• الحمدللہ محدث فورم کو نئےسافٹ ویئر زین فورو 2.1.7 پر کامیابی سے منتقل کر لیا گیا ہے۔ شکایات و مسائل درج کروانے کے لئے یہاں کلک کریں۔
  • آئیے! مجلس التحقیق الاسلامی کے زیر اہتمام جاری عظیم الشان دعوتی واصلاحی ویب سائٹس کے ساتھ ماہانہ تعاون کریں اور انٹر نیٹ کے میدان میں اسلام کے عالمگیر پیغام کو عام کرنے میں محدث ٹیم کے دست وبازو بنیں ۔تفصیلات جاننے کے لئے یہاں کلک کریں۔

ہمارا انتخاب مدرسہ ہی کیوں؟

کلیم حیدر

ناظم خاص
رکن انتظامیہ
شمولیت
فروری 14، 2011
پیغامات
9,748
ری ایکشن اسکور
26,379
پوائنٹ
995
ہمارا انتخاب مدرسہ ہی کیوں؟

محمد حسین​
اسلام ہی ایک ایسا مکمل ضابطۂ حیات ہے جس کی ماتحتی میں زندگی کا ہرشعبہ اپنی تمام تر خصوصیات کے ساتھ صحیح طور پر پرورش پاسکتا ہے۔ اسلام نے انسان کی انفرادی اور اجتماعی زندگی میں نہ صرف راہنمائی کی ہے بلکہ اسے عروج پر پہنچانے کے لئے بھی راہ ہموار کی ہے اور باقی تمام اَدیان کی نسبت صرف اسلام ہی ایک ایسا دین ہے جو عقلِ سلیم اور فطرتِسلیمہ کے مطابق ہے، جس کا اعتراف اسلام دشمن مستشرقین بھی کرچکے ہیں۔
آج ہم مختلف مسائل میں گھرے ہوئے ہیں اور ہر آدمی اپنی جگہ پریشان اور غیر مطمئن زندگی گزار رہا ہے۔ اس پریشانی اور غیر مطمئن زندگی کی اصل وجہ ہماری دین سے دوری ہے۔جب سے ہم نے اسلامی تعلیم کواپنی زندگیوں سے نکالا ہے اس وقت سے ہم ذلیل و خوار ہورہے ہیں۔بقول شاعر ؎
وہ معزز تھے زمانے میں مسلمان ہو کر
ہم خوار ہوئے تارکِ قرآن ہو کر
اگر آج ہم یہ چاہتے ہیں کہ ہم مطمئن زندگی گزاریں اور ہماری اَولاد ہماری فرماں بردار ہو، ہر طرف اَمن و امان کا چرچا ہو، عزت ووقار دوبارہ حاصل ہو، ہماری معیشت اور معاشرت ترقی کرے، ہمیں سکون اور چین نصیب ہو، ہم دنیا پر غالب آجائیں تو اس کے لئے ضروری ہے کہ ہم غیر مسلموں کی غلامی کا طوق گلے سے اُتار پھینکیں اور :
{لَقَدْ کَانَ لَکُمْ فِیْ رَسُوْلِ اﷲِ اُسْوَۃٌ حَسَنَة} [الأحزاب :۲۱]
’’تحقیق تمہارے لئے رسول اکرمﷺکی زندگی بہترین نمونہ ہے۔‘‘
پر عمل کرتے ہوئے اسلام کے بتائے ہوئے اُصولوں کے مطابق اپنی زندگیوں کو ڈھال لیں اور رسول اکرمﷺ کے مشن کو اپنا کر اس کے مطابق لوگوں کی بھی راہنمائی کریں، اسی میں ہی ہماری کامیابی و کامرانی کا راز پنہاں ہے۔
آج اس مادہ پرستی کے دور میں بھی کہ جب دولت کی ہوس اور دنیا کی محبت نے انسان کو اسلام سے دور کردیا ہے، ایک ایسا گروہ موجود ہے جو صرف اور صرف قرآن وسنت کو تھامے ہوئے نظر آتاہے۔ اس کے اقوال و اعمال سے اسوۂ رسولﷺ کی خوشبو آتی ہے اور وہ اپنے کردار کو نبی کریمﷺ اور آپ کے صحابہ رض کے کردار کے مطابق بنانے میں دن رات مشغول ہے۔ جب لوگ دنیا کی خاطر اپنے گھر بار چھوڑ رہے ہوتے ہیں تو وہ قرآن وحدیث کاعلم سیکھنے کے لئے گھروں سے نکلتاہے۔ آسائشات دنیا کو ترک کرکے اپنے اسلاف کے نقش قدم پر چلتے ہوئے اسلام کی سربلندی کے لئے اپنی توانائیاں صرف کر رہا ہے۔ یہ گروہ مدارس میں پڑھنے ،پڑھانے والوں کا گروہ ہے جنہوں نے دنیا اور اس کی زیب و زینت کو پس پشت ڈال کر صرف اور صرف قرآن و حدیث کے علوم پڑھنے کو ترجیح دی ہے۔
میری اس تمہید کا مقصد یہ واضح کرنا ہے کہ دینی جامعات میں داخلہ کی اہمیت و ضرورت کیاہے؟ اور کیا ہماری پہلی ترجیح دینی جامعات ہی ہونے چاہئیں؟ کیا یہ ہمارے معاشرے میں ریڑھ کی ہڈی کی حیثیت رکھتے ہیں؟ کیا صحیح اور حقیقی علم کے وارث یہی ہیں؟ کیا صحیح راہنمائی کے اہل یہی لوگ ہیں؟ کیا ہمارے مسائل کا صحیح حل انہی کے پاس ہے؟
ان تمام سوالات کا جواب ’ہاں‘ میں ہوگا کیونکہ آپﷺ کی حدیث مبارکہ ہے:
’’ اَلْعُلَمَائُ وَرَثة الأنْبِیَائِ‘‘ [سنن أبوداود:۳۶۴۱]
’’ علماء انبیاء کے وارث ہیں۔‘‘
دینی مدارس ہر دور میں معاشرے کا ایک جزوِلاینفک رہے ہیں اور ان کی اہمیت و ضرورت بہت زیادہ رہی ہے، لیکن آج کے دور میں ان کی ضرورت و اہمیت اور زیادہ ہوگئی ہے،کیونکہ آج ذلت ورسوائی مسلمانوں کا مقدر بن چکی ہے ۔فلسطین،بوسنیا، افغانستان، عراق، چیچنیا اور اُن کے علاوہ جہاں جہاں بھی مسلمان رہ رہے ہیں وہ کسی نہ کسی صورت میں غلامی اور ذلت کی زندگی گزار رہے ہیں اور غیر مسلموں کے چنگل میں ایسے پھنسے ہیں کہ چا ہنے کے باوجود نہیں نکل سکتے۔ مسلمانوں کے پاس وسائل کا بے پناہ ذخیرہ ہے اس کے باوجود امریکہ کی غلامی میں عافیت سمجھی جاتی ہے اور اسے اپنا آقا ومالک سمجھ کر اس کے تلوؤں میں زندگی گزارنے کو اپنے لئے قابل فخر سمجھا جاتا ہے۔ ان کی سرداری کے خلاف اور اسلام کے صحیح راستے کے مطابق اگرہمیں کہیں سے راہنمائی مل سکتی ہے تو وہ مدارس دینیہ ہیں جو ہمیں ان کی غلامی سے نکال کر ایک خالق ومالک کی غلامی میں داخل کرسکتے ہیں اوریہی حقیقی کامیابی و کامرانی ہے۔
اس دور میں جب ہمارے حکمران اپنے آپ کو امریکہ کا غلام بنانے میں فخرمحسوس کرتے ہیں، عوام کے لئے اور زیادہ ضروری ہوگیا ہے کہ ان کے نظریات کی مخالفت کرتے ہوئے اپنے بچوں کو صحیح اسلامی نہج پر چلانے اور دین و دنیا کی کامیابی کے لئے اسلامی تعلیمات سے روشناس کروائیں تاکہ وہ دین حق کو سمجھیں اور اس کے راستے پر چلتے ہوئے مستقبل میں نہ صرف ایک اچھے داعی مبلغ بنیں بلکہ لوگوں کی راہنمائی کافریضہ بھی احسن طریقے سے ادا کریں۔
علاوہ ازیں آج کے دور میں معاشی مسئلہ کو بہت زیادہ اہمیت حاصل ہے اور اکثر لوگوں کاخیال ہے کہ اگر ہمارے بچے سکول کی تعلیم حاصل کریں گے تو زیادہ بہتر طریقے سے روزی کما سکیں گے اور معاشرے میں ان کو زیادہ قدر کی نگاہ سے دیکھاجائے گا، لیکن اللہ تعالیٰ کا فرمان کچھ اس طرح ہے:
{وَمَا مِنْ دَآبَّة فِیْ الاَرْضِ إلَّا عَلَی اﷲِ رِزْقُھَا} [ہود :۶]
’’اور زمین پر کوئی چلنے پھرنے والا نہیں مگر اس کا رزق اللہ کے ذمے ہے۔‘‘
اور حدیث نبویﷺہے:
" ثُمَّ یَقُوْلُ یَا رَبِّ مَا رِزْقُہُ، مَا اَجَلُہُ، مَا خُلُقُہُ، ثُمَّ یَجْعَلُہُ اﷲُ شَقِیًّا أوْ سَعِیْدًا"[صحیح مسلم: :۲۶۴۵]
’’پھر فرشتہ کہتا ہے اس کا رزق کتنا ہے۔ اس نے کب مرنا ہے اور اس کا اخلاق کیسا ہے پھر اللہ اسے نیک یا بدبخت بنادیتاہے۔‘‘ (یعنی پیدا ہونے سے پہلے ہی سب کچھ لکھ دیا جاتاہے)‘‘
 

کلیم حیدر

ناظم خاص
رکن انتظامیہ
شمولیت
فروری 14، 2011
پیغامات
9,748
ری ایکشن اسکور
26,379
پوائنٹ
995
ان کے علاوہ اور بھی بہت سی آیات اور احادیث اس چیز پردلالت کرتی ہیں کہ انسان کو صرف وہی ملتا ہے جو تقدیر میں اس کے لئے لکھ دیا جاتاہے۔ لہٰذا اس کے لئے پریشان ہونا اور صرف اسی کے حصول میں زندگی گزار دینا عبث معلوم ہوتا ہے۔علاوہ ازیں یہ بھی دیکھنے میں آیاہے کہ سکولوں، کالجوں سے فارع ہونے والے طلباء بہ نسبت مدارس کے زیادہ بے روزگار ہوتے ہیں جب کہ ان کے مقابلہ میں جو طلبہ مدارس سے فارغ التحصیل ہوتے ہیں جلد ہی ان کواپنی اپنی قابلیت کے مطابق مناسب جگہ مل جاتی ہے۔ ایک خاص بات جو دوسروں سے ان طلباء کو ممتاز کرتی ہے یہ ہے کہ یہی لوگ عوام الناس کی ہرشعبہ زندگی میں رہنمائی کرتے ہیں۔جب کہ سکولوں، کالجوں سے فارغ ہونے والے طلبہ نوکریوں کی تلاش میںسرگرداں رہنے کے بعد جب کوئی سرکاری ملازمت حاصل کرتے ہیں تو اس کو اپنی کامیابی سمجھتے ہیں ۔حالانکہ ملازمت کے بعد گورنمنٹ کی ہر غلط صحیح پالیسی کو ماننا ان کے لئے ضروری ہوجاتا ہے۔ اس طرح سے ان کے ضمیر کی آواز دب کر رہ جاتی ہے اور ایک کام کو نہ چاہتے ہوئے بھی انہیں کرنا پڑتاہے۔ اس کی مثالیں ہمیں صرف پاکستان میں بہت زیادہ مل سکتی ہیں جن میں سے ایک واضح مثال لال مسجد اورجامعہ حفصہ کے خلاف فوج اور پولیس کا ایکشن ہے۔ یوں یہ لوگ نہ صرف معاشرے میں اپنا وقار کھو بیٹھتے ہیں بلکہ الٹا معاشرے کے لئے دردسر بن جاتے ہیں اور ان پر لاکھوں کروڑوں رپے خرچ ہونے کے باوجود بھی نہ تو وہ ملک کو خاطر خواہ فائدہ پہنچاتے ہیں اورنہ ہی عوام ان سے راضی ہوتے ہے۔
انسان کی انفرادی زندگی میں اَخلاقیات کوبہت زیادہ عمل دخل ہے اس میدان میں بھی دینی مدارس سب سے آگے نظر آتے ہیں اوربچوں کے اَخلاقیات کو سنوارنے کے لئے دینی مدارس اَہم کردار ادا کررہے ہیں۔ دینی مدارس سے فارغ طلبہ عمدہ اخلاق کا پیکر ہوتے ہیں، کیونکہ ان کے سامنے نبی کریم1 کا یہ فرمان ہوتا ہے کہ
" إِنَّمَا بُعِثْتُ لاُتَمِّمَ مَکَارِمَ الاَخْلَاقِ" [سنن الکبری للبیہقی: ۱۰؍۱۹۱]
’’تحقیق میں اعلیٰ اخلاق کی تکمیل کے لئے مبعوث کیا گیا ہوں۔‘‘
اَمن کے حوالے سے بھی دینی مدارس بچوں کی اس نہج پر تربیت کرتے ہیں کہ جس سے معاشرے کا امن و اَمان بحال رہتا ہے۔ انھیں بتایا جاتا ہے کہ تشدد اور دہشت گردی کی اسلام میں ہرگز گنجائش نہیں ہے اور اگر کوئی اس قسم کی سرگرمی میں ملوث ہو توہوسکتا ہے کہ وہ دنیا کی سزا سے بچ جائے، لیکن قیامت کے دن قائم ہونے والی اللہ کی عدالت میں انھیں ضرور جواب دہ ہونا ہے کہ جس دن نہ رشوت کام آسکے گی اور نہ ہی کوئی سفارش۔ ہرایک کو اس کاپورا پورا بدلہ ملنا ہے اور اس دن:
{فَمَنْ یَّعْمَلْ مِثْقَالَ ذَرَّۃٍ شَرًّایَّرَہٗ} [ الزلزال:۸]
’’جس نے ایک ذرہ برابر بھی بُرائی کی وہ اسے پالے گا۔‘‘
کے تحت ہرایک کو اپنے کئے کی سزا ملنی ہے اورچونکہ یہ طلبہ ان مسائل کو قرآن و حدیث میںدن، رات پڑھتے رہتے ہیں اس لئے ان کااس پرمکمل یقین ہوتاہے اور اسی یقین کے ساتھ کہ ہم نے اللہ کے سامنے ایک دن ہر عمل کا جواب دینا ہے، وہ غلط قسم کی سرگرمیوں میںملوث نہیں ہوتے۔
دورِ جدید میں میڈیا اَہم کردار اداکررہا ہے اور اس کے اثرات بالواسطہ یا بلاواسطہ ہر آدمی تک پہنچ رہے ہیں اور ہر آدمی ان کے اثرات قبول بھی کررہا ہے ۔بلکہ جو بات میڈیا پر آجاتی ہے اس کو ہی عام طور پر صحیح اور سچ تسلیم کیا جاتا ہے اور بطورِ دلیل اسے پیش بھی کیا جاتا ہے۔ جہاں بعض ٹی وی چینلـزاور رسائل وجرائد خالص قرآن و سنت کی تبلیغ و اشاعت میں دن رات مصروف عمل ہیں وہاں کچھ ایسے چینلجز اور رسائل و اخبارات بھی ہیں جو اسلامی تعلیمات کو غلط رنگ دے رہے ہیں ۔ حکمرانوں کی خوشنودی یا دنیاوی اَغراض کے لئے اسلام اور اسلامی تعلیمات کو غلط انداز میں پیش کررہے ہیں اور ان کی ہر وقت یہ کوشش ہوتی ہے کہ کسی طریقے سے اسلام میں خامیاں نکالنے میں کامیاب ہوجائیں۔ تاکہ یہ باور کرایا جاسکے کہ (نعوذ باللہ) اسلام ایک نامکمل دین ہے اور ہماری ہر معاملہ میں راہنمائی نہیں کر سکتا۔
بعض لوگوں نے مخصوص افراد کو ہی دین سمجھ رکھا ہے۔ خصوصا جو لوگ میڈیا پر زیادہ آتے ہیں ان کی ہر بات کو بلا دلیل و حجت تسلیم کر لیا جاتا ہے ۔ان کا خیال یہ ہوتا ہے کہ ٹی وی پر آنے والا ہر شخص بہت بڑا عالم ہے اور یہ کبھی غلط بات نہیں کر سکتا ۔جب کہ ہوتا یہ ہے کہ وہ سوچی سمجھی سازش کے تحت لوگوں کو دین سے دور کر رہے ہوتے ہیںاور غیر مسلموں کے افکار و نظریات کو فروغ دے رہے ہوتے ہیں۔ ان تمام باتوں سے نمٹنے کے لئے بھی مدارس میں ایسی تعلیم دی جاتی ہے کہ جس سے طلبہ کو یہ بات ذہن نشین کرائی جاتی ہے کہ دین کسی ایک فرد کی بات کا نام نہیںبلکہ امام مالک رحمہ اللہ کے فرمان کے مطابق کہ:
’’إنما انا بشر أخطئ وأصیب فانظرونی رأیی فکلما وافق الکتاب والسنة فخذوہ وکلما لم یوافق فاترکوہ‘‘ [جلب المنفعۃ،ص۶۸]
’’میں تو انسان ہوں صواب اور خطا دونوں کو پہنچتا ہوں، آپ میری رائے میں دیکھا کریں جو بات قرآن و حدیث کے موافق ہو اس کو لے لیں اور جو خلاف ہو اسے چھوڑ دیں۔‘‘
اور مزید فرمایا:
’’مامن أحد إلا یؤخذ من قولہ ویرد إلا قول صاحب ھذا القبر‘‘ [تفسیر ابن کثیر:۱؍۵۴، سلسلۃ الصحیحۃ للألبانی تحت رقم:۵۲۰]
’’کسی بھی (فقیہ یا عالم) کا قول قبول بھی کیا جاسکتا ہے اور رد بھی سوائے اس قبر والے کے۔‘‘(یعنی محمدﷺ)
لہٰذا دینی مدارس خصوصا اہلحدیث مدارس کا نصاب تعلیم ایسی خصوصیات کا حامل ہے کہ جس میں شخصی تقلید کے بجائے یہ بتایا جاتا ہے کہ کسی کے قول کے صحیح یا غلط ہونے کے لئے معیار اورپیمانہ صرف اور صرف کتاب و سنت ہے۔ جس کی بات کتاب وسنت کے موافق ہوگی اس کو قبول کرلیا جائے گااورجس کی بات کتاب وسنت کے خلاف ہو اس کو چھوڑ دینا واجب ہے۔اسی طرح دورِجدید میں اِسلام مخالف قوتیں کون کون سے طریقے استعمال کر رہے ہیں ان سے بھی طلبہ کوآگاہ کیا جاتا ہے۔
ہماری نوجوان نسل کے بگڑنے کا ایک بہت بڑا سبب تربیت کافقدان ہے چونکہ عام طور پر ہماری نوجوان نسل کی تربیت صحیح طریقے اور صحیح منہج پرنہیں ہوپاتی اس لئے وہ غیر ضروری سرگرمیوں میں حصہ لیتے ہیں اور اپنے اصل مقصد اور ہدف کو بھول جاتے ہیں۔ جس کی وجہ سے وہ معاشرے پر نہ صرف بوجھ بن جاتے ہیں بلکہ بعض اوقات ملک اورمعاشرے کے لئے سنگین مسائل بھی پیدا کرتے ہیں۔ لہٰذا ضروری ہے کہ نوجوان نسل کی صحیح طریقے سے تربیت ہو تاکہ وہ اپنے اور ملک و قوم کے لئے سود مند زندگی گزارنے کے قابل ہوسکیں۔
مدارس دینیہ کا معاشرے میں اس حیثیت سے بھی اہم کردار ہے کہ وہ اپنے طلبہ کی قرآن وسنت کے مطابق تربیت کرتے ہیں۔ جس سے طلباء معاشرے میںقابل فخرفرد کی حیثیت سے سامنے آتے ہیں۔ جس سے معاشرہ ترقی بھی کرتا ہے اور اس کا امن و اَمان بھی بحال رہتا ہے۔
اَخلاقیات کے باب میں بھی مد ارس دینیہ قا بل قدر خدمات سر انجا م دے رہے ہیں تاکہ فارغ التحصیل ہونے کے بعد طلباء لوگوں کے لئے بہترین نمونہ بن سکیں ۔اس سلسلے میں بچوں کے والدین سے مسلسل رابط رکھا جاتا ہے تاکہ بچوں کے صحیح اور غلط ہرقسم کے رویے سے والدین بروقت آگاہ رہیں۔ چونکہ مدارس کانظام تعلیم اعلیٰ ہے ان لئے اس کے مقاصد بھی ایسے عظیم ہیں جو انسان کے لئے دنیوی و اُخروی کامیابی کے ضامن ہیں۔ طالب علموں کو امن و سلامتی اوراسلامی طرزِزندگی کاعلمبردار بنایا جاتاہے۔حقوق و فرائض سے آگاہی اور عاجزی و انکساری ان میںراسخ ہوتی ہے۔ جس سے وہ اعلیٰ کردار کے مالک بن جاتے ہیں اور پکے و سچے مومن کی طرح وہ زندگی گزارتے ہیں۔ یہی چیز والدین کے لئے آخرت میں ذخیرہ بن جاتی ہے۔
 
Top