• الحمدللہ محدث فورم کو نئےسافٹ ویئر زین فورو 2.1.7 پر کامیابی سے منتقل کر لیا گیا ہے۔ شکایات و مسائل درج کروانے کے لئے یہاں کلک کریں۔
  • آئیے! مجلس التحقیق الاسلامی کے زیر اہتمام جاری عظیم الشان دعوتی واصلاحی ویب سائٹس کے ساتھ ماہانہ تعاون کریں اور انٹر نیٹ کے میدان میں اسلام کے عالمگیر پیغام کو عام کرنے میں محدث ٹیم کے دست وبازو بنیں ۔تفصیلات جاننے کے لئے یہاں کلک کریں۔

ہدایت کا اختیار صرف اللہ کے پاس ہے !!!

شمولیت
اگست 11، 2013
پیغامات
17,117
ری ایکشن اسکور
6,783
پوائنٹ
1,069
ہدایت دینا صرف اللہ تعالی کے اختیار میں ہے

ہدایت دینا صرف اللہ تعالی کے اختیار میں ہے

اللہ تعالی نے فرمایا:

(إِنَّكَ لَا تَهْدِي مَنْ أَحْبَبْتَ وَلَكِنَّ اللَّهَ يَهْدِي مَنْ يَشَاءُ وَهُوَ أَعْلَمُ بِالْمُهْتَدِينَ (سورة القصص28: 56))

“(اے محمد ﷺ!)یقینا آپ ،جسے چاہیں ہدایت نہیں دے سکتے ، لیکن اللہ جسے چاہے ہدایت دیتا ہے۔ اور وہ ہدایت پانے والوں کو خوب جانتا ہے۔”(1)

صحیح بخاری میں سعید بن مسیب رحمتہ اللہ علیہ اپنے والد مسیب رحمتہ اللہ علیہ سے روایت کرتے ہیں۔ جب ابوطالب کی وفات کا وقت قریب آیا تو رسول اللہﷺ تشریف لائے۔ وہاں عبد اللہ بن ابی امیہ اور ابو جہل بھی بیٹھے تھے۔ نبیﷺنے فرمایا:

( يَا عَمِّ، قُلْ: لاَ إِلَهَ إِلَّا اللَّهُ، كَلِمَةً أَشْهَدُ لَكَ بِهَا عِنْدَ اللَّهِ)

“چچا جان! کلمہ “لاَ إِلَهَ إِلَّا اللَّهُ”کا اقرار کرلو، تاکہ میں اسی کلمہ کو اللہ تعالی کے ہاں تمہارے حق میں بطور دلیل پیش کر سکوں۔”

وہ دونوں(عبد اللہ بن ابی امیہ اور ابوجہل)بولے: کیا تم عبد المطلب کے دین کو چھوڑ دوگے؟ نبیﷺبھی اور وہ دونوں سردار اپنی اپنی بات کو دہراتے رہے۔ بالآخر ابوطالب نے کہا میں عبد المطلب کے مذہب پر قائم ہوں۔ اور اس نے “لاَ إِلَهَ إِلَّا اللَّهُ”کا اقرار کرنے سے انکار کر دیا ۔ نبی ﷺ نے فرمایا:

(لَأَسْتَغْفِرَنَّ لَكَ مَا لَمْ أُنْهَ عَنْكَ)

“جب تک مجھے منع نہ کیا گیا میں ضرور تمہارے لیے مغفرت کی دعا کرتا رہوں گا۔”
اس پر اللہ تعالی نے یہ آیت نازل فرمائی:

(مَا كَانَ لِلنَّبِيِّ وَالَّذِينَ آمَنُوا أَنْ يَسْتَغْفِرُوا لِلْمُشْرِكِينَ وَلَوْ كَانُوا أُولِي قُرْبَى مِنْ بَعْدِ مَا تَبَيَّنَ لَهُمْ أَنَّهُمْ أَصْحَابُ الْجَحِيمِ (سورة التوبة9: 113))

“نبی اور اہل ایمان کو زیبا نہیں کہ وہ مشرکین کے لیے مغفرت کی دعا کریں خواہ وہ ان کے رشتہ دارہی کیوں نہ ہوں۔”

اور اللہ تعالی نے ابوطالب کے بارے میں یہ آیت نازل فرمائی:

(إِنَّكَ لَا تَهْدِي مَنْ أَحْبَبْتَ وَلَكِنَّ اللَّهَ يَهْدِي مَنْ يَشَاءُ وَهُوَ أَعْلَمُ بِالْمُهْتَدِينَ (سورة القصص28: 56))

“(اے محمدﷺ !)بلاشبہ آپ ،جسے چاہیں ہدایت نہیں دے سکتے ، لیکن اللہ جسے چاہے ہدایت دیتا ہے۔ اور وہ ہدایت قبول کرنے والوں کو خوب جانتا ہے۔”(صحیح بخاری، التفسیر، باب تفسیر قولہ تعالی (إِنَّكَ لَا تَهْدِي مَنْ أَحْبَبْتَ)،حدیث 4772 و صحیح مسلم، الایمان، باب الدلیل علی صحۃ اسلام من حضرہ الموت.....الخ، حدیث 24)”(2)

مسائل

1) اس باب میں آیت کریمہ “إِنَّكَ لَا تَهْدِي مَنْ أَحْبَبْتَ” کی تفسیر ہے۔

2) آیت کریمہ “مَا كَانَ لِلنَّبِيِّ وَالَّذِينَ آمَنُوا أَنْ يَسْتَغْفِرُوا لِلْمُشْرِكِينَ وَلَوْ كَانُوا أُولِي قُرْبَى”کی تفسیر اور شان نزول بھی بیان ہوا ہے۔

3) کلمۂ توحید “لاَ إِلَهَ إِلَّا اللَّهُ”کا زبان سے اقرار ضروری ہے۔ اس میں علم کے ان دعوے داروں کی تردید ہے جو محض دلی معرفت کو کافی سمجھتے ہیں۔

4) جب نبیﷺنے اپنے چچا سے “لاَ إِلَهَ إِلَّا اللَّهُ”پڑھنے کو کہا تو ابوجہل اور اس کے ساتھی جانتے تھے کہ نبی ﷺکی اس سے کیا مراد ہے؟ اسی لیے وہ ابوطالب کوعبدالمطلب کے مذہب پر قائم رہنے کی تلقین کرتے رہے۔ اللہ تعالی ان لوگوں کا برا کرے جن کی نسبت ابوجہل اصل دین “لاَ إِلَهَ إِلَّا اللَّهُ” کے مفہوم کو بہتر جانتا تھا۔

5) نبی ﷺنے اپنے چچا کو مسلمان کرنے کی پوری پوری کوشش کی تھی۔

6) جو لوگ ابو طالب اور اس کے اسلاف کو مسلمان سمجھتے ہیں، اس میں ان کی بھی تردید ہے۔

7) نبی ﷺنے ابو طالب کے حق میں مغفرت کی دعا کی مگر اللہ تعالی نے نہ صرف اس کی مغفرت نہیں کی بلکہ نبیﷺکو مشرکین کے لیے دعا کرنے سے بھی روک دیا۔

8) برے لوگوں کی صحبت ہمیشہ نقصان دہ ہوتی ہے۔

9) اکابر واسلاف کی تعظیم میں غلو کرنا نقصان دہ ہے۔

10) باطل پر ست لوگ اپنے اکابر والادین اور طور اطوار اختیار کرنے میں اس شبہ کا شکار ہیں کہ ابوجہل نے بھی ابوطالب کو یہی تلقین کی تھی۔

11) نجات کا دارومدار زندگی کے آخری اعمال پر ہے کیونکہ اگر ابو طالب بوقت وفات کلمہ کا اقرار کرلیتا تو اسے ضرور فائدہ ہوتا۔

12) گمراہ لوگوں کے دلوں میں راسخ اس بڑے مغالطے کے بارے میں غور و فکر کرناچاہئے، اس لیے کہ ابوطالب کے قصہ میں مذکور ہے کہ سرداران مکہ اسی مغالطہ کی بنا پر ابوطالب سے جھگڑتے رہے جبکہ نبیﷺنے مبالغہ اور تکرار کے ساتھ ابوطالب کے سامنے کلمہ حق، کلمہ توحید پیش کیا۔ چونکہ ان لوگوں کے ہاں یہ بہت بڑی بات تھی کہ آباؤ اجداد کے دین کو چھوڑا نہیں جاسکتا اسی لیے وہ اپنی بات پر ڈٹے رہے۔

نوٹ:-

(1) ہدایت کی دو قسمیں ہیں:

(الف) ہدایت توفیقی
(ب) ہدایت دلالت

ہدایت توفیقی:

اس سے مراد یہ ہے کہ اللہ اپنے کسی بندے کے دل میں ہدایت قبول کرنے کا جذبہ پیدا کر دے۔ انسانوں کے قلوب اللہ کے تصرف میں ہیں۔ وہ انہیں جدھر چاہے پھیر تا رہتا ہے۔ دلوں میں ہدایت قبول کرنے کا جذبہ بھی اللہ ہی پیدا کرتا ہے۔ یہ معاملہ اس کے علاوہ کسی کے اختیار میں نہیں حتی کہ کوئی نبی بھی اپنی مرضی سے جسے چاہے مسلمان یا ہدایت یافتہ نہیں بناسکتا۔ نبیﷺکے رشتہ داروں میں سب سے زیادہ آپ کا ساتھ دینے والے ابوطالب تھے لیکن اس کے باوجود آپ انھیں ہدایت کی توفیق نہ دے سکے۔

ہدایت دلالت:


اس سے صراط مستقیم کی طرف لوگوں کی رہنمائی کرنا مراد ہے۔ جیسا کہ نبی ﷺاور دیگر تمام انبیاء و رسل اور ہر داعیء حق لوگوں کی رہنمائی کرتا رہا۔

جیسا کہ اللہ تعالی نے فرمایا:

(وَيَقُولُ الَّذِينَ كَفَرُوا لَوْلَا أُنْزِلَ عَلَيْهِ آيَةٌ مِنْ رَبِّهِ إِنَّمَا أَنْتَ مُنْذِرٌ وَلِكُلِّ قَوْمٍ هَادٍ (سورة الرعد13: 7))

“آپ تو محض(ان لوگوں کو اللہ کی نافرمانی سے)ڈرانے والے ہیں۔ اور ہر قوم کا کوئی نہ کوئی ہادی ضرور ہوتا ہے۔”

نیز اللہ تعالی نے نبیﷺسے فرمایا:

(وَإِنَّكَ لَتَهْدِي إِلَى صِرَاطٍ مُسْتَقِيمٍ (سورة الشورى42: 52))

“اور یقینا آپ ، لوگوں کی سیدھے راستے کی طرف رہنمائی کرتے ہیں۔”

یعنی آپ مختلف دلائل، اور مختلف انداز سے لوگوں کی صراط مستقیم کی طرف رہنمائی کرتے ہیں جو معجزات اور ایسے پختہ دلائل سے مؤید ہے جو آپ کے صدق پر شاہد عادل ہیں۔

جب محمد رسول اللہﷺ جیسی جلیل القدر اور عظیم الشان ہستی سے ہدایت توفیق کی نفی ہوگئی تو پھر تمام اہم معاملات ، ہدایت، مغفرت، رضا، برائیوں سے دوری اور بھلائیوں کے حصول کے لیے بھی اللہ عزوجل کے علاوہ کسی دوسرے کے ساتھ دلی تعلق رکھنا باطل ہے۔

(2) ( لَأَسْتَغْفِرَنَّ )میں لام قسم کا ہے یعنی اللہ کی قسم! میں ضرور مغفرت کی دعا کروں گا اور نبی ﷺنے حقیقتا اپنے چچا کے حق میں مغفرت کی دعا کی بھی، لیکن کیا نبی ﷺکی دعا نے آپ کے چچا کو کوئی فائدہ پہنچایا؟ نہیں! کیونکہ وہ مشرک تھا۔ مشرک کے حق میں استغفار اور شفاعت قطعا مفید نہیں۔

نبیﷺکو بھی یہ اختیار نہیں کہ وہ کسی مشرک کے گناہوں کی معافی میں اسے کچھ نفع دے سکیں۔ یاکوئی شخص اگر شرک کا ارتکاب کرتے ہوئے آپ کی طرف رجوع کرے تو آپ اس کی پریشانی کو دور کرکے یا بھلائی پہنچا کر اس کے کچھ کام آسکیں۔

اسی لیے آپ نے فرمایا:

( لَأَسْتَغْفِرَنَّ لَكَ مَا لَمْ أُنْهَ عَنْكَ) “اللہ کی قسم! جب تک مجھے روکا نہ گیا۔.......”

چنانچہ اللہ تعالی نے یہ آیت نازل فرمائی:

( مَا كَانَ لِلنَّبِيِّ وَالَّذِينَ آمَنُوا أَنْ يَسْتَغْفِرُوا لِلْمُشْرِكِينَ وَلَوْ كَانُوا أُولِي قُرْبَى (سورة التوبة9: 113))

“نبی اور اہل ایمان کو زیبا نہیں کہ وہ مشرکین کے لیے مغفرت کی دعا کریں خواہ وہ ان کے رشتہ دارہی کیوں نہ ہوں جبکہ یہ واضح ہوچکا ہو کہ وہ جہنمی ہیں۔”

اس آیت سے یہ بات بالکل عیاں ہے کہ اللہ تعالی نے اپنے نبیﷺکو مشرکین کے لیے مغفرت کی دعا کرنے سے منع فرمایا ہے۔اب اس صورت میں اگر یہ فرض کر لیا جائے کہ نبی ﷺعالم برزخ میں دعائے مغفرت کرنے کی قدرت رکھتے ہیں تب بھی آپ کسی ایسے مشرک کے حق میں دعائے مغفرت نہیں کر سکتے جو اللہ کے علاوہ آپ سے شفاعت کا طلب گار ہو، آپ سے فریاد و استغاثہ کرے، آپ کے لیے جانور ذبح کرے، نذر و نیاز مانے، آپ کو عبادت کا اہل جانے، آپ پر توکل کرے یا آپ کے سامنے اپنی حاجات و ضروریات پیش کرنے کے شرک میں مبتلا ہو۔
 
Top