- شمولیت
- فروری 14، 2011
- پیغامات
- 9,748
- ری ایکشن اسکور
- 26,379
- پوائنٹ
- 995
ہمارا انتخاب مدرسہ ہی کیوں؟
محمد حسین
اسلام ہی ایک ایسا مکمل ضابطۂ حیات ہے جس کی ماتحتی میں زندگی کا ہرشعبہ اپنی تمام تر خصوصیات کے ساتھ صحیح طور پر پرورش پاسکتا ہے۔ اسلام نے انسان کی انفرادی اور اجتماعی زندگی میں نہ صرف راہنمائی کی ہے بلکہ اسے عروج پر پہنچانے کے لئے بھی راہ ہموار کی ہے اور باقی تمام اَدیان کی نسبت صرف اسلام ہی ایک ایسا دین ہے جو عقلِ سلیم اور فطرتِسلیمہ کے مطابق ہے، جس کا اعتراف اسلام دشمن مستشرقین بھی کرچکے ہیں۔آج ہم مختلف مسائل میں گھرے ہوئے ہیں اور ہر آدمی اپنی جگہ پریشان اور غیر مطمئن زندگی گزار رہا ہے۔ اس پریشانی اور غیر مطمئن زندگی کی اصل وجہ ہماری دین سے دوری ہے۔جب سے ہم نے اسلامی تعلیم کواپنی زندگیوں سے نکالا ہے اس وقت سے ہم ذلیل و خوار ہورہے ہیں۔بقول شاعر ؎
وہ معزز تھے زمانے میں مسلمان ہو کر
ہم خوار ہوئے تارکِ قرآن ہو کر
اگر آج ہم یہ چاہتے ہیں کہ ہم مطمئن زندگی گزاریں اور ہماری اَولاد ہماری فرماں بردار ہو، ہر طرف اَمن و امان کا چرچا ہو، عزت ووقار دوبارہ حاصل ہو، ہماری معیشت اور معاشرت ترقی کرے، ہمیں سکون اور چین نصیب ہو، ہم دنیا پر غالب آجائیں تو اس کے لئے ضروری ہے کہ ہم غیر مسلموں کی غلامی کا طوق گلے سے اُتار پھینکیں اور :ہم خوار ہوئے تارکِ قرآن ہو کر
پر عمل کرتے ہوئے اسلام کے بتائے ہوئے اُصولوں کے مطابق اپنی زندگیوں کو ڈھال لیں اور رسول اکرمﷺ کے مشن کو اپنا کر اس کے مطابق لوگوں کی بھی راہنمائی کریں، اسی میں ہی ہماری کامیابی و کامرانی کا راز پنہاں ہے۔{لَقَدْ کَانَ لَکُمْ فِیْ رَسُوْلِ اﷲِ اُسْوَۃٌ حَسَنَة} [الأحزاب :۲۱]
’’تحقیق تمہارے لئے رسول اکرمﷺکی زندگی بہترین نمونہ ہے۔‘‘
میری اس تمہید کا مقصد یہ واضح کرنا ہے کہ دینی جامعات میں داخلہ کی اہمیت و ضرورت کیاہے؟ اور کیا ہماری پہلی ترجیح دینی جامعات ہی ہونے چاہئیں؟ کیا یہ ہمارے معاشرے میں ریڑھ کی ہڈی کی حیثیت رکھتے ہیں؟ کیا صحیح اور حقیقی علم کے وارث یہی ہیں؟ کیا صحیح راہنمائی کے اہل یہی لوگ ہیں؟ کیا ہمارے مسائل کا صحیح حل انہی کے پاس ہے؟آج اس مادہ پرستی کے دور میں بھی کہ جب دولت کی ہوس اور دنیا کی محبت نے انسان کو اسلام سے دور کردیا ہے، ایک ایسا گروہ موجود ہے جو صرف اور صرف قرآن وسنت کو تھامے ہوئے نظر آتاہے۔ اس کے اقوال و اعمال سے اسوۂ رسولﷺ کی خوشبو آتی ہے اور وہ اپنے کردار کو نبی کریمﷺ اور آپ کے صحابہ رض کے کردار کے مطابق بنانے میں دن رات مشغول ہے۔ جب لوگ دنیا کی خاطر اپنے گھر بار چھوڑ رہے ہوتے ہیں تو وہ قرآن وحدیث کاعلم سیکھنے کے لئے گھروں سے نکلتاہے۔ آسائشات دنیا کو ترک کرکے اپنے اسلاف کے نقش قدم پر چلتے ہوئے اسلام کی سربلندی کے لئے اپنی توانائیاں صرف کر رہا ہے۔ یہ گروہ مدارس میں پڑھنے ،پڑھانے والوں کا گروہ ہے جنہوں نے دنیا اور اس کی زیب و زینت کو پس پشت ڈال کر صرف اور صرف قرآن و حدیث کے علوم پڑھنے کو ترجیح دی ہے۔
ان تمام سوالات کا جواب ’ہاں‘ میں ہوگا کیونکہ آپﷺ کی حدیث مبارکہ ہے:
دینی مدارس ہر دور میں معاشرے کا ایک جزوِلاینفک رہے ہیں اور ان کی اہمیت و ضرورت بہت زیادہ رہی ہے، لیکن آج کے دور میں ان کی ضرورت و اہمیت اور زیادہ ہوگئی ہے،کیونکہ آج ذلت ورسوائی مسلمانوں کا مقدر بن چکی ہے ۔فلسطین،بوسنیا، افغانستان، عراق، چیچنیا اور اُن کے علاوہ جہاں جہاں بھی مسلمان رہ رہے ہیں وہ کسی نہ کسی صورت میں غلامی اور ذلت کی زندگی گزار رہے ہیں اور غیر مسلموں کے چنگل میں ایسے پھنسے ہیں کہ چا ہنے کے باوجود نہیں نکل سکتے۔ مسلمانوں کے پاس وسائل کا بے پناہ ذخیرہ ہے اس کے باوجود امریکہ کی غلامی میں عافیت سمجھی جاتی ہے اور اسے اپنا آقا ومالک سمجھ کر اس کے تلوؤں میں زندگی گزارنے کو اپنے لئے قابل فخر سمجھا جاتا ہے۔ ان کی سرداری کے خلاف اور اسلام کے صحیح راستے کے مطابق اگرہمیں کہیں سے راہنمائی مل سکتی ہے تو وہ مدارس دینیہ ہیں جو ہمیں ان کی غلامی سے نکال کر ایک خالق ومالک کی غلامی میں داخل کرسکتے ہیں اوریہی حقیقی کامیابی و کامرانی ہے۔’’ اَلْعُلَمَائُ وَرَثة الأنْبِیَائِ‘‘ [سنن أبوداود:۳۶۴۱]
’’ علماء انبیاء کے وارث ہیں۔‘‘
علاوہ ازیں آج کے دور میں معاشی مسئلہ کو بہت زیادہ اہمیت حاصل ہے اور اکثر لوگوں کاخیال ہے کہ اگر ہمارے بچے سکول کی تعلیم حاصل کریں گے تو زیادہ بہتر طریقے سے روزی کما سکیں گے اور معاشرے میں ان کو زیادہ قدر کی نگاہ سے دیکھاجائے گا، لیکن اللہ تعالیٰ کا فرمان کچھ اس طرح ہے:اس دور میں جب ہمارے حکمران اپنے آپ کو امریکہ کا غلام بنانے میں فخرمحسوس کرتے ہیں، عوام کے لئے اور زیادہ ضروری ہوگیا ہے کہ ان کے نظریات کی مخالفت کرتے ہوئے اپنے بچوں کو صحیح اسلامی نہج پر چلانے اور دین و دنیا کی کامیابی کے لئے اسلامی تعلیمات سے روشناس کروائیں تاکہ وہ دین حق کو سمجھیں اور اس کے راستے پر چلتے ہوئے مستقبل میں نہ صرف ایک اچھے داعی مبلغ بنیں بلکہ لوگوں کی راہنمائی کافریضہ بھی احسن طریقے سے ادا کریں۔
اور حدیث نبویﷺہے:{وَمَا مِنْ دَآبَّة فِیْ الاَرْضِ إلَّا عَلَی اﷲِ رِزْقُھَا} [ہود :۶]
’’اور زمین پر کوئی چلنے پھرنے والا نہیں مگر اس کا رزق اللہ کے ذمے ہے۔‘‘
" ثُمَّ یَقُوْلُ یَا رَبِّ مَا رِزْقُہُ، مَا اَجَلُہُ، مَا خُلُقُہُ، ثُمَّ یَجْعَلُہُ اﷲُ شَقِیًّا أوْ سَعِیْدًا"[صحیح مسلم: :۲۶۴۵]
’’پھر فرشتہ کہتا ہے اس کا رزق کتنا ہے۔ اس نے کب مرنا ہے اور اس کا اخلاق کیسا ہے پھر اللہ اسے نیک یا بدبخت بنادیتاہے۔‘‘ (یعنی پیدا ہونے سے پہلے ہی سب کچھ لکھ دیا جاتاہے)‘‘