اور دھوکہ دہی دیکھیے قارئین کرام ، جس بات میں اپنی سوچوں کو کوئی تائید ملنے کا امکان نظر آیا اُس کو مان لیا ،اور اُس کو ماننے کے لیے کوئی """ موافق قران """ اور """مخالف قران """ نامی فلسفہ سامنےنہیں آیا ، اورانہی لوگوں کی لائی ہوئی خبر مان لی جن پر الزامات لگاتے لگاتے اس شخص نے کوئی کتاب ہی لکھ ماری ہے ،
اسی لیے میں ایک عرصہ سے """مخالف قران """ کی رٹ لگانے والوں سے ایک سوال کرتا چلا آ رہا ہوں جس کا کوئی جواب اُن میں سے کسی نے آج تک نہیں دِیا اور میں ہمیشہ سے یہ بھی کہتا چلا آیا ہوں کہ یہ لوگ کبھی بھی اس کا جواب نہیں دے سکتے کیونکہ ان کے پاس اس کا جواب ہے ہی نہیں ، اور یہ بھی ان لوگوں کے مسلک ، منھج ، مذھب ، مکتب فِکر ، اور فلسفوں کے باطل ہونے کی ایک بڑی دلیل ہے ،
اب اپنے اس مضمون میں بھی وہ سوال دہراتا ہوں ، اور اپنے رب اللہ عزّ وجلّ پر توکل کرتے ہوئے اُسی دعوے کے ساتھ کرتا ہوں کہ یہ لوگ کبھی بھی اس کا جواب نہیں دے سکتے ،
:::سوال ::: رسول اللہ صلی اللہ علیہ و علی آلہ وسلم کی صحیح ثابت شدہ قولی ، فعلی اور تقریری سُنّت کی روایات میں سے کسی روایت کے مخالف قران ہونے کی پرکھ کرنے کی وہ قرانی کسوٹی بتایے جِس کی کبھی آپ نے مخالفت نہ کی ہو اور نہ کبھی کریں گے ؟؟؟
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ ۔۔۔۔۔
میرا جواب جاری ہے ،
اِن شاء اللہ اگلے مراسلے میں مکمل ہو جائے گا ۔
[/FONT]
 

عادل سہیل

مشہور رکن
شمولیت
اگست 26، 2011
پیغامات
367
ری ایکشن اسکور
941
پوائنٹ
120
::: گذشتہ سے پیوستہ ::: ساتواں (آخری) حصہ :::

::: گذشتہ سے پیوستہ ::: ساتواں (آخری) حصہ :::
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
آیے قارئین کرام ، اعتراض کرنے والے کی اگلی بات کی طرف چلتے ہیں ، لکھتا ہے :::

""" اگر کوئی کہے کہ یہ کلام فتح مکہ سے پہلے ہے تو اب فتح مکہ کے بعد والوں کے متعلق قرآن حکیم کا فرمان بھی سنیں ۔
[FONT=Al_Mushaf]وَالَّذِينَ آمَنُوا مِنْ بَعْدُ وَهَاجَرُوا وَجَاهَدُوا مَعَكُمْ فَأُولَئِكَ مِنْكُمْ ۚ وَأُولُو الْأَرْحَامِ بَعْضُهُمْ أَوْلَى بِبَعْضٍ فِي كِتَابِ اللَّهِ ۗ إِنَّ اللَّهَ بِكُلِّ شَيْءٍ عَلِيمٌ

(8:75)
اور جو لوگ بعد میں ایمان لائے اور وطن سے ہجرت کرگئے اور تمہارے ساتھ ہو کر جہاد کرتے رہے وہ بھی تم ہی میں سے ہیں۔ اور رشتہ دار خدا کے حکم کی رو سے ایک دوسرے کے زیادہ حقدار ہیں۔ کچھ شک نہیں کہ خدا ہر چیز سے واقف ہے۔

یعنی جو لوگ ایمان لائے فتح مکہ کے بعد اور اس کے بعد انہوں نے ہجرت بھی کی تمہاری طرف اور تمہارے ساتھ مل کر انہوں نے جہاد بھی کیا تو یہ لوگ تم میں سے ہیں ۔

!
محترم قارئین
غور فرمائیں کہ فتح مکہ کے بعد میں آنے والوں کے لئے بھی قرآن حکیم نے ہجرت کا اصطلاحی لفظ استعمال کیا ہے جس کو یہ سمرقندی اور بخارا کے لوگ فتح مکہ کے بعد جھوٹی حدیثوں کے ذریعے بند کرنا چاہتے ہیں ۔
اس سے سمجھ لینا چاہئیے کہ یہ اپنی حدیثوں سے قرآن کی کیسی تشریح اور تفسیر کرتے ہیں ۔
یہاں تو قرآن کا رخ ایک طرف نظر آرہا ہے اور حدیثوں کا رخ اس کے الٹ دوسری طرف نظر آرہا ہے اور مسلمانوں کی اولاد کو جو دینیات دینی مدارس میں پڑھائی جاتی ہے اس میں درس نظامی کے اندر یہ خلاف قرآن حدیثیں تو داخل نصاب ہیں لیکن خود قرآن خارج ازنصاب ہے اور جب سے وفاق المدارس عربیہ پاکستان نے درس نظامی میں قرآن کو ترجمہ کے ساتھ پڑھنے کو نتھی کردیا ہے اس لئے کہ گورنمنٹ سے ایم ۔اے۔ کے برابر ڈگری حاصل کی جا سکے تو اس میں تفسیر القرآن بالقرآن جو تصریف آیات قرآن کی بتائی ہوئی تعلیم قرآن کا طریقہ ہے اسے قرآن فہمی کا ذریعہ تسلیم نہیں کیا گیا ہے ۔
یعنی وفاق المدارس والوں نے بھی صرف اعتراض کو ٹالنے کی حد تک ترجمۃ القرآن کا پڑھنا قبول کیا ہے اور ساتھ ساتھ ان کے ہاں وہ تفاسیر زیر مطالعہ ہیں جو قرآن کی معنوی تحریف کی خاطر تفسیر بالاحادیث کے طور پر لکھی گئی ہیں اور اس وقت بھی مدارس دینیہ میں فقہ کا جو نصاب پڑھایا جاتا ہے وہ بھی فقہ الحدیث ہے جو حدیثیں قرآن دشمنی کے نظریہ پر گھڑی گئی ہیں تو جیسا دودھ ویسا ہی مکھن ۔"""
:::::::قارئین کرام ، منقولہ بالا اقتباس میں اعتراض کرنے والے نے جو سُورت الاعراف کی آیت مبارکہ رقم 75 نقل کی ہے ، اس نقل کا معاملہ بھی اس شخص کی لکھی ہوئی باقی باتوں کی طرح ہی ہے ، یعنی یا تو جہالت کی بنا پر یہ سب لکچھ لکھ مارا ، اور یا پھر جان بوجھ کر حق پوشی کی کوشش کی ، اور اپنے اوراپنے ہم خیالوں کے علاوہ سب ہی کو قران دُشمنوں کی صف میں شامل قرار دے دیا ،
جبکہ یہ لوگ خود قران دُشمنی پر عمل پیرا ہیں ، اور قران کریم کی آیات کریمات کی معنوی تحریف کرتے ہیں ، جِس کا اِن لوگوں کے ہم مسلکوں کے ساتھ بات چیت میں کئی دفعہ دیا جا چکا ہے وللہ الحمد ،
اور یہاں اس مضمون میں بھی اس اعتراض کرنے والے کی طرف سے قران پاک کی آیات شریفہ کی معنوی تحریف کرتے ہوئے انہیں اُن کے موقع محل سے ہٹا کر استعمال کرنے کو واضح کر چکا ہوں ، اور اب مزید واضح کرتا ہوں ، اور تمام تعریف کا حقیقی حق دار اللہ ہی ہے جو اہل باطل کی باتوں میں سے بھی اُن کے بطلان کا ثبوت مہیا فرما دیتا ہے ،
میرے محترم قارئین ،ذرا غور فرمایے کہ اعتراض کرنے والے نے ، اور اُمت کے اماموں اور علماء کرام پر قران کریم کی معنوی تحریف کرنے والے نے سُورت الاعراف کی آیت مبارکہ رقم 75 میں ((((([FONT=Al_Mushaf]وَالَّذِينَ آمَنُوا مِنْ بَعْدُ وَهَاجَرُوا[/FONT]::: اور جو لوگ بعد میں اِیمان لائے اور ہجرت کی))))) کی معنوی تحریف کرتے ہوئے فتح مکہ کے ساتھ خاص کر دیا ، تا کہ اُس کی بد دیانتی اور الزام تراشی کو قران حکیم کی آڑ میسر ہو سکے ،
جب کہ آیت کریمہ کے اس حصے کو کسی بھی لغوی ، تفسیری ،فقہی قانون یا اصول کے مطابق فتح مکہ کے لیے خاص نہیں کیا جا سکتا ،
بتایے یہ معنوی تحریف نہیں ؟؟؟ اللہ تعالیٰ کی آیات کریمات کو اُن کے محل و وقوع سے ہٹانا نہیں ؟؟؟ ،
اللہ القوی القدیر پر توکل کرتے ہوئے میں اس اعتراض کرنے والے کو ، اس کے ہم خیالوں کو ، اس کی تحریفات اور جھوٹے الزامات نشر کرنے والوں کو دعوت دیتا ہوں کہ کسی بھی قابل قبول دلیل کے ذریعے یہ ثابت کرو کہ جو سُورت الاعراف کی آیت مبارکہ رقم 75 میں سے((((([FONT=Al_Mushaf]وَالَّذِينَ آمَنُوا مِنْ بَعْدُ وَهَاجَرُوا[/FONT]::: اور جو لوگ بعد میں اِیمان لائے اور ہجرت کی ))))) کو فتح مکہ کے لیے خاص ہے ،
((((([FONT=Al_Mushaf]فَإِنْ لَمْ تَفْعَلُوا وَلَنْ تَفْعَلُوا فَاتَّقُوا النَّارَ الَّتِي وَقُودُهَا النَّاسُ وَالْحِجَارَةُ أُعِدَّتْ لِلْكَافِرِينَ[/FONT]::: اور اگر تُم لوگ نہ کر سکو اور پر گز نہیں کر سکو گے تو اُس آگ سے بچو جِس کا ایندھن انسان اور پتھر ہیں،(وہ آگ) انکار کرنے والوں کے لیے تیار کی گئی ہے)))))سُورت البقرۃ(2)/آیت24،
ان لوگوں کا مسلک و منھج تعلیم و تربیت سب ہی قران کریم کی تحریف اور حدیث دشمنی پر مبنی ہیں، لہذا ان کی باتوں میں یہی کچھ نظر آتا ہے ، اسے کہتے ہیں جیسا دودھ ویسا مکھن،
منقولہ بالا اقتباس کے بعد اعتراض کرنے والے نے لکھا :::
""" لیکن قرآن حکیم سے فقہی جزئیات کا استنباط
[FONT=Al_Mushaf]وَالَّذِينَ اسْتَجَابُوا لِرَبِّهِمْ وَأَقَامُوا الصَّلَاةَ وَأَمْرُهُمْ شُورَى بَيْنَهُمْ وَمِمَّا رَزَقْنَاهُمْ يُنْفِقُونَ[/FONT]
(42:3

اور جو اپنے پروردگار کا فرمان قبول کرتے ہیں اور نماز پڑھتے ہیں۔ اور اپنے کام آپس کے مشورے سے کرتے ہیں۔ اور جو مال ہم نے ان کو عطا فرمایا ہے اس میں سے خرچ کرتے ہیں۔
[FONT=Al_Mushaf]أَمْرُهُمْ شُورَى بَيْنَهُمْ[/FONT]
کے مطابق اپنی ملکی پارلیمنٹ سے بنوانے کی بات نہیں کرتے اس لئے کہ اس سے ان کی مذہبی اجارہ داری خطرہ میں پڑ تی ہے۔

:
خلاصہ
یہ ہے کہ موجودہ مدارس جو جملہ عالم اسلام ( پاکستا ن ، ہندوستان ، بنگلہ دیش ، انڈونیشیا ، مصر و سعودی عرب اور دیگر علاقہ جات )میں ہیں ان سب میں قرآن دشمن روایات اور قرآن دشمن فقہ بنام اسلامی علوم کے پڑھائے جارہے ہیں ۔ اس المیہ کی ابتدا ہلاکو کے حملہ کے بعد سے ہوتی ہے ۔
میں نے پاکستان کے محکمہ تعلیم کی اعلیٰ انتظامیہ سے کہا کہ تم لوگوں نے درس نظامی جو قرآن دشمنی کے طور پر ترتیب دیا ہوا ہے اس کے پڑھنے والوں کو ایم اے اسلامیات کی ڈگری کے طور پر تسلیم کیا ہوا ہے تو انہوں نے کہا کہ اس قرآن دشمنی کا ثبوت پیش کرو۔
میں نے کہا کہ اس کے ثبوت میں میری کتابیں بطور ایف آئی آر ہیں تو انہوں نے کہا کہ آپ کی کتابیں سندھی میں ہیں جو نصاب ساز ممبر نہیں پڑھ سکیں گے ۔
لہٰذا اب ملک کی نصاب ساز اتھارٹی کے سامنے درس نظامی کے غیر اسلامی اور قرآن مخالف ہونے کے ثبوت میں میری یہ کتاب اردو زبان میں پیش خدمت ہے۔"""


"""،
الحمد للہ ، قارئین کرام ، اللہ تبارک و تعالیٰ نے ایک دفعہ پھر اس اعتراض کرنے والے شخص کے جھوٹ کو اسی کے لکھے ہوئے میں واضح کر دیا، اور ایک دفعہ پھر دکھا دیا کہ یہ شخص جو دوسروں کو قران کریم کی معنوی تحریف کرنے کا الزام لگاتا چلا آرہا ہے بذات خود قران حکیم کی معنوی تحریف کرنے والا ہے ، جی ہاں ایسا ہی ہے ، غور فرمایے ،
اس نے منقولہ بالا اقتباس میں سُورت الشُوریٰ کی آیت مبارکہ رقم 38 کا ایک حصہ نقل کر کے ملکی پارلیمنٹ کو اسلامی مجلس شوریٰ قرار دے دیا ،
کیا یہ معنوی تحریف نہیں ؟؟؟
جبکہ اللہ تبارک و تعالیٰ نے جن لوگوں کو باہمی مشوروں سے اپنے مشترکہ معاشرتی اور معاشی معاملات نمٹانے کی تعلیم دی ، اس تعلیم سے پہلے اُن لوگوں کی صِفات بھی بیان فرمادِیں ، اور سب کے لیے واضح فرما دِیا کہ مسلمانوں کی مجلس شُوریٰ میں کون لوگ ہو سکتے ہیں ،
اعتراض کرنے والے نے تو معنوی تحریف کرنے کے لیے موضوع سے متعلق آیات مبارکہ میں سے صرف ایک آیت کا ایک حصہ نقل کیا ہے ، آیت ہم اس موضوع سے متعلق ساری ہی آیات کا مطالعہ کرتے ہیں :::
((((([FONT=Al_Mushaf]فَمَا أُوتِيتُمْ مِنْ شَيْءٍ فَمَتَاعُ الْحَيَاةِ الدُّنْيَا وَمَا عِنْدَ اللَّهِ خَيْرٌ وَأَبْقَى لِلَّذِينَ آمَنُوا وَعَلَى رَبِّهِمْ يَتَوَكَّلُونَ[/FONT]O[FONT=Al_Mushaf]وَالَّذِينَ يَجْتَنِبُونَ كَبَائِرَ الْإِثْمِ وَالْفَوَاحِشَ وَإِذَا مَا غَضِبُوا هُمْ يَغْفِرُونَ[/FONT]O[FONT=Al_Mushaf]وَالَّذِينَ اسْتَجَابُوا لِرَبِّهِمْ وَأَقَامُوا الصَّلَاةَ وَأَمْرُهُمْ شُورَى بَيْنَهُمْ وَمِمَّا رَزَقْنَاهُمْ يُنْفِقُونَ [/FONT]::: پس جو کچھ تُم لوگوں کو دِیا گیا ہے تو وہ دُنیا کی زندگی کا سامان ہے ، اور جو کچھ اللہ کے پاس ہے وہ خیر والا ہے اور( ہمیشہ) باقی رہنے والا ہے ، اُن لوگوں کے لیے ہے جو اپنے رب (اللہ) پر (ہی) توکل کرتے ہیں O اور(یہ ) وہ لوگ (ہیں)جو بڑے گناہوں اور بے حیائی سے دُور رہتے ہیں اور اگر غصے میں آجائیں تو معاف کردیتے ہیں O اور (یہ ) وہ لوگ (ہیں)جو پابندی کے ساتھ نماز ادا پڑھتے ہیں ، اور اُن کا معاملہ یہ ہوتا ہے کہ وہ آپس میں مشورہ کرتے ہیں ، اور جو کچھ ہم نے انہیں رزق دِیا اُس میں سے(اللہ کی راہ میں) خرچ کرتے ہیں)))))سُورت الشُوریٰ (42)/آیات36 تا 38،
قارئین کرام ، دیکھیے، غور کیجیے ،""" بخاری کی پہلی حدیث انما الاعمال بالنیات ہی صحابہ دشمنی پر مبنی ہے۔
""" نامی مضمون لکھنے والا، اور اس مضمون میں خود ساختہ جھوٹے اور بے تکے اعتراضات کرنے والا ، قران کریم کی آیات مبارکہ کی معنوی تحریف کرتے ہوئے ، رسول اللہ صلی اللہ علیہ وعلی آلہ وسلم کی صحیح ثابت شدہ سُنّت مبارکہ کا انکار کرتے ہوئے ، صحابہ رضی اللہ عنہم اجمعین ، تابعین ، تبع تابعین ، اور اُمت کے دیگر أئمہ کرام اور علماء کرام کی توھین کرتے ہوئے ، اُن پر جھوٹے الزامات لگاتے ہوئے ، اپنے مقاصد میں سے ایک مقصد کو حاصل کرنے کے لیے ہماری جن ملکی پارلمنٹس کو مجلس شُوریٰ بنانے کو قران کریم سے ثابت کرنا چاہتا ہے ، کیا اُن پارلیمنٹس کے ممبرز میں وہ صِفات پائی جاتی ہیں جو اللہ تبارک و تعالیٰ نے مسلمانوں کی مجلس شُوریٰ کے ارکان کی بیان فرمائی ہیں ؟؟؟
یقینا ً کوئی بھی با شعور شخص اس کا جواب "ہاں" میں نہیں دے سکتا ، تو پھر اللہ ہی ہے جو ایسے شریروں کو یا تو ہدایت دے سکتا ہے یا پھر اپنی مخلوق کو ان کے شر سے محفوظ رکھ سکتا ہے جو اللہ کےکلام کی معنوی تحریف کرتے ہوئے الزام دوسروں پر لگاتے ہیں ،
عزیز اللہ بوہیو نامی نے اپنے اس مضمون کا اختتام درج ذیل عبارات لکھ کر کیا :::
"""میں نے پاکستان کے محکمہ تعلیم کی اعلیٰ انتظامیہ سے کہا کہ تم لوگوں نے درس نظامی جو قرآن دشمنی کے طور پر ترتیب دیا ہوا ہے اس کے پڑھنے والوں کو ایم اے اسلامیات کی ڈگری کے طور پر تسلیم کیا ہوا ہے تو انہوں نے کہا کہ اس قرآن دشمنی کا ثبوت پیش کرو۔
میں نے کہا کہ اس کے ثبوت میں میری کتابیں بطور ایف آئی آر ہیں تو انہوں نے کہا کہ آپ کی کتابیں سندھی میں ہیں جو نصاب ساز ممبر نہیں پڑھ سکیں گے ۔
لہٰذا اب ملک کی نصاب ساز اتھارٹی کے سامنے درس نظامی کے غیر اسلامی اور قرآن مخالف ہونے کے ثبوت میں میری یہ کتاب اردو زبان میں پیش خدمت ہے۔"""


اور عادل سہیل اپنے اس جوابی مضمون کو یہ کہہ کر ختم کر رہا ہے کہ :::
میں پاکستان کے محکمہ تعلیم ، تمام تر پاکستانیوں اور سب ہی مسلمانوں سے ، جن تک میری یہ بات پہنچے ، اُن سب سے کہتا ہوں کہ اسلامی مدارس میں پڑھائے جانے والا نصاب اپنے اپنے فقہی مسائل میں اور دیگر کچھ عقائدی مسائل میں ایک دوسرے سے الگ تو ہوسکتا ہے لیکن قران دشمنی پر قطعا مبنی نہیں،
یہ محض ایک جھوٹا الزام ہے کہ درس نظامی قران دُشمنی پر کے طور پر ترتیب دیا ہوا ہے ، یہ الزام لگانے والا خود قران دُشمنی کا ثبوت دیتے ہوئے قران میں دیے گئے ، رسول اللہ صلی اللہ علیہ وعلی آلہ وسلم کی اطاعت کے سارے احکام سے رو گردانی کرتے ہوئے، اسلامی علوم میں قابل قبول قواعد و ضوابط کے بغیر ہی محض اپنی سوچوں کی بنیاد پر رسول اللہ صلی اللہ علیہ و علی آلہ وسلم کی سُنّت مبارکہ پر جھوٹے اور خلاف قران اعتراضات عائد کرتا ہے ،
اور قران دُشمنی کا مظاہرہ کرتے ہوئےقران حکیم میں دی گئی تعلیمات کے خلاف صحابہ رضی اللہ عنہم اجمعین سے لے کے ابھی تک کے مسلمان عُلماء کرام پر جھوٹے الزامات عائد کرتا ہے ، جس کا ایک ثبوت میرا یہ جوابی مضمون ہے اور دیگر ثبوت دیگر مضامین میں ملتے رہیں گے اِن شاء اللہ ،وباذنہ"""
((((([FONT=Al_Mushaf]انْظُرْ كَيْفَ كَذَبُوا عَلَى أَنْفُسِهِمْ وَضَلَّ عَنْهُمْ مَا كَانُوا يَفْتَرُونَ[/FONT] ::: دیکھو ان لوگوں نے کس طرح اپنی ہی جانوں پر جھوٹ لگا لیے ہیں اور جو کچھ الزام تراشیاں یہ کرتے تھے وہ سب ان سے غائب ہو گئیں)))))سُورت الانعام(6)/آیت 24،
والسلام علی من اتبع الھُدیٰ ۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
اپنے مضمون کے تقریباً پہلے تہائی حصے میں( مراسلہ رقم ۳ ) میں ، میں نے کہا تھا """رسول اللہ صلی اللہ علیہ وعلی آلہ وسلم نے اپنے صحابہ رضی اللہ عنہم اجمعین کو اور ان کے ذریعے اپنی اُمت کو یہ سبق ایک خاص واقعہ کے ظاہر ہونےکے بعد عنایت فرمایا ، جو واقعہ یا تو اعتراض کرنے والے کے علم میں ہی نہیں ، یا پھر اپنی بد دیانتی اور رسول دُشمنی کے سبب بہت سے دیگر حقائق کی طرح اُس شخص نے اُس واقعہ کو بھی ظاہر نہیں کیا ، جبکہ اعتراض کرنے والے کے کیے ہوئے ترجمے کا آخری حصہ اُسی واقعے کی نشاندہی کر رہا ہے ، اور یہ معاملہ اس بات کی دلیل ہے کہ اعتراض کرنے والے کو اس کاکچھ علم نہیں ،
مؤقر قارئین ، اِن شاء اللہ اُس واقعہ کا ذِکر آگے کروں گا ،"""
اب میں یہاں وہ واقعہ بیان کرتا ہوں ، جِو نبی اللہ صلی اللہ علیہ و علی آلہ وسلم کے فرمان((((([FONT=Al_Mushaf]إِنَّمَا الأَعْمَالُ بِالنِّيَّاتِ ، وَإِنَّمَا لِكُلِّ امْرِئٍ مَا نَوَى ، فَمَنْ كَانَتْ هِجْرَتُهُ إِلَى دُنْيَا يُصِيبُهَا أَوْ إِلَى امْرَأَةٍ يَنْكِحُهَا فَهِجْرَتُهُ إِلَى مَا هَاجَرَ إِلَيْهِ [/FONT]:::بے شک ، کاموں (کے آخرت میں ) نتیجے کا انحصار (کام کرنے کی )نیتوں پر ہے ، اور بے شک ہر شخص کے لیے وہی (نتیجہ ) ہے جس کی اُس نے نیت کی ، لہذا جِس نے دُنیا کی طرف ہجرت کی تا کہ دُنیا کمائے ، یا کسی عورت کی طرف ہجرت کی تاکہ اُس عورت سے نکاح کر سکے ، تو اُس کی ہجرت اُسی کی طرف ہے جِس کی طرف اُس نے ہجرت کی))))) کا سبب ہے ،
جسے یہ اعتراض کرنے والا شخص یا تو جانتا ہی نہیں ، یا پھر جانتے بوجھتے ہوئے جھوٹے الزامات لگاتا ہے ،
بہر صُورت اگر یہ واقعہ نہ بھی ہو تو بھی حدیث شریف میں بیان کردہ احکام کی درستگی اور شرعی حیثیت میں کوئی کمی نہیں ہوتی ،
ابن مسعود رضی اللہ عنہ ُ کا کہنا ہے کہ""""" ہم میں ایک شخص نے ایک عورت جسے اُم قیس کہا جاتا تھا ، کو نکاح کا پیغام دِیا ، تو اُس عورت نے نکاح سے انکار کر دیا ، اور یہ شرط لگائی کہ وہ شخص اُس کے پاس ہجرت کرے ، اور وہ آدمی ہجرت کر کے ام قیس کے پاس چلا گیا ، اور ہم لوگ اُسے مہاجر ام قیس کیا کرتے تھے """""، المعجم الکبیر للطبرنی /حدیث 8540، معرفۃ الصحابۃ لابی نعیم/ام قیس من المھاجرات،
احادیث مبارکہ کی شرح لکھنے والے اکثر علماء نے ((((([FONT=Al_Mushaf]إِنَّمَا الأَعْمَالُ بِالنِّيَّاتِ[/FONT] ))))) والی حدیث کے فرمائے جانے کاسبب یہی واقعہ بتایا ہے ،
قارئین کرام ، خیال رہے کہ جِس طرح عمومی طور پر قران حکیم میں نازل شدہ احکام کا سبب ء نزول اُن احکام کو کسی کے لیے خاص نہیں کرتا ، اسی طرح رسول اللہ صلی اللہ علیہ وعلی آلہ وسلم کی زُبان مبارک سے ادا شدہ احکام بھی اُن احکام کے ظاہر ہونے کے سبب کی وجہ سے کسی کے لیے خاص نہیں ہوتے ،لہذا سببء فرمان کی بناء پر کسی کو یہ غلط فہمی نہ ہو کہ یہ فرمان اُسی شخص کے لیے خاص تھا ، والسلام علیکم۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
میں تمام قارئین کا شکریہ ادا کرتا ہوں کہ انہوں نے میری گذارش قبول کرتے ہوئے میرا جواب مکمل ہونے کا انتظار فرمایا ،
میرے جواب کے مکمل ہونے کے بعد اب کوئی بھی محترم قاری ، محترم انداز میں کسی بھی قسم کی کوئی کاپی پیسٹ کیے بغیر اپنے الفاظ میں اور انسانوں کی سمجھ میں آسکنے والے الفاظ و انداز میں ، اسلامی علوم کے مقبول قواعد و ضوابط کے مطابق کوئی بات ، کوئی مزید اعتراض کرنا چاہے تو خوش آمدید،
[/FONT]
آف لائین مطالعہ کے لیے ، اور تقسیم کے لیے اس مضمون کا برقی نسخہ ’’’ یہاں ‘‘‘ سے اتارا جاسکتا ہے ، والسلام علیکم۔
 

شاکر

تکنیکی ناظم
رکن انتظامیہ
شمولیت
جنوری 08، 2011
پیغامات
6,595
ری ایکشن اسکور
21,396
پوائنٹ
891
جزاکم اللہ خیرا واحسن الجزاء عادل سہیل بھائی جان۔
آپ نے نہایت احسن طریقے سے ان کے شبہات کا مفصل رد کر دیا ہے۔ اللہ تعالیٰ آپ کے اخلاص کو قبول فرمائیں اور اسے گمراہوں کی ہدایت کا ذریعہ بنا دیں۔ آمین یا رب العالمین۔
 

ہابیل

سینئر رکن
شمولیت
ستمبر 17، 2011
پیغامات
966
ری ایکشن اسکور
2,911
پوائنٹ
225
ماشاءاللہ
عادل بھائی ہماری دعا ہے اللہ آپ کے اس عمل کو قبول فرمائے اور آگے چل کر بھی ان جیسے لوگوں کی جعلی سوچوں کو بےنقاب کرنے کی ہمت اور طاقت عطا فرمائے امین
جزاک اللہ خیرا
 
Top