• الحمدللہ محدث فورم کو نئےسافٹ ویئر زین فورو 2.1.7 پر کامیابی سے منتقل کر لیا گیا ہے۔ شکایات و مسائل درج کروانے کے لئے یہاں کلک کریں۔
  • آئیے! مجلس التحقیق الاسلامی کے زیر اہتمام جاری عظیم الشان دعوتی واصلاحی ویب سائٹس کے ساتھ ماہانہ تعاون کریں اور انٹر نیٹ کے میدان میں اسلام کے عالمگیر پیغام کو عام کرنے میں محدث ٹیم کے دست وبازو بنیں ۔تفصیلات جاننے کے لئے یہاں کلک کریں۔

ہمارے تعلیمی ادارے کا طرز عمل اور لمحہ فکریہ! (ظفر اقبال ظفر)

ظفر اقبال

مشہور رکن
شمولیت
جنوری 22، 2015
پیغامات
281
ری ایکشن اسکور
21
پوائنٹ
104
ظفر اقبال ظفر)
ہمارے تعلیمی ادارے کا طرز عمل اور لمحہ فکریہ!
اقبال نے کہا تھا: یورپ کی تہذیب پہ رضامند ہوا تو....مجھے تو گلہ تجھ سے ہے یورپ سے نہیں ۔
جناب عالی !ایک طاقت ور تہذیب اور قوم جب ایک کمزور تہذیب اور قوم پر غلبہ پا لیتی ہے تو وہ محض ملک اور علاقے فتح نہیں کرتی بلکہ دل و دماغ بھی فتح کرتی ہے اور اپنی فتح اور غلبے کے استحکام اور استمرار کے لئے اس امر کی کوشش اور پلاننگ کرتی ہے کہ مغلوب تہذیب اور قوم کے دل و دماغ ہمیشہ مفتوح رہیں۔ وہ اس کی فکر اور تہذیب کو برتر سمجھیں، اس کے رسیا بن جائیں، اس کی پیروی کرنے لگیں اور اپنی فکر کو حقیر، کمتر اور ناقص سمجھیں اور اس پر عمل کی خواہش و کوشش نہ کریں۔ غالب تہذیب اور قوم فکری سطح پر یہ منہج اس لئے اختیار کرتی ہے تاکہ وہ مغلوب قوم پر اپنا سیاسی تسلط جاری رکھ سکے اور اس کا معاشی استحصال کرتی رہے۔
یہی کچھ مغربی اقوام نے مسلم ممالک کے ساتھ کیا۔ مسلم معاشرہ جب کمزور ہو گیا اور مغربی اقوام نے طاقت پکڑی تو انیسویں اور بیسویں صدی میں مغربی قوموں نے مسلم ممالک پر قبضہ کر لیا اور پھر ساتھ ہی ان کے دل و دماغ کو فتح کرنے کی کوششیں شروع کر دیں۔ انہوں نے مسلمانوں کا نظام تعلیم ختم کر کے مغربی نظام تعلیم رائج کیا، نصاب بدلا، ذریعہ تعلیم بدلا، تعلیمی اداروں کا ماحول بدلا، تربیت کا انداز بدلا اور لارڈ میکالے کی وضع کردہ پالیسی کے مطابق ایسے مسلمان پیدا کرنے شروع کئے جو نام کے تو مسلمان ہوں لیکن فکری و عملی لحاظ سے مغربی تہذیب کے رسیا اور پیرو کار ہوں۔ 1857ء میں انگریزوں کی مزاحمت کی آخری بڑی کوشش کی ناکامی کے بعد خودبعض مسلمانوں نے (سرسید احمد خاں کی سربراہی میں) ایسے تعلیمی ادارے قائم کرنا شروع کر دیے جنہوں نے عملا لارڈ میکالے کی مذکورہ پالیسی پر عمل کرتے ہوئے اسے آگے بڑھایا اور آج "اسلامیہ جمہوریہ پاکستان" میں سارے سکول، کالج اور یونیورسٹیاں علی گڑھ کے اسی ماڈل کے مطابق کام کر رہی ہیں اور دوسری طرف دینی مدارس ایسے علماء پیدا کرتے چلے آ رہے ہیں جو محض مسجد و مدرسے تک محدود ہیں اور معاشرے کے نظام کو چلانے میں جن کا کوئی کردار نہیں ہے۔
 
Top