• الحمدللہ محدث فورم کو نئےسافٹ ویئر زین فورو 2.1.7 پر کامیابی سے منتقل کر لیا گیا ہے۔ شکایات و مسائل درج کروانے کے لئے یہاں کلک کریں۔
  • آئیے! مجلس التحقیق الاسلامی کے زیر اہتمام جاری عظیم الشان دعوتی واصلاحی ویب سائٹس کے ساتھ ماہانہ تعاون کریں اور انٹر نیٹ کے میدان میں اسلام کے عالمگیر پیغام کو عام کرنے میں محدث ٹیم کے دست وبازو بنیں ۔تفصیلات جاننے کے لئے یہاں کلک کریں۔

***ہر بات کا جواب قرآنی آیات سے دینے والی عورت کا قصہ ***

شمولیت
اگست 11، 2013
پیغامات
17,117
ری ایکشن اسکور
6,783
پوائنٹ
1,069
***ہر بات کا جواب قرآنی آیات سے دینے والی عورت کا قصہ ***


سوال:

’’ دعوت اہل حدیث‘‘ حیدر آباد کے ماہ دسمبر کے شمارے میں عبداللہ بن مبارک ( مشہور محدث) اور رابعہ بصری کے مابین طویل مکالمہ پر مبنی واقعہ شائع ہوا۔ جس کا خلاصہ یہ ہے کہ رابعہ ، عبداللہ کے ہر سوال پر قرآنی جواب دیتیں ۔ مثلاً عبداللہ کے سوال’’ کہاں سے آئی ہو اور کہاں جا رہی ہو‘‘ کا جواب آیت’’ سبحان الذی اسریٰ بعبدہ لیلا من المسجد الحرام الی ۔۔۔ ‘‘ الآیۃ سے دیا۔ وغیرہ ۔

بعض واعظین مثلاً فتح دین چشتی ملتانی بریلوی نے رابعہ کی بجائے ’’ مریم‘‘ نام ذکر کیا ہے ۔ یہ واقعہ کسی مفسر نے آیت’’ وما یلفظ من قول ۔۔۔‘‘ الآیہ کی تفسیر میں نقل کیا ہے یا فضائل قرآن پر مبنی یا اہل صفہ(صوفیاء) کے احوال پر مبنی کسی کتاب میں ہے ؟ واقعہ ہذا کی تحقیق و تخریج درکار ہے ۔


الجواب بعون الوھاب

قرآنی آیات پڑھنے والی عورت کا واقعہ معتبر سند کے ساتھ کسی کتاب میں نہیں ملا۔ شہاب الدین محمد بن احمد الفتح الابشیھی (پیدائش۷۹۰ھ وفات ۸۵۰ھ) نے بغیر کسی سند اور بغیر حوالے کے یہ قصہ امام عبداللہ بن المبارک رحمہ اللہ (متوفی ۱۸۱ھ ) سے نقل کیاہے ۔ اس قصے میں عورت کا نام مذکور نہیں ہے ۔ دیکھئے المستطف فی کل فن مستظرف ( ج ۱ ص ۵۶، ۵۷ حکایۃ المتکلمۃ بالقرآن ، الباب الثامن فی الأجوبۃ المسلتۃ والمستحسنۃ )
یہ بلا سند حوالہ مردود اور موضوع کے حکم میں ہے ۔ یہاں بطورِ تنبیہ عرض ہے کہ کتاب ’’ المتسرف ‘‘ فضول ،بے اصل اور موضوع قصوں والی کتاب ہے لہذا س کتاب پر اعتماد کرنا غلط ہے ۔

اسے واقعے سے مشابہ ایک واقعہ حافظ ابن حبان البستی رحمہ اللہ ( متوفی ۳۵۴ھ ) کی کتاب’’ روضۃ العقلاء و ترھۃ الفضلاء ‘‘ میں ( عبدالملک بن قریب ) الاصمعی ( البصری ، متوفی ۲۱۶ھ ) سے باسند مروی ہے ( ص ۴۹، ۵۰) اس قصے میں عبداللہ بن مبارک رحمہ اللہ کے بجائے الاصمعی رحمہ اللہ کو بطورِ صاحبِ قصہ کیا گیا ہے اور عورت کا نام مذکور نہیں ہے ۔

حافظ ابن حبان رحمہ اللہ نے اس قصے کی درج ذیل سند لکھی ہے ۔

’’أنبأنا عمر و بن محمد الأنصاری : حدثنا الغلابي : حدثنا إبراھیم بن عمر و بن حبیب : حدثنا الأصمعی قال: بینا أنا أطواف بالبادیۃ إذا أنا بأعرابیۃ ۔۔ ‘‘ إلخ ( روضۃ العقلاء ص ۴۹)

عمرو بن محمد الانصاری اور ابراہیم بن عمر و بن حبیب کے حالات کسی کتاب میں نہیں ملے ۔ ( محمد بن ذکریا بن دینار) الغلابی کے بارے میں امام دار قطنی رحمہ اللہ ( متوفی ۳۸۵ھ ) فرماتے ہیں کہ:

’’ یضع الحدیث ‘‘یہ حدیثیں گھڑتا تھا ( کتاب الضعفاء والمتروکین للدارقطنی : ۴۸۳، سوالات الحاکم للدارقطنی : ۲۰۶) ابن مندہ اور حافظ ذہبی نے الغلابی پر جرح کی ۔ ان جارحین کے مقابلے میں حافظ ابن حبان نے الغلابی کو اپنی کتاب الثقات میں ذکر کر کے لکھا کہ:

’’ کان صاحب حکایات وأخبار ، یعتبر حدیثہ إذا روی عن الثقات لأنہ فی روایتہ عن الجاھیل بعض المناکیر ‘‘ وہ حکایتیں اور قصے بیان کرتاتھا ۔ اگر وہ ثقہ راویوں سے روایت بیان کرے تو اس کا اعتبار ہوتا ہے کیونکہ مجہول لوگوں سے اس کی روایت میں بعض منکر روایتیں ہیں۔( الثقات ۹؍۱۵۴)

یہ توثیق یہاں جمہور کی جرح کے مقابلے میں ہونے کی وجہ سے مردود ہے ۔ دوسرے یہ کہ یہ روایت ابن حبان رحمہ اللہ کی شرط پر بھی منکر و غیر معتبر ہے کیونکہ الغلابی کے استاد ابراہیم بن عمرو بن حبیب کی توثیق کہیں نہیں ملتی یعنی یہ شخص مجہو ل ہے ۔

خلاصہ یہ کہ اصمعی سے منسوب روایت بھی موضوع ہے اور غالباًالغلابی کذاب کی یہی روایت الابشیھی وغیرہ قصہ گو وں کی اصل بنیاد ہے ۔

لطیفہ : اصمعی سے منسوب الغلابی ( کذاب ) کی روایت کے آخر میں لکھا ہوا ہے کہ اصمعی نے کہا:

’’ فعلمت أنھا شیعیۃ ‘‘ پس مجھے معلوم ہو گیا کہ وہ عورت شیعہ تھی ۔ ( روضۃ العقلاء ص ۵۰)!

[ماہنامہ الحدیث،شمارہ نمبر 12،ص 12]

https://www.facebook.com/IshaatulHadith/posts/750031658409275
 

اسحاق سلفی

فعال رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
اگست 25، 2014
پیغامات
6,372
ری ایکشن اسکور
2,564
پوائنٹ
791
اس قصہ کے بارے علامہ ناصر الدین الالبانی ؒ کے ایک شاگرد علامہ مشہور بن حسن سے پوچھا گیا تو انہوں نے جواب دیا کہ :

السؤال: ما صحة قصة تلك المرأة التي لا تتكلم إلا بالقرآن؟
الإجابة: هذه قصة طويلة وجدتها مسندة عند ابن حبان في كتابه (روضة العقلاء) صفحة 49، وإسنادها واهٍ جداً، فيه رجل اسمه محمد بن زكريا الغلابي، وهذا الرجل قال عنه الدارقطني: متهم بالوضع، وقال ابن حبان عنه: يروى عن المجاهيل، وهذه القصة رواها عن بعض المجاهيل، والقصة طويلة، يرددها بعض الوعاظ والخطباء، ويرددها بعض الناس في مجالسهم.

أما نص القصة فهو: قال الإمام ابن حبان: أنبأنا عمرو بن محمد الأنصاري، حدثنا الغلابي، حدثنا ابرهيم بن عمرو بن حبيب، حدثنا الأصمعي قال: بينا أنا أطوف بالبادية إذا بأعرابية تمشي وحدها على بعير لها، فقلت: يأ أمة الجبار، من تطلبين؟ فقالت: {من يهد الله فلا مضل له ومن يضلل فلا هادي له}، قال: فعلمت أنها قد أضلت أصحابها، فقلت لها: كأنك قد أضللت أصحابك؟ فقالت: {ففهمناها سليمان وكلا أتينا حكماً وعلماً}، فقلت لها: يا هذه، من أين أنت؟ قالت: {سبحان الذي أسرى بعبده ليلاً من المسجد الحرام إلى المسجد الأقصى الذي باركنا حوله}، فعلمت أنها مقدسية، فقلت لها: كيف لا تتكلمين؟ قالت: {ما يلفظ من قول إلا لديه رقيب عتيد}، فقال أحد أصحابي: ينبغي أن تكون هذه من الخوارج! فقالت: {ولا تقف ما ليس لك به علم إن السمع والبصر والفؤاد كل أولئك كان عنه مسؤولاً}، فبينما نحن نماشيها، إذ رفعت لنا قباب وخيم، فقالت: {وعلامات وبالنجم هم يهتدون}، قال: فلم أفطن لقولها، فقلت: ما تقولين؟ فقالت: {وجاءت سيارة فأرسلوا واردهم فأدلى دلوه قال يا بشرى هذا غلام}، قلت: بمن أصوت وبمن أدعو؟ قالت: {يا يحيى خذ الكتاب بقوة}، {يا زكريا إنا نبشرك}، {يا داوود إنا جعلناك خليفة في الأرض}، قال فإذا نحن بثلاثة إخوة كاللآلىء، فقالوا: أمنا ورب الكعبة، أضللناها منذ ثلاث، فقالت: {الحمد لله الذي أذهب عنا الحزن إن ربنا لغفور شكور}، فأومأت إلى أحدهم فقالت: {فابعثوا أحدكم بورقكم هذه إلى المدينة فلينظر أيها أزكى طعاماً فليأتكم برزق منه}، فقلت: إنها أمرتهم أن يزودونا، فجاؤوا بخبز وكعك، فقلت: لا حاجة لنا في ذلك، فقلت للفتية: من هذه منكم؟ قالوا: هذه أمنا، ما تكلمت منذ أربعين سنة إلا من كتاب الله، مخافة الكذب، فدنوت منها، فقلت: يا أمة الله أوصني، فقالت: {ما أسألكم عليه أجرأً إلا المودة في القربى}، فعلمت أنها شيعية، فانصرفت.أ.ه.

يقول الشيخ ابن عثيمين رحمه الله وقد أومأ إلى هذه القصة في (الشرح الممتنع)، في آخر السادس منه، يقول: يحرم جعل القرآن بدلاً من الكلام، وأنا رأيت زمن الطلب قصة في (جواهر الأدب)، عن امرأة لا تتكلم إلا بالقرآن، وتعجب الناس الذين يخاطبونها، وقالوا لها: أربعون سنة لا تتكلم إلا بالقرآن، مخافة أن تزل، ويغضب عليها الرحمن، نقول هي زلت، فالقرآن لا يجعل بدلاً من الكلام، لكن لا بأس للإنسان أن يستشهد بالآية على قضية وقعت.أ.ه.

فحتى لو أنها صحت، فلا يجوز للإنسان أن يترك الكلام، لأن أورع الناس وأتقاهم محمد صلى الله عليه وسلم وصحبه، وما فعلوا هذا، ولو كان خيراً لفعلوه، فالقصة ركبها الغلابي هذا، فكذب فيها على الأصمعي.

تاريخ النشر: 11 ربيع الأول 1430 (8‏/3‏/2009)
ربط
 

اسحاق سلفی

فعال رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
اگست 25، 2014
پیغامات
6,372
ری ایکشن اسکور
2,564
پوائنٹ
791
ہر بات کا جواب قرآنی آیات سے دینے والی عورت کا قصہ

روضة العقلاء ونزهة الفضلاء.jpg

 

اسحاق سلفی

فعال رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
اگست 25، 2014
پیغامات
6,372
ری ایکشن اسکور
2,564
پوائنٹ
791
Top