• الحمدللہ محدث فورم کو نئےسافٹ ویئر زین فورو 2.1.7 پر کامیابی سے منتقل کر لیا گیا ہے۔ شکایات و مسائل درج کروانے کے لئے یہاں کلک کریں۔
  • آئیے! مجلس التحقیق الاسلامی کے زیر اہتمام جاری عظیم الشان دعوتی واصلاحی ویب سائٹس کے ساتھ ماہانہ تعاون کریں اور انٹر نیٹ کے میدان میں اسلام کے عالمگیر پیغام کو عام کرنے میں محدث ٹیم کے دست وبازو بنیں ۔تفصیلات جاننے کے لئے یہاں کلک کریں۔

ہر نماز میں سورہ فاتحہ پڑھنا واجب ہے !!!

اسحاق سلفی

فعال رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
اگست 25، 2014
پیغامات
6,372
ری ایکشن اسکور
2,562
پوائنٹ
791
سنن النسائی : تَأْوِيلُ قَوْلِهِ عَزَّ وَجَلَّ { وَإِذَا قُرِئَ الْقُرْآنُ فَاسْتَمِعُوا لَهُ وَأَنْصِتُوا لَعَلَّكُمْ تُرْحَمُونَ }
أَخْبَرَنَا مُحَمَّدُ بْنُ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ الْمُبَارَكِ قَالَ حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ سَعْدٍ الْأَنْصَارِيُّ قَالَ حَدَّثَنِي مُحَمَّدُ بْنُ عَجْلَانَ عَنْ زَيْدِ بْنِ أَسْلَمَ عَنْ أَبِي صَالِحٍ عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ قَالَ
قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ إِنَّمَا الْإِمَامُ لِيُؤْتَمَّ بِهِ فَإِذَا كَبَّرَ فَكَبِّرُوا وَإِذَا قَرَأَ فَأَنْصِتُوا
ابوہریرہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ فرماتے ہیں کہ رسول اللہ سلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ امام اس لیئے بنایا جاتا ہے کہ اس کی اقتدا کی جائے۔ جب وہ تکبیر کہے تو تکبیر کہو جب وہ قراءت کرے تو خاموش رہو۔
اور ابو موسی اشعری ؓ کی حدیث

حَدَّثَنَا يُوسُفُ بْنُ مُوسَى الْقَطَّانُ حَدَّثَنَا جَرِيرٌ عَنْ سُلَيْمَانَ التَّيْمِيِّ عَنْ قَتَادَةَ عَنْ أَبِي غَلَّابٍ عَنْ حِطَّانَ بْنِ عَبْدِ اللَّهِ الرَّقَاشِيِّ عَنْ أَبِي مُوسَى الْأَشْعَرِيِّ قَالَ
قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ إِذَا قَرَأَ الْإِمَامُ فَأَنْصِتُوا فَإِذَا كَانَ عِنْدَ الْقَعْدَةِ فَلْيَكُنْ أَوَّلَ ذِكْرِ أَحَدِكُمْ التَّشَهُّدُ
ابو موسیٰ اشعری رضی اللہ تعالیٰ عنہ فرماتے ہیں کہ رسول اللہ سلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ امام جب قراءت کرے تو خاموش رہو ـــ الحدیث
سیدنا ابو ہریرہ اور ابو موسی اشعری ؓ کی حدیث ’’ فنی ابحاث ‘‘ سے قطع نظر۔۔ ما بعد الفاتحہ قراءت ۔۔کیلئے ہیں ؛
یہ دونوں حدیثیں مقتدی کو سورہ فاتحہ پڑھنے سے روکنے کیلئے اس لیئے نہیں کہ مقتدی کو سورہ فاتحہ پڑھنے کا حکم دوسری صحیح احادیث میں ثابت ہے ؛
یہ فاتحہ کے بعد امام کی قراءت کے وقت مقتدی کو خاموش رہنے کا حکم دینے کیلئے ہیں ؛

کیونکہ ان میں پہلی روایت ابو ھریرہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے مروی ہے ۔۔۔اور سیدنا ابو ہریرہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ خود صحیح مسلم کی حدیث
نقل کر فرماتے ہیں ،کہ مقتدی سراً سورہ فاتحہ پڑھ لے :

’’ عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ عَنْ النَّبِيِّ صَلَّی اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ قَالَ مَنْ صَلَّی صَلَاةً لَمْ يَقْرَأْ فِيهَا بِأُمِّ الْقُرْآنِ فَهِيَ خِدَاجٌ ثَلَاثًا غَيْرُ تَمَامٍ فَقِيلَ لِأَبِي هُرَيْرَةَ إِنَّا نَکُونُ وَرَائَ الْإِمَامِ، فَقَالَ اقْرَأْ بِهَا فِي نَفْسِکَ ‘‘
کہ پیارے نبی ﷺ کا فرمان ہے :جس نے بھی نماز میں سورہ فاتحہ نہ پڑھی ،اس کی نماز نامکمل ہے ۔یہ تین دفعہ فرمایا ؛
ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے پوچھا گیا کہ ہم جب امام کے پیچھے ہوں (تب یہ سورت پڑھنی چاہیے یا نہیں؟) انھوں نے فرمایا :سورہ فاتحہ کو آہستہ ،پڑھ لے ‘‘
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
«اقْرَأْ بِهَا فِي نَفْسِكَ» سے مراد « دل ہی دل » میں نہیں ،بلکہ ’’ سراً ۔۔دون الجہر ‘‘ ہے ۔
امام بیہقی رحمہ اللہ « كتاب القراءة خلف الإمام » میں فرماتے ہیں :
’’ والمراد بقوله: «اقرأ بها في نفسك» أن يتلفظ بها سرا دون الجهر بها ولا يجوز حمله على ذكرها بقلبه دون التلفظ بها لإجماع أهل اللسان على أن ذلك لا يسمى قراءة »
یعنی «اقرأ بها في نفسك» کا معنی ہے :جہر کے بغیر سراً لفظ پڑھے جائیں ۔۔اور «اقرأ بها في نفسك»کو ’’ الفاظ ادا کئے بغیر قلبی ذکر پر محمول کرنا جائز نہیں ، کیونکہ اہل زبان کا اس پر اجماع ہے کہ الفاظ ادا کئے بغیر قلبی ذکر ‘‘ کو ۔۔قراءة۔۔نہیں کہا جاتا ۔
 

اسحاق سلفی

فعال رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
اگست 25، 2014
پیغامات
6,372
ری ایکشن اسکور
2,562
پوائنٹ
791
سیدنا ابو ہریرہ اور ابو موسی اشعری ؓ کی حدیث
عَنْ أَبِي مُوسَى الْأَشْعَرِيِّ قَالَ
قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ إِذَا قَرَأَ الْإِمَامُ فَأَنْصِتُوا ۔۔
۔
ابو موسیٰ اشعری رضی اللہ تعالیٰ عنہ فرماتے ہیں کہ رسول اللہ سلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ امام جب قراءت کرے تو خاموش رہو ـــ الحدیث

سیدنا ابو ہریرہ اور ابو موسی اشعری ؓ دونوں کی اس حدیث کے ’’ فنی ابحاث ‘‘ سے قطع نظر۔۔ ما بعد الفاتحہ قراءت ۔۔کیلئے ہیں ؛
یعنی یہ دونوں حدیثیں مقتدی کو سورہ فاتحہ پڑھنے سے روکنے کیلئے اس لیئے نہیں کہ مقتدی کو سورہ فاتحہ پڑھنے کا حکم دوسری صحیح احادیث میں ثابت ہے ؛
یہ فاتحہ کے بعد امام کی قراءت کے وقت مقتدی کو خاموش رہنے کا حکم دینے کیلئے ہیں ؛


علامہ مبارکپوری ۔۔تحفۃ الاحوذی ۔۔ میں لکھتے ہیں :
وعلى عدم صحة الاستدلال به على المنع وجوه أخرى ذكرناها في كتابنا تحقيق الكلام منها أن قوله وإذا قرئ فأنصتوا محمول على ما عدا الفاتحة جمعا بين الأحاديث قال الحافظ بن حجر في فتح الباري واستدل من أسقطها عنه في الجهرية كالمالكية بحديث وإذا قرأ فأنصتوا وهو حديث صحيح أخرجه مسلم من حديث أبي موسى الأشعري ولا دلالة فيه لإمكان الجمع بين الأمرين فينصت فيما عدا الفاتحة
یعنی سیدنا ابو موسی اشعری سے مروی حدیث سے فاتحہ خلف الامام کی ممانعت پر استدلال درست نہ ہونے کے کئی وجوہ ہیں جنہیں ہم نے انی کتاب "تحقیق الکلام میں بیان کر دیا ہے ،انہی میں سے ایک یہ کہ یہ حدیث ماعدا الفاتحہ پر محمول ہے یعنی سورۃ فاتحہ کے بعد والی قراءت کیلئے ہے ،جیسا کہ شارح صحیح بخاریؒ علامہ ابن حجر عسقلانیؒ نے فتح الباری میں اسی توجیہ کی طرف اشارہ فرمایا ہے ؛
کہ اس مسئلہ پر تمام وارد تمام احادیث کو جمع کرنے سے یہ بات ثابت ہوتی ہے کہ :
آیت کریمہ :وَإِذَا قُرِئَ الْقُرْآَنُ فَاسْتَمِعُوا لَهُ ۔۔۔اور حدیث ابو موسی ۔۔وإذا قرأ فأنصتوا۔۔فاتحہ کے بعد امام کی قراءت کے وقت ۔۔مقتدی کو خاموش رہنے کا حکم دینے کیلئے ہیں ؛
 
Last edited:

عبدالرحمن بھٹی

مشہور رکن
شمولیت
ستمبر 13، 2015
پیغامات
2,435
ری ایکشن اسکور
292
پوائنٹ
165
بھٹی صاحب! ہم نے صراحت کے ساتھ سیدنا ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ و عبادہ بن الصامت رضی اللہ عنہ کی روایت کردہ حدیث محمد صلی اللہ علیہ سے مقتدی کے لئے سورہ فاتحہ کی تخصیص بیان کی ہے، اور آپ حدیث محمد صلی اللہ علیہ وسلم کی بیان کردہ تخصیص سے انکاری ہو رہے ہو، اور قول ابو حنیفہ سے چمٹے ہوئے ہو! آپ سیدھا سیدھا کہہ دیں کہ آپ نے امام ابو حنیفہ رحمہ اللہ کے قول کو نہیں چھوڑنا! اور اللہ کے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کو رد کردینا ہے، یہ ادھر ادھر کے بہانے کیوں بنا رہے ہو!
آپ اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ کی حدیث کو اپنے اٹکل پچّو سے رد کرتے ہو! اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کی حدیث ماننے والوں کو طعن بھی کرتے ہو، کہ وہ آپ کے اٹکل پچّو کو نہیں مانتے!
بھٹی صاحب! اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم نے جو مقتدی کے لئے سورہ فاتحہ کی تخصیص بیان کی ہے، آپ اسے مان لیں یا اپنی فقہ حنفیہ کی اٹکل پچوّ کو اختیار آپ کو ہے!
وَإِذَا قُرِئَ الْقُرْآنُ فَاسْتَمِعُوا لَهُ وَأَنصِتُوا لَعَلَّكُمْ تُرْحَمُون (سورةَالأعراف آيت 204)
جب قرآن پڑھا جائے تو اس کو غور سے سنو اور خاموش رہو تاکہ تم پر رحم کیا جائے
محترم کیا یہ قولِ ابو حنیفہ رحمۃ اللہ علیہ ہے؟؟؟؟؟؟؟؟


سنن النسائي:كِتَاب الِافْتِتَاحِ: تَأْوِيلُ قَوْلِهِ عَزَّ وَجَلَّ { وَإِذَا قُرِئَ الْقُرْآنُ فَاسْتَمِعُوا لَهُ وَأَنْصِتُوا لَعَلَّكُمْ تُرْحَمُونَ } حدیث نمبر 913:
أَخْبَرَنَا مُحَمَّدُ بْنُ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ الْمُبَارَكِ قَالَ حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ سَعْدٍ الْأَنْصَارِيُّ قَالَ حَدَّثَنِي مُحَمَّدُ بْنُ عَجْلَانَ عَنْ زَيْدِ بْنِ أَسْلَمَ عَنْ أَبِي صَالِحٍ عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ قَالَ
قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ إِنَّمَا الْإِمَامُ لِيُؤْتَمَّ بِهِ فَإِذَا كَبَّرَ فَكَبِّرُوا وَإِذَا قَرَأَ فَأَنْصِتُوا(تمام راوی ثقہ ہیں)
ابو ہریرۃ رضی اللہ تعالی عنہ سے روایت ہے فرماتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا بے شک امام اس لئے ہے کہ تم اس کی پیروی کرو پس جب وہ تکبیر کہے تکبیر کہو اور جب وہ قراءت کرے تو خاموش رہو اور جب کہے " سَمِعَ اللَّهُ لِمَنْ حَمِدَهُ " تو کہو " اللَّهُمَّ رَبَّنَا لَكَ الْحَمْدُ "
نوٹ:اس میں امام کی قراءت کے وقت مقتدی کو خاموش رہنے کا واضح حکم ہے ۔
کیا یہ بھی قولِ ابو حنیفہ رحمۃ اللہ علیہ ہے؟؟؟؟؟؟؟؟

ابن ماجه: كِتَاب إِقَامَةِ الصَّلَاةِ وَالسُّنَّةِ فِيهَا: بَاب إِذَا قَرَأَ الْإِمَامُ فَأَنْصِتُوا: حديث نمبر 837
حَدَّثَنَا أَبُو بَكْرِ بْنُ أَبِي شَيْبَةَ حَدَّثَنَا أَبُو خَالِدٍ الْأَحْمَرُ عَنْ ابْنِ عَجْلَانِ عَنْ زَيْدِ بْنِ أَسْلَمَ عَنْ أَبِي صَالِحٍ عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ قَالَ
قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ إِنَّمَا جُعِلَ الْإِمَامُ لِيُؤْتَمَّ بِهِ فَإِذَا كَبَّرَ فَكَبِّرُوا وَإِذَا قَرَأَ فَأَنْصِتُوا وَإِذَا قَالَ
’’غَيْرِ الْمَغْضُوبِ عَلَيْهِمْ وَلَا الضَّالِّينَ‘‘
فَقُولُوا آمِينَ وَإِذَا رَكَعَ فَارْكَعُوا وَإِذَا قَالَ سَمِعَ اللَّهُ لِمَنْ حَمِدَهُ فَقُولُوا اللَّهُمَّ رَبَّنَا وَلَكَ الْحَمْدُ وَإِذَا سَجَدَ فَاسْجُدُوا وَإِذَا صَلَّى جَالِسًا فَصَلُّوا جُلُوسًا أَجْمَعِينَ
ابو ہریرۃ رضی اللہ تعالی عنہ فرماتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا بے شک امام اس لئے ہے کہ تم اس کی پیروی کرو پس جب وہ تکبیر کہے تکبیر کہو اور جب وہ قراءت کرے تو خاموش رہو اور جب کہے " غَيْرِ الْمَغْضُوبِ عَلَيْهِمْ وَلا الضَّالِّينَ " تو کہو " آمِينَ " اور جب رکوع کرے تو رکوع کرو اور جب " سَمِعَ اللَّهُ لِمَنْ حَمِدَهُ" کہے تو کہو "اللَّهُمَّ رَبَّنَا وَلَكَ الْحَمْدُ " اور جب سجدہ کرے تو سجدہ کرو اور جب بیٹھ کر نماز پڑھے تو سب بیٹھ کر نماز پڑھو ـ
نوٹ: اس حدیثِ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم میں سورہ فاتحہ کی قراءت کے وقت مقتدی کو خاموش رہنے کا واضح حکم فرما کر فرمایا کہ جب وہ " غَيْرِ الْمَغْضُوبِ عَلَيْهِمْ وَلا الضَّالِّينَ "کہے تو کہو " آمِينَ "۔ ترتیب فرمان دیکھیں تو یہ بات بالکل واضح نظر آئے گی۔
کیا یہ بھی قولِ ابو حنیفہ رحمۃ اللہ علیہ ہے؟؟؟؟؟؟؟؟ آنکھیں کھول کر دیکھیں۔

ابن ماجه: كِتَاب إِقَامَةِ الصَّلَاةِ وَالسُّنَّةِ فِيهَا: بَاب إِذَا قَرَأَ الْإِمَامُ فَأَنْصِتُوا: حديث نمبر 840
حَدَّثَنَا عَلِيُّ بْنُ مُحَمَّدٍ حَدَّثَنَا عُبَيْدُ اللَّهِ بْنُ مُوسَى عَنْ الْحَسَنِ بْنِ صَالِحٍ عَنْ جَابِرٍ عَنْ أَبِي الزُّبَيْرِ عَنْ جَابِرٍ قَالَ
قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ مَنْ كَانَ لَهُ إِمَامٌ فَقِرَاءَةُ الْإِمَامِ لَهُ قِرَاءَةٌ
رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا جس کا امام ہو تو امام کی قراءت اس کو کافی ہے۔
کیا یہ بھی قولِ ابو حنیفہ رحمۃ اللہ علیہ ہے؟؟؟؟؟؟؟؟ کیوں لوگوں کو دھوکہ دیتے ہو؟

ابن ماجه: كِتَاب إِقَامَةِ الصَّلَاةِ وَالسُّنَّةِ فِيهَا: بَاب إِذَا قَرَأَ الْإِمَامُ فَأَنْصِتُوا: حديث نمبر 838
حَدَّثَنَا يُوسُفُ بْنُ مُوسَى الْقَطَّانُ حَدَّثَنَا جَرِيرٌ عَنْ سُلَيْمَانَ التَّيْمِيِّ عَنْ قَتَادَةَ عَنْ أَبِي غَلَّابٍ عَنْ حِطَّانَ بْنِ عَبْدِ اللَّهِ الرَّقَاشِيِّ عَنْ أَبِي مُوسَى الْأَشْعَرِيِّ قَالَ
قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ إِذَا قَرَأَ الْإِمَامُ فَأَنْصِتُوا فَإِذَا كَانَ عِنْدَ الْقَعْدَةِ فَلْيَكُنْ أَوَّلَ ذِكْرِ أَحَدِكُمْ التَّشَهُّدُ
ابو موسی اشعری رضی اللہ تعالی عنہ سے روایت ہے فرماتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ جب امام قراءت کرے تو خاموش رہو اور جب قعدہ میں ہو تو تم سب تشہد پڑھو۔
قرآن اور حدیث آپ کو کیوں قولِ ابو حنیفہ رحمۃ اللہ علیہ نظر آتا ہے؟؟؟؟؟؟؟؟

مسند احمد: أَوَّلُ مُسْنَدِ الْكُوفِيِّينَ: حَدِيثُ أَبِي مُوسَى الْأَشْعَرِيِّ رَضِيَ اللَّهُ تَعَالَى عَنْهُ:
حَدَّثَنَا عَلِيُّ بْنُ عَبْدِ اللَّهِ قَالَ ثَنَا جَرِيرٌ عَن سُلَيْمَانَ التَّيْمِيِّ عَن قَتَادَةَ عَن أَبِي غَلَّابٍ عَن حِطَّانَ بْنِ عَبْدِ اللَّهِ الرَّقَاشِيِّ عَن أَبِي مُوسَى قَالَ
عَلَّمَنَا رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ قَالَ إِذَا قُمْتُمْ إِلَى الصَّلَاةِ فَلْيَؤُمَّكُمْ أَحَدُكُمْ وَإِذَا قَرَأَ الْإِمَامُ فَأَنْصِتُوا
ابو موسی اشعری رضی اللہ تعالی عنہ فرماتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ہمیں (نماز) سکھلائی (رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے) فرمایا جب تم نماز کے لئے کھڑے ہو تو چاہئے کہ امامت کرائے تم میں سے کوئی ایک اور جب امام پڑھے تو خاموش رہو ۔
یہ اتنی ساری احادیث سے نظریں پھیر لینا کیا عقلمندی ہے؟؟؟؟؟؟ کیایہ تمام احادیث قول ابو حنیفہ رحمۃ اللہ علیہ ہیں؟؟؟؟؟؟؟؟؟؟؟؟

تفسير ابن كثير

اللہ تعالی نے تلاوت قرآن کے وقت خاموش رہنے کا حکم فرمایا اس کی عظمت اور احترام کے لئے نہ کہ کفار قریش اور مشرکین کی طرح کہ وہ قرآن کو نہیں سنتے تھے بلکہ شور مچاتے تھے جیسا کہ فرمان باری تعالی ہے"لا تسمعوا لهذا القرآن والغوا فيه"۔

يہ تاكيدی حکم فرض نماز کے لئے ہے جب امام جہری قراءت کرے جیسا کہ مسلم نے اپنی صحیح میں روایت کیا ہے ابو موسیٰ اشعری رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے وہ فرماتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ بے شک امام اس لئے ہے کہ تم اس کی پیروی کرو پس جب وہ تکبیر کہے تکبیر کہو اور جب پڑھے خاموش رہو۔

ہم نماز میں بات چیت کر لیتے تھے جب یہ آیت "فإذا قرئ القرآن فاستمعوا له"اور اسکے بعد والی آیت نازل ہوئی تو خاموش رہنے کا حکم ہؤا۔

ہم نماز میں ایک دوسرے کو سلام کیاکرتے تھے کہ قرآن نازل ہؤا کہ "وإذا قرئ القرآن فاستمعوا له وأنصتوا لعلكم ترحمون"۔

ابن مسعود رضی اللہ تعالی نے نماز پڑھی پس سنا کہ لوگ امام کے ہمراہ قراءت کر رہے ہیں جب نماز سے پھرے تو فرمایا: کیا ابھی وقت نہیں آیا کہ سمجھو کیا ابھی وقت نہیں آیا کہ عقل سے کام لو! جب قرآن پڑھا جائے تو اس کو غور سے سنو اور خاموش رہو۔

یہ آیت انصار کے ایک شخص کے بارے میں اتری ہےـ رسول الله صلى الله عليہ وسلم جب بھی (نماز میں) قراءت کرتے وہ ساتھ ساتھ پڑھتا تھا تو یہ مذکورہ آیت نازل ہوئی۔

رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ایک نماز سے فارغ ہوئے جس میں بلند آواز سے قراءت کی جاتی ہے اور پوچھا کہ کیا تم میں سے کسی نے میرے ساتھ قراءت کی ہے؟ ایک شخص نے کہا کہ يا رسول الله ہاں۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ میں بھی کہوں کہ قرآن مجھ سے کیوں منازعت کر رہا ہے۔ راوی نے فرمایا کہ اس کے بعد لوگ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ قراءت کرنے سے رک گئے ان نمازوں میں جن میں بلند آواز سے قراءت کی جاتی ہے جب سے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے یہ سنا۔

امام کی اقتدا میں جہری نمازوں میں قراءت مت کرو اگرچہ آپ کو قراءت سنائی نہ دے۔ ہاں البتہ جن نمازوں میں جہری قراءت نہیں کی جاتی ان میں دل ہی دل میں پڑھ لے۔

کسی کے لئے یہ جائز نہیں کہ وہ امام کی اقتدا میں جہری نمازوں میں قراءت کرے نہ آہستہ اور نہ ہی بلند آواز سے جیسا کہ حکم باری تعالیٰ ہے "وإذا قرئ القرآن فاستمعوا له وأنصتوا لعلكم ترحمون"۔

ابن کثیر کہتے ہیں کہ جمہور علماء کا مذہب ہے کہ مقتدی پر ان نمازوں میں جن میں امام جہری قراءت کیا کرتا ہے کچھ بھی لازم نہیں نہ سورۃ فاتحہ اور نہ ہی کوئی دوسری سورۃ۔ صرف امام کے سکتوں میں قراءت کرے۔

مقتدی پر قراءت واجب ہی نہیں نہ سری نماز میں نہ جہری نماز میں بوجہ اس کے کہ حدیث میں آچکا ہے کہ"جس کا امام ہو تو امام کی قراءت اس کے لئے کافی ہے۔(اس حدیث کو امام احمد نے اپنی مسند میں جابر رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے مرفوعا روایت کیا ہے اور موطأ مالك میں وہب بن کیسان نے جابر رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے موقوفا روایت کی ہے)۔
کیا یہ تفسیر بھی ابو حنیفہ رحمۃ اللہ علیہ نے کی ہے؟؟؟؟؟؟؟؟؟؟؟؟ جس کا ترجمہ محمد جونا گڑھی رحمۃ اللہ علیہ نے کیا۔

اس آیت کریمہ میں تو انصات و استماع کا حکم عام ہے ۔اور آپ نے اس آیت کا ترجمہ بھی یہی کیا کہ
’’ جب بھی قرآن پڑھا جائے ،تو خاموشی سے سنو ‘‘
اس کا ترجمہ میں حکم عام کرنے کے بعد آپ نے پھر اس کو ۔۔نماز میں امام کی قراءت کیلئے خاص کردیا، وہ بھی ایک واضح دھوکہ کے ساتھ
کہ بقول ابن عباس ؓ یہ آیت امام کی قراءت کیلئے خاص ہے ۔
محترم میں نے جو ترجمہ کیا وہ یہ نہیں ہے بلکہ یہ ہے؛
جب قرآن پڑھا جائے تو اس کو توجہ سے سنو اور خاموش رہو
باقی آپ نے جو یہ فر،ایا کہ (آپ نے پھر اس کو ۔۔نماز میں امام کی قراءت کیلئے خاص کردیا) محترم میں نے خاص نہیں کیا بلکہ صحابہ کرام نے اس کو نماز کے لئے خاص کیا ہے۔
کہ بقول ابن عباس ؓ یہ آیت امام کی قراءت کیلئے خاص ہے ۔
اور آپ نے اس میں دھوکہ یہ دیا کہ ابن عباس کے اس قول کو نقل کرنے سے قبل ہی امام بیہقی نے صاف لفظوں میں یہ بتا دیا تھا کہ ’’ ابن عباس کا قول سنداً ثابت نہیں ؛
’’ وروينا من وجه آخر ليس بالقوي، عن عطاء أنه سأل ابن عباس عن هذه الآية قال: هذا لكل قارئ؟ قال: لا ولكن هذا في الصلاة ‘‘
یعنی ایک ضعیف سند سے ہم تک ابن عباس کا یہ قول پہنچا ہے کہ ۔۔۔۔۔۔۔۔
اور اتنی واضح دھوکہ دہی آپ کی اوکاڑوی کمپنی کا مشہور طرز عمل ہے ؛
محترم اس میں اختلاف ہؤا کہ کیا یہ حکم ہر موقع پر کی جانے والی قراءت قرآن کے لئے ہے یا کہ خاص نماز کے لئے؟ اس سلسلہ میں فرمایا گیا کہ یہ حکم صرف نماز کے وقت قراءت سے متعلق ہے عام نہیں ملاحظہ فرمائیں تفسیر ابن کثیر؛
لما ذكر تعالى أن القرآن بصائر للناس وهدى ورحمة، أمر تعالى بالإنصات عند تلاوته إعظامًا له واحترامًا، لا كما كان يعتمده كفار قريش المشركون في قولهم: { لا تَسْمَعُوا لِهَذَا الْقُرْآنِ وَالْغَوْا فِيهِ [ لَعَلَّكُمْ تَغْلِبُونَ ]} [فصلت:26] ولكن يتأكد ذلك في الصلاة المكتوبة إذا جهر الإمام بالقراءة كما ورد الحديث الذي رواه مسلم في صحيحه، من حديث أبي موسى الأشعري، رضي الله عنه، قال: قال رسول الله صلى الله عليه وسلم: "إنما جعل الإمام ليؤتم به، فإذا كبر فكبروا، وإذا قرأ فأنصتوا" وكذلك رواه أهل السنن من حديث أبي هريرة وصححه مسلم بن الحجاج أيضا، ولم يخرجه في كتابه وقال إبراهيم بن مسلم الهجري، عن أبي عياض، عن أبي هريرة قال: كانوا يتكلمون في الصلاة، فلما نزلت هذه الآية: { وَإِذَا قُرِئَ الْقُرْآنُ فَاسْتَمِعُوا لَهُ [ وَأَنْصِتُوا ] } (6) والآية الأخرى، أمروا بالإنصات
اللہ تعالی نے تلاوت قرآن کے وقت خاموش رہنے کا حکم فرمایا اس کی عظمت اور احترام کے لئے نہ کہ کفار قریش اور مشرکین کی طرح کہ وہ قرآن کو نہیں سنتے تھے بلکہ شور مچاتے تھے جیسا کہ فرمان باری تعالی ہے"لا تسمعوا لهذا القرآن والغوا فيه"۔
يہ تاكيدی حکم فرض نماز کے لئے ہے جب امام جہری قراءت کرے جیسا کہ مسلم نے اپنی صحیح میں روایت کیا ہے ابو موسیٰ اشعری رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے وہ فرماتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ بے شک امام اس لئے ہے کہ تم اس کی پیروی کرو پس جب وہ تکبیر کہے تکبیر کہو اور جب پڑھے خاموش رہو
ــــــــــــ
ہم نماز میں بات چیت کر لیتے تھے جب یہ آیت "فإذا قرئ القرآن فاستمعوا له"اور اسکے بعد والی آیت نازل ہوئی تو خاموش رہنے کا حکم ہؤا۔
محترم آپ کے نزدیک اگر (نعوذ باللہ) دھوکہ دیا ہے تو ابن کثیر نے اور صحابہ کرام نے میں اس سے بری الذمہ ہوں۔ قائین کرام واضح طور پر دیکھ سکتے ہیں کہ کون کیا کر رہا ہے۔
والسلام
 

اسحاق سلفی

فعال رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
اگست 25، 2014
پیغامات
6,372
ری ایکشن اسکور
2,562
پوائنٹ
791
س سلسلہ میں فرمایا گیا کہ یہ حکم صرف نماز کے وقت قراءت سے متعلق ہے
آپ کی اس پوسٹ کا تفصیلی جواب دینے سے قبل عرض ہے کہ
اس پوسٹ سے آپ نے ثابت کردیا کہ :
کسی کے مرنے کی خوشی میں’’ حلوہ شریف ‘‘ کھانے کے لئے جب قرآن پڑھا جائے ،تو اسے سننے کی کوئی ضرورت نہیں ۔۔۔بلکہ سب مل کر بآواز بلند تلاوت کریں گے ۔۔۔تاکہ سب کو حلوہ شریف کھانے کو ملے ۔۔؟؟
 

عبدالرحمن بھٹی

مشہور رکن
شمولیت
ستمبر 13، 2015
پیغامات
2,435
ری ایکشن اسکور
292
پوائنٹ
165
آپ کی اس پوسٹ کا تفصیلی جواب دینے سے قبل عرض ہے کہ
اس پوسٹ سے آپ نے ثابت کردیا کہ :
کسی کے مرنے کی خوشی میں’’ حلوہ شریف ‘‘ کھانے کے لئے جب قرآن پڑھا جائے ،تو اسے سننے کی کوئی ضرورت نہیں ۔۔۔بلکہ سب مل کر بآواز بلند تلاوت کریں گے ۔۔۔تاکہ سب کو حلوہ شریف کھانے کو ملے ۔۔؟؟
اللہ تعالیٰ سے دعاء ہے کہ وہ ہمیں فضولیات سے بچائے آمین
 

عبدالرحمن بھٹی

مشہور رکن
شمولیت
ستمبر 13، 2015
پیغامات
2,435
ری ایکشن اسکور
292
پوائنٹ
165
آپ کی اس پوسٹ کا تفصیلی جواب دینے سے قبل عرض ہے کہ
اس پوسٹ سے آپ نے ثابت کردیا کہ :
کسی کے مرنے کی خوشی میں’’ حلوہ شریف ‘‘ کھانے کے لئے جب قرآن پڑھا جائے ،تو اسے سننے کی کوئی ضرورت نہیں ۔۔۔بلکہ سب مل کر بآواز بلند تلاوت کریں گے ۔۔۔تاکہ سب کو حلوہ شریف کھانے کو ملے ۔۔؟؟
فضولیات کے جوابات دیناوقت کا زیاں ہے
 

محمد علی جواد

سینئر رکن
شمولیت
جولائی 18، 2012
پیغامات
1,986
ری ایکشن اسکور
1,551
پوائنٹ
304
وَإِذَا قُرِئَ الْقُرْآنُ فَاسْتَمِعُوا لَهُ وَأَنصِتُوا لَعَلَّكُمْ تُرْحَمُون (سورةَالأعراف آيت 204)
جب قرآن پڑھا جائے تو اس کو غور سے سنو اور خاموش رہو تاکہ تم پر رحم کیا جائے
محترم کیا یہ قولِ ابو حنیفہ رحمۃ اللہ علیہ ہے؟؟؟؟؟؟؟؟


سنن النسائي:كِتَاب الِافْتِتَاحِ: تَأْوِيلُ قَوْلِهِ عَزَّ وَجَلَّ { وَإِذَا قُرِئَ الْقُرْآنُ فَاسْتَمِعُوا لَهُ وَأَنْصِتُوا لَعَلَّكُمْ تُرْحَمُونَ } حدیث نمبر 913:
أَخْبَرَنَا مُحَمَّدُ بْنُ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ الْمُبَارَكِ قَالَ حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ سَعْدٍ الْأَنْصَارِيُّ قَالَ حَدَّثَنِي مُحَمَّدُ بْنُ عَجْلَانَ عَنْ زَيْدِ بْنِ أَسْلَمَ عَنْ أَبِي صَالِحٍ عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ قَالَ
قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ إِنَّمَا الْإِمَامُ لِيُؤْتَمَّ بِهِ فَإِذَا كَبَّرَ فَكَبِّرُوا وَإِذَا قَرَأَ فَأَنْصِتُوا(تمام راوی ثقہ ہیں)
ابو ہریرۃ رضی اللہ تعالی عنہ سے روایت ہے فرماتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا بے شک امام اس لئے ہے کہ تم اس کی پیروی کرو پس جب وہ تکبیر کہے تکبیر کہو اور جب وہ قراءت کرے تو خاموش رہو اور جب کہے " سَمِعَ اللَّهُ لِمَنْ حَمِدَهُ " تو کہو " اللَّهُمَّ رَبَّنَا لَكَ الْحَمْدُ "
نوٹ:اس میں امام کی قراءت کے وقت مقتدی کو خاموش رہنے کا واضح حکم ہے ۔
کیا یہ بھی قولِ ابو حنیفہ رحمۃ اللہ علیہ ہے؟؟؟؟؟؟؟؟

ابن ماجه: كِتَاب إِقَامَةِ الصَّلَاةِ وَالسُّنَّةِ فِيهَا: بَاب إِذَا قَرَأَ الْإِمَامُ فَأَنْصِتُوا: حديث نمبر 837
حَدَّثَنَا أَبُو بَكْرِ بْنُ أَبِي شَيْبَةَ حَدَّثَنَا أَبُو خَالِدٍ الْأَحْمَرُ عَنْ ابْنِ عَجْلَانِ عَنْ زَيْدِ بْنِ أَسْلَمَ عَنْ أَبِي صَالِحٍ عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ قَالَ
قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ إِنَّمَا جُعِلَ الْإِمَامُ لِيُؤْتَمَّ بِهِ فَإِذَا كَبَّرَ فَكَبِّرُوا وَإِذَا قَرَأَ فَأَنْصِتُوا وَإِذَا قَالَ
’’غَيْرِ الْمَغْضُوبِ عَلَيْهِمْ وَلَا الضَّالِّينَ‘‘
فَقُولُوا آمِينَ وَإِذَا رَكَعَ فَارْكَعُوا وَإِذَا قَالَ سَمِعَ اللَّهُ لِمَنْ حَمِدَهُ فَقُولُوا اللَّهُمَّ رَبَّنَا وَلَكَ الْحَمْدُ وَإِذَا سَجَدَ فَاسْجُدُوا وَإِذَا صَلَّى جَالِسًا فَصَلُّوا جُلُوسًا أَجْمَعِينَ
ابو ہریرۃ رضی اللہ تعالی عنہ فرماتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا بے شک امام اس لئے ہے کہ تم اس کی پیروی کرو پس جب وہ تکبیر کہے تکبیر کہو اور جب وہ قراءت کرے تو خاموش رہو اور جب کہے " غَيْرِ الْمَغْضُوبِ عَلَيْهِمْ وَلا الضَّالِّينَ " تو کہو " آمِينَ " اور جب رکوع کرے تو رکوع کرو اور جب " سَمِعَ اللَّهُ لِمَنْ حَمِدَهُ" کہے تو کہو "اللَّهُمَّ رَبَّنَا وَلَكَ الْحَمْدُ " اور جب سجدہ کرے تو سجدہ کرو اور جب بیٹھ کر نماز پڑھے تو سب بیٹھ کر نماز پڑھو ـ
نوٹ: اس حدیثِ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم میں سورہ فاتحہ کی قراءت کے وقت مقتدی کو خاموش رہنے کا واضح حکم فرما کر فرمایا کہ جب وہ " غَيْرِ الْمَغْضُوبِ عَلَيْهِمْ وَلا الضَّالِّينَ "کہے تو کہو " آمِينَ "۔ ترتیب فرمان دیکھیں تو یہ بات بالکل واضح نظر آئے گی۔
کیا یہ بھی قولِ ابو حنیفہ رحمۃ اللہ علیہ ہے؟؟؟؟؟؟؟؟ آنکھیں کھول کر دیکھیں۔

ابن ماجه: كِتَاب إِقَامَةِ الصَّلَاةِ وَالسُّنَّةِ فِيهَا: بَاب إِذَا قَرَأَ الْإِمَامُ فَأَنْصِتُوا: حديث نمبر 840
حَدَّثَنَا عَلِيُّ بْنُ مُحَمَّدٍ حَدَّثَنَا عُبَيْدُ اللَّهِ بْنُ مُوسَى عَنْ الْحَسَنِ بْنِ صَالِحٍ عَنْ جَابِرٍ عَنْ أَبِي الزُّبَيْرِ عَنْ جَابِرٍ قَالَ
قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ مَنْ كَانَ لَهُ إِمَامٌ فَقِرَاءَةُ الْإِمَامِ لَهُ قِرَاءَةٌ
رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا جس کا امام ہو تو امام کی قراءت اس کو کافی ہے۔
کیا یہ بھی قولِ ابو حنیفہ رحمۃ اللہ علیہ ہے؟؟؟؟؟؟؟؟ کیوں لوگوں کو دھوکہ دیتے ہو؟

ابن ماجه: كِتَاب إِقَامَةِ الصَّلَاةِ وَالسُّنَّةِ فِيهَا: بَاب إِذَا قَرَأَ الْإِمَامُ فَأَنْصِتُوا: حديث نمبر 838
حَدَّثَنَا يُوسُفُ بْنُ مُوسَى الْقَطَّانُ حَدَّثَنَا جَرِيرٌ عَنْ سُلَيْمَانَ التَّيْمِيِّ عَنْ قَتَادَةَ عَنْ أَبِي غَلَّابٍ عَنْ حِطَّانَ بْنِ عَبْدِ اللَّهِ الرَّقَاشِيِّ عَنْ أَبِي مُوسَى الْأَشْعَرِيِّ قَالَ
قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ إِذَا قَرَأَ الْإِمَامُ فَأَنْصِتُوا فَإِذَا كَانَ عِنْدَ الْقَعْدَةِ فَلْيَكُنْ أَوَّلَ ذِكْرِ أَحَدِكُمْ التَّشَهُّدُ
ابو موسی اشعری رضی اللہ تعالی عنہ سے روایت ہے فرماتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ جب امام قراءت کرے تو خاموش رہو اور جب قعدہ میں ہو تو تم سب تشہد پڑھو۔
قرآن اور حدیث آپ کو کیوں قولِ ابو حنیفہ رحمۃ اللہ علیہ نظر آتا ہے؟؟؟؟؟؟؟؟

مسند احمد: أَوَّلُ مُسْنَدِ الْكُوفِيِّينَ: حَدِيثُ أَبِي مُوسَى الْأَشْعَرِيِّ رَضِيَ اللَّهُ تَعَالَى عَنْهُ:
حَدَّثَنَا عَلِيُّ بْنُ عَبْدِ اللَّهِ قَالَ ثَنَا جَرِيرٌ عَن سُلَيْمَانَ التَّيْمِيِّ عَن قَتَادَةَ عَن أَبِي غَلَّابٍ عَن حِطَّانَ بْنِ عَبْدِ اللَّهِ الرَّقَاشِيِّ عَن أَبِي مُوسَى قَالَ
عَلَّمَنَا رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ قَالَ إِذَا قُمْتُمْ إِلَى الصَّلَاةِ فَلْيَؤُمَّكُمْ أَحَدُكُمْ وَإِذَا قَرَأَ الْإِمَامُ فَأَنْصِتُوا
ابو موسی اشعری رضی اللہ تعالی عنہ فرماتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ہمیں (نماز) سکھلائی (رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے) فرمایا جب تم نماز کے لئے کھڑے ہو تو چاہئے کہ امامت کرائے تم میں سے کوئی ایک اور جب امام پڑھے تو خاموش رہو ۔
یہ اتنی ساری احادیث سے نظریں پھیر لینا کیا عقلمندی ہے؟؟؟؟؟؟ کیایہ تمام احادیث قول ابو حنیفہ رحمۃ اللہ علیہ ہیں؟؟؟؟؟؟؟؟؟؟؟؟

تفسير ابن كثير

اللہ تعالی نے تلاوت قرآن کے وقت خاموش رہنے کا حکم فرمایا اس کی عظمت اور احترام کے لئے نہ کہ کفار قریش اور مشرکین کی طرح کہ وہ قرآن کو نہیں سنتے تھے بلکہ شور مچاتے تھے جیسا کہ فرمان باری تعالی ہے"لا تسمعوا لهذا القرآن والغوا فيه"۔

يہ تاكيدی حکم فرض نماز کے لئے ہے جب امام جہری قراءت کرے جیسا کہ مسلم نے اپنی صحیح میں روایت کیا ہے ابو موسیٰ اشعری رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے وہ فرماتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ بے شک امام اس لئے ہے کہ تم اس کی پیروی کرو پس جب وہ تکبیر کہے تکبیر کہو اور جب پڑھے خاموش رہو۔

ہم نماز میں بات چیت کر لیتے تھے جب یہ آیت "فإذا قرئ القرآن فاستمعوا له"اور اسکے بعد والی آیت نازل ہوئی تو خاموش رہنے کا حکم ہؤا۔

ہم نماز میں ایک دوسرے کو سلام کیاکرتے تھے کہ قرآن نازل ہؤا کہ "وإذا قرئ القرآن فاستمعوا له وأنصتوا لعلكم ترحمون"۔

ابن مسعود رضی اللہ تعالی نے نماز پڑھی پس سنا کہ لوگ امام کے ہمراہ قراءت کر رہے ہیں جب نماز سے پھرے تو فرمایا: کیا ابھی وقت نہیں آیا کہ سمجھو کیا ابھی وقت نہیں آیا کہ عقل سے کام لو! جب قرآن پڑھا جائے تو اس کو غور سے سنو اور خاموش رہو۔

یہ آیت انصار کے ایک شخص کے بارے میں اتری ہےـ رسول الله صلى الله عليہ وسلم جب بھی (نماز میں) قراءت کرتے وہ ساتھ ساتھ پڑھتا تھا تو یہ مذکورہ آیت نازل ہوئی۔

رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ایک نماز سے فارغ ہوئے جس میں بلند آواز سے قراءت کی جاتی ہے اور پوچھا کہ کیا تم میں سے کسی نے میرے ساتھ قراءت کی ہے؟ ایک شخص نے کہا کہ يا رسول الله ہاں۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ میں بھی کہوں کہ قرآن مجھ سے کیوں منازعت کر رہا ہے۔ راوی نے فرمایا کہ اس کے بعد لوگ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ قراءت کرنے سے رک گئے ان نمازوں میں جن میں بلند آواز سے قراءت کی جاتی ہے جب سے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے یہ سنا۔

امام کی اقتدا میں جہری نمازوں میں قراءت مت کرو اگرچہ آپ کو قراءت سنائی نہ دے۔ ہاں البتہ جن نمازوں میں جہری قراءت نہیں کی جاتی ان میں دل ہی دل میں پڑھ لے۔

کسی کے لئے یہ جائز نہیں کہ وہ امام کی اقتدا میں جہری نمازوں میں قراءت کرے نہ آہستہ اور نہ ہی بلند آواز سے جیسا کہ حکم باری تعالیٰ ہے "وإذا قرئ القرآن فاستمعوا له وأنصتوا لعلكم ترحمون"۔

ابن کثیر کہتے ہیں کہ جمہور علماء کا مذہب ہے کہ مقتدی پر ان نمازوں میں جن میں امام جہری قراءت کیا کرتا ہے کچھ بھی لازم نہیں نہ سورۃ فاتحہ اور نہ ہی کوئی دوسری سورۃ۔ صرف امام کے سکتوں میں قراءت کرے۔

مقتدی پر قراءت واجب ہی نہیں نہ سری نماز میں نہ جہری نماز میں بوجہ اس کے کہ حدیث میں آچکا ہے کہ"جس کا امام ہو تو امام کی قراءت اس کے لئے کافی ہے۔(اس حدیث کو امام احمد نے اپنی مسند میں جابر رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے مرفوعا روایت کیا ہے اور موطأ مالك میں وہب بن کیسان نے جابر رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے موقوفا روایت کی ہے)۔
کیا یہ تفسیر بھی ابو حنیفہ رحمۃ اللہ علیہ نے کی ہے؟؟؟؟؟؟؟؟؟؟؟؟ جس کا ترجمہ محمد جونا گڑھی رحمۃ اللہ علیہ نے کیا۔


محترم میں نے جو ترجمہ کیا وہ یہ نہیں ہے بلکہ یہ ہے؛
جب قرآن پڑھا جائے تو اس کو توجہ سے سنو اور خاموش رہو
باقی آپ نے جو یہ فر،ایا کہ (آپ نے پھر اس کو ۔۔نماز میں امام کی قراءت کیلئے خاص کردیا) محترم میں نے خاص نہیں کیا بلکہ صحابہ کرام نے اس کو نماز کے لئے خاص کیا ہے۔

محترم اس میں اختلاف ہؤا کہ کیا یہ حکم ہر موقع پر کی جانے والی قراءت قرآن کے لئے ہے یا کہ خاص نماز کے لئے؟ اس سلسلہ میں فرمایا گیا کہ یہ حکم صرف نماز کے وقت قراءت سے متعلق ہے عام نہیں ملاحظہ فرمائیں تفسیر ابن کثیر؛
لما ذكر تعالى أن القرآن بصائر للناس وهدى ورحمة، أمر تعالى بالإنصات عند تلاوته إعظامًا له واحترامًا، لا كما كان يعتمده كفار قريش المشركون في قولهم: { لا تَسْمَعُوا لِهَذَا الْقُرْآنِ وَالْغَوْا فِيهِ [ لَعَلَّكُمْ تَغْلِبُونَ ]} [فصلت:26] ولكن يتأكد ذلك في الصلاة المكتوبة إذا جهر الإمام بالقراءة كما ورد الحديث الذي رواه مسلم في صحيحه، من حديث أبي موسى الأشعري، رضي الله عنه، قال: قال رسول الله صلى الله عليه وسلم: "إنما جعل الإمام ليؤتم به، فإذا كبر فكبروا، وإذا قرأ فأنصتوا" وكذلك رواه أهل السنن من حديث أبي هريرة وصححه مسلم بن الحجاج أيضا، ولم يخرجه في كتابه وقال إبراهيم بن مسلم الهجري، عن أبي عياض، عن أبي هريرة قال: كانوا يتكلمون في الصلاة، فلما نزلت هذه الآية: { وَإِذَا قُرِئَ الْقُرْآنُ فَاسْتَمِعُوا لَهُ [ وَأَنْصِتُوا ] } (6) والآية الأخرى، أمروا بالإنصات
اللہ تعالی نے تلاوت قرآن کے وقت خاموش رہنے کا حکم فرمایا اس کی عظمت اور احترام کے لئے نہ کہ کفار قریش اور مشرکین کی طرح کہ وہ قرآن کو نہیں سنتے تھے بلکہ شور مچاتے تھے جیسا کہ فرمان باری تعالی ہے"لا تسمعوا لهذا القرآن والغوا فيه"۔
يہ تاكيدی حکم فرض نماز کے لئے ہے جب امام جہری قراءت کرے جیسا کہ مسلم نے اپنی صحیح میں روایت کیا ہے ابو موسیٰ اشعری رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے وہ فرماتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ بے شک امام اس لئے ہے کہ تم اس کی پیروی کرو پس جب وہ تکبیر کہے تکبیر کہو اور جب پڑھے خاموش رہو
ــــــــــــ
ہم نماز میں بات چیت کر لیتے تھے جب یہ آیت "فإذا قرئ القرآن فاستمعوا له"اور اسکے بعد والی آیت نازل ہوئی تو خاموش رہنے کا حکم ہؤا۔
محترم آپ کے نزدیک اگر (نعوذ باللہ) دھوکہ دیا ہے تو ابن کثیر نے اور صحابہ کرام نے میں اس سے بری الذمہ ہوں۔ قائین کرام واضح طور پر دیکھ سکتے ہیں کہ کون کیا کر رہا ہے۔
والسلام
السلام علیکم و رحمت الله -

پہلی بات تو یہ ہے کہ سوره االأعراف کی یہ آیت نماز کی فرضیت سے بہت پہلے نازل ہوئی - مشرکین مکہ تلاوت قرآن کے وقت مسلمانوں کو تنگ کرنے کے غرض سے کانوں میں انگلیاں ٹھونس لیتے ہو اور شور و غل برپا کرتے تا کہ نہ خود سنیں اور نہ کوئی دوسرا سن سکے - جس بنا پر الله تبارک و تعالیٰ نے مشرکین مکہ کو تنبیہ کے انداز میں فرمایا -

وَإِذَا قُرِئَ الْقُرْآنُ فَاسْتَمِعُوا لَهُ وَأَنصِتُوا لَعَلَّكُمْ تُرْحَمُون (سورةَالأعراف آيت 204)
جب قرآن پڑھا جائے تو اس کو غور سے سنو اور خاموش رہو تاکہ تم پر رحم کیا جائے-

یعنی یہ جو تعصب اور ہٹ دھرمی کی وجہ سے تم لوگ قرآن کی آواز سنتے ہی کانوں میں انگلیاں ٹھونس لیتے ہو اور شور و غل برپا کرتے ہو تا کہ نہ خود سنو اور نہ کوئی دوسرا سن سکے، اس روش کو چھوڑ دو اور غور سے سنو تو سہی کہ اس میں تعلیم کیا دی گئی ہے۔ کیا عجب کہ اس کی تعلیم سے واقف ہو جانے کے بعد تم خود بھی اُسی رحمت کے حصہ دار بن جاؤ جو ایمان لانے والوں کو نصیب ہو چکی ہے-

لہذا اس آیت کو خالصتاً فاتحہ خلف الامام کے مسلے میں اپنے موقف کو ثابت کرنے کے لئے استمعال کرنا دانشمندی نہیں ہے -

دوسری بات یہ کہ اگرسورةَالأعراف کی مذکورہ آیت کو فاتحہ خلف الامام کے تناظر میں بھی پیش کیا جائے تو امام کی قرآن کی قرآت کے وقت مقتدی کو بہر حال استثنیٰ حاصل ہے کہ وہ بھی امام کے ساتھ اس کی تلاوت کرے (آہستہ آواز میں) - صحیح احادیث نبوی اس بات پر دلالت کرتی ہیں کہ فاتحہ خلف الامام کے بغیر آدمی کی نماز باطل ہے - نبی اکرم محمّد مصطفیٰ صل الله علیہ و آله وسلم کا فرمان مبارک ہے -

عن عبادۃ بن الصامت أن رسول اللہ ﷺ قال: لا صلاۃ لمن لم یقرأ بفاتحۃ الکتاب۔ (صحیح بخاری: 1 / 104، صحیح مسلم: 1 / 169، سنن ترمذی مع تعلیق احمد محمد شاکر: 2 / 25، السنن الکبری للبیہقی: 2 / 38) یعنی حضرت عبادہ بن صامت رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا کہ جس شخص نے سورہ فاتحہ نہیں پڑھی اس کی نماز نہیں۔

اس حدیث میں عربی کا لفظ "من" استمعال ہوا ہے- جو اس کو عام کرتا ہے کہ فاتحہ خلف الامام ہر ایک کے لئے ضروری ہے- نماز چاہے فرض ہو یا نفل اور وہ شخص امام ہو یا مقتدی یا اکیلا ، کسی شخص کی کوئی نماز سورہ فاتحہ پڑھے بغیر نہیں ہوگی ۔

یہ بات ذہن میں رہے کہ قرآن کریم (عقائد کو چھوڑ کر) دیگر ارکان اسلام کے متعلق اکثر ضمنی احکامات جاری کرتا ہے جب کہ اس کی تشریح احادیث نبوی کرتی ہیں- مثال کے طورپر قرآن کی آیت نماز قصر سے متعلق ہے اس میں صرف دشمن کے خوف سے نماز قصر کا حکم ہے - تو پھر آپ امن کے حالات میں سفر کے دوران نماز قصر کیوں پڑھتے ہیں -ملاحظہ قرآن کی آیت جس میں نماز قصر دشمن کے خوف سے مشروط ہے -

وَإِذَا ضَرَبْتُمْ فِي الْأَرْضِ فَلَيْسَ عَلَيْكُمْ جُنَاحٌ أَنْ تَقْصُرُوا مِنَ الصَّلَاةِ إِنْ خِفْتُمْ أَنْ يَفْتِنَكُمُ الَّذِينَ كَفَرُوا ۚ إِنَّ الْكَافِرِينَ كَانُوا لَكُمْ عَدُوًّا مُبِينًا سوره النساء ١٠١
اور جب تم سفر کے لیے نکلو تو تم پر کوئی گناہ نہیں نماز میں سے کچھ کم کر دو اگر تمہیں یہ ڈر ہو کہ کافر تمہیں ستائیں گے بےشک کافر تمہارے صریح دشمن ہیں-

ظاہر ہے کہ احادیث نبوی نے ہی اس مسلے میں مسلمانوں کو یہ استثنیٰ دیا ہے کہ عام حالت سفر میں بھی نماز قصر ہی پڑھی جائے گی - جب کہ قرآن کا عمومی حکم صرف دشمن کے خوف سے نماز قصر کا حکم دے رہا ہے -

سوره الأعراف کی اس آیت میں عمومی معنی تو یہ ہیں کہ جب قرآن کریم کی تلاوت کی جا رہی ہو اس وقت ہر انسان چاہے نماز میں ہو یا نماز سے باہر ہو- اسے کان لگا کر قرآن سننا ضروری ہے - لیکن سوره فاتحہ صرف قرآن نہیں بلکہ ایک جامع دعا ہے اور بار بار دہرائی جاتی ہے اس لئے احادیث نبوی میں مقتدی کے لئے بھی اس کی قرآت کو واجب قرار دیا گیا ہے-

افسوس کے ساتھ کہنا پڑتا ہی کہ احناف جس مسلے میں اپنے امام کو صحیح ثابت کرنے کے لئے قرآن کی جن آیات قرانی کا ڈھنڈھورا پیٹتے نظرآتے ہیں - حقیقت میں اکثر ان ہی آیات کے حکم کی خلاف ورزی کرتے بھی نظر آتے ہیں- فجر کی جماعت کھڑی ہوتی ہے ان کا امام قرآت کر رہا ہوتا ہے اور یہ اس قرآت کو سوره الأعراف کی آیت کے حکم (کہ جب قرآن پڑھا جائے تو اس کو غور سے سنو اور خاموش رہو) کے برخلاف اپنی سننتیں پڑھنے میں مشغول ہوتے ہیں ؟؟-

آخر میں میں احناف یا احناف سے متاثر احباب سے پوچھنا چاہوں گا کہ جب آپ کے نزدیک یہ معامله اتنا گھمبیر ہو تو کہ اس سوره الأعراف کے حکم کے مطابق فاتحہ خلف الامام نہ پڑھنے کی صورت میں نبی کریم صل الله علیہ و آ لہ وسلم کا کیا ارشاد ہے - کیا اسے اپنی نماز لوٹانی پڑے گی یا سجدہ سہو کرنا پڑے گا وغیرہ ؟؟ کیوں کہ آپ احباب کے نزیک تو حکم یہی ہے کہ امام کی ہر طرح کی تلاوت کے وقت صرف قرآن سنا جائے اور خاموش رہا جائے؟؟؟

جواب کا انتظار رہے گا -
 
Last edited:

عبدالرحمن بھٹی

مشہور رکن
شمولیت
ستمبر 13، 2015
پیغامات
2,435
ری ایکشن اسکور
292
پوائنٹ
165
السلام علیکم ورحمۃ اللہ
پہلی بات تو یہ ہے کہ سوره االأعراف کی یہ آیت نماز کی فرضیت سے بہت پہلے نازل ہوئی -
محترم نماز کی فرضیت سے پہلےکیا مکہ معظمہ میں آقا علیہ السلام نماز نہیں پڑھتے تھے؟؟؟

مشرکین مکہ تلاوت قرآن کے وقت مسلمانوں کو تنگ کرنے کے غرض سے کانوں میں انگلیاں ٹھونس لیتے ہو اور شور و غل برپا کرتے تا کہ نہ خود سنیں اور نہ کوئی دوسرا سن سکے -
وہ دو کام کرتے تھے نہ سنتے تھے اور نہ ہی سننے دیتے تھےآپ سنتے نہیں اور دوسروں کو سننے سے منع بھی کرتے ہو یہ کام تو آپ بھی کرتے ہیں۔ کرتے ہیں نا!!!!!!!

لہذا اس آیت کو خالصتاً فاتحہ خلف الامام کے مسلے میں اپنے موقف کو ثابت کرنے کے لئے استمعال کرنا دانشمندی نہیں ہے -
ان کے بارے میں آپ کا کیا خیال ہے؟؟؟؟؟؟؟
ابو موسیٰ اشعری رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے روایت ہے فرماتے ہیں کہ رسول الله صلى الله عليہ وسلم نے فرمایا ’’امام اس لیئے مقرر کیا جاتا ہے کہ وہ امامت کرائے جب وہ تکبیر کہے تکبیر کہو جب امام قراءت کرے تو خاموش رہو‘‘۔(تفسیر ابن کثیر بحوالہ صحیح مسلم)
یہاں آقا علیہ السلام نے بالکل صاف لفظوں میں مقتدی کو امام کی اقتدا میں قراءت کرنے سے منع فرما دیا۔ فَهَلْ أَنْتُمْ مُنْتَهُونَ (کیا تم لوگ باز آؤ گے؟؟؟)۔

یہ بھی ہیں ؟؟؟؟؟
ابو ہریرۃ رضی اللہ تعالی عنہ سے روایت ہے فرماتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا بے شک امام اس لئے ہے کہ تم اس کی پیروی کرو پس جب وہ تکبیر کہے تکبیر کہو اور جب وہ قراءت کرے تو خاموش رہو اور جب کہے " سَمِعَ اللَّهُ لِمَنْ حَمِدَهُ " تو کہو " اللَّهُمَّ رَبَّنَا لَكَ الْحَمْدُ " (سنن النسائي: كِتَاب الِافْتِتَاحِ: تَأْوِيلُ قَوْلِهِ عَزَّ وَجَلَّ { وَإِذَا قُرِئَ الْقُرْآنُ فَاسْتَمِعُوا لَهُ وَأَنْصِتُوا لَعَلَّكُمْ تُرْحَمُونَ })

ان کے بارے میں بھی کچھ ارشاد ہو!!!!!!!!!!!!!
جابر رضی اللہ تعالیٰ عنہ فرماتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا جس کا امام ہو تو امام کی قراءت اس کو کافی ہے۔(ابن ماجه: كِتَاب إِقَامَةِ الصَّلَاةِ وَالسُّنَّةِ فِيهَا: بَاب إِذَا قَرَأَ الْإِمَامُ فَأَنْصِتُوا:)

دوسری بات یہ کہ اگرسورةَالأعراف کی مذکورہ آیت کو فاتحہ خلف الامام کے تناظر میں بھی پیش کیا جائے تو امام کی قرآن کی قرآت کے وقت مقتدی کو بہر حال استثنیٰ حاصل ہے کہ وہ بھی امام کے ساتھ اس کی تلاوت کرے (آہستہ آواز میں) - صحیح احادیث نبوی اس بات پر دلالت کرتی ہیں کہ فاتحہ خلف الامام کے بغیر آدمی کی نماز باطل ہے - نبی اکرم محمّد مصطفیٰ صل الله علیہ و آله وسلم کا فرمان مبارک ہے -

عن عبادۃ بن الصامت أن رسول اللہ ﷺ قال: لا صلاۃ لمن لم یقرأ بفاتحۃ الکتاب۔ (صحیح بخاری: 1 / 104، صحیح مسلم: 1 / 169، سنن ترمذی مع تعلیق احمد محمد شاکر: 2 / 25، السنن الکبری للبیہقی: 2 / 38) یعنی حضرت عبادہ بن صامت رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا کہ جس شخص نے سورہ فاتحہ نہیں پڑھی اس کی نماز نہیں۔

اس حدیث میں عربی کا لفظ "من" استمعال ہوا ہے- جو اس کو عام کرتا ہے کہ فاتحہ خلف الامام ہر ایک کے لئے ضروری ہے- نماز چاہے فرض ہو یا نفل اور وہ شخص امام ہو یا مقتدی یا اکیلا ، کسی شخص کی کوئی نماز سورہ فاتحہ پڑھے بغیر نہیں ہوگی ۔
محترم اس حدیث میں آپ کی دلیل موجود ہی نہیں۔
ان احادیث میں بھی عربی کا لفظ ’’من‘‘ استعمال ہؤا ہے ان کے بارے میں کیا ارشاد ہے؛
عَنْ عُبَادَةَ بْنِ الصَّامِتِ يَبْلُغُ بِهِ النَّبِيَّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ لَا صَلَاةَ لِمَنْ لَمْ يَقْرَأْ بِفَاتِحَةِ الْكِتَابِ فَصَاعِدًا (سنن أبي داود:كِتَاب الصَّلَاةِ: بَاب مَنْ تَرَكَ الْقِرَاءَةَ فِي صَلَاتِهِ بِفَاتِحَةِ الْكِتَابِ:)
حضرت عبادہ بن صامت رضی اللہ عنہ رسول اللہ ﷺ سے روایت کرتے ہیں کہ جس شخص نے سورہ فاتحہ اور زیادہ نہ پڑھا اس کی نماز نہیں۔

عن أبي سعيد عن النبي صلى الله عليه وسلم قال : لا صلاة لمن لم يقرأ في كل ركعة بالحمد لله وسورة في الفريضة وغيرها. (مصنف ابن أبي شيبة)
ابی سعید رضی اللہ عنہ رسول اللہ ﷺ سے روایت کرتے ہیں کہ جس شخص نے ہر رکعت میں الحمد للہ اور سورہ نہ پڑھا فرض نماز اور غیر فرض نماز میں اس کی نماز نہیں۔

دو جلیل القدر صحابی رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا فرمانِ عالیشان ذکر فرما رہے ہیں کہ سورہ فاتحہ اور اس کے ساتھ زائد پڑھے بغیر نماز نہیں ہوتی اور ان میں ’’لمن‘‘ کے ساتھ ’’لا صلاۃ‘‘ بھی ہے۔
اس بارے میں آپ کیا ارشاد فرماتے ہیں؟؟؟؟ْ؟

سوره الأعراف کی اس آیت میں عمومی معنی تو یہ ہیں کہ جب قرآن کریم کی تلاوت کی جا رہی ہو اس وقت ہر انسان چاہے نماز میں ہو یا نماز سے باہر ہو- اسے کان لگا کر قرآن سننا ضروری ہے - لیکن سوره فاتحہ صرف قرآن نہیں بلکہ ایک جامع دعا ہے اور بار بار دہرائی جاتی ہے اس لئے احادیث نبوی میں مقتدی کے لئے بھی اس کی قرآت کو واجب قرار دیا گیا ہے-
محترم بات سمجھ نہیں آئی۔ کیا آپ کا مطلب ہے کہ یہ قرآن نہیں بلکہ دعاء ہے؟؟؟؟؟؟؟ جہاں جہاں امام قرآنی دعائیں پڑھے ان کا مقتدی پر بھی پڑھنا لازم ہے؟؟؟ وضاحت فرما دیجئے گا۔

افسوس کے ساتھ کہنا پڑتا ہی کہ احناف جس مسلے میں اپنے امام کو صحیح ثابت کرنے کے لئے قرآن کی جن آیات قرانی کا ڈھنڈھورا پیٹتے نظرآتے ہیں - حقیقت میں اکثر ان ہی آیات کے حکم کی خلاف ورزی کرتے بھی نظر آتے ہیں- فجر کی جماعت کھڑی ہوتی ہے ان کا امام قرآت کر رہا ہوتا ہے اور یہ اس قرآت کو سوره الأعراف کی آیت کے حکم (کہ جب قرآن پڑھا جائے تو اس کو غور سے سنو اور خاموش رہو) کے برخلاف اپنی سننتیں پڑھنے میں مشغول ہوتے ہیں ؟؟-
محترم تعصب کی عینک اتاریں اور اندھی تقلید چھوڑیں!!!!!!!!!!!!!
جناب مسجد سے متصل گھروں میں کیا خواتین، بچے اور بوڑھے اس وقت نماز پڑھ سکتے ہیں کہ نہیں؟؟؟؟؟؟؟؟؟؟؟
محترم جو مقتدی ہے اس کا کام ہی امام کی اقتدا ہے اور جو اپنی نماز میں مشغول ہے اس پر اقتدا کس طرح لازم ہوگی؟؟؟ یہ علیحدہ موضوع ہے کہ اس وقت کون کیا کرتا ہے اور کیا کرنا چاہیئے۔

آخر میں میں احناف یا احناف سے متاثر احباب سے پوچھنا چاہوں گا کہ جب آپ کے نزدیک یہ معامله اتنا گھمبیر ہو تو کہ اس سوره الأعراف کے حکم کے مطابق فاتحہ خلف الامام نہ پڑھنے کی صورت میں نبی کریم صل الله علیہ و آ لہ وسلم کا کیا ارشاد ہے - کیا اسے اپنی نماز لوٹانی پڑے گی یا سجدہ سہو کرنا پڑے گا وغیرہ ؟؟ کیوں کہ آپ احباب کے نزیک تو حکم یہی ہے کہ امام کی ہر طرح کی تلاوت کے وقت صرف قرآن سنا جائے اور خاموش رہا جائے؟؟؟
محترم! خلف الامام کی صورت میں نبی کریم صل الله علیہ و آ لہ وسلم کا ارشاد ہے؛
سنن ابنِ ماجہ: بَاب إِذَا قَرَأَ الْإِمَامُ فَأَنْصِتُوا
حَدَّثَنَا عَلِيُّ بْنُ مُحَمَّدٍ حَدَّثَنَا عُبَيْدُ اللَّهِ بْنُ مُوسَى عَنْ الْحَسَنِ بْنِ صَالِحٍ عَنْ جَابِرٍ عَنْ أَبِي الزُّبَيْرِ عَنْ جَابِرٍ قَالَ
قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ مَنْ كَانَ لَهُ إِمَامٌ فَقِرَاءَةُ الْإِمَامِ لَهُ قِرَاءَةٌ

جابر (رضی اللہ تعالیٰ عنہ) روایت کرتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ جس کسی کا امام ہو پس امام کی قراءت مقتدی کی قراءت ہے۔

حَدَّثَنَا أَسْوَدُ بْنُ عَامِرٍ أَخْبَرَنَا حَسَنُ بْنُ صَالِحٍ عَنْ جَابِرٍ عَنْ أَبِي الزُّبَيْرِ عَنْ جَابِرٍ عَنْ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ قَالَ مَنْ كَانَ لَهُ إِمَامٌ فَقِرَاءَتُهُ لَهُ قِرَاءَةٌ (احمد بَاقِي مُسْنَدِ الْمُكْثِرِينَمُسْنَدُ جَابِرِ بْنِ عَبْدِ اللَّهِ رَضِيَ اللَّهُ تَعَالَى عَنْهُ)
جابر (رضی اللہ تعالیٰ عنہ) نبی صلی اللہ علیہ وسلم سے روایت کرتے ہیں کہ (نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے) فرمایا کہ جس کسی کا امام ہو پس امام کی قراءت مقتدی کی قراءت ہے۔

سنن الترمذي كِتَاب الصَّلَاةِ بَاب مَا جَاءَ فِي تَرْكِ الْقِرَاءَةِ خَلْفَ الْإِمَامِ إِذَا جَهَرَ الْإِمَامُ بِالْقِرَاءَةِ
سَمِعَ جَابِرَ بْنَ عَبْدِ اللَّهِ يَقُولُ مَنْ صَلَّى رَكْعَةً لَمْ يَقْرَأْ فِيهَا بِأُمِّ الْقُرْآنِ فَلَمْ يُصَلِّ إِلَّا أَنْ يَكُونَ وَرَاءَ الْإِمَامِ
قَالَ أَبُو عِيسَى هَذَا حَدِيثٌ حَسَنٌ صَحِيحٌ

سنن الترمذى میں جابر بن عبداللہ رضی اللہ تعالی عنہ سے روایت ہے فرماتے ہیں جس نے نماز میں سورۃ فاتحہ نہ پڑھی اس نے نماز نہیں پڑھی مگر یہ کہ وہ امام کی اقتداء میں ہو ـ
ابو عیسیٰ رحمۃ اللہ علیہ فرماتے ہیں کہ یہ حدیث حسن صحیح ہے

مؤطا مالک: بَاب تَرْكِ الْقِرَاءَةِ خَلْفَ الْإِمَامِ فِيمَا جَهَرَ فِيهِ
حَدَّثَنِي يَحْيَى عَنْ مَالِك عَنْ نَافِعٍ أَنَّ عَبْدَ اللَّهِ بْنَ عُمَرَ
كَانَ إِذَا سُئِلَ هَلْ يَقْرَأُ أَحَدٌ خَلْفَ الْإِمَامِ قَالَ إِذَا صَلَّى أَحَدُكُمْ خَلْفَ الْإِمَامِ فَحَسْبُهُ قِرَاءَةُ الْإِمَامِ وَإِذَا صَلَّى وَحْدَهُ فَلْيَقْرَأْ
قَالَ وَكَانَ عَبْدُ اللَّهِ بْنُ عُمَرَ لَا يَقْرَأُ خَلْفَ الْإِمَامِ

عبد اللہ ابن عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے جب پوچھا جاتا کہ کیا امام کی اقتدا میں مقتدی پڑھے؟ تو عبد اللہ ابن عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ فرماتے کہ جب کوئی امام کی اقتدا میں نماز پڑھے تو اس کو امام کی قراءت کفایت کرتی ہے اور جب اکیلا پڑھے تو قراءت کرے۔
عبد اللہ ابن عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہامام کی اقتدا میں قراءت نہیں کرتے تھے۔
والسلام
 

عبدالرحمن بھٹی

مشہور رکن
شمولیت
ستمبر 13، 2015
پیغامات
2,435
ری ایکشن اسکور
292
پوائنٹ
165
عبد اللہ ابن عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہامام کی اقتدا میں قراءت نہیں کرتے تھے۔
تصحیح فرمالیں؛
عبد اللہ ابن عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ امام کی اقتدا میں قراءت نہیں کرتے تھے۔
 

عبدالرحمن بھٹی

مشہور رکن
شمولیت
ستمبر 13، 2015
پیغامات
2,435
ری ایکشن اسکور
292
پوائنٹ
165
السلام علیکم ورحمۃ اللہ
ایمان والوں کے لئے ایک ہی صحیح حدیث کافی ہیں - حیرت ہوتی ہے ان لوگوں پر جن کے سامنے صحیح حدیث آ جائے پھر بھی اس کو قبول نہ کرے وہ ضرور سوچے !
محترم ایمان والوں کے لئے ایک ہی صحیح حدیث کافی ہوتی ہے اور اہلِ حدیث کے لئے پورا قرآن اور صحاح ستہ بھی ناکافی ہیں۔ ان کو صرف ’’حدیثِ نفس‘‘ درکار ہوتی ہے جو انہیں ان کے بڑے دیتے ہیں اور یہ اندھے مقلد کی طرح ’’بلا دلیل‘‘ اسے قبول کر لیتے ہیں کسی قسم کی جرح نہیں کرتے اور نہ ہی روات حدیث کو دیکھتے ہیں۔
محترم میں نے کئی دفعہ یہی کہا ہے کہ عبادہ ابن صامت رضی اللہ تعالیٰ عنہ کے علاوہ اس مضمون کی حدیث کہ آقا علیہ السلام نے فرمایا ہو کہ مقتدی کی نماز بغیر فاتحہ کے نہیں ہوتی۔ مگر اس کے علاوہ کوئی حدیث پیش نہیں کی گئی۔ ملاحظہ فرمائیں؛
عبداللہ بن محمد، محمد بن سلمہ، محمد بن اسحاق ، مکحول محمود بن ربیع، حضرت عبادہ بن صامت رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے
ربیع بن سلیمان، عبداللہ بن یوسف، ہیثم، بن حمید، زید بن واقد، حضرت نافع بن محمود بن ربیع انصاری سے روایت ہے کہ عبادہ بن صامت رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے نماز فجر کے واسطے نکلنے میں تاخیر کی تو ابونعیم نے تکبیر کہہ کر نماز پڑھانا شروع کر دی۔ اتنے میں عبادہ بھی آگئے۔ میں بھی ان کے ساتھ تھا۔ اور ہم نے ابونعیم کے پیچھے صف باندھ
علی بن سہل، ولید بن جابر سعید بن عبدالعزیز، عبداللہ بن علاء، حضرت مکحول نے حضرت عبادہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ
ہشام بن عمار، صدقة، زید بن واقد، حرام بن حکیم، نافع بن محمود بن ربیعة، عبادة بن صامت رضی اللہ تعالیٰ عنہ
حضرت عبادہ بن صامت رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ ایک مرتبہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے ہمیں نماز
حضرت عبادہ بن صامت رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ ایک مرتبہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے ہمیں نماز
باقی آپ نے جو یہ فرمایا کہ؛
ایمان والوں کے لئے ایک ہی صحیح حدیث کافی ہیں -
جی ایمان والوں کے لئے واقعی ایک ہی حدیث کافی ہوتی ہے اگر اس سے متصادم کوئی دوسری حدیث نہ ہو تب۔ مگر ’’اہلِ حدیث‘‘ کو ذخیرہ حدیث میں سے صرف ایک حدیث پسند ہوتی ہے باقیوں کو رد کرنے کے لئے تاویلات کی ایک لمبی لسٹ موجود ہوتی ہے۔
والسلام
 
Top